رنگ برنگی جھلّیاں، شیشے کے ٹکڑوں یا مختلف رنگوں کے چشموں سے بچپن میں ہم سبھی نے کھیلا ہوگا۔ ہرے رنگ کی جھلّی اُوڑھ لی جائے تو ہرا ہی سجھائی دیتا ہے۔ لال رنگ کا چشمہ پہننے والے کے لیے آسمان سے لے کر زمین تک سب کچھ لالہ زار ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح نظریات کو مختلف رنگوں کے چشموں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چشمے آنکھوں پرپہنے جاتے ہیں اور نظریات کی عینک دل اور دماغ پرلگی ہوتی ہے۔ چشمے آسانی سے اُتارے اور دوبارہ پہنے جاسکتے ہیں، مگر نظریات کی عینک کو اُتار دینا ناممکن یا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چشمہ پہننے والا، اگر چچا چھکن نہیں ہے، تو جانتا ہے کہ اس نےچشمہ پہنا ہوا ہے مگر نظریات کی عینک کو ہرانسان جان بوجھ کر نہیں پہنتا، بسااوقات اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ اس نے کوئی عینک بھی لگا رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب صورتِ حال تب پیش آتی ہے، جب کوئی بھولابھالا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی ایک نظریے (مثلاً اسلام) کی عینک لگارکھی ہے مگر درحقیقت اس کے دماغ پر کسی دوسرے نظریے کا چشمہ (مثلاً لبرلزم، سیکولرزم، کمیونزم،فرایڈازم، انارکسزم یا ان سب کا ملغوبہ) چڑھا ہوتا ہے۔ اگر آج کی مثال دیکھیں تو ایک کمپیوٹر میں سافٹ ویئر کی جو حیثیت ہوتی ہے، ٹھیک وہی حیثیت انسانوں میں نظریے کی ہوتی ہے۔
انگریزی لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی مفکر ڈیسٹیوٹ ڈی ٹریسی نے اٹھارھویں صدی کے آخری عشرے میں بطور ’سائنس آف آئیڈیاز‘ کے کیا۔ آئیڈیالوجی اس کے لیے اسی طرح ایک علم کا نام تھا، جس طرح بائیولوجی، زولوجی یا سوشیالوجی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے آئیڈیالوجی کو آئیڈیاز کے علم کے بجائے مخصوص قسم کے آئیڈیاز کے مجموعے کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یوں آئیڈیالوجی، نظریے کے ہم معنی ہوگئی۔ اس حساب سے نظریہ یا آئیڈیالوجی دراصل سماجی زندگی میں معنی اور اقدار کی دریافت کا نام ہے۔ ہرسماجی گروہ کی کوئی بنیاد ہوتی ہے (مثلاً رنگ، نسل، زبان، جنس، قومیت یا مذہب وغیرہ) اوراسی بنیاد پر اس سماجی گروہ کے اساسی نظریے کی تعمیر ہوتی ہے۔
انسانی زندگی میں نظریات کی کلیدی اہمیت کے باوجود سماجی علوم میں مختلف نظریات پر بحثیں تو ہوتی ہیں، لیکن فی نفسہٖ ’نظریے‘ کو موضوعِ بحث کم ہی بنایا جاتا ہے۔ نظریات کے معنی و مفہوم کے تعلق سے بھی جو بحثیں کی جاتی ہیں، وہ اکثر یک رُخی اور نامکمل رہ جاتی ہیں۔ نظریات پر جو تنقید کی گئی ہے، وہ بھی غلط فہمیوں کادفتر ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ’’نظریہ فرد کو متعصب بنادیتا ہے، لہٰذا ہمیں نظریات سے اُوپراُٹھ کر سوچنا، غوروفکر کرنا، تجزیہ کرنا اور نتائج اخذ کرنا چاہیے‘‘۔ اس میں پہلی بات بڑی حد تک صحیح ہے اور دوسری غلط یا کم از کم ناممکن۔یہ درست ہے کہ نظریہ ایک حد تک فرد کو متعصب بناسکتا ہے لیکن اس کے حل کے طور پر نظریات سے ’اُوپر‘ اُٹھ جانا ممکن نہیں۔ ہرفرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہرفرد کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں کوئی بھی غیرجانب دار نہیں ہے۔ غیرجانب داری کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر تعصب سے بچنے کا طریقہ کیا ہو؟ تعصب کے مضراثرات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے اپنے تعصبات کو علی الاعلان تسلیم کرلیا جائے۔ وگرنہ ایک فرد خود کو غیرجانب دار کہے گا، مگر اس کے خیالات مارکسزم کا چربہ ہوں گے، دوسرا خود کو نظریات سے اُوپر کی چیزقرار دے گا مگر اس کی پوری فکر لبرل ہوگی۔ بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں جو کسی ایک نظریے کو فی نفسہٖ قبول نہیں کرتے، مگر مختلف نظریات سے مختلف تصورات اُدھار لے لیتے ہیں۔ ایسے افراد کا نظریہ خود ساختہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو صحیح ہے لیکن ایسے افراد کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، مگر یہ حقیقت کی بالکل غلط ترجمانی ہے۔
نظریے کی تعریف میں بھی لوگوں نے نظریہ کے مثبت یا منفی اثرات پر تو بحث کی ہے، مگر اس بات پر نہیں کہ ’’نظریہ کہتے کسے ہیں؟‘‘ خال خال ہی مارٹن سیلیگر جیسے مفکر نظر آتے ہیں، جو نظریہ کی تعریف بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔ اپنی کتاب آئیڈیالوجی اینڈ پالیٹکس میں سیلیگر لکھتے ہیں: ’’نظریات کچھ ایسے عقائد واقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں‘‘۔ مارٹن سیلیگر نے نظریے کی اس مختصر مگرجامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا ہے۔ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یاعمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہوفلسفہ تو ہوسکتاہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، ’تحرک‘ تو ہوسکتا ہے مگر ’نظریہ‘ نہیں۔نظریہ وہی شے ہے جو بیک وقت فرد اور معاشرے کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔ ان مبسوط معنوں میں نظریے کو’ایمان‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
نظریے کی حیثیت ایک فرد کی زندگی میں وہی ہے،جو ایک اَنجان شہر میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں کسی اجنبی مسافر کی جیب میں موجود نقشے کی ہوتی ہے ۔ ایک عام قسم کا نقشہ، جیساکہ ہم جانتے ہیں، کسی علاقے کا علامتی خاکہ ہوتا ہے، جس میں اس علاقے کے ہسپتال، پولیس تھانہ، ہوٹل، عبادت گاہیں، تاریخی مقامات اور سڑکوں وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے، تاکہ ڈھونڈنے والا اپنے اور اپنی منزل کے محلِ وقوع کا اندازہ لگا سکے۔ نقشہ زمین پر موجود ہرہرعمارت اور ہرہرگلی کو نہیں دکھاتا اور نہ اس میں اس کی گنجایش ہوتی ہے۔ نقشے کا کام ایک ایک سینٹی میٹر میں کلومیٹروں کے فاصلےکو قید کرنے کا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسافر ’زمینی‘حقائق کو نقشے(یا نظریے) سے ’مختلف‘ پاتے ہیں اور جل بھن کر تھیوری اورپریکٹس کی اس دوئی پرسمع خراشی کرتے ہیں۔ صحیح نقشہ ہو یا صحیح نظریہ، زمینی حقائق اس سے ’زائد‘ تو ہوسکتے ہیں اورہوتے ہی ہیں۔ انسانی دُنیا میں البتہ ایسے بے وقوف ڈھونڈیئے تو مل ہی جائیں گے جو واشنگٹن یا ماسکو کے نقشے سےاپنے شہر میں منزل کا پتا کھوجتے ہیں جو رہنمائی کا کام انجام نہیں دے سکتا۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مختلف نظریات، مختلف مفکرین کے ذہنوں کی اُپج ہوتے ہیں۔ ایک مفکر چاہے وہ کتنا ہی علامۃ الدہر کیوں نہ ہو، وہ جن مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان کے جو حل سجھاتا ہے، ان کی افادیت کا ایک محدود سیاق اور دائرہ ہوتا ہے جس کے باہر اس کے نظریے کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ اکثر نظریات اور فلسفے تو عملی میدان میں قدم ہی نہیں رکھتے بلکہ نرے ’نظریات‘ اور ’فلسفے‘ ہی رہ جاتے ہیں ۔ کچھ جوعملی دُنیا میں رہنمائی کا بیڑا اُٹھاتے ہیں وہ یا تو پہلے ہلے میں ہی منہ کی کھاجاتے ہیں یا پھر کمیونزم کی طرح ہر ٹھوکر کے بعد کسی نہ کسی قسم کی پیوندکاری کے ذریعے ماسکو کے نقشے سے کبھی ہوانا، کبھی کلکتہ، کبھی کراچی، تو کبھی بیجنگ کا راستہ کھوجتے رہتے ہیں۔
مختصرالفاظ میں نظریات کے بنیادی کام دو ہیں: ان کا پہلا کام یہ ہے کہ حق، خیر اور حُسن کے تعلق سے کچھ مخصوص تصورات کو فروغ دے کر انھیں بنیادی اور عالم گیر باور کرایا جائے اور ان تصورات کو کچھ اس طرح بے تعلق (neutralise) کیا جائے کہ وہ معاشرے کی عقل عام کا عنوان بن جائیں۔ نظریات کا دوسرا کام مخالف نظریات اور ناپسندیدہ تصورات کو غلط ثابت کرکے ان کی بیخ کنی کرنا یا کم از کم ان کا مذاق اُڑا کر نظرانداز کرنا ہے۔ یعنی نظریہ فرد اور معاشرے کے لیے حق کا ایک معیار مقرر کرتا ہے۔ پھردوسرے نظریات پر تنقید کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظریے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بڑھنا، پھلنا اور پھولنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ عامۃ الناس کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت پرلبیک کہنے والوں کی شیرازہ بندی کرکے ایک طے شدہ مقصدکے لیے جدوجہد کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک جملے میں کہیں تو اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ نظریے کی بالادستی قائم ہوجائے۔ غلبے کی اس خواہش سے کوئی نظریہ مستثنیٰ نہیں ہے۔
نظریات کے اثرات ایک فرد کے ذہن اور معاشرے کے مزاج پر کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے شاید ایک مثال ممدومعاون ثابت ہو۔ سرکس میں کرتب دکھانے والے ہاتھیوں کو سدھانا بڑا مشکل کام ہے۔ وہ پالتو ہاتھی جو چڑیا گھر میں انسانوں کی صحبت میں پیدا ہوں اور پرورش پائیں، وہ تو غلام ابن غلام ہوتے ہیں اور انھیں سدھانا مشکل نہیں ۔ مگر جب جنگل کے آزاد منش ہاتھی کو پکڑنا ہوتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ ہاتھی کا نوعمر بچہ ہاتھ لگے۔ کیوں؟ بات واضح ہے کہ آزادی کا تصور بڑے ہاتھی میں اس حد تک راسخ ہوتا ہے کہ اسے غلامی کا پاٹھ، منتر پڑھانا اوراس سے بڑھ کر یہ کہ اسے کرتب سکھانا اور پھر کرتب دکھانے پر آمادہ کرلینا جان جوکھوں کا کام ہے۔ البتہ جونیئر ہاتھی کو ’تعلیم و تربیت‘ سے آراستہ کرنا نسبتاً آسان ہے۔
’آسان‘ اپنے آپ میں ایک اضافی قدر ہے۔ اس پر یہاں ’نسبتاً‘ کا اضافہ دانستہ کیا گیا ہے کیونکہ جس چیز کو آسان کہا گیاہے اس کی آسانی کا حال یہ ہے کہ اس بے چارے ہاتھی کے بچے کو دومضبوط کھمبوں یا درخت کے تنوں کے بیچ موٹی موٹی زنجیروں سے کچھ اس طرح باندھ دیتے ہیں کہ وہ حرکت بھی نہ کرسکے۔ وہ تڑپتا ہے، چیختا چلّاتا ہے۔ آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کرتا ہے۔ اپنی پوری قوت مجتمع کرکے زور لگاتا ہے کہ کسی طرح ان زنجیروں سے چھٹکارا ملے مگر اس کی ایک نہیں چلتی۔ ہفتے عشرے میں اس کی ناکام کوششیں اسے مایوس کردیتی ہیں، اسے سمجھ میں آجاتا ہے کہ اب غلامی ہی اس کا مقدر ہے۔ بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہاتھی کا یہ بچہ جیسے ہی مایوسی کے عالم میں زور لگانا بند کردیتا ہے تو غلامی پر رضامندی کے ’انعام‘ کے طور پر اسے کھانے کے لیے مرغوبات دیے جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ موٹی زنجیروں کی جگہ موٹی رسیاں لے لیتی ہیں۔ اس ہاتھی کے بچے کو غلام ہاتھیوں کی صحبت میں رکھا جاتا ہے تاکہ غلامی کے آداب و تہذیب سے کماحقہٗ واقفیت حاصل کرلے۔ کچھ تو آزادی سے مایوسی، کچھ غلاموں کی صحبت اور کچھ غلامی کی تن آسانی___ اس طرح ہاتھی کے بچے کو غلامی راس آجاتی ہے اور اس کی باقاعدہ تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہاتھی کا بچہ بڑا ہوکر ایک ’مستند تابع فرمان اچھا‘ ہاتھی بنتا ہے۔ وہ لحیم شحیم ہاتھی جسے بچپن میں قابو کرنے کے لیے موٹی موٹی زنجیریں درکار تھیں، اب وہ چوں تک نہیں کرتا۔
پچھلی دو تین صدیاں ایسی گزری ہیں، جب مسلمانوں اور یورپی طاقتوں میں بالادستی کی جنگ چل رہی تھی۔ یہ جنگ میدانِ کارزار کے ساتھ ساتھ میدانِ افکارو اکتشاف میں بھی جاری و ساری تھی۔ یہ جنگ تاریخ کے ایک موڑ پر ہورہی تھی، جب مسلم اُمت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچنے کے بعد رُوبہ زوال تھی۔ اس کے مقابلے میں یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا دور تھا۔ یورپی تازہ دم اور نئے جوش و خروش سے سرشار تھے۔ ان کی تہذیبی گیند گو مسلم اُمت کی رُوبہ زوال گیند سے نیچے ہی تھی مگر لگاتار اُوپر کا سفر طے کر رہی تھی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کش مکش کا نتیجہ یورپ کی علمی و سیاسی بالادستی کی صورت میں مسلم اُمت کے سامنے آیا۔ ہرمحاذ پر خوں ریز مقابلہ آرائی ہوئی لیکن کب تک؟آخرکار مسلم اُمت اور اس کے قائدین کے سامنے دو ہی متبادل رہ گئے: غلامی کی خلعت ِ فاخرہ یا آزادی کا کفن۔ کسی نے پہلے کو اور کسی نے دوسرے کو ترجیح دی۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے مگر دُنیاوی نتیجہ ہردو کا ایک ہی تھا___ محکومی اور غلامی۔
مگر آج حالات بدل چکے ہیں ۔دُنیابھر میں تحریکاتِ اسلامی کی بیش بہا کاوشوں کے نتیجے میں آج کا مسلمان بیدار ہو رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کے ہتھیار خود دشمنانِ اسلام کے لیے ناقص اور نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ مغربی تہذیب خود برطانیہ اور امریکا میں اسلام کے فروغ، خصوصاً خواتین میں اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہے۔ ہرسو مغربی تہذیب کے زوال کا چرچا ہے۔ فرید زکریا جیسے امریکا پرست بھی ’پوسٹ امریکن ورلڈ آرڈر‘ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دراصل دبی زبان میں پوسٹ ویسٹرن ورلڈ آرڈر کا اقرار ہے۔ لیکن اس پوری گہماگہمی میں، جس میں مسلم ممالک میں آئی اسلامی بیداری اور عرب بہار بھی شامل ہے، ہمارے قائدین اور حکمرانوں کا حال کیا ہے؟
ان مسلم حاکم طبقوں کا حال اس ہاتھی کا سا ہے، جو بچپن میں فوجی قوت کے بل پر سیاسی غلامی کی زنجیروں میں کچھ ایسا کَس کر جکڑدیا گیا تھا کہ سیاسی غلامی کی وہ زنجیریں کٹ جانے کے باوجود معیشت، تہذیب اور ذہنی غلامی کی پتلی سی رسّی سے بندھا ہوا ہے، اسے اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ صدافسوس کہ نہ اسے اپنی آزادی کا یقین ہے اور نہ اس کی کسک۔ یہ اسی ذہنی غلامی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے دانش وَر حضرات خود بدلنے کے بجاے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ چونکہ خودان شکست خوردہ طبقوں کو یہ معلوم ہے کہ اسلام آج بھی قابلِ عمل ہے، اس لیے وہ فوراً اسلام کو عین سوشلزم، لبرلزم یا سیکولرزم باور کرانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’وہ اسلام کی کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں‘‘۔ یہ بھاشن دینا کہ اسلام میں ’بھی‘ آزادی ہے۔ اسلام میں ’بھی‘ مساوات ہے، اسلام میں ’بھی‘ رواداری ہے اور اسلام دہشت گردی کا علَم بردار نہیں۔ یہ کہتے کہتے ان کی زبان نہیں سوکھتی۔ اور وہ یہ سب کچھ اسلام کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی پڑھائی پٹی کو دُہرانےکے لیے کرتے ہیں۔
اطالوی مفکر گرامسی کے مطابق ’’نظریہ، فردکے سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیتوں کو کچھ اس طرح سلب کرلیتا ہے کہ انھیں اپنے حقیقی مفادات تک نظر نہیں آتے‘‘۔ گرامسی کی یہ تھیوری ’ثقافتی تسلط‘ (Cultural Hegemony)کہلاتی ہے۔ دراصل گرامسی اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ ’’برطانیہ،فرانس اور جرمنی جیسے صنعتی ممالک میں جہاں مارکس کے مطابق اشتراکی انقلاب کا ظہور سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا وہ کیوں نہ ہوسکا؟‘‘ گرامسی کے مطابق ’’ایسا اس لیے ہوا کہ وہاں کی انقلابی طاقت، یعنی مزدور، خود بورژوا نظریۂ حیات اور تہذیبی غلامی کا شکار ہوگئی اور اس نے ایک نئے نظریے کی بنیاد پر ایک نئی دنیا کی تعمیر کا خواب بھلا دیا‘‘۔ نظریے کے تعلق سے کچھ اسی قسم کی بات فرانسیسی فلسفی مشل فوکو بھی کہتے ہیں۔ فوکو کے مطابق ’’نظریات کی بنیادی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی تصورِ حقیقت پر منحصر ہوتے ہیں‘‘۔ مختصر الفاظ میں ایک مخصوص تصورِحیات کو عوام کی عقل عام کے سامنے قابلِ قبول بناکر پیش کرنا، یہی نظریات کا اصل کام ہے۔
سوویت یونین کے زوال (۱۹۹۱ء) کے بعد مغربی دانش گاہوں نے زور و شورسے اس خیال کا پروپیگنڈا شروع کیا کہ نظریات کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب The End of History and the Last Man میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’نظریات کے اس دورکا خاتمہ لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ داریت کی دیگر نظریات پرفتح کی وجہ سے ہوا ہے‘‘۔پھر The Clash of Civilisations and the Remaking of World Order کے مصنّف سیموئیل ہن ٹنگٹن اس فکر کے سب سے معروف ترجمان بن کر اُبھرے۔ انھوں نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کمیونزم کے علَم بردار سوویت یونین کےزوال کے ساتھ ہی نظریات کے تصادم کا دُورختم ہوچکا ہے۔ یعنی بین الاقوامی معاملات کے اس دانش وَر کے نزدیک نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے۔ یا اب اسے ایک مرکزی محرک کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور آج دُنیا کی توجہ کا مرکز نظریات نہیں بلکہ غربت، ماحولیات، تعلیم اور ترقی وغیرہ ہیں یا ہونے چاہییں۔
حامددباشی ’عرب بہار‘ کے تناظر میں اسی کی تائید کرتے ہوئےاپنی کتاب The Arab Spring: The End of Post-Colonialism میں کہتے ہیں کہ عرب بہار کا نہ تو کوئی مرکزی لیڈر تھا اور نہ کوئی نظریہ‘‘۔ حامد دباشی کا اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی نظریاتی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ خود نظریات کےخلاف ایک تحریک تھی‘‘۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی ایک نظریے کی حقانیت نہیں بلکہ ہرنظریے سے آزادی کا پیغام ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’عرب بہار کے ذریعے دُنیا ایک مابعد نظریاتی دور (Post-Ideological Phase) میں داخل ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں تمام نظریات پھر چاہے وہ تیسری دُنیا کا سوشلزم ہو یا استعمار مخالف نیشنلزم یا انتہاپسند اسلام ازم، سب غیرمتعلق ہوچکے ہیں‘‘۔
اسی دور میں نظریے کی ضرورت کے انکار اور اس پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ نظریے پر تنقید کے لیے عموماً دو طرح کی دلیلوں کا سہارا لیا گیا:
اوّل: یہ کہا گیا کہ نظریات عملی نہیں ہوتے صرف خیالی اورفلسفیانہ ہوتے ہیں اور ان کا بڑبولاپن عملی میدان میں آتے ہی بھک سے اُڑ جاتا ہے، مثلاً:
ا : گاندھی کےہاں تو مشینوں اورٹکنالوجی یہاں تک کہ ریل گاڑی پر نظریاتی تنقید یا عدم تشدد کا نظریہ جس کے مطابق ملک میں فوج کی ضرورت سے بھی انکار ۔
ب: مارکس کا ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور، جہاں نہ ریاست ہو، نہ حکومت ہو ، نہ امیر، نہ غریب اور نہ طبقاتی کش مکش۔
ج: انارکزم کا ایک ایسا معاشرتی تصور، جہاں نہ کوئی حکومت ہو، نہ کوئی پولیس اور ہرفرد اپنا آپ نگراں ہو، وغیرہ۔
کُل ملا کر یہ کہ نظریات بہت ہی حسین خواب دکھاتے ہیں مگر ان کا رنگ سبز ہوتا ہے۔ حقیقت سےفرار اور یوٹوپیا (خیالی دنیا) سے عشق ان نظریات کی سرشت میں شامل ہے۔ نظریات کا یہ بڑبولاپن اس بات کا غماز ہے کہ نظریات ذہنی عیاشی کی حد تک توٹھیک ہیں لیکن عملی دنیا میں اگر انھیں نافذ کر دیا جائے یا نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا کا کاروبار چندلمحے بھی نہ چل سکے۔ مختلف نظریات پر غیرعملی ہونے کی جو پھبتی کسی جاتی ہے اس میں بہت حد تک صداقت ہے، لیکن اس اعتراف کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نظریے پر غیرعملی ہونے کی تنقید دراصل کچھ نظریات پر تنقید ہے، جو ہرنظریے پر صادق نہیں آتی۔ یہ ثابت کردینے سے کہ شیر کا گوشت حرام ہے، ہاتھی کا گوشت حرام ہے، سورکا گوشت حرام ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرے سے’گوشت‘ ہی حرام ہے۔
دوم: یہ کہا گیا کہ ’’نظریات کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ ’غلط‘ ہوتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو گمراہ کرتے ہیں‘‘۔ اس تنقیدی نہج کی شروعات کرنے والے فریڈرک اینجلز کے مطابق نظریات ’غلط شعور‘(False Consciousness) ہوتے ہیں۔ یعنی کسی نظریے پر ’ایمان‘ لانے میں اس پریقین کرنےوالے کی نیت درست ہوتی ہے، البتہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس نظریے پر وہ ایمان لایا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ یہاں دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ یہ تنقید کرتے وقت شاید اینجلز کو اندازہ نہیں تھا کہ مارکسزم کو بھی کسی زمانے میں نظریے کی حیثیت حاصل ہوگی اور اینجلز کی تعریف کے مطابق اسے بھی ’غلط شعور‘ قرار دینا پڑے گا۔ دراصل ایک کا نظریہ دوسرے کے لیے’غلط شعور‘ ہوا کرتا ہے۔اینجلز کے لیے اگر دوسرے نظریات ’غلط شعور‘ ہیں تو دوسرے نظریات کےماننے والوں کے لیے مارکس اور اینجلز خود ’غلط شعور‘ کا شکار تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرگن ہیبرماس کا کہنا ہے کہ ’’مختلف نظریات اور تصورِ نظریہ پر تنقید، یہ دونوں ہم عمرہیں‘‘۔ سادہ الفاظ میں: نظریہ پر کی جانے والی تنقید بھی درحقیقت نظریاتی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے تازہ مثال ’پوسٹ ماڈرنزم‘ (مابعد جدیدیت) ہے، جو ماڈرن زمانے میں موجود تمام نظریات کے ابطال بلکہ ہرکائناتی اور عالم گیر حقیقت اور تصورِ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے میدان میں اُترا تھا۔ تمام نظریات تو کیا خاک ختم ہوتے البتہ دانش ورانہ حلقوں میں ’پوسٹ ماڈرنزم‘ کو خود ایک نظریے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ یوں بُت شکنی کا دعویٰ کرنے والا خود بُت بن بیٹھا۔
اسلام، جیساکہ ہم جانتے ہیں، ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک دین ہے، ایک مکمل نظریۂ حیات ہے۔ بطور نظریہ اگر اسلام کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس میں مندرجہ ذیل اہم خصوصیات پاتے ہیں:
۱- انسانی عقل باوجود اپنی وسعت کے، عملاً محدود ہے۔عمانویل کانٹ کے بعد مغربی فلسفہ بھی اس محدودیت کا قائل ہے۔ یہ منطقی بات ہے کہ جب انسانی عقل اپنے سیاق، ماحول اور تاریخ سے محدود ہوتی ہے، تو اسی انسانی عقل کے ذریعے کسی ایسے نظریے کی ایجاد کی توقع رکھنا جو رنگ، نسل، جنس، وطن، زبان اور زمان و مکان کے تمام تر اختلافات کے باوجود یکساں قابلِ عمل ہو، ایک غیرعقلی اور غیرفطری توقع ہے۔ لہٰذا اسلام، دوسرے نظریات کے برعکس، اس دعوے کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کرتا ہے کہ وہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خالق کائنات کی طرف سے بھیجا ہوا نظام ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام انسانی عقل کو ایک صحیح نظریۂ حیات کو گھڑنے کی نہیں بلکہ اس کو پہچاننے کی ذمہ داری دیتا ہے۔
۲- ایک ناقابلِ عمل یوٹوپیا ہونے کی تہمت اسلام پر نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ اسلام دنیا کا واحد نظریہ ہے، جو اپنی تاریخ میں چالیس سال کا ایسا مثالی دوررکھتا ہے، جس کے بھلے اور کمزور پہلوؤں کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے وہ تیار ہے۔ دیگر نظریات کے پاس صرف مفروضات اور یوٹوپیا ہیں۔ زمین پر وہ اپنا کوئی ایسا مثالی ماڈل پیش نہیں کرسکے، جس کی ذمہ داری وہ بلاجھجک قبول کرسکیں۔ پچھلی صدی میں کہا گیا کہ سوویت یونین، کمیونزم کا اور اسرائیل، یہودیوں کی آئیڈیل اسٹیٹ ہے۔ آج تقریباً سارے کمیونسٹ اور یہودیوں کی اکثریت اس دعوے کو شدومد سے رد کرتی ہے۔
۳- نظریہ اپنے ماننےوالوں میں ایک آنےوالی کل کی اُمید جگاتا ہے اور قربانیاں دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لڑائی میں کامیابی کا یقین دلاتا ہے کہ کامیابی کا یقین نہ ہوتو لڑائی جیتنا تو دُور، لڑنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ اسلام میں کامیابی کا یہ تصور بھی جو اپنے ماننے والوں میں عمل کے لیے مہمیز کرتا ہے دیگر نظریات سے زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ اسلام کامیابی کا دو سطحی تصور پیش کرتا ہے: پہلی سطح کی کامیابی، باطل پر حق کی فتح اور غلبے کے نتیجے میں اجتماعی طور پر اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے۔ دوسری سطح پر کامیابی، فرد کو اپنے اعمال کے نتیجے میں اللہ کی رضا کی صورت میں آخرت میں حاصل ہوتی ہے۔ پہلی سطح کی جدوجہد میں اسلام اپنے ماننے والوں کو نتیجے کا نہیں بلکہ نیت اورکوششوں کا مکلف کرتا ہے، جس سے ایک مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں۔ صحیح سمت میں جی توڑ کوشش پہلی سطح پر اسے کامیابی دلائے نہ دلائے، دوسری سطح کی کامیابی جو کہ اصل کامیابی ہے، وہ اسے حاصل ہوکررہتی ہے۔
۴- اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ انسانی عقل اور جذبات دونوں کو اپیل کرتا ہے۔ بحیثیت نظریہ، اسلام کی سب سے بڑی خوبی اس کا اعتدال ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام فرد کی بے قید آزادی کا قائل، انفرادیت پسندی کا علَم بردار اوربازار میں حکومت کی کسی قسم کی مداخلت کے خلاف ہے۔ نتیجہ؛ سود کا پھیلا ہوا جال، دولت کا ارتکاز، فاقہ کشی، خودکشی، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔ وہیں کمیونزم انسانوں میں جبری مساوات اور فرد پر جماعت کی ترجیح اور کلیت پسندی کا علَم بردار ہے۔ نتیجہ؛ بدترین آمریت، صلاحیتوں کی ناقدری، کاہلی اور نااہلی کا دور دورہ ، سزاے موت، ملک بدری، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔
ان دونوں نظریات کی انتہاؤں کے بالمقابل، اسلام انسانوں میں بنیادی مساوات کا قائل ہے، یعنی ہرانسان، انسان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے برابر ہے۔ اس برابری میں یہ بات شامل ہے کہ ہرانسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہییں۔ اگر کوئی انسان کسی وجہ سے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے قاصرہے تو یہ اجتماعیت کی ذمہ داری ہےکہ وہ اسے پوراکرے۔ اس بنیادی مساوات کے بعد اسلام فرد کی خلاقانہ صلاحیتوں پرقدغن نہیں لگاتا بلکہ اپنے جوہر دکھلانےکے لیے اسے ایک وسیع میدان فراہم کرتا ہے۔ اگر صرف کمانے کی مثال لی جائے تو اسلام فرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مزاج اور صلاحیتوں کے مطابق کمائے اور جتنا چاہے کمائے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وہ جو کچھ کمائے حلال راستے سے کمائے اور حلال راستے سے خرچ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسے سود، شراب، جوا، قحبہ خانے، ملاوٹ، دھوکے اورفحش فلموں وغیرہ کا کاروبارکرکے پیسہ بٹورنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسے اپنے مال کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔ ان پابندیوں کے ساتھ وہ جو کچھ کمائے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ پھر دولت گردش میں رہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فرد کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے ورثا میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اسی طرح قوم پرستی (Nationalism) اور نسل پرستی (Racism) کی مثال لی جاسکتی ہے۔ اوّل الذکر چندپہاڑوں اور ندیوں یا نقشے پرخود انسان کی کھینچی ہوئی فرضی لکیروں کی بنیاد پر انسانیت کی تقسیم کا قائل ہے۔ آخرالذکر نسل کی بنیاد پر گروہ بندی کا قائل ہے۔ دونوں صورتوں میں فضیلت کا معیارانسان کی کسی مخصوص ملک یا نسل میں پیدایش ہے، جو یقینا حادثاتی ہوتی ہے اختیاری نہیں۔ اس کے بالمقابل اسلام جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی قومیت کا علَم بردار ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ فرد کی اپنے وطن، اپنی نسل، اپنی قوم، اپنی زبان سے محبت فطری امر ہے لیکن یہ محبت عصبیت بن کر حق و باطل کا معیار نہ بن جائے۔ اسلام فضیلت کے صرف ایک معیار کو تسلیم کرتا ہے اور وہ ہے تقویٰ۔ کسی مخصوص قوم یا نسل یا ملک میں حادثاتی طور پر پیدایش اسلام کے نزدیک کوئی معیارِ فضیلت نہیں ہے۔
الغرض، بحیثیت نظریہ، اسلام کی حیثیت سب سے انوکھی اور نرالی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نظریات کو نقشوں سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس حساب سے بھی اسلام دیگر نظریات (نقشوں) سے ممتاز ہے، جنھیں زمان و مکان کی قید میں محصور چند انسانوں نے اپنے محدود علم اور ناقص تجربات کی بنیاد پر بنا لیا تھا اور اپنی ناواقفیت یا کم علمی کی بنا پر انھوں نے یا ان کے متبعین نے یہ سوچ لیا کہ ان کا بنایا ہوا ایک مخصوص علاقے کانقشہ دُنیابھر میں منزل تک رہنمائی کے فرائض انجام دےسکتا ہے۔ اسلام تو خالق کائنات کا بنایا ہوا’نقشہ‘ ہے، جسے دنیا کے کسی نقشے سے اگرکسی حد تک تشبیہ دی جاسکتی ہے تو وہ Google Earth ہے جس کے ذریعے آپ دُنیابھر میں اپنی منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی ابتدائی مثال کی طرف لوٹیں تو ہرانسان کی نگاہوں پر باضابطہ یا بےضابطہ طورپرکسی نہ کسی نظریے کاچشمہ چڑھا ہوا ہے۔مگراسلام ایک ایسا چشمہ ہے جس کا انتخاب فرد پورے ہوش و ہواس میں خود کرتا ہے اور یہ جان کر (بسااوقات آزما کر) کرتا ہے کہ یہ وہ واحد چشمہ ہےجس کا شیشہ صاف وشفاف ہے، جو ہمیں دھوپ اور دھول سے ضرور بچاتاہےلیکن لال کولال، کالے کو کالا، حق کو حق اور باطل کو باطل ہی دکھاتا ہے، جیساکہ مومنین کو دُعا سکھلائی گئی ہے کہ اللّٰھُمَّ اَرِنِی حَقِیْقَۃٌ الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ (اےاللہ! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیساکہ وہ فی الواقع ہیں)۔ یا،اَللّٰھُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ (اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل دکھا اوراس سے اجتناب کی توفیق بخشی!)۔
سماجی علوم ہمیں معاشرے کو پڑھنا اورسمجھنا سکھاتے ہیں۔ ان میں پڑھائے جانے والے اصولوں کی حیثیت معاشرے کے لیے کلیدی ہوتی ہے۔ یہ مقاصد کاتعین کرتے ہیں اوران مقاصد کے حصول کے لیے طریقۂ کار کی نشان دہی بھی۔ لیکن کیا یہ سماجی علوم تعصب سے پاک ہیں؟ عمانویل والرسٹین نے اپنے مقالے Eurocentrism and its Avatarsمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سماجی علوم کا وجود یورپی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہوا، تاریخ کے ایک ایسے موڑ پرجب یورپ پوری دنیا کے نظام پرحاوی تھا۔ اس لیے طبعی طور پر سماجی علوم کے مباحث کا انتخاب، انھیں برتنے کے آداب، تحقیق کےطریقۂ کار اورسماجی علوم کے نظریۂ علم (Epistemology) سبھی پر اس ماحول کی گہری چھاپ ہے جس ماحول میں اس کی پیدایش ہوئی ہے‘‘۔
والرسٹین نے صاف کہا ہے کہ ’’یہاں یورپ سے میری مراد نقشے پر موجود کسی جگہ سے زیادہ ایک تہذیب اور ایک فکر ہے۔ مختصر الفاظ میں سماجی علوم عالم گیر اصولوں پر مبنی نہیں ہیں جیساکہ دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ ان تصورات اور توجیہات پرمنحصر ہیں، جن کے ڈانڈے مغرب کے نظریۂ حیات سے جاملتے ہیں‘‘۔ والرسٹین کے مطابق ’’سماجی علوم کو اس یورپی قید سے چھڑانا ایک عظیم علمی خدمت ہے۔ لیکن کیایہ اتنا آسان کام ہے؟ نہیں، اس راستے میں چیلنجز بے شمار ہیں‘‘۔
ایک ایسے زمانے میں مغرب پر کی جانے والی تنقید بھی، خود مغرب کے نظریات کی خوشہ چیں ہے۔ جب نظریات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورایسا لگتا ہے کہ علمی دنیا کا اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ دُنیا میں اب نظریاتی سطح پر لبرل ڈیموکریٹک کیپٹلزم کا کوئی مخالف نہیں رہ گیا ہے۔ اس ماحول میں اسلامی نظریے کو ماننےوالوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ سماجی علوم میں اجتہادی مہارت کا حصول اور مروجہ سماجی علوم کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرکے ایک نئی نظریاتی بحث کو شروع کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑا فکری احسان آج کی دنیا پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظریاتی بحث کو مندرجہ ذیل خطوط پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے:
۱- ہر انسان کا ایک نظریہ ہوتا ہے بالفاظِ دیگر ہرانسان کی نگاہوں پر کسی نہ کسی نظریے کا چشمہ چڑھا ہوا ہوتا ہے۔
۲- بیرونی حقائق ہمیں اپنے نظریات کے مطابق نظر آتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سامنےموجود شے کا رنگ اوراس کی جسامت ہمیں اپنے چشمے کے رنگ اور نمبر کی مناسبت سے نظر آئے گی۔
۳- عام طور پر لوگ فاتح یا غالب قوم کےنظریات سے متاثر ہوتے ہیں اور جانے انجانے میں ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہمارا چشمہ ہماری آنکھوں کے مطابق نہیں ہے بلکہ یورپی آنکھوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔
۴- فاتح یا غالب قوم کے نظریات دوسرے سیاق میں قابلِ عمل نہیں ہوتے اور ان کے ماننے والے عموماً احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور حقائق کا غلط اور گمراہ کن اِدراک کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگرچشمہ اگر اپنی آنکھوں کے مطابق نہ ہو توحقائق مسخ شدہ نظر آتے ہیں۔
۵- ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نظریے کو قبول کیا جائے جو ہرحالت میں اور مقام پر ہماری اسلامی اور ایمانی وابستگی کے مطابق ہماری رہنمائی کے فرائض انجام دے سکے۔ بالفاظِ دیگر اس چشمے کو جو ہماری نگاہوں پر چڑھ گیا ہےبدل کر ہمیں شعوری طورپر ایک ایسا چشمہ پہننا چاہیے، جو ہمیں حقائق کو ویسا ہی دکھائے جیساکہ وہ ہیں۔ اور اسلام ٹھیک ٹھیک صورتِ حال دکھاتا اورقولِ سدید سکھاتا ہے۔