خان یاسر


رنگ برنگی جھلّیاں، شیشے کے ٹکڑوں یا مختلف رنگوں کے چشموں سے بچپن میں ہم سبھی نے کھیلا ہوگا۔ ہرے رنگ کی جھلّی اُوڑھ لی جائے تو ہرا ہی سجھائی دیتا ہے۔ لال رنگ کا چشمہ پہننے والے کے لیے آسمان سے لے کر زمین تک سب کچھ لالہ زار ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح نظریات کو مختلف رنگوں کے چشموں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چشمے آنکھوں پرپہنے جاتے ہیں اور نظریات کی عینک دل اور دماغ پرلگی ہوتی ہے۔ چشمے آسانی سے اُتارے اور دوبارہ پہنے جاسکتے ہیں، مگر نظریات کی عینک کو اُتار دینا ناممکن یا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چشمہ پہننے والا، اگر چچا چھکن نہیں ہے، تو جانتا ہے کہ اس نےچشمہ پہنا ہوا ہے مگر نظریات کی عینک کو ہرانسان جان بوجھ کر نہیں پہنتا، بسااوقات اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ اس نے کوئی عینک بھی لگا رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب صورتِ حال تب پیش آتی ہے، جب کوئی بھولابھالا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی ایک نظریے (مثلاً اسلام) کی عینک لگارکھی ہے مگر درحقیقت اس کے دماغ پر کسی دوسرے نظریے کا چشمہ (مثلاً لبرلزم، سیکولرزم، کمیونزم،فرایڈازم، انارکسزم یا ان سب کا ملغوبہ) چڑھا ہوتا ہے۔ اگر آج کی مثال دیکھیں تو ایک کمپیوٹر میں سافٹ ویئر کی جو حیثیت ہوتی ہے، ٹھیک وہی حیثیت انسانوں میں نظریے کی ہوتی ہے۔

انگریزی لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی مفکر ڈیسٹیوٹ ڈی ٹریسی نے اٹھارھویں صدی کے آخری عشرے میں بطور ’سائنس آف آئیڈیاز‘ کے کیا۔ آئیڈیالوجی اس کے لیے اسی طرح ایک علم کا نام تھا، جس طرح بائیولوجی، زولوجی یا سوشیالوجی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے آئیڈیالوجی کو آئیڈیاز کے علم کے بجائے مخصوص قسم کے آئیڈیاز کے مجموعے کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یوں آئیڈیالوجی، نظریے کے ہم معنی ہوگئی۔ اس حساب سے نظریہ یا آئیڈیالوجی دراصل سماجی زندگی میں معنی اور اقدار کی دریافت کا نام ہے۔ ہرسماجی گروہ کی کوئی بنیاد ہوتی ہے (مثلاً رنگ، نسل، زبان، جنس، قومیت یا مذہب وغیرہ) اوراسی بنیاد پر اس سماجی گروہ کے اساسی نظریے کی تعمیر ہوتی ہے۔

انسانی زندگی میں نظریات کی کلیدی اہمیت کے باوجود سماجی علوم میں مختلف نظریات پر بحثیں تو ہوتی ہیں، لیکن فی نفسہٖ ’نظریے‘ کو موضوعِ بحث کم ہی بنایا جاتا ہے۔ نظریات کے معنی و مفہوم کے تعلق سے بھی جو بحثیں کی جاتی ہیں، وہ اکثر یک رُخی اور نامکمل رہ جاتی ہیں۔ نظریات پر جو تنقید کی گئی ہے، وہ بھی غلط فہمیوں کادفتر ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ’’نظریہ فرد کو متعصب بنادیتا ہے، لہٰذا ہمیں نظریات سے اُوپراُٹھ کر سوچنا، غوروفکر کرنا، تجزیہ کرنا اور نتائج اخذ کرنا چاہیے‘‘۔ اس میں پہلی بات بڑی حد تک صحیح ہے اور دوسری غلط یا کم از کم ناممکن۔یہ درست ہے کہ نظریہ ایک حد تک فرد کو متعصب بناسکتا ہے لیکن اس کے حل کے طور پر نظریات سے ’اُوپر‘ اُٹھ جانا ممکن نہیں۔ ہرفرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہرفرد کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں۔

اس دنیا میں کوئی بھی غیرجانب دار نہیں ہے۔ غیرجانب داری کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر تعصب سے بچنے کا طریقہ کیا ہو؟ تعصب کے مضراثرات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے اپنے تعصبات کو علی الاعلان تسلیم کرلیا جائے۔ وگرنہ ایک فرد خود کو غیرجانب دار کہے گا، مگر اس کے خیالات مارکسزم کا چربہ ہوں گے، دوسرا خود کو نظریات سے اُوپر کی چیزقرار دے گا مگر اس کی پوری فکر لبرل ہوگی۔ بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں جو کسی ایک نظریے کو فی نفسہٖ قبول نہیں کرتے، مگر مختلف نظریات سے مختلف تصورات اُدھار لے لیتے ہیں۔ ایسے افراد کا نظریہ خود ساختہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو صحیح ہے لیکن ایسے افراد کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، مگر یہ حقیقت کی بالکل غلط ترجمانی ہے۔

نظریے کی تعریف میں بھی لوگوں نے نظریہ کے مثبت یا منفی اثرات پر تو بحث کی ہے، مگر اس بات پر نہیں کہ ’’نظریہ کہتے کسے ہیں؟‘‘ خال خال ہی مارٹن سیلیگر جیسے مفکر نظر آتے ہیں، جو نظریہ کی تعریف بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔ اپنی کتاب آئیڈیالوجی اینڈ پالیٹکس میں سیلیگر لکھتے ہیں: ’’نظریات کچھ ایسے عقائد واقدار کا نام ہے جو افراد کو عمل پر آمادہ کردیں‘‘۔ مارٹن سیلیگر نے نظریے کی اس مختصر مگرجامع تعریف میں تمام جہتوں کا لحاظ کیا ہے۔ایک ایسی فکر جس کے ساتھ عمل یاعمل کے لیے کوئی تحریک نہ ہوفلسفہ تو ہوسکتاہے نظریہ نہیں۔ ایک ایسا عمل جس کے پیچھے کوئی فکر نہ ہو، ’تحرک‘ تو ہوسکتا ہے مگر ’نظریہ‘ نہیں۔نظریہ وہی شے ہے جو بیک وقت فرد اور معاشرے کو فکر بھی دے اور عمل کا پیغام بھی۔ ان مبسوط معنوں میں نظریے کو’ایمان‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

نظریہ کا کام کیا ہے؟

نظریے کی حیثیت ایک فرد کی زندگی میں وہی ہے،جو ایک اَنجان شہر میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں کسی اجنبی مسافر کی جیب میں موجود نقشے کی ہوتی ہے ۔ ایک عام قسم کا نقشہ، جیساکہ ہم جانتے ہیں، کسی علاقے کا علامتی خاکہ ہوتا ہے، جس میں اس علاقے کے ہسپتال، پولیس تھانہ، ہوٹل، عبادت گاہیں، تاریخی مقامات اور سڑکوں وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے، تاکہ ڈھونڈنے والا اپنے اور اپنی منزل کے محلِ وقوع کا اندازہ لگا سکے۔ نقشہ زمین پر موجود ہرہرعمارت اور ہرہرگلی کو نہیں دکھاتا اور نہ اس میں اس کی گنجایش ہوتی ہے۔ نقشے کا کام ایک ایک سینٹی میٹر میں کلومیٹروں کے فاصلےکو قید کرنے کا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسافر ’زمینی‘حقائق کو نقشے(یا نظریے) سے ’مختلف‘ پاتے ہیں اور جل بھن کر تھیوری اورپریکٹس کی اس دوئی پرسمع خراشی کرتے ہیں۔ صحیح نقشہ ہو یا صحیح نظریہ، زمینی حقائق اس سے ’زائد‘ تو ہوسکتے ہیں اورہوتے ہی ہیں۔ انسانی دُنیا میں البتہ ایسے بے وقوف ڈھونڈیئے تو مل ہی جائیں گے جو واشنگٹن یا ماسکو کے نقشے سےاپنے شہر میں منزل کا پتا کھوجتے ہیں جو رہنمائی کا کام انجام نہیں دے سکتا۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مختلف نظریات، مختلف مفکرین کے ذہنوں کی اُپج ہوتے ہیں۔ ایک مفکر چاہے وہ کتنا ہی علامۃ الدہر کیوں نہ ہو، وہ جن مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان کے جو حل سجھاتا ہے، ان کی افادیت کا ایک محدود سیاق اور دائرہ ہوتا ہے جس کے باہر اس کے نظریے کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ اکثر نظریات اور فلسفے تو عملی میدان میں قدم ہی نہیں رکھتے بلکہ نرے ’نظریات‘ اور ’فلسفے‘ ہی رہ جاتے ہیں ۔ کچھ جوعملی دُنیا میں رہنمائی کا بیڑا اُٹھاتے ہیں وہ یا تو پہلے ہلے میں ہی منہ کی کھاجاتے ہیں یا پھر کمیونزم کی طرح ہر ٹھوکر کے بعد کسی نہ کسی قسم کی پیوندکاری کے ذریعے ماسکو کے نقشے سے کبھی ہوانا، کبھی کلکتہ، کبھی کراچی، تو کبھی بیجنگ کا راستہ کھوجتے رہتے ہیں۔

مختصرالفاظ میں نظریات کے بنیادی کام دو ہیں: ان کا پہلا کام یہ ہے کہ حق، خیر اور   حُسن کے تعلق سے کچھ مخصوص تصورات کو فروغ دے کر انھیں بنیادی اور عالم گیر باور کرایا جائے اور ان تصورات کو کچھ اس طرح بے تعلق (neutralise) کیا جائے کہ وہ معاشرے کی عقل عام کا عنوان بن جائیں۔ نظریات کا دوسرا کام مخالف نظریات اور ناپسندیدہ تصورات کو غلط ثابت کرکے ان کی بیخ کنی کرنا یا کم از کم ان کا مذاق اُڑا کر نظرانداز کرنا ہے۔ یعنی نظریہ فرد اور معاشرے کے لیے حق کا ایک معیار مقرر کرتا ہے۔ پھردوسرے نظریات پر تنقید کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظریے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بڑھنا، پھلنا اور پھولنا چاہتا ہے۔ چنانچہ   وہ عامۃ الناس کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت پرلبیک کہنے والوں کی شیرازہ بندی کرکے ایک طے شدہ مقصدکے لیے جدوجہد کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک جملے میں کہیں تو اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ نظریے کی بالادستی قائم ہوجائے۔ غلبے کی اس خواہش سے کوئی نظریہ مستثنیٰ نہیں ہے۔

انسانی زندگی پرنظریہ کے اثرات

نظریات کے اثرات ایک فرد کے ذہن اور معاشرے کے مزاج پر کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے شاید ایک مثال ممدومعاون ثابت ہو۔ سرکس میں کرتب دکھانے والے ہاتھیوں کو سدھانا بڑا مشکل کام ہے۔ وہ پالتو ہاتھی جو چڑیا گھر میں انسانوں کی صحبت میں پیدا ہوں اور پرورش پائیں، وہ تو غلام ابن غلام ہوتے ہیں اور انھیں سدھانا مشکل نہیں ۔ مگر جب جنگل کے آزاد منش ہاتھی کو پکڑنا ہوتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ ہاتھی کا نوعمر بچہ ہاتھ لگے۔ کیوں؟ بات واضح ہے کہ آزادی کا تصور بڑے ہاتھی میں اس حد تک راسخ ہوتا ہے کہ اسے غلامی کا پاٹھ، منتر پڑھانا اوراس سے بڑھ کر یہ کہ اسے کرتب سکھانا اور پھر کرتب دکھانے پر آمادہ کرلینا جان جوکھوں کا کام ہے۔ البتہ جونیئر ہاتھی کو ’تعلیم و تربیت‘ سے آراستہ کرنا نسبتاً آسان ہے۔

’آسان‘ اپنے آپ میں ایک اضافی قدر ہے۔ اس پر یہاں ’نسبتاً‘ کا اضافہ دانستہ کیا گیا ہے کیونکہ جس چیز کو آسان کہا گیاہے اس کی آسانی کا حال یہ ہے کہ اس بے چارے ہاتھی کے بچے کو دومضبوط کھمبوں یا درخت کے تنوں کے بیچ موٹی موٹی زنجیروں سے کچھ اس طرح باندھ دیتے ہیں کہ وہ حرکت بھی نہ کرسکے۔ وہ تڑپتا ہے، چیختا چلّاتا ہے۔ آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کرتا ہے۔ اپنی پوری قوت مجتمع کرکے زور لگاتا ہے کہ کسی طرح ان زنجیروں سے چھٹکارا ملے مگر اس کی ایک نہیں چلتی۔ ہفتے عشرے میں اس کی ناکام کوششیں اسے مایوس کردیتی ہیں، اسے سمجھ میں آجاتا ہے کہ اب غلامی ہی اس کا مقدر ہے۔ بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہاتھی کا یہ بچہ جیسے ہی مایوسی کے عالم میں زور لگانا بند کردیتا ہے تو غلامی پر رضامندی کے ’انعام‘ کے طور پر اسے کھانے کے لیے مرغوبات دیے جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ موٹی زنجیروں کی جگہ موٹی رسیاں لے لیتی ہیں۔ اس ہاتھی کے بچے کو غلام ہاتھیوں کی صحبت میں رکھا جاتا ہے تاکہ غلامی کے آداب و تہذیب سے کماحقہٗ واقفیت حاصل کرلے۔ کچھ تو آزادی سے مایوسی، کچھ غلاموں کی صحبت اور کچھ غلامی کی تن آسانی___  اس طرح ہاتھی کے بچے کو غلامی راس آجاتی ہے اور اس کی باقاعدہ تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہاتھی کا بچہ بڑا ہوکر ایک ’مستند تابع فرمان اچھا‘ ہاتھی بنتا ہے۔ وہ لحیم شحیم ہاتھی جسے بچپن میں قابو کرنے کے لیے موٹی موٹی زنجیریں درکار تھیں، اب وہ چوں تک نہیں کرتا۔

مسلم اُمت کو آج اسی غلام ہاتھی پر قیاس کرلیجیے۔

پچھلی دو تین صدیاں ایسی گزری ہیں، جب مسلمانوں اور یورپی طاقتوں میں بالادستی کی جنگ چل رہی تھی۔ یہ جنگ میدانِ کارزار کے ساتھ ساتھ میدانِ افکارو اکتشاف میں بھی جاری و ساری تھی۔ یہ جنگ تاریخ کے ایک موڑ پر ہورہی تھی، جب مسلم اُمت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچنے کے بعد رُوبہ زوال تھی۔ اس کے مقابلے میں یورپ میں نشاتِ ثانیہ کا دور تھا۔ یورپی تازہ دم اور نئے جوش و خروش سے سرشار تھے۔ ان کی تہذیبی گیند گو مسلم اُمت کی رُوبہ زوال گیند سے نیچے ہی تھی مگر لگاتار اُوپر کا سفر طے کر رہی تھی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کش مکش کا نتیجہ یورپ کی علمی و سیاسی بالادستی کی صورت میں مسلم اُمت کے سامنے آیا۔ ہرمحاذ پر خوں ریز مقابلہ آرائی ہوئی لیکن کب تک؟آخرکار مسلم اُمت اور اس کے قائدین کے سامنے دو ہی متبادل رہ گئے: غلامی کی خلعت ِ فاخرہ یا آزادی کا کفن۔ کسی نے پہلے کو اور کسی نے دوسرے کو ترجیح دی۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے مگر دُنیاوی نتیجہ ہردو کا ایک ہی تھا___ محکومی اور غلامی۔

مگر آج حالات بدل چکے ہیں ۔دُنیابھر میں تحریکاتِ اسلامی کی بیش بہا کاوشوں کے نتیجے میں آج کا مسلمان بیدار ہو رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کے ہتھیار خود دشمنانِ اسلام کے لیے ناقص اور نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ مغربی تہذیب خود برطانیہ اور امریکا میں اسلام کے فروغ، خصوصاً خواتین میں اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہے۔ ہرسو مغربی تہذیب کے زوال کا چرچا ہے۔ فرید زکریا جیسے امریکا پرست بھی ’پوسٹ امریکن ورلڈ آرڈر‘ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دراصل دبی زبان میں پوسٹ ویسٹرن ورلڈ آرڈر کا اقرار ہے۔ لیکن اس پوری گہماگہمی میں، جس میں مسلم ممالک میں آئی اسلامی بیداری اور عرب بہار بھی شامل ہے، ہمارے قائدین اور حکمرانوں کا حال کیا ہے؟

ان مسلم حاکم طبقوں کا حال اس ہاتھی کا سا ہے، جو بچپن میں فوجی قوت کے بل پر سیاسی غلامی کی زنجیروں میں کچھ ایسا کَس کر جکڑدیا گیا تھا کہ سیاسی غلامی کی وہ زنجیریں کٹ جانے کے باوجود معیشت، تہذیب اور ذہنی غلامی کی پتلی سی رسّی سے بندھا ہوا ہے، اسے اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ صدافسوس کہ نہ اسے اپنی آزادی کا یقین ہے اور نہ اس کی کسک۔ یہ اسی ذہنی غلامی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے دانش وَر حضرات خود بدلنے کے بجاے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔  چونکہ خودان شکست خوردہ طبقوں کو یہ معلوم ہے کہ اسلام آج بھی قابلِ عمل ہے، اس لیے وہ فوراً اسلام کو عین سوشلزم، لبرلزم یا سیکولرزم باور کرانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’وہ اسلام کی کوئی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں‘‘۔ یہ بھاشن دینا کہ اسلام میں ’بھی‘ آزادی ہے۔ اسلام میں ’بھی‘ مساوات ہے، اسلام میں ’بھی‘ رواداری ہے اور اسلام دہشت گردی کا علَم بردار نہیں۔ یہ کہتے کہتے ان کی زبان نہیں سوکھتی۔ اور وہ یہ سب کچھ اسلام کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی پڑھائی پٹی کو دُہرانےکے لیے کرتے ہیں۔

اطالوی مفکر گرامسی کے مطابق ’’نظریہ، فردکے سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیتوں کو کچھ اس طرح سلب کرلیتا ہے کہ انھیں اپنے حقیقی مفادات تک نظر نہیں آتے‘‘۔ گرامسی کی یہ تھیوری ’ثقافتی تسلط‘  (Cultural Hegemony)کہلاتی ہے۔ دراصل گرامسی اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ ’’برطانیہ،فرانس اور جرمنی جیسے صنعتی ممالک میں جہاں مارکس کے مطابق اشتراکی انقلاب کا ظہور سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا وہ کیوں نہ ہوسکا؟‘‘ گرامسی کے مطابق ’’ایسا اس لیے ہوا کہ وہاں کی انقلابی طاقت، یعنی مزدور، خود بورژوا نظریۂ حیات اور تہذیبی غلامی کا شکار ہوگئی اور اس نے ایک نئے نظریے کی بنیاد پر ایک نئی دنیا کی تعمیر کا خواب بھلا دیا‘‘۔ نظریے کے تعلق سے کچھ اسی قسم کی بات فرانسیسی فلسفی مشل فوکو بھی کہتے ہیں۔ فوکو کے مطابق ’’نظریات کی بنیادی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی تصورِ حقیقت پر منحصر ہوتے ہیں‘‘۔ مختصر الفاظ میں ایک مخصوص تصورِحیات کو عوام کی عقل عام کے سامنے قابلِ قبول بناکر پیش کرنا، یہی نظریات کا اصل کام ہے۔

کیا نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے؟

سوویت یونین کے زوال (۱۹۹۱ء) کے بعد مغربی دانش گاہوں نے زور و شورسے اس خیال کا پروپیگنڈا شروع کیا کہ نظریات کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب The End of History and the Last Man میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’نظریات کے اس دورکا خاتمہ لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ داریت کی دیگر نظریات پرفتح کی وجہ سے ہوا ہے‘‘۔پھر The Clash of Civilisations and the Remaking of World Order کے مصنّف سیموئیل ہن ٹنگٹن اس فکر کے سب سے معروف ترجمان بن کر اُبھرے۔ انھوں نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کمیونزم کے علَم بردار سوویت یونین کےزوال کے ساتھ ہی نظریات کے تصادم کا دُورختم ہوچکا ہے۔ یعنی بین الاقوامی معاملات کے اس دانش وَر کے نزدیک نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے۔ یا اب اسے ایک مرکزی محرک کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور آج دُنیا کی توجہ کا مرکز نظریات نہیں بلکہ غربت، ماحولیات، تعلیم اور ترقی وغیرہ ہیں یا ہونے چاہییں۔

 حامددباشی ’عرب بہار‘ کے تناظر میں اسی کی تائید کرتے ہوئےاپنی کتاب The Arab Spring: The End of Post-Colonialism میں کہتے ہیں کہ عرب بہار کا نہ تو کوئی مرکزی لیڈر تھا اور نہ کوئی نظریہ‘‘۔ حامد دباشی کا اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی نظریاتی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ خود نظریات کےخلاف ایک تحریک تھی‘‘۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ ’’عرب بہار کسی ایک نظریے کی حقانیت نہیں بلکہ ہرنظریے سے آزادی کا پیغام ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’عرب بہار کے ذریعے دُنیا ایک مابعد نظریاتی دور (Post-Ideological Phase) میں داخل ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں تمام نظریات پھر چاہے وہ تیسری دُنیا کا سوشلزم ہو یا استعمار مخالف نیشنلزم یا انتہاپسند اسلام ازم، سب غیرمتعلق ہوچکے ہیں‘‘۔

اسی دور میں نظریے کی ضرورت کے انکار اور اس پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ نظریے پر تنقید کے لیے عموماً دو طرح کی دلیلوں کا سہارا لیا گیا:

اوّل: یہ کہا گیا کہ نظریات عملی نہیں ہوتے صرف خیالی اورفلسفیانہ ہوتے ہیں اور ان کا بڑبولاپن عملی میدان میں آتے ہی بھک سے اُڑ جاتا ہے، مثلاً:

ا   : گاندھی کےہاں تو مشینوں اورٹکنالوجی یہاں تک کہ ریل گاڑی پر نظریاتی تنقید یا عدم تشدد کا نظریہ جس کے مطابق ملک میں فوج کی ضرورت سے بھی انکار ۔

ب: مارکس کا ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور، جہاں نہ ریاست ہو، نہ حکومت ہو ، نہ امیر، نہ غریب اور نہ طبقاتی کش مکش۔

ج: انارکزم کا ایک ایسا معاشرتی تصور، جہاں نہ کوئی حکومت ہو، نہ کوئی پولیس اور ہرفرد اپنا آپ نگراں ہو، وغیرہ۔

کُل ملا کر یہ کہ نظریات بہت ہی حسین خواب دکھاتے ہیں مگر ان کا رنگ سبز ہوتا ہے۔ حقیقت سےفرار اور یوٹوپیا (خیالی دنیا) سے عشق ان نظریات کی سرشت میں شامل ہے۔ نظریات کا یہ بڑبولاپن اس بات کا غماز ہے کہ نظریات ذہنی عیاشی کی حد تک توٹھیک ہیں لیکن عملی دنیا میں اگر انھیں نافذ کر دیا جائے یا نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا کا کاروبار چندلمحے بھی نہ چل سکے۔ مختلف نظریات پر غیرعملی ہونے کی جو پھبتی کسی جاتی ہے اس میں بہت حد تک صداقت ہے، لیکن اس اعتراف کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نظریے پر غیرعملی ہونے کی تنقید دراصل کچھ نظریات پر تنقید ہے، جو ہرنظریے پر صادق نہیں آتی۔ یہ ثابت کردینے سے کہ شیر کا گوشت حرام ہے، ہاتھی کا گوشت حرام ہے، سورکا گوشت حرام ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرے سے’گوشت‘ ہی حرام ہے۔

دوم: یہ کہا گیا کہ ’’نظریات کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ ’غلط‘ ہوتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو گمراہ کرتے ہیں‘‘۔ اس تنقیدی نہج کی شروعات کرنے والے فریڈرک اینجلز کے مطابق نظریات ’غلط شعور‘(False Consciousness) ہوتے ہیں۔ یعنی کسی نظریے پر ’ایمان‘ لانے میں اس پریقین کرنےوالے کی نیت درست ہوتی ہے، البتہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس نظریے پر وہ ایمان لایا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ یہاں دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ یہ تنقید کرتے وقت شاید اینجلز کو اندازہ نہیں تھا کہ مارکسزم کو بھی کسی زمانے میں نظریے کی حیثیت حاصل ہوگی اور اینجلز کی تعریف کے مطابق اسے بھی ’غلط شعور‘ قرار دینا پڑے گا۔ دراصل ایک کا نظریہ دوسرے کے لیے’غلط شعور‘ ہوا کرتا ہے۔اینجلز کے لیے اگر دوسرے نظریات ’غلط شعور‘ ہیں تو دوسرے نظریات کےماننے والوں کے لیے مارکس اور اینجلز خود ’غلط شعور‘ کا شکار تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرگن ہیبرماس کا کہنا ہے کہ ’’مختلف نظریات اور تصورِ نظریہ پر تنقید، یہ دونوں ہم عمرہیں‘‘۔ سادہ الفاظ میں: نظریہ پر کی جانے والی تنقید بھی درحقیقت نظریاتی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے تازہ مثال ’پوسٹ ماڈرنزم‘ (مابعد جدیدیت) ہے، جو ماڈرن زمانے میں موجود تمام نظریات کے ابطال بلکہ ہرکائناتی اور عالم گیر حقیقت اور تصورِ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے میدان میں اُترا تھا۔ تمام نظریات تو کیا خاک ختم ہوتے البتہ دانش ورانہ حلقوں میں ’پوسٹ ماڈرنزم‘ کو خود ایک نظریے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ یوں بُت شکنی کا دعویٰ کرنے والا خود بُت بن بیٹھا۔

اسلام بحیثیت نظریہ

اسلام، جیساکہ ہم جانتے ہیں، ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک دین ہے، ایک مکمل نظریۂ حیات ہے۔ بطور نظریہ اگر اسلام کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس میں مندرجہ ذیل اہم خصوصیات پاتے ہیں:

۱-  انسانی عقل باوجود اپنی وسعت کے، عملاً محدود ہے۔عمانویل کانٹ کے بعد مغربی فلسفہ بھی اس محدودیت کا قائل ہے۔ یہ منطقی بات ہے کہ جب انسانی عقل اپنے سیاق، ماحول اور تاریخ سے محدود ہوتی ہے، تو اسی انسانی عقل کے ذریعے کسی ایسے نظریے کی ایجاد کی توقع رکھنا جو رنگ، نسل، جنس، وطن، زبان اور زمان و مکان کے تمام تر اختلافات کے باوجود یکساں قابلِ عمل ہو، ایک غیرعقلی اور غیرفطری توقع ہے۔ لہٰذا اسلام، دوسرے نظریات کے برعکس، اس دعوے کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کرتا ہے کہ وہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خالق کائنات کی طرف سے بھیجا ہوا نظام ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام انسانی عقل کو ایک صحیح نظریۂ حیات کو گھڑنے کی نہیں بلکہ اس کو پہچاننے کی ذمہ داری دیتا ہے۔

۲- ایک ناقابلِ عمل یوٹوپیا ہونے کی تہمت اسلام پر نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ اسلام دنیا کا واحد نظریہ ہے، جو اپنی تاریخ میں چالیس سال کا ایسا مثالی دوررکھتا ہے، جس کے بھلے اور کمزور پہلوؤں کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے وہ تیار ہے۔ دیگر نظریات کے پاس صرف مفروضات اور یوٹوپیا ہیں۔ زمین پر وہ اپنا کوئی ایسا مثالی ماڈل پیش نہیں کرسکے، جس کی ذمہ داری وہ بلاجھجک قبول کرسکیں۔ پچھلی صدی میں کہا گیا کہ سوویت یونین، کمیونزم کا اور اسرائیل، یہودیوں کی آئیڈیل اسٹیٹ ہے۔ آج تقریباً سارے کمیونسٹ اور یہودیوں کی اکثریت اس دعوے کو شدومد سے رد کرتی ہے۔

۳- نظریہ اپنے ماننےوالوں میں ایک آنےوالی کل کی اُمید جگاتا ہے اور قربانیاں دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لڑائی میں کامیابی کا یقین دلاتا ہے کہ کامیابی کا یقین نہ ہوتو لڑائی جیتنا تو دُور، لڑنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ اسلام میں کامیابی کا یہ تصور بھی جو اپنے ماننے والوں میں عمل کے لیے مہمیز کرتا ہے دیگر نظریات سے زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ اسلام کامیابی کا دو سطحی تصور پیش کرتا ہے: پہلی سطح کی کامیابی، باطل پر حق کی فتح اور غلبے کے نتیجے میں اجتماعی طور پر اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے۔ دوسری سطح پر کامیابی، فرد کو اپنے اعمال کے نتیجے میں اللہ کی رضا کی صورت میں آخرت میں حاصل ہوتی ہے۔ پہلی سطح کی جدوجہد میں اسلام اپنے ماننے والوں کو نتیجے کا نہیں بلکہ نیت اورکوششوں کا مکلف کرتا ہے، جس سے ایک مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں۔ صحیح سمت میں جی توڑ کوشش پہلی سطح پر اسے کامیابی دلائے نہ دلائے، دوسری سطح کی کامیابی جو کہ اصل کامیابی ہے، وہ اسے حاصل ہوکررہتی ہے۔

۴- اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ انسانی عقل اور جذبات دونوں کو اپیل کرتا ہے۔ بحیثیت نظریہ، اسلام کی سب سے بڑی خوبی اس کا اعتدال ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام فرد کی بے قید آزادی کا قائل، انفرادیت پسندی کا علَم بردار اوربازار میں حکومت کی کسی قسم کی مداخلت کے خلاف ہے۔ نتیجہ؛ سود کا پھیلا ہوا جال، دولت کا ارتکاز، فاقہ کشی، خودکشی، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔ وہیں کمیونزم انسانوں میں جبری مساوات اور فرد پر جماعت کی ترجیح اور کلیت پسندی کا علَم بردار ہے۔ نتیجہ؛ بدترین آمریت، صلاحیتوں کی ناقدری، کاہلی اور نااہلی کا دور دورہ ، سزاے موت، ملک بدری، جنسی انارکی، بکھرتے خاندان وغیرہ وغیرہ۔

ان دونوں نظریات کی انتہاؤں کے بالمقابل، اسلام انسانوں میں بنیادی مساوات کا قائل ہے، یعنی ہرانسان، انسان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے برابر ہے۔ اس برابری میں یہ بات شامل ہے کہ ہرانسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہییں۔ اگر کوئی انسان کسی وجہ سے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے قاصرہے تو یہ اجتماعیت کی ذمہ داری ہےکہ وہ اسے پوراکرے۔ اس بنیادی مساوات کے بعد اسلام فرد کی خلاقانہ صلاحیتوں پرقدغن نہیں لگاتا بلکہ اپنے جوہر دکھلانےکے لیے اسے ایک وسیع میدان فراہم کرتا ہے۔ اگر صرف کمانے کی مثال لی جائے تو اسلام فرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مزاج اور صلاحیتوں کے مطابق کمائے اور جتنا چاہے کمائے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وہ جو کچھ کمائے حلال راستے سے کمائے اور حلال راستے سے خرچ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسے سود، شراب، جوا، قحبہ خانے، ملاوٹ، دھوکے اورفحش فلموں وغیرہ کا کاروبارکرکے پیسہ بٹورنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسے اپنے مال کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔ ان پابندیوں کے ساتھ وہ جو کچھ کمائے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ پھر دولت گردش میں رہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فرد کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے ورثا میں تقسیم کردیا جائے گا۔

 اسی طرح قوم پرستی (Nationalism) اور نسل پرستی (Racism) کی مثال لی جاسکتی ہے۔ اوّل الذکر چندپہاڑوں اور ندیوں یا نقشے پرخود انسان کی کھینچی ہوئی فرضی لکیروں کی بنیاد پر انسانیت کی تقسیم کا قائل ہے۔ آخرالذکر نسل کی بنیاد پر گروہ بندی کا قائل ہے۔ دونوں صورتوں میں فضیلت کا معیارانسان کی کسی مخصوص ملک یا نسل میں پیدایش ہے، جو یقینا حادثاتی ہوتی ہے اختیاری نہیں۔ اس کے بالمقابل اسلام جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی قومیت کا علَم بردار ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ فرد کی اپنے وطن، اپنی نسل، اپنی قوم، اپنی زبان سے محبت فطری امر ہے لیکن یہ محبت عصبیت بن کر حق و باطل کا معیار نہ بن جائے۔ اسلام فضیلت کے صرف ایک معیار کو تسلیم کرتا ہے اور وہ ہے تقویٰ۔ کسی مخصوص قوم یا نسل یا ملک میں حادثاتی طور پر پیدایش اسلام کے نزدیک کوئی معیارِ فضیلت نہیں ہے۔

الغرض، بحیثیت نظریہ، اسلام کی حیثیت سب سے انوکھی اور نرالی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نظریات کو نقشوں سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس حساب سے بھی اسلام دیگر نظریات (نقشوں) سے ممتاز ہے، جنھیں زمان و مکان کی قید میں محصور چند انسانوں نے اپنے محدود علم اور ناقص تجربات کی بنیاد پر بنا لیا تھا اور اپنی ناواقفیت یا کم علمی کی بنا پر انھوں نے یا ان کے متبعین نے یہ سوچ لیا کہ ان کا بنایا ہوا ایک مخصوص علاقے کانقشہ دُنیابھر میں منزل تک رہنمائی کے فرائض انجام دےسکتا ہے۔ اسلام تو خالق کائنات کا بنایا ہوا’نقشہ‘ ہے، جسے دنیا کے کسی نقشے سے اگرکسی حد تک تشبیہ دی جاسکتی ہے تو وہ Google Earth ہے جس کے ذریعے آپ دُنیابھر میں اپنی منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی ابتدائی مثال کی طرف لوٹیں تو ہرانسان کی نگاہوں پر باضابطہ یا بےضابطہ طورپرکسی نہ کسی نظریے کاچشمہ چڑھا ہوا ہے۔مگراسلام ایک ایسا چشمہ ہے جس کا انتخاب فرد پورے ہوش و ہواس میں خود کرتا ہے اور یہ جان کر (بسااوقات آزما کر) کرتا ہے کہ یہ وہ واحد چشمہ ہےجس کا شیشہ صاف وشفاف ہے، جو ہمیں دھوپ اور دھول سے ضرور بچاتاہےلیکن لال کولال، کالے کو کالا، حق کو حق اور باطل کو باطل ہی دکھاتا ہے، جیساکہ مومنین کو دُعا سکھلائی گئی ہے کہ اللّٰھُمَّ اَرِنِی حَقِیْقَۃٌ  الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ   (اےاللہ! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیساکہ وہ فی الواقع ہیں)۔ یا،اَللّٰھُمَّ أَرِنَا  الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ   وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ  (اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل دکھا اوراس سے اجتناب کی توفیق بخشی!)۔

کرنے کے کام

سماجی علوم ہمیں معاشرے کو پڑھنا اورسمجھنا سکھاتے ہیں۔ ان میں پڑھائے جانے والے اصولوں کی حیثیت معاشرے کے لیے کلیدی ہوتی ہے۔ یہ مقاصد کاتعین کرتے ہیں اوران مقاصد کے حصول کے لیے طریقۂ کار کی نشان دہی بھی۔ لیکن کیا یہ سماجی علوم تعصب سے پاک ہیں؟ عمانویل والرسٹین نے اپنے مقالے Eurocentrism and its Avatarsمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سماجی علوم کا وجود یورپی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہوا، تاریخ کے ایک ایسے موڑ پرجب یورپ پوری دنیا کے نظام پرحاوی تھا۔ اس لیے طبعی طور پر سماجی علوم کے مباحث کا انتخاب، انھیں برتنے کے آداب، تحقیق کےطریقۂ کار اورسماجی علوم کے نظریۂ علم (Epistemology) سبھی پر اس ماحول کی گہری چھاپ ہے جس ماحول میں اس کی پیدایش ہوئی ہے‘‘۔

والرسٹین نے صاف کہا ہے کہ ’’یہاں یورپ سے میری مراد نقشے پر موجود کسی جگہ سے زیادہ ایک تہذیب اور ایک فکر ہے۔ مختصر الفاظ میں سماجی علوم عالم گیر اصولوں پر مبنی نہیں ہیں جیساکہ دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ ان تصورات اور توجیہات پرمنحصر ہیں، جن کے ڈانڈے مغرب کے نظریۂ حیات سے جاملتے ہیں‘‘۔ والرسٹین کے مطابق ’’سماجی علوم کو اس یورپی قید سے چھڑانا ایک عظیم علمی خدمت ہے۔ لیکن کیایہ اتنا آسان کام ہے؟ نہیں، اس راستے میں چیلنجز بے شمار ہیں‘‘۔

ایک ایسے زمانے میں مغرب پر کی جانے والی تنقید بھی، خود مغرب کے نظریات کی خوشہ چیں ہے۔ جب نظریات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورایسا لگتا ہے کہ علمی دنیا کا اس بات پر اجماع ہوگیا ہے کہ دُنیا میں اب نظریاتی سطح پر لبرل ڈیموکریٹک کیپٹلزم کا کوئی مخالف نہیں رہ گیا ہے۔ اس ماحول میں اسلامی نظریے کو ماننےوالوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ سماجی علوم میں اجتہادی مہارت کا حصول اور مروجہ سماجی علوم کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرکے ایک نئی نظریاتی بحث کو شروع کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑا فکری احسان آج کی دنیا پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظریاتی بحث کو مندرجہ ذیل خطوط پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے:

    ۱-  ہر انسان کا ایک نظریہ ہوتا ہے بالفاظِ دیگر ہرانسان کی نگاہوں پر کسی نہ کسی نظریے کا چشمہ چڑھا ہوا ہوتا ہے۔

    ۲-  بیرونی حقائق ہمیں اپنے نظریات کے مطابق نظر آتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سامنےموجود شے کا رنگ اوراس کی جسامت ہمیں اپنے چشمے کے رنگ اور نمبر کی مناسبت سے نظر آئے گی۔

    ۳-  عام طور پر لوگ فاتح یا غالب قوم کےنظریات سے متاثر ہوتے ہیں اور جانے انجانے میں ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہمارا چشمہ ہماری آنکھوں کے مطابق نہیں ہے بلکہ یورپی آنکھوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔

    ۴-  فاتح یا غالب قوم کے نظریات دوسرے سیاق میں قابلِ عمل نہیں ہوتے اور ان کے ماننے والے عموماً احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور حقائق کا غلط اور گمراہ کن اِدراک کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگرچشمہ اگر اپنی آنکھوں کے مطابق نہ ہو توحقائق مسخ شدہ نظر آتے ہیں۔

    ۵-  ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نظریے کو قبول کیا جائے جو ہرحالت میں اور مقام پر ہماری اسلامی اور ایمانی وابستگی کے مطابق ہماری رہنمائی کے فرائض انجام دے سکے۔ بالفاظِ دیگر اس چشمے کو جو ہماری نگاہوں پر چڑھ گیا ہےبدل کر ہمیں شعوری طورپر ایک ایسا چشمہ پہننا چاہیے، جو ہمیں حقائق کو ویسا ہی دکھائے جیساکہ وہ ہیں۔ اور اسلام ٹھیک ٹھیک صورتِ حال دکھاتا اورقولِ سدید سکھاتا ہے۔

قیصر جسٹینین اوّل کے حکم پر ۵۳۲ء سے ۵۳۷ء کے دوران آیا صوفیہ کی تعمیر ہوئی۔ یہ عمارت، تب سے لے کر اب تک، بازنطینی طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے، جسے فن تعمیرات کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اپنی اوّلین شکل میں اس عمارت کو یونانی آرتھوڈوکس کیتھڈرل کے طور پر بنایا گیا۔ بعد ازاں اپنی طویل تاریخ میں یہ پر شکوہ عمارت، عروج و زوال کی کئی داستانوں کی گواہ بنی۔ آئیے کچھ پہلوؤں پر ہم غور کرتے چلیں:

یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ عیسائی دنیا مبہم و متضاد تعلیمات پر مبنی کئی فرقوں میں تقسیم ہے۔ خاص طور پر یونانی آرتھوڈوکس اور رومن کیتھولک عیسائیوں کے درمیان نہایت بنیادی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اوّل الذکر پوپ کی معصومیت کا قائل نہیں اور مؤخر الذکر گنہگار تسلیم نہیں کرتا۔ ایک کے نزدیک پادریوں کی شادی ہوچکی ہو تو جائز ہے، دوسرے کے ہاں کسی حال میں جائز نہیں۔ دونوں کے درمیان عالم برزخ کے وجود و عدم وجود اور محطات الصليب (stations of the cross) کے عقیدے کے اقرار و انکار پر عداوتیں چلی آرہی ہیں۔ اوّل الذکر کے نزدیک مذہب کی اساسی تعلیمات و عقائد میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں، تو مؤخر الذکر عقائد میں ارتقا کے قائل ہیں۔ یہ ایسے بنیادی اختلافات ہیں، جن سے یہ دو مسلک نہیں بلکہ دو مختلف دین نظر آتے ہیں۔ صرف باہر سے نہیں بلکہ ان کا باہمی رویہ بھی تاریخی طور پر ایسا نہیں رہا ہے، جس سے ان کے باہمی اختلافات پر محض فرقہ وارانہ اور مسلکی ہونے کی تہمت لگائی جاسکے۔

ان کے اختلافات نے وقتاً فوقتاً کبر و نخوت اور تفسیق و تکفیر کی ہی نہیں بلکہ سیاسی محاذ آرائی اور جنگ و جدال کی شکل اختیار کی ہے۔ چنانچہ صلیبی جنگوں کے دوران ۱۲۰۴ء میں کیتھولک صلیبیوں نے آرتھوڈوکس بازنطینیوں پر حملہ کر دیا اور قسطنطنیہ پر قبضہ جمالیا۔ یہ ایک ہی مذہب کو ماننے والوں کے درمیان کا ایک اتفاقی سیاسی جھگڑا نہ تھا، ورنہ اتنی رواداری تو برتی جاسکتی تھی کہ آیا صوفیہ کے مذہبی تشخص کو بحال رکھا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب صلیبی، قسطنطنیہ کےآرتھوڈوکس شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے، ان کے اموال و املاک پر قابض ہورہے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے آیا صوفیہ کی سابقہ حیثیت کو ختم کرکے اسے رومن کیتھولک کیتھڈرل بنا ڈالا۔ پھر جب بازنطینی سلطنت کو ۱۲۶۱ء میں دوبارہ اقتدار حاصل ہوا، تو اس وقت آیا صوفیہ کی شناخت میں پھر انقلاب آیا اور وہ آرتھوڈوکس کیتھڈرل کی حیثیت میں لوٹ گیا۔ آرتھوڈوکس اور کیتھولک عیسائیوں کے درمیان یہ عداوت و مخاصمت ایسی شدید تھی کہ آرتھوڈوکس عیسائی، مسلمانوں کو کیتھولک عیسائیوں سے بہتر سمجھتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا اقرار نہ تھا بلکہ ان کے بڑے بڑے مذہبی رہنما باقاعدہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے قول تاریخ کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ قسطنطنیہ پر ۱۲۰۴ء کی صلیبی فتح اور ۱۴۵۳ء کی عثمانی فتح کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کی کیتھولک صلیبیوں سے بدظنی محض مسلکی تعصب پر ہی نہیں بلکہ عقلی و تجرباتی بنیادوں پر بھی قائم تھی۔

چند غور طلب پہلو

آج ترکی کی آبادی تقریباً ۸کروڑ ۲۰لاکھ ہے۔ اس میں صرف ۰ء۲  فی صد عیسائی ہیں۔ یہ تعداد زیادہ سے زیادہ دو سے تین لاکھ بنتی ہے۔ ان میں کم و بیش۸۰ ہزار اورینٹل آرتھوڈوکس، ۳۵ہزار کیتھولک، ۱۸ ہزار انطاکی، ۵ہزار یونانی آرتھوڈوکس، اور ۸ہزار پروٹسٹنٹ شامل ہیں۔

باقی سوالوں کو فی الحال نہ چھیڑتے ہوئے اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ مفروضہ انصاف کا تقاضا مسجد آیا صوفیہ کو چرچ بنادینا ہی ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟

       کیا اسے یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کے سپرد کیا جائے کہ یہ انھی کے فرقے کا کیتھڈرل رہا ہے؟ مگر ان کی تعداد تو بڑی کم ہے، تاریخ کے اس طویل سفر کے بعد اس اقلیت کو ترکی کی موجودہ عیسائی اقلیت کا نمایندہ نہیں سمجھا جاسکتا۔

       کیا اسے اورینٹل آرتھوڈوکس کو دیا جائے کہ ان کی تعداد ترکی میں زیادہ ہے؟ مگر  اورینٹل آرتھوڈوکس دنیا بھر کے عیسائیوں کی نمایندگی نہیں کرسکتے۔

       کیا اسے رومن کیتھولک فرقے کو دیا جائے کہ ان کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے؟ مگر انصاف کی آڑ میں یہ تو شدید ترین ظلم ہوگا کہ یہ تاریخی عمارت انھیں بھینٹ میں دے دی جائے، جو نہ صرف اس معبد بلکہ اس شہر اور اپنے ہم مذہب شہریوں کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے۔

       کیا پھر یہ پروٹسٹنٹس کو دے دی جائے کہ وہ نسبتاً نئے اور تاریخی طور پر کم متنازع ہیں؟

       یا اسے ورلڈ کونسل آف چرچز یا اسی طرح کے کسی ادارے کے حوالے کردیا جائے؟

یہ سوالات بڑے ٹیڑھے اور ناہموارہیں۔

اس پورے قضیے میں ایک قابلِ ذکر سوال یہ ہے کہ کیا کسی عیسائی فرقے نے آیا صوفیہ کے لیے اپنا دعویٰ بھی پیش کیا ہے، یا قانونی جنگ لڑی ہے؟ دلائل و شواہد مہیا کرائے ہیں؟ ۱۴۵۳ء سے نہ سہی، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۵ء سے کوئی جدوجہد کی ہے؟ تحریک چلائی ہے؟ غلط ہی سہی کم از کم دعویٰ تو کرتے۔ چلیے سلطان محمد فاتح کو ظالم قرار دے کر، عیسائی ان سے ڈر گئے۔ اسی طرح اردوغان سے بھی ترکی کے عیسائی ڈر گئے۔ لیکن پوپ سمیت دنیا بھر کے عیسائی کس سے اور کیوں ڈرے رہے؟

الٹرا لبرل و سیکولر عینکیں اتار کر دیکھیں تو بات صاف سمجھ میں آجائے گی۔ آیا صوفیہ کی عجائب گھر والی حیثیت قانونی طور پر ناجائز ٹھیری ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کی مسجد والی حیثیت قانونی و تاریخی حیثیت سے اتنی مسلّم ہے کہ کوئی قابل ذکر عیسائی فرد بھی اسے چرچ نہیں کہہ رہا ہے۔ ورلڈ کونسل آف چرچز کے عبوری سیکریٹری جنرل آیان ساکا نے اردوغان کو لکھے اپنے خط میں آیا صوفیہ کو عجائب گھر سے مسجد بنانے کے فیصلے پر’افسوس‘کا اظہار کیا ہے۔ اس کونسل کو عالمی سطح پر ۳۵۰سے زائد پروٹسٹنٹ، آرتھوڈوکس، انجلائی چرچوں کی سرپرستی کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن اس کونسل کے جنرل سیکریٹری نے رسمی لفظوں میں بھی نہیں کہا کہ ’’اصل انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنادیا جائے‘‘۔ پوپ فرانسس نے بھی اس اقدام پر’درد‘تو محسوس کیا، لیکن وہ بھی ایسی دیدہ دلیری کا مظاہرہ نہ کرسکے کہ اس مرکز توحید کو چرچ بنانے کی بات کہتے۔ ان راہبوں کی خداپرستی کی شان نرالی ہے۔ خداے بزرگ و برتر کی عبادت گاہ تماشا گاہ اور عجائب خانہ بن کر اُجڑی رہے یہ انھیں منظور ہے، مگر وہ خدا کے بندوں کے سجدوں سے معمور ہو، یہ منظور نہیں۔ ہمارے کچھ بھائیوں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ تثلیث کے حامی تو مسجد کو عجائب گھر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان موحدین کا کیا کیا جائے جو مسجد کی بازیافت پر بارگاہ الٰہی میں ہدیۂ تشکر پیش کرنے کے بجائے فیس بک پر اس بات کا غم منا رہے ہیں کہ مسجد، مسجد کیوں بن گئی، چرچ کیوں نہ بنی؟

حقیقت یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنانے کی بحث انصاف سے زیادہ فتنے کا وہ دروازہ ہے، جس کے اوروں کی عیاری سے ٹوٹنے کا اتنا امکان نہیں، جتنا سادگی سے متنازع بنائے جانے کا ہے۔

مسجد آیا صوفیہ : تاریخی پس منظر اور قانونی حیثیت

آج جہاں مسجد آیا صوفیہ قائم ہے اس زمین پر انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق پہلے پہل قسطنطین اوّل نے ایک پرانے غیر عیسائی (pagan) معبد کی بنیادوں پر ۳۲۵ء میں ایک چرچ تعمیر کرایا۔ ملک کے داخلہ ہنگاموں کے دوران ۴۰۴ء کو لکڑی سے بنے اس سیدھے سادے کلیسا میں آگ لگ گئی۔ کونسٹانس اوّل نے اس کی تعمیر نو کرائی۔ لکڑی سے بنی یہ عمارت ایک بار پھر داخلی خلفشار کے دوران ۵۳۲ء میں نذر آتش ہوگئی۔ جس کے بعد جسٹینین اوّل نے دو ماہر معماروں کو تعمیر کا کام سونپا۔ ۵۳۷ء میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ مختصراً یہ کہ ۳۲۵ء سے قبل اس جگہ کی حیثیت ایک غیر عیسائی معبد، مابعد۳۲۵ء اس کی حیثیت ایک چرچ، بعد ازاں خصوصاً ۵۳۷ء کے بعد اس کی حیثیت بازنطینی کیتھڈرل کی ہوگئی۔ عیسائیوں کے باہمی اختلافات اس دوران شدت اختیار کرتے رہے، جس کے اثرات آیا صوفیہ پر بھی پڑے۔ خصوصاً آٹھویں صدی عیسوی میں عمارت سے بتوں، تصویروں اور کچھ دیگر شعائر کو ہٹانے کے لیے ایک مہم چلی۔ اس متنازعہ دور کو Iconoclastic Period بھی کہتے ہیں۔ ۱۰۵۴ء میں یہ قضیہ اپنے انجام کو پہنچا اور کیتھڈرل پر یونانی آرتھوڈوکس فرقے کے عیسائیوں کا تسلط قائم ہوگیا۔ مسیحی تاریخ میں اس اہم وقوعے کو The Great Schism کہا جاتا ہے۔

۱۲۰۴ء میں قسطنطنیہ پر صلیبیوں کے حملے کے نتیجے میں آیا صوفیہ کو رومن کیتھولک کیتھڈرل میں تبدیل کردیا گیا۔ ۱۲۶۱ء میں بازنطینیوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر اس کی یونانی آرتھوڈوکس کیتھڈرل والی حیثیت بحال ہو گئی۔

قسطنطنیہ کی فتح اور آیا  صوفیہ

۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح کی قیادت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر فتح حاصل کی۔ قسطنطنیہ استنبول اور کیتھڈرل آیا صوفیہ، جامع کبیر آیا صوفیہ ہوگیا۔ کیتھڈرل کی مسجد میں یہ تبدیلی کیا شرعاً و قانوناً جائز ہے؟ اس سوال پر ذرا رُک کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ذرا رُکنے سے میری مراد تین اہم نکات کو ذہن میں تازہ کرلینے سے ہے:

پہلا نکتہ: خیال رہے کہ اپنے تمام تر عقل و شعور کے باوجود انسان ایک مادی و حسی وجود ہے اور اکثر و بیش تر خود کو زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد نہیں کرپاتا۔ تاریخ کے مطالعے کی بدترین شکل یہ ہے کہ ہم اپنے دور میں رہ کر اپنے دور کے مسلمات کے مطابق ماضی کی ہر چیز کا جائزہ لینے لگیں اور بدقسمتی سے اکثر ایسا ہی کیا جاتا ہے، جو مطالعہ تاریخ کے باب میں انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ ایسی تنقید آج کے کسی آٹھ سالہ پوتے کی اٹھاسی سالہ دادا پر کی گئی اس تنقید کے مترادف ہے کہ ’’اتنے بڑے ہوگئے ہیں مگر آپ کو موبائل چلانا کیوں نہیں آتا؟‘‘ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ٹکنالوجی کا معاملہ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ذہن و تصورات کی دنیا میں بھی ارتقا ہوتا ہے۔ ٹکنالوجی میں ہونے والا ارتقا بھی فکر کی دنیا میں ہونے والے ارتقا کا بالواسطہ ثبوت ہے۔

دوسرا نکتہ: اسلام ایک عملی دین ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو بے جا مشقت میں مبتلا نہیں کرتا،اور نہ غیر عملی قسم کی (idealistic )تعلیمات دیتا ہے۔ اس کے اپنے آدرش (ideals) بہت اونچے ہیں، لیکن کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں، جن میں فیصلے دوسروں کے طرز عمل کو مدنظر رکھ کر لیے جاتے ہیں اور لیے جانے چاہییں۔ یہ عملیت اسلام کا حسن ہے۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران بھی پیڑ پودے کاٹنے کی ممانعت ہے، — لیکن — جنگی ضرورت کے تحت ایسا کیا جاسکتا ہے؛ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور راہبوں کو مارنے کی ممانعت ہے، — لیکن اگر وہ خود حملہ آور ہوجائیں تو ان پر بھی تلوار اٹھائی جائے گی؛ حرام مہینوں میں قتال منع ہے، — لیکن — اگر دشمن اس حرمت کا پاس نہ رکھے تو قتال کیا جائے گا؛ حدود حرم میں قتال منع ہے، — لیکن — دشمن اگر آمادہ جنگ ہو تو حرم میں بھی قتال ہوگا۔ یہ صرف چند کا ذکر تھا ورنہ بین الاقوامی تعلقات پر منطبق ہونے والی قرآن و سنت کی بہت سی تعلیمات ہیں، جہاں اپنے طرزِ عمل کے لیے سامنے والے کے طرز عمل کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔

ذرا آگے بڑھ کر ہمارے بہت سے فقہا اور مفکرین نے کہا ہے کہ جزیہ، ذمی، جنگی قیدیوں، لونڈی اور غلام وغیرہ کے سلسلے میں فقہ اسلامی کے بہت سے احکام (خصوصاً وہ جو اگلے وقتوں میں ذرا regressive معلوم ہوں) وقت کے قوانین کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسلام کا مطمح نظر تاجروں کی حوصلہ افزائی اور تجارت کا فروغ ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’آزادانہ تجارت‘ (FreeTrade) کا تصور اسلامی تعلیمات سے زیادہ میل کھاتا ہے، لیکن حضرت عمرؓ نے دیگر ممالک میں مسلم تاجروں پر محصول لگائے جانے کے جواب میں، بلاد اسلامیہ میں آنے والے غیر مسلم تجار پر بھی محصول عائد کیا۔ یہ اللّٰہ کے دین کا حسن ہے اور بالغ نظری ہے ہمارے فقہا کی، جنھیں اللّٰہ نے دین کی سمجھ عطا کی کہ ہمارے دین میں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

تیسرا نکتہ: ہمارے فقہ کی کتابوں میں دو قسم کی فتوحات کا تذکرہ ہے۔ بذریعہ صلح اور بزورِ قوت۔ صلح کی صورت میں ظاہر ہے کہ مقبوضہ آبادی، ان کے اموال و جایداد، اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ اور بزور قوت فتح پانے کی صورت میں یہ وقت کے اولوالامر کی صوابدید پر ہوگا کہ وقت اور حالات کے تناظر میں چاہے تو سختی کا رویہ اختیار کرے اور چاہے نرمی اور احسان کا۔ اسلامی تاریخ میں کم ہی ایسا ہوا جب سختی کے رویے کو اختیار کیا گیا۔ عام طور پر عفو و درگزر اور نرمی و احسان کی مثالیں ہی ملتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سختی ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ یوں ایک قانونی مسئلے میں منتخب اور یک طرفہ مثالیں جذباتی انداز میں پیش کرکے مسجد آیا صوفیہ کی بازیافت پر سوالات اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ یاد رہے سیرت میں فتح مکہ ہی نہیں طائف، حنین، بنونضیر اور بنوقریظہ بھی آتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے امام ابویوسف کی کتاب الخراج ہے، جس میں تفصیل سے فتح کی دونوں قسموں پر بحث کی ہے اور مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

ان بنیادی نکات کی وضاحت اس لیے ضروری ہے، تاکہ بے جا مثالیت پسندی کے بجائے ہم اپنے ماضی اور اسلاف کے ساتھ انصاف کرسکیں اور حال میں احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔

اب آئیے ۱۴۵۳ء کے قسطنطنیہ چلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب عثمانی فوجیں شہر میں داخل ہوئیں تو قتل عام ہوا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس ’قتل عام‘ سے کیا مراد ہے؟ دراصل دشمن کے شہر کو جب بزور قوت فتح کیا جاتا تھا، تو ان کا زور توڑ دینے کے لیے شہر میں قتال کیا جاتا تھا۔ جس دشمن نے آخر تک مزاحمت کی ہو، اس کی طرف سے شہر میں گھستے ہی غافل ہو جانا یقیناً دانش مندی نہ تھی۔ یہ سوچنا سادہ لوحی ہوگی کہ فوجوں کی مزاحمت صرف شہر کے صدر دروازے پر ہوگی، حالانکہ ہاری ہوئی فوج کے بے ترتیب حصے اور جوشیلے نوجوان ہر گلی کوچے میں مزاحمت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک بے ضرر شہری اور دشمن فوج کے سپاہی میں امتیاز مشکل تھا۔ چنانچہ مسلم افواج کی کوشش یہ ہوتی تھی بلکہ باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ ’’لوگ گھروں میں دروازہ بند کرلیں وگرنہ انھیں دشمن کا سپاہی سمجھا جائے گا‘‘۔ اسے آپ چاہیں تو موجودہ دور میں فسادات کے دوران کرفیو اور شوٹ ایٹ سائٹ سے یک گونہ تشبیہ دے کر بات سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عین فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کیا تھا کہ جو ابوسفیان کے گھر، حکیم بن حزام کے گھر، کعبے میں، یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے رہے اسے امان ہے۔ بھلا بتائیے سڑک پر چلنے والے ایک عام شہری کو امان کیوں حاصل نہیں تھی؟ کیونکہ اس وقت تک اسلامی افواج نے شہر پر مکمل تسلط حاصل کرکے، نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے کر امن و امان قائم نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی شہر کا کنٹرول ہاتھ آیا لوگوں کو مکمل امن عطا ہوا۔ قسطنطنیہ میں جس ’قتل عام‘ کا ذکر ہوتا ہے، اگر اس کی نوعیت یہ تھی تو پھر یہ ناگزیر تھا۔ اگر اس کے علاوہ کچھ تھی تو اسے بے احتیاطی کہیے یا جواں سال سلطان کے نظم کی کمزوری —، یقیناً اس کا جواز نہیں پیش کیا جائے گا، لیکن ایسی بے احتیاطی کی وجہ سے پوری فتح کو متہم نہیں کیا جائے گا۔

میری اپنی راے میں قتال کی نوعیت وہ تھی جس کا ذکر دشمن کا زور توڑنے اور شہر پر تسلط حاصل کرنے کے ضمن میں کیا گیا۔ چنانچہ عزیر احمد لکھتے ہیں کہ شہر میں داخلے کے بعد عثمانی فوج نے’’فتح کے ابتدائی جوش میں قتل عام شروع کردیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب یہ جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور نیز یہ دیکھ کر کہ شہر والوں کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوئی، انھوں نے اپنی تلواریں نیام میں کرلیں‘‘(دولت عثمانیہ، جلد اول)۔ یعنی جب مزاحمت نہیں ہوئی (یا ہونی بند ہوگئی) تو عثمانی تلواریں بھی نیام میں چلی گئیں۔ عزیر احمد ایورسلے کو نقل کرتے ہیں جو ۱۲۰۴ء کے بھیانک صلیبی مظالم کا تذکرہ کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح کی افواج کے بارے میں لکھتا ہے کہ شہر میں’’داخلے کے ابتدائی چند گھنٹوں کے بعد اس موقع پر کوئی قتل عام نہیں ہوا، آتش زنی بھی زیادہ نہیں ہوئی۔ سلطان نے گرجاؤں اور دوسری عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہا‘‘۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ مورخ اکبر شاہ نجیب آبادی لکھتے ہیں،’’قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن و امان عطا کیا، جو لوگ اپنے مکانوں اور جایدادوں پر قابض رہےاور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجز آیا صوفیہ کے) علیٰ حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان نے بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوا رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خاں فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہوگئے، جو عیسائی سلطنت میں بھی ان کو حاصل نہ تھے۔ عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔ گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ جنگی اسیروں کو، جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔‘‘(تاریخ اسلام، جلد سوم)

آیا صوفیہ کی خصوصی حیثیت

اختصار کے ساتھ کہیں تو سلطان محمد فاتح نے دشمن پر فتح پاکر ان کے ساتھ قانونی نہیں بلکہ احسان کا معاملہ فرمایا۔ لیکن بہرحال ایک آیا صوفیہ کے معاملے میں یہ روش اختیار نہیں کی۔ ویسے تو اس بات کا الگ جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ قانون کی رو سے جب انھیں پورے شہر پر تسلط کا اختیار تھا اور انھوں نے اس قانونی حق کو استعمال نہ کرتے ہوئے ہر معاملے میں، بجز ایک کے، احسان کی روش اختیار کی تو کون سا سوال باقی رہ جاتا ہے۔ اور آیا صوفیہ کے استثنا کی جو سمجھ،سمجھ میں آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

آیا صوفیہ کوئی عام چرچ نہیں بلکہ ایک کیتھڈرل تھا۔ کیتھڈرل مرکزی چرچ کو کہتے ہیں اور دیگر چرچ اس مرکزی چرچ کے تابع ہوتے ہیں۔ ایم جے ہگنس اور ایف نکس بازنطینی چرچ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسے سمجھنے کے لیے ایک مسیحی جہانی ریاست (Christian World State) کے تصور کو سمجھنا ہوگا کیونکہ سلطنت کی توسیع پسندانہ اور سامراجی پالیسیوں کے نفاذ میں چرچ ایک مرکزی آلہ کار تھا۔ بادشاہوں کی تاجپوشی آیا صوفیہ میں بطریق کے ہاتھوں ہوتی تھی۔ یہ چرچ (بطور ایک عبادت گاہ نہیں ایک ادارہ) کی طاقت ہی تھی کہ بسااوقات بادشاہ اور بطریق کے درمیان بھی قوت و اقتدار کی جنگ چھڑ جاتی تھی۔ مارک کارٹ رائٹ بتاتے ہیں کہ صرف بطریق نہیں بلکہ مقامی بشپ بھی سیاسی قوت و اقتدار کے مالک تھے۔ وہ بڑے بڑے قصبوں میں بادشاہ اور بطریق کے نمایندوں کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کے پاس بے شمار دولت ہوا کرتی تھی۔ دولت و طاقت اور روحانی اثر و رسوخ کی بدولت انھوں نے ایک طرح سے متوازی اقتدار قائم کررکھا تھا۔ اور ڈاکٹر عمیر انس بھائی کے الفاظ میں:’’آیا صوفیہ کی حیثیت سبھی تاریخی روایات کے مطابق محض مذہبی عمارت کی نہ تھی بلکہ ایک سیاسی اور عسکری ہیڈکوارٹر کی بھی تھی، اس لیے اس کے ساتھ مذہبی عمارتوں والا سلوک کیا جانا ممکن نہیں تھا۔ مزید یہ کہ اس زمانے کی صلیبی جنگیں چرچ کے ذریعے ہی انجام دی جا رہی تھیں اور پوپ حضرات ہی جنگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے، لہٰذا پوپ کی اور ان کے مراکز کی حیثیت ’’عام عبادت گاہوں، مدرسوں یا خانقاہوں جیسی نہ تھی‘‘۔

پھر کیتھڈرل سے بہت سے توہمات وابستہ تھیں۔ ایڈورڈ گبن جیسے مؤرخ نے ان توہمات کا مذاق اڑایا ہے کہ کس طرح چرچ میں موجود لوگ آخر تک ایک فرشتے کے انتظار میں تھے لیکن فرشتے کو نہ آنا تھا، وہ نہ آیا (The Decline and Fall of the Roman Empire، جلد۶)۔  اس سے بالواسطہ طور پر یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کیسی ہی جھوٹی بشارتوں کی بنیاد پر لیکن کیتھڈرل سے بالکل آخری وقت تک سلطان کی افواج کی مزاحمت ہوئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قانونی حق رکھنے کے باوجود سلطان نے اس جنگی رہنمائی کے مرکز کو نشانہ بنانے کا حق استعمال نہیں کیا۔

اس لیے ایمان داری سے دیکھا جائے تو آیا صوفیہ کی حیثیت دہلی کی جامع مسجد جیسی نہیں بلکہ لال قلعہ کی تھی۔ ایک نئی مفتوحہ سرزمین پر قوت و اقتدار کے ایسے اہم مرکز پر اگر ایک فاتح نے اپنے قبضے کو برقرار رکھا بلکہ مزید احسان کا رویہ اختیار کرکے اسے وقف کردیا، تو اس پر اعتراضات بلاجواز نظر آتے ہیں۔ 

فیصلے کی قانونی بنیادیں

۱۴۵۳ء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک، جب اتاترک کی ایما پر مسجد پر تالے ڈال دیے گئے، مسجد آیا صوفیہ میں نمازیں ادا ہوتی رہیں۔ ۱۹۳۴ء میں سیکولر ترک کابینہ نے آیا صوفیہ کو مسجد سے ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک عدالتی نہیں بلکہ آمرانہ فیصلہ تھا کیونکہ ترکی میں کابینہ کی حیثیت ایک اعلیٰ ترین انتظامی ادارے کی رہی ہے۔ اس غیر ضروری، غیر معقول، اور غیر قانونی فیصلے پر عشروں تک عمل ہوتا رہا۔ اس دوران مسجد کی بازیافت کی کوششیں لگاتار ہوتی رہیں۔ بالآخر جولائی ۲۰۲۰ء میں کونسل آف اسٹیٹ نے، جسے ترکی کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کی حیثیت حاصل ہے، ۱۹۳۴ء کے فیصلے کو غیر قانونی ٹھیرایا اور یوں مسجد کے مسجد بننے کی راہیں ہموار ہوئیں۔ فیصلے کی قانونی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ صرف اس فیصلے کو پڑھ لیا جائے تو بہت سے اعتراضات آپ سے آپ ختم ہوجائیں۔ کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:

    ۱- آیا صوفیہ کو مسجد سے عجائب گھر بنانا سلطان محمد فاتح کی وصیت اور قانونِ وقف کی خلاف ورزی تھی۔

    ۲- سلطان کے ’وقف‘ کی حیثیت غیرمنقولہ (non-transferable) ہے۔

    ۳-  ریاست ’وقف‘ جایدادوں کے امین (custodian) کی حیثیت رکھتی ہے، اسے اس نوعیت کے تصرفات کی اجازت نہیں ہے۔

ناواقفیت کے نتیجے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ ’’آیا صوفیہ کو عجائب گھر سے مسجد بنانے کا فیصلہ یونیسکو کے Protection of World Cultural and Natural Heritage کنونشن کے خلاف ورزی ہے‘‘۔ اس بات پر عدالت نے پہلے ہی غور کر لیا تھا، چنانچہ فیصلے میں کہا گیا کہ:

    ۴-  مسجد سلطان احمد کی طرح ایسی بہت سی heritage sites ہیں، جو بطور مسجد استعمال ہورہی ہیں۔ یونیسکو کے کنونشن میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے آیا صوفیہ کا استعمال اسلامی قانون کے مطابق نہ کیا جاسکے۔

میں نے اس فیصلے پر (جس پر اعتراض کرنے والے تعصب کی تہمت بھی لگا سکتے ہیں) اکتفا نہیں کیا، بلکہ یونیسکو کے اس کنونشن کا حرف بہ حرف مطالعہ کیا اور عدالت کے اس تبصرے کو قرین انصاف پایا۔ حتیٰ کہ یونیسکو نے اپنے جس بیان میں اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اس میں بھی اس فیصلے کو کنونشن کے خلاف ورزی نہیں قرار دیا ہے۔ اس بیان میں صرف اتنا لکھا ہے کہ: ’اس فیصلے کے نتیجے میں اگر عمارت تک عام لوگوں کی رسائی میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا عمارت کے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی کی جاتی ہے تو یہ کنونشن کے خلاف ورزی ہوگی‘۔ اب، جب کہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ زائرین پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور یہ کہ کوئی ٹکٹ بھی نہیں لگے گا تو اس سے رسائی کے بڑھنے ہی کا امکان نظر آتا ہے گھٹنے کا نہیں!

خلاصۂ کلام یہ کہ آیا صوفیہ کی زمانہ ماقبل تاریخ کی عبادت گاہ سے لے کر، ایک چرچ اور مختلف عیسائی فرقوں کے کیتھڈرل، مسجد اور عجائب گھر تک مختلف حیثیتیں رہی ہیں۔ اور یہ کہ قانون کی کوئی بھی تعریف متعین کرلی جائے، اس کی مسجد والی حیثیت کو غیر قانونی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔

 مومنانہ طرزِ فکر و عمل

بحث سوچنے سمجھنے والے زندہ معاشرے کا ایک لازمی خاصہ ہے۔ صحت مند بحثیں ایک صحت مند معاشرے کی علامت ہیں اور بیمار بحثیں بیمار معاشرے کی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کسی معاشرے کی ذہنی سطح، علمی مزاج، فکری پختگی، نظریاتی افق، تنقیدی سوچ، باہمی رواداری اور اخلاقی قوت کو جانچنا مقصود ہو تو اس بات کا مطالعہ کافی ہوگا کہ وہاں بحثوں کے موضوع کیا ہیں اور  یہ بحثیں کیسے کی جاتی ہیں؟

بیمار بحث کی بات کریں تو اس کی دوسری سب سے بڑی علامت شخصیت اور ذاتیات پر اتر آنا ہے۔ یہ اتنی معقول اور واضح سی علامت ہے کہ، عمل ہو نہ ہو، اس کی طرف عام طور پر توجہ ہو ہی جاتی ہے۔ توجہ مریضانہ بحث کی پہلی بڑی علامت کی طرف نہیں جاتی اور وہ یہ ہے کہ نہ دعویٰ سمجھا جائے، نہ جواب دعویٰ سمجھا جائے اور بحث میں چھلانگ لگادی جائے۔ ایسے میں کئی مرتبہ بڑی مضحکہ خیز صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ کس دلیل سے کس دعوے کی تصدیق ہورہی ہے، کس حد تک ہورہی ہے؟ یہ سمجھنا بھی کامیاب مباحثے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ فیس بک اور چائے خانوں پہ ہونے والی آدھی سے زیادہ بحثیں صرف ایک دوسرے کے دعوے اور اس کے حدود اربعہ کو سمجھ لینے سے ختم ہوجائیں گی۔

قضیہ آیا صوفیہ پر جو بحث چھڑی ہے، اس میں علمی و تحقیقی باتوں سے لے کر جذباتی اور مناظراتی مواعظ کی بھرمار رہی۔ صحیح اور غلط دعوے کیے گئے، اور دونوں طرف سے صحیح اور غلط دلیلوں کا تبادلہ ہوا۔

تاہم، اس حوالے سے ہم نے دیکھا کہ اس صحیح دعوے کی تائید میں بے وجہ کمزو دلائل بھی پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کے ۳۶۰بتوں کو توڑ کر اسے مسجد بنایا تھا۔ چونکہ کعبہ اول روز سے توحید کا عالمی مرکز بنایا گیا تھا اور سمت مخالف کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ کسی مسجد کو اگر بت خانہ یا کلیسا بنالیا جائے تو بھی اسے دوبارہ مسجد بنانا غلط ہے۔ اس لیے یہ بات، جو کہ بجائے خود صحیح ہے، بطور دلیل یہاں بے محل ہے۔ دوسری جانب سے یروشلم کی فتح کے وقت جو بے مثال اسوۂ فاروقی سامنے آیا تھا، اسے پیش کیا گیا کہ انھوں نے کلیسا سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا یہاں تک کہ وہاں نماز بھی نہ پڑھی۔ یہ صحیح بات بھی یہاں بطور دلیل بے محل ہے کیونکہ اول تو یروشلم بذریعہ صلح فتح ہوا تھا۔جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ احسان کے اس رویے کے لیے کوئی دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ قسطنطنیہ ہی میں آیا صوفیہ کے علاوہ دیگر معابد کے ساتھ سلطان محمد فاتحؒ نے یہی رویہ اختیار کیا اور انھیں ان کے حال پر برقرار رکھا۔ بات ہورہی تھی کہ اسلامی تاریخ سے کوئی ایسی مثال پیش کی جاتی (اور لاتعداد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں) کہ بزورِ قوت فتح کے باوجود معابد کو ان کے حال پر باقی رکھا گیا تو بھی یہ مسجد آیا صوفیہ کے خلاف کوئی طاقت ور دلیل نہ ہوتی۔ ایسا اس لیے کیونکہ فریق اول کا یہ دعویٰ ہی نہ تھا کہ مفتوحہ علاقوں کی ساری عبادت گاہوں کو ضرور بالضرور ہی مسجد بنالینا چاہیے۔

ایک مومن ہر حال میں اعتدال و توازن کی راہ اختیار کرتا ہے۔ دوران بحث وہ غلطیاں کرسکتا ہے لیکن جان بوجھ کر کسی باطل دلیل کا سہارا نہیں لے سکتا۔ لیکن اللّٰہ معاف کرے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دورانِ بحث الزامی تقابل کی یہ عجیب و غریب منطق بھی پیش کی گئی کہ آیا صوفیہ پر ترک عدلیہ کے فیصلے کی حمایت کا مطلب بابری مسجد پر ہندستانی عدلیہ کے فیصلے کی حمایت ہے۔ کیا  یہ بالکل وہی بات نہ ہوئی کہ اگر آپ ویجیٹیرین نہیں ہیں مرغی، بکری اور بھینس کا گوشت کھاتے ہیں تو کہا جائےخنزیر کا کیوں نہیں کھاتے؟ یہ بات کوئی خنزیر کھانے والا ناواقف انسان کرے تو ایک بار اسے سمجھایا بھی جائے، لیکن حلال و حرام اور صحیح و غلط کے تصورات سے واقف شخص کرے تو سواے ماتم کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ چنانچہ ایک آزاد ملک میں ایک عبادت گاہ میں شر انگیزی، پھر وہاں عبادت کے سلسلے کو حکومت کے زور پر روک دینا، پھر اکثریتی قوم کو اقلیت کے خلاف بھڑکا کر   فتنہ و فساد کا بازار گرم کردینا، اور پھر حکومت و عدالت کی یقین دہانیوں کے باوجود اس عبادت گاہ کا ظالمانہ طور پر انہدام۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ کا اپنے فیصلے میں بار بار یہ کہنا کہ معاملے کو عقیدے کی نہیں ثبوتوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا، یہ تسلیم کرنا کہ شہید کی جانے والی عبادت گاہ کسی دوسری عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنی تھی، یہ بھی ماننا کہ عبادت گاہ میں عبادت رضاکارانہ طور پر ترک نہیں کی گئی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عبادت گاہ کی بے حرمتی اور اس کا انہدام ناجائز، فتنہ انگیز اور’’قانون کی بدترین خلاف ورزی تھی“۔ لیکن اس سب کے بعد فیصلہ اُس عبادت گاہ کے خلاف سنانا کسی طرح قرین انصاف نہ تھا۔ بابری مسجد کے برعکس ان میں سے کوئی بھی بات قضیہ آیا صوفیہ پر صادق نہیں آتی۔ { FR 751 }

قسطنطنیہ کی فتح کا منظرنامہ

 اس پوری بحث کا بڑا مذموم پہلو یہ تھا کہ بہتوں نے کلیسا کی وکالت کرتے کرتے سلطان محمد فاتحؒ کی شان میں گستاخی کا رویہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ حالانکہ سلطان کی شخصیت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق تھی کہ،’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرکے رہو گے، وہ امیر بھی کیا خوب ہوگا اور وہ فوج بھی کیا خوب ہوگی‘‘(مسند احمد)۔ آپؐ کی اس پیشینگوئی کا یقیناً یہ مطلب نہیں کہ سلطان معصوم عن الخطا تھے، لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ وہ ایک عظیم فاتح اور ایک عظیم سلطان تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھا جانا چاہیے۔ اے کاش کہ اس محسنِ قسطنطنیہ کے حقیقی و فرضی عیوب کی ٹوہ میں پڑنے والے ان کی درخشاں زندگی سے سبق حاصل کرتے۔ اس ضمن میں فی الحال بالکل سرسری طور پر کچھ باتیں درج ذیل ہیں: 

 سلطان بطور فاتح کچھ ایسا مشہور ہوئے کہ ان کی علمی استعداد کی طرف عموماً دھیان نہیں جاتا۔ لیکن واضح رہے کہ وہ اعلیٰ ذہنی و علمی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ انھیں ترکی کے علاوہ عربی، فارسی، لاطینی، عبرانی، اور یونانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ مطالعہ اور علمی گفتگو کا ذوق رکھتے تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ ادب، فلسفہ، اور تاریخ بالخصوص سلاطین و سالاروں کے تذکرے اور فنون جنگ سے متعلق ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ سلطان کا ذاتی کتب خانہ بھی بہت بڑا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک علمی شہر سے سونے اور چاندی کے بدلے سلطان نے خراج میں کتابیں وصول کی تھیں۔ سلطان کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ عملی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی و علمی اُفق بھی وسیع ہو۔

 قسطنطنیہ پر کئی 'ناکام چڑھائیاں ہوچکی تھیں۔ یہ ایک مشکل مہم تھی لیکن سلطان اس سے نہ گھبرائے بلکہ اللّٰہ پر توکل کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔ اپنے عمل سے انھوں نے ہمیں مشکل مہمات سے نہ گھبرانے، ٹال مٹول نہ کرنے اور عزم و حوصلہ سے آگے بڑھنے کا سبق دیا۔

 اس مہم کے لیے سلطان کچھ یونہی الل ٹپ انداز سے نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ ایک طویل منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔ اس منصوبے کے تحت انھوں نے متعدد شورشوں کو فرو کرکے اس بڑی مہم کے لیے خود کو یکسو کرلیا۔ کئی محاذوں پر صلح اور رشتہ داریاں قائم کرکے انھیں محفوظ کیا۔ کچھ فوجوں کو ایسے چنندہ علاقوں اور شاہراہوں پر مامور فرمایا، جہاں سے وہ قسطنطنیہ کی مدد کو آنے والے عساکر، رسد اور دیگر امداد کا راستہ روک سکیں۔ سلطان نے آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل اور قسطنطنیہ سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک زبردست قلعہ بنایا۔ اس قلعے میں جدید ترین اسلحہ جات اور سامان حرب و ضرب کا ذخیرہ کیا۔ اسی طرح ایک بڑا بحری بیڑہ تیار کیا اور آبنائے باسفورس کی نقل و حرکت پر عملاً اپنا تسلط قائم کرلیا۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے سلطان محمد فاتحؒ نے ہمیں توکل کے معنی سمجھائے اور بتایا کہ ایک طویل اور صبر آزما مہم درپیش ہو تو اس کی ہمہ پہلو منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔

شہر قسطنطنیہ کی اونچی فصیلیں ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دیواروں نے کل ۲۱ محاصروں میں شہر کی دشمنوں سے حفاظت کی تھی۔ سلطان نے ان دیواروں پر کامیاب حملے کے لیے خصوصی توپیں تیار کروائیں اور اس کے لیے ایک عیسائی انجینئر کی خدمات حاصل کیں۔ یوں انھوں نے ہمیں علم و صلاحیت کی قدر اور حکمت جہاں کہیں ہو اس سے استفادے کا عملی سبق دیا۔

 محاصرے کے دوران جب معاملہ تقریباً بندگلی میں (stalemate ) پر پہنچ چکا تھا، بلکہ ایک بحری جھڑپ میں عثمانی بیڑے کو ہی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی کیونکہ قسطنطنیہ کے جہاز بہت اونچے اور بڑے تھے جہاں سے عثمانی جہازوں پر آگ اور پتھر برسانا آسان تھا۔ سلطان، غور و فکر کے بعد، اس نتیجے پر پہنچے کہ گہرے پانی میں ان طاقت ور اور بڑے ڈیل ڈول والے جہازوں سے مقابلہ دشوار ہے، لیکن بندرگاہ کے بالائی حصے (گولڈن ہارن) میں جہاں پانی کم اور اتھلا ہے، وہاں چھوٹے اور سبک رفتار جہاز کارآمد اور بڑے قد و قامت والے جہاز بے کار ثابت ہوں گے۔ سلطان کے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ اس حصے میں فصیل کی اونچائی اور خندق کی گہرائی بہ نسبت کم تھی لہٰذا لشکر اسلام کا بحری بیڑا اگر یہاں پہنچ جائے تو شہر پر کرارا حملہ کیا جاسکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بندرگاہ کے اس حصے تک پہنچنے کے لیے جس بحری راستے کو اختیار کرنا پڑتا، اس پر بازنطینی بیڑے کا سخت پہرہ تھا۔ علاوہ ازیں سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانے پر مضبوط آہنی زنجیریں کچھ اس طرح باندھی گئی تھیں کہ کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل نہ ہوسکتا تھا (بازنطینی جہازوں کے دخول کے لیے ان زنجیروں کو نیچے کردیا جاتا تھا)۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ بازنطینی بحری بیڑے سے کھلے سمندر میں تصادم مناسب نہیں تھا اور اس طاقت ور بیڑے اور زنجیر کی وجہ سے گولڈن ہارن پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔

سلطان نے یہ دیکھ کر ناممکن کو ممکن بنانے کی ٹھانی۔ اس نے کچھ ایسا طے کیا جس کا دشمن کو وہم و گمان بھی نہیں گزرا ہوگا۔ سلطان نے عثمانی بیڑے کو دشمن کے بحری بیڑے سے بچاکر بندرگاہ کے بالائی حصے تک پہنچانے کے لیے طے کیا کہ بحری نہیں بلکہ خشکی کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ خشکی پر کشتیاں چلانا سننے میں دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے لیکن یہی سلطان کی جنگی حکمت عملی قرار پائی۔ انھوں نے ۷سے ۱۵ کلومیٹر لمبے ناہموار پہاڑی راستے پر لکڑی کے تختے بچھوائے، چربی اور تیل سے ان تختوں کو خوب چکنا کروایا، اور راتوں رات ۷۰،۸۰ کشتیوں کو ان تختوں پر کھنچوا کر بندرگاہ میں اتار دیا۔ دشمن کی توجہ خشکی پر چلتی ہوئی ان کشتیوں کی طرف نہ ہوسکے، اس کے لیے عثمانی توپوں نے اُس رات جم کر گولہ باری کی۔ یوں صبح سویرے جب عثمانی بیڑا آہنی زنجیروں کے علی الرغم اور بغیر بازنطینی بیڑے سے متصادم ہوئے گولڈن ہارن میں آموجود ہوا، تو دشمن کے حوصلے پست ہوگئے اور فتح کی راہ ہموار ہوگئی۔ سلطان کی اس جنگی حکمت عملی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اور دشمن کی کمزوری اور طاقت کو جاننا، اپنی کمزوری کو اپنی طاقت اور دشمن کی طاقت کو اس کی کمزوری میں بدل دینا فتح کے لیے ناگزیر ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ کشتیوں کو خشکی پہ چلانے کی اس غیرروایتی حکمت عملی (out of the box strategy) کی وجہ سے میدان اسلامی افواج کے ہاتھ رہا۔ اس سے ہمیں ابتدائی جھٹکوں سے ناامید نہ ہونے، نئی سوچ اور نئی تدبیر اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے کا شاندار درس ملتا ہے۔

فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے مفتوح شہریوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے والے عیسائیوں کو دوبارہ اپنے وطن لوٹ آنے اور اپنے پیشوں اور روزگار سے بے جھجک منسلک ہوجانے کی دعوت دی۔ رعایا کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ یونانی آرتھوڈوکس بطریق کو اپنے مذہبی عہدے پر برقرار رکھا، اسے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی۔ درکار مالی عطیات اور مستقل مالی اعانت دی، اور کلیسا کی سرپرستی خود قبول کی، مذہبی عہدے داروں کے ٹیکس معاف کردیے۔ پرسنل لا کی آزادی کے علاوہ مسیحیوں کو اپنے مقدمات اپنے قوانین کے مطابق فیصل کرنے کی سہولت بخشی۔ ان عدالتوں کے احکام کا نفاذ ریاست کے ذمے تھا۔ ان عدالتوں کو قید اور سزاے موت تک دینے کے اختیارات حاصل تھے۔ عزیر احمد اپنی کتاب دولت عثمانیہ میں ایورسلے کی شہادت نقل کرتے ہیں کہ سلطان کی یہ’عظیم الشان رواداری‘دراصل’مسیحی یورپین سیاسی اخلاقیات سے بہت آگے تھی“۔ تھامس آرنلڈ نے بھی اپنی کتاب The Spread of Islam میں سلطان کا تذکرہ بڑے ادب و احترام سے کیا ہے۔ اور مفتوح آبادی کے ساتھ اس کے سلوک کو دل جیتنے والا سلوک قرار دیا ہے، جس کے بعد یونانی عوام ہر قسم کے عیسائی تسلط پر مسلمانوں کی حکومت کو ترجیح دینے لگے تھے۔

فتح قسطنطنیہ کے وقت سلطان محمد فاتحؒ کی عمر محض۲۳ سال تھی۔ جوانی کی اس عمر میں سلطنت کو سنبھالا دینا، دقیقہ رسی اور باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا، نامساعد حالات سے نہ گھبرانا بلکہ نئی نئی راہیں نکالنا، بازنطینی سلطنت سے پنجہ آزمائی کرنا اور اسے شکست فاش دے دینا، سلطان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ان کی پوری زندگی اس بات کی عملی شہادت ہے کہ بڑے کارناموں کا تعلق بڑی عمر سے نہیں بلکہ بڑے عزائم سے ہوتا ہے۔

مباحث کے نتائج

۱- ہمیں تنقید برائے تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اپنی تنقید کے عملی عواقب پر بھی نظر ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اسی مسئلے میں مسجد کا چرچ ہونا نہ صرف عدل کے خلاف ہوتا بلکہ ناقابلِ عمل اور نئے فتنوں کے دروازے کھلنے پر منتج ہوتا۔ ایسا فیصلہ جو قانون کے بھی خلاف ہو اور نظم و نسق کے بھی، بھلا کیونکر کیا جاتا؟ پھر انسان کو اپنے دلائل کے منطقی انجام سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ جس دلیل سے عیسائیوں کے کسی مطالبے کے بغیر چرچ عیسائیوں کے سپرد کردینا قرین انصاف تھا۔ اسی دلیل سے آیا صوفیہ کا چرچ سے پہلے والے کسی دوسرے مذاہب کے معبد بحال ہونا بھلا عدل کا تقاضا کیوں نہیں تھا؟

۲-اس بحث کے دوران فقہ اسلامی کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور پیدا کی بھی گئیں۔ مثلاً یہ یک رخی دلیل دی گئی کہ سیرت سے فتح مکہ کا ماڈل ملتا ہے جہاں مفتوحین کی جان و مال سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اسی سیرت پاکؐ میں اور پھر خلفاے راشدینؓ کی سیرت میں مال غنیمت لیے جانے، بتکدوں اور کلیساؤں کے ڈھائے جانے، جنگ کے قابل افراد کو تہہ تیغ کیے جانے، اور غلام بنالیے جانے کے واقعات بھی، بہت بہت ہی کم سہی مگر، موجود ہیں۔ یہ وہی باتیں ہیں جن کو فقہ سے منسوب کرکے کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے فقہ اسلامی قرآن و سنت سے یکسر آزاد کوئی علم ہو۔

کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر ہمارے نوجوان فقہ کا ایک تعارف حاصل کریں۔ ایک فقیہ اپنے زمانے کے مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں کس طرح حل تلاش کرتا ہے؟ فقہی علوم کے ارتقا پر اس سوال کی روشنی میں غور کریں کہ فقہ کی پرانی کتابوں میں درج کچھ احکامات کیوں آج ہمیں عجیب نظر آتے ہیں۔ آپ اگر فقہ کا ایک آسان لیکن بھرپور تعارف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر محمود احمد غازی کی محاضرات فقہ کا مطالعہ ضرور کریں، تاکہ اسلاف کے اس عظیم الشان علمی کارنامے کی اہمیت و افادیت سے آشنا ہوں، ان کی علمی میراث کے بارے میں مبنی بر انصاف رائے قائم کرسکیں، اور اسے آگے بڑھانے کے بارے میں سوچیں نہ کہ اسے رد کردینے کے۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون کے سلسلے میں فقہاے اسلام کی کاوشوں کا مطالعہ ہو تو شاید یہ اس بحث کا سب سے سود مند نتیجہ ثابت ہو۔ حد تو یہ ہے کہ مدارس میں بھی اب یہ کتابیں شاید ہی پڑھائی جاتی ہوں۔ نقدو تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ وہ امام ابویوسف کی کتاب الخراج اور امام محمد الشیبانی کی السیر الصغیرکا مطالعہ ضرور کرلیں۔ جو باتیں کھٹکیں ان پر ٹھیر کر دلائل کی روشنی میں غور کریں، اس تعلق سے بزرگوں سے استفسار بھی کریں۔ امید کی جاتی ہے کہ جو لوگ اس وقت کنفیوژن کے شاکی ہیں، انھیں اس مطالعے کے نتیجے میں شرح صدر حاصل ہوگا اور وہ شریعت کی حکمت و وسعت کی کنہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے، جو ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے الفاظ میں درج ذیل ہے،’’خود شریعت نے اس بات کی گنجایش رکھی ہے کہ بعض احکام میں ایک سے زائد آراء ہوں۔ ایسا اس لیے ہے کہ شریعت زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے کہ ایک تعبیر بعض خاص حالات میں زیادہ برمحل ہو اور دوسری تعبیر دوسرے حالات میں زیادہ موزوں ثابت ہو‘‘۔

۳- یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہے لیکن ذہنوں میں اس کا ہر آن استحضار ضروری ہے کہ شریعت کا ماخذ احکام الٰہی ہیں۔ ہم انسان، زمان و مکان کی قیود میں جکڑا ہوا ایک ناتواں اور فانی وجود رکھتے ہیں۔ اور اللّٰہ کی ذات لافانی، زمان و مکان کی قیود سے ماورا، اور علم حقیقی و لازوال حکمت کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا ہم احکام کے مصالح پر تو غور کریں، لیکن کوئی چیز ہماری عقل کے چوکھٹے میں نہ سمائے تو اسے رد کرنے سے احتراز کریں۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:’’خدا کی ہربات کے اندر نہایت گہری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لیکن ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں سے جب تک اللّٰہ تعالی ہی واقف نہ کرے، نہ ان سے جنات واقف ہو سکتے ہیں، نہ فرشتے اور نہ انسان۔ اللّٰہ تعالیٰ کے کاموں کے بارے میں صحیح روش انسان کے لیے یہ ہے کہ ان کی حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش تو برابر کرتا رہے، لیکن اگر کسی چیز کی حکمت اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کو ہدفِ اعتراض و مخالفت نہ بنالے بلکہ یہ حسن ظن رکھے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی لیکن اپنے علم کی کمی کے سبب سے وہ اس حکمت کو سمجھ نہیں سکا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے نہایت قلیل اور محدود علم کو خدا کے علم اور اس کی حکمتوں کے ناپنے کا پیمانہ بنا بیٹھے ہیں، تو وہ اسی قسم کی خودسری اور انانیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس قسم کی خود سری اور انانیت میں ابلیس مبتلا ہوگیا۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے ایمان و معرفت کے راستے کھلتے نہیں بلکہ جو راستے کھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی بند ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن، جلد اول، ۱۷۳)

۴-تاریخ کے سلسلے میں ہمارا رویہ اعتدال و توازن پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسے رد کردینا اور اس سے سبق حاصل نہ کرنے کا رجحان خطرناک ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر سیاق و سباق کو یکسر فراموش کرکے اسلاف پر تنقید کرنا بھی صحت مند طرزِ عمل نہیں ہے۔ دوسری طرف انسانوں کی اس تاریخ کو فرشتوں کی تاریخ سمجھنا بھی سادہ لوحی ہے اور اس پر فخر کرتے ہوئے حال اور مستقبل کو فراموش کرجانا تو حماقت کی انتہا ہے۔ تاریخ کے سلسلے میں معتدل رویہ یہ ہے کہ ہم اپنے روشن و زریں ماضی کا اعتراف کریں۔ ہماری چودہ سو سالہ تاریخ، بلند حوصلہ انسانوں کی تاریخ ہے، جو بحیثیت مجموعی قرآن و سنت سے فیض یافتہ تھے۔ ان کی بلند حوصلگی اور قرآن و سنت کی پاسداری کی وجہ سے تاریخ ان کے تاریخ ساز اور معجزہ نما کارناموں سے عبارت ہے، وہیں چونکہ وہ انسان تھے اسی لیے ان کی کمزوریاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ معتدل طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ خوبیوں کا اعتراف ہو، ان کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ ہو تاکہ نئی نسل احساس کمتری کے خول سے باہر نکلے، اسے تحریک اور جذبہ اور قابلِ تقلید ہیرو ملیں۔ اسی طرح خامیوں سے واقفیت بھی ضروری ہے تاکہ تاریخ کی تنقیدی سمجھ پیدا ہو اور ہیرو ورشپ کی قباحتوں سے بچا جاسکے۔ بس خیال اس بات کا ضروری ہے کہ تنقید کرتے وقت بھی اعتدال اور حسن ظن کا دامن نہ چھوٹے، بدگمانی اور کردار کشی سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے، اور کوتاہیوں کی وجوہ تلاش کی جائیں تاکہ ٹھوکر لگنے کے اسباب بھی پتا چلیں اور ماضی کی کمزوریوں کی تلاش لعن طعن سے اوپر اٹھ کر مستقبل کی تعمیر کی ایک سرگرمی بن جائے۔ 

۵-یہ اصول ہر ملک کی طرح ترکی پر بھی صادق آتا ہے کہ دور حاضر کے حالات کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ بیسویں صدی میں ترکی کس طرح جنگ عظیم اول کی ہزیمت، معاہدہ سیورس، سقوط خلافت اور سیکولر استعمار سے گزرا ہے، اسے جانے بغیر ترک سیاست اور وہاں کے اسلام پسندوں پر تبصرے لایعنی ہیں۔ یہ اچھا موقع تھا جب ہم کچھ اور نہیں تو کم از کم بیسویں صدی میں اللّٰہ کے دین کے لیے ترکوں کی جدوجہد کا مطالعہ کرتے۔ یہ وہ روشن تاریخ ہے جس میں حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی اور نجم الدین اربکان وغیرہ مختلف افکار اور مختلف حکمت عملیوں کے ساتھ اپنی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس تاریخ میں بھی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

وسطی چین میں واقع ووہان (صوبہ ہوٗبے کا صدر مقام) کے چار باشندے ۲۶دسمبر ۲۰۱۹ء کو بخار، کھانسی، اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت لے کر ڈاکٹر ژینگ جکسیان کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر ژینگ نے ان مریضوں میں ایک پُراسرار قسم کے نمونیہ کی دریافت کی۔ انھی دنوں ووہان سینٹرل ہاسپٹل کے ڈاکٹر لی وینلیانگ نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ایک نئے وائرس سے خبردار کیا۔لیکن اگر ڈاکٹر لی وینلیانگ کو ہراساں کرنے کے بجاے ان کی تنبیہہ پر کان دھرا جاتا تو کیا حالات بہتر ہوتے؟ اس سوال کا جواب فی الحال حتمی طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس کے بعد سے جو ہورہا ہے، وہ ہمارے لیے خبر اور آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ بنتا جارہا ہے۔

ووہان شہر میں نئے وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ زیادہ تر متاثرین کا تعلق سمندری غذاؤں کے ایک بازار سے تھا، جہاں مچھلیوں و دیگر بحری جان داروں کے گوشت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے بھالو، چوہے، بندر، سانپ، گلہری، چمگادڑ، مگرمچھ، کتے، گدھے، لومڑی، خنزیر، کچھوے اور بھیڑیے وغیرہ کا گوشت بھی ملتا تھا۔ چند ہی روز بعد چین نے بازار بند کرکے کئی مؤثر قدم اٹھائے۔ لیکن یہ وائرس بلائے جان بن کر دنیا پر ٹوٹ پڑا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک شاید ہی کوئی ملک ہو جو اس کی زد سے محفوظ ہو۔۲۹؍اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کا انفیکشن ۱۹۸ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اب تک تقریباً ۲۸ لاکھ افراد اس مرض سے(جسے COVID-19  کا نام دیا گیا) متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں ان متاثرین میں سے ایک لاکھ ۹۰ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان اعداد و شمار میں ہر آن اضافہ ہورہا ہے۔

اس مضمون کا مقصد اس بیماری کے تعلق سے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ یہاںاس وبا سے پیداشدہ حالات پر چند خیالات کو یک جا کیا جارہا ہے۔ مضمون کے پہلے حصے میں، تحدیث نعمت کے طور پر، اس بات کا مختصر ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو دفاعی نظام عطا کیا ہے، وہ کیسے کیسے دشمنوں سے کس کس طرح ہماری حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ انسان اپنی ساخت پر غور کرے تو اس کے دل میں اللہ کے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ ساتھ ہی کورونا وائرس کے ذریعے پیدا شدہ بیماری کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ دوسرے حصے میں، زور اس بات پر ہے کہ ان پریشان کن حالات کا سامنا مومنانہ کردار اور مثبت طرز فکر کے ساتھ کیسے کیا جائے؟

جسم کی مستعد اور طاقت ور فوج

اُس ملک میں امن و امان اور خوش حالی کا ڈیرا نہیں ہوسکتا ،جہاں اندرونی و بیرونی دشمن اپنی ریشہ دوانیوں کے لیے آزاد ہوں۔ ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی دشمن سے نبٹنے کے لیے پولیس اور بیرونی دشمنوں کے قلع قمع کے لیے فوج مستعد ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس اور فوج، دشمن اور دوست میں تمیز کرنا جانتے ہوں۔ کیونکہ پولیس اگر چور، ڈاکو اور قاتلوں کو چھوڑ کر شہریوں کی دشمن بن جائے اور فوج دہشت گردوں اور دشمن افواج کو چھوڑ کر ملکی سیاست میں دخل اندازی کا راستہ اختیار کرے، تو ایسے ملک کی خیر نہیں۔ انسانی جسم کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اندرونی و بیرونی حملوں سے حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو صلاحیت دی ہے، اسے قوتِ مدافعت (Immune System)کہتے ہیں۔ آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں:

ہمارے جسم میں کوئی بن بلایا بیرونی عنصر داخل ہونا چاہے تو ہماری جلد اسے اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ناک کے راستے دھول یا کوئی ذرہ داخل ہوجائے تو وہ بلغم اور چپچپے مادے میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے، اندر داخل ہوکر نقصان نہیں پہنچا پاتا، بعد ازاں اسے چھینک کے زور سے دھکے مار کر باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ذرات آنکھوں میں پڑ جائیں، تو بھی انھیں تباہی مچانے کی اجازت نہیں ملتی، کچھ ہی دیر میں آنسو انھیں گرفتار کرلیتے ہیں اور اپنی سرحدوں سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔ کھاتے وقت ہم فائدہ مند چیزوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مضر اشیا بھی کھالیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو توڑ پھوڑ کر کام کی چیزوں کو الگ کرنے اور فضول چیزوں کو جسم سے خارج کردینے کا ایک پورا نظام پیٹ میں موجود ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہوگا کہ مچھر وغیرہ کے کاٹنے پر وہ جگہ تھوڑی سی سوج جاتی ہے، اور سرخ نشان پڑجاتا ہے۔یہ مچھر کی جانب سے داخل کیے گئے کیمیائی مادے پر جسم کے مدافعتی نظام کا ردعمل ہے۔ جسم کے خلوی سپاہی جب تک مرمت کے اس کام سے فارغ نہیں ہوجاتے چین سے نہیں بیٹھتے۔ کوئی زخم ہوجائے اور خون بہنے لگے، تو بھی یہ نظام حرکت میں آتا ہے اور زخم کے مقام پر خون جم جاتا ہے، تاکہ زیادہ مقدار میں خون کے نکل جانے سے جسم کو کوئی خطرہ نہ لاحق ہو۔

مثال کے طور پر اگر کوئی وائرس جسم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو بہت دیر تک وہ رنگ رلیاں نہیں منا پاتا۔ جسم کا مدافعتی نظام فوراً حرکت میں آتا ہے اور ایمرجنسی کا اعلان کردیتا ہے۔ اس چیز کو آپ بخار، نزلہ و زکام کہتے ہیں۔ جسم کا درجۂ حرارت زیادہ ہو تو وائرسس کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پریشانی ہوتی ہے اور جسم کے سپاہیوں کو انھیں ڈھونڈ کر ٹھکانے لگادینے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہی صورت نزلہ و زکام کی بھی ہے؛ بہتی ناک دراصل اس جنگ کا نتیجہ ہے، جو جسم کی افواج کی نقصان دہ جرثوموں سے ہوتی ہے۔

بس اتنا ہی نہیں، جسم کے اس مدافعتی نظام کی ایک بہترین خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پرانے دشمنوں کو یاد رکھتا ہے۔ چنانچہ جب وہی دشمن دوبارہ حملہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے انھیں کھدیڑ دیا جاتا ہے اور کسی نئی خونیں جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ وہ اصول ہے جسے سائنس دانوں نے بہت سی خطرناک بیماریوں کے ٹیکے بنانے میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر چیچک کی وبا جب پھیلتی تھی تو پہلے پہل ہزاروں لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوجاتے تھے، لیکن اب اس کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے۔ اس کا ٹیکہ گائے میں پائی جانے والی (نسبتاً کم خطرناک) چیچک کے پس سے بنایا جاتا ہے۔ جب اسے متعین مقدار میں انسان کے جسم میں پہنچایا جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام بڑی آسانی سے اس کا مقابلہ کرلیتا ہے اور پھر یہ نظام(یا متعین الفاظ میں Memory Cells ) اس ’حملے‘ کو یاد کرلیتے ہیں اور آیندہ اگر کبھی چیچک کے وائرس کا حملہ ہوتا بھی ہے، تو جسم بڑی آسانی سے اسے شکست دے دیتا ہے۔

انسانی جسم کے ننھے دشمن

جسم کا یہ مدافعتی نظام لگاتار کام کرتا ہے۔ اس کے خاص دشمن جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے چھوٹے، بہت چھوٹے بلکہ بہت ہی زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ اتنے چھوٹے کہ وہ انسانی آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتے۔ جسامت کی بات کریں تو ’بیکٹیریا‘ (Bacteria) کی جسامت (مختلف قسموں کے اعتبار سے) 3.0 سے لے کر 5 مائکرومیٹر تک ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ ایک میٹر میں ۱۰ لاکھ مائکرومیٹر ہوتے ہیں۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ مٹی کے ایک گرام میں عام طور پر ۴کروڑ بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ وائرس کو ناپنے کے لیے مائکرو میٹر کی یہ چھوٹی اکائی بھی بہت بڑی ہے۔ چنانچہ انھیں نینو میٹر میں ناپا جاتا ہے۔ ایک میٹر میں ایک ارب (یعنی ایک کے بعد نو صفر) نینو میٹر ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ایسے وائرسس کا پتا بھی لگایا ہے، جن کی جسامت صرف ۱۷ نینو میٹر ہوتی ہے۔ ’سارس‘ کے وائرس کی جسامت، جو کورونا وائرس سے کافی مماثل ہے، ۱۲۰ نینو میٹر ہوتی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ اگر بیکٹیریا کی آنکھ ہوتی تو بھی اسے وائرس نظر نہیں آتے۔ اس چھوٹی سی جسامت کا تصور کرنے کے لیے اپنے ناخنوں پر ایک نظر ڈالیے۔ آپ کے ناخن ہرسیکنڈ میں تقریباً ایک نینومیٹر بڑھ جاتے ہیں۔

’وائرس‘ دراصل ایک متعدی عامل (infectious agent) ہے، جس میں کسی زندہ وجود میں داخل ہوکر افزایش کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے۔ روس کے عالمِ نباتیات دمتری ایوانووسکی (Dmitri Ivanovsky) نے ۱۸۹۲ء میں تمباکو کے پودوں کی ایک بیماری کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایاکہ اس بیماری کا سبب بیکٹیریا سے بھی چھوٹے جراثیم ہیں۔ بعد میں انھی کو وائرس کا نام دیا گیا۔

 وائرس بذات خود زندہ ہے یا کسی زندہ مخلوق میں داخل ہونے پر اس میں جان پڑجاتی ہے؟ اس سوال پر سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہے۔ احتیاط کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وائرس میں زندگی کی واضح علامات اس وقت دکھائی پڑتی ہیں، جب وہ کسی جان دار میں داخل ہوکر اپنی افزایش شروع کرتا ہے۔ وہ اتنی کثیر تعداد میں بڑھتا ہے کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو اس جان دار کی زندگی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے جس کے تمام وسائل پر دھیرے دھیرے یہ طفیلی وائرس قبضہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وائرس انسان اور جانوروں کے علاوہ نباتات، حتیٰ کہ جراثیموں جیسی انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والی مخلوقات پر بھی تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق چند باتیں

جس وبا سے پوری دنیا پریشان ہے اسے Corona VIrus Disease 2019 (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے۔ جو وائرس اس وبا کے لیے ذمہ دار ہے اسے، ’سارس‘ کے وائرس سے مماثلت کی مناسبت سے، Severe Acute Respiratory Syndrome Corona Virus 2  (SARS-CoV-2) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں معلومات کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سب سے پہلے اس وائرس کا پتا چین کے ووہان شہر میں چلا۔ سائنس دانوں کی ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ وائرس چمگادڑوں اور سانپوں سے انسانوں میں آئے ہیں۔ انسانوں سے انسانوں میں یہ وائرس کھانسی یا چھینک میں خارج ہونے والے تنفسی قطروں (Respiratory Droplets) کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وائرس پلاسٹک یا اسٹیل پر تین دن، کاغذ پر ایک دن، اور تانبے پر چار گھنٹوں تک ’زندہ‘ رہ سکتا ہے۔ تیز بخار کے ساتھ سوکھی کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف کچھ واضح علامات ہیں، جو ’کورونا وائرس‘ کے انفیکشن کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے تو وائرس کے انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے۔ انسانی جلد پر وائرس ہو تو بھی وہ اپنے افزایشی عمل کو شروع نہیں کرسکتا۔ لیکن انسان جب اپنے ہاتھ کو آنکھ، ناک، یا منہ تک لے جاتا ہے تو وائرس کو جسم میں داخلے کی راہ مل جاتی ہے۔ اس لیے ہاتھوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دلائی جارہی ہے۔ اسی طرح کھانستے اور چھینکتے وقت بھی اگر اسلامی آداب کا خیال رکھا جائے تو انفیکشن کے پھیلنے پر بڑی حد تک روک لگائی جاسکتی ہے۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ۸۴ فی صد لوگ جو کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوئے تھے، صحت یاب ہوچکے ہیں۔ جنھیں اس وقت انفیکشن ہے، ان میں سے صرف ۴ فی صد کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔

یہ تمام اعداد و شمار آپ  www.worldometers.info/coronavirus پر دیکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح دو سے چار فی صد ہے۔ بری خبر البتہ یہ ہے کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد کا دو سے چار فی صد بھی بڑی تعداد ہوتی ہے، لہٰذا اس معاملے کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر کورونا وائرس تیزی سے پھیل جائے تو دنیا کے کئی ممالک کا طبی و شفائی نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک شہر میں صرف دس اسپتال اور ہر اسپتال میں اوسطاً پچاس مریضوں کو داخل کرنے کی گنجایش ہے۔ اس شہر میں اچانک ۳ہزار لوگ بیمار ہوجائیںتو شہر میں اسپتال، بستر، ڈاکٹر، نرس سے لے کر دواؤں تک کا قحط پڑ جائے گا، کیونکہ اس شہر کا طبی نظام بیک وقت صرف پانچ سو مریضوں کی نگہداشت اور علاج کی حیثیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اب یہ اضافی مریض، چاہے کسی عام سے مرض میں ہی کیوں نہ مبتلا ہوں، مگر علاج نہ ملنے کی صورت میں (یا کماحقہٗ  نہ ملنے کی صورت میں) بڑا نقصان اٹھائیں گے۔ لیکن یہی تین ہزار مریض اگر ایک ہی دن بیمار ہونے کے بجاے ایک مہینے کے نسبتاً طویل عرصے میں بیمار ہوئے ہوتے تو سبھی کو علاج میسر آتا اور معاشرے کو مجموعی طور پر ہونے والا نقصان بہت کم ہوتا۔ اسے اصطلاحی زبان میں flattening of the curve کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے بڑے پیمانے پر اکٹھا ہونے اور سفر کرنے پر جو پابندیاں لگائی جارہی ہیں، اس کا ایک بنیادی مقصد یہی ہے کہ وائرس کو تیزی کے ساتھ پھیلنے سے روکا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بیک وقت ملک کے طبی نظام پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ہمارے کرنے کا کام

l  اللہ کی نشانیوں پر غور کریں۔ ساری کائنات اللہ کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک مومن ان نشانیوں پر غور کرتا ہے اور سبق حاصل کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ابابیلوں کے ایک جھنڈ نے ہاتھیوں کے ایک عظیم لشکر کا صفایا کردیا تو اس واقعے میں ہمیں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے۔ جب واعظ ہمیں مچھر کے ذریعے نمرود کی شکست کا قصہ سناتا ہے، تو ہمیں اس میں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے۔ آج دنیا بھر کے انسان، وقت کی سوپر پاورز سمیت، جس طرح اس چھوٹے سے وائرس سے پریشان ہیں، کیا اس میں ہمارے لیے کوئی نشانی نہیں ہے؟ یہ ’حقیر‘ وائرس ہمیں اللہ کی قوتِ تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ سائنس کی تمام تر ترقیوں کے باوجود خالقِ کائنات کی مشیت کے سامنے انسان کی بے بسی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور انسان کا سر بے اختیار احکم الحاکمین کے سامنے عجز ونیاز سے جھک جاتا ہے اور بقول غالب:
دیکھو  مجھے  جو  دیدۂ  عبرت  نگاہ  ہو

 جو انسان دوسرے انسانوں کو اس آفت سے بچانے کے لیے دن رات لگے ہوئے ہیں، ان کے کردار کی عظمت پر بھی غور کیجیے۔ جو انسانی ذہن اس وائرس سے لڑنے کی تدبیریں کررہے ہیں، تجربات کررہے ہیں، ان کے ذہن و صلاحیت پر رشک کیجیے۔ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت و مغفرت کی دعائیں کیجیے۔ یہ رجوع الی اللہ کا وقت ہے۔ انسانوں پر آنے والی یہ مصیبتیں انسانوں ہی کی اپنی کمائی ہیں۔ اللہ تو بہت سے گناہ یونہی معاف فرمادیتا ہے، لیکن کبھی کبھی انھیں ان کے اعمال کا مزا بھی چکھادیتا ہے (ملاحظہ فرمائیے: سورئہ روم: ۴۱، سورۂ شوریٰ: ۳۰)۔ توبہ کیجیے، استغفار کیجیے، خالق کے سامنے گڑگڑائیے۔ اللہ کی ان نشانیوں کو اپنے ایمان میں اضافے کا سبب بنالیجیے۔ ہمارے دل کا حال اس چٹان کا سا نہ ہو، جس پر بارش کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ اس زرخیز زمین کا ساہو، جس پر بارش ہو تو فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں۔

l  اعتدال کا دامن تھامیں۔ ایسے واقعات جب رونما ہوتے ہیں، تو بہت سے لوگ دو قسم کی انتہا پسندی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’موت برحق ہے اور ہم اللہ سے ڈرتے ہیں، کسی وائرس سے نہیں‘‘۔ اور پھر ان بذاتِ خود صحیح باتوں سے احتیاط نہ کرنے کا غلط جواز برآمد کرلیتے ہیں۔ موت بالکل برحق ہے، لیکن سڑک پر جب کوئی گاڑی آپ کی طرف آتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ جی ہاں!ہٹ جاتے ہیں۔ آپ کا یہ ہٹنا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ قرآن کی تعلیم ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (سورۂ بقرہ: ۱۹۵)۔ رزق اللہ دیتا ہے، اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے، مگر کون بے وقوف ہے، جو حصولِ رزق کے لیے کوشش نہیں کرتا؟ رزق کے لیے کوشش کرنا، اللہ کے رازق ہونے پر ایمان کے منافی تو نہیں ہے۔

اس کے برخلاف کچھ دوسرے لوگ ہیں، جو حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ گھبرا کر عجیب و غریب فیصلے لینے لگتے ہیں۔ خود ڈرتے ہیں اور دوسروں میں بھی خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر یوں بھی کچھ احتیاط کے ساتھ بتائی جاتی ہیں، لیکن یہ اس ’احتیاط‘ میں بھی ’اجتہاد‘ کرکے دس درجہ زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ سڑکوں اور بازاروں میں جانے کی ممانعت ہو تو  یہ کمرے سے باتھ روم کا سفر اختیار کرنے میں بھی دائیں بائیں دیکھ کر ماسک وغیرہ صحیح کرلیتے ہیں۔ بوڑھے اور بیماروں کو مسجد آنے سے منع کیا جائے تو تندرست و توانا ہوکر بھی باجماعت نماز نہیں پڑھتے۔

پہلے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مسبب الاسباب پر ایمان لاکر یہ بھول جاتا ہے کہ اسی خدا نے اسباب پیدا بھی کیے ہیں، دنیا کو دارالاسباب بھی بنایا ہے، اور انسان کو اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ چنانچہ غزوۂ بدر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغیر فوج اور ہتھیاروں کے آکر کھڑے نہیں ہوگئے تھے کہ آج پھونکوں سے معرکہ سر ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ سارے اسباب اختیار کیے گئے، جو کیے جاسکتے تھے ۔ دوسرے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ سبب کچھ اس طرح اختیار کرتا ہے کہ وہ سبب ہی پر ایمان لایا ہوا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سبب کو پیدا کرنے والا مسبب الاسباب بھی ہے، جو چاہے تو آگ گرمی اور جلانے کا نہیں بلکہ ٹھنڈی ہوجائےاور سلامتی کا سبب بن جائے (سورۂ انبیاء۲۱: ۶۹)۔

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں اللہ کے رسولؐ نے سارے اسباب اختیار کیے، لیکن بھروسا اللہ پر کیا، دعائیں اور مناجات اللہ سے کیں، اور فتح بھی یوں حاصل ہوئی کہ مومنین کو اللہ کی تائید اور اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ اعتدال کی روش ہے۔ ہمارا ایمان اور یقین اللہ پر ہو، اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہو، اس بات پر ہو کہ مصیبت اللہ کی مرضی ہی سے آتی ہے (سورۂ تغابن: ۶۴، سورۂ حدید: ۲۲)۔ لیکن یہ ایمان ہمیں تدبیر اور عمل سے غافل نہ کرے بلکہ اس کے لیے مہمیز ثابت ہو۔ یقین اس بات پر بھی ہو کہ مصیبت کو دور کرنے والا بھی اللہ ہی ہے، وہی علیم و خبیر ہے، اور ایمان والوں کے دلوں کو مصیبت میں سکون و طمانیت اور ہدایت بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے (سورۂ فتح: ۴،سورۂ تغابن:۶۴ )۔ یعنی رسولؐ اللہ کے ارشاد کے مطابق ہم اونٹ باندھ کر اللہ پر توکل کریں۔ اسلام کا فلسفۂ توکل یہ نہیں ہے کہ اللہ پر توکل کرنے کے بجاے رسی پر توکّل کیا جائے، بلکہ یہ بات بھی ہے کہ اونٹ کو باندھے بغیر سمجھا جائے کہ اللہ پر توکّل کیا جارہا ہے۔

l  لایعنی، لاحاصل اورفضول باتوں سے بچیں۔ انسانوں میں ایک گروہ ایسا ہے، جسے باتیں بگھارنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ بات جتنی بیکار ہو، بے سر پیر کی ہو، بے مقصد ہو، اس میں انھیں اتنا ہی لطف آتا ہے۔ چنانچہ ’کورونا وائرس‘ کے حوالے سے ہم سنتے ہیں کہ یہ ’یہودی سازش‘ ہے۔ ’یہ چین کی سازش ہے‘۔ ’یہ چین کے خلاف امریکا کی سازش ہے‘ وغیرہ۔ ہم کو اس سے انکار نہیں ہے کہ اخلاق و کردار سے عاری حکمراں اور پالیسی ساز، اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں لیکن بات مستند بھی تو ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کون سا ذریعۂ علم آپ کے پاس ہے، جس کے ذریعے حکمت کے یہ موتی چائے کی چسکیوں کے ساتھ بکھیرے جارہے ہیں؟ اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم ہے، جو کسی اور کے پاس نہیں تو مہربانی کرکے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیجیے تاکہ ان حقائق سے پردہ اٹھ سکے۔ لیکن اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم نہیں ہے، تو خود بتائیے محض وہم و گمان اور ’وٹس ایپ‘ کے فارورڈز کی بنیاد پر ہونے والی ان خوش گپیوں کی کیا حیثیت ہے؟ آئیے، اس بات پر ایک دوسرے طریقے سے غور کریں۔ آپ کے کہنے سے وہ تین چار لوگ، جن سے آپ گفتگو فرمارہے ہیں، وہ مان بھی گئے کہ یہ امریکی (یا یہودی یا چینی) سازش ہے، تو آپ کو اور ان کو کیا حاصل ہوگیا؟ یہ لاحاصل گفتگو وقت کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ (جب تک ان کے شہر یا ملک پر آفت نہ آجائے) حکم صادر کردیتے ہیں کہ ’یہ اللہ کا عذاب ہے‘۔ میرے بھائی! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ منہ سے نکلی ہوئی باتوں کا قیامت میں حساب دینا ہوگا؟ سامری اور ابولہب کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کے غیض و غضب کی ایک شکل تھی۔ حضرت ایوبؑ کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کی ایک آزمایش تھی، جس سے وہ سرخرو نکلے۔ آج یہ باتیں ہم یقین سے اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے واسطے سے یہ باتیں ہمیں بتائی ہیں۔ لیکن آج کوئی بیماری، کوئی وبا، کوئی حادثہ: عذاب ہے یا آزمایش، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ کسی کے لیے عذاب بھی ہوسکتا ہے؛ کسی کی آزمایش بھی ہوسکتی ہے؛ کسی کو غوروفکر پر آمادہ کرنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے؛ کسی کے لیے تنبیہ ہوسکتی ہے؛ کسی کے گناہوں کے جھڑنے کا اور کسی کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لاحاصل بحثوں میں پڑے بغیر ہماری توجہ اس بات پر کیوں نہیں ہوتی کہ جن حالات سے بھی ہمیں سابقہ ہے، ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ذاتی طور پر میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اسلام مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میں ایسا کیا کروں کہ رضاے الٰہی کے نصب العین سے کچھ اور قریب ہوسکوں؟ وغیرہ وغیرہ۔

l  فراغت کے ان لمحات سے بھرپور استفادہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو ہروقت مصروف رہنے کا ملال رہتا ہے۔ ایسے میں حکومتوں کی جانب سے احتیاطاً کیے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہمیں جو فرصت کے لمحات ملے ہیں، وہ نعمت غیر مترقبہ ہیں۔ جس طرح ہر نعمت کا خدا کو حساب دینا ہے، اسی طرح فرصت و فراغت کے ان لمحات کا حساب بھی دینا ہوگا۔ خدارا، ان قیمتی لمحات کو موبائل میں ویڈیوز دیکھنے میں اور پوسٹ لائیک شیئر، کھیلنے میں ضائع نہ کیجیے گا۔ ہر ایک نے کبھی نہ کبھی یہ منصوبہ بنایا ہے کہ فرصت ہوتی تو فلاں تفسیر کا مطالعہ کرلیتا، فلاں سیرت کی کتاب پڑھ لیتا، فلاں حدیث کی کتاب پڑھتا، مگر کالج کی پڑھائی سے یا آفس کی ہنگامہ آرائی سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کبھی چھٹی ہوتی بھی تھی تو اس کے الگ منصوبے ہوتے تھے۔ اب یہ جو فرصت و فراغت کے لمحات بالکل غیرمنصوبہ بند طریقے پر میسر آئے ہیں، انھیں غنیمت جانیے، مطالعہ کیجیے اور اپنے علم میں اضافہ کیجیے۔ کیا پتا ان چند دنوں کے مطالعے سے آپ کی شخصیت میں کوئی بہتر تبدیلی آجائے۔ قرآن و حدیث کے لگاتار مطالعے کا جذبہ اور توفیق میسر آجائے۔ پھر دینی کتب سے فیض حاصل کرنے کا یہ سلسلہ عام دنوں تک بھی دراز ہوجائے۔

l   اسی طرح نوافل کا اہتمام کیجیے۔ تسبیح و تہلیل کا اہتمام کیجیے۔ اگر ہم سے کوئی ایسا بدنصیب ہے، جو روزمرہ کی مصروفیات کے دوران پنج وقتہ نمازوں کی پابندی نہیں کرپاتا، تو وہ فرصت کے ان لمحات میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور نمازوں پر اپنے دل کو آمادہ کرے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اگر مسجد جانا ممکن نہ ہو، تو گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔ عورتوں کو اور بچوں کو بھی شریک کریں۔ نمازیں پڑھنے والے کوشش کریں کہ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں، نئی سورتیں یاد کریں، قرآن پر غور و فکر کریں، لمبی نمازیں پڑھیں اور اس بات پر غور کریں کہ اپنے خدا سے کیا کہہ رہے ہیں۔ قیام اللیل کا خیال عام طور پر جب آتا ہے تو شیطان صبح کی مصروفیات کے حوالے سے بہکاتا ہے، اب شیطان کے کسی نئے حربے کا شکار بننے کے بجاے جی کڑا کرکے قیام اللیل کا اہتمام کریں۔ رمضان المبارک کی اپنی نعمتیں ہیں۔ نفل روزوں کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس طرح سے ہم نے اپنی ذہنی کیفیات پر، اپنے علم پر، اپنی عبادات اور نمازوں پر سنجیدگی سے کام کیا تو ان شاء اللہ اپنی شخصیت میں دوررس مثبت تبدیلیوں کو پیدا ہوتا دیکھیں گے۔

l اسی طرح گھروالوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ بچوں کی تربیت کے لیے انھیں انبیا و صحابہ کے قصے سنائیں۔ دسترخوان پر انھیں ساتھ کھلائیں۔ مختلف دعائیں یاد کرائیں۔ موقع غنیمت جان کر بڑوں کی خدمت کریں اور ان کی دعائیں لیں۔

l مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے اخلاق میں بلندی پیدا کریں۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے لوگ مشکلات و مصائب میں خود غرضی اور کمینگی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے ازلی دشمن ابلیس لعین کے جھانسے میں نہیں آنا ہے۔ اس وبا کے دوران دنیا بھر میں انسانوں نے جہاں بلند اخلاقی کے نمونے پیش کیے، وہیں پست اخلاقی کے شرمسار کردینے والے نمونے بھی سامنے آئے۔ لوگوں نے آنے والی پریشانی کی بو سونگھتے ہی جس طرح روزمرہ کی ضروری اشیا کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا، اس سے کئی مقامات پر نہ صرف یہ کہ اشیاے ضروریہ کی قلت محسوس کی گئی، بلکہ خوف و ہراس کا ماحول بھی پیدا ہوا۔ کئی لوگ افواہوں کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتے رہے۔ بہت تو ایسے تھے، جنھوں نے اپنے بھائیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اپنی جیبیں بھرنے کی اسکیمیں سوچیں۔ چنانچہ ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے ماسکس اور سینی ٹائزر کا ذخیرہ کرکے ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچادیں، اور لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر ان اشیا کی اصل سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر انھیں فروخت کیا۔ اخلاق کی ایسی پستی اشرف المخلوقات کے شایانِ شان نہیں ہے۔

ہمیں چاہیے کہ مصیبت کے اس وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آئیں۔ حتی المقدور انفاق فی سبیل اللہ کریں۔ ماتحت کام کرنے والوں کو کام نہ کرپانے کے باوجود تنخواہیں دیں۔ کسی کو نقد رقم کی یا قرض کی ضرورت ہو تو اس کی ضرورت پوری کریں۔ اپنے آس پاس رہنے والے ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں ،جو یومیہ کماتے تھے اور اب ان حالات نے ان کی روزی روٹی کو متاثر کردیا ہے۔ اسی طرح ان طلبہ اور نوکری پیشہ افراد کے کھانے و دیگر ضروریات کا خیال رکھیں، جو اپنے گھروالوں سے دور رہتے ہیں۔ اگر وہ فاقہ کریں گے اور آپ پیٹ بھر کر کھائیں گے تو قیامت کے روز اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی ضروریات سے زائد ذخیرہ کررکھا ہے، لیکن تب بھی دوسروں کو نہیں پوچھتے ،حالانکہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ’’اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘ (سورۃ الحشر: ۹)۔ ہمیں جانچنا ہوگا کہ اخلاقی بلندی کے اس قرآنی معیار پر ہم کہاں تک پورے اترتے ہیں؟

l  طہارت و نظافت کا خیال رکھیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکی و صفائی پر اتنا زور دیا کہ اسے نصف ایمان قرار دیا، لیکن ان کی امت آج گندا رہنے کے لیے مشہور ہے۔ خدارا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا پاس و لحاظ رکھیں، پاک و صاف رہیں، ہروقت باوضو رہنے کی کوشش کریں، دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔ طہارت کے اسلامی آداب کا تفصیلی مطالعہ کریں اور اپنی زندگی میں ان آداب کی مکمل پاسداری کی کوشش کریں۔ گھروالوں کو بھی ان پر کاربند کریں۔ اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ان باتوں کی طرف متوجہ کریں۔ گھروں اور محلوں میں بھی ستھرائی اور صفائی کا خیال رکھیں، صرف اس ہنگامی موقعے پر نہیں، ہمیشہ رکھیں۔ اس سلسلے میں مل جل کر کوشش کریں۔ جسم اور ماحول کی صفائی، روحانی پاکیزگی کی پہلی سیڑھی ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا آزمودہ نسخہ بھی۔

l دعوت کا کام کریں۔ انبیا ؑکا اسوہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مومن ہر حال میں دعوتِ دین کا کام کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں ہوتے ہوئے بھی فریضۂ دعوت سے غافل نہیں ہوئے۔ ہمیں بھی اس فریضے سے غافل نہیں ہونا ہے۔ موبائل اور مختلف سوشل میڈیا ایپس سے بہت سے بے وقوف صبح و شام صرف گناہ بٹورتے ہیں، سنی سنائی اور بے سروپا ’خبریں‘ اور معلومات، بلاتحقیق آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے برعکس عقل مند جانتے ہیں کہ ان کا ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو بہترین انداز میں دعوت و اصلاح کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔

’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے، بلکہ اس طرح کے تمام تر واقعات کے نتیجے میں لوگ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تازیانے لوگوں کو ان کی روزمرہ کی بے فکری کی زندگی سے نکال کر، کچھ سنجیدہ سوالات پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ عام دنوں کی بہ نسبت ان اوقات میں ہدایت پر غور کرنے اور اسے قبول کرنے کا داعیہ کچھ بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ موت کا خیال اور خدا کی یاد دلوں کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کا تعارف کرایا جائے، تو بہت سے ذہن متاثر ہوسکتے ہیں، اور بہت سی سعید روحوں کو ان شاء اللہ ہدایت قبول کرنے کی توفیق مل سکتی ہے۔

l  مثال کے طور پر، یہ بات دیدۂ بینا رکھنے والے بہت سے شریف النفس لوگوں کو اپیل کرے گی کہ اللہ نے پاک چیزوں کو حلال کیا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا ہے(سورۂ مائدہ: ۵، سورۂ اعراف:۱۵۷)۔ جب انسان ان ناپاک چیزوں کو استعمال کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ کبھی وہ چمگادڑ اور سانپوں کے ذریعے کورونا وائرس کا شکار بنتا ہے؛ کبھی چوہوں کے ذریعے  ’ہنٹا وائرس‘ کا، کبھی خنزیر کے ذریعے سوائن انفلوئنزا وائرس کا؛ اور کبھی اپنی حرام کاریوں کی وجہ سے ایچ آئی وی وائرس کا۔ اسی طرح طہارت و نظافت کے تعلق سے اسلامی تعلیمات، جو اس وقت دی گئیں، جب انسانیت ’بیکٹیریا‘ اور وائرسوں کے وجود سے انجان تھی، بہت متاثر کن ہیں۔ استنجا، وضو، غسل، اور تیمم وغیرہ کی ان تعلیمات کو معمولی نہ سمجھیے۔ ان کی حکمتوں پر غور کیجیے۔ انسان اگر ان تعلیمات پر صحیح انداز سے عمل کرے، تو بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ وباؤں اور متعدی امراض کے تعلق سے حدیث نبویؐ میں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعلیمات ملتی ہیں وہ بھی انبیائی حکمت پر مبنی ہیں۔ ایک انسان اگر کھلے ذہن سے ان باتوں پر غور کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہم میں سے جو لوگ سوشل میڈیا پر اپنی تخلیقات کے لیے جانے جاتے ہیں، اگر وہ ان موضوعات پر ویڈیوز بنائیں یا شان دار ڈیزائن کے ساتھ کچھ پوسٹر بنائیں تو شاید یہ باتیں بہت زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔

l اپنے جسم کی قوتِ مدافعت کو مضبوط کریں۔ جس طرح پیروں کو کنکر سے بچانے کے لیے ساری دنیا سے کنکر ختم کردینا نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب، بلکہ چپل پہن لینے میں عقل مندی ہے۔ بالکل اسی طرح پوری دنیا سے سارے بیکٹیریا اور وائرسس کو ختم کردینا نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ عقل مندی یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کو اتنا قوی بنائیں کہ ضرررساں جراثیم اگر حملہ آور ہوں، تو جسم اپنا دفاع آپ کرسکے۔ اپنے جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کیا جائے۔

l  ہمیں چاہیے کہ اچھی اور صحت مند غذا کھائیں۔ ایسی متوازن غذاؤں کا استعمال کریں کہ جسم میں کسی وٹامن کی کمی نہ ہو۔ وقت پر کھانا کھائیں اور بہت زیادہ نہ کھائیں۔ یوں کھانے کے اسلامی آداب اور دعائیں جو ہم نے بچپن میں سیکھی تھیں، ان پر عمل پیرا ہوں۔ اسی طرح ورزش کریں اور روزانہ کریں۔ اگر ورزش کی عادت نہیں ہے تو ہلکی پھلکی ورزشوں سے شروعات کریں۔ اس ضمن میں صبح کی چہل قدمی پر خصوصی دھیان دیں، تاکہ سورج سے وٹامن ڈی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو۔ عمارتوں اور کانکریٹ کے جنگلوں میں شہری زندگی گزارنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے جس کے جسم کی قوت مدافعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اچھے نظامِ مدافعت کے لیے بہترین نیند شرطِ لازم ہے، لہٰذا جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ نامکمل نیند جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کردیتی ہے۔ جلدی سونے کے لیے ضروری ہے کہ سونے سے ایک دو گھنٹے قبل سے موبائل کا استعمال نہ کریں۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے آدھا گھنٹہ کسی دینی کتاب کے مطالعے کی کوشش کریں۔

l  کسی مسلمان سے امید نہیں کی جاتی کہ وہ پنج وقتہ نمازیں نہ پڑھتا ہو، لیکن اگر کوئی ان فرائض سے غافل ہے تو ان کے اہتمام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ اسی طرح کسی مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ شراب، نشے وغیرہ کی لت میں گرفتار ہوگا، لیکن کوئی اگر شیطان کے نرغے میں ہے، تو اللہ کے غضب، آخرت کی پکڑ، اور دنیا میں اپنی صحت و کامیابی کا خیال کرے اور ان ضرررساں چیزوں سے مکمل پرہیز کرے۔ اسی طرح ایک مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ (Stress)جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو۔ کیونکہ مومن تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اپنی کوششیں کرتا ہے، نتائج اللہ پر چھوڑتا ہے۔ نتیجہ اچھا نکلے تو شکرگزار ہوتا ہے؛ بُرا نتیجہ نکلے تو صبر اور نماز سے مدد لیتا ہے، اپنا احتساب کرتا ہے، اور پھر کوشش کرتا ہے۔ یوں مومن ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے، کبھی مایوس نہیں ہوتا اور صبرو شکر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس مومنانہ طرز فکر کو اپنائیں بھی اور فروغ بھی دیں۔ جسم کی قوت مدافعت پر ٹینشن کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے، لہٰذا اس سے بچاؤ ضروری ہے۔ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی، مسکراتے رہنے کی، اور چیزوں کے مثبت پہلو پر توجہ دینے کی عادت ڈالیں۔ یہ خوشیوں بھری زندگی کی شاہ کلید ہے۔

l نظام طب و صحت کا احتساب کریں۔ یہ حالات دعوت دیتے ہیں کہ ہم اجتماعی طور پر اپنے طبی نظام کا جائزہ لیں۔ اس طرح کی ناگہانی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے ملک کا نظام طب و صحت کس حد تک تیار ہے، اس کا احتساب کریں۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں اور بستروں کی تعداد زیادہ ہوتی اور دیگر طبی سہولیات بھی خاطر خواہ ہوتیں تو ہمارے لیے flattening of the curve والا عمل (جس کا ذکر پیچھے گزرا ہے) نسبتاً آسان ہوتا۔

 ٹی کے ارون زور دیتے ہیں کہ’’ ہمیں مستقبل کے وبائی حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔ اس ’تیار رہنے‘ کا مطلب ہے کہ ہمارے نظام صحت میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ دسیوں لاکھ مریضوں کا بیک وقت علاج کرنے کے قابل ہوں۔ اسپتالوں میں یہ انتظام بھی ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالات میں نارمل وارڈز کو انتہائی نگہداشت یونٹس (Intensive Care Units) میں تبدیل کیا جاسکے۔ اسی طرح پبلک ہیلتھ انجینیرنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ صحت کے حوالے سے لوگوں میں بیداری پیدا ہو۔ متوازن اور مقوی غذا، صاف پانی،صحت کے لیے نقصان دہ عادتوں سے اجتناب اور صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ان کی قوت مدافعت میں اضافہ کیا جائے۔

جرمنی، جنوبی کوریا، کیوبا اور بالخصوص تائیوان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ حکمراں اگر بیدار اور دوراندیش ہوں تو آفات کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیسن وانگ (ڈائرکٹر، سینٹر فار پالیسی آؤٹکمس اینڈ پریوینشن، اسٹنفرڈ یونی ورسٹی) کے مطابق تائیوان نے دسمبر کے مہینے ہی سے اس آنے والی بلا سے لڑنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ موجودہ صدی کے اوائل میں جب ’سارس‘ کی وبا پھیلی، تو بہت سے ممالک کی طرح تائیوان میں بھی ایک نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر بنایا گیا تھا۔ ’کورونا وائرس‘ کے خلاف بھی اسی سینٹر کی خدمات حاصل کی گئیں، جس کے ذریعے ملک کی مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ تائیوان میں ووہان سے آنے والے مسافروں کی ہوائی جہازوں سے اترنے سے پہلے ہی جانچ کی جانے لگی، تاکہ ان میں سے کوئی وائرس سے متاثر ہو تو وہ انفیکشن پھیلا نہ سکے۔ ڈاکٹروں میں اتنی بیداری پیدا کی گئی کہ جب وہ کسی مریض کی عام سی شکایت کا علاج بھی کرتے، تو اس سے اس کے سفر اور روابط وغیرہ کے تعلق سے دریافت کرتے؛ اگر پتا چلتا کہ مریض نے ووہان کا سفر کیا ہے یا وہاں سے حالیہ دنوں میں پلٹ آنے والے کسی فرد سے ملاقات کی ہے، تو اس کے عام بخار کو بھی بہت سنجیدگی سے لیتے اور پوری جانچ پڑتال کرتے؛ ٹیسٹ مثبت ہونے پر اس کے متعلقین کی جانچ بھی کرتے۔

ڈاکٹر وانگ مزید کہتے ہیں کہ تائیوان میں جن لوگوں کو قرنطینہ (Quarantine) کے عمل سے گزرنا تھا، ان کی موبائل فون لوکیشن ڈیٹا کے ذریعے نگرانی کی گئی۔ افسرانِ صحت انھیں دن میں دو تین مرتبہ فون کرکے مرض کی علامات (symptoms)میں مثبت و منفی تبدیلی کے بارے میں پوچھتے۔ اگر کوئی منفی تبدیلی آتی تو انھیں معالجین تک پہنچانے کا نظم کیا جاتا۔ بصورت دیگر وہ گھر ہی میں رہتے اور وہیں ان کے لیے کھانا پہنچایا جاتا۔ اگر وہ قرنطینہ کے خلاف ورزی کرتے تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا۔ اتنا ہی نہیں، بعد میں حکومت نے قرنطینہ کے عمل سے گزرنے والوں کو وظیفہ دینا بھی شروع کیا۔

 حکومت نے لوگوں کو گھر بیٹھنے کے لیے پیسے دیے تاکہ وہ خاندان کی غذائی ضرورتوں یا مکان کے کرایے وغیرہ کے لیے پریشان نہ ہوں۔ حکومت نے شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے اہم قدم اٹھائے ،حتیٰ کہ ماسک بنانے اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لی، تاکہ کسی قسم کی حقیقی یا مصنوعی قلت نہ پیدا ہو۔ جن مریضوں کے تعلق سے وائرس انفیکشن کا خدشہ ہوا، ان کے ٹیسٹ اور علاج کے لیے بالکل علیحدہ انتظامات کیے گئے، تاکہ انفیکشن نہ پھیل سکے۔ عوامی مقامات پر ایسے اسکینر لگائے گئے، جو آنے والوں کے جسمانی درجۂ حرارت کو ناپ لیتے۔ بخار میں مبتلا کسی فرد کو عمارتوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ڈاکٹر وانگ کے الفاظ میں: ’’صحت عامہ کے حوالے سے مستعدی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں صحت عامہ کا ایسا ڈھانچا (Infrastructure) ہو کہ اس کے ذریعے آپ کسی بھی بحران کا سامنا کرسکیں‘‘۔ یہ صحت عامہ کے حوالے سے ایک بیدار مغز حکومت کے اقدامات تھے، جس کی وجہ سے چین کے بالکل پڑوس میں واقع  تائیوان نے اس وبا پر قابو پالیا۔ چین میں ہونے والی ۳ہزار سے زائد اموات کے بالمقابل تائیوان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد صرف دو ہے۔

ہمارے ملک کے لیڈر اب تک نفرت کی بنیادوں پر بانٹ کر ووٹ لیتے آئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کا احتساب کیا جائے اور صرف ایسے سیاستدانوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملے جو مفاد عامہ میں کام کریں۔اس کے لیے برادران وطن میں بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وائرس کے انفیکشن سے لڑنے کے لیے ہمیں پورے ملک کو بند کرنا پڑ رہا ہے اور ایک لاک ڈاؤن کے ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرے لاک ڈاؤن کا اعلان ہورہا ہے۔

عوام میں یہ بیداری کیوں نہیں ہے کہ وہ یہ پوچھیں کہ کیوں ہمارا نظام صحت اتنا ناکارہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک طرف انسانی جان اور دوسری طرف انسان کے نقل و حمل، سماجی تعلقات، اداروں کے کام کاج، معاشی سرگرمیوںاور روزمرہ زندگی کے دیگر لوازم میں سے ایک کو چننے کی نوبت آگئی ہے؟ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر ماہرین نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس بیماری کا Asymptomatic transmission بہت کم ہے۔ یعنی زیادہ تر وائرس منتقل کرنے کا کام وہی لوگ کرتے ہیں، جن میں مرض کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ خدشہ بہت کم ہے کہ بظاہر صحت مند لوگ وائرس منتقل کرتے رہیں۔ ایسے میں بیمار لوگوں کی ٹیسٹنگ اور انھیں قرنطینہ کے عمل سے گزارنا صحیح حکمت عملی ہے، نہ کہ پورا ملک بند کردینا۔ مائیکل اوسٹرہوم (ریجینٹس پروفیسر و ڈائرکٹر، سینٹر فار انفیکشیس ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی، یونی ورسٹی  آف مینی سوٹا) کہتے ہیں کہ’’ اس طرح کے مکمل لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ یہ خام خیالی ہے کہ تمام لوگ گھروں میں بیٹھے بھی رہیں اور لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ایسے میں کیا ہمارا ملک فانشنل ایمرجنسی کی طرف جارہا ہے؟ کیا ہماری حکومت اپنی معاشی ناکامیوں کے ساتھ کورونا وائرس کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے؟ لاک ڈاؤن کے بدلے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی حکمت علمی کو کیوں اختیار نہیں کیا جارہا ہے؟ اگر اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کے لیے درکار وسائل ہمارے ملک میں نہیں ہیں تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ایسے سوالات کو پوچھنا ضروری ہے، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے!

آفتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کثرت سے ذکر کریں، مسنون دعاؤں کا بھی اہتمام کریں:

l   بِسْمِ اللہِ الَّذی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فی الْأَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَائِ وَ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیْمُ’’ اللہ کے نام سے کہ جس کے نام سے زمین یا آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی، اور وہ خوب سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)

l  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَ مِنْ سَیِّیِٔ الأَسْقَامِ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص سے، جنون سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بُری بیماریوں سے‘‘۔ (ابوداؤد)