قیصر جسٹینین اوّل کے حکم پر ۵۳۲ء سے ۵۳۷ء کے دوران آیا صوفیہ کی تعمیر ہوئی۔ یہ عمارت، تب سے لے کر اب تک، بازنطینی طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے، جسے فن تعمیرات کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اپنی اوّلین شکل میں اس عمارت کو یونانی آرتھوڈوکس کیتھڈرل کے طور پر بنایا گیا۔ بعد ازاں اپنی طویل تاریخ میں یہ پر شکوہ عمارت، عروج و زوال کی کئی داستانوں کی گواہ بنی۔ آئیے کچھ پہلوؤں پر ہم غور کرتے چلیں:
یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ عیسائی دنیا مبہم و متضاد تعلیمات پر مبنی کئی فرقوں میں تقسیم ہے۔ خاص طور پر یونانی آرتھوڈوکس اور رومن کیتھولک عیسائیوں کے درمیان نہایت بنیادی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اوّل الذکر پوپ کی معصومیت کا قائل نہیں اور مؤخر الذکر گنہگار تسلیم نہیں کرتا۔ ایک کے نزدیک پادریوں کی شادی ہوچکی ہو تو جائز ہے، دوسرے کے ہاں کسی حال میں جائز نہیں۔ دونوں کے درمیان عالم برزخ کے وجود و عدم وجود اور محطات الصليب (stations of the cross) کے عقیدے کے اقرار و انکار پر عداوتیں چلی آرہی ہیں۔ اوّل الذکر کے نزدیک مذہب کی اساسی تعلیمات و عقائد میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں، تو مؤخر الذکر عقائد میں ارتقا کے قائل ہیں۔ یہ ایسے بنیادی اختلافات ہیں، جن سے یہ دو مسلک نہیں بلکہ دو مختلف دین نظر آتے ہیں۔ صرف باہر سے نہیں بلکہ ان کا باہمی رویہ بھی تاریخی طور پر ایسا نہیں رہا ہے، جس سے ان کے باہمی اختلافات پر محض فرقہ وارانہ اور مسلکی ہونے کی تہمت لگائی جاسکے۔
ان کے اختلافات نے وقتاً فوقتاً کبر و نخوت اور تفسیق و تکفیر کی ہی نہیں بلکہ سیاسی محاذ آرائی اور جنگ و جدال کی شکل اختیار کی ہے۔ چنانچہ صلیبی جنگوں کے دوران ۱۲۰۴ء میں کیتھولک صلیبیوں نے آرتھوڈوکس بازنطینیوں پر حملہ کر دیا اور قسطنطنیہ پر قبضہ جمالیا۔ یہ ایک ہی مذہب کو ماننے والوں کے درمیان کا ایک اتفاقی سیاسی جھگڑا نہ تھا، ورنہ اتنی رواداری تو برتی جاسکتی تھی کہ آیا صوفیہ کے مذہبی تشخص کو بحال رکھا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب صلیبی، قسطنطنیہ کےآرتھوڈوکس شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے، ان کے اموال و املاک پر قابض ہورہے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے آیا صوفیہ کی سابقہ حیثیت کو ختم کرکے اسے رومن کیتھولک کیتھڈرل بنا ڈالا۔ پھر جب بازنطینی سلطنت کو ۱۲۶۱ء میں دوبارہ اقتدار حاصل ہوا، تو اس وقت آیا صوفیہ کی شناخت میں پھر انقلاب آیا اور وہ آرتھوڈوکس کیتھڈرل کی حیثیت میں لوٹ گیا۔ آرتھوڈوکس اور کیتھولک عیسائیوں کے درمیان یہ عداوت و مخاصمت ایسی شدید تھی کہ آرتھوڈوکس عیسائی، مسلمانوں کو کیتھولک عیسائیوں سے بہتر سمجھتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا اقرار نہ تھا بلکہ ان کے بڑے بڑے مذہبی رہنما باقاعدہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے قول تاریخ کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ قسطنطنیہ پر ۱۲۰۴ء کی صلیبی فتح اور ۱۴۵۳ء کی عثمانی فتح کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کی کیتھولک صلیبیوں سے بدظنی محض مسلکی تعصب پر ہی نہیں بلکہ عقلی و تجرباتی بنیادوں پر بھی قائم تھی۔
آج ترکی کی آبادی تقریباً ۸کروڑ ۲۰لاکھ ہے۔ اس میں صرف ۰ء۲ فی صد عیسائی ہیں۔ یہ تعداد زیادہ سے زیادہ دو سے تین لاکھ بنتی ہے۔ ان میں کم و بیش۸۰ ہزار اورینٹل آرتھوڈوکس، ۳۵ہزار کیتھولک، ۱۸ ہزار انطاکی، ۵ہزار یونانی آرتھوڈوکس، اور ۸ہزار پروٹسٹنٹ شامل ہیں۔
باقی سوالوں کو فی الحال نہ چھیڑتے ہوئے اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ مفروضہ انصاف کا تقاضا مسجد آیا صوفیہ کو چرچ بنادینا ہی ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟
کیا اسے یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کے سپرد کیا جائے کہ یہ انھی کے فرقے کا کیتھڈرل رہا ہے؟ مگر ان کی تعداد تو بڑی کم ہے، تاریخ کے اس طویل سفر کے بعد اس اقلیت کو ترکی کی موجودہ عیسائی اقلیت کا نمایندہ نہیں سمجھا جاسکتا۔
کیا اسے اورینٹل آرتھوڈوکس کو دیا جائے کہ ان کی تعداد ترکی میں زیادہ ہے؟ مگر اورینٹل آرتھوڈوکس دنیا بھر کے عیسائیوں کی نمایندگی نہیں کرسکتے۔
کیا اسے رومن کیتھولک فرقے کو دیا جائے کہ ان کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے؟ مگر انصاف کی آڑ میں یہ تو شدید ترین ظلم ہوگا کہ یہ تاریخی عمارت انھیں بھینٹ میں دے دی جائے، جو نہ صرف اس معبد بلکہ اس شہر اور اپنے ہم مذہب شہریوں کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے۔
کیا پھر یہ پروٹسٹنٹس کو دے دی جائے کہ وہ نسبتاً نئے اور تاریخی طور پر کم متنازع ہیں؟
یا اسے ورلڈ کونسل آف چرچز یا اسی طرح کے کسی ادارے کے حوالے کردیا جائے؟
یہ سوالات بڑے ٹیڑھے اور ناہموارہیں۔
اس پورے قضیے میں ایک قابلِ ذکر سوال یہ ہے کہ کیا کسی عیسائی فرقے نے آیا صوفیہ کے لیے اپنا دعویٰ بھی پیش کیا ہے، یا قانونی جنگ لڑی ہے؟ دلائل و شواہد مہیا کرائے ہیں؟ ۱۴۵۳ء سے نہ سہی، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۵ء سے کوئی جدوجہد کی ہے؟ تحریک چلائی ہے؟ غلط ہی سہی کم از کم دعویٰ تو کرتے۔ چلیے سلطان محمد فاتح کو ظالم قرار دے کر، عیسائی ان سے ڈر گئے۔ اسی طرح اردوغان سے بھی ترکی کے عیسائی ڈر گئے۔ لیکن پوپ سمیت دنیا بھر کے عیسائی کس سے اور کیوں ڈرے رہے؟
الٹرا لبرل و سیکولر عینکیں اتار کر دیکھیں تو بات صاف سمجھ میں آجائے گی۔ آیا صوفیہ کی عجائب گھر والی حیثیت قانونی طور پر ناجائز ٹھیری ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کی مسجد والی حیثیت قانونی و تاریخی حیثیت سے اتنی مسلّم ہے کہ کوئی قابل ذکر عیسائی فرد بھی اسے چرچ نہیں کہہ رہا ہے۔ ورلڈ کونسل آف چرچز کے عبوری سیکریٹری جنرل آیان ساکا نے اردوغان کو لکھے اپنے خط میں آیا صوفیہ کو عجائب گھر سے مسجد بنانے کے فیصلے پر’افسوس‘کا اظہار کیا ہے۔ اس کونسل کو عالمی سطح پر ۳۵۰سے زائد پروٹسٹنٹ، آرتھوڈوکس، انجلائی چرچوں کی سرپرستی کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن اس کونسل کے جنرل سیکریٹری نے رسمی لفظوں میں بھی نہیں کہا کہ ’’اصل انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنادیا جائے‘‘۔ پوپ فرانسس نے بھی اس اقدام پر’درد‘تو محسوس کیا، لیکن وہ بھی ایسی دیدہ دلیری کا مظاہرہ نہ کرسکے کہ اس مرکز توحید کو چرچ بنانے کی بات کہتے۔ ان راہبوں کی خداپرستی کی شان نرالی ہے۔ خداے بزرگ و برتر کی عبادت گاہ تماشا گاہ اور عجائب خانہ بن کر اُجڑی رہے یہ انھیں منظور ہے، مگر وہ خدا کے بندوں کے سجدوں سے معمور ہو، یہ منظور نہیں۔ ہمارے کچھ بھائیوں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ تثلیث کے حامی تو مسجد کو عجائب گھر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان موحدین کا کیا کیا جائے جو مسجد کی بازیافت پر بارگاہ الٰہی میں ہدیۂ تشکر پیش کرنے کے بجائے فیس بک پر اس بات کا غم منا رہے ہیں کہ مسجد، مسجد کیوں بن گئی، چرچ کیوں نہ بنی؟
حقیقت یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنانے کی بحث انصاف سے زیادہ فتنے کا وہ دروازہ ہے، جس کے اوروں کی عیاری سے ٹوٹنے کا اتنا امکان نہیں، جتنا سادگی سے متنازع بنائے جانے کا ہے۔
آج جہاں مسجد آیا صوفیہ قائم ہے اس زمین پر انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق پہلے پہل قسطنطین اوّل نے ایک پرانے غیر عیسائی (pagan) معبد کی بنیادوں پر ۳۲۵ء میں ایک چرچ تعمیر کرایا۔ ملک کے داخلہ ہنگاموں کے دوران ۴۰۴ء کو لکڑی سے بنے اس سیدھے سادے کلیسا میں آگ لگ گئی۔ کونسٹانس اوّل نے اس کی تعمیر نو کرائی۔ لکڑی سے بنی یہ عمارت ایک بار پھر داخلی خلفشار کے دوران ۵۳۲ء میں نذر آتش ہوگئی۔ جس کے بعد جسٹینین اوّل نے دو ماہر معماروں کو تعمیر کا کام سونپا۔ ۵۳۷ء میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ مختصراً یہ کہ ۳۲۵ء سے قبل اس جگہ کی حیثیت ایک غیر عیسائی معبد، مابعد۳۲۵ء اس کی حیثیت ایک چرچ، بعد ازاں خصوصاً ۵۳۷ء کے بعد اس کی حیثیت بازنطینی کیتھڈرل کی ہوگئی۔ عیسائیوں کے باہمی اختلافات اس دوران شدت اختیار کرتے رہے، جس کے اثرات آیا صوفیہ پر بھی پڑے۔ خصوصاً آٹھویں صدی عیسوی میں عمارت سے بتوں، تصویروں اور کچھ دیگر شعائر کو ہٹانے کے لیے ایک مہم چلی۔ اس متنازعہ دور کو Iconoclastic Period بھی کہتے ہیں۔ ۱۰۵۴ء میں یہ قضیہ اپنے انجام کو پہنچا اور کیتھڈرل پر یونانی آرتھوڈوکس فرقے کے عیسائیوں کا تسلط قائم ہوگیا۔ مسیحی تاریخ میں اس اہم وقوعے کو The Great Schism کہا جاتا ہے۔
۱۲۰۴ء میں قسطنطنیہ پر صلیبیوں کے حملے کے نتیجے میں آیا صوفیہ کو رومن کیتھولک کیتھڈرل میں تبدیل کردیا گیا۔ ۱۲۶۱ء میں بازنطینیوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر اس کی یونانی آرتھوڈوکس کیتھڈرل والی حیثیت بحال ہو گئی۔
۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح کی قیادت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر فتح حاصل کی۔ قسطنطنیہ استنبول اور کیتھڈرل آیا صوفیہ، جامع کبیر آیا صوفیہ ہوگیا۔ کیتھڈرل کی مسجد میں یہ تبدیلی کیا شرعاً و قانوناً جائز ہے؟ اس سوال پر ذرا رُک کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ذرا رُکنے سے میری مراد تین اہم نکات کو ذہن میں تازہ کرلینے سے ہے:
پہلا نکتہ: خیال رہے کہ اپنے تمام تر عقل و شعور کے باوجود انسان ایک مادی و حسی وجود ہے اور اکثر و بیش تر خود کو زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد نہیں کرپاتا۔ تاریخ کے مطالعے کی بدترین شکل یہ ہے کہ ہم اپنے دور میں رہ کر اپنے دور کے مسلمات کے مطابق ماضی کی ہر چیز کا جائزہ لینے لگیں اور بدقسمتی سے اکثر ایسا ہی کیا جاتا ہے، جو مطالعہ تاریخ کے باب میں انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ ایسی تنقید آج کے کسی آٹھ سالہ پوتے کی اٹھاسی سالہ دادا پر کی گئی اس تنقید کے مترادف ہے کہ ’’اتنے بڑے ہوگئے ہیں مگر آپ کو موبائل چلانا کیوں نہیں آتا؟‘‘ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ٹکنالوجی کا معاملہ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ذہن و تصورات کی دنیا میں بھی ارتقا ہوتا ہے۔ ٹکنالوجی میں ہونے والا ارتقا بھی فکر کی دنیا میں ہونے والے ارتقا کا بالواسطہ ثبوت ہے۔
دوسرا نکتہ: اسلام ایک عملی دین ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو بے جا مشقت میں مبتلا نہیں کرتا،اور نہ غیر عملی قسم کی (idealistic )تعلیمات دیتا ہے۔ اس کے اپنے آدرش (ideals) بہت اونچے ہیں، لیکن کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں، جن میں فیصلے دوسروں کے طرز عمل کو مدنظر رکھ کر لیے جاتے ہیں اور لیے جانے چاہییں۔ یہ عملیت اسلام کا حسن ہے۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران بھی پیڑ پودے کاٹنے کی ممانعت ہے، — لیکن — جنگی ضرورت کے تحت ایسا کیا جاسکتا ہے؛ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور راہبوں کو مارنے کی ممانعت ہے، — لیکن اگر وہ خود حملہ آور ہوجائیں تو ان پر بھی تلوار اٹھائی جائے گی؛ حرام مہینوں میں قتال منع ہے، — لیکن — اگر دشمن اس حرمت کا پاس نہ رکھے تو قتال کیا جائے گا؛ حدود حرم میں قتال منع ہے، — لیکن — دشمن اگر آمادہ جنگ ہو تو حرم میں بھی قتال ہوگا۔ یہ صرف چند کا ذکر تھا ورنہ بین الاقوامی تعلقات پر منطبق ہونے والی قرآن و سنت کی بہت سی تعلیمات ہیں، جہاں اپنے طرزِ عمل کے لیے سامنے والے کے طرز عمل کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ذرا آگے بڑھ کر ہمارے بہت سے فقہا اور مفکرین نے کہا ہے کہ جزیہ، ذمی، جنگی قیدیوں، لونڈی اور غلام وغیرہ کے سلسلے میں فقہ اسلامی کے بہت سے احکام (خصوصاً وہ جو اگلے وقتوں میں ذرا regressive معلوم ہوں) وقت کے قوانین کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسلام کا مطمح نظر تاجروں کی حوصلہ افزائی اور تجارت کا فروغ ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’آزادانہ تجارت‘ (FreeTrade) کا تصور اسلامی تعلیمات سے زیادہ میل کھاتا ہے، لیکن حضرت عمرؓ نے دیگر ممالک میں مسلم تاجروں پر محصول لگائے جانے کے جواب میں، بلاد اسلامیہ میں آنے والے غیر مسلم تجار پر بھی محصول عائد کیا۔ یہ اللّٰہ کے دین کا حسن ہے اور بالغ نظری ہے ہمارے فقہا کی، جنھیں اللّٰہ نے دین کی سمجھ عطا کی کہ ہمارے دین میں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
تیسرا نکتہ: ہمارے فقہ کی کتابوں میں دو قسم کی فتوحات کا تذکرہ ہے۔ بذریعہ صلح اور بزورِ قوت۔ صلح کی صورت میں ظاہر ہے کہ مقبوضہ آبادی، ان کے اموال و جایداد، اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ اور بزور قوت فتح پانے کی صورت میں یہ وقت کے اولوالامر کی صوابدید پر ہوگا کہ وقت اور حالات کے تناظر میں چاہے تو سختی کا رویہ اختیار کرے اور چاہے نرمی اور احسان کا۔ اسلامی تاریخ میں کم ہی ایسا ہوا جب سختی کے رویے کو اختیار کیا گیا۔ عام طور پر عفو و درگزر اور نرمی و احسان کی مثالیں ہی ملتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سختی ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ یوں ایک قانونی مسئلے میں منتخب اور یک طرفہ مثالیں جذباتی انداز میں پیش کرکے مسجد آیا صوفیہ کی بازیافت پر سوالات اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ یاد رہے سیرت میں فتح مکہ ہی نہیں طائف، حنین، بنونضیر اور بنوقریظہ بھی آتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے امام ابویوسف کی کتاب الخراج ہے، جس میں تفصیل سے فتح کی دونوں قسموں پر بحث کی ہے اور مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
ان بنیادی نکات کی وضاحت اس لیے ضروری ہے، تاکہ بے جا مثالیت پسندی کے بجائے ہم اپنے ماضی اور اسلاف کے ساتھ انصاف کرسکیں اور حال میں احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔
اب آئیے ۱۴۵۳ء کے قسطنطنیہ چلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب عثمانی فوجیں شہر میں داخل ہوئیں تو قتل عام ہوا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس ’قتل عام‘ سے کیا مراد ہے؟ دراصل دشمن کے شہر کو جب بزور قوت فتح کیا جاتا تھا، تو ان کا زور توڑ دینے کے لیے شہر میں قتال کیا جاتا تھا۔ جس دشمن نے آخر تک مزاحمت کی ہو، اس کی طرف سے شہر میں گھستے ہی غافل ہو جانا یقیناً دانش مندی نہ تھی۔ یہ سوچنا سادہ لوحی ہوگی کہ فوجوں کی مزاحمت صرف شہر کے صدر دروازے پر ہوگی، حالانکہ ہاری ہوئی فوج کے بے ترتیب حصے اور جوشیلے نوجوان ہر گلی کوچے میں مزاحمت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک بے ضرر شہری اور دشمن فوج کے سپاہی میں امتیاز مشکل تھا۔ چنانچہ مسلم افواج کی کوشش یہ ہوتی تھی بلکہ باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ ’’لوگ گھروں میں دروازہ بند کرلیں وگرنہ انھیں دشمن کا سپاہی سمجھا جائے گا‘‘۔ اسے آپ چاہیں تو موجودہ دور میں فسادات کے دوران کرفیو اور شوٹ ایٹ سائٹ سے یک گونہ تشبیہ دے کر بات سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عین فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کیا تھا کہ جو ابوسفیان کے گھر، حکیم بن حزام کے گھر، کعبے میں، یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے رہے اسے امان ہے۔ بھلا بتائیے سڑک پر چلنے والے ایک عام شہری کو امان کیوں حاصل نہیں تھی؟ کیونکہ اس وقت تک اسلامی افواج نے شہر پر مکمل تسلط حاصل کرکے، نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے کر امن و امان قائم نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی شہر کا کنٹرول ہاتھ آیا لوگوں کو مکمل امن عطا ہوا۔ قسطنطنیہ میں جس ’قتل عام‘ کا ذکر ہوتا ہے، اگر اس کی نوعیت یہ تھی تو پھر یہ ناگزیر تھا۔ اگر اس کے علاوہ کچھ تھی تو اسے بے احتیاطی کہیے یا جواں سال سلطان کے نظم کی کمزوری —، یقیناً اس کا جواز نہیں پیش کیا جائے گا، لیکن ایسی بے احتیاطی کی وجہ سے پوری فتح کو متہم نہیں کیا جائے گا۔
میری اپنی راے میں قتال کی نوعیت وہ تھی جس کا ذکر دشمن کا زور توڑنے اور شہر پر تسلط حاصل کرنے کے ضمن میں کیا گیا۔ چنانچہ عزیر احمد لکھتے ہیں کہ شہر میں داخلے کے بعد عثمانی فوج نے’’فتح کے ابتدائی جوش میں قتل عام شروع کردیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب یہ جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور نیز یہ دیکھ کر کہ شہر والوں کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوئی، انھوں نے اپنی تلواریں نیام میں کرلیں‘‘(دولت عثمانیہ، جلد اول)۔ یعنی جب مزاحمت نہیں ہوئی (یا ہونی بند ہوگئی) تو عثمانی تلواریں بھی نیام میں چلی گئیں۔ عزیر احمد ایورسلے کو نقل کرتے ہیں جو ۱۲۰۴ء کے بھیانک صلیبی مظالم کا تذکرہ کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح کی افواج کے بارے میں لکھتا ہے کہ شہر میں’’داخلے کے ابتدائی چند گھنٹوں کے بعد اس موقع پر کوئی قتل عام نہیں ہوا، آتش زنی بھی زیادہ نہیں ہوئی۔ سلطان نے گرجاؤں اور دوسری عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہا‘‘۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ مورخ اکبر شاہ نجیب آبادی لکھتے ہیں،’’قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن و امان عطا کیا، جو لوگ اپنے مکانوں اور جایدادوں پر قابض رہےاور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجز آیا صوفیہ کے) علیٰ حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان نے بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوا رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خاں فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہوگئے، جو عیسائی سلطنت میں بھی ان کو حاصل نہ تھے۔ عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔ گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ جنگی اسیروں کو، جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔‘‘(تاریخ اسلام، جلد سوم)
اختصار کے ساتھ کہیں تو سلطان محمد فاتح نے دشمن پر فتح پاکر ان کے ساتھ قانونی نہیں بلکہ احسان کا معاملہ فرمایا۔ لیکن بہرحال ایک آیا صوفیہ کے معاملے میں یہ روش اختیار نہیں کی۔ ویسے تو اس بات کا الگ جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ قانون کی رو سے جب انھیں پورے شہر پر تسلط کا اختیار تھا اور انھوں نے اس قانونی حق کو استعمال نہ کرتے ہوئے ہر معاملے میں، بجز ایک کے، احسان کی روش اختیار کی تو کون سا سوال باقی رہ جاتا ہے۔ اور آیا صوفیہ کے استثنا کی جو سمجھ،سمجھ میں آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
آیا صوفیہ کوئی عام چرچ نہیں بلکہ ایک کیتھڈرل تھا۔ کیتھڈرل مرکزی چرچ کو کہتے ہیں اور دیگر چرچ اس مرکزی چرچ کے تابع ہوتے ہیں۔ ایم جے ہگنس اور ایف نکس بازنطینی چرچ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسے سمجھنے کے لیے ایک مسیحی جہانی ریاست (Christian World State) کے تصور کو سمجھنا ہوگا کیونکہ سلطنت کی توسیع پسندانہ اور سامراجی پالیسیوں کے نفاذ میں چرچ ایک مرکزی آلہ کار تھا۔ بادشاہوں کی تاجپوشی آیا صوفیہ میں بطریق کے ہاتھوں ہوتی تھی۔ یہ چرچ (بطور ایک عبادت گاہ نہیں ایک ادارہ) کی طاقت ہی تھی کہ بسااوقات بادشاہ اور بطریق کے درمیان بھی قوت و اقتدار کی جنگ چھڑ جاتی تھی۔ مارک کارٹ رائٹ بتاتے ہیں کہ صرف بطریق نہیں بلکہ مقامی بشپ بھی سیاسی قوت و اقتدار کے مالک تھے۔ وہ بڑے بڑے قصبوں میں بادشاہ اور بطریق کے نمایندوں کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کے پاس بے شمار دولت ہوا کرتی تھی۔ دولت و طاقت اور روحانی اثر و رسوخ کی بدولت انھوں نے ایک طرح سے متوازی اقتدار قائم کررکھا تھا۔ اور ڈاکٹر عمیر انس بھائی کے الفاظ میں:’’آیا صوفیہ کی حیثیت سبھی تاریخی روایات کے مطابق محض مذہبی عمارت کی نہ تھی بلکہ ایک سیاسی اور عسکری ہیڈکوارٹر کی بھی تھی، اس لیے اس کے ساتھ مذہبی عمارتوں والا سلوک کیا جانا ممکن نہیں تھا۔ مزید یہ کہ اس زمانے کی صلیبی جنگیں چرچ کے ذریعے ہی انجام دی جا رہی تھیں اور پوپ حضرات ہی جنگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے، لہٰذا پوپ کی اور ان کے مراکز کی حیثیت ’’عام عبادت گاہوں، مدرسوں یا خانقاہوں جیسی نہ تھی‘‘۔
پھر کیتھڈرل سے بہت سے توہمات وابستہ تھیں۔ ایڈورڈ گبن جیسے مؤرخ نے ان توہمات کا مذاق اڑایا ہے کہ کس طرح چرچ میں موجود لوگ آخر تک ایک فرشتے کے انتظار میں تھے لیکن فرشتے کو نہ آنا تھا، وہ نہ آیا (The Decline and Fall of the Roman Empire، جلد۶)۔ اس سے بالواسطہ طور پر یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کیسی ہی جھوٹی بشارتوں کی بنیاد پر لیکن کیتھڈرل سے بالکل آخری وقت تک سلطان کی افواج کی مزاحمت ہوئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قانونی حق رکھنے کے باوجود سلطان نے اس جنگی رہنمائی کے مرکز کو نشانہ بنانے کا حق استعمال نہیں کیا۔
اس لیے ایمان داری سے دیکھا جائے تو آیا صوفیہ کی حیثیت دہلی کی جامع مسجد جیسی نہیں بلکہ لال قلعہ کی تھی۔ ایک نئی مفتوحہ سرزمین پر قوت و اقتدار کے ایسے اہم مرکز پر اگر ایک فاتح نے اپنے قبضے کو برقرار رکھا بلکہ مزید احسان کا رویہ اختیار کرکے اسے وقف کردیا، تو اس پر اعتراضات بلاجواز نظر آتے ہیں۔
۱۴۵۳ء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک، جب اتاترک کی ایما پر مسجد پر تالے ڈال دیے گئے، مسجد آیا صوفیہ میں نمازیں ادا ہوتی رہیں۔ ۱۹۳۴ء میں سیکولر ترک کابینہ نے آیا صوفیہ کو مسجد سے ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک عدالتی نہیں بلکہ آمرانہ فیصلہ تھا کیونکہ ترکی میں کابینہ کی حیثیت ایک اعلیٰ ترین انتظامی ادارے کی رہی ہے۔ اس غیر ضروری، غیر معقول، اور غیر قانونی فیصلے پر عشروں تک عمل ہوتا رہا۔ اس دوران مسجد کی بازیافت کی کوششیں لگاتار ہوتی رہیں۔ بالآخر جولائی ۲۰۲۰ء میں کونسل آف اسٹیٹ نے، جسے ترکی کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کی حیثیت حاصل ہے، ۱۹۳۴ء کے فیصلے کو غیر قانونی ٹھیرایا اور یوں مسجد کے مسجد بننے کی راہیں ہموار ہوئیں۔ فیصلے کی قانونی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ صرف اس فیصلے کو پڑھ لیا جائے تو بہت سے اعتراضات آپ سے آپ ختم ہوجائیں۔ کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱- آیا صوفیہ کو مسجد سے عجائب گھر بنانا سلطان محمد فاتح کی وصیت اور قانونِ وقف کی خلاف ورزی تھی۔
۲- سلطان کے ’وقف‘ کی حیثیت غیرمنقولہ (non-transferable) ہے۔
۳- ریاست ’وقف‘ جایدادوں کے امین (custodian) کی حیثیت رکھتی ہے، اسے اس نوعیت کے تصرفات کی اجازت نہیں ہے۔
ناواقفیت کے نتیجے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ ’’آیا صوفیہ کو عجائب گھر سے مسجد بنانے کا فیصلہ یونیسکو کے Protection of World Cultural and Natural Heritage کنونشن کے خلاف ورزی ہے‘‘۔ اس بات پر عدالت نے پہلے ہی غور کر لیا تھا، چنانچہ فیصلے میں کہا گیا کہ:
۴- مسجد سلطان احمد کی طرح ایسی بہت سی heritage sites ہیں، جو بطور مسجد استعمال ہورہی ہیں۔ یونیسکو کے کنونشن میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے آیا صوفیہ کا استعمال اسلامی قانون کے مطابق نہ کیا جاسکے۔
میں نے اس فیصلے پر (جس پر اعتراض کرنے والے تعصب کی تہمت بھی لگا سکتے ہیں) اکتفا نہیں کیا، بلکہ یونیسکو کے اس کنونشن کا حرف بہ حرف مطالعہ کیا اور عدالت کے اس تبصرے کو قرین انصاف پایا۔ حتیٰ کہ یونیسکو نے اپنے جس بیان میں اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اس میں بھی اس فیصلے کو کنونشن کے خلاف ورزی نہیں قرار دیا ہے۔ اس بیان میں صرف اتنا لکھا ہے کہ: ’اس فیصلے کے نتیجے میں اگر عمارت تک عام لوگوں کی رسائی میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا عمارت کے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی کی جاتی ہے تو یہ کنونشن کے خلاف ورزی ہوگی‘۔ اب، جب کہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ زائرین پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور یہ کہ کوئی ٹکٹ بھی نہیں لگے گا تو اس سے رسائی کے بڑھنے ہی کا امکان نظر آتا ہے گھٹنے کا نہیں!
خلاصۂ کلام یہ کہ آیا صوفیہ کی زمانہ ماقبل تاریخ کی عبادت گاہ سے لے کر، ایک چرچ اور مختلف عیسائی فرقوں کے کیتھڈرل، مسجد اور عجائب گھر تک مختلف حیثیتیں رہی ہیں۔ اور یہ کہ قانون کی کوئی بھی تعریف متعین کرلی جائے، اس کی مسجد والی حیثیت کو غیر قانونی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
بحث سوچنے سمجھنے والے زندہ معاشرے کا ایک لازمی خاصہ ہے۔ صحت مند بحثیں ایک صحت مند معاشرے کی علامت ہیں اور بیمار بحثیں بیمار معاشرے کی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کسی معاشرے کی ذہنی سطح، علمی مزاج، فکری پختگی، نظریاتی افق، تنقیدی سوچ، باہمی رواداری اور اخلاقی قوت کو جانچنا مقصود ہو تو اس بات کا مطالعہ کافی ہوگا کہ وہاں بحثوں کے موضوع کیا ہیں اور یہ بحثیں کیسے کی جاتی ہیں؟
بیمار بحث کی بات کریں تو اس کی دوسری سب سے بڑی علامت شخصیت اور ذاتیات پر اتر آنا ہے۔ یہ اتنی معقول اور واضح سی علامت ہے کہ، عمل ہو نہ ہو، اس کی طرف عام طور پر توجہ ہو ہی جاتی ہے۔ توجہ مریضانہ بحث کی پہلی بڑی علامت کی طرف نہیں جاتی اور وہ یہ ہے کہ نہ دعویٰ سمجھا جائے، نہ جواب دعویٰ سمجھا جائے اور بحث میں چھلانگ لگادی جائے۔ ایسے میں کئی مرتبہ بڑی مضحکہ خیز صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ کس دلیل سے کس دعوے کی تصدیق ہورہی ہے، کس حد تک ہورہی ہے؟ یہ سمجھنا بھی کامیاب مباحثے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ فیس بک اور چائے خانوں پہ ہونے والی آدھی سے زیادہ بحثیں صرف ایک دوسرے کے دعوے اور اس کے حدود اربعہ کو سمجھ لینے سے ختم ہوجائیں گی۔
قضیہ آیا صوفیہ پر جو بحث چھڑی ہے، اس میں علمی و تحقیقی باتوں سے لے کر جذباتی اور مناظراتی مواعظ کی بھرمار رہی۔ صحیح اور غلط دعوے کیے گئے، اور دونوں طرف سے صحیح اور غلط دلیلوں کا تبادلہ ہوا۔
تاہم، اس حوالے سے ہم نے دیکھا کہ اس صحیح دعوے کی تائید میں بے وجہ کمزو دلائل بھی پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کے ۳۶۰بتوں کو توڑ کر اسے مسجد بنایا تھا۔ چونکہ کعبہ اول روز سے توحید کا عالمی مرکز بنایا گیا تھا اور سمت مخالف کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ کسی مسجد کو اگر بت خانہ یا کلیسا بنالیا جائے تو بھی اسے دوبارہ مسجد بنانا غلط ہے۔ اس لیے یہ بات، جو کہ بجائے خود صحیح ہے، بطور دلیل یہاں بے محل ہے۔ دوسری جانب سے یروشلم کی فتح کے وقت جو بے مثال اسوۂ فاروقی سامنے آیا تھا، اسے پیش کیا گیا کہ انھوں نے کلیسا سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا یہاں تک کہ وہاں نماز بھی نہ پڑھی۔ یہ صحیح بات بھی یہاں بطور دلیل بے محل ہے کیونکہ اول تو یروشلم بذریعہ صلح فتح ہوا تھا۔جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ احسان کے اس رویے کے لیے کوئی دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ قسطنطنیہ ہی میں آیا صوفیہ کے علاوہ دیگر معابد کے ساتھ سلطان محمد فاتحؒ نے یہی رویہ اختیار کیا اور انھیں ان کے حال پر برقرار رکھا۔ بات ہورہی تھی کہ اسلامی تاریخ سے کوئی ایسی مثال پیش کی جاتی (اور لاتعداد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں) کہ بزورِ قوت فتح کے باوجود معابد کو ان کے حال پر باقی رکھا گیا تو بھی یہ مسجد آیا صوفیہ کے خلاف کوئی طاقت ور دلیل نہ ہوتی۔ ایسا اس لیے کیونکہ فریق اول کا یہ دعویٰ ہی نہ تھا کہ مفتوحہ علاقوں کی ساری عبادت گاہوں کو ضرور بالضرور ہی مسجد بنالینا چاہیے۔
ایک مومن ہر حال میں اعتدال و توازن کی راہ اختیار کرتا ہے۔ دوران بحث وہ غلطیاں کرسکتا ہے لیکن جان بوجھ کر کسی باطل دلیل کا سہارا نہیں لے سکتا۔ لیکن اللّٰہ معاف کرے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دورانِ بحث الزامی تقابل کی یہ عجیب و غریب منطق بھی پیش کی گئی کہ آیا صوفیہ پر ترک عدلیہ کے فیصلے کی حمایت کا مطلب بابری مسجد پر ہندستانی عدلیہ کے فیصلے کی حمایت ہے۔ کیا یہ بالکل وہی بات نہ ہوئی کہ اگر آپ ویجیٹیرین نہیں ہیں مرغی، بکری اور بھینس کا گوشت کھاتے ہیں تو کہا جائےخنزیر کا کیوں نہیں کھاتے؟ یہ بات کوئی خنزیر کھانے والا ناواقف انسان کرے تو ایک بار اسے سمجھایا بھی جائے، لیکن حلال و حرام اور صحیح و غلط کے تصورات سے واقف شخص کرے تو سواے ماتم کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ چنانچہ ایک آزاد ملک میں ایک عبادت گاہ میں شر انگیزی، پھر وہاں عبادت کے سلسلے کو حکومت کے زور پر روک دینا، پھر اکثریتی قوم کو اقلیت کے خلاف بھڑکا کر فتنہ و فساد کا بازار گرم کردینا، اور پھر حکومت و عدالت کی یقین دہانیوں کے باوجود اس عبادت گاہ کا ظالمانہ طور پر انہدام۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ کا اپنے فیصلے میں بار بار یہ کہنا کہ معاملے کو عقیدے کی نہیں ثبوتوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا، یہ تسلیم کرنا کہ شہید کی جانے والی عبادت گاہ کسی دوسری عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنی تھی، یہ بھی ماننا کہ عبادت گاہ میں عبادت رضاکارانہ طور پر ترک نہیں کی گئی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عبادت گاہ کی بے حرمتی اور اس کا انہدام ناجائز، فتنہ انگیز اور’’قانون کی بدترین خلاف ورزی تھی“۔ لیکن اس سب کے بعد فیصلہ اُس عبادت گاہ کے خلاف سنانا کسی طرح قرین انصاف نہ تھا۔ بابری مسجد کے برعکس ان میں سے کوئی بھی بات قضیہ آیا صوفیہ پر صادق نہیں آتی۔ { FR 751 }
اس پوری بحث کا بڑا مذموم پہلو یہ تھا کہ بہتوں نے کلیسا کی وکالت کرتے کرتے سلطان محمد فاتحؒ کی شان میں گستاخی کا رویہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ حالانکہ سلطان کی شخصیت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق تھی کہ،’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرکے رہو گے، وہ امیر بھی کیا خوب ہوگا اور وہ فوج بھی کیا خوب ہوگی‘‘(مسند احمد)۔ آپؐ کی اس پیشینگوئی کا یقیناً یہ مطلب نہیں کہ سلطان معصوم عن الخطا تھے، لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ وہ ایک عظیم فاتح اور ایک عظیم سلطان تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھا جانا چاہیے۔ اے کاش کہ اس محسنِ قسطنطنیہ کے حقیقی و فرضی عیوب کی ٹوہ میں پڑنے والے ان کی درخشاں زندگی سے سبق حاصل کرتے۔ اس ضمن میں فی الحال بالکل سرسری طور پر کچھ باتیں درج ذیل ہیں:
سلطان بطور فاتح کچھ ایسا مشہور ہوئے کہ ان کی علمی استعداد کی طرف عموماً دھیان نہیں جاتا۔ لیکن واضح رہے کہ وہ اعلیٰ ذہنی و علمی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ انھیں ترکی کے علاوہ عربی، فارسی، لاطینی، عبرانی، اور یونانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ مطالعہ اور علمی گفتگو کا ذوق رکھتے تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ ادب، فلسفہ، اور تاریخ بالخصوص سلاطین و سالاروں کے تذکرے اور فنون جنگ سے متعلق ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ سلطان کا ذاتی کتب خانہ بھی بہت بڑا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک علمی شہر سے سونے اور چاندی کے بدلے سلطان نے خراج میں کتابیں وصول کی تھیں۔ سلطان کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ عملی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی و علمی اُفق بھی وسیع ہو۔
قسطنطنیہ پر کئی 'ناکام چڑھائیاں ہوچکی تھیں۔ یہ ایک مشکل مہم تھی لیکن سلطان اس سے نہ گھبرائے بلکہ اللّٰہ پر توکل کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔ اپنے عمل سے انھوں نے ہمیں مشکل مہمات سے نہ گھبرانے، ٹال مٹول نہ کرنے اور عزم و حوصلہ سے آگے بڑھنے کا سبق دیا۔
اس مہم کے لیے سلطان کچھ یونہی الل ٹپ انداز سے نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ ایک طویل منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔ اس منصوبے کے تحت انھوں نے متعدد شورشوں کو فرو کرکے اس بڑی مہم کے لیے خود کو یکسو کرلیا۔ کئی محاذوں پر صلح اور رشتہ داریاں قائم کرکے انھیں محفوظ کیا۔ کچھ فوجوں کو ایسے چنندہ علاقوں اور شاہراہوں پر مامور فرمایا، جہاں سے وہ قسطنطنیہ کی مدد کو آنے والے عساکر، رسد اور دیگر امداد کا راستہ روک سکیں۔ سلطان نے آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل اور قسطنطنیہ سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک زبردست قلعہ بنایا۔ اس قلعے میں جدید ترین اسلحہ جات اور سامان حرب و ضرب کا ذخیرہ کیا۔ اسی طرح ایک بڑا بحری بیڑہ تیار کیا اور آبنائے باسفورس کی نقل و حرکت پر عملاً اپنا تسلط قائم کرلیا۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے سلطان محمد فاتحؒ نے ہمیں توکل کے معنی سمجھائے اور بتایا کہ ایک طویل اور صبر آزما مہم درپیش ہو تو اس کی ہمہ پہلو منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔
شہر قسطنطنیہ کی اونچی فصیلیں ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دیواروں نے کل ۲۱ محاصروں میں شہر کی دشمنوں سے حفاظت کی تھی۔ سلطان نے ان دیواروں پر کامیاب حملے کے لیے خصوصی توپیں تیار کروائیں اور اس کے لیے ایک عیسائی انجینئر کی خدمات حاصل کیں۔ یوں انھوں نے ہمیں علم و صلاحیت کی قدر اور حکمت جہاں کہیں ہو اس سے استفادے کا عملی سبق دیا۔
محاصرے کے دوران جب معاملہ تقریباً بندگلی میں (stalemate ) پر پہنچ چکا تھا، بلکہ ایک بحری جھڑپ میں عثمانی بیڑے کو ہی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی کیونکہ قسطنطنیہ کے جہاز بہت اونچے اور بڑے تھے جہاں سے عثمانی جہازوں پر آگ اور پتھر برسانا آسان تھا۔ سلطان، غور و فکر کے بعد، اس نتیجے پر پہنچے کہ گہرے پانی میں ان طاقت ور اور بڑے ڈیل ڈول والے جہازوں سے مقابلہ دشوار ہے، لیکن بندرگاہ کے بالائی حصے (گولڈن ہارن) میں جہاں پانی کم اور اتھلا ہے، وہاں چھوٹے اور سبک رفتار جہاز کارآمد اور بڑے قد و قامت والے جہاز بے کار ثابت ہوں گے۔ سلطان کے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ اس حصے میں فصیل کی اونچائی اور خندق کی گہرائی بہ نسبت کم تھی لہٰذا لشکر اسلام کا بحری بیڑا اگر یہاں پہنچ جائے تو شہر پر کرارا حملہ کیا جاسکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بندرگاہ کے اس حصے تک پہنچنے کے لیے جس بحری راستے کو اختیار کرنا پڑتا، اس پر بازنطینی بیڑے کا سخت پہرہ تھا۔ علاوہ ازیں سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانے پر مضبوط آہنی زنجیریں کچھ اس طرح باندھی گئی تھیں کہ کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل نہ ہوسکتا تھا (بازنطینی جہازوں کے دخول کے لیے ان زنجیروں کو نیچے کردیا جاتا تھا)۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ بازنطینی بحری بیڑے سے کھلے سمندر میں تصادم مناسب نہیں تھا اور اس طاقت ور بیڑے اور زنجیر کی وجہ سے گولڈن ہارن پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔
سلطان نے یہ دیکھ کر ناممکن کو ممکن بنانے کی ٹھانی۔ اس نے کچھ ایسا طے کیا جس کا دشمن کو وہم و گمان بھی نہیں گزرا ہوگا۔ سلطان نے عثمانی بیڑے کو دشمن کے بحری بیڑے سے بچاکر بندرگاہ کے بالائی حصے تک پہنچانے کے لیے طے کیا کہ بحری نہیں بلکہ خشکی کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ خشکی پر کشتیاں چلانا سننے میں دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے لیکن یہی سلطان کی جنگی حکمت عملی قرار پائی۔ انھوں نے ۷سے ۱۵ کلومیٹر لمبے ناہموار پہاڑی راستے پر لکڑی کے تختے بچھوائے، چربی اور تیل سے ان تختوں کو خوب چکنا کروایا، اور راتوں رات ۷۰،۸۰ کشتیوں کو ان تختوں پر کھنچوا کر بندرگاہ میں اتار دیا۔ دشمن کی توجہ خشکی پر چلتی ہوئی ان کشتیوں کی طرف نہ ہوسکے، اس کے لیے عثمانی توپوں نے اُس رات جم کر گولہ باری کی۔ یوں صبح سویرے جب عثمانی بیڑا آہنی زنجیروں کے علی الرغم اور بغیر بازنطینی بیڑے سے متصادم ہوئے گولڈن ہارن میں آموجود ہوا، تو دشمن کے حوصلے پست ہوگئے اور فتح کی راہ ہموار ہوگئی۔ سلطان کی اس جنگی حکمت عملی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اور دشمن کی کمزوری اور طاقت کو جاننا، اپنی کمزوری کو اپنی طاقت اور دشمن کی طاقت کو اس کی کمزوری میں بدل دینا فتح کے لیے ناگزیر ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ کشتیوں کو خشکی پہ چلانے کی اس غیرروایتی حکمت عملی (out of the box strategy) کی وجہ سے میدان اسلامی افواج کے ہاتھ رہا۔ اس سے ہمیں ابتدائی جھٹکوں سے ناامید نہ ہونے، نئی سوچ اور نئی تدبیر اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے کا شاندار درس ملتا ہے۔
فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے مفتوح شہریوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے والے عیسائیوں کو دوبارہ اپنے وطن لوٹ آنے اور اپنے پیشوں اور روزگار سے بے جھجک منسلک ہوجانے کی دعوت دی۔ رعایا کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ یونانی آرتھوڈوکس بطریق کو اپنے مذہبی عہدے پر برقرار رکھا، اسے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی۔ درکار مالی عطیات اور مستقل مالی اعانت دی، اور کلیسا کی سرپرستی خود قبول کی، مذہبی عہدے داروں کے ٹیکس معاف کردیے۔ پرسنل لا کی آزادی کے علاوہ مسیحیوں کو اپنے مقدمات اپنے قوانین کے مطابق فیصل کرنے کی سہولت بخشی۔ ان عدالتوں کے احکام کا نفاذ ریاست کے ذمے تھا۔ ان عدالتوں کو قید اور سزاے موت تک دینے کے اختیارات حاصل تھے۔ عزیر احمد اپنی کتاب دولت عثمانیہ میں ایورسلے کی شہادت نقل کرتے ہیں کہ سلطان کی یہ’عظیم الشان رواداری‘دراصل’مسیحی یورپین سیاسی اخلاقیات سے بہت آگے تھی“۔ تھامس آرنلڈ نے بھی اپنی کتاب The Spread of Islam میں سلطان کا تذکرہ بڑے ادب و احترام سے کیا ہے۔ اور مفتوح آبادی کے ساتھ اس کے سلوک کو دل جیتنے والا سلوک قرار دیا ہے، جس کے بعد یونانی عوام ہر قسم کے عیسائی تسلط پر مسلمانوں کی حکومت کو ترجیح دینے لگے تھے۔
فتح قسطنطنیہ کے وقت سلطان محمد فاتحؒ کی عمر محض۲۳ سال تھی۔ جوانی کی اس عمر میں سلطنت کو سنبھالا دینا، دقیقہ رسی اور باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا، نامساعد حالات سے نہ گھبرانا بلکہ نئی نئی راہیں نکالنا، بازنطینی سلطنت سے پنجہ آزمائی کرنا اور اسے شکست فاش دے دینا، سلطان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ان کی پوری زندگی اس بات کی عملی شہادت ہے کہ بڑے کارناموں کا تعلق بڑی عمر سے نہیں بلکہ بڑے عزائم سے ہوتا ہے۔
۱- ہمیں تنقید برائے تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اپنی تنقید کے عملی عواقب پر بھی نظر ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اسی مسئلے میں مسجد کا چرچ ہونا نہ صرف عدل کے خلاف ہوتا بلکہ ناقابلِ عمل اور نئے فتنوں کے دروازے کھلنے پر منتج ہوتا۔ ایسا فیصلہ جو قانون کے بھی خلاف ہو اور نظم و نسق کے بھی، بھلا کیونکر کیا جاتا؟ پھر انسان کو اپنے دلائل کے منطقی انجام سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ جس دلیل سے عیسائیوں کے کسی مطالبے کے بغیر چرچ عیسائیوں کے سپرد کردینا قرین انصاف تھا۔ اسی دلیل سے آیا صوفیہ کا چرچ سے پہلے والے کسی دوسرے مذاہب کے معبد بحال ہونا بھلا عدل کا تقاضا کیوں نہیں تھا؟
۲-اس بحث کے دوران فقہ اسلامی کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور پیدا کی بھی گئیں۔ مثلاً یہ یک رخی دلیل دی گئی کہ سیرت سے فتح مکہ کا ماڈل ملتا ہے جہاں مفتوحین کی جان و مال سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اسی سیرت پاکؐ میں اور پھر خلفاے راشدینؓ کی سیرت میں مال غنیمت لیے جانے، بتکدوں اور کلیساؤں کے ڈھائے جانے، جنگ کے قابل افراد کو تہہ تیغ کیے جانے، اور غلام بنالیے جانے کے واقعات بھی، بہت بہت ہی کم سہی مگر، موجود ہیں۔ یہ وہی باتیں ہیں جن کو فقہ سے منسوب کرکے کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے فقہ اسلامی قرآن و سنت سے یکسر آزاد کوئی علم ہو۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر ہمارے نوجوان فقہ کا ایک تعارف حاصل کریں۔ ایک فقیہ اپنے زمانے کے مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں کس طرح حل تلاش کرتا ہے؟ فقہی علوم کے ارتقا پر اس سوال کی روشنی میں غور کریں کہ فقہ کی پرانی کتابوں میں درج کچھ احکامات کیوں آج ہمیں عجیب نظر آتے ہیں۔ آپ اگر فقہ کا ایک آسان لیکن بھرپور تعارف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر محمود احمد غازی کی محاضرات فقہ کا مطالعہ ضرور کریں، تاکہ اسلاف کے اس عظیم الشان علمی کارنامے کی اہمیت و افادیت سے آشنا ہوں، ان کی علمی میراث کے بارے میں مبنی بر انصاف رائے قائم کرسکیں، اور اسے آگے بڑھانے کے بارے میں سوچیں نہ کہ اسے رد کردینے کے۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون کے سلسلے میں فقہاے اسلام کی کاوشوں کا مطالعہ ہو تو شاید یہ اس بحث کا سب سے سود مند نتیجہ ثابت ہو۔ حد تو یہ ہے کہ مدارس میں بھی اب یہ کتابیں شاید ہی پڑھائی جاتی ہوں۔ نقدو تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ وہ امام ابویوسف کی کتاب الخراج اور امام محمد الشیبانی کی السیر الصغیرکا مطالعہ ضرور کرلیں۔ جو باتیں کھٹکیں ان پر ٹھیر کر دلائل کی روشنی میں غور کریں، اس تعلق سے بزرگوں سے استفسار بھی کریں۔ امید کی جاتی ہے کہ جو لوگ اس وقت کنفیوژن کے شاکی ہیں، انھیں اس مطالعے کے نتیجے میں شرح صدر حاصل ہوگا اور وہ شریعت کی حکمت و وسعت کی کنہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے، جو ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے الفاظ میں درج ذیل ہے،’’خود شریعت نے اس بات کی گنجایش رکھی ہے کہ بعض احکام میں ایک سے زائد آراء ہوں۔ ایسا اس لیے ہے کہ شریعت زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے کہ ایک تعبیر بعض خاص حالات میں زیادہ برمحل ہو اور دوسری تعبیر دوسرے حالات میں زیادہ موزوں ثابت ہو‘‘۔
۳- یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہے لیکن ذہنوں میں اس کا ہر آن استحضار ضروری ہے کہ شریعت کا ماخذ احکام الٰہی ہیں۔ ہم انسان، زمان و مکان کی قیود میں جکڑا ہوا ایک ناتواں اور فانی وجود رکھتے ہیں۔ اور اللّٰہ کی ذات لافانی، زمان و مکان کی قیود سے ماورا، اور علم حقیقی و لازوال حکمت کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا ہم احکام کے مصالح پر تو غور کریں، لیکن کوئی چیز ہماری عقل کے چوکھٹے میں نہ سمائے تو اسے رد کرنے سے احتراز کریں۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:’’خدا کی ہربات کے اندر نہایت گہری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لیکن ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں سے جب تک اللّٰہ تعالی ہی واقف نہ کرے، نہ ان سے جنات واقف ہو سکتے ہیں، نہ فرشتے اور نہ انسان۔ اللّٰہ تعالیٰ کے کاموں کے بارے میں صحیح روش انسان کے لیے یہ ہے کہ ان کی حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش تو برابر کرتا رہے، لیکن اگر کسی چیز کی حکمت اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کو ہدفِ اعتراض و مخالفت نہ بنالے بلکہ یہ حسن ظن رکھے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی لیکن اپنے علم کی کمی کے سبب سے وہ اس حکمت کو سمجھ نہیں سکا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے نہایت قلیل اور محدود علم کو خدا کے علم اور اس کی حکمتوں کے ناپنے کا پیمانہ بنا بیٹھے ہیں، تو وہ اسی قسم کی خودسری اور انانیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس قسم کی خود سری اور انانیت میں ابلیس مبتلا ہوگیا۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے ایمان و معرفت کے راستے کھلتے نہیں بلکہ جو راستے کھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی بند ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن، جلد اول، ۱۷۳)
۴-تاریخ کے سلسلے میں ہمارا رویہ اعتدال و توازن پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسے رد کردینا اور اس سے سبق حاصل نہ کرنے کا رجحان خطرناک ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر سیاق و سباق کو یکسر فراموش کرکے اسلاف پر تنقید کرنا بھی صحت مند طرزِ عمل نہیں ہے۔ دوسری طرف انسانوں کی اس تاریخ کو فرشتوں کی تاریخ سمجھنا بھی سادہ لوحی ہے اور اس پر فخر کرتے ہوئے حال اور مستقبل کو فراموش کرجانا تو حماقت کی انتہا ہے۔ تاریخ کے سلسلے میں معتدل رویہ یہ ہے کہ ہم اپنے روشن و زریں ماضی کا اعتراف کریں۔ ہماری چودہ سو سالہ تاریخ، بلند حوصلہ انسانوں کی تاریخ ہے، جو بحیثیت مجموعی قرآن و سنت سے فیض یافتہ تھے۔ ان کی بلند حوصلگی اور قرآن و سنت کی پاسداری کی وجہ سے تاریخ ان کے تاریخ ساز اور معجزہ نما کارناموں سے عبارت ہے، وہیں چونکہ وہ انسان تھے اسی لیے ان کی کمزوریاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ معتدل طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ خوبیوں کا اعتراف ہو، ان کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ ہو تاکہ نئی نسل احساس کمتری کے خول سے باہر نکلے، اسے تحریک اور جذبہ اور قابلِ تقلید ہیرو ملیں۔ اسی طرح خامیوں سے واقفیت بھی ضروری ہے تاکہ تاریخ کی تنقیدی سمجھ پیدا ہو اور ہیرو ورشپ کی قباحتوں سے بچا جاسکے۔ بس خیال اس بات کا ضروری ہے کہ تنقید کرتے وقت بھی اعتدال اور حسن ظن کا دامن نہ چھوٹے، بدگمانی اور کردار کشی سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے، اور کوتاہیوں کی وجوہ تلاش کی جائیں تاکہ ٹھوکر لگنے کے اسباب بھی پتا چلیں اور ماضی کی کمزوریوں کی تلاش لعن طعن سے اوپر اٹھ کر مستقبل کی تعمیر کی ایک سرگرمی بن جائے۔
۵-یہ اصول ہر ملک کی طرح ترکی پر بھی صادق آتا ہے کہ دور حاضر کے حالات کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ بیسویں صدی میں ترکی کس طرح جنگ عظیم اول کی ہزیمت، معاہدہ سیورس، سقوط خلافت اور سیکولر استعمار سے گزرا ہے، اسے جانے بغیر ترک سیاست اور وہاں کے اسلام پسندوں پر تبصرے لایعنی ہیں۔ یہ اچھا موقع تھا جب ہم کچھ اور نہیں تو کم از کم بیسویں صدی میں اللّٰہ کے دین کے لیے ترکوں کی جدوجہد کا مطالعہ کرتے۔ یہ وہ روشن تاریخ ہے جس میں حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی اور نجم الدین اربکان وغیرہ مختلف افکار اور مختلف حکمت عملیوں کے ساتھ اپنی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس تاریخ میں بھی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔