تاریخ قوموں کا حافظہ اور ان کے نشیب و فراز کی داستان کا آئینہ ہے۔ اس میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں، جنھیں تاریخی موڑ کہا جاتاہے۔ ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء ترکی اور عالمِ اسلام کی تاریخ میں ایسا ہی ایک موڑ ہے۔
’آیا صوفیہ‘ [Hagia Sophia: مقدس دانش] جس میں یکم جون ۱۴۵۳ء کو پہلی نمازِ جمعہ کا انعقاد ہوا تھا اور جو سلسلہ ۱۹۳۱ء میں اس وقت تک جاری رہا، جب ترکی کے نئےسیکولر حاکم مصطفےٰ کمال [م: ۱۹۳۸ء] نے ریاستی جبر کے ذریعے مسجد کو مقفل کیا، اور پھر ۱۹۳۵ء میں اسے عجائب گھر (میوزیم) بنادیا۔ اس طرح ۸۸سال تک یہ مسجد اذان اور سجدوں سے محروم رہی۔ الحمدللہ، ثم الحمدللہ ، ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو آیا صوفیہ کی رونق ایک بار پھر اذان، خطبے اور نماز سے بحال ہوئی اور مسجد میں اور اس کے نواح میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد نے ربِ کریم کا بہ چشم تر شکر ادا کیا، جب کہ ساری دنیا کے مسلمان عوام نے ان کی آواز سے ہم آواز ہوکر شکر اور مسرت کا اظہار کیا۔
۲۹ مئی ۱۴۵۳ء فتح قسطنطنیہ کا یادگار لمحہ ہے۔ پھر جس طرح یکم جون ۱۴۵۳ء آیا صوفیہ کے ترکی دولت ِ عثمانیہ کے روحانی قلب بننے کا یادگار دن ہے، اسی طرح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کے روز مسجد کی بحالی، مسلم تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ یہ ہراعتبار سے ایک عظیم ظلم کی تلافی اور مسلمانوں کے ایک بنیادی دینی اور تہذیبی حق پر دست درازی کا خاتمہ ہے۔ اسے کسی مسجد اور چرچ کے تنازعے کی شکل دینا تاریخی بددیانتی ہی نہیں، سیاسی دھوکا دہی بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اختصار سے اس مسئلے کی اصل حقیقت کو واضح کریں تاکہ اس تاریخی تبدیلی کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جاسکے۔
بازنطینی (Byzantine) دورِ حکومت میں ’آیا صوفیہ‘ بلاشبہہ ایک چرچ تھا، جو تاریخی اعتبار سے بازنطینی سلطنت کے اہم مقام کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ محض ایک چرچ نہیں تھا بلکہ سیاسی اقتدار کا مرکز اور فوجی اور استعماری کارروائیوں کی فیصلہ گاہ بھی تھا۔ اس طرح بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کی اصل قوت و اقتدار (seat of power) کی حیثیت رکھتا تھا۔(آیا صوفیہ کے زیرعنوان مضمون (history.com) میں لکھا ہے: ’’چونکہ یونانی آرتھوڈوکس، بازنطینی سلطنت کا سرکاری مذہب تھا، آیا صوفیہ کو اس مذہب کا مرکزی چرچ(گرجاگھر) سمجھا جاتا تھا، اوراسی لیے یہ وہ جگہ طے پاگئی تھی، جہاں نئے شہنشاہ کی رسم تاج پوشی سرانجام دی جاتی تھی۔ یہ تقریبات گرجے کے درمیانی حصے یا نافِ کلیسا میں منعقد ہوتی تھیں۔ یہ دراصل رنگارنگ پتھروں پر مشتمل سنگ مرمرسے بنا ہوا مذکورہ حصہ ہے، جو فرش میں آپس میں بل کھاتے ہوئے گندھے ہوئے گول ڈیزائن کی شکل میں ہے۔ آیا صوفیہ نے اپنے وجود کے ۹۰۰برسوں کے زیادہ تر حصے میں بازنطینی ثقافت اور سیاست میں نہایت مرکزی کردار ادا کیا ہے‘‘۔)
یہی وجہ تھی کہ سلطان محمدفاتح نے جہاں عیسائیوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور ان کے مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کو آزادانہ کام کا پورا پورا موقع دیا، وہیں اس سیاسی اور مذہبی مرکز کو مسجد کبیر کی حیثیت سے عثمانی حکومت کا دینی مرکز قرار دیا۔ البتہ انھوں نے یہ کام غیرمعمولی احتیاط کے ساتھ کیا۔ انھوں نے یہ اقدام سیاسی تسلط کی قوت کو قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی برتری قائم کرنے اور اسلام کی اعلیٰ روایات کا احترام کرتے ہوئے تاریخی روایات کے مطابق اپنی ذاتی دولت سے اس جگہ کی قیمت ادا کرکے خریدا، اور اسے مسجد اور عبادت، تعلیم و تحقیق اور دعوت کے لیے وقف کر دیا۔
اب مسجد کی بحالی کا جو فیصلہ ہوا ہے، وہ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں ہوا ہے، اور جس میں مصطفےٰ کمال اور اس کی کابینہ کے ۱۹۳۵ء کے فیصلے کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا گیا ہےاور ملکی قانون کے مطابق وقف کی بحالی اور وقف کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے آیا صوفیہ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کیا گیا ہے۔
جہاں تک میں اس مسئلے کا مطالعہ اور تجزیہ کرسکا ہوں، مجھے اس امرکے اظہار میں ذرا بھی تردّد نہیں کہ قانون، اخلاق، اسلامی روایات اورعالمی تعامل، ہراعتبار سے یہ اقدام صحیح اور قابلِ فخر ہے۔ چند حقائق مختصراً عرض ہیں:
اصلاً یہ عمارت ایک Pagan (پاگان: غیرعیسائی بت پرست) قوم کی عبادت گاہ تھی جس میں بتوں اور اَرواح کی پوجا ہوتی تھی۔ عیسائی حکمران جسٹینین نے اس پاگان عبادت گاہ کو ختم کرکے یہاں پر چرچ بنایا اور پرانی عبادت گاہ کے کچھ حصوں کو اس میں شامل کرلیا۔ پھر یہ عمارت مختلف اَدوار سے گزرتی ہوئی، جس میں عیسائیت کے دو بڑے فرقوں کے درمیان اور رومن ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے عرصۂ تسلط میں ادل بدل ہوتا رہا ہے۔ آخرکار آیاصوفیہ بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کا مرکز بنی۔ بلاشبہہ یہ عمارت فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور مغرب اور مشرق دونوں کے نوادرات اس کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ اوّلاً یہ ایک چرچ تھا۔ درست بات یہ ہے کہ یہ جگہ اوّلاً ایک غیرعیسائی بت خانہ تھا، جسے زبردستی چرچ بنایا گیا اور جو بالآخر بازنطینی سلطنت کا سیاسی مرکز بنا، جسے سلطان محمد فاتح نے ۲۹مئی ۱۴۵۳ء کے فاتحانہ اقدام کے ذریعے اسلامی قلمرو کا حصہ بنالیا ۔
اس پس منظرمیں چرچ کی بحالی یا چرچ کے زبردستی مسجد بنانے کے دونوں دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۴۵۳ء سے تاحال کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کبھی یورپی اقوام یا چرچ کے نمایندوں نے اس چرچ کی بحالی کا کوئی دعویٰ کیا ہو، حتیٰ کہ ۲۴جولائی کو ۱۹۲۳ء کے ’معاہدہ لوزان‘ (Treaty of Lausanne) تک میں، جس کے تحت ترکی کی موجودہ حکومت وجود میں آئی اور دولت عثمانیہ کی زمینوں اور علاقوں سے ترکی کو محروم کرکے اس کے لیے نئی اور محدود سرحدیں مقرر کی گئیں، اور غیرمسلموں اور ان کے مذہبی آثارکے سلسلے میں سخت احکامات ضبط ِ تحریر میں لائے گئے۔اس میں بھی جہاں چرچوں، کنیسہ (Synagogues)، قبرستانوں، اقلیتوں، مذہبی اور ثقافتی اداروں کے تحفظ کے بارے میں جو چار دفعات (۴۶، ۴۲، ۴۰، ۴۸) ہیں ،ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گویا اسے مسجد تسلیم کیا جانا ایک بدیہی امر تھا۔
واضح رہے کہ ۱۹۱۹ء میں جب استنبول پر برطانیہ، فرانس، یونان اور اتحادی اقوام کا قبضہ تھا تو یونان کی افواج نے آیا صوفیہ میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس پر شکست خوردہ ترک فوج اور عوام اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے، اور سرفروشی کی لازوال مثال پیش کرتے ہوئے انھیں اس پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ان مجاہدین نے ایک مسجد ہی کے دفاع کے لیے قربانی دی تھی۔ اس صورتِ حال میں دوسری یورپی اقوام نے بھی یونان کو اس سے روکا اور یوں آیا صوفیہ کے مسجد بنانے کی حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آیاصوفیہ کے مسجد ہونے کا انکار ایک تاریخی بددیانتی اور دھوکا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عیسائی مذہب میں چرچ کی ابدی حیثیت نہیں۔ چرچ ایک خاص عمل کے ذریعے عبادت گاہ بنتا ہے اور اسے ایک خاص عمل کے ذریعے اس حیثیت سے خارج بھی کیا جاسکتا ہے۔ زمانہ حال تک صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔ آج بھی ہزاروں چرچ ہیں، جو فروخت ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں گذشتہ ۵۰برسوں میں سیکڑوں چرچ مسلمانوں نے خرید کر ان میں مسجد، مدرسہ اور اسلامی مراکز قائم کیے ہیں۔ اس طرح بہت سے چرچ، یہودیوں نے خرید کر سینی گاگز (کنیسہ) بنائے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ کئی چرچ تو جواخانے (casino)، شراب خانے، تھیٹر وغیرہ بنانے کے لیے بھی فروخت کیے گئے ہیں، جب کہ مسجد کے سلسلے میں اسلامی فقہی پوزیشن یہ ہے کہ جس جگہ ایک بار جائز طور پر مسجد بن جائے اور اس مقصد کے لیے استعمال ہو، وہ ذاتی ملکیت میں نہیں آسکتی اور اس کی خریدوفروخت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ مسجد کی ہرصورت میں حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آیا صوفیہ کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں اس پر جب بھی عملاً سخت وقت آئے تو وہ خود عیسائیوں ہی کے اپنے ہاتھوں آئے ہیں ۔ تین بار اس کو آگ لگائی گئی اور بادشاہ کے قانون کے تنازعے کے دوران چرچ ہوتے ہوئے اس کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ پھر سب سے زیادہ تباہی ۱۲۰۴ء میں اس موقعے پر ہوئی جب رومن ایمپائر نے کنسٹنٹن پول پر قبضہ کیا اور چوتھے کروسیڈ (Crusade 4) کے موقعے پر، عیسائیت کے ان دونوں فرقوں کی جنگ کے بعد رومیوں کا تسلط قائم ہوا۔ اس وقت آیا صوفیہ کی بے حُرمتی اور تباہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
مؤرخ لکھتے ہیں:
یہ محض ایک حملہ نہیں تھا۔ شہر کو تین روز تک بُری طرح لوٹ مار اور تاراج کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگجوؤں نے آیا صوفیہ میں بھی لُوٹ مار کی۔(حوالے کے لیے دیکھیے: History of Hagia Sophia پر مضمون history.com میں، اور جیفری دوویلار دوین [م: ۱۲۱۳ء] کی کتاب On the Conquest of Constantionple میںاس تباہی اور لُوٹ مار کی تفصیل دی گئی ہے۔)
عیسائی مؤرخین نے جو تفصیلات لکھی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیا صوفیہ چرچ میں قتل و غارت گری، عمارت کو نقصان پہنچانے، پادریوں کا خون بہانے اور قیمتی چیزوں کو لوٹ لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔جو بے حُرمتی خود عیسائیوں نے اپنے چرچ کی کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس کے مقابلے میں جب سلطان محمدفاتح نے آیا صوفیہ میں قدم رکھا، تو اس نے اس جگہ سے خاک اُٹھا کر اپنے عمامے اور کپڑوں پہ ڈالی، عاجزی کے ساتھ عمارت میں داخل ہوا۔ عمارت میں جن لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی، انھیں عام معافی دی اور وہی الفاظ استعمال کیے جو فتح مکہ کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے، یعنی لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۰ۭ (یوسف ۱۲:۹۲)، آج کے دن تم پر بازپُرس نہیں۔ پھر آیا صوفیہ کی مذہبی نسبت سے احترام کا رشتہ قائم کیا اور اپنی جیب سے قیمت ادا کرکے اسے حاصل کیا۔ ساتھ ہی نہ صرف دوسرے چرچوں کو تحفظ دیا بلکہ شہر کے دوسرے بڑے چرچ، ’کلیسائے حواریاں‘ کو یونانی اور آرتھوڈکس فرقے کا مرکزی چرچ بنانے کا موقع دیا، جو آج تک قائم ہے۔ آج اس وقت بھی ترکی میں ۴۳۵ چرچ پوری آن بان کے ساتھ موجود ہیں حالانکہ عیسائیوں کی تعداد آبادی میں صرف ۰ء۲ فی صد ہے۔
ہمیں یہ اعتراف ہے کہ مسلمانوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہردور میں مسلم دنیا میں غیرمسلموں کو جو تحفظ، عزت اور انصاف حاصل رہا اس کی کوئی مثال دوسری تہذیبوں میں نہیں ملتی۔ ایڈورڈگبن [م:۱۷۹۰ء]کی کتاب The History of the Decline and Fall of the Roman Empire، ٹی ڈبلیو آرنلڈ [م:۱۹۳۰ء]کی شہرئہ آفاق کتاب The Spread of Islam in the World اور جوزف آرنلڈ ٹائن بی [م:۱۹۷۵ء]کی تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔(اسرائیلی مؤرخ اوڈ پیری اعتراف کرتا ہے: ’’مسلمانوں کی فتح کے چارسوسال بعد یروشلم کا مضافات عیسائی اور عیسائی مذہبی عمارتوں سے بھرپور تھا‘‘۔ پھر دی واشنگٹن پوسٹ (۲۵ جولائی ۲۰۲۰ء) برملا لکھتا ہے:مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف یونانیوں کو مکمل تحفظ دیا بلکہ آرمینی عیسائیوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ استنبول میں عیسائیت کے آثار کی تعمیرنو کرسکیں۔ اسی طرح جلد ہی ہسپانیہ کے یہودیوں کو خوش آمدید کہا، جنھیں کیتھولک عیسائیوں کے مظالم کا سامنا تھا۔)
۲۴جولائی ۲۰۲۰ء میں آیا صوفیہ سے دوبارہ مسجد کبیر بننے کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس امر کا پورا پورا ادراک کیا جائے کہ اصل ظلم تو مصطفےٰ کمال پاشا کے ہاتھوں ہوا تھا جس نے محض مغربی اقوام کو خوش کرنے اور اپنے زعم میں ترکی کو ماڈرن بنانے کے لیے جبر اور قوت کے ذریعے ترک قوم پر سیکولرزم کو مسلط کیا اور قوم کو اس کے اسلامی ماضی سے کاٹنے کی ظالمانہ، قبیح اور تباہ کن کوشش کی، لیکن اس فسطائیت کو ترک قوم نے کبھی قبول نہ کیا اور ہرموقع ملتے ہی، اس سے نجات کی کوشش کی، اور الحمدللہ کامیاب رہی۔
مصطفےٰ کمال ایک کامیاب فوجی کمانڈر تھا اور اس کی قیادت میں ترکی نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی، جس کے باعث اسے قوم نے بجا طور پر ہیرو کا مقام دیا، مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک حقیقت بھی ہے کہ مصطفےٰ کمال نے اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے، نہ صرف عثمانیہ خلافت کا خاتمہ کیا بلکہ مغرب سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں دین اسلام کے شعائر کو بھی پامال کیا۔ عربی زبان اور رسم الخط کو نہ صرف ختم کیا بلکہ عربی زبان میں اذان تک پر پابندی لگا دی۔ مسجدوں اور مدارس کو بند کردیا، دینی تعلیم کو ختم کردیا۔ عربی میں کتب کی اشاعت پر پابندی لگا دی، لباس کو تبدیل کیا اور جبراً قوم کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ عورتوں کے حجاب پر پابندی لگا دی۔ علما کو جیلوں میں ڈال دیا اور پھر آیاصوفیہ جو اسلام کا سمبل تھی، اسے پہلے بند رکھا۔اس کے قیمتی قالین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا اور ایک مینار کو بھی شہید کر دیا گیا۔ پھر اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ یہ سارا کام فوجی قوت کے ذریعے کیا گیا۔ پھر فوج ہی مصطفےٰ کمال کی قیادت میں اصل حکمران قوت بن گئی۔ نیز فوج کو بھی مکمل طور پر سیکولرزم کے رنگ میں رنگ دیااور سرکاری مداخلت کے ذریعے زندگی کے ہرشعبے سے اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو خارج کیا گیا۔
۱۹۳۰ء کے عشرے کے وسط میں اس زعم میں کہ ’’ترک عوام اپنی دینی شناخت میں کمزور ہوکر سیکولر فکروعمل میں ڈھل گئے ہوں گے‘‘ ایک انتخاب منعقد کیا گیا، لیکن اس کے نتیجے کو بھی تسلیم نہ کیا گیا، جس کی تفصیل خود مصطفےٰ کمال کے سوانح نگار ایچ سی آرم سٹرانگ نے Grey Wolf نامی کتاب [۱۹۳۷ء] میں دی ہے۔ اس طرح فوجی آمریت کا سلسلہ ۱۹۵۰ء تک جاری رہا۔ مصطفےٰ کمال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا، لیکن اس کی پارٹی عصمت انونو [م: ۱۹۷۳ء]کی قیادت میں اسلام دشمنی اور سیکولرزم کی جبری ترویج پر عمل پیرا رہی۔البتہ پہلے ہی آزاد انتخاب میں عوام نے برسرِ اقتدار پارٹی کو شکست دی اور اس کے بعد آج تک وہ کبھی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ عوام نے اس پہلے انتخاب میں عدنان میندرس اور اس کی پارٹی کو قیادت سونپی، جس نے ۱۸سال کے بعداذان کو عربی زبان میں جاری کیا تو ترک عوام اذان کی اس آواز پر، جہاںوہ موجود تھے سجدے میں گر گئے۔ البتہ عدنان میندرس کو ان ’جرائم‘ کی یہ سزا ضرور ملی کہ ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ان کو سزاے موت دی گئی اور اس طرح وہ ۱۷ستمبر۱۹۶۱ء کو شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ترک عوام بلاشبہہ آج بھی جنگ ِ آزادی میں مصطفےٰ کمال کے کردار پر نازاں ہیں، لیکن اس کے سیکولرزم کو آہستہ آہستہ ترک کر رہے ہیں اور خصوصیت سے نجم الدین اربکان [م:۲۰۱۱ء] اور طیب اردگان کی قیادت میں جو سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں آج الحمدللہ آیا صوفیہ دوبارہ مسجد بن گئی ہے۔ اس اقدام میں طیب اردگان اور ان کی پارٹی کا کردار مثالی اور قائدانہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترک قوم کی عظیم اکثریت کی ان کو تائید حاصل ہے۔
اکانومسٹ،لندن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ترک عوام کے ۷۳ فی صد نے اس اقدام کی تائید کی ہے۔ ترکی کی کم از کم دو سیکولر پارٹیوں نے کھل کر اس کی تائید کی ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں عوامی سطح پر عظیم اکثریت اس تبدیلی کا خیرمقدم کررہی ہے۔ خاموشی یا ملفوف ناپسندیدگی کا اظہار چند عرب ممالک کی قیادتوں کی طرف سے بھی ہے، لیکن اصل مخالفت کی آوازیں مغربی دنیا سے اُٹھ رہی ہیں، جو ترکی اور خصوصیت سے طیب اردگان کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اسی طرح عیسائی قیادتیں اسے مسجد اورچرچ کا تنازعہ بنا کر پیش کر رہی ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ کچھ مسلمان لبرل دانش وَر بھی اپنے اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں، اور دور از کار خدشات اور خودساختہ ’اخلاقی مصالح‘ پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ روس، یونان اور امریکا کی سیاسی قیادت اور یونیسکو نے بھی تنقید کے تیر چلائے ہیں۔
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان اعتراضات میں کوئی جان نہیں۔ آیا صوفیہ کا بطور مسجد احیا قانونی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی، ہراعتبار سے مبنی برحق ہے اور اس سلسلے میں خود ترکی کی عدالت کے فیصلے میں قانونی نکات کے ساتھ یہ واضح کر دیا گیا ہے اور اس کی عالمی حیثیت اور زائرین کے لیے کھلا ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور رہے گی۔ کسی کے لیے دروازے بند نہیں کیے جارہے اور کسی دوسرے مذہب یا تہذیب کے آثار کو مٹایا نہیں جارہا۔ نہ ایسا ماضی میں ہوا اور نہ آج ہوگا۔ آیا صوفیہ کے مذہبی نوادرات کبھی مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوئے ہیں۔ عثمانی حکمرانوں نے توان کے نقش و نگار اور تصاویر تک کو بھی برباد نہیں کیا کہ جن کا ایک مسجد میں وجود درست نہیں۔ صرف ان پر پلاسٹر لگا کر نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔ آیا صوفیہ کی اگر کسی نے بے حُرمتی کی ہے، تو وہ خود عیسائی دور کے مقتدرافراد تھے۔
بی بی سی کے ایک مقالہ نگار نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
صدیوں تک رومن کیتھولک دنیا اور بازنطینی سلطنت کےدرمیان مذہب کی بنیاد پر تنازع رہا ہے۔ ۱۲۰۴ء میں جب یورپی حملہ آوروں نے شہر پر دھاوا بول دیا تو مسیحیت کے مشرقی اور مغربی گروہوں کے درمیان جنگ نے شہر کو تاراج کر دیا۔ انتہائی اہم تاریخی نوادرات اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہوگئے، جن میں [مبینہ طور پر] حضرت عیسٰیؑ کے روضے کا پتھر، وہ نیزا جو حضرت عیسٰی ؑ کے جسم میں پیوست ہوا تھا، حضرت عیسٰیؑ کا کفن، جو اصلی صلیب تھی اس کے کچھ ٹکڑے، سینٹ تھامس کی مشتبہ انگلی، اور ہڈیاں شامل تھیں۔ آیا صوفیہ ایک کیتھولک چرچ توبہت کم عرصے کے لیے رہا، لیکن حملہ آوروں کی کارروائیوں کے نتائج دُور رس اور گہرے تھے، جو مشرق میں مسیحیت کی تباہی کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ (بی بی سی اُردو، آیا صوفیہ، ۱۳جولائی ۲۰۲۰ء)
صدر طیب اردگان ، عدالت کے فیصلے اور ترکی کے اسلامی اُمور کے شعبے کے ڈائرکٹر نے صاف الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تاریخی آثار کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ان کو محفوظ رکھا جائے گا اور آیاصوفیہ ترکی کی دوسری مساجد کی طرح دنیا کے تمام انسانوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلی رہے گی۔
یونیسکو اور دوسرے اداروں نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ زیادہ تر خود ان کے اپنے دہرے معیار کے ترجمان ہیں۔ عثمانی حکمرانوں کا تاریخی کردار رواداری اور بقاے باہمی (co-existance) کا رہا ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔
البتہ جو ادارے اور مغربی حکمران سوالیہ نشان اُٹھا رہے ہیں، ان کے اپنے کردار پر اگر نظر ڈالی جائے تو بڑی تکلیف دہ اور ناخوش گوار صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ان تمام ممالک میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جارہا ہے، اس کا نہ کوئی حساب دے رہا ہے اور نہ کوئی اس کا مداوا کر رہا ہے۔ مساجد پر حملے اور مساجد کے قیام میں دشواریاں بے حدوحساب ہیں۔
حد یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا کی ۲۸ ریاستیں ایسی ہیں، جن میں صوبائی سطح پر یہ متعصبانہ قانون سازی کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے معاملات میں بھی شریعت اسلامی کے مطابق معاملات طے نہیں کرسکتے۔ فرانس، ہالینڈ اور کئی یورپی ممالک میں مسلمان خواتین کے لیے نقاب کا استعمال، حتیٰ کہ کچھ مقامات پر حجاب کا استعمال بھی قانونی طور پرممنوع ہے۔ جب کہ آزادی راے کے ان دعوے داروں کا حال یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر بھی جرمنی میں یہودیوں کے ’قتل عام‘ (ہولوکاسٹ) کا انکار، حتیٰ کہ اس میں مارے جانے والوں کی تعداد کو چیلنج کرنا بھی قانونی جرم قرار دیتی ہے اور کئی سال کی حراست کا مستحق بنا دیتی ہے۔ آج پوری مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کے تاریک سایے ہرطرف پھیلے نظرآرہے ہیں۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر مغربی دنیا سب کی آزادی اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن مسلمانوں کے ساتھ اس کا معاملہ بڑا ہی مختلف ہے۔ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، خواہ و ہ فلسطین ہو یا کشمیر، میانمار ہو یا سنکیانگ، بوسنیا ہو یا کوسوو، سربیا ہو یا چیچنیا۔ اسی طرح فرانس ہو یا اسرائیل، بھارت ہو یا سری لنکا، ان کی زبانیں بند رہتی ہیں۔ دوغلاپن اور ریاکاری (hypocrisy) ان کا شعار ہے۔ اتنے داغ دار دامن کے ساتھ محض ان خیالی اندیشوں پر واویلا کہ آیاصوفیہ کے مسجد بننے سے ترکی میں عیسائیوں پر آسمان ٹوٹ پڑے گا، صریح دھوکا نہیں تو کیا ہے:
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ملّتِ اسلامیہ کے احیا کی طرف پیش رفت
مسئلے کاایک اور پہلو جس کی طرف ہم متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ترک عوام نے کبھی دولت ِ عثمانیہ کے اپنے تابناک ماضی سے تعلق کو منقطع نہیں کیا۔مصطفےٰ کمال اور مغرب کے پرستار عناصر کی ہرزیادتی پر وہ اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں، اور دین اسلام، اسلامی روایات اور اسلامی شعائر کے تحفظ میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک ِ خلافت کی شکل میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس طرح دولت عثمانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کا نفش ان کے دل و دماغ پر آج بھی قائم ہے۔ جو مالی اعانت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی تھی اس کے لیے ممنونیت وہ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اس رقم سے انھوں نے ایک بنک قائم کیا جو آج تک کام کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کا دل سے احترام اگر کسی ملک میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تو وہ ترکی ہے۔ مجھے خود یہ تجربہ باربار ہوا ہے کہ ہوٹل تک یہ جاننے کے بعد کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، ہوٹل والوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور ’مہمان مہمان‘ کہہ کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ آیا صوفیہ کو مسجد بنانا ان کے دل کی آرزو تھی، اور جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ضیا گوک الپ [م:۱۹۲۴ء] جو مصطفےٰ کمال کا پسندیدہ شاعر اور اس کا موید تھا آیا صوفیہ کے باب میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتا رہا۔ اسی کے اشعار پڑھنے پر طیب اردگان کو ۱۹۹۷ء میں گرفتار کیا گیا تھا:
The Mosques are our barracks,
The Domes are our helmets,
The Minarets are our bayonets,
And the faithful are our soldiers
مسجدیں ہماری بیرکیں ہیں اور گنبد ہمارے زرئہ سَر ہیں۔
مینار ہمارے نیزے ہیں اور صاحب ِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں۔
آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت سے بحالی مسلمانوں کی آرزو، دُعا اور کوشش تھی۔ اس کا عجائب گھر ہونا ان کے دل پر زخم کی حیثیت رکھتا تھا، جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔بڑےواشگاف الفاظ میں مسجد کی بحالی کے موقعے پر جمعہ کے خطبے میں امام نے ا ن الفاظ میں کیا کہ ’’آج ہمارا برسوں کا دُکھ ختم ہوا، جو ہماری تذلیل ہوئی تھی اس کا خاتمہ ہوا اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا‘‘۔ صرف طیب اردوگان ہی نہیں، ترک شعرا اور دانش وَروں نے بھی اس پورے عرصے میں اپنے دُکھ اور مسجد کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا اور اس کا سب سے مؤثر اظہار ایک چوٹی کے شاعر نجپ فاضل کیساکورک نے ۲۹ستمبر ۱۹۶۵ء آیاصوفیہ ہی میں ایک کانفرنس کے دوران کیا کہ سیکولرقیادت نے آیا صوفیہ کو عجائب گھر بناکر ترکی کی خودمختاری کو بدترین حد تک مجروح کیا ہے اور اپنی روح کو مغرب کی جدت پسندی کے قدموں پر ڈال دیا تھا۔ یہ ترکی قوم کی تذلیل کی انتہا تھی:
لادینی جمہوریہ نے ترکی کی خودمختاری کوبُری طرح مجروح کیاہے: جس نے اس کی روح کو مغربی جدیدیت پسندی کی خاطر فروخت کردیاہے۔آیا صوفیہ کی حیثیت کی تبدیلی اس تذلیل کی علامت ہے۔(دی نیو یارک ٹائمز، ۱۴جولائی ۲۰۲۰ء)
اس نے طنزاً کہا تھا کہ مسجد کو عجائب گھر بنانا ترکوں کی روح کو میوزیم میں نظربند کرنا تھا:
آیا صوفیہ کی عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ، ترکوں کی حقیقی روح کو ایک عجائب گھر میں قید کر دینے کے مترادف تھا۔(ایضاً)
اس نے مزید کہا کہ:
مغربی دنیا نے ہمارے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جو کچھ ظلم کیا ہے،وہ نہ صلیبی حملہ آور اور روسی کمیونسٹ کرسکے، نہ کیتھولک عیسائی اور یونانی حملہ آوروں نے وہ ظلم کیا۔(ایضاً)
اسی نے ۱۹۶۵ء میں آیا صوفیہ میں کھڑے ہوکر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن یہ پھر مسجد بنے گی اور ہماری قیدی روح آزاد ہوگی۔
طیب اردگان نے تاریخی عمل کے مکمل ادراک کے ساتھ اس کا افتتاح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو کیا، جو ’لوزان معاہدے‘ کی ۹۷ویں سالگرہ تھی۔ یہ ہے ترک قوم کا جواب اور ملت اسلامیہ کے احیا کا ایک منظر! مغربی اقوام ،اداروں اور عیسائی دنیا کی قیادت کے اضطراب کو اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
ترکی میں ہی نہیں، پوری دنیا میں اسلام اور مغرب کے سامراجی نظام کے درمیان کش مکش ہے۔ مغربی دنیا میں جس طرح اسلام کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسے ایک خطرہ بلکہ اصل خطرے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کسی کے حق میں بھی نہیں۔ بلاشبہہ اسلام کا اپنا تہذیبی اور سیاسی نظام ہے اور مسلم اُمت فطری طور پر اس نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم تہذیبوں کے تصادم کے فلسفے کو ایک شیطانی فلسفہ سمجھتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان صحت مند مسابقت، تعاون اور مکالمہ ہی فطری راستہ ہے۔اختلاف، تنوع کا مظہر ہے، تصادم کا پیش خیمہ نہیں۔ ترکی کا موجودہ اقدام ماضی کی ایک عظیم تاریخی غلطی اور جبری اقدام کی اصلاح ہے، کسی کے خلاف کوئی سازش اور جبری اقدام نہیں۔
ہم ان گزارشات کو صدرطیب اردگان کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں جو انھوں نے آیاصوفیہ کے مسجد کے طور پر آغازِ نو کے موقعے پر کہے:
ہم آیا صوفیہ کو اس کی اصل بنیادوں کے مطابق استوار کر رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کے ثقافتی ورثے کو مکمل طور پر محفوظ رکھیں گے۔ ہم نے آیا صوفیہ کو ایک نہایت غلط فیصلے کے تحت ایک عجائب گھر بنایا اور اب ہم اسے بجا طور پر دوبارہ مسجد بنا رہے ہیں، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آیا صوفیہ ایک چرچ سے مسجد نہیں بنائی جارہی بلکہ ایک عجائب گھر سے مسجد بنائی جارہی ہے۔ کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے پورے ثقافتی ورثے کی حفاظت کریں گے۔