جموں و کشمیرکے مسلمانوں کی غلامی کو مضبوط کرنے میں کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کا بھی اہم کردار تھا، جنھوں نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا مستقبل، پنڈت جواہر لال نہرو اور انڈین نیشنل کانگریس کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس ’خدمت‘ کے صلے میں کبھی اقتدار میں رہے اور کبھی اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ وہی نہیں، پھر ان کی دوسری اور تیسری نسل بھی برابر اسی کھیل کا حصہ رہی۔ تاہم، اب شیخ عبداللہ صاحب کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی کہہ اُٹھے ہیں کہ ’’ہم نے کانگریس پر اعتبار کرکے غلطی کی تھی‘‘۔ یہاں شیخ عبداللہ کی خود نوشت آتش چنار سے یہ عبرت آموز حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس عبرت نامےمیں اُن لوگوں کے سوچنے سمجھنے کا سامان موجود ہے، جو ہندو لیڈروں کی ذہنیت کو سمجھنے کے بجاے، اس صورتِ حال کو چند مسلمانوں کا واہمہ قراردیتے ہیں۔ (ادارہ)
۱۹۳۵ء میں جناب محمد علی جناح سرینگر سیروتفریح کے لیے تشریف لائے، تو وہ ایک ہندستان گیر شخصیت کے مالک بن چکے تھے، اور اُن کے سیاسی امتیاز کے ساتھ اُن کی قانون دانی کا لوہا بھی سبھی مان چکے تھے۔ وہ شیوپورہ میں ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے۔ اُنھی دنوں چیف جسٹس سربرجور دلال کی عدالت میں ایک مقدمہ، متنازعہ نکاح سے متعلق زیرسماعت تھا۔ مقدمہ کافی مشکل تھا۔ مَیں اور مرزا محمدافضل بیگ، جناح صاحب سے اُن کے ہاؤس بوٹ میں ملے، تاکہ اُنھیں اس مقدمے کا وکالت نامہ لینے پر مائل کرسکیں۔ یہ میری جناح صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔
اُسی زمانے میں عید میلاد النبیؐ کا جلسہ شاہی مسجد میں ہونے والا تھا۔ ہم نے اُنھیں ایک نشست کی صدارت پیش کی، جو اُنھوں نے قبول فرمائی، اور صدارتی تقریر انگریزی زبان میں فرمائی۔ جناح صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ریاست [جموں و کشمیر] میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف غیرمسلموں کی تالیف ِ قلوب کریں بلکہ ان کو سیاسی گاڑی کا ایک پہیہ سمجھ کر اپنے ساتھ چلائیں‘‘۔ اُدھر ہندستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی روزبروز بڑھتی جارہی تھی اور جناح، مسلمانوں کو [ہندوؤں سے] برگشتہ خاطر کرنے میں کامیاب ہورہے تھے۔ ۱۹۳۵ء میں برٹش انڈیا ایکٹ کے تحت جو انتخابات مختلف صوبوں میں ہوئے، اس میں بھی مسلم لیگ نے پہلی بار قابلِ لحاظ کامیابی حاصل کی تھی۔ صوبہ جات متحدہ آگرہ واودھ، یعنی یوپی میں مسلم لیگ اور کانگریس کےدرمیان ایک انتخابی سمجھوتا ہوا تھا۔ جب نتیجہ ظاہر ہوا تو کانگریس نے ایک بڑی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت لیے۔ اس لیے اُس کو حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اپنی کامیابی کے زعم میں کانگریس نے وزارت میں مسلم لیگ کے شامل ہونے پر کڑی شرطیں عائد کیں، جن کے ماننے سے مسلم لیگ نے انکار کیا، اور وزارت میں شامل نہ ہوئی۔ اگر کانگریس فراخ دلی اور تدبر سے کام لیتی تو شاید آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ لیکن جواہر لال کی بے جا ضد کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
مسلم لیگی لیڈروں کو کانگریس پرکوئی بھروسا نہ رہا۔ چنانچہ ہندو مسلم تلخی اور بڑھ گئی۔ ہندستان میں سیاسی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہونے لگیں۔ عام مسلمانوں کا رجحان واضح طور پر مسلم لیگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہم کشمیر میں ’فرقہ وارانہ سیاست‘ کے اس دور کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ اگرچہ جموں کے چودھری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کی احیاے نو کا بیڑا اُٹھایا۔ غالباً اُنھوں نے ہی حیدرآباد کے مشہور سیاسی رہنما [نواب] بہادر یارجنگ کو کشمیر آکر مسلم کانفرنس کے اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ نواب صاحب اُردو زبان کے ایک انتہائی طاقت ور خطیب تھے اور حیدرآباد کی ’مجلس اتحاد المسلمین‘ کے سربراہ۔ وہ کشمیر تو پہنچ گئے، لیکن جب وہ مسلم کانفرنس کے اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے تو حکومت نے اُنھیں چوبیس گھنٹے کے اندر اندر کشمیر چھوڑ دینے کا حکم دیا اور اُنھیں تعمیل کرتے ہی بنی۔ یہ صورت ہرگز پسندیدہ نہ تھی اور ہم کسی طرح اِس کے روادار نہیں تھے، لیکن بہادر یارصاحب نے اس کارروائی کا سارا الزام مجھ پر عائد کر دیا۔حالانکہ ہمیں اس معاملے سے دورکا سروکار بھی نہیں تھا۔ بہرحال، کچھ اُن بیانات کی وجہ سے، جو مَیں مسلم لیگ کی سیاست کے خلاف دیتا رہتا تھا، مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع ہوتی جارہی تھی۔ میری ہرگز یہ مرضی نہیں تھی کہ [ہماری] جماعتوں کے درمیان آویزش کا ماحول قائم ہو۔ میں نے اسی مقصد سے جناح صاحب کے نام ایک خیرسگالی کا مکتوب روانہ کیا تھا۔ جناح صاحب نے اس کے جواب میں مجھےدہلی آنے اور ملاقات کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ میں اُن سے ملنے کے لیے دہلی گیا۔ اس وقت بخشی غلام محمد بھی میرے ساتھ تھے۔جناح صاحب نے ہمیں شرفِ ملاقات بخشا اور یہ ملاقات دوگھنٹے تک جاری رہی۔ اُن دنوں وہ اپنی قیام گاہ اورنگ زیب روڈ میں مقیم تھے۔
میں نے جناح صاحب کے سامنے تحریک ِ کشمیر کی تفصیل بیان کی، اور عرض کی کہ ’’ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، جس میں ۸۵ فی صد مسلمان رہتے ہیں۔ بنابریں معاملات کے متعلق اُن کا نظریہ ایک اکثریت کا ہی ہوسکتا ہے، اقلیت کا نہیں‘‘۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ ’’تجربے نے ہم پر یہ ثابت کردیا ہے کہ بنیادی مسئلہ مختلف مذاہب کی ٹکر کا نہیں ہے بلکہ سماج میں مختلف طبقوں کی اقتصادی نابرابری ہے۔ ایک طرف استحصال کرنے والے ہیں اور دوسری طرف وہ جن کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہماری لڑائی شخصیات سے نہیں بلکہ ایک نظام سے ہے۔ اس میں ہندو اور مسلمان کی تمیز کرنا کوتاہ اندیشی ہوگی۔ جن اصلاحات کا ہم کشمیر میں مطالبہ کر رہے ہیں، اُن سے سب مذاہب کے پیرو مستفید ہوں گے۔ اس لیے یہ مقاصد ایک مشترکہ جدوجہد سے ہی پورے ہوسکتے ہیں‘‘۔
میں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ ’’اگر صرف مذہب کی بنیاد پر ہندستان میں مملکتوں کی بنیاد ڈالنا قبول کیا جائے [گا] تو ہندستان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ اور عرض کی: ’’ہندستان کی مسلم اقلیت کم از کم تین حصوں میں بٹ جائے گی اور اس کی آواز کی تاثیر گم ہوکر رہ جائے گی‘‘۔
جناح صاحب میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اُتارچڑھاؤ سے لگتا تھا کہ وہ اُن باتوں سے خوش نہیں ہوئے، لیکن حق یہ ہے کہ اُنھوں نے کمالِ صبر سے میری ساری گفتگو سنی اور آخرکار ایک مر د بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے:
میں نے اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پراعتبارنہیں کیا جاسکتا۔ یہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔ میں نے زندگی بھر اُن کو اپنانے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے اُن کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔ وقت آئے گا، جب آپ کومیری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے۔
جناح صاحب نے مزید کہا:
آپ ایک ایسی قوم پر کیسے اعتبار کرسکتے ہیں، جو آپ کےہاتھوں سے پانی پینا تک پاپ سمجھتی رہی ہے۔ اُن کے سماج میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں، وہ آپ کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔
اُنھوںنے اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا کہ’’ایک بار بمبئی میں مَیں اپنی بیوی کے ساتھ میز پردوپہر کا کھانا کھارہا تھا کہ نوکر ایک ملاقاتی کا کارڈ اندر لایا۔ یہ مشہور ہندو لیڈر پنڈت مدن موہن مالوی کا تھا۔ میں کھانے کی میز سے اُٹھ کر گیا اور انھیں اندر لے آیا۔ جب وہ میز پر بیٹھ گئے تو میں نے اُنھیں کھانے میں شمولیت کی دعوت دی۔ مالوی جی نے یہ کہہ کر انکار کیا ’’آپ جانتے ہیں کہ میں مذہبی وجوہ کی بناپر آپ کے ساتھ ایک میز پر کھانا نہیں کھاسکتا‘‘۔ جناح صاحب بولے کہ میں نے جواب دیا:’’ آپ ساتھ ہی دوسری میز لگا کر کچھ کھایئے‘‘۔ مگر مالوی جی نے کہا: ’’یہ بھی ممکن نہیں ہے، کیوںکہ نیچے مشترکہ قالین بچھی ہوئی ہے اور اس کے ذریعے چھوت آسکتی ہے‘‘۔ جناح صاحب نےکہا کہ اس پر میں نے قالین ہٹوا دیا اور مالوی جی کی خدمت میں میوے اور دودھ پیش کیا‘‘۔ جناح صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’جس قوم کے برگزیدہ لیڈروں کا یہ حال ہو، وہ آپ کو کیسے جینے دیں گے؟‘‘(آتش چنار، ص ۳۰۴-۳۱۰)