ایک عرصے سے پاکستان میں مختلف درجات میں، حکومتی سطح اور غیرحکومتی سطح پر اور ابلاغی اداروں پر، سیکولر جارحیت اور لبرل فسطائیت کے نقوش نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ۱۴جون ۲۰۲۰ء کو، پنجاب کے گورنر نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا کہ ’’ڈگری کے حصول کے لیے، طالب علم کوترجمے کےساتھ قرآن پڑھ کرسنانا ہوگا‘‘۔ اس اعلان کا قوم نے خیرمقدم کیا، لیکن ردعمل کے طورپر اخبارات میں اس اعلان کی مخالفت پرمبنی کالم تحریر کیےگئے۔ اس مناسبت سے دو تحریریں پیش کی جارہی ہیں۔ (ادارہ)
مفتی منیب الرحمٰن
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے مسلمانوں میں دین اور دینی شعائر کے بارے میں بجاطور پر حسّاسیت زیادہ تھی۔ اپنی تمام ترشخصی اور عملی کوتاہیوں کے باوجود دین اوردینی مقدّسات کی بے حُرمتی برداشت نہیں کرتے تھے۔فوراً توانا ردِعمل آتا اور ایسی مذموم حرکات شروع ہی میں دم توڑ دیتیں۔ مُلحدین اور دین بیزار طبقات ہردور میں رہے ہیں۔ ماضی میں جب وہ دین کے بارے میں بے زاری کا اظہارکرتے تو کسی ’مولوی‘ کو نشانہ بناتے، کبھی مسجد اور مدرسے کو ہدفِ تنقید بناتے، الغرض براہِ راست نشانہ بنانے کی جسارت نہیں کرپاتے تھے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں وجود میں آئی ہیں،قرآن، رسولؐ، اسلام اور مقدّساتِ دین پر براہِ راست حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ اگر حسّاس اداروں سے وابستہ شخصیات کے بارے سوشل میڈیا میں کوئی نازیبا بات کرے تو اُسے تلاش کرکے بھرپور گوشمالی کی جاتی ہے۔ لیکن یوں نظر آتا ہے کہ اب وطن عزیز کے ریاستی و حکومتی نظم میں دینی مقدّسات کا دفاع اور تحفظ شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اشارے کنایے میں شراب کی ترغیب و تشویق اخباروں کے ادارتی صفحات میں آئے دن دی جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حلال و حرام اور دینی و سماجی اخلاقیات کی مناسبت سے اخباروں کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے بے زاری کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا: ’’قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھے بغیریونی ورسٹیوں سے ڈگری نہیں ملے گی‘‘۔ حالانکہ تاحال یہ بات محض ایک اعلان ہے، اس کے پیچھے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہے۔ لیکن اُردو اور انگریزی اخبارات کے بعض کالم نگاروں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ’’کیا یہ لوگ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں؟‘‘
اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے تو دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ میں لکھا ہے: ’’اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہوگا‘‘۔ آرٹیکل ۲-اے میں ہے: ’’قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قراردیا جاتا ہے اور وہ بِحَسْبِہٖ مؤثر ہوں گے‘‘۔ قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے: ’’چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کُل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اُس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنےکا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔
پھر دستورِ پاکستان میں یہ بھی لکھا ہے: ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اوراجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے تقاضوںکے مطابق بسر کرسکیں، جیساکہ قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘‘۔
دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۳۱ کے تحت لکھا ہے:
۱- ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اورانھیں سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت یہ کوشش کرے گی:
(الف) قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، زکوٰۃ و عُشر، اوقاف اورمساجد کی باقاعدہ تنظیم کرنا‘‘۔
اس آرٹیکل میں قرآن و سنت کی تعلیمات، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی اور سہولتیں فراہم کرنے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جب کہ ہمارے سیکولر، لبرل اوردین بے زار دانش وروں کو قرآن کا ترجمہ پڑھانے کی بات اس طرح کھٹکی کہ جیسے قیامت نازل ہوگئی ہو۔
دستور کے آرٹیکل ۲۰۳(الف) میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کی تشکیل اور اس کےفرائض و اختیارات کے ذکر میں یہ درج ہے: ’’اس باب کے احکام دستور کے دیگر احکام پر غالب ہوں گے‘‘۔ یعنی اس امرکی تشریح کہ ملک میں پہلے سے نافذ العمل کوئی قانون یا نیا قانون جو منظوری کے مراحل میں ہے، آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ یہ طے کرنے کا اختیار ’وفاقی شرعی عدالت‘ کے پاس ہے اور ان فرائض کی ادایگی میں دستور کی کوئی دفعہ یا قانون، اس کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔
آرٹیکل ۲۲۷ کا عنوان ہے: ’قرآن و سنت کے بارے میں احکام‘ اور درج ہے: ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔
دستورِ پاکستان کے اس آرٹیکل میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں: (الف) گذشتہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنا (ب) تمام نئے قوانین اسلام کے مطابق بنانا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل قرآن و سنت کو پڑھے اور جانے بغیر تکمیل پاسکتا ہے؟ جب کہ دستور کی رُو سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہونی ہیں اور پارلیمنٹ کو بحث کے بعد ان کی منظوری دینی ہے۔ لیکن اب ہمارے ’آزاد خیال‘ دانش وروں کے نزدیک ریاست و حکومت کے اُمور اور نظامِ تعلیم میں قرآن کے ترجمے کی بات کرنا بھی قابلِ گردن زدنی اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، بلکہ قائداعظم کے پاکستان کی روح کو سلب کرنے کے ہم معنی ہے۔
گذشتہ صدی کے وسط سے ، اس کے اختتام تک سیاست اور سیاسی جماعتوں پر کسی حد تک نظریات کی ’تہمت‘ لگتی تھی۔ اُس دور کے عالمی سیاسی ماحول اور دو سوپر پاورز کی کش مکش کے تناظر میں رائٹسٹ اور لیفٹسٹ، یعنی دائیں بازو، بائیں بازو اور اسلام پسند کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں۔ کسی حد تک لوگ سیاسی نظریات کو جانتے بھی تھے اور نظریاتی وابستگیاں بھی رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ سب باتیں قصۂ ماضی بن گئی ہیں۔ اب سیاست صرف مفاداتی، گروہی اور شخصیت پرستی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاسی ’مزارعین‘ کو اپنے لیڈروں کی ناموس کے دفاع سے فرصت ملے تو دین کے دفاع کے لیے وہ وقت نکالیں۔ اس لیے اُن پر نظریاتی حساسیت کی ’تہمت‘ لگانا خود کو شرمسار کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن جب کوئی دستوری اساس، یعنی اسلام اورقرآن و سنت پرحملہ کرے تو دستورِ پاکستان کی رُو سے وفاقی و صوبائی کابینہ، پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ،سول اور مسلح اداروں کی اعلیٰ قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے آگے سدِراہ بنیں، کیوںکہ ان سب نے دستور سے وفاداری کا حلف اُٹھا رکھاہے۔
مگر یہی دکھائی دیتا ہے کہ دین اور دینی شعائر کے تحفظ کے فرض کی ادایگی کے لیے نہ وقت ہے اور نہ اس عہد کی کوئی اہمیت۔ ان سب کے سامنے اسلام کا جو حشر ہورہا ہے، کوئی دشمنِ اسلام بھی شاید ہی کرسکے۔ اس صورتِ حال کا مرثیہ ان الفاظ میں پڑھیے:
میں اگر سوختہ ساماں ہوں، تو یہ رُوزِ سیاہ
خود دکھایا ہے ، مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
یعنی اسلام کو اگر زبان عطا کی جائے تو وہ برملا یہ فریاد کرے گا: آج جو ناکامیاں میرے کھاتے میں ہیں، میرے وقار و افتخار کا سارااثاثہ جو جل کر راکھ ہوچکا، اس کا گلہ مجھے کسی دشمن سے نہیں ہے۔ یہ انجام میرے گھر کے چراغاں نے مجھے دکھایا ہے۔ میرے ماننے والوں نے ’گھرپھونک، تماشا دیکھ‘ کا یہ منظر خود تخلیق کیا ہے۔ اس پر کسی اور کو الزام دینے کے بجاے انھیں خود کو ملامت کرنا چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
یہی حال ہماری صحافت کاہے ۔ کبھی اس پر نظریے کی چھاپ تھی، مگر اب نظریے سے اس کا دامن ’صاف‘ ہے۔ کسی زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے ایک بڑے اخبار کے بارے میں کہا تھا: ’’وہ تو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے‘‘۔ مراد یہ کہ اُسے کسی نظریے سے کچھ بھی غرض نہیں ہے، ہرطرح کا مال اپنے شوروم میں سجارکھا ہے۔ گاہک آئےاور اپنی پسند کا مال اُٹھا لے۔ اسی طرح ہمارےہاں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی بہار تو آگئی ہے، لیکن نظریے سے عاری ہے۔ بس اتنا ہے کہ طاقت کے جس مرکز سے گرم ہوا آتی ہے، اس کے بارے میں یہ محتاط رہتے ہیں، باقی جس کے ساتھ جو کھلواڑ چاہے کریں، اور نان ایشو کو ہمالہ بناکر رونقیں لگائیں۔
یوں لگتا ہے کہ مذہبی،سیاسی ، سماجی، صحافتی، ادبی تنظیموں کے نزدیک قرآن و سنت کی ناموس کے تحفظ کا مسئلہ ثانوی ترجیح کے درجے میں چلا گیا ہے۔ آج تعلیم کو سیکولرائز کرنے کے لیے بھرپور کوششیں اور فیصلے کیے جارہے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی قابلِ ذکر علمی، احتجاجی یا سیاسی کاوش دکھائی نہیں دیتی!
شاہ نواز فاروقی
پاکستان کے سیکولر عناصر کا اسلام پر حملہ کرنے کو جی چاہ رہا ہوتا ہے، تو وہ اسلام پر براہِ راست حملے کی جرأت نہیں کرتے، بلکہ وہ علما، مولویوں، ملاؤں اور امریکی و بھارتی فوجیوں سے برسرِپیکار سرفروشوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی کچھ پرانی ہوچکی ہے۔ اب تو پاکستان میں سیکولر اور لبرل لکھنے والوں کی جرأت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ براہِ راست اسلام کو نشانہ بنانے کی ہمت کر رہے ہیں۔ اس سنگین حملے کا پس منظر یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے بطور چانسلر، پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآنِ مجید کو ترجمے سے پڑھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔ قرآن کو پنجاب کی یونی ورسٹیوں کے تعلیمی پروگرام کا لازمی حصہ بنانے کا عمل تین سیکولر کالم نگاروں کو اتنا بُرا لگا ہے کہ انھوں نے اس فیصلے پر اپنے اپنے انداز سے بھرپور وار کیا ہے۔
روزنامہ دنیا اور ’دنیا ٹیلی ویژن‘ سےوابستہ ایاز امیر کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
’’شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ قائد اعظم نے بارایٹ لا ’لنکنز اِن ‘(برطانیہ) سے کیا۔ اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکر مسلمانانِ ہند اور نہ معمارِ پاکستان ہی پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں.... دونوں کی خوش قسمتی ہی سمجھی جانی چاہیے کہ وہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے عہد میں طالب علم نہ تھے۔ ورنہ ممکن ہے یوں کرنا پڑتا۔ شاعر مشرق کو تو شاید مشکل نہ پیش آتی، لیکن قائد اعظم، جن کی ساری تعلیم انگریزی میں تھی، کو تھوڑی بہت دِقّت ضرور ہوتی۔
’’قائد اعظم کے بغیر برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام ناممکن ہوتا، لیکن قائد اعظم نے اپنی درخشاں زندگی میں [ایسے] شوشوں کا سہارا کبھی نہ لیا.... اُن کی تمام تقاریر چھان ڈالیے، کوئی فضول کا نعرہ نہیں ملے گا۔ لیکن اُن کی وجہ سے بننے والے ملک کی جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے، اُس کی تو زندگی ہی فقط نعروں اور شعبدے بازی پہ مبنی ہے۔جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے، وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی، جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کرسکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے گا کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے، لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھے سات یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں [کے] اجلاس [میں] فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونی ورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی، جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے‘‘(روزنامہ دنیا،۲۰ جون ۲۰۲۰ء)۔کالم نگارنے قرآن کی تعلیم کا جس طرح خاکہ اُڑایا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
اسی طرح ’جنگ‘ اور ’جیو‘ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز کے کالم نویس غازی صلاح الدین صاحب نے اپنے کالم (۲۱ جون ۲۰۲۰ء) میں قرآن کی تعلیم کا خاکہ اُڑاتے ہوئے لکھا:
یقین کریں یا نہ کریں پنجاب کے گورنر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کو اُردو ترجمے کے ساتھ پڑھنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس کے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔
پھر روزنامہ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اور اب انسانی حقوق کی تنظیموں میں سرگرمِ کار آئی اے رحمان صاحب نے انگریزی روزنامہ ڈان میں قرآن کی تعلیم پر حملے کے لیے جو کالم لکھا، اس کا متن تو رہا ایک طرف،خود عنوان ہی توہین آمیز ہے: Creeping Religiousity یعنی ’رینگتی ہوئی مذہبیت‘۔ موصوف نے لکھا:’’یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ضیاء الحق اور اس کی جگہ لینے والوں نے چالیس سال تک معاشرے میں اپنی طرز کا اسلام مسلط کرنے کے بعد ایک قانون بناڈالا ہے، جس کے تحت نوجوانوں کو قرآن پڑھنے پر مائل کیا جائے گا۔ اسلام ایک رضا کارانہ مذہب ہے۔ پنجاب کی حکومت کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ ان طلبہ کو سزا دی جائے گی جو قرآن نہیں پڑھیں گے۔ علما خود اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا پنجاب حکومت کا یہ اقدام ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘ کے مذہبی اصول کے مطابق ہے؟‘‘ (ڈان، کراچی، ۲۵جون ۲۰۰۲ء)
اسی طرح پرویز ہود بھائی نےروزنامہ ڈان (۱۹جولائی ۲۰۲۰ء) میں یہ سنا دیا ہے کہ ’’ڈگری حاصل کرنے کے لیے قرآن سنانے کی پابندی تو انتہاپسند ضیاء الحق نے بھی نہیں لگائی تھی‘‘۔
ایازامیر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم جیسے جدید تعلیم یافتہ افراد کا قرآن یا اس کے علم سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ’’اقبال تو شاید قرآن پڑھ بھی لیتے مگر قائد اعظم کو تھوڑی بہت دقّت ضرور ہوتی‘‘۔ اطلاعاً عرض ہے کہ کالم نگار نے اقبال اور قائد اعظم کا جو تصور اپنے ذہن میں باندھا ہے، وہ ان کے ذہن کی پیداوار تو ہوسکتی ہے، مگرحقیقی زندگی میں ایسا نہیں تھا۔ دیکھیے، اقبال کو قرآن سے عشق تھا اور ان کی شاعری قرآن کی تعلیمات میں ڈوبی ہوئی شاعری ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اُسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
علّامہ محمد اقبال کے یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک ’’مسلمانوں کا عروج قرآن کو اختیار کرنے کی وجہ سے تھا اور مسلمانوں کا زوال قرآن کو ترک کردینے کی وجہ سے ہے‘‘۔ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تمھیں جدتِ کردار درکار ہے، تو قرآن میں ڈوب کر ہی یہ متاع گراں مایہ ہاتھ آسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس اقبال کو قرآن سے اتنی محبت ہے وہ قرآن کو نہیں پڑھتا ہوگا؟
اقبال خود کو مولانا روم کا مرید کہتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’مولانا علم کا ایک سمندر ہیں اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ‘‘۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ مولانا روم کی شاعری کو فارسی میں قرآن کی تعلیمات کا مظہر کہا گیا ہے۔ جنھوں نے اقبال کی شاعری کو سرسری طور پر پڑھا ہے انھیں معلوم ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کی لغت مذہبی یا قرآنی ہے۔ ان حقائق کے باوجود یہ صاحب ’تاثر‘ دینا چاہتے ہیں کہ اقبال کی ساری دل چسپی جدید مغربی تعلیم سے تھی، قرآن سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ہرپڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ زندگی کے آخری زمانے میں اقبال کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور جب بھی انھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ رہنمائی کے لیے قرآن اُٹھالیتے تھے۔
روزنامہ دنیا کے کالم نگار نے اقبال کو تو کچھ نہ کچھ ’مسلمان‘ مان بھی لیا، مگر قائد اعظم کو تو انھوں نے تقریباً ’اس کے برعکس ‘ بنا کر کھڑا کردیا کہ ایک ایسا آدمی، جس کا قرآن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خمیر، ناقص معلومات، جہالت، اسلام دشمنی اور انھی چیزوں پر فخر سے اُٹھا ہے۔ چنانچہ قائد اعظم کے سلسلے میں ایاز صاحب لاعلمی اور جہالت کا شکار ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن میں سیکولر شیاطین سے قائد اعظم کے بارے میں سبق لیا ہوگا کہ وہ قرآن نہیں پڑھتے تھے، حالاں کہ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ وہ تواتر سے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا کرتے تھے۔
قرآن کے ساتھ قائداعظم کے گہرے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ہم مذہبی اسکالروں کی سند بھی لاسکتے ہیں، مگر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں برطانوی نژاد محقق خاتون سلینا کریم سے رجوع کیا جائے، جنھوں نے قائد اعظم پر ایک ضخیم کتابSecular Jinnah And Pakistan: What The Nation Doesn’t Know لکھی ہوئی ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے ایک پورے باب کا عنوان ہے: The Quran and Jinnah’s Speeches، یعنی قرآن اور جناح کی تقاریر۔ اس باب میں سلینا کریم صاحبہ نے سات موضوعات پر قائد اعظم کی تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں اور پھر وہ قرآنی آیات درج کی ہیں، جن سے قائد اعظم کے سات بیانات برآمد ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے: Secular Jinnah and Pakistan (ص ۲۳۵ تا ص ۲۵۲ )۔ اس باب کے اختتام پر سلینا کریم اس نتیجے پہ پہنچتی ہیں:
]ترجمہ]یہ مثالیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جناح کس پُرجوش طریقے سے قرآنی اصولوں کی لفظی اور معنوی اعتبار سے پاس داری کرتے تھے۔ وہ خاص طور پر قرآن کے اصول توحید کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔
مسٹر ایاز نے لکھا ہے کہ مغرب کی جن یونی ورسٹیوں سے اقبال اور قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی، ان میں اگر کسی طالب علم کو انجیل کی آیات پڑھنے کے لیے کہا جاتا تو وہاں قہقہہ بلند ہوتا۔ مغرب کے بے خدا، لامذہب، رسالت اور وحی بیزار معاشرے میں ایسا ممکن ہے، لیکن کیا پاکستانی معاشرہ بھی خدا کا انکار کرتے ہوئے، اس کے تذکرے کے لیے استہزا کا راستہ اپناچکا ہے اور مذہب سے لاتعلق ہوچکا ہے؟ رسالت اور وحی کا منکر ہوچکا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، تو پھر اخبارات اور ٹیلی ویژن کے یہ سیکولر اور لبرل عناصر پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کا مذاق کیوں اُڑا رہے ہیں؟
دی نیوز کے غازی صاحب نے قرآن کی تعلیم پر اپنا مذکورہ پیراگراف Believe it or not کے الفاظ سے اس طرح لکھا ہے، جیسے ’ویٹی کن سٹی‘ میں نفاذ اسلام کردیا گیا ہو۔ انھیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں تعلیمی اداروں میں قرآن نہیں تو کیا بائبل اور گیتا پڑھائی جائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کے عزم پر غازی صاحب کا رنگ فق ہوگیا ہے؟
آئی اے رحمٰن صاحب نے تو دیدہ دلیری کامظاہرہ کرتےہوئے سرے سے قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ ہی بنادیا۔ پھرموصوف نے کج فہمی کے عالم میں قرآن کی آیت ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ تک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر ڈالا ہے۔ حالانکہ ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسلام میں کسی غیر مسلم کو جبر کے تحت مشرف بہ اسلام نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن و سنت کی تعلیم کا نظم قائم کرنا جبر نہیں عین رحمت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سیکولر طبقے، سیکولر اور لبرل تعلیم کو ’جزا‘ اور قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ عناصر سرعام قرآن و سنت کے خلاف صف آرا ہیں، مگر نہ ریاست کو اس بات کی فکر ہے، اور نہ علما نے بڑے پیمانے پر اس کے مضمرات و نتائج پرغور فرمایا ہے۔