مارچ ۲۰۲۰ء میں وزیراعظم پاکستان کے ہاتھوں ’یکساں قومی نصاب‘ کی منظوری کے اب چار ماہ بعد ’نیشنل کریکولم کونسل‘ (NCC) سے منظوری کا ڈراما رچانے کے لیے۲۲جولائی کو اسلام آباد میں اجلاس منعقد کیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ درمیانی عرصے میں نصاب کی نوک پلک سنواری جاتی رہی ہے۔ اس سے پہلے ۱۶ جولائی کو بقول وزارتِ وفاقی تعلیم ماہرین کا اجلاس بلایا گیا جس میں میڈیم آف انسٹرکشن، یعنی ذریعۂ تعلیم کا فیصلہ لینا تھا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے اس مقصد کے لیے جو نقشۂ کار دیا وہ یہ تھا کہ پری اسکول (قبل اسکول) سے ہی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا، تاہم اسلامیات کا مضمون اُردو میں پڑھایا جائے گا۔ نیز اسلامیات کے سوا باقی تمام مضامین کی درسی کتب بھی انگریزی میں ہوں گی۔
۱۶مارچ کے اجلاس میں ۲۷ شرکانے انگریزی بطور ذریعۂ تعلیم کی مخالفت کی صرف بیکن ہاؤس اسکولز کے نمایندے اور جناب جاوید جبار نے انگریزی بطور ذریعۂ تعلیم کی حمایت کی۔ غالب اکثریت کی مخالف راےآنے کی وجہ سے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر اجلاس یہ کہتے ہوئے ختم کردیا کہ اس مقصد کے لیے مزید مشاورتی اجلاس بلائے جائیں گے۔ لیکن مزید کوئی اجلاس بلانے کے بجاے ۲۲ جولائی کو’یکساں قومی نصاب‘ کی ’قومی نصابی کونسل‘ (NCC) کا ذریعۂ تعلیم کے فیصلے کے لیے اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں ۲۵ لوگ ذاتی طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور باقی اراکین آن لائن سہولت کے ساتھ اجلاس میں شامل تھے۔
اس اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزارتِ تعلیم نے یہ چالاکی دکھائی کہ وفاق ہاے مدارس دینیہ کے نمایندوں کو بہت تاخیر سے اطلاع دی گئی۔ انھیں نہ کوئی ایجنڈا بھیجا گیا اور نہ اجلاس کاکوئی ورکنگ پیپر۔مزید یہ کہ آن لائن زوم کے ذریعے شرکت کے لیے بعض اراکین کو لنک بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ لیکن دینی اداروں کے تمام نمایندوں نے لنک کی معلومات حاصل کرکے اجلاس میں شرکت ممکن بنالی۔۲۲ جولائی کے اجلاس میں بھی دل چسپ صورتِ حال رہی۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے احتجاج ریکارڈ کرایا کہ انھیں نہ بروقت اطلاع دی گئی، نہ ایجنڈا فراہم کیا گیا اور نہ زیرغور نصاب کا مسودہ دیا گیا۔ اس لیے وہ بے مقصد شرکت پسند نہیں کرتے ، لہٰذا انھیں نصابی مسودات فراہم کیے جائیں اور جائزے کے لیے ایک ماہ دیاجائے تو وہ نصاب پر غور کے لیے تیار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس سے الگ ہوگئے، جب کہ مولانا حنیف جالندھری صاحب، علامہ افضل حیدر صاحب اور ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب نے بھرپور استدلال سے شرکت کی اور شکوہ بیان کیا۔
باقی شرکا میں سے سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیرکے وزراے تعلیم یا سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد نصاب سازی صوبوں کااختیار ہے۔ تاہم، وفاق کے اچھے کام کو وہ زیرغور لاسکتے ہیں، لیکن اس کا فیصلہ صوبے کی کابینہ نے کرنا ہے۔ نیز صوبے اپنا نصاب اور درسی کتب تیار کررہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیرتعلیم نے کہاکہ وفاق مہربانی کرکے اپنے نصاب میں کشمیر کا بھی کہیں ذکر کردے تو اس کی مہربانی ہوگی۔خیبرپختونخوا کے وزیرتعلیم نے کہا کہ ہمیں توبتایا گیا تھاکہ نصاب کی منظوری کا یہ آخری اجلاس ہے لیکن شرکاے اجلاس کی تنقیدی آرا سننے کے بعد معلوم ہورہا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے سلسلے میں یہ تو ابھی پہلا اجلاس ہے۔
شرکاے اجلاس میں سے اکثریت اگرچہ سیکولر، لبرل خیالات کی حامی اور وفاقی وزیرتعلیم کی پسندیدہ شخصیات تھیں لیکن ان کے تبصرے بھی کام کے حق میں نظر نہیں آرہے تھے۔ وفاقی وزیرتعلیم جناب شفقت محمودکا کہنا یہ تھا کہ ہم نیشنل کریکولم کونسل کے اراکین کی راے اور تبصروں کی روشنی میں نصاب کی ٹیوننگ اور پالشنگ کریں گے۔ نتیجہ یہ کہ پھر ۱۶جولائی والے اجلاس کی طرح صورت پیدا ہوئی اور کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور وزیرتعلیم نے اجلاس یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ مشاورت جاری رہے گی۔
مذکورہ بالا دو اجلاسوں کی مختصر رُوداد دینے کا مقصد یہ ہے کہ وزارتِ وفاقی تعلیم جو ’ایک قوم، ایک نصاب‘ کا ڈھول پیٹ رہی تھی اس کے غبارے سے ہوا نکلتی نظر آرہی ہے اور قومی سطح پر یہ جو مثبت تاثر اُبھر رہا تھا کہ یکساں قومی نصاب کا دیرینہ قومی خواب تعبیر کے قریب ہے، اب یہ خواب بکھرتا نظر آرہا ہے جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
۱- وزارتِ وفاقی تعلیم کےارباب بست و کشاد کا واضح جھکاؤ سیکولر لبرل لابی کی طرف ہے، جب کہ قوم کا مجموعی مزاج اسلامی نظریۂ حیات سے سرشار ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل میں وزیرتعلیم نے اپنی پسند کے لبرل سیکولر لوگ پورے دھڑلے کے ساتھ شامل کیے ہیں۔ اگر نیشنل کریکولم کونسل کےارکان کی فہرست پر نظر ڈالی جائے توچاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بربناے عہدہ نمایندوں کے علاوہ ۱۱ مرد حضرات اور ۱۰خواتین اراکین ہیں۔ سب نامزد افراد کی وابستگی لبرل سیکولر سوچ سے ہے۔دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے نمایندے البتہ علماے کرام ہیں جو کہ ایک مجبوری تھی لیکن ان نمایندوں کو اسلامیات کے نصاب کے علاوہ کہیں کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
۲- سنگل نیشنل کریکولم کےعنوان سے جو نصاب تیارکیا گیا ہے وہ ارکان نیشنل کریکولم کونسل تک کو مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
۳- نصاب کے جائزے کے لیے ضروری ہے کہ ان ضروریات کی فہرست دی جائے جو عصرحاضر میں نرسر ی سے بارھویں جماعت تک ہمارے طلبہ کی نصابی ضروریات کے طور پر وفاقی وزارتِ تعلیم نے ترتیب دی ہیں تاکہ ان ضروریات کی روشنی میں نصابِ تعلیم کی مناسبت کاجائزہ لیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزارت نے ضروریات پر مبنی ایسی کوئی فہرست نہیں بنائی۔
۴- نرسری سے بارھویں تک پورے نصاب میں سے ایک طالب علم نے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو نصاب میں نظر آنا چاہیے۔ گریڈوں یاجماعتوں کی تقسیم ہم اپنی انتظامی سہولت کے لیے کرتے ہیں۔ اس وقت صرف نرسری سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیا جارہا ہے۔ اس سے ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اس کا مڈل جماعتوں اور ثانوی جماعتوں کے نصاب کے ساتھ عمودی ربط موجود ہے اور کسی قسم کا خلا نہیں ہے۔
۵- پانچ سال سے ۱۶ سال کی عمر کی تعلیم قانون کے مطابق ہمارے ملک میں لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے اس دورانیے میں طالب علم کو بالغ زندگی کامیابی سے گزارنے کے لیے تمام معلومات ، تمام مہارتیں اور ضروری اخلاق و کردار اور رویے، رسمی اور غیررسمی تعلیم کے ذریعے مل جائیں۔ خصوصاً آئین کے آرٹیکل ۳۱ کی روشنی میں ۱۶سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرکے ہمارے طلبہ و طالبات اس قابل ہوجائیں کہ وہ قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ محض پری اسکول سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیکھ کر تو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ مذکورہ نصاب لازمی تعلیم کے دورانیہ کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں۔
۶- سکول سطح کانصابِ تعلیم ایک تسلسل کا تقاضا کرتا ہے جس میں ربط، توازن، تسلسل، وسعت اور گہرائی کا بدرجۂ اتم خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے پوری دنیا کی یہ روایت ہے کہ نصاب جب بھی تیار ہوگا وہ پری سکول سے ثانوی /اعلیٰ ثانوی درجے تک ایک ہی وقت میں تیار ہوگا۔ البتہ اس کے نفاذ کے لیے درجہ وار ترتیب لگائی جاتی ہے۔ ٹکڑوں میں جب نصاب تیار ہوگا اس میں اُفقی اور عمودی ربط اور توازن کی کمزوری لازماً رہے گی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اجزا میں نصاب سازی کرکے تعلیمی دنیا کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کاارتکاب کررہی ہے۔
۷- ماہرین کی طرف سے یہ اعتراض شدومد سے اُٹھایا جارہا ہے کہ مذکورہ نصاب جو نظریۂ پاکستان، اسلامی نظریۂ حیات اور دستورِ پاکستان کی تعلیم سے متعلق آرٹیکلز کی روشنی میں تیار ہونا تھا، وہ سیکولر، لبرل اقدار کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ نصاب کی بنیادی اسلامی اقدار، یعنی توحید، رسالت، عبادت اور آخرت،اور معاملات و اخلاقیات کی ذیلی اقدار ہونا چاہیے تھیں، لیکن ان کی بنیاد سیکولر اساسی اقدار پر رکھی گئی ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔
۸- رہ گئی بات میڈیم آف انسٹرکشن (ذریعۂ تعلیم) کی تو ۱۶ جولائی کو جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں ایک دو کو چھوڑ کر سب نے انگریزی کی مخالفت کی اور سفارش کی کہ پری اسکول سے آخر تک اسکول کی تعلیم اُردو یا علاقائی زبان میں ہونی چاہیے۔ تقریباً متفقہ مخالفت آنے پر وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر میٹنگ ختم کردی۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پری اسکول سے ثانوی سطح تک تمام مضامین اُردو یا علاقائی زبان میں پڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
۹- تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ وزارتِ وفاقی تعلیم کس اختیار اور قانون کے تحت سنگل نیشنل کریکولم اورسنگل ٹیکسٹ بکس تمام صوبوں میں نافذ کرے گی، جب کہ صوبوں کے اپنے کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈز اور صوبائی اسمبلیوں سے پاس کردہ اپنے قانون موجود ہیں، نیز پرائیویٹ سیکٹر کے اشرافیہ کے اسکولز جوبیرونی امتحانی بورڈز سے منسلک ہیں، کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک سکولز، جو مقتدر طبقوں کےادارے ہیں وہ کب اور کس طرح سنگل نیشنل کریکولم کو قبول کریں گے؟ مذکورہ تمام اداروں میں نافذ کرائے بغیر اسے یکساں قومی نصاب کادرجہ کیسے حاصل ہوگا؟
۱۰- وزارتِ وفاقی تعلیم اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ دار افسروں نے وزیراعظم کے سامنے کارکردگی دکھانے کی خاطرعجلت میں یہ کیا ہے۔ امرواقعہ ہے کہ یہ سب کچھ ۲۰۰۶ء میں جنرل پرویز مشرف کے نصاب میں معمولی کمی بیشی کا تسلسل ہے، جسےاسلامی حلقوں نے مسترد کر دیا۔
۱۱- یہ غلط دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس نصاب کو پاکستان بھر کے ۷۰ماہرین نے تیار کیا ہے حالانکہ یہ ۲۰۰۶ء کے نصاب میں محض کچھ تبدیلیاں ہیں۔
۱۲- نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران نے تعلیمی عمل کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کرکے اپنے پسندیدہ نام نہاد ماہرین کو آگے رکھ کر شفافیت کی نفی کی ہے، اور پھر اس طرح رازداری سے کام لیا ہے جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیاہے۔ اُن میں سے کسی کو اس دستاویز کا علم نہیں جن کے بچوں کا تعلیمی مستقبل اس سے وابستہ ہے یاجنھوں نے نصاب کے اس مسودے کو نافذ کرنا ہے، یعنی اساتذہ اور محکمہ ہاے تعلیم کے انتظامی ذمہ داران۔
۱۳- وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہہ کر’’ سنگل نیشنل کریکولم صرف کور کریکولم (core curriculum) ہے۔ اگراسکول اور اسکولز سسٹمز اس نصاب میں اضافہ کرنا چاہیں گے تواُن کو اجازت ہوگی‘‘،یکساں قومی نصاب کے غبارے سے خود ہی ہوا نکال دی ہے۔ یہ وہ بدترین پسپائی ہے جو اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے انکار اور دباؤ کی وجہ سے کی گئی ہے۔
۱۴- پنجاب کے وزیرتعلیم ڈاکٹر مراد راس نے وضاحت کی ہے کہ یکساں قومی نصاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اسکول صرف وفاق کاقومی نصاب ہی پڑھائیں گے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وفاق نے ایک نصابی فریم ورک دیا ہے جس کے اندررہ کر پڑھانا ہوگا، باقی ادارے اگر اس میں اضافہ کرنا چاہیں تو اس کی ان کو آزادی ہوگی۔ نیز ایک ہی درسی کتاب بھی مطلوب نہیں ہے۔ ان وضاحتوں نے یکساں قومی نصاب کا تصور ختم کرکے رکھ دیاہے۔اصل ہدف یہ نظر آتا ہے کہ دینی مدارس میں مقتدر قوتوں کے دباؤں کے تحت سیکولر نصاب رائج کیا جائے اوران کا موجودہ دینی تشخص آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے۔ سرکاری ادارے تو شاید ہی مذکورہ نصاب نافذ کریںگے۔
۱۵- اگر حکومت یکساں قومی نصاب کے مسئلے پر سنجیدہ ہے تو اسے بیرونی امتحان پر پابندی اور بیرونی بورڈز کے تعلیمی سرٹیفکیٹس کی نامنظوری کی قانون سازی کرنی چاہیے جو ظاہر ہےممکن نہیں ہوگی کیونکہ ان اداروںاور ان بیرونی امتحانات سے منسلک سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ججوں، جرنیلوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نونہالوں کا روشن مستقبل وابستہ ہے۔ اس طرح یکساں قومی نصاب صرف غریبوں پرہی نافذ ہوگا۔
۱۶- یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سنگل نیشنل کریکولم کا یہ سارا ڈھونگ حکومت کے سیکولر تعلیمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ہدف محض دینی ادارے ہیں۔ اس کے پیچھے امریکی کمیشن براے مذہبی آزادی اور دیگر مغربی قوتیں ہیں۔ ملک کی اندرونی سیکولر لابی ایک طرف تو نیشنل کریکولم کونسل میں غالب حیثیت بلکہ فیصلہ کن حیثیت میں موجود ہے اور دوسری طرف سیکولر، لبرل اور کرسچین این جی اوز کے پلیٹ فارم سے بعض معروف خواتین و حضرات متحرک ہیں۔ ان این جی اوز کی ۳مارچ۲۰۲۰ء کے سیمی نار جس کی صدارت جناب شفقت محمود نے کی اور پھر ۱۰جولائی ۲۰۲۰ء کا Webinar اور ان دونو ں اجلاسوں کی کارروائی سنگل نیشنل کریکولم کے لبرل سیکولر ایجنڈے کی حمایت میں نظر آتی ہے۔ اسی سیمی نار میں شرکا کے مطالبے پر جناب شفقت محمود نے وعدہ کیا تھا کہ ’’وہ سارا مواد نصاب سے خارج کردیا جائے گا جس پراقلیتوں کواعترض ہے‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب نے اپنے ریمارس میں کہا کہ ہم جہاد، محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کے ذکر کو نصاب سے خارج کردیں گے۔ ۱۰جولائی کے سیمی نار میں اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تدریس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔
اس عجیب و غریب صورتِ حال میں اصل نقصان قومی نظامِ تعلیم کا ہو رہا ہے جس کےلیے پارلیمنٹیرین، دانش وروں، عالموں اور استادوں کو اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے ایک جانب سیکولر یلغار کی مزاحمت کرنی چاہیے اور دوسری جانب مثبت طور پر اقدامات تجویز اور نافذ کرانے چاہییں۔