پچھلے تین برسوں سے ملک میں ایک بڑا شدید مغالطہ پیدا کیا گیا ہے کہ ’’موجودہ وفاقی حکومت، ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے پہلی بار ’یکساں قومی نصاب‘ (سنگل نیشنل کریکولم) نافذ کررہی ہے۔ اس طرح ۲۰۲۳ء تک سکول کی سطح پر مکمل واحد قومی نصاب نافذ ہوجائے گا جو سرکاری، پرائیویٹ سکولوں اور دینی مدارس میں یکساں طور پر نافذہوگا‘‘۔ آئیے، متعدد سوالوں کے ذریعے سے حکومت کے ان دعوئوں کا جائزہ لیتے ہیں:
’پاکستان تحریک انصاف‘ کے تعلیمی منشور میں یقینا یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا وعدہ درج ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد ملک کے تمام بچوں کے لیے ایک جیسی تعلیمی سہولیات ، ایک جیسا تعلیمی ماحول، ایک جیسے تعلیم یافتہ اساتذہ، ایک جیسا نظامِ امتحان اور بلاشبہہ ایک جیسا نصاب اور درسی کتب کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ اب حکومت منشور میں درج باقی تمام امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ’یکساں قومی نصاب‘ کا نعرہ لگا کر یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس طرح ملک میں امیر اور غریب کے درمیان تعلیمی امتیاز ختم ہو جائے گا جو کہ بالکل غیرمنطقی بات اور عملاً ایک افسوس ناک جھانسا ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہمیشہ سے واحد قومی نصاب ہی نافذ رہا ہے کیونکہ یہ آئین کا تقاضا ہے اور ’۱۹۷۶ء کا تعلیمی ایکٹ‘ اس کو قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ البتہ ۱۷ویں ترمیم کے بعد نصاب، کتاب اور نظامِ امتحان کنکرنٹ لسٹ سے نکال کر صوبائی اختیار میں دےدیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی پورے ملک میں، یعنی تمام صوبوں میں ۲۰۰۶ء کا بنایا ہوا قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک واحد قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں، ان تمام پرائیویٹ اسکولوں میں جو پانچویں، آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سرکاری امتحان میں اپنے طالب علموں کو بٹھاتے ہیں، اور ان تمام دینی مدارس میں جو درس نظامی کے ساتھ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کا امتحان دلواتے ہیں، سرکاری سطح پر تیار کردہ واحد قومی تعلیمی نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈز کی شائع کردہ درسی کتب ہی استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ وہ سرکاری، نیم سرکاری، عسکری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو اے لیول، اولیول سمیت بیرونی تعلیمی بورڈ کے امتحان دلواتے ہیں، وہ واحد قومی نصاب تعلیم کے بجائے بیرونی تعلیمی ایجنسیوں کا نصاب اور ان کی درسی کتب استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں پہلی مرتبہ واحد قومی نصاب رائج کرنے کا دعویٰ غلط ہے۔
اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ ملک کے تمام ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق ہے کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام پر جو نصاب رائج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہ دراصل ۲۰۰۶ء کا قومی نصاب ہے جو جرمنی کے ادارے جی آئی زیڈ (GIZ) کی فنڈنگ اور تکنیکی معاونت سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی انچارج نگہت لون صاحبہ تھیں۔ اب ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء کا ترمیم شدہ نصاب ہی سامنے لایا گیا ہے، اور اس کی ٹیکنیکل ایڈوائزر بھی وہی نگہت لون ہیں۔ موازنہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ’موجودہ یکساں قومی نصاب‘ ۲۰۰۶ء کے نصاب سے محض دس فی صد مختلف ہے۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم کے متعدد بیانات اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران کی توجیحات شاہد ہیں کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کم سے کم تعلیمی مواد (Minimum Learning Level) کا تعین کرتا ہے ۔ تعلیمی ادارے آزاد ہیں کہ وہ زائد مواد جو اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیں پڑھا سکتے ہیں اور اپنی پسند کی درسی کتب رائج کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کتب میں ’یکساں قومی نصاب‘ کا تعین کردہ مواد بھی آگیا ہو، اور ان کتب کے لیے ’عدم اعتراض کا اجازت نامہ‘ (NOC)، مجاز ادارے سے لے لیا گیا ہو۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو صوبے اس کو اختیار کریں گے، ان کے زیراہتمام سرکاری سکول لازماً اس نصاب کو استعمال کریں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے آئینی اختیار کے تحت مذکورہ نصاب رائج نہیں کرتا تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ پرائیویٹ سکول جو مختلف سطحوں کے سرکاری امتحانات میں اپنے طالب علموں کو بٹھا کر سرکاری تعلیمی سندات لینا چاہیں گے، وہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے مطابق اپنے طالب علموں کو پڑھائیں گے، لیکن جو پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا سرکاری، نیم سرکاری تعلیمی ادارے، عسکری انتظام میں چلنے والے ادارے، کیڈٹ کالجز وغیرہ جو اولیول ، اے لیول یا دیگر بیرونی امتحانات میں اپنے طلبہ کو بٹھائیں گے وہ ’یکساں قومی نصاب‘کے نفاذ سے مستثنیٰ ہوں گے اور وہ کیمبرج ، آکسفورڈ یا متعلقہ بورڈ کا نصاب اور کتابیں استعمال کریں گے۔
دینی مدارس، جو درس نظامی کے علاوہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات دلوانا چاہیں گے، وہ تو حکومت کا تجویز کردہ ’یکساں قومی نصاب‘ (جیسا کہ پہلے ہوتاتھا) استعمال کریں گے لیکن اگر وہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی سندات نہ دلوانا چاہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سرکاری واحد قومی نصاب نہیں پڑھیں گے ۔
ان حقائق سے ہر صاحب ِعقل یہ جان سکتا ہے کہ شعبۂ تعلیم میں نصاب اور درسی کتب کےحوالے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ جو کچھ کہا جارہا ہے، وہ محض پروپیگنڈہ ہے، جب کہ وزیر اعظم صاحب سے ۱۶؍ اگست ۲۰۲۱ء کو ایک تقریب میں ’یکساں قومی نصاب‘ ’نافذ‘بھی کروا دیا گیا ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ ’’ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکول کی سطح پر ناظرہ قرآن اور ترجمۂ قرآن نصاب میں لازمی قرار دیا گیا ہے‘‘، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ناظرہ قرآن کی لازمی تعلیم جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت (۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء) میں ۱۹۶۰ء کے دوران نافذ کی گئی تھی۔ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن لازمی تھا۔ ایوب حکومت نے گرمیوں کی تعطیلات میں تین سال تک تمام پرائمری اساتذہ کی قریبی دینی مدارس میں قراءت وتجوید کی تربیت کرائی، اسکولوں میں ۲۰ منٹ کازیر و پیریڈ ٹائم ٹیبل میں شامل کیا گیا، اور اساتذہ کے تربیتی اداروں میں امیدواران کے لیے ناظرہ قرآن میں قابلیت داخلے کے لیے لازمی قرار دی گئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں قرآن کی تعلیم کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔
نواز شریف صاحب کی حکومت نے ۱۹۹۸ء میں بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن ایک انتظامی حکم کے ذریعے لازمی قرار دیا اور اس کے نفاذ کے لیے وزیر اعظم کے دفتر میں ایک سیل قائم کیا، جس کے انچارج میجر جنرل سکندر حیات اور جسٹس ریٹائرڈ عبد الحفیظ چیمہ صاحب تھے۔ ۱۹۹۹ء میں نواز حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ رُوبہ عمل نہ آسکا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ۲۰۱۷ء میں پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا، جس کے مطابق پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن لازمی قرار دیا گیا۔ درحقیقت ناظرہ قرآن ۱۹۶۰ء سے اسکولوں میں لازمی ہے اور ترجمۂ قرآن پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت مسلم لیگ (ن) نے لازمی قرار دیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کام ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ویسے بھی قرآن کی تعلیم آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق تمام مسلمان شہریوں کے لیے لازمی ہے۔
تدریس القرآن کے معاملے میں مسلسل کوتاہی یہ ہورہی ہے کہ ہر روز زیرو پریڈ کے بجائے ہفتے میں تین پیریڈ کر دیے گئے ہیں، نیز قرآن کی تدریس کے لیے کوئی اضافی استاد نہیں دیا جارہا اور نہ موجود اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ سیکولر لابی کی کوششیں آگے بڑھی ہیں۔ اسلامیات کے مضامین کو ایک طرف رکھتے ہوئے باقی مضامین میں سے اسلامی مواد کافی حد تک نکال دیا گیا ہے۔ حمد اور نعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اردو یا انگریزی کی درسی کتابوں میں جو ایک آدھ مضمون باقی رہ گیا ہے، اس کے خلاف بھی سیکولر لبرل لابی متحرک ہے۔ اسلامیات کا نصاب بھی ان کا ہدف ہے حالانکہ یہ وہی نصاب ہے، جو ۲۰۰۶ء سے حالیہ تعلیمی سیشن تک تمام صوبوں میں رائج تھا۔ سیکولر لابی کا یہ کہنا ہے کہ ’’اسلامیات کا موجودہ نصاب تو مذہبی اداروں کے اسلامی نصاب سے بھی زیادہ ہے‘‘ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جگہ ناقص اور ادھورا ہے۔
اقلیتوں کے نام نہاد نمایندے، یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی پشت پناہی سے اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی سرپرستی میں درسی کتب سے اسلامی مواد کے اخراج کے لیے شوروغوغا کرتے رہے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء تک درسی کتب سے ۷۰ اسلامی تصورات خارج کرائے گئے اور باقی جو بچا ہے اس کے اخراج کے لیے کوشش جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس سلسلے کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ’’درسی کتب میں اسلامی مواد کا ہونا اقلیتوں کے حقوق کی نفی ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے ‘‘۔
ایک اورفرق یہ پڑا ہے کہ نصاب اور درسی کتب میں سے اسلامی اقدار (اگر کہیں تھیں) کو ختم کرکے ہیومنزم (Humanism)کی سیکولر اقدار کو نصاب اور درسی مواد کے تانے بانے میں شامل کر نے کا راستہ نکالا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ کی ایک انٹر نیشنل این جی او واٹرایڈ (Water Aid) کی مدد لی گئی ہے، جو صاف پانی مہیا کرتی ہے۔ اس این جی او نے اپنی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت سے ہماری وفاقی وزارتِ تعلیم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقدار کی تعلیم)کے نام سے پہلی سے بارھویں تک نصاب بنا کر دیا ہے، جس کی بنیاد ہیومنزم کی سیکولر اقدار ہیں۔ ان ’اقدار‘ کا مقصد اسلامی اقدار کی ’آلودگی‘ (خاکم بدہن) سے ’صاف‘ نصاب اور درسی کتب پاکستانی بچوں کو فراہم کرنا ہے۔ چونکہ ’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے لیے ٹریننگ کا مواد آغا خان یونی ورسٹی سے بنوایا گیا ہے اور امریکا نے بھی اساتذہ کو بڑی تعداد میں امریکا بلا کر ٹریننگ کا اہتمام کیا ہے، اس لیے ’واٹرایڈ‘ کی کوشش شاید کامیاب ہوجائے۔
نیشنل کریکولم کونسل ایسے ہی سیکولر لبرل لوگوں کا گڑھ ہے، جہاں پر ٹیکنیکل ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس (Consultants) کے نام پر لبرل سیکولر لوگ بھرے گئے ہیں۔ اور وہ اندر کی خبریں دے کر اخباروں میں زہر یلے مضامین لکھواتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام دوست اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو نکّوبنادیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز کی بیش تر دینی جماعتوں کی ترجیح میں تعلیم جیسا بنیادی مسئلہ شامل نظر نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم جو کسی بھی قوم کی شہ رگ ہوتی ہے، وہ بتدریج دشمنوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔
’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے حوالے سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ’’اس سے طالب علموں میں تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں اور عملی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس نصاب کے پڑھنے سے برداشت، رواداری اور مل جل کر رہنے کی سوچ پروان چڑھے گی‘‘۔ یہ سب دھوکا دینے والی سیکولر اصطلاحات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا درسی مواد ، تدریسی حکمت عملی اور سکولوں کا ماحول ان دعوؤں کو مدد فراہم کرے گا اور کیا اساتذہ کرام ان دعوؤں کے حصول کے لیے کام کرسکیںگے؟ یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ جب یہی نصاب ۲۰۰۶ء سے نافذ ہے تو اس نصاب کے ذریعے انھی اساتذہ کے ہاتھوں پہلے کیوں تعلیمی معیار بلند نہیں ہوا؟
ماہرین تعلیم اور اساتذہ کی مخالفت کے باوجود ریاضی اور سائنس کے لیے ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی رکھا گیا ہے،جب کہ سرکاری پرائمری سکولوں اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ میں انگریزی میں پڑھانے کی استعداد نہیں ہے۔ پھر جو تربیت ِاساتذہ کے پروگرام کیے گئے ہیں، ان میں درسی مواد کا لحاظ رکھے بغیر عمومی تدریسی تربیت دی گئی ہے اور وہ بھی آن لائن۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اس ٹریننگ سے بالکل مطمئن نہیں ہیں اور نہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی میں پڑھانے کے لیے اپنے آپ کو اہل پاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ کی عظیم اکثریت ریاضی اور سائنس میں پس ماندہ رہ جائے گی۔
فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں چوٹی کے سائنس دان، جن میں ایٹمی ماہرین، ماہرین زراعت، جنیٹک انجینئرنگ کے ماہرین، میڈیکل سائنسز کے مایہ ناز معالجین، یونی ورسٹیوں کے ذہین ترین محققین وغیرہ سبھی اُردو میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے بیوروکریٹ اور جرنیل تو شاید چند ایک ہوں، لیکن کوئی ایک بھی نامور سائنس دان انگریزی میڈیم کا دکھائی نہیں دیتا۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اس دھوکے میں سائنس اور ریاضی کی درسی کتب انگریزی میں کیوں رکھی گئی ہیں؟ انگلش میڈیم کے اس فیصلے سے طبقہ واریت بڑھے گی۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم، پرائیویٹ اسکولوں کی لابی کو مطمئن کرنے میں سرگرم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سکول سرکاری نصاب اور سرکاری درسی کتب رائج کرنے سے انکاری ہیں۔ حکومت سے استدعا ہے کہ وہ اپنے غلط اور یک طرفہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور قومی تعلیم کے نظام کو مزید خراب نہ کرے۔ ان اقدامات سے معیارِ تعلیم گرے گا اور تعلیمی اداروں میں انتشار بڑھے گا۔
کسی پارٹی یا گروہ کے متعلق لوگوں کا تصور کیا ہے؟ یہ بات اس کا تعین کرتی ہے کہ لوگ اس پارٹی یا گروہ کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ ہمارا عمومی خیال یہ ہے کہ انسان عقلی بنیادوں پر کسی کا ساتھ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ، جب کہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ انسانوں کے اکثر فیصلے جذباتی سوچ پر مبنی ہوتے ہیں، اور یہ جذباتی سوچ اس تصور یا قیاس سے جنم لیتی ہے جو ’حقیقت‘ کے بارے ہمارا ’تصور‘ یا ’قیاس‘ ہوتا ہے۔ لوگوں کے اس تصور یا قیاس کو جاننا اور اسے متاثر کرنا ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آیا لوگ کسی کا ساتھ دیں گے یا نہیں ؟
لوگوں کو دعوت دیتے وقت اس لازمی امر کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل کام لوگوں کا ہمارے متعلق تصور کو سمجھنا اور اُس کو سمجھ کر ان کے دل ودماغ کو اپیل کرنا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت ہے یا مذہبی گروہ اور آپ لوگوں کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اپنے متعلق بجاطور پر مثبت تصورپیدا کریں۔ سوال پیداہوتا ہے کہ لوگوں سے کیا مراد ہے؟ لوگوں سے مراد پورے ملک کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، کسی صوبے، ضلع یا شہر کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، اور لوگوں میں کوئی خصوصی گروہ بھی ہوسکتا ہے، مثلاً صحافی، اساتذہ، وکلا، تاجر، دیہاتی آبادی، شہری آبادی، نوجوان، بزرگ یا معاشرے کے بااثر لوگ جو دوسروں کے تصور، اِدراک، قیاس یا نقطۂ نظر کو متاثر کرسکتے ہیں، بدل سکتے ہیں اور اس طرح آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ جاننی چاہیے کہ فی الوقت پیش نظر آبادی میں آپ کے متعلق آپ کا تصور یا امیج کیا ہے؟ یہ کام اب مشکل نہیں رہا۔ بس ایسے ماہرین کی معاونت حاصل ہونی چاہیے جو اس تجزیے کی تکنیک کو جانتے ہیں۔ چونکہ ہم ایک دینی جماعت ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ خالص دینی بنیاد پر ہمارے ساتھ ہوں تو ہم کو جاننا ہوگا کہ لوگوں کے دینی رجحانات کیا ہیں اور آپ اپنی دعوت کو لوگوں کے دینی رجحانات سے کس طرح قریب تر کرکے پیش کرسکتے ہیں؟
لوگوں کے دینی رجحانات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ کے پاس آبادی/آبادیوں کی مساجد اور جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد کا اندازہ ہونا چاہیے اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خطیب صاحب جمعہ کے خطبے میں کن موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں؟ ایک عمومی مشاہدہ بھی ہوتا ہے جس کے مطابق نچلی اور عمومی سطح پر ملک بھر کے مختلف علاقوں کے مذہبی رجحانات کا اندازہ لگاسکتےہیں۔
وہ لوگ جن کو ساتھ لے کر چلنا ہے ان کی سوچ، فکر اور رجحانات کو جاننے کے بعد اگلا کام یہ ہے کہ کوئی ایسا موقف اختیار کیا جائے جو بالکل غیر متنازعہ ہو اور اکثریت کے لیے قابلِ قبول ہو۔موقف جتنا مضبوط ہوگا، جتنا دوامی نوعیت کا ہوگا، جتنا قبولیت ِ عامہ کا حامل ہوگا اور جتنا غیر متنازعہ فیہ ہوگا، اتنا ہی اس کے اثرات دُور رس ، دیرپا اور دل و دماغ کو چھو لینے والے ہوںگے۔
اس مجوزہ موقف کو نہ صرف عام کریں بلکہ اپنے قول و فعل سے اس کے ساتھ اپنی وفاداری بھی ثابت کریں۔ ایک عمومی طریقہ سیاسی /مذہبی معاشرت میں یہ ہے کہ لوگ کسی شخصیت کو مرجع خلائق بناتے ہیں۔ اس کے گرد ایک روحانی، فکری، کرداری ہالہ بناتے اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنے دُنیا و آخرت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس شخصیت کا ساتھ دیں۔ اس عمل سے نظریہ پسِ پشت چلا جاتا ہے اور شخصیت اُبھر کرسامنے آجاتی ہے اور جب کبھی کسی بھی وجہ سے اُس شخصیت کا طلسم ٹوٹتا ہے تو خیالات اور عقیدتوں کی پوری عمارت دھڑام سے گر پڑتی ہے۔ اس لیے موقف تشکیل دیتے ہوئے، نظریہ پیش نظر ہو تو دعوت کے دوام کی اُمید ہوسکتی ہے۔ شخصیت کی طرف بلانے سے صرف دو ہستیاں مستثنیٰ ہیں:ایک اللہ تعالیٰ اور دوسری محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
ہم آسان لفظوں میں یہ موقف پیش کرسکتے ہیں: اللہ کی حکمرانی، اللہ کےرسولؐ کی حکمرانی، قرآن و سنت کی حکمرانی ۔
پاکستان کا آئین قرآن و سنت کی بالادستی قبول کرتا ہے، لہٰذا، ہم آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں۔اس پیغام کو عام کرنے کے لیے کئی چینلزاستعمال کیے جاسکتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موقف کے ساتھ کوئی ایسا تصور یا لاحقہ سابقہ منسلک نہ ہوجائے جو عوام کے بعض حلقوں میں متنازعہ فیہ ہو۔ جن چینلز کو اس موقف کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ان میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا ، اخباری کالم، خطباتِ جمعہ اور جلسہ ہائے عام شامل ہیں۔ اس موقف کو جتنا عام کیا جاسکے، کیا جائے اور اسے ایک عوامی مطالبہ کی شکل دے دی جائے۔
جس طرح حُرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ختم نبوت عوامی مطالبہ ہے اور بجا طور پر، اسی طرح ’قرآن و سنت کی حکمرانی‘کو عوامی مطالبہ بنا دیا جائے۔ اقامت ِدین کی عوامی تفہیم کا حامل موقف قرآن و سنت کی حکمرانی ہے اور اس کے سیاسی، قانونی اور عوامی مضمرات ہیں۔ اس لیےلوگوں کے تصوراور ادراک میںقرآن وسنت کی حکمرانی کا موقف ان کے اسلام کے متعلق تصور و قیاس کو متاثر کرے گا اور جتنی اس مطالبے کی قبولیت بڑھتی جائے گی اتنی ہی اسلامی قوتوں کے آگے آنے کا امکان بڑھتا جائے گا۔ اس کا ضمنی فائدہ یہ ہوگا کہ مسلکی اورفرقہ وارانہ اختلافات پس پشت چلے جائیں گے۔جو دعوتی دینی و سیاسی قوت اس موقف کے فروغ کے لیے کام کرے، وہ اس امر سے بالکل نہ گھبرائے کہ اس موقف کو تو دیگر گروہ بھی قبول کر رہے ہیں بلکہ اس کو لے کر چل پڑے ہیں کیونکہ مقصود یہ نہیں ہے کہ اس بیانیے کے نفاذ کے لیے صرف انھیں حق حکمرانی ملے جو اس کو لے کر چلے تھے، بلکہ مقصود تو موقف کا فروغ، سربلندی، نفاذ اور اس کی خیروبرکت سے معاشرے کو فیض پہنچانا ہے، نہ کہ کسی خاص گروہ کا اقتدار یا حکمرانی۔ کیونکہ موقف جو آگے بڑھایا جارہا ہے، وہ ہے ’قرآن و سنت کی حکمرانی‘۔ کسی موقف کو عوامی آواز بنانے کے لیے بنیادی کردار بااثر اشرافیہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے اس موقف کے لحاظ سے بااثر اشرافیہ بنیادی طور پر ائمہ مساجد اور خطبا جمعہ ہیں۔
دوسری سطح پر اساتذہ، شاعر اور دانش ور ہوسکتے ہیں۔ تیسری سطح پر وکلا اور ڈاکٹر بھی مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ موقف کی مقبولیت عوامی جلسوں کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے فرداً فرداً اور رُوبرو حکمت عملی اور مختصر اجتماعات زیادہ کارآمد ہوسکتے ہیں، جن میں براہِ راست ذاتی رابطہ بھی ممکن ہوتا ہے۔عوام عموماً خالی الذہن ہوتے ہیں۔ یہ بااثر اقلیت ہے جو عوام کی ذہن سازی کرتی یا کسی موقف کے پیچھے لگاتی ہے۔ عوامی رائے بنانے کے ماہرین کے مطابق اگر فعال آبادی میں شامل ۱۰ فی صد افراد کسی موقف کے پُرجوش حامی بن جائیں تو وہ موقف یا نقطۂ نظر عوامی تائید حاصل کرلے گا۔
سیّد سعادت اللہ حسینی صاحب رائے عامہ کی تیاری کے لیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ ’’اسلام کی نمایندگی کرنے والوں کے درمیان اعلیٰ درجے کے مصنّفین، محققین اور کالم نگار ہوں۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے تخلیق کار اورفن کار ہوں۔ ملک کے تمام مسائل میں بھرپور دل چسپی لینے اوران کا حل فراہم کرنے والے افراد،ادارے اور تنظیمیں ہوں۔ ملک کے سماجی ایشوز پر سرگرمی سے کام کرنے والے جہد کار ہوں جو ان ایشوز کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرسکیں۔ معاشرے کے بااثر طبقات پر توجہ مرکوز کی جائے اور بااثر طبقات کے درمیان جاری مباحثوں میں سرگرمی سے حصہ لیا جائے۔
عملی نمونوں کے ظہور کے ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ لوگ اُسی آئیڈیا پر بھروسا کرتے ہیں جو آئیڈیا پیش کرنےوالا خود عمل کرکے دکھائے، یا لوگوں کو یقین ہو کہ وہ عنقریب اسے رُوبہ عمل لاسکتا ہے، یا لوگ خود اس پر عمل کرکے اس کی سچائی جان سکتے ہیں۔ عمل کے واضح خاکے کے بغیر کسی آئیڈیا کو رائے عامہ قبول نہیں کرتی‘‘۔
اس کے علاوہ ہم سمجھتےہیں کہ:
۱- موقف، نقطۂ نظر یا آئیڈیا پیش کرنے والے دعوتی گروہ کا اندرونی ڈھانچا مستحکم اور یکسو ہو۔ یک سمت ، یک ذہن، پُراعتماد اور ایک دوسرےسے محبت کرنے والے رجالِ کار کے بغیر کسی موقف کا فروغ ممکن نہیں۔ اُلٹی صفوں، پریشاں دلوں اوربے ذوق سجدوں کے حامل لوگوں میں جذبِ اندروں نہیں ہوتا اور جذبِ اندروں کے بغیر جدوجہد کا جذبہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں داعیانِ خیر کی قیادت کو ہرسطح پر اور ہرلمحہ بیدار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
۲- اللہ کی حکمرانی، اللہ کے رسولؐ کی حکمرانی، قرآن و سنت کی حکمرانی جیسے آفاقی اور انقلابی بیانیے کو لے کرچلنے والےرجالِ کار کے لیےضروری ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ پر کسی اور حکمرانی کا پرتو نہ پڑنے دیں۔خصوصاً ایسے مفادات اور کاروبار کہ جن سے اُن کے موقف اور نظریے کی نفی ہوتی ہو، مثلاً ایسی مالی سرگرمیاں جن سے ذاتی مفادات کا شبہہ پڑتا ہو۔
وفاقی حکومت نے یکساں قومی نصاب کے مطالبے کی پذیرائی اس بنیاد پرکی تھی کہ ’’ملک میں تعلیم کے مختلف سلسلےچل رہے ہیں۔ جس سے طبقاتی تفریق اور معاشی و معاشرتی ناہمواری جنم لیتی ہے۔ کہا گیا کہ ’’اگر اشرافیہ کے اسکولوں، عام نجی اسکولوں،سرکاری اسکولوں اوردینی مدارس کے طالب علموں کو ایک کمرے میں اکٹھا بٹھا دیا جائے تو وہ آپس میں بات چیت بھی نہیں کرپائیں گے۔ یہ صورتِ حال قومی یک جہتی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ پھر دینی مدارس اور پبلک سیکٹر اسکولوں سے پڑھ کر آنے والے طلبہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جس سے معاشرتی تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام طلبہ کے لیے یکساں تعلیمی نصاب ہونا چاہیے، تاکہ قوم کےسب بچوں کوزندگی کی دوڑ میں ایک طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہو‘‘۔
یکساں قومی نصاب کے لیے، مندرجہ بالا موقف بالکل درست اور سچائی پر مبنی ہے لیکن عدل و انصاف اور زندگی کے یکساں مواقع دینے کے لیے صرف یکساں قومی نصاب ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی سہولیات، تعلیمی و تدریسی ماحول،تربیت یافتہ اساتذہ میں یکسانیت ہو اور امتحانات اور سنداتِ تعلیم عطا کرنے کا نظام بھی ایک جیسا ہو۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ بیرونی امتحانی بورڈز کے امتحانات، یعنی اولیول، اے لیول، آئی بی اور آئی جی سی ایس ای میں بیٹھنے والے اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے غلبے کے علاوہ جو طالب علم بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا مقامی تعلیمی بورڈز کا امتحان دیتے ہیں، وہ قومی تعلیمی نصاب ہی پڑھ کر آتے ہیں، چاہے ان طلبہ کا تعلق دولت مند طبقے کے اسکولوں سے ہو، سرکاری اسکولوں سے ہو، یا وہ دینی مدارس سے پڑھ کر مذکورہ امتحانات دے رہے ہوں۔ البتہ جو طلبہ صرف دینی مدارس سے پڑھ کرعامہ، ثانویہ یا شہادت العالمیہ کا امتحان دیتے ہیں، وہ صرف درسِ نظامی کا نصاب پڑھتے ہیں۔
ان گزارشات سے یہ معلوم ہوا کہ فرق امتحانی نظام اورسرٹیفکیشن (certification) کے نظام سے پڑتا ہے، نیز تعلیمی سہولیات اور تعلیمی و تدریسی ماحول کے ساتھ اساتذہ کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت فرق پیدا کرتی ہے۔ موجودہ حکومت محض نصاب کے ذریعے سے یکسانیت پیدا کرنا چاہتی ہے تو منطقی اور عملی سطح پر یہ ایک بے ثمر کوشش ہوگی۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کا یکساں قومی نصاب بُری طرح متنازع ہوچکا ہے۔ اسلامی اور پاکستانی ذہن کے حامل ماہرین تعلیم نصاب کے سیکولر لبرل چہرے پر تنقید کررہے ہیں اور اس امر پراعتراض کررہے ہیں کہ نئی نسل کی سیرت و کردار کی تربیت کےلیے اسلامی اقدار کو بنیاد بنانے کے بجائے ہیومنزم کی سیکولر، لبرل اقدار کو نصاب میں سمویا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکولر لبرل لابی اپنے بیرونی سرپرستوں کی زیرہدایت اسلامیات کے نصاب پر اعتراضات اُٹھا رہی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تویکساں قومی نصاب میں بدرجۂ اَتم مانا گیا کہ اسلامیات کے نصاب کے علاوہ دیگر مضامین کی ترتیب و پیش کش میں اسلامی اقدار اور اسلامی تصورِ حیات شامل نہیں ہوگا ۔ اب ان کااعتراض یہ ہے کہ قرآن کی تدریس، بعض سورتوں، دُعاؤں اور احادیث کی تعلیم اور حفظ شامل نصاب کیوں ہے؟ نیز یہ کہ مجوزہ نصاب تو دینی مدارس کے نصاب سے بھی زیادہ بوجھل ہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو ’بنیاد پرستی‘ شروع کی گئی تھی اس نصاب میں تو اس سے بھی زیادہ ’بنیاد پرستی‘ شامل ہے۔
ہم جب اسلامیات کے موجودہ مجوزہ نصاب کا جائزہ لیتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ قرآن کی تدریس تو ۱۹۶۰ء سے پرائمری اسکول پر لازم ہے۔ نیز اسلامیات کا موجودہ نصاب جنرل پرویز مشرف دور میں ۲۰۰۲ء کے نصاب، ۲۰۰۶ء کے نصاب اور صوبوں کے اسلامیات کے موجودہ نصاب سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہے۔ اب جوسیکولر لبرل لابی ’اسلامیات‘ کےنصاب پر اعتراض کناں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامیات کے علاوہ پورے نصاب کو لبرل سیکولر شکل دینے کے بعد اب وہ اسلامیات کے نصا ب کا بھی تیاپانچا کرنا چاہتی ہے۔
۱۳؍اگست ۲۰۲۰ء کو جب وفاقی وزیرتعلیم نے یکساں قومی نصاب کو سرکاری سطح پر جاری کرکے انٹرنیٹ پر ڈالا تو ماہرین نصابیات نے اس کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے اور خالص تکنیکی سطح پر سنجیدہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں اور حکومتی دعوؤں کی قلعی کھل رہی ہے۔ خاص طور پر دولت مند حلقوں سے جو نام نہاد مخالفانہ انگریزی پریس کے مضامین اور ٹویٹس کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو جناب شفقت محمود وفاقی وزیرتعلیم نے یکے بعد دیگرے متعدد اعلان کیے:
۱- پہلا اعلان یہ تھا کہ ’’ہم اولیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں لگا رہے، وہ حسب ِ معمول جاری رہیں گے‘‘۔ اب اگربیرونی امتحانات جاری رہتے ہیں تو بیرونی نصابات کی تدریس بھی جاری رہے گی۔ تعلیم کی بیرونی سرٹیفکیشن بھی جاری رہے گی اور یکساں قومی نصاب طاق نسیاں رہے گا۔
۲- دوسرا اعلان یہ فرمایا کہ ’’ہم جو نصاب لا رہے ہیں، اس کی حیثیت بنیادی (Core Curriculum) کی ہوگی۔ ادارے اور صوبے اگر اس میں اضافے کرنے چاہیں تو وہ آزاد ہیں اور ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس اعلان کے بعد یکساں قومی نصاب کے غبارے سے تو ہوا بالکل نکل گئی۔
۳- پہلے بارباراعلان ہوتا رہاکہ ’’وفاق درسی کتب تیارکرے گا جو تمام ادارے اپنے ہاں لاگو کریں گے’’ لیکن اب جناب شفقت محمود نے اعلان فرمایا ہے کہ ’’وفاق صرف ماڈل درسی کتب تیارکرکے صوبوں کو اور اداروں کو دے دے گا‘‘۔ لیکن یہ متعلقہ اداروں اور صوبوں کی مرضی ہوگی کہ وہ ان کتب میں کمی بیشی کرکے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر شائع کریں اور رائج کریں۔
۴- یکساں قومی نصاب میں وفاقی وزارتِ تعلیم نے فیصلہ کیا تھا کہ ’’پری اسکول سے ہی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا‘‘۔ قومی سطح پر اس کی مخالفت ہوئی۔ ماہرین تعلیم اوراساتذہ نے مخالفت کی، لیکن صرف اشرافیہ کے اسکولوں کے مالکان نے اس کی حمایت کی۔ اس پر بھی جناب وزیرتعلیم نے پسپائی اختیار فرمائی ۔ پہلے اعلان کیا کہ:’’ صوبوں کو آزادی ہوگی کہ وہ جس زبان میں تعلیم دینا بہتر سمجھتے ہیں وہ زبان بطورِ ذریعۂ تعلیم استعمال کریں‘‘۔ یہ بیان مبہم اور شرانگیز تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی اور آخرکار وزیرمحترم نے چار و ناچار اعلان فرمایا کہ اُردویا صوبائی زبان ذریعۂ تعلیم ہوگی، کیونکہ سندھ میں پہلے ہی اسکول کی سطح پر سندھی اور اُردو ذریعۂ تعلیم ہیں‘‘۔
۵- معلوم ہوا کہ جو نام نہاد ماڈل درسی کتب تیارہورہی ہیں، وہ اُردو میں لکھی جارہی ہیں اور شاید نومبر کے آخر تک مسودات مکمل کرلیے جائیں گے۔ اس کے بعد اعلان کے مطابق یہ ماڈل درسی کتب صوبوں کو اور اداروں کو مہیا کی جائیں گی اور اس کے بعد وہ اپنا تیاری کا عمل شروع کریں گے۔ اس صورت میں نہیں نظر آتا کہ مارچ تک نئے نصاب کے مطابق درسی کتب صوبائی سطح پر سرکاری اورپرائیویٹ اداروں کو مہیا کی جاسکیں گی اور حکومت کا یہ ہدف کہ مارچ ۲۰۲۱ء سے پری اسکول سے پانچویں جماعت تک نیا نصاب نافذ اور شرمندئہ تعبیر ہوسکے۔
سطور بالا کی بحث سے صاف نظرآتا ہے کہ مہنگی فیسوں والے اسکولوں (Elite Schools) میں یکساں قومی نصاب نافذ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں اور نہ وہ ادارے ہی ایسا کوئی نصاب اپنے ہاں نافذ کریں گے۔ کیونکہ جب او لیول اور اے لیول کے کیمبرج کےامتحانات اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی تو اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب ِ معمول اپنا تعلیمی پروگرام جاری رکھیں گے۔
صوبائی سرکاری اداروں اور نچلے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں کا تعلق صوبائی حکومتوں اور صوبائی تعلیمی بورڈز سے ہے۔ وہ بھی وفاقی نصاب کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ آئین کے مطابق یہ ان کی صوابدید پر ہے اور اس کے لیے صوبائی قوانین موجود ہیں ۔ رہ گئے دینی مدارس تو ہماری نظر میں یکساں قومی نصاب کا اصل ہدف دینی مدارس ہوں گے۔ پچھلے سال کے آخر میں وزارتِ وفاقی تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان جو تحریری معاہدہ ہوا ہے، اس میں صراحت کے ساتھ یہ شق موجود ہے کہ دینی مدارس اپنے ہاں یکساں قومی نصاب نافذ کریں گے۔ لہٰذا، اب تان یہاں آکر ٹوٹ رہی ہے کہ:
۱- اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب معمول او لیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات کے لیے اپنے طلبہ کو تیار کرتے رہیں گے اور اس صورت میں ظاہرہے کہ یکساں قومی نصاب ان کے ہاں نافذ نہیں ہوگا اور نہ ان کے موجودہ ذریعۂ تعلیم کی پالیسی ہی میں کوئی فرق پڑے گا۔
۲- صوبائی حکومتیں اپنی ضروریات کے مطابق یکساں قومی نصاب اور ماڈل درسی کتب میں ترمیم و اضافہ کرسکیں گی۔
۳- دینی مدارس معاہدے کے مطابق وزارتِ وفاقی تعلیم کا تیار کردہ نصاب اوردرسی کتب اپنے ہاں نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ ان کے امتحانات کے لیے الحاق بھی وفاقی امتحانی بورڈ سے ہوگا ، لہٰذا آخری صورتِ حال کے مطابق یہ سارا دھندا محض دینی مدارس کو کنٹرول میں لانے کے لیے ہورہا ہے۔ باقی رہا یکساں قومی نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم تووہ پہلے کی طرح ناآسودہ ایک خواب ہی رہے گا۔ اب یہ دینی مدارس کے وفاقوں،دینی تنظیمات اور دینی و سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اس مسئلے پر غورکریں اور قومی مفاد میں درست فیصلوں کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
اگر یہ صورتِ حال چلتی رہی تو واضح ہے دینی تشخص کو بہت سخت دھچکا لگے گا۔ اگرچہ ہم دینی مدارس کی موجودہ تعلیمی صورتِ حال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ نصاب، تعلیم و تدریس اور امتحان کی سطح پر اصلاح ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ہرگز یہ بھی نہیں چاہتے کہ ’اصلاح کے نام پر‘ ان اداروں کا دینی، علمی، ملّی کردار اور غریب طبقے کے بچوں کے لیے ان کی خدمات کے امکانات کو ہی ختم کر دیا جائے۔ جو معاہدہ اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان اوروزارتِ وفاقی تعلیم کے مابین ہوا ہے، اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے نتیجے میں دینی مدارس کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔
مارچ ۲۰۲۰ء میں وزیراعظم پاکستان کے ہاتھوں ’یکساں قومی نصاب‘ کی منظوری کے اب چار ماہ بعد ’نیشنل کریکولم کونسل‘ (NCC) سے منظوری کا ڈراما رچانے کے لیے۲۲جولائی کو اسلام آباد میں اجلاس منعقد کیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ درمیانی عرصے میں نصاب کی نوک پلک سنواری جاتی رہی ہے۔ اس سے پہلے ۱۶ جولائی کو بقول وزارتِ وفاقی تعلیم ماہرین کا اجلاس بلایا گیا جس میں میڈیم آف انسٹرکشن، یعنی ذریعۂ تعلیم کا فیصلہ لینا تھا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے اس مقصد کے لیے جو نقشۂ کار دیا وہ یہ تھا کہ پری اسکول (قبل اسکول) سے ہی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا، تاہم اسلامیات کا مضمون اُردو میں پڑھایا جائے گا۔ نیز اسلامیات کے سوا باقی تمام مضامین کی درسی کتب بھی انگریزی میں ہوں گی۔
۱۶مارچ کے اجلاس میں ۲۷ شرکانے انگریزی بطور ذریعۂ تعلیم کی مخالفت کی صرف بیکن ہاؤس اسکولز کے نمایندے اور جناب جاوید جبار نے انگریزی بطور ذریعۂ تعلیم کی حمایت کی۔ غالب اکثریت کی مخالف راےآنے کی وجہ سے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر اجلاس یہ کہتے ہوئے ختم کردیا کہ اس مقصد کے لیے مزید مشاورتی اجلاس بلائے جائیں گے۔ لیکن مزید کوئی اجلاس بلانے کے بجاے ۲۲ جولائی کو’یکساں قومی نصاب‘ کی ’قومی نصابی کونسل‘ (NCC) کا ذریعۂ تعلیم کے فیصلے کے لیے اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں ۲۵ لوگ ذاتی طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور باقی اراکین آن لائن سہولت کے ساتھ اجلاس میں شامل تھے۔
اس اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزارتِ تعلیم نے یہ چالاکی دکھائی کہ وفاق ہاے مدارس دینیہ کے نمایندوں کو بہت تاخیر سے اطلاع دی گئی۔ انھیں نہ کوئی ایجنڈا بھیجا گیا اور نہ اجلاس کاکوئی ورکنگ پیپر۔مزید یہ کہ آن لائن زوم کے ذریعے شرکت کے لیے بعض اراکین کو لنک بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ لیکن دینی اداروں کے تمام نمایندوں نے لنک کی معلومات حاصل کرکے اجلاس میں شرکت ممکن بنالی۔۲۲ جولائی کے اجلاس میں بھی دل چسپ صورتِ حال رہی۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے احتجاج ریکارڈ کرایا کہ انھیں نہ بروقت اطلاع دی گئی، نہ ایجنڈا فراہم کیا گیا اور نہ زیرغور نصاب کا مسودہ دیا گیا۔ اس لیے وہ بے مقصد شرکت پسند نہیں کرتے ، لہٰذا انھیں نصابی مسودات فراہم کیے جائیں اور جائزے کے لیے ایک ماہ دیاجائے تو وہ نصاب پر غور کے لیے تیار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس سے الگ ہوگئے، جب کہ مولانا حنیف جالندھری صاحب، علامہ افضل حیدر صاحب اور ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب نے بھرپور استدلال سے شرکت کی اور شکوہ بیان کیا۔
باقی شرکا میں سے سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیرکے وزراے تعلیم یا سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد نصاب سازی صوبوں کااختیار ہے۔ تاہم، وفاق کے اچھے کام کو وہ زیرغور لاسکتے ہیں، لیکن اس کا فیصلہ صوبے کی کابینہ نے کرنا ہے۔ نیز صوبے اپنا نصاب اور درسی کتب تیار کررہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیرتعلیم نے کہاکہ وفاق مہربانی کرکے اپنے نصاب میں کشمیر کا بھی کہیں ذکر کردے تو اس کی مہربانی ہوگی۔خیبرپختونخوا کے وزیرتعلیم نے کہا کہ ہمیں توبتایا گیا تھاکہ نصاب کی منظوری کا یہ آخری اجلاس ہے لیکن شرکاے اجلاس کی تنقیدی آرا سننے کے بعد معلوم ہورہا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے سلسلے میں یہ تو ابھی پہلا اجلاس ہے۔
شرکاے اجلاس میں سے اکثریت اگرچہ سیکولر، لبرل خیالات کی حامی اور وفاقی وزیرتعلیم کی پسندیدہ شخصیات تھیں لیکن ان کے تبصرے بھی کام کے حق میں نظر نہیں آرہے تھے۔ وفاقی وزیرتعلیم جناب شفقت محمودکا کہنا یہ تھا کہ ہم نیشنل کریکولم کونسل کے اراکین کی راے اور تبصروں کی روشنی میں نصاب کی ٹیوننگ اور پالشنگ کریں گے۔ نتیجہ یہ کہ پھر ۱۶جولائی والے اجلاس کی طرح صورت پیدا ہوئی اور کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور وزیرتعلیم نے اجلاس یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ مشاورت جاری رہے گی۔
مذکورہ بالا دو اجلاسوں کی مختصر رُوداد دینے کا مقصد یہ ہے کہ وزارتِ وفاقی تعلیم جو ’ایک قوم، ایک نصاب‘ کا ڈھول پیٹ رہی تھی اس کے غبارے سے ہوا نکلتی نظر آرہی ہے اور قومی سطح پر یہ جو مثبت تاثر اُبھر رہا تھا کہ یکساں قومی نصاب کا دیرینہ قومی خواب تعبیر کے قریب ہے، اب یہ خواب بکھرتا نظر آرہا ہے جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
۱- وزارتِ وفاقی تعلیم کےارباب بست و کشاد کا واضح جھکاؤ سیکولر لبرل لابی کی طرف ہے، جب کہ قوم کا مجموعی مزاج اسلامی نظریۂ حیات سے سرشار ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل میں وزیرتعلیم نے اپنی پسند کے لبرل سیکولر لوگ پورے دھڑلے کے ساتھ شامل کیے ہیں۔ اگر نیشنل کریکولم کونسل کےارکان کی فہرست پر نظر ڈالی جائے توچاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بربناے عہدہ نمایندوں کے علاوہ ۱۱ مرد حضرات اور ۱۰خواتین اراکین ہیں۔ سب نامزد افراد کی وابستگی لبرل سیکولر سوچ سے ہے۔دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے نمایندے البتہ علماے کرام ہیں جو کہ ایک مجبوری تھی لیکن ان نمایندوں کو اسلامیات کے نصاب کے علاوہ کہیں کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
۲- سنگل نیشنل کریکولم کےعنوان سے جو نصاب تیارکیا گیا ہے وہ ارکان نیشنل کریکولم کونسل تک کو مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
۳- نصاب کے جائزے کے لیے ضروری ہے کہ ان ضروریات کی فہرست دی جائے جو عصرحاضر میں نرسر ی سے بارھویں جماعت تک ہمارے طلبہ کی نصابی ضروریات کے طور پر وفاقی وزارتِ تعلیم نے ترتیب دی ہیں تاکہ ان ضروریات کی روشنی میں نصابِ تعلیم کی مناسبت کاجائزہ لیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزارت نے ضروریات پر مبنی ایسی کوئی فہرست نہیں بنائی۔
۴- نرسری سے بارھویں تک پورے نصاب میں سے ایک طالب علم نے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو نصاب میں نظر آنا چاہیے۔ گریڈوں یاجماعتوں کی تقسیم ہم اپنی انتظامی سہولت کے لیے کرتے ہیں۔ اس وقت صرف نرسری سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیا جارہا ہے۔ اس سے ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اس کا مڈل جماعتوں اور ثانوی جماعتوں کے نصاب کے ساتھ عمودی ربط موجود ہے اور کسی قسم کا خلا نہیں ہے۔
۵- پانچ سال سے ۱۶ سال کی عمر کی تعلیم قانون کے مطابق ہمارے ملک میں لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے اس دورانیے میں طالب علم کو بالغ زندگی کامیابی سے گزارنے کے لیے تمام معلومات ، تمام مہارتیں اور ضروری اخلاق و کردار اور رویے، رسمی اور غیررسمی تعلیم کے ذریعے مل جائیں۔ خصوصاً آئین کے آرٹیکل ۳۱ کی روشنی میں ۱۶سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرکے ہمارے طلبہ و طالبات اس قابل ہوجائیں کہ وہ قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ محض پری اسکول سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیکھ کر تو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ مذکورہ نصاب لازمی تعلیم کے دورانیہ کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں۔
۶- سکول سطح کانصابِ تعلیم ایک تسلسل کا تقاضا کرتا ہے جس میں ربط، توازن، تسلسل، وسعت اور گہرائی کا بدرجۂ اتم خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے پوری دنیا کی یہ روایت ہے کہ نصاب جب بھی تیار ہوگا وہ پری سکول سے ثانوی /اعلیٰ ثانوی درجے تک ایک ہی وقت میں تیار ہوگا۔ البتہ اس کے نفاذ کے لیے درجہ وار ترتیب لگائی جاتی ہے۔ ٹکڑوں میں جب نصاب تیار ہوگا اس میں اُفقی اور عمودی ربط اور توازن کی کمزوری لازماً رہے گی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اجزا میں نصاب سازی کرکے تعلیمی دنیا کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کاارتکاب کررہی ہے۔
۷- ماہرین کی طرف سے یہ اعتراض شدومد سے اُٹھایا جارہا ہے کہ مذکورہ نصاب جو نظریۂ پاکستان، اسلامی نظریۂ حیات اور دستورِ پاکستان کی تعلیم سے متعلق آرٹیکلز کی روشنی میں تیار ہونا تھا، وہ سیکولر، لبرل اقدار کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ نصاب کی بنیادی اسلامی اقدار، یعنی توحید، رسالت، عبادت اور آخرت،اور معاملات و اخلاقیات کی ذیلی اقدار ہونا چاہیے تھیں، لیکن ان کی بنیاد سیکولر اساسی اقدار پر رکھی گئی ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔
۸- رہ گئی بات میڈیم آف انسٹرکشن (ذریعۂ تعلیم) کی تو ۱۶ جولائی کو جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں ایک دو کو چھوڑ کر سب نے انگریزی کی مخالفت کی اور سفارش کی کہ پری اسکول سے آخر تک اسکول کی تعلیم اُردو یا علاقائی زبان میں ہونی چاہیے۔ تقریباً متفقہ مخالفت آنے پر وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر میٹنگ ختم کردی۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پری اسکول سے ثانوی سطح تک تمام مضامین اُردو یا علاقائی زبان میں پڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
۹- تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ وزارتِ وفاقی تعلیم کس اختیار اور قانون کے تحت سنگل نیشنل کریکولم اورسنگل ٹیکسٹ بکس تمام صوبوں میں نافذ کرے گی، جب کہ صوبوں کے اپنے کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈز اور صوبائی اسمبلیوں سے پاس کردہ اپنے قانون موجود ہیں، نیز پرائیویٹ سیکٹر کے اشرافیہ کے اسکولز جوبیرونی امتحانی بورڈز سے منسلک ہیں، کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک سکولز، جو مقتدر طبقوں کےادارے ہیں وہ کب اور کس طرح سنگل نیشنل کریکولم کو قبول کریں گے؟ مذکورہ تمام اداروں میں نافذ کرائے بغیر اسے یکساں قومی نصاب کادرجہ کیسے حاصل ہوگا؟
۱۰- وزارتِ وفاقی تعلیم اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ دار افسروں نے وزیراعظم کے سامنے کارکردگی دکھانے کی خاطرعجلت میں یہ کیا ہے۔ امرواقعہ ہے کہ یہ سب کچھ ۲۰۰۶ء میں جنرل پرویز مشرف کے نصاب میں معمولی کمی بیشی کا تسلسل ہے، جسےاسلامی حلقوں نے مسترد کر دیا۔
۱۱- یہ غلط دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس نصاب کو پاکستان بھر کے ۷۰ماہرین نے تیار کیا ہے حالانکہ یہ ۲۰۰۶ء کے نصاب میں محض کچھ تبدیلیاں ہیں۔
۱۲- نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران نے تعلیمی عمل کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کرکے اپنے پسندیدہ نام نہاد ماہرین کو آگے رکھ کر شفافیت کی نفی کی ہے، اور پھر اس طرح رازداری سے کام لیا ہے جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیاہے۔ اُن میں سے کسی کو اس دستاویز کا علم نہیں جن کے بچوں کا تعلیمی مستقبل اس سے وابستہ ہے یاجنھوں نے نصاب کے اس مسودے کو نافذ کرنا ہے، یعنی اساتذہ اور محکمہ ہاے تعلیم کے انتظامی ذمہ داران۔
۱۳- وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہہ کر’’ سنگل نیشنل کریکولم صرف کور کریکولم (core curriculum) ہے۔ اگراسکول اور اسکولز سسٹمز اس نصاب میں اضافہ کرنا چاہیں گے تواُن کو اجازت ہوگی‘‘،یکساں قومی نصاب کے غبارے سے خود ہی ہوا نکال دی ہے۔ یہ وہ بدترین پسپائی ہے جو اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے انکار اور دباؤ کی وجہ سے کی گئی ہے۔
۱۴- پنجاب کے وزیرتعلیم ڈاکٹر مراد راس نے وضاحت کی ہے کہ یکساں قومی نصاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اسکول صرف وفاق کاقومی نصاب ہی پڑھائیں گے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وفاق نے ایک نصابی فریم ورک دیا ہے جس کے اندررہ کر پڑھانا ہوگا، باقی ادارے اگر اس میں اضافہ کرنا چاہیں تو اس کی ان کو آزادی ہوگی۔ نیز ایک ہی درسی کتاب بھی مطلوب نہیں ہے۔ ان وضاحتوں نے یکساں قومی نصاب کا تصور ختم کرکے رکھ دیاہے۔اصل ہدف یہ نظر آتا ہے کہ دینی مدارس میں مقتدر قوتوں کے دباؤں کے تحت سیکولر نصاب رائج کیا جائے اوران کا موجودہ دینی تشخص آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے۔ سرکاری ادارے تو شاید ہی مذکورہ نصاب نافذ کریںگے۔
۱۵- اگر حکومت یکساں قومی نصاب کے مسئلے پر سنجیدہ ہے تو اسے بیرونی امتحان پر پابندی اور بیرونی بورڈز کے تعلیمی سرٹیفکیٹس کی نامنظوری کی قانون سازی کرنی چاہیے جو ظاہر ہےممکن نہیں ہوگی کیونکہ ان اداروںاور ان بیرونی امتحانات سے منسلک سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ججوں، جرنیلوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نونہالوں کا روشن مستقبل وابستہ ہے۔ اس طرح یکساں قومی نصاب صرف غریبوں پرہی نافذ ہوگا۔
۱۶- یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سنگل نیشنل کریکولم کا یہ سارا ڈھونگ حکومت کے سیکولر تعلیمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ہدف محض دینی ادارے ہیں۔ اس کے پیچھے امریکی کمیشن براے مذہبی آزادی اور دیگر مغربی قوتیں ہیں۔ ملک کی اندرونی سیکولر لابی ایک طرف تو نیشنل کریکولم کونسل میں غالب حیثیت بلکہ فیصلہ کن حیثیت میں موجود ہے اور دوسری طرف سیکولر، لبرل اور کرسچین این جی اوز کے پلیٹ فارم سے بعض معروف خواتین و حضرات متحرک ہیں۔ ان این جی اوز کی ۳مارچ۲۰۲۰ء کے سیمی نار جس کی صدارت جناب شفقت محمود نے کی اور پھر ۱۰جولائی ۲۰۲۰ء کا Webinar اور ان دونو ں اجلاسوں کی کارروائی سنگل نیشنل کریکولم کے لبرل سیکولر ایجنڈے کی حمایت میں نظر آتی ہے۔ اسی سیمی نار میں شرکا کے مطالبے پر جناب شفقت محمود نے وعدہ کیا تھا کہ ’’وہ سارا مواد نصاب سے خارج کردیا جائے گا جس پراقلیتوں کواعترض ہے‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب نے اپنے ریمارس میں کہا کہ ہم جہاد، محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کے ذکر کو نصاب سے خارج کردیں گے۔ ۱۰جولائی کے سیمی نار میں اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تدریس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔
اس عجیب و غریب صورتِ حال میں اصل نقصان قومی نظامِ تعلیم کا ہو رہا ہے جس کےلیے پارلیمنٹیرین، دانش وروں، عالموں اور استادوں کو اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے ایک جانب سیکولر یلغار کی مزاحمت کرنی چاہیے اور دوسری جانب مثبت طور پر اقدامات تجویز اور نافذ کرانے چاہییں۔
ہم تمام قومی تعلیمی اداروں کے لیے ’یکساں قومی نصاب‘ کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اسلامی نظریے پر مبنی پاکستانی قوم کی تشکیل اور یک جہتی کے لیے پورے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں اور متفقہ نصاب تعلیم کا نفاذ ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے مطلوبہ قومی نصابِ تعلیم کو ہرصورت میں قومی نظریاتی اُمنگوں کا آئینہ دار اور قومی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس پس منظر میں ہم موجودہ حکومت کے اس عزم کی تائید کرتے ہیں کہ پورے ملک میں ’یکساں قومی نصاب تعلیم‘ نافذ ہونا چاہیے، جسے حکومت ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام سے موسوم کررہی ہے۔ اس مناسبت سے جو نصابی رپورٹیں شائع کی گئی ہیں، ان کے سرورق پر یہ دل کش نعرہ لکھا ہے:One Curriculum, One Nation یعنی ’ایک نصاب، ایک قوم‘۔
دیکھنا ہوگا کہ وفاقی حکومت نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو کس طرح مدون کیا ہے؟ کن لوگوں کو اس کی تدوین وترتیب میں شامل کیا گیا ہے؟ کس نظریے اور فلسفے کو نصابِ تعلیم کی بنیاد بنایا گیا ہے؟ اور اس قومی اہمیت کے کام میں کتنی شفافیت کا اہتمام کیا گیا ہے؟ اسی طرح نصابِ تعلیم کی پاکستان میں جو اساسیات ہونی چاہییں، اُن کا کہاں تک خیال رکھا گیا ہے اور کیا حکومت کے اس مجوزہ نصاب کو متفقہ قومی نصابِ تعلیم کہا جاسکتا ہے؟
ہم افسوس سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نہایت بنیادی قومی مسئلے پر حکومت کا رویہ عدم شفافیت اور بے جا رازداری میں اُلجھا رہا ہے، جس نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پہ حکومت اور اس کی وزارتِ تعلیم بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کا ایجنڈا اس ملک کی آیندہ نسلوں پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ان بنیادوں کا تذکرہ ضروری ہے جنھیں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی ترتیب وتدوین کی بنیاد بنایا گیا ہے:
1- Constitutional Guidelines. (دستوری رہنمائی)
2- National Policies-National Standards. (قومی معیارات کی قومی پالیسیاں)
3- Emerging International Trends. (ظہور پذیر عالمی رجحانات)
4- Outcome Based Approach. (نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد)
5- Focus on Values, Life Skills and Inclusive Education.
(اقدار اور مہارتوں کی فراہمی پر مبنی تعلیم پر توجہ)
6- Promotion of intellectual, Emotional, Spiritual, Aesthetic, Social, Physical Development of Children. ( بچوں کی فکری، جذباتی، روحانی، جمالیاتی، سماجی اور جسمانی نشوونما )
7- Move away from Rote Learning , Focus of Project Approach, Inquiry and Activity Based Learning. (رٹا لگانے کے بجائے عملی بنیادوں پر حصولِ تعلیم کا رواج)
8- Application of Knowledge with real life. (علم کا عملی زندگی پر انطباق)
9- Use of ICT. (انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی کا استعمال)
10- Inclusion of Modern Assessment and Teaching Methods. (جدید آزمایشی اور تدریسی طریقوں کی شمولیت)
11- Allignment with TIMSS.(ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات سے مطابقت)
امرواقعہ ہے کہ اُوپر دی گئی فہرست میں جتنے بلند آہنگ (High Sounding)دعوے کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب ہوائی قلعے ہیں۔ کیوںکہ پیش کردہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ بنیادی طور پر ۲۰۰۶ء کا کریکولم ہے، جو جنرل پرویز مشرف کے دور ِ استبداد میں جرمنی کی ایجنسی جی آئی زیڈ (GIZ) کے مالی، فکری اور عملی تعاون سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی سربراہ ایک پاکستانی خاتون تھیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اب بھی وہی محترمہ اس این جی او کے پلیٹ فارم سے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی تشکیلی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں بھی قومی اور اسلامی حلقوں نے ’۲۰۰۶ء کے نصابِ تعلیم‘ پرسخت نقدوجرح کی تھی۔ اب نئی انقلابی حکومت کے کارپردازوں نے صرف یہ کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے کریکولم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقداری تعلیم)کے نام سے ایک سیکولر لبرل نظریاتی اساس فراہم کردی ہے۔ اگرچہ نصابِ تو پہلے ہی سیکولر لبرل تھا، لیکن بین الاقوامی سطح پر سیکولر لبرل قوتیں جن اقدار کو پھیلا رہی ہیں، خصوصاً مسلم دنیا میں جن نظریات کو راسخ کررہی ہیں، انھی کو سرایت کردہ موضوعات (Cross Cutting Themes) کی شکل میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ سنگل نیشنل کریکولم بنانے والی ٹیم نے ہاتھ کی صفائی یہ دکھائی ہے کہ ابتدائی مسودے میں ’ہیومنزم‘ کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، جس کی ذیلی اقدار کو پورے نصاب میں پھیلا دیا گیا تھا۔ لیکن اب نظرثانی شدہ مسودے میں صرف یہ عظیم الشان کارنامہ کیا ہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اصطلاح اُڑا دی گئی ہے، جب کہ اس کی تمام ذیلی اقدار میں ’ہیومنزم‘ کی روح جوں کی توں موجود ہے۔
بیان کردہ گیارہ دعوؤں میں سب سے پہلا دعویٰ ’دستوری رہنما خطوط‘ کے متعلق ہے، اور سب سے زیادہ انحراف اس نصاب میں اسی چیز کا کیا گیا ہے۔ دیگر شقوں کے علاوہ دستورمیں شامل ’قرار داد مقاصد‘ اور دفعہ ۳۱ تعلیم اور نصاب تعلیم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتا ہے۔ اس کے مطابق ۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر کے طلبہ (جو کہ لازمی تعلیم کا دورانیہ ہے) کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کی وہ تمام تعلیمات مہیا کی جانی چاہییں کہ وہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھے تو اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارے۔ اس کے برعکس دیکھیے:
۱- اسلامیات کے نصاب میں پہلی سے بارھویں جماعت تک بیان کردہ مقاصد کسی طرح بھی مذکورہ بالا ضرورت کو پورا کرتے نظر نہیں آتے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قرآن وحدیث اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ایمانیات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے تحت ان تمام امور کی فہرست بنائی جاتی، جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض عین ہے اور پھر ان امور کو پہلی سے دسویں جماعت (۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر) کے نصاب میں عمر اور بلوغت کے تقاضوں کے مطابق تقسیم کردیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا محض اندازوں سے بعض معلومات اور تصورات پہلی سے پانچویں جماعت تک بکھیر دیے گئے ہیں۔ نصاب سازی ایک سائنس ہے اور اس کا ایک طریق کار ہے جب تک وہ طریق کار اختیار نہ کیا جائے تب تک علمی بنیادوں پر مطلوبہ نصاب ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔
۲- دوسری بات یہ کہ ’دستوری رہنما خطوط‘ پورے نصاب تعلیم کے لیے ہوتے ہیں۔ چلیے اسلامیات کا نصاب تو جیسا تیسا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بہتری کی گنجایش ہے، لیکن اسلامیات کے نصاب کے ساتھ جنرل نالج اور معاشرتی علوم کا جو نصاب دیا گیا ہے، وہ مکمل طور پر سیکولر ہے۔ ان دونوں مضامین کے نصاب میں لفظ ’اسلام‘ کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا گیا ہے۔ وژن، مشن اور مقاصدِ نصاب پوری طرح سیکولر، لبرل اور ہیومنسٹ نظریۂ حیات کے آئینہ دار ہیں۔ معاشرتی علوم تو کسی معاشرے کے نظریات، اور اس کی تہذیب وثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، مگر یہاں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اس نصاب کو منسوب کرنے کا کوئی ’خطرہ‘ مول نہیں لیا گیا۔
’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں انگلش، ریاضی اور سائنس کے نصاب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور ملک یا ملکوں کا نصاب ہے۔ شاید سنگاپور ، آسٹریلیا، یا پھر کسی ایسے ہی ملک کا نصاب ہے۔ ہمارا چونکہ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ زیر غور نصاب تعلیم کی نظریاتی اور پاکستانی جہت صحیح ہونی چاہیے، اس لیے ہم انگریزی، ریاضی اور سائنس کے نصابات کی ٹیکنیکل بنیادوں پر زیادہ بات نہیں کررہے۔ تاہم، ایک عمومی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قومی ضروریات، بچوں کی ذہنی بلوغت، ماحول، اساتذہ اور اسکولوں کی مشکلات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نصاب کی کوئی مقامی تحقیقی بنیاد نہیں ہے ۔ نہ ماضی کی مشکلات کا مطالعہ کیا گیا اور نہ مستقبل کی ضروریات کا تعین کیا گیا۔ محض ۲۰۰۶ء کے نصاب کو سطحی طور پر نظرثانی کرکے اور بیرونی سرپرستوں کی ویلیوز ایجوکیشن کی رہنمائی کو شاملِ نصاب کرنے کے لیے ایک دستاویز جاری کردی گئی، یہ دیکھے بغیر کہ اس میں اُفقی (horizontal)اور عمودی (vertical) رابطہ اور توازن کہاں تک قائم رہا ہے؟
l کہا گیا کہ نصاب کو TIMSSکے ساتھ مربوط کیاگیا ہے۔ TIMSS سے مراد ہے ٹرینڈ ان انٹرنیشنل میتھ اینڈ سائنس سٹڈی (ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات) ۔یہ پراجیکٹ بنیادی طور پر بین الاقومی سطح پر سائنس اور ریاضی میں تحصیل علم کے مطالعے کا پراجیکٹ ہے اور اس کا نصاب سازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن فرمایا جارہا ہے کہ نصاب کو TIMSS سے مربوط کیا گیا ہے۔
l یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تعلیم میں رٹے بازی کو ختم کیا جائے گا نیز جائزے اور تدریس کے جدید طریقے نصاب میں اختیار کیے گئے ہیں۔ مگر اس نصاب کی تدوین میں ایسے کارنامے کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ البتہ ٹیچر ٹریننگ اور امتحانات کے انعقاد سے اس دعوے کا پتا چلے گا۔
l یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہICTیعنی انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی بھی استعمال میں لائی جائے گی۔ ایک تو نصابی مضامین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ، دوسرا ICT کا مضمون کم از کم پرائمری سطح پر تو غائب ہے۔ تیسرا یہ کہ مہنگے نجی اسکولوں کے علاوہ، جہاں اس نصاب کے نفاذ کا سوال ابھی بڑا سوالیہ نشان ہے، سرکاری سکولوں، دینی مدارس اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ICT کا چلن کیسے ہوگا؟ اور حکومت اس کے لیے کیا سہولتیں مہیا کرے گی؟کچھ وضاحت نہیں۔
l ’ نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد‘ جیسے دعوے بھی زیادہ تر کسی بروشر سے اُٹھائے ہوئے دعوے معلوم ہوتے ہیں، جن کے کوئی آثار نصابی کتابچوں میں عیاں نہیں ہیں۔ جب نصاب کلاس روم میں استاد کے ہاتھ آئے گا تو دعوے کی حقیقت معلوم ہوگی۔
l یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نصاب میں شمولیاتی تعلیم (Inclusive Education) کا خیال رکھا گیا ہے۔ نصابی بیانات میں تو شمولیاتی تعلیم کا کوئی عکس نظر نہیں آتا کہ کس طرح معذور بچوں (Special Children)کو جو بصری، سمعی یا دیگر مشکلات کا شکار ہوں گے ، اس نصاب سے استفادے کا موقع فراہم کیا جائے گا؟ نصاب کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان ، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے اسکول، نیز دینی مدارس شمولیاتی استفادے سے محروم رہیں گے۔ اور اس طرح قومی یک جہتی ، اور ہموار ترقی میں مزید کمی اور طبقاتی خلیج میں وسعت آئے گی۔
اس تحریر کے آغاز میں کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے، ایک نظر اُن پر:
m یہ کہ قومی سطح اور قومی اہمیت کے اس کام میں شفافیت کس طرح قائم رکھی گئی ہے؟
قومی اہمیت کا یہ کام بدقسمتی سے انتہائی خفیہ طریقے سے اور چھپ چھپا کر کیا گیا۔ اس نصاب کا جو پہلا مسودہ سامنے آیا وہ بھی پبلک نہیں کیا گیا۔ محدود سطح پر بعض پسندیدہ افراد سے راے لی گئی۔ بعد ازاں غالباً فروری۲۰۲۰ء میں تین روزہ ورکشاپ کی گئی، جس میں صوبوں کے نصاب و درسی کتب کے اداروں کے بعض اہل کار بلائے گئے۔ اس تعلیمی میلے میں بھی کسی کو پورا نصاب نہیں دکھایا گیا۔ بس کمیٹیاں بنا کر ان کو ایک مضمون کا مسودہ تھما دیا گیا اور ان سے تبصرے کے لیے کہا گیا۔ حد یہ ہے کہ ان کمیٹیوں نے جو تجاویز وسفارشات دیں، انھیں بھی حتمی مسودے میں جگہ نہیں دی گئی۔
مذکورہ تین روزہ ورکشاپ کے بعد عجلت میںوزیر اعظم عمران خان سے منظوری بھی لے لی گئی اور پھر قومی نصاب کے طور پر اپریل ۲۰۲۱ء سے اسے نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ وزیر اعظم سے منظوری مارچ ۲۰۲۰ء کے شروع میں لی گئی اور اب جون جارہا ہے لیکن حتمی مسودہ قوم کے علم میں نہیں لایا گیا۔ ہم جس مسودے کو دیکھ کر تبصرہ کررہے ہیں یہ وہ حتمی مسودہ ہے، جو ہم نے اپنے ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل نے سرکاری طور پر اسے جاری نہیں کیا ۔ جب بھی پوچھا جاتا ہے تو اہل کار کہتے ہیں کہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ جاری کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے جس کے مطابق اسے پبلک کیا جائے گا۔ وقت سے پہلے پبلک کرنے سے نقصان یہ ہوگا کہ اس کی مخالف قوتیں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کردیں گی اور اس طرح یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گا‘‘۔ یہ ہے پوری کہانی اس قومی نصابِ تعلیم کی شفافیت کی، حالانکہ تمام اقوام عالم کا یہ دستور ہے کہ نصابِ تعلیم عوام کے سامنے پورے شفاف طریقے سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ پوری قوم اس کی وارث بنے۔
m ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کس طرح تیار کیا گیا؟ فی الحقیقت یہ جنرل پرویز مشرف کی این جی اوزدہ آمرانہ حکومت میں تیار کیا گیا ۲۰۰۶ء کا متنازعہ نصاب ہے۔اس نصاب کی نظرثانی، تدوین اور اسے حتمی شکل دینے کا کام آغا خان یونی ورسٹی ، برطانیہ کی واٹرایڈ ، امریکا کے کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مقامی ایجنٹوں، بیکن ہاؤس اور کیمبرج کے ماہرین اور بعض دیگرسیکولر این جی اوز کی شمولیت سے سرانجام دیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ قومی اداروں، یعنی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونی ورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، پشاور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، بلوچستان یونی ورسٹی، سندھ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی کے ادارہ ہاے تعلیم وتحقیق اور شعبہ ہاے ایجوکیشن کے اعلیٰ درجے کے ماہرین میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ صوبوں کے نصابات اور درسی کتب کے اداروں کے تجربہ کار ماہرین کو نظر انداز کیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کے اعلیٰ درجے کے اسکول سلسلوں (Chains)کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں مہارت رکھنے والی محب وطن اور محب اسلام تنظیموں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور محض سیکولر لبرل قسم کی آرگنائز یشنز کو ہی اس کام کا اہل سمجھا گیا۔ دینی مدارس کی تنظیمات کے کچھ نمایندوں کو محض اشک شوئی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بلایا گیا اور وہ بھی صرف اسلامیات کے نصاب کے سلسلہ میں ، باقی نصاب میں ان کی شمولیت نہیں کرائی گئی۔
m نصاب تعلیم تیار کرنے کے معیاری طریقۂ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان میں قومی تعلیمی نصاب کی اساسیات کیا ہوتی ہیں اور انھیں کس طرح نصابی خاکے میں ڈھالا جاتا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
m سطور بالا میں ہم نے اجمالاً جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان کے پیش نظر کسی طرح بھی ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو ایک متفقہ قومی نصاب نہیں کہا جاسکتا۔
m مختلف مضامین کا نصاب چونکہ اساسیات کے لحاظ سے مربوط نہیں ہے، اس لیے اس کے پڑھنے کے بعد مستقبل کی نسل کی مربوط اسلامی قومی شخصیت کا تیار ہونا ممکن نہیں ہے۔
m نصابی کتابچے مشکل اور گنجلک انگریزی زبان میں ہیں، جب کہ اس نصاب کو پڑھانے والے پرائمری کے اساتذہ اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ اسی طرح اسکولوں کے نگران حضرات وخواتین بھی نصاب جیسا تیسا بھی ہے، اس کے مندرجات اور اس کے مقاصد سے نابلد رہیں گے۔ والدین اور قوم کے دیگر افراد سے بھی اس نصاب کی کیفیت پوشیدہ رہے گی اور یوں وزارتِ تعلیم کے ذمہ دار اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوں گے۔
m آخر میں ہم استدعا کریں گے کہ بجائے قوم کو ایک غلط راستے پر ڈالنے اور سیکولر لبرل تعلیم دے کر آیندہ نسلوں کو اپنی تہذیب وتمدن سے دُور کرنے سے بہتریہی ہے کہ اس متنازعہ نصاب کو واپس لیا جائے۔ محب وطن ، محب اسلام ماہرین تعلیم کے ساتھ قومی دانش کو وسیع پیمانے پر کام میں لاکر نصاب تعلیم کو قومی تقاضوں ، قومی امنگوں اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں ترتیب دے کر صحیح معنوں میں قومی نصاب تعلیم بنایا جائے، تاکہ ’ایک قوم، ایک نصاب‘ کا نعرہ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
m اگر قومی نصاب تعلیم پر پوری قوم کا اتفاق راے حاصل نہ کیا گیا تو محض چند لوگوں کی سیکولر اور لبرل اَنا پرستی اور ان کے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی آرزوسے قومی تعلیم کے حوالے سے موجودہ حکومت کے مثبت عزائم ناکام ہوں گے، جو افسوس ناک امر ہوگا۔
آخر میں ہم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب(سابق سربراہ شعبۂ نصابات، وفاقی وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) کے چند بنیادی سوالات پیش کر رہے ہیں، جو انھوں نے نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داروں سے پوچھے ہیں۔ ان سوالات کی روشنی میں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا بہتر محاسبہ ہوسکتا ہے۔
q دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں قومی نصابِ تعلیم کی بنیاد ان متعدد ریسرچ رپورٹوں پر نہ رکھی جاتی ہو جن میں پہلے سے رائج نصاب کی کمزوریوں ، خامیوں اور نفاذ کے مرحلے میں آنے والی مشکلات اور قومی مقاصد کی تکمیل میں ناکامیوں کا تفصیل سے ذکر ہوتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق نیشنل کریکولم کونسل نے ایسے کسی تکلف کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو وزارت کے ذمہ داران کیا، ان ریسرچ سٹڈیز کی فہرست سے قوم کو آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
q نصابِ تعلیم ان مقاصد اور ضروریات کے حصول کے لیے بنایا جاتا ہے، جو مقاصد تعلیمی پالیسی سے اخذ کیے جاتے ہیں اور ضروریات کا تعلق (Need Assessment) کی بنیاد وہ ریسرچ سٹڈیز ہوتی ہیں، جو اس مقصد کے لیے سرانجام دی جاتی ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ کون سی تعلیمی پالیسی کو مقاصد کے تعین کے لیے بنیاد بنایا گیا اور وہ کون سی ریسرچ اسٹڈیز ہیں، جو نصاب سازی کی بنیاد بنیں؟ جہاں تک نظر آتا ہے کوئی قومی تعلیمی پالیسی تو رہی ایک طرف، خود تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی اور انتخابی منشور کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
q زیر غور دستاویز براے سنگل نیشنل کریکولم بتاتی ہے کہ ۲۰۰۶ء کے نصاب کو کاپی پیسٹ کے ذریعےریویو کرکے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے طور پر پیش کردیا گیا۔ کیا ۲۰۰۶ء کا نصاب جو پہلے ہی تنقید کی زد میں رہا ہے مزید بگاڑ کے ساتھ قومی نصاب کا درجہ حاصل کرسکتا ہے؟
q پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ نصاب سازی کے لیے ایک وسیع البنیاد قومی کمیٹی بنائی جاتی ہے، جس میں عالم ، سائنس دان، صنعتی ماہرین، مضامین کے اعلیٰ ماہرین، دانشور، شاعر، ادیب، ماہرین قانون اور مختلف علاقوں اور پس منظر کے حامل اساتذہ کرام شامل کیے جاتے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند کریں گے کہ کیا ایسی کوئی وسیع البنیاد قومی نصابی کمیٹی بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تو کیا قوم کو اُن کے ناموں سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
q ڈرافٹ کریکولم میں شامل مقاصد، اسٹوڈنٹس لرننگ ابجیکٹوز ، معیارات ، صلاحیتوں (Competencies)اور ان کی تکمیل یا حصول کے لیے لوازمہ (Content)کے انتخاب کو دیکھ کر سنگل نیشنل کریکولم تشکیل دینے والے خواتین وحضرات کے مبلغ علم اور تجربے کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ کیا وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران اس خدشے پر تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟
q ملک کے تعلیمی ادارے جن میں متوقع طور پر ’سنگل نیشنل کریکولم‘ نافذ ہونا ہے۔ ان میں ۳۰ہزار دینی مدارس، ایک لاکھ کے قریب پرائیویٹ تعلیمی ادارے، لاکھوں سرکاری سکولز، ۳۰ہزار غیررسمی اسکولز ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دُور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لے کر کراچی، لاہور، اسلام آباد کے پوش علاقوں تک اسکولز ہیں، جن کے بچوں کی لسانی، سماجی، ثقافتی، معاشی بوقلمونی (Diversities) نہایت گہری ہے۔ کیا ان حقائق اور مشکلات کا نصاب سازی میں خیال رکھا گیا ہے؟ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام پر کیا اس سے طبقاتی تفریق اور نہیں بڑھ جائے گی؟
qکیا دینی مدارس جو ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا اصل ہدف ہیں، ان کے اساتذہ اور منتظمین کو شامل مشاورت کیا گیا؟ ہماری معلومات کے مطابق اس طرح کی کوئی باہمی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایسی مشاورت صرف پوش اسکول سلسلوں (Chains)سے کی گئی جو اس کریکولم کو اپنے ہاں قطعاً نافذ نہیں کریں گے۔ کیا دینی مدارس کے ساتھ یہ سلوک ظالمانہ نہیں ہے؟
q نصاب سازی کا ایک رائج طریقہ اب یہ ہے کہ پہلے نیشنل کریکولم پالیسی فریم ورک تیار کیا جاتا ہے اور پھر نصاب اس فریم ورک کی حدود وقیود میں تیار کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں جو نیشنل کریکولم فریم ورک تیار کرکے وزارتِ تعلیم نے منظور کیا ہے، اس کا کوئی عکس ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں نظر نہیں آتا۔ مذکورہ فریم ورک میں قرار دادِ مقاصد اور آئین کی اسلامی دفعات کو بنیاد بنایا گیا تھا اور نظریۂ پاکستان کو فوکس کیا گیا تھا، لیکن ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں لبرل سیکولر فلاسفی سے اقدار (Values) کو اخذ کرکے نصاب کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی اقدار میں کوئی کمی اور خلاہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اقدار کو پسند کیا گیا ہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ اسلام کی کون سی اقدار ایسی ہیں جو غیرمسلموں کے لیے تکلیف دہ ہوں گی، حالانکہ ہمیں تو اسلامی اقدار کی رحمت اور حکمت سے غیرمسلموں کو بھی مستفید کرنا چاہیے۔
q آئی سی ٹی (ICT)اس دور کی اہم تعلیمی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں آئی سی ٹی کو تعلیم میں ایک بنیادی عنصر کے طور پر لے کر کوئی اہمیت دی ہے اور اس ٹکنالوجی کے استعمال سے تعلیم کی فراہمی مؤثر بنانے کی کوئی سبیل کی ہے؟
qتعلیم کے ساتھ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ نیشنل کریکولم کو نسل نے اسلامی تعلیمات ، آئین کی دفعہ ۳۱، اور قرآن وحدیث کی اقدار کو یکسر نظرانداز کرکے، سیکولر اور لبرل معاشروں، مثلاً آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ کی نصابی اقدار کو ویلیوز ایجوکیشن میں بنیاد بناکر جو نصابی ڈھانچا دیا ہے، کیا اس سے تربیت اور تزکیہ کی ضروریات اور مقاصد پورے ہوں گے ؟ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ضرورت ہے اور اس کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے اور ہدایات کو مکمل نظر انداز نہیں کیا اور کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا؟
q Sustainable Development Goals-5(SDG-5)کا ایک اہم مطالبہ WASH یعنی پانی ، سینی ٹیشن اور ہائی جین ہے جس کا پاکستان دستخط کنندہ ہے۔ کیا نصاب میں ان معاملات کے متعلق طلبہ کو حساس اور عادی بنانے کے لیے کوئی تدابیر دی گئی ہیں؟
q قومی نصابِ تعلیم ایک کھلی قومی سرگرمی ہوتی ہے، جس کے ذریعے سے قوم کی آیندہ نسل کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی راز داری کا کام اور خفیہ کاری کی کوئی سرگرمی ہے کہ اعلانات کے ڈھنڈورے پیٹنے کے باوجود ابھی تک پوری قوم ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی حتمی شکل سے لاعلم ہے، جب کہ وزیر اعظم سے تین ماہ پہلے اس کی منظوری لی گئی اور پورے میڈیا میں اس کا پروپیگنڈا کیا گیا۔
q آخری سوال یہ کہ کیا کوئی قوم قومی نصابِ تعلیم تشکیل دینے کے لیے قومی تنظیمات اور قومی شخصیات کو نظر انداز کرکے غیر ملکی تنظیمات اور ان کے مقامی گماشتوں کی خدمات سے استفادہ کرکے کوئی ایسا قومی نصاب تشکیل دے سکتی ہے، جو قومی اُمنگوں ، نظریاتی ضروریات اور مستقبل کے اہداف کا آئینہ دار ہو؟
وفاقی حکومت نے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم کے نفاذ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی وزارتِ تعلیم نے پرائمری جماعتوں کے مجوزہ نصاب کا مسودہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق :
- پہلی اور دوسری جماعت میں انگریزی ، اردو ، ریاضی اورمعلومات عامہ (جنرل نالج) کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔ جنرل نالج میں معاشرتی علوم، سائنس اور اسلامیات کی معلومات دی گئی ہیں۔
- تیسری جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی، معلومات عامہ اور اسلامیات کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
- چوتھی اور پانچویں جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی ، سائنس، اسلامیات، معاشرتی علوم کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
نصابی تجاویز میں ’اقداری تعلیم‘ (Value Education)کے نام سے ایک علیحدہ نصابی کتابچہ فراہم کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجوزہ قدریں (Values) سارے نصاب اور سارے مضامین میں اساسی فکر کے طور پر نصابی وجود میں پھیلی ہوں گی اور یہی قدریں طلبہ و طالبات کی شخصیت کا حصہ بنائی جائیں گی۔
نصاب کے باقی حصوں پرتبصرہ بعد میں کیا جائے گا پہلے ’اقداری تعلیم‘ (ویلیو ایجوکیشن) کو دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی تفصیلات پہلی سے بارھویں جماعت تک دی گئی ہیں۔ حقیقتاً ’ویلیو ایجوکیشن‘ کا یہ کتابچہ حکومت کی نصابی پالیسی کی بنیاد ہے۔
اقداری تعلیم، معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم وغیرہ کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ نصاب کی تشکیل ہیومنزم (Humanism)کے فلسفے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اقداری تعلیم میں جن اقدارکو طلبہ کی شخصیت اور ان کے فکر وخیال میں راسخ کرنے کا عزم کیا گیاہے وہ اساسی اقدار حسب ذیل ہیں: ۱- ہمدردی اورنگہداشت یادیکھ بھال ۲- راست بازی اور امانت داری ۳- ذمہ دارانہ شہریت۔
ذیلی اقدار میں جن قدروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:
’’اپنی ذات کے لیے ہمدردی، اپنوں اور دوسروں کی دیکھ بھال؍نگہداشت،ماحول کے لیے ہمدردانہ دیکھ بھال، حفاظت اور سلامتی، سچائی، اعتباریت، انصاف، محنت، بہترین کی تلاش، بدعنوانی سے اجتناب، معاشرے کی تنظیم کا فہم، قانون ، قواعد و ضوابط کا احترام، باہمی اشتراک، اختلاف راے کا احترام،برداشت، امن اور سماجی ربط، جمہوری اقدار، انسانی حقوق، مقامی اور عالمی شہریت،حفظان صحت کی تعلیم، جنسی مساوات، شہری برابری، وابستہ بہ شمار (ڈیجٹیل) شہری، سائیبر رہبری وغیرہ کا فہم‘‘۔
بیان کیا گیا ہے کہ یہ اقدار نظامِ عقائد (Belief System)کی وضاحت کرتی ہیں کہ ایسا نظامِ عقائد جو ہمارے رویوں، فکر وتدبر اور اعمال کی تشکیل کرتا ہے ۔یہ اقدار ہمیں اس قابل بناتی ہیں کہ ہم منصفانہ اور غیر منصفانہ میں تمیز کرسکیںاور درست اور غلط میں فرق سمجھ سکیں۔
نصابی دستاویز میں جابجا کہا گیا ہے کہ مذکورہ اقدار پورے نصاب میں ایک راسخ اور مضبوط دھارے کے طور پر پھیلا دی جائیں گی۔ جب ہم معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم، حتیٰ کہ اسلامیات کے مجوزہ نصاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ’اقداری تعلیم‘ کے یہ تصورات ہرطرف نظر آتے ہیں۔
یہ بات علمی حلقوں میں واضح ہے کہ ہیومنزم (Humanism)باقاعدہ ایک فلسفہ ہے، جس کا ایک اپنا تصورِ جہاں اورتصورِ کائنات ہے اور یہ کسی خدائی نظام کو نہیں مانتا ۔ یہی آج کے دور میں مغرب کا نظامِ حیات ہے۔ ہیومنزم اپنے عملی اقدامات میں انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے: پہلی قسم ہے انسان (Humans)، دوسری قسم ہے تابع انسان( Sub-Humans ) اور تیسری قسم ہے منفی انسان(Non-Humans) ۔
مغربی لوگ اپنے آپ کو ’انسان‘ کہتے ہیں۔ ایشیائی لوگ ان کے نزدیک ’تابع انسان‘ ہیں اور غیر ترقی یافتہ معاشرے، مثلاً افریقی ’منفی انسان‘ ہیں۔ دنیا میں اس وقت جو جنگ وجدل ، قتل وغارت اور ظلم وستم نظر آرہا ہے، وہ ہیومنزم کے انھی تصورات کی وجہ سے ہے۔
ہمارے مقتدرحلقے ہیومنزم کے فلسفۂ حیات کو اور ہیومنزم کی اقدار کو ہماری تعلیم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں: ہمارا نظامِ حیات، ہمارا تصورِ جہاں اور ہمارا آئین اور معاشرتی نظام، جس فلسفۂ حیات پر مبنی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو تشکیل دینا چاہتے ہیں وہ اسلام ہے۔ نظریۂ پاکستان ، قائد اعظم کے تصورات، قرار دادِ مقاصد، دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل۳۱ تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا، جس کی اساسی اقدار توحید ،رسالت ، آخرت اور عبادت ہیں۔ ان اقدار کے مطابق انسان بنیادی طور پر اللہ کا بندہ ہے اور اس کا مقصد ِزندگی اللہ کی عبادت، یعنی بندگی اور اطاعت ہے۔ جن کی ذیلی اقدار میں حلال، حرام، عدل، ظلم، گناہ ، ثواب ، خیر ، شر، دیانت، امانت، صدق، تعاون، اعتدال وغیرہ ہیں۔ یہی وہ اقدار ہیں جو پورے نصاب کے تانے بانے میں پھیلانا ہوں گی اور تعلیم کا مقصد انھی اقدار کو نئی نسل کے رویوں اور فکروعمل میں جاری وساری کرنا ہے۔
تاہم، یہاں بالکل مختلف ذہن اس نصابی کام پر حاوی ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اپنے تصورِ کائنات سے دور لے جانا چاہتا ہے۔اگر ہم پچھلے چندبرسوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ مغربی وسائل پر پلنے اوران کے ایجنڈے کو لے کر چلنے والی این جی اوز اور خاص طور پر ’یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم‘یعنی ’امریکی کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘ نے ہماری تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذکورہ امریکی کمیشن نے ۲۰۱۵ء میں ہماری نصابی اور درسی کتب پر جو تحقیقات کروائیں، ان کے مطابق تقریباً ۷۰ موضوعات کو قابلِ اعتراض گردانا گیا۔ یہ سب کے سب موضوعات دینی موضوعات ہیں۔ اس کے بالمقابل جن اقدار کو ہمارے نصاب اور درسی کتب میں نافذ کرنے کی سفارش کی گئی، وہ تمام وہی ہیں جو ہم نے ان کی ’اقداری تعلیم‘ کے تحت گنوائی ہیں۔ مذکورہ امریکی کمیشن کی رپورٹوں میں جہاد کو خصوصی نشانہ بنایا گیا، نیز قادیانیت کے متعلق اعتراض اٹھائے گئے۔ مذکورہ کمیشن کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ میں پاکستان کے اس قانونی اقدام کی سخت مخالفت کی گئی ہے جس کے مطابق ناظرہ قرآن اور ترجمۂ قرآن اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ صدافسوس کہ ہمارے ہاں نصابی خاکے میں پوری اطاعت گزاری کے ساتھ امریکی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔
- اسلامیات کا نصاب : اسلامیات کا نصاب پہلے بھی ہمارے ہاں اپنے حجم اور تنوع کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتا ہے، جس سے طالب علم کے ذہن میں نہ اسلامی عقائد راسخ ہوتے ہیں اور نہ اسلامی نظام حیات کا کوئی واضح اور مربوط تصور پیدا ہوتا ہے۔ زیر غور نصاب میں پہلی سے پانچویں تک ناظرہ قرآن شامل کیا گیا ہے جو فی الحقیقت ۱۹۶۰ء سے لازمی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اسکولوں میں زیرو پیریڈ ہوا کرتا تھا، جس میں ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا رہا۔ اب حکومت نے تدریس القرآن کے متعلق بل پاس کیا ہے، جس سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور اعلیٰ ثانوی درجے تک ترجمۂ قرآن کی تکمیل ہوگی۔ زیر غور نصاب میں اچھا ہوتا اگر تدریس القرآن کو علیحدہ حیثیت دی جاتی، نیز اسلامیات کے نصاب میں بنیادی تصورات زیادہ وسعت اور گہرائی کے ساتھ دیے جاتے۔
نصاب کو ایمانیات ، عبادات، سیرت طیبہ، ہدایت کے سرچشمے، مشاہیر اسلام، اسلامی تہذیب اور عصر حاضر کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ۔ عنوانات تو بلاشبہہ جامعیت ظاہر کرتے ہیں، لیکن مواد جو ان عنوانات کے تحت تجویز کیا گیا ہے، وہ بہت ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ مشاہیر اسلام میں چار پیغمبر اور چار خلفاے راشدین دیے گئے ہیں ۔ بہتر ہوتا اگر حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر سے پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ درجہ بدرجہ جماعتوں میں بچوں کو تصور یہ دیا جانا چاہیے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کی طرف سے دین اسلام ہی بھیجا جاتارہا ہے۔ نصاب میں سے غزوات کو بالکل نکال دیا گیا ہے اور جہاد کا تصور بھی مکمل طور پر مفقود ہے۔ حق کے لیے اللہ کی راہ میں جدوجہد جب تک بچوں کے اذہان میں جاگزیں نہ ہو، اُن میں حریت اور حق وصداقت کے لیے کھڑا ہونے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’اقداری تعلیم‘ جوفی الحقیقت امریکی اور مغربی دباؤ اور ہدایت کے تحت بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اُس نے اسلامیات کے نصاب کو محدود کردیا ہے۔ نصاب میں قدریں تو اسلام کی پھیلائی جانی چاہیے تھیں، لیکن ہیومنزم کی ’خوش نما اقدار‘ نصاب پر چھا گئی ہیں۔ اسلامیات کا نصاب تجویز کرنا ایک قومی مجبوری تھی۔ اس لیے بے دلی سے بکھرے بکھرے انداز میں کچھ سمویا گیا ہے۔
- دیگر نصابات :اس کے بعد اردو کے نصاب پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اردو دانی کے لحاظ سے تنوع ہے۔ اردو بعض بچوں کی مادری زبان ہے۔ بعض گھروں میں اگرچہ اردو مادری زبان نہیں ہے لیکن گھر میں والدین بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح اسکول میں آنے والے بچوں کا اردو زبان کے لحاظ سے پسِ منظر مختلف ہے۔ لہٰذا نصاب میں اس کا مناسب طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، لیکن پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اور اب، جب کہ ’یکساں نصاب‘ کی بات ہورہی ہے، تو اردوکے نصاب میں بچوں کے مختلف پسِ منظر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کے لحاظ سے نصاب میں طے کیا گیا ہے، کہ’’ تیسری جماعت کے بچے اڑھائی ہزار الفاظ کو جانتے، سمجھتے اور استعمال کرتے ہوں گے، جب کہ پانچویں جماعت کے بچے پانچ ہزار الفاظ کو بولنے لکھنے پڑھنے میں استعمال کرسکیں گے۔ اب یہ اڑھائی ہزار یا پانچ ہزار الفاظ کون سے ہوں گے؟ اس ذخیرۂ الفاظ کی فہرست موجود نہیں ہے۔ یہ تحقیق کا کام ہے اور مختلف پس منظر کے بچوں کے لیے اس طرح کے ذخیرۂ الفاظ کی فہرستیں تیار کرنا بڑی مہارت اور جاں فشانی کا کام ہے۔ انگریزی کا نصاب اگر دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی لسانی پالیسی نہیں ہے۔ نیز ذہنی سطح کے لحاظ سے شاید ان بچوں کو سامنے رکھا گیا ہے، جن کے گھرو ںمیں ماں باپ زیادہ تر انگریزی الفاظ اپنی بول چال میں برتتے ہیں اور ان کے گھر میں انگریزی میڈیا کے پروگرام دیکھے سُنے جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ انگریزی کا نصاب بچوں کی ضروریات اور ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہے، بلکہ کسی انگلش بولنے والے ملک کے لیے ہے۔
انگریزی ، اردو، اسلامیات ، معاشرتی علوم اور معلوماتِ عامہ کے نصابات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں اُفقی اور عمودی ربط غائب نظر آتا ہے۔ سارے مضامین اور سارا نصاب تو ایک ہی بچے نے پڑھنا ہوتا ہے، لہٰذا یہ ربط اشد ضروری ہے۔ معلومات میں خلا یا تکرار نہیں ہونی چاہیے۔
معاشرتی علوم کا نصاب مکمل طور پر گنجلک نظر آتا ہے ۔ ’اقداری تعلیم‘ میں دی گئی قدروں کو بچوں کے ذہنوں پر ٹھونسنے کی وجہ سے زبان وبیان میں پیچیدگی بڑھ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں کے اوپر اوپر سے ہی گزر جائیں گی۔
معاشرتی علوم، معلوماتِ عامہ اور انگریزی کے نصاب میں کمپیوٹر کی مدد سے مختلف جگہوں پر نقل کرتے ہوئے چسپاں کا کمال زیادہ ہے۔ بعض امریکی ریاستوں ، اسکولوں اور اسکول سسٹمز کے نصابی خاکے اٹھا کر ڈال دیے گئے ہیں۔ ویب سائٹس اور حوالے جو بطور رہنمائی دیے گئے ہیں، ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکی اسکولوں کے نصاب کو پاکستانی بنائے بغیر بڑے پھوہڑپن سے شامل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں پہلے جو نصابات بنائے جاتے تھے، ان کے عمومی مقاصد اور خصوصی مقاصد اس طرح بیان کیے جاتے تھے کہ انھیں بچوں کو منتقل کرنے کے لیے بہت توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن زیر نظر نصابی دستاویز میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم(SLOs)کے نام سے طلبہ کے تعلیمی مقاصد دیے گئے ہیں، جو پریشان کن ہیں اور ان سے یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کون سا لوازمہ درسی کتب کا حصہ بنے گا!
سائنس اور ریاضی کے نصاب کے متعلق مختصر تبصرہ یہ ہے کہ ان میں عمودی ربط کا فقدان ہے۔ اسی طرح بعض تصورات غیر ضروری اور ماحول سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اصل میں مسئلہ وہی ہے کہ امریکی اسکولوں کا نصاب اٹھا کر شامل کر دیا گیا ہے، جس سے مقامی ماحول سے ان کی نامناسبت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مثالیں
یہاں کچھ مثالیں پیش ہیں، جن سے ہماری تحریر کو منطقی بنیاد مہیا ہوگی:
۱- ڈیماکریسی ، ہیومن رائٹس اور رول آف لا (جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی عمل داری) کے تحت پہلی سے تیسری جماعت کے دوران، بچوں سے جو اُن کی ذہنی سطح سے بلند ہے غیرمنطقی توقع کی جارہی ہے۔ اس کی مثال حسب ذیل ہے: ’’اس امر کا فہم کہ انصاف کیا ہے اور کمرۂ جماعت کے علاوہ ان کے والدین،بھائی بہنوں، دوستوں،رشتہ داروں اورہمسایوں کے ساتھ انصاف پرور ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس امر کا فہم کہ بنیادی انسانی ضروریات اور بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟‘‘
۲- چوتھی اور پانچویں جماعت سے Diversity (تنوع) اور Tolerance (تحمل، بُردباری) کے حوالے سے مندرجہ ذیل توقع کی جارہی ہے: ’’اختلاف و تنوع کی اصطلاح کو بیان کریں اور معاشروں میں اختلاف راے کے حامل دھڑوں کی اہم خصوصیات کی نشان دہی کریں‘‘۔
۳- معلومات عامہ کے نصاب کے تحت پہلی جماعت کے بچے سے ٹریفک قوانین کے متعلق جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’ان حفاظتی قوانین کی نشان دہی کریں، جن کی پیروی سڑک پر چلتے ،سڑک عبور کرتے اور بس کے ذریعے سفر کرتے ہوئےکرنی چاہیے‘‘۔
۴- معاشرتی علوم میں چوتھی پانچویں جماعت کے طلبہ سے جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’تمام طلبہ آئین پاکستان کی اہم خصوصیات اور روح کی نشان دہی کریںگے اور مقامی ، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھیں گے‘‘۔
۵- پانچویں کی اسی سطح کے بچوں سے جوتوقع کی جارہی ہے اس کا بیان اس طرح ہے:’ابتدائی بچپن کی تعلیم‘ (ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن)کے نصاب میں تین چار سال کی عمر کے بچے کے لیے انفرادی اور سماجی تعمیروترقی کے عنوان کے تحت متوقع نتیجے کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ: ’’تمام طلبہ بیان کریں گے کہ مصنوعات اور پیداواری خدمات کی تقسیم،استعمال کے متعلق وسائل اور خدمات، ایک فرد اور معاشرے کی بہبودی پر اثراندازہوتے ہیں‘‘۔
۶- انگلش کا نصاب بڑی ’محنت‘ سے کسی انگریزی پس منظر کے حامل ملک کے نصابی خاکے سے نقل کیا گیا ہے۔ ہم یہاں نصابی رپورٹ میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم (SLOs) کا ذکر کریں گے، مثلاً صلاحیت (Competency) یعنی لکھنے کی مہارت (Writing skills) کے تحت سٹینڈرڈ نمبر۱ کا بیان یوں ہے:’’مسائل اور ان کے بہترین حل کی نشان دہی کے ذریعے مسائل حل کرنے کی مہارت پیدا کریں‘‘۔
۷- ’’طالب علموں کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی تعلیمی،معاملہ فہمی اور تخلیقی تحریر لکھنے میں مہارت حاصل کریں جو رواں،درست،مرتکز اور بامقصدہو اور تحریری عمل میں آپ کی بصیرت کو ظاہر کرتی ہو‘‘۔
۸- درج بالا معیار کے تحت چوتھی جماعت کے لیے ایک سٹوڈنٹ لرننگ آؤٹ کم کی مثال اس طرح ہے: ’’کسی بھی عبارت کے پس منظر کے ابلاغی مقصد کے لیے درکار مناسب لب ولہجہ(بشمول ذخیرۂ الفاظ) استعمال کرتے ہوئے بولنے کے ابتدائی طریقوں اور مزاحیہ خاکوںکے ٹکڑوں میں مختصر عبارتیں استعمال کریں‘‘۔
اوّل تو ہمارے اساتذہ کے لیے یہ باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور اگر وہ بالفرض سمجھ بھی جائیں، تو طالب علموں سے یہ سب کچھ کروانا ممکن نہیں ہے۔ نصابی کمیٹی نے کسی انگلش سپیکنگ ملک کا نصاب اٹھا کر دے دیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اسے پاکستان میں پڑھانا ہے جہاں ابھی تک ’مارننگ واک‘ کا مضمون رٹا لگوا کر یاد کرایا جاتا ہے ۔ نصاب اچھا اور معیاری ہونا چاہیے لیکن اسے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے قابل نفاذ بھی ہونا چاہیے۔
پہلی سے پانچویں تک کے نصابی کتابچوں کو اور خاص طور پر ’اقداری تعلیم‘ کے حصے کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ: lیہ نصاب مغربی تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے۔ lنظامِ اقدار جس پر یہ مبنی ہے وہ ہیومنزم کی اقدار ہیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ lنصابی خاکہ میں جو تصورات اور لوازمہ تجویز کیا گیا ہے، وہ بچوں کی ضروریات، معاشرے کی ضروریات اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہیں۔ lمغربی اسکولوں کے نصابات کی بھونڈی نقل ہے، جو ہمارے نظامِ تعلیم میں جگہ نہیں پاسکے گا۔ lنصاب میں اُفقی اور عمودی ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ l’یوایس کمیشن آن ریلیجس فریڈم‘ کی سفارشات بلکہ ڈکٹیشن پر عمل کیا گیا ہے ۔ اسلامی اقدار اور اسلامی فکر کے تصور کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ lاردو اور انگریزی کا نصاب بچوں میں مطلوبہ لسانی صلاحیتیں پیدا نہیں کرسکے گا۔ خصوصاً متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے، دیہاتی اسکولوں کے بچے اور اساتذہ اس نصاب کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔
کیا کیا جائے؟
۱- اس نصاب کو قبول کرنے کے بجاے حکومتی زعما کو احساس دلایا جائے کہ یکساں نظامِ تعلیم کا مستحسن فیصلہ، اس نصاب کے ہوتے ہوئے نافذ نہیں ہوپائے گا۔
۲- چونکہ اس نصاب کی پشت پر امریکی/ مغربی دباؤ ہے اور اندرون ملک سیکولر لابی اس نصاب کی تائید میں ہوگی، اس لیے ملک کی دینی اور محب وطن قوتوں کو میڈیا کے ذریعے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے، اخباری مضامین کے ذریعے اور خصوصاً سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال سے اس احمقانہ نصاب کے حوالے سے ایک بیداری پیدا کرنا چاہیے۔
۳- اٹھارھویں ترمیم کے بعد پاکستان کے سب صوبے اپنا اپنا نصابِ تعلیم بنانے میں قانوناً آزاد ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے جو نصاب بنارکھا ہے، وہ وفاقی حکومت کے اس زیرغور نصابی مسودے سے بہتر ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی سطح پر بھی لابنگ ہونی چاہیے، تاکہ وفاق درست رویہ اختیار کرے۔ نیز دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی متحرک کرنا چاہیےکیونکہ یہی نصاب انھیں بھی اپنے قائم کردہ اسکولوں میں پڑھاناہوگا۔ نیز ضروری ہے کہ اگر کوئی یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم نافذ ہونا ہے تو وہ سب کی شراکت، مشاورت اور رضامندی سے نافذ ہو۔
پاکستان میں اس وقت جو نظریاتی ، فکری اور تہذیبی چیلنجز درپیش ہیں ان کا ماخذ اور منبع ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ نظامِ تعلیم میں گہری جڑیں رکھنے والے ان چیلنجوں کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ بہت تیزی کے ساتھ تغیر کا شکار ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس تغیر و تبدیلی کی سمت اور رحجان مغربی افکار، مغربی فلسفۂ حیات ، مغربی رہن سہن اور مغربی طرزِ زندگی کی طرف ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش چیلنجوں میں سے کچھ داخلی ہیں اور کچھ خارجی ۔ خارجی چیلنجوں میں مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتیں اور ایجنسیاں ، گلوبلائزیشن اور نیو لبرلزم کے بین الاقوامی ہتھکنڈے، جمہوری لبادے میں چھپی سیکولرزم کی زہرناکی اور ان سب کی سر پرست اعلیٰ عالمی صہیونیت شامل ہیں۔ داخلی چیلنجوں میں اپنے آپ کو مغربی اور لبرل قوتوں کے لیے ’قابلِ قبول‘ بنانے کی خواہش، اپنے فکر و عمل کی قوتوں پر بے اعتمادی اور اُن کی اثر پذیری کو قبول کرنا ہے۔ جاہ پسندی اور مال و دولت کے حصول کی اندھی خواہش اور سب سے بڑھ کر دینی وابستگی کا اظہار کرنے والوں میں گھسے ہوئے ایسے پُرکشش چہرے ہیں، جو اکثر و بیش تر بااثر بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔
خارجی چیلنجوں میں سب سے پہلے ہم مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتوں اور ایجنسیوں کو لیتے ہیں۔ ان قوتوں اور ایجنسیوں کی باگ ڈور یک قطبی عالمی طاقت امریکا نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ امریکا نے بزعم خود کافی حد تک دنیا کو عسکری طورپر قابو میں لے لیا ہے۔ اگرچہ افغانستان اور عراق کا تجربہ اس کے لیے سخت پریشانی اور ہزیمت کا باعث ہے، تاہم عسکری قوت کے لحاظ سے فی الوقت امریکا اپنے غلبے کو دوام اور استحکام بخشنے کے لیے ذہنوں کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ عالمی میڈیا ذہنوں کی تسخیر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار بھی تقریباً امریکا کے ہاتھوں میں ہے۔ اِدھراُدھر سے اُٹھنے والی اختلافی اور حریت فکر کا رنگ لیے دبی دبی آوازیں میڈیا کے امریکی ہتھیار کو اعتبار(credibility)دیتی ہیں اور اُسے بالکل بے نقاب ہونے سے بچاتی ہیں۔
اگرچہ میڈیا کا اثر بہت وسیع اور گہرا ہے، تا ہم یہ قلیل المیعاد ہتھکنڈا ہے۔ طویل المیعاد اثرات صرف اور صرف کلاس روم کو کنٹرول میں لینے سے حاصل ہوتے ہیں۔ امریکا نے پچھلے ۵۰،۶۰ برسوں میں کئی تجربات کیے ہیں اور اب آخر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پری سکول (Pre-school) ہی سے اس کام کو ہاتھ میں لے لینا چاہیے، تاکہ بچے ابتدائی تشکیلی دور ہی سے قابو میں آجائیں اور اُن کی شخصیت و ذہن کی طبعی اُٹھان مطلوبہ سانچے کے مطابق ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی کار پردازوں نے بڑا مربوط اور تسلسل کا حامل ایک ڈھانچا تشکیل دیا ہے، جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے دُور دراز کے پرائمری مدارس تک پھیلا ہو ا ہے۔
امریکا کے تشکیل کردہ اس ڈھانچے میں عمل تعلیم کے سارے عناصر، یعنی معلم، متعلّم، نصاب، کتاب، امتحان، حتیٰ کہ والدین تک کو زیر اثر لانے کی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ یو ایس ایڈ کی چھتری تلے اور ’ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس پروگرام‘(ESRAP)کی تنظیم کے تحت اور چلڈرن ریسورسز انٹرنیشنل جیسے پری سکول ایجوکیشن کے لیے کام کرنے والے اداروں کے توسط اور عملی شرکت سے ایک نفوذ ی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
اساتذہ کی تربیت کا ایک وسیع پروگرام ہے جس میں بڑی کلاسوں کے اساتذہ کی تربیت کے تربیت کار امریکا میں، جب کہ اسکولوں کے اساتذہ کے لیے اپنے اپنے علاقے میں دورانِ ملازمت تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دیگر مغربی ایجنسیاں جن میں یورپین کمیشن، کینیڈین ایجنسی براے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ، برطانیہ کا بین الاقوامی ترقی کا امدادی ادارہ (DFID)،جرمنی کا بین الاقوامی معاونت کا ادارہ (GIZ)اور دیگر یورپی ملکوں کے امدادی ادارے، بین الاقوامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ادارے شامل ہیں۔ یہ سب ایک مربوط حکمتِ عملی اور پاکستان میں اپنے اپنے قائم کردہ انتظامی و نگرانی کے اداروں کے ذریعے سے تعلیم کی اصلاح اور تعمیر نو کے پروگراموں پر عمل پیرا ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اور ترقیاتی اداروں کا جہاں ایک مثبت کردار ہے، وہاں اُن کا ایک اپنا باطنی ایجنڈا بھی ہوتا ہے۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو ثقافتی اور نظریاتی تبدیلی تو بہرحال اُن کے پیش نظرہوتی ہے۔
گلوبلائزیشن اور نیو لبر لزم کے تحت زیر تشکیل نئے عالمی نظام کی طرف سے آنے والے علیحدہ چیلنج ہیں، جو معاشرے کے پورے ڈھانچے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کو بھی بُری طرح مسخ کر رہے ہیں۔پرائیویٹائزیشن (privatization)،مارکیٹ اکانومی ، تعلیم بطور جنس بازار، تعلیم کے سلسلے میں بین الاقوامی سرحدوں کا انہدام اور منڈی کی ضروریات کے تحت تعلیمی پروگراموں کی تشکیل، وہ اثرات ہیں جس سے ’تعلیم سب کے لیے‘کا تصور دھند لا رہاہے۔ طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے۔ تعلیم میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں۔ یونی ورسٹی میں سماجی علوم کی تعلیم ختم ہو رہی ہے۔ اساتذہ اور ماہرین تعلیم کا کردار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے بہت پیچھے چلا گیا ہے اور سرمایہ دار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر حاوی ہو گیا ہے۔
تعلیم کے لیے اندرونی چیلنج بھی کچھ کم روح فرسا نہیں ہیں۔ حکومت اپنے آمرانہ ڈنڈے کے زور پر تعلیم میں لادینیت کے فروغ کے لیے تن دہی سے کام کر رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے اہم مناصب پر ایسے لوگ متعین کر دیے گئے ہیں جو سیکولزم اور لبرلزم کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیرونی آقائوں کے ایجنڈے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف محکمہ تعلیم کے اہل کاران ، افسران اور اساتذہ کرام ہیں جو دین و وطن کے لیے دردِ دل رکھتے بھی ہوں تو یا تو نظام کے ہاتھوں مجبور ہیں یا اپنے مفادات کی وجہ سے بے بس ہیں۔ اساتذہ کی تنظیمیں جو اپنے آپ کو نظریاتی کہتی ہیں وہ بھی اور جو اپنی پہچان پیشہ ورانہ بتاتی ہیں وہ بھی، وسیع تر قومی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر محض ملازمانہ معاملات و مفادات تک محدود ہیں۔بدقسمتی سے یہ سب کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعلیمی مسائل پر غورو فکر کے لیے تیارنہیں ہیں۔
سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اُن کے لیے تعلیم کا مسئلہ یکساں طور پر ناقابلِ غور ہے ۔وہ کسی مسئلے پر بیان بازی کریں بھی تومحض حکومت کو زچ کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ خود اُن کی فکر اور طرزِ عمل کسی طرح بھی حکومت وقت سے مختلف نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی تعلیم کے مسئلے پر بُری طرح فکری انتشار کا شکار ہیں ۔ اُن کے پاس نعروں اور مذمتوں کے علاوہ کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے۔ تعلیم کی پرائیویٹائزیشن ، کمرشلائزیشن اور طبقاتی تقسیم کے حوالے سے دینی جماعتوں کا کردار بھی تقریباً وہی ہے جو عموماً سیکو لر سوچ کے گروہوں کا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر بہت تیزی کے ساتھ پرَ پھیلا رہا ہے۔ سرمایے کے زور پر تعلیمی اداروں کا بے مقصد اور مغرب زدہ ڈگری کلچر فروغ پذیر ہو رہا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں غیر ملکی اور حکومتی سرمایے سے مستحکم ہو کر ایک مافیا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جائز اور معقول تعلیمی خدمات انجام دینے والی مخیر تنظیموں کا کام مشکل تر کر دیا گیا ہے۔ کئی تنظیمیں تو ایسی ہیں جو دینی اور سیکولر دونوں طبقوں سے پیسہ بٹور رہی ہیں کیونکہ میڈیا کا استعمال انھیں ہوائوں میںاُڑائے پھرتا ہے۔ ایسی تنظیمیں برسرِزمین محض علامتی تعلیمی کردار ادا کر رہی ہیں۔
بیرونی قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار تحقیق ہے۔ ہمارے شعبۂ تعلیم کے مختلف پہلوئوں پر دھڑا دھٹر تحقیقی رپورٹیں آ رہی ہیں۔ کہیں نصاب ہدف ہے تو کہیں دینی مدارس ۔ کہیں نصابی کتب موضوع بحث ہیں تو کہیں ہمارا امتحانی نظام جو بلاشبہہ فرسودہ اور بے کار ہے۔سب سے بڑا چیلنج جو اس وقت درپیش ہے وہ یہ کہ مذکورہ بالا چیلنجوں کا سطحی سا ادراک بھی قوم کے ارباب بست و کشاد کو نہیں ہے۔ علما ہوں یا عوام ، اساتذہ ہوں یا والدین، اربابِ حکومت ہوں یا حزب اختلاف، کسی کو بھی فرصت نہیں کہ ان چیلنجوں پر غور و فکر کے لیے چند لمحات صرف کریں اور ان کا شعور و ادراک کرتے ہوئے اس طوفان بلا خیز کے سامنے بند باندھنے کے لیے اپنا کردار کریں۔
تعلیم و تعلم اور علم و تحقیق کو درپیش چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کےلیے بھی علم کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ ہم ذیل میں چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں، جن پر اگر تسلسل سے عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ طویل المیعاد بنیادوں پر ان کے اثرات مرتب ہوں گے:
’روشن خیال اعتدال پسندی‘ موجودہ حکومت کی قدرِ اساسی ہے۔ اس حکومت کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پالیسیاں حتیٰ کہ خارجہ پالیسی بھی اسی قدرِ اساسی سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ روشن خیال اعتدال پسندی کا نتیجہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے مسلمان طلبہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں داخلہ نہیں لے سکتے کیونکہ حکومتِ پاکستان نے اس کے لیے تعلیمی ویزا کی سہولت ختم کر دی ہے‘ جب کہ دشمن ملک بھارت سے نچیے‘ گویّے اور پاکستان کے خلاف خبثِ باطن رکھنے والے قلم کار‘ فلم سٹار اور نام نہاد دانش ور کھلے عام آسکتے ہیں۔ یہ روشن خیال اعتدال پسندی ہی کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم کا میدان فری فار آل (free for all) کردیا گیا ہے۔ پاکستان یونی ورسٹیوں‘ غیرملکی اسکول سسٹمز اور اندرون ملک تعلیمی تاجروں کی کھلی چراگاہ بن گیا ہے۔ اسلام اور نظریۂ پاکستان کے بعض اساسی تصورات کی نفی کرنے والے نصابات اور درسی کتب بلاروک ٹوک ہماری نئی نسل کے اذہان کو منتشر‘ بے راہ رو اور مسموم کر رہی ہیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ روشن خیال اعتدال پسندی کی زنجیروں میں جکڑا بے بسی کا عبرت ناک نشان بنا ہوا ہے جس کی داد رسی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا عدل پسند چیف جسٹس بھی شاید ہی حرکت میں آئے۔ بھارت جیسا سیکولر ملک بھی درسی کتب اور تدریسی مواد کو قومی تہذیب و تمدن اور تعلیم و تعلم کے قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹیکسٹ بکس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کررہا ہے لیکن ہم نے روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر اپنے قومی نصابِ تعلیم کی تدوین اور درسی کتب کی تیاری‘ جرمنی کے بین الاقوامی امدادی ادارے جی ٹی زیڈ (GTZ) کے سایۂ عاطفت میں دے دی ہے۔
اساتذہ کو روشن خیال اعتدال پسندی کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے انھیں گروہ در گروہ امریکا روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ اساتذہ کی ایک مؤثر تعداد روشن خیال اعتدال پسندی کی مشعل ہاتھ میں پکڑے پورے تعلیمی نظام کو روشن خیال اعتدال پسندی کی نعمت سے بہرہ ور کرے۔ شعبہ نصابیات اور تربیتِ اساتذہ کے بڑے بڑے اداروں کو روشن خیال اعتدال پسندی کے فریم ورک کے مطابق اہلیت کے فروغ (capacity building)کے لیے کینیڈین انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (CIDA)کے تصرف میں دے دیا گیا ہے۔ نیز اندرونِ ملک اعلیٰ سطح کے ٹیچرز ٹریننگ کے ادرے تباہ کر کے تربیتِ اساتذہ کی ذمہ داری روشن خیال اعتدال پسند این جی اوز کو سونپ دی گئی ہیں جن کے پاس تجربہ کار ٹیچر ٹرینرز تو کجا مناسب تعلیم یافتہ اساتذہ بھی نہیں ہیں۔
دو تین ماہ پہلے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹاف ڈویلپمنٹ پنجاب لاہور کے مین ہال میں ایک دل چسپ صورتِ حال پیداہوئی۔ سینیراساتذہ اور تعلیمی منتظمین کا ایک دورانِ ملازمت تربیتی کورس زیرعمل تھا۔ کورس کے شرکا میں بی ایڈ‘ ایم ایڈ حتیٰ کہ بعض ایم فل ایجوکیشن کی ڈگریوں کے حامل سینیر خواتین و حضرات شامل تھے۔ لاہور کی دومقامی این جی اوز کا ایک کنسوریشم کورس کنڈکٹ کرا رہا تھا۔ خاتون کورس کنوینر نے جب محسوس کیا کہ شرکا کورس اُن کی ٹریننگ سے متاثر نہیں ہو رہے تواُس نے رعب جمانے کی خاطر بڑے فخر سے شرکا کو بتایا کہ دیکھیں میں نے بی اے کے ساتھ بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے اور ہم آپ کو بہت بلند سطح کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ اس پر شرکا کورس فہمی ہنسی سے پھٹ پڑے اور بڑی دیر تک ماحول سخت غیرسنجیدہ رہا۔ یہ ہے روشن خیال اعتدال پسندی کا وہ روپ جو سرخی پائوڈر اور غازے کے ہتھیاروں سے مسلح ترقی پسند خواتین کے ذریعے سے عام کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی تربیتِ اساتذہ کے علاوہ روشن خیال اعتدال پسندی کی ترویج دو سطحوں پر کی جارہی ہے۔ ایک سطح بچپنے کی تعلیم ہے اور دوسری سطح ہائر ایجوکیشن کے ادارے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ارلی چائلڈہڈ ایجوکیشن (Early Childhood Education) یا ECE کے نام سے منصوبوں کو زیرعمل لایا جارہا ہے۔ اس سطح پر اور اداروں کے علاوہ سب سے زیادہ متحرک اور پُرجوش ادارہ امریکا کا چلڈرن ریسورس انٹرنیشنل (CRI) ہے۔ اس ادارے نے فیڈرل کیپٹل اسلام آباد کے اسکولوں سے آغاز کیا اور اب صوبوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن تو سراسر روشن خیال اعتدال پسندی کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہے۔ کیا سرکاری یونی ورسٹیاں اور کیا غیر سرکاری یونی ورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹس‘ کیا اسلامسٹوں کے زیراہتمام چلنے والے اور کیا سیکولرسٹوں کے سایۂ عاطفت میں فروغ پانے والے ادارے‘ سبھی مغربی تعلیم‘ مغربی تہذیب اور مغربی تصورِ علم و تحقیق کو فروغ دے رہے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے یہ مراکز مغربی علمیات (Western Epistomilogy) کی اساس پر مغربی معاشیات‘ مغربی سماجیات‘ مغربی نفسیات اور مغربی انسانیات کی تعلیم کے ذریعے طوعاً کرھاً روشن خیال اعتدال پسندی کے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہیں۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کے ذریعے آزادانہ فکروتحقیق کے سوتے خشک کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کی آب یاری کو یقینی بنا رکھا ہے۔ یونی ورسٹیاں عام طور پر جرنیلوں یا اباحیت پسند سیکولر ذہن کے سخت گیر وائس چانسلروں کے تصرف میں دے دی گئی ہیں جہاں اسلامی ذہن کے پنپنے اور آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہیں۔
نظامِ تدریس و تعلّم کو کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار امتحان ہے۔ امتحانی سوالوں کی نوعیت‘ پرچوں کی ترتیب‘ مضامین کے کسی سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کے حصول میں باہمی اہمیت‘ طلبہ کے جوابی پرچوں کی مارکنگ اسکیم اور امتحانی پرچوں میں سوالوں کے لیے مختلف مضامین کے درسی مواد کا انتخاب‘ وہ عناصر ہیں جو امتحانات کو پورے نظامِ تعلیم پر حاوی کردیتے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے ذہین مؤدین نے اس امر کو سمجھا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ نظامِ تعلیم میں روشن خیال اعتدال پسندی کے مؤثر نفوذ اور نفاذ کے لیے شاید ہی اس سے بہتر تدبیر ممکن ہو۔ بے نظیر حکومت کے دوسرے دور سے اس کی کوشش ہورہی تھی۔ نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اس سلسلے میں پالیسی فیصلہ کرایا گیا اورجنرل پرویز مشرف کی روشن خیال اعتدال پسند حکومت نے اسے نفاذ تک پہنچایا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اگر چلتا ہے (اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ چلے گا اور خوب چلے گا)تو کم از کم میٹرک اور انٹر کی سطح پر لبرل اور سیکولر عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی بتدریج جڑ پکڑتی جائے گی اور اسلامسٹوں کے تعلیمی ادارے بھی طوعاً کرھاً یہ راستہ اپنائیں گے جس طرح کہ اس وقت وہ او لیول اور اے لیول (O'Level & A Level) کے برطانوی امتحانات کا بہت تیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ آغا خان امتحانی بورڈ کو تو شاید ہم کچھ وقت تک اور کسی حد تک دبائو میں رکھ سکیں لیکن کیمبرج یونی ورسٹی اور ایڈیکسل کے برطانوی امتحانات تو بالکل ہمارے کنٹرول میں نہیں اور نہ اُن کے نصاب اور کتاب پر ہمارا کوئی زور ہی چلتا ہے۔
پرویز مشرف کی نیم سیاسی لیکن فوجی حکومت نے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے سہ طرفہ حکمتِ عملی (three prong strategy) اپنائی ہے۔ تعلیم ایک شعبہ ہے۔ قانونی تبدیلیاں دوسراشعبہ ہے اور میڈیا کی مادرپدر آزادی تیسرا شعبہ ہے۔ زیرنظر مضمون میں تعلیم کے ذریعے روشن خیال اعتدال پسندی کا فروغ ہمارا موضوع ہے۔ اس شعبے میں اب ایک نیا شاخسانہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ براے تحقیق‘ تعلیم اور مکالمہ کا قیام ہے۔
اس ادارے کے بارے میں ابتدائی غوروفکر ۲۰۰۳ء میں اسلام آباد میں کیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی اور حکومت کے زیراہتمام ۱۹ تا ۲۱ نومبر۲۰۰۴ئ‘ مسلم اسکالرز کی ایک بین الاقوامی مشاورت منعقد ہوئی جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ پچھلے ۲۰۰ سال میں پہلی مرتبہ ۱۴ملکوں سے ۴۵ اسکالرز اس مشاورت میں اکٹھے ہوئے۔ اس مشاورت میں روشن خیال اعتدال پسندی کو فروغ دینے والا ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور روشن خیال اعتدال پسندی کا یہ ٹاسک امریکا میں ۳۴ سال سے درس و تدریس میںمشغول ڈاکٹر رفعت حسن کے ذمے لگایا گیا۔ آخرکار اس ادارے کا قیام غالباً ستمبر۲۰۰۵ء میں عمل میں آیا۔ اس ادارے کا صدر دفتر لاہور کینٹ میں ہے اور اسے جنرل پرویز مشرف نے ۵۰ کروڑ روپے کی خطیر رقم ابتدائی اخراجات کے لیے مہیا کی ہے۔ ادارے کی سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں کوئی بیرونی پشت پناہی حاصل نہیں ہے اور ساری کی ساری مالی پشت پناہی حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہے ۔ ادارے کے ایک تعارفی کتابچے میں اس ادارے کا بنیادی مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
مغل بادشاہ اکبر اعظم نے لاہور کو صوبائی سطح سے بلند کرکے آگرہ اور دہلی کی طرح دارالخلافہ کا مقام دیا۔ لاہور تخت شاہی کی ایک متبادل سیٹ تھی۔ اکبر دوسرے تمام مذاہب کی طرف روادارانہ رویہ رکھتا تھا۔ اس نے یہاں لاہور میں دوسرے مذاہب کے علما و فصلا کے ساتھ بحث و مباحثہ کی مجلسیں منعقد کیں۔ ان مباحثوں سے جس میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور ملحد بے دین سب شریک ہوتے تھے۔ روادارانہ مکالمے کی فضا نے نشوونما پائی۔ آج یہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہے تاکہ اعلیٰ سطح کے بہترین اہل عالم کے درمیان آج کی دنیا میں روشن خیال مسلم معاشرے کے لیے ان کے وژن پر بحث و مباحثہ کی گنجایش پیدا ہو۔
ادارے کے تعارفی کتابچے سے لیا گیا یہ طویل اقتباس‘ مذکورہ ادارے کے کارپردازان کا ذہن پوری طرح واضح کردیتا ہے۔ گویا مغل بادشاہ اکبر کی روشن خیال اعتدال پسندی جس کا مظہر اس کا ’دین الٰہی‘ تھا‘ ان خواتین و حضرات کا راہنما نظریہ ہے۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازوں نے حکومت کی سرپرستی میں بند دروازوں کے پیچھے یکم یا ۳ جولائی ۲۰۰۶ء لاہور کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں بڑی رازداری سے ایک کانفرنس منعقد کی جسے ایک روشن خیال مسلم معاشرے کی تشکیلِ نو میں پیغام اقبال کی معنویت پر جنوبی ایشیا کے اسکالرز کی لاہور مشاورت کا نام دیا گیا۔ اس نام نہاد مشاورتی اجلاس میں کسی صحافی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مقصد شاید یہ تھا کہ یہ نام نہاد اسکالرز اقبال کے مقدس نام پر روشن خیال اعتدال پسندی کے ضمن میں جو ہرزہ سرائی کریں اور نسلِ نو کے اذہان کو روشن خیال اعتدال پسندی کے سازشی تصورات کے تحت مسموم کرنے کے جو منصوبے بھی بنائیںوہ اقبال کے پرستاروں اور وطن عزیز کے مخلص دانش وروں تک پہنچنے پائیں۔ وہ تو بھلا ہو نواے وقت کا جس نے ۸ جولائی کے تعلیمی ایڈیشن میں اس سازش کو طشت ازبام کردیا۔
کانفرنس کے شرکا میں پاکستان کے علاوہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ کینیڈا‘ امریکا اور مصر سے خواتین و حضرات شامل تھے۔ جو خواتین و حضرات بھی اس مشاورت میں شریک تھے وہ سب کے سب کلامِ اقبال اور پیغامِ اقبال کے حوالے سے مجہول لوگ ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے اقبالیات کے نام ور محققین اور اقبال شناس خواتین وحضرات سے کوئی ایک شخص بھی ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے قابل نہیں سمجھا گیا حتیٰ کہ فرزندِ اقبال‘ ڈاکٹرجاوید اقبال کو بھی‘ جو ماشاء اللہ روشن خیال اعتدال پسندی کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘ اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ مذکورہ مشاورت میں جلوہ افروز ہوں۔ گویا مذکورہ مشاورتی اجلاس کی روشن خیال اعتدال پسندی کے حوالے سے سطح کچھ زیادہ ہی بلند تھی۔ علامہ اقبال کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے ۵۰کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے محب وطن اراکین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ شاید صدرِ مملکت نے اپنے صواب دیدی فنڈسے روشن خیال اعتدال پسندی کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ رقم مہیا کی ہے کیونکہ اس رقم کا ذکر پچھلے بجٹ میں ہے اور نہ حالیہ بجٹ میں۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کا ہدف نئی نسل‘ تعلیم اور اساتذہ ہیں۔ گویا گراس روٹ لیول سے روشن خیال اعتدال پسندی کا شر پھیلانے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے علامہ اقبال کے نام پر ابہام اور انتشار پیدا کرنے کی ٹھانی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک امریکن ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو ٹیچرز ود آؤٹ بارڈرز (Teachers Without Borders) نامی کسی تنظیم کے بانی ہیں‘ بتایا کہ انھوں نے اساتذہ کے لیے اسلام کو عام فہم بنانے کے لیے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے کہ وہ اسلام کو تدریس کے ساتھ مربوط کرسکیں‘ ایک ہینڈبک تیار کی ہے جس کا عنوان ہے Modern Teaching and Islamic Tradition۔ راقم الحروف نے اس نام نہاد ہینڈبک کا کچھ حصہ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے تعارفی کتابچے میں دیکھا ہے۔ وہ واقعی سیکولر لبرل عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی کا شاہکار ہے۔ اسلام سے نابلد ایک جاہل امریکی سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو مستقلاً اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے صدر دفتر میں متعین ہے‘ اس سال اپنی اس ہینڈبک کے ذریعے ۱۵۰ اساتذہ کی تربیت کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ نے اس سال ۴۰ سے ۵۰ لاکھ طلبہ تک رسائی حاصل کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے تاکہ انھیں روشن خیال اعتدال پسندی کے اسباق دیے جائیں۔ طلبہ تک رسائی کی ابتدا ہمارے روشن خیال اعتدال پسند گورنر پنجاب عزت مآب خالد مقبول کے ہاتھوں ہوئی کہ موصوف نے مشاورتی اجلاس کے آخری دن مندوبین کو گورنر ہائوس میں کھانا دیا جس کے دوران پنجاب کی مختلف یونی ورسٹیوں سے ۴۰ منتخب طلبہ و طالبات کو ساؤتھ ایشیا کے ان نام نہاد مسلم اسکالرز سے ملاقات کا شرف بخشا گیا۔
ساؤتھ ایشیا مسلم اسکالرز کی اس لاہور مشاورت کی خفیہ کارروائی سے جو کچھ میڈیا میں سامنے آیا اس کے مطابق پاکستان میں اسلامیات کے نصاب کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ دینی مدارس کی تعلیم اور نصاب کو بدلنے کی سفارش کی گئی۔ اے لیول اور او لیول پاس کرنے والے طلبہ و طالبات میں مطلوبہ سطح کی روشن خیال اعتدال پسندی کے فقدان کا رونا رویا گیا۔ ابتدا ہی سے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے پہلی جماعت سے انگریزی کی تدریس لازمی مضمون کے طور پر جاری کرنے کی سفارش کی گئی۔ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیمات پر مبنی ریسرچ پراجیکٹس شروع کرنے اور ان کی تعلیمات نئی نسل تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ نذرالاسلام اور ٹیگور دونوں بنگالی شاعر اور ادیب ہیں۔ نذرالاسلام مرتے دم تک کلکتہ میں رہا اور زندگی بھر سابق مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش نہیں گیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور ٹیگور میں کیا قدرِ مشترک ہے کہ ان پر ریسرچ کر کے اور ان کی تعلیمات سے روشن خیال اعتدال پسندی برآمد کر کے نئی نسل تک پہنچانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے ساؤتھ ایشیا میں اعتماد سازی اور افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے تحت عالمی سطح پر جو چار وسیع البنیاد مقاصدِ تعلیم وضع کیے گئے ہیں‘ اُن میں سے ایک یعنی مل جل کر رہنا سیکھنے (Learning to live together) کی تکمیل کا ایجنڈا پیش نظر ہے۔
اس کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے کہ پوری دنیا کے بچوں اور جوانوں کے ہیروز مشترک ہوں تاکہ وہ ہیروز جو قوموں میں باہمی نفرت اور افتراق کا باعث بنتے ہیں انھیں تعلیمی نصابات سے خارج کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا‘ بھارت اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ہم وطن ترقی پسند‘ روشن خیال اور لبرل سیکولر عناصر بھی ہمارے اُردو‘ معاشرتی علوم اور مطالعۂ پاکستان کے نصابات پر معترض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی اور شہاب الدین محمد غوری تو ہندستان پر حملہ آور ہوئے۔ وہ جارح اور لٹیرے تھے۔ اگر ہم انھیں اپنے نصاب میں اپنے ہیروز بناکر نئی نسل کو پڑھائیں گے تو ہم ہندوئوں کے ساتھ مل کر کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ قدیم ہندو راجائوں کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر جیسے نام نہاد ہیروز کو نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بعض بھارت پرست ادیب و شاعر اور نام نہاد ترقی پسند دانش ور تو گاندھی کو بھی ہمارا بھارت کے ساتھ مشترکہ ہیرو کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں اور اسی آئیڈیالوجی کے تحت اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ والے علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کو باہم خلط ملط کرکے ہماری نئی نسل کے اذہان میں ہیروز کے طور پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والے لاہور مشاورت براے ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کی سہ روزہ میٹنگ کے بعد آواری ہوٹل میں ۴ تا ۵ جولائی ٹیچرز ٹریننگ گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس میں یونی ورسٹی آف ایجوکیشن کے نمایندے کے علاوہ ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونی ورسٹی کے ڈائرکٹر اور بعض دیگر خواتین و حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس دو روزہ اجلاس میں ٹیچرز ٹریننگ اور طلبہ میں نفوذ کی راہیں سوچی گئیں اور آیندہ کے پروگرام بنائے گئے۔
محب وطن حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ہمارے ہی مشاہیر کا نام استعمال کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کا جال پھیلایا جارہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقم اپنی ریاستی قوت کے زور سے ایسے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد‘ نظریۂ پاکستان کے تقاضوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے پوری طرح متصادم ہیں۔ اگر کچھ حلقے خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے کچھ نہیں ہوگا‘ اور شترمرغ کی طرح ریت میں دے کر سمجھتے ہیں کہ عافیت میں ہیں‘ تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اندھی ریاستی قوت‘ میڈیا کا ظالمانہ اور جانب دارانہ استعمال اور مسلسل پروپیگنڈا عقائد و نظریات کو کمزور کرنے اور آخرکار مکمل طور پر استیصال کا سبب بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم اُمہ عموماً اور ملّتِ پاکستان خصوصاً پوری قوت اور ذہنی بیداری کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہو اور روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر ہونے والی سازشوں کا ہرمحاذ پر مقابلہ کرے۔ اس جدوجہد میں سب سے اہم محاذ تعلیم کا ہے‘ لہٰذااساتذہ کرام کو ہراول دستے کا کردار انجام دینا ہوگا۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت کیوں ہوا؟ بلاشبہ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ لیکن اگر مقتدر طبقے کی حماقتوں کے بعد سب سے بنیادی سبب کا کھوج لگایا جائے تو بات تعلیم اور استاد پر جا کر ٹھیرتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں اساتذہ کے انتخاب اور تقرر میں بے تدبیری اور تعلیمی عمل کے بارے میں چشم پوشی بلکہ اندھے پن نے وہ دن دکھایا جس کا کوئی پاکستانی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ کون کون سے عناصر ہیں جو ملکی استحکام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں؟ ان عناصر کی ترویج و ارتقا کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کیا قانون سازی کی گئی ہے؟ بحیثیت قوم ہم نے سیاسی اور انتظامی سطح پر ان قانونی ضابطوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ نتائج کیا سامنے آ رہے ہیں‘ اور ان برے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ملّی اور قومی استحکام کو تقویت دینے والے چند ایک عناصر یہ ہیں: l اسلامی نظریۂ حیات یا قومی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستگی‘ l قومی سطح پر مؤثر وسیلہ ابلاغ کا وجود اور اس کا احترام‘ l فکروعمل کی ہم آہنگی‘ l قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کا ماحول‘ l معاشرے میں عدلِ اجتماعی کا چلن‘ l علم اور اہل علم کی توقیر و احترام۔
اسلامی نظریہ حیات: قومی استحکام کے لیے نظریۂ حیات کے ساتھ وابستگی کی کیا ضرورت ہے‘ اور بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے نے اس کے حق میں تاریخ عالم سے کیا دلائل فراہم کیے ہیں؟ اگرچہ اس متفق علیہ نکتے کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ہم سب اس نظریۂ حیات سے واقف ہی نہیں‘ بلکہ اس کے پرجوش حامی بھی ہیں۔ ہمیں ذکر صرف اس بات کا کرنا ہے کہ آئین جو کسی قوم کا متفق علیہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اس میں اس سلسلے میں کیا بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
۱۹۷۳ء کے آئین میں شامل قراردادمقاصد اور آئین کا آرٹیکل ۳۱ بڑی وضاحت کے ساتھ
تعلیم وتدریس میں اسلامی نظریہ حیات کی ترویج کا راستہ متعین کرتا ہے۔
آئین پاکستان کے الفاظ اس طرح ہیں:
۱- پاکستان کے مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل امور کے لیے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا‘ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکوٰۃ (عشر) ‘ اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
مختلف حکومتوں نے قرارداد مقاصد اور مذکورہ آئینی آرٹیکل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے‘ اس کا مشاہدہ تعلیمی اداروں کے ماحول‘ نصاب و درسی کتب کے مندرجات‘ طلبہ کی تربیت کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کے کھلے چھپے رازوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن جو قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نہایت وسیع الاثر استاد اور پورے ملک پر پھیلا ہوا کلاس روم ہے‘ قوم کے بچوں‘ نوجوانوں‘ مردوں اور عورتوں کو صبح و شام جو تربیت دے رہا ہے اس پر نظرڈال کر دیکھ لیجیے کہ تعلیم و تربیت کی یہ ساری مشق دستور پاکستان کی شق نمبر۳۱ کا کس طرح مذاق اُڑا رہی ہے۔
اردو بطور ذریعہ ابلاغ: قومی سطح پر مؤثر ذریعہ ابلاغ سوائے اردو کے اور کوئی نہیں ہے۔ اردو نہ صرف پاکستان کے اندر رابطے کی زبان ہے‘ بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں میانمار (برما) سے لے کر افغانستان تک اور بھوٹان سے لے کر مالدیپ تک‘ حتیٰ کہ خلیج کی عرب ریاستوں میں بھی اردو ہی ایک مشترکہ زبان ہے‘ جو باہم ابلاغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح قومی آئیڈیالوجی کے نفوذ و ترویج کا موثر ذریعہ بھی اردو ہی ہے۔ لیکن قومی قیادت پر فائز طبقے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی زندہ اور باحمیت قوم کا شیوہ نہیں ۔ آزادی کے ۵۴ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم غلط سلط انگریزی میں سرکاری خط کتابت کیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں درست اور سمجھ آنے والی زبان‘ اردو کا حال یہ ہے کہ حکومت کی شب و روز کی کارروائی اس کے مقام و مرتبے کو کم کرتی جا رہی ہے۔ متعدد قومیتوں کا نعرہ تخلیق کر کے قومی زبان کو ایک خودساختہ ذیلی قومیت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اردو کے نفاذ کے لیے ۱۰ سال کی جو مدت رکھی گئی تھی‘ اسے مسلسل نظرانداز کیا گیا (بلکہ اس مدت کو گزرے بھی ۱۶ برس ہو چکے ہیں)۔ اس درست سمت کو چھوڑنے کے نتیجے میں اب انگریزی کی بالادستی اور علاقائی زبانوں کا تعصب اس قدر چھا گیا ہے کہ قومی رابطے کی زبان کے طور پر اردو کی اہمیت بھی ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو علاقائی تفریق اس قدر بڑھے گی کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے لیے خدانخواستہ غیر ملکی بن کر رہ جائیں گے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے خبط نے ایسے نوجوان خواتین وحضرات کو میدانِ عمل میں پہنچانا شروع کر دیا ہے‘ جو انگریزی تو فرفر بولتے ہیں‘ لیکن وہ نہ اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف زبانی گفتگو کی حد تک انگریزی نما اردو سے آشنا ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض پھیلے گا اور نتیجہ اس کا جو نکلے گا اُسے بہ خوبی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ قومی استحکام کو غلط لسانی پالیسی کی وجہ سے جو خطرات لاحق ہیں‘ اسے پوری دلسوزی کے ساتھ محسوس کرنا چاہیے۔
فکروعمل کی ہم آہنگی: قومی نظریۂ حیات اور قومی رابطے کی زبان‘ فکروعمل کی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی زبان اور قومی نظریۂ حیات کو مختلف سطحوں کے نصابات اور درسی کتب میں سمونے اور سماجی شعور کی نشوونماکو نصاب و کتاب کے ذریعے آگے بڑھانا ضروری ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی ماحول کے تانے بانے نئی نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے‘ سائنس‘ ٹکنالوجی اور قدرتی وسائل سے فیض یابی کا نقشہ مستقبل کے ساتھ مربوط کرنے کا سارا کام قومی تعلیمی پالیسی اور قومی نصاب کا مرہون منت ہے۔ نصابات اور تعلیمی معیارات کا کنٹرول پاکستان کے آئین کی concurrent list کے ذریعے وفاقی وزارت تعلیم کے ہاتھ میں دیا گیا ہے تاکہ تعلیمی نظام میں یکساں نصاب‘ یکساں درسی کتب‘ یکساں معیارات اور یکساں قومی سوچ بروے کار لائی جائے اور اس طرح استحکام وطن کے تقاضے پورے ہوں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دستور کی ان آئینی شقوں کو ایجوکیشن ایکٹ نمبر ۱۰ آف ۱۹۷۶ء میں قانونی شکل دی ہے۔ جس میں انھوں نے بڑی صراحت اور دانش مندی کے ساتھ درج کیا ہے: ’’قومی نصاب‘ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں رائج درسی کتب‘ شعبہ نصابات‘ وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورشدہ ہوں گی۔ تعلیمی معیارات مقرر کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا اختیار وزارت تعلیم کے دائرہ اختیار میں ہوگا‘ نیز نصاب و کتاب میں کوئی ایسا مواد یا تصور نہیں دیا جا سکے گا‘ جو اسلام اور نظریۂ پاکستان کے تقاضوں کے منافی ہو‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اتنے واضح عہد‘ انتظامات اور اتنے مستحکم قانونی و دستوری فیصلوں کے باوجود ہو کیا رہا ہے؟
پبلک اسکولز اور نجی شعبے کے تعلیمی ادارے‘ پاکستان کے قومی نصاب سے مکمل آزاد ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ ‘آئین و قانون کے پاسبان اس جرم کے سب سے زیادہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ بیرونی اداروں کے نصابات رائج کرنے اور ان کے امتحانات میں طلبہ کو بٹھانے پر کوئی قدغن نہیں۔ بیرونی یونی ورسٹیوں سے الحاق اور ان یونی ورسٹیوں کے پاکستان میں ذیلی کیمپس کھولنے کی کھلی آزادی ہے۔ آئین پاکستان کی تعلیم سے متعلق شقیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ بالاے طاق رکھا جا چکا ہے۔ وزارت تعلیم‘ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن اور اس طرح کے دوسرے قومی ادارے بالکل غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ اس بدترین شکست وریخت کے باوجود اگر ملّی اور قومی استحکام کا خواب دیکھیں تو کون ہے جو ہمیں عقل مند کہے گا۔ قوم کے اندر نئی نئی اقوام اور طبقے پیدا کرنے کا یہ نسخہ شاید کسی دوسری قوم کو اب تک نہیں سوجھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ورلڈبنک‘ ایشین بنک‘ یونیسکو‘ یونیسف اور ترقی یافتہ ملکوں کے امداد دینے والے دیگر ادارے‘ نصاب و کتاب کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس دفعہ یلغار جنوب مشرق کی طرف سے نہیں‘ شمال مغرب کی طرف سے ہوئی ہے۔ نصاب و کتاب اور تدریسی مواد کے سلسلے میں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہمارے گورے آقائوں کے ’’مخصوص تعلیمی حملے‘‘کے نتیجے میں اپنی قسمت بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں نفوذ جاری ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے لادینیت اور نام نہاد لبرلزم کی ترویج‘ مغربی اقدار کا نفوذ‘ علم و تدریس سے زیادہ آوارگی پھیلانے کے منصوبے اور خاندانی بندھنوں کی توڑ پھوڑ ہمارے مغربی سرپرستوں کا ہدف ہے‘ جو وہ پوری دیدہ دلیری سے‘ فوجی اور سول بیوروکریسی کے فراہم کردہ تحفظ میں سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی یہ یلغار کہاں کہاں تک مار کر چکی ہے‘ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
افہام و تفہیم کا کلچر: جدت و اختراع زندہ قوموں کی تعمیر و ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ قومی تعلیمی و تربیتی نظام‘ بحث اور تحقیق میں وسعت قلبی کا جذبہ پیدا کرے۔ کھلے ذہن اور سائنسی تجزیہ و استدلال کے ساتھ اپنی رائے کو آگے بڑھانا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا‘ اسلامی معاشرے کی لازمی خصوصیت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم نہ تو جدید اداروں میں اس خاصیت کو پروان چڑھاتا ہے اور نہ قدیم طرز کے دینی اداروں میں اس نقطہء نگاہ کا چلن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم راوین‘ ایچی سونین‘ بیکونینز اور مسلک زدہ افراد تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل افراد آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ تعصبات کے اس جنگل میں خود تعلیمی ادارے‘ طبقاتی‘ گروہی اور مفاداتی تعصب کے نقیب بن گئے ہیں۔ وسعت قلبی اور وسیع المشربی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ مگرانھیں علاقائی‘ نسلی اور مسلکی گروہ بندیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے ساتھ آزاد علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے کونسلوں اور سوسائٹیوں کا قیام اشد ضروری ہے‘ جو افہام و تفہیم کا ماحول مہیا کرسکتی ہیں‘ اور محدود تعصبات پر مبنی طلبہ کی گروہ بندیوں کا توڑ کر سکتی ہیں۔
سماجی عدل و انصاف کا راستہ: معاشرے میںعدل و انصاف کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتیں ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ عدل و انصاف کے معدوم ہونے سے انفرادی سطح پر ہر شخص بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر قوم میں انتشار‘ افراتفری اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ سماجی انصاف کی خشت ِاوّل تعلیمی انصاف ہے۔ تعلیم کے ضمن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اجتماعی عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۳۷ میں اعلان کیا گیا ہے:
الف- ریاست پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
ب- کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
ج- فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابل دسترس بنائے گی۔
د- مختلف علاقوں کے افراد کو‘تعلیم‘ تربیت‘ زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں‘ جن میں پاکستان کی سرکاری ملازمت بھی شامل ہے‘ پورا پورا حصہ لے سکیں۔
ذرا دیکھیے کہ آئین کے پاس داروں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آرٹیکل ۳۷ کے دستوری تقاضوں کے مطابق ۱۹۷۴ء میں میٹرک تک تعلیم کے لیے ہر قسم کی فیسیں ختم کر دی گئی تھیں لیکن جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے دوبارہ تعلیمی اداروں میں فیسیں اس طرح لاگو کر دی ہیں‘ کہ اب ان کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔
جنرل مشرف صاحب کی حکومت بھی دستور کی اس شق کے پرزے اڑانے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتی اور اسکولوں کالجوں کی فیسیں بڑھانے کا کام زیرعمل ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل ۳۷‘ جو تمام سماجی طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کی یکساں دستیابی اور میرٹ کی بنا پر قابل حصول ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے‘ اب دھن دولت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں قرض دینے والے غیر ملکی ادارے اعلیٰ تعلیم میںصارفین پر مالی بار ڈالنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں‘ وہاں خود پاکستانی سرکار نے سیلف فنانسنگ اور سیلف سپورٹنگ کا تحفہ دے کر اعلیٰ تعلیم کو دولت مند طبقوں کے تابع مہمل بنا دیا ہے۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ’’قابلیت کی بنا پر سبھی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول‘‘ [higher education equally accessible to all on the basis of merit: Article 37.c] جیسا زریں آئینی اصول اس صورت حال میں کہاں باقی رہا۔ رہی سہی کسر داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نے پوری کر دی ہے۔
جب عدل و انصاف کا معیار یہ رہ جائے کہ پاکستان کی نئی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ دادا جان کی جاے پیدایش پر استوار کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ہونا قرار پائے تو نئی نسل کے یہ ذہین نوجوان استحکام وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے یا اپنے دادا بابا کو کوسیں گے کہ خاکم بدہن کس سرزمین بے آئین میں اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل گنوا بیٹھے۔ انفرادی اور گروہی سطح پر‘ عدل اجتماعی کی نفی‘ مستقبل کے متعلق بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے قول کے مطابق: یہ غلامی سے بدتر صورت حال نئی نسلوں کو تعمیر سے زیادہ تخریب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو‘ صلاحیت و ذہانت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے کھلے ہوں تو خوش حال مستقبل کے متعلق یقین میں پختگی آتی ہے۔ انسان کی روحانی‘ سماجی اور معاشی جڑیں سرزمین وطن میں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ذہین اور باصلاحیت انسانوں کی شکل میں تن آور درخت‘ استحکام وطن کو ایسی ہر عریاں کاری سے بچاتے ہیں‘ جیسے سرسبز درخت زمین کو سایہ فراہم کر کے اسے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔
اہل علم ودانش کی توقیر: ذہانت اور صلاحیت وہبی بھی ہے اور کسبی بھی۔ علم اور اہل علم‘ ذہانت اور صلاحیت کو چمکاتے اور باثمر بناتے ہیں‘ وہ اسے پروان چڑھاتے اور اظہار کی مثبت راہیں مہیا کرتے ہیں۔ یہ اہل علم ودانش ہی ہیں جو قوم کے افراد ہی کو نہیں‘ بلکہ قوم کے رہنمائوں کو بھی غلط روی اور غلط کاری پر متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ اہل علم ودانش ایسی بریک کی مانند ہوتے ہیں جو قوم کی گاڑی کاٹائی راڈ کھل جانے کے باوجود اسے اپنی بصیرت و حکمت سے جانکاہ حادثوں سے بچا لیتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں علم و دانش اور اہل علم و دانش کو بے توقیر کر دیا جائے‘ ان کا احترام تو کجا انھیں توہین آمیز سلوک سے دوچار کر دیا جائے تو وہ معاشرہ تباہی اور انتشار کی آخری حدوں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم اور اہل علم کی توقیر ختم کر کے رکھ دی گئی ہے۔ زندہ قوموں میں بڑے بڑے زورآور‘ قوم کے علما اور اساتذہ‘ اہل علم و دانش کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ ان سے رہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اب تک ایسے افراد کی کھیپ کیوں تیار نہیں کر سکا جو آگے بڑھ کر قوم کے ہر شعبۂ زندگی کی قیادت کرتے۔ ہم اب تک علم و تحقیق میں کیوں کرشماتی کارنامے سرانجام نہیں دے سکے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تعلیم گاہ بھی تھانے اور تحصیل کی طرز پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی سوچ سے چلائی جائے گی تو اس سے حریت فکر کے حامل طلبہ اور اساتذہ کیسے پیدا ہوں گے۔
معاشرے میں ابلاغ عامہ کے ذریعے جس قسم کے اصحاب دانش کی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘ وہی دانش نشوونما پائے گی۔ آج ناچنے‘ گانے والے مسخرے اور نقال اداکار قوم اور قوم کی نئی نسل کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اہل اقتدار کی ساری شفقت ان پر نچھاور اور میڈیا تو ان کے تذکرے کے بغیر ادھورا ادھورا سا رہتا ہے۔ وہ کون سا اخبار یا رسالہ ہے جو شوبز کے نام پر قیمتی کاغذ ضائع نہیں کرتا۔ عزت و احترام اور حوصلہ افزائی کے ان معیارات کی روشنی میں اہل علم و دانش کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ اس صورت حال میں تعلیم اور اہل تعلیم کے ہاتھوں استحکام وطن کی توقع رکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اس بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے تاکہ استحکام پاکستان کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جا سکے؟ اس سلسلے میں حکومت کی خدمت میں صرف ایک گزارش پیش کی جاتی ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پورے دستور پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور اگر سردست ایسا ممکن نہ ہو تو ترجیح اوّل کے طور پر دستور کے آرٹیکل ۳۱ اور ۳۷ پر ان کی پوری روح کے مطابق پورے اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ اہل اقتدار کو یقین رکھنا چاہیے کہ ان آرٹیکلزپر عمل درآمد نہایت دُور رس تعمیری اور مثبت اثرات پیدا کرے گا۔ اس کے برعکس غیر ملکی وسائل یافتہ اور مخصوص تہذیبی و سیاسی ایجنڈے کی حامل نام نہاد این جی اوز کی رہنمائی میں تیار کردہ تعلیمی منصوبے‘ تباہی کے سوا کچھ نہ دے سکیں گے۔