کسی پارٹی یا گروہ کے متعلق لوگوں کا تصور کیا ہے؟ یہ بات اس کا تعین کرتی ہے کہ لوگ اس پارٹی یا گروہ کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ ہمارا عمومی خیال یہ ہے کہ انسان عقلی بنیادوں پر کسی کا ساتھ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ، جب کہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ انسانوں کے اکثر فیصلے جذباتی سوچ پر مبنی ہوتے ہیں، اور یہ جذباتی سوچ اس تصور یا قیاس سے جنم لیتی ہے جو ’حقیقت‘ کے بارے ہمارا ’تصور‘ یا ’قیاس‘ ہوتا ہے۔ لوگوں کے اس تصور یا قیاس کو جاننا اور اسے متاثر کرنا ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آیا لوگ کسی کا ساتھ دیں گے یا نہیں ؟
لوگوں کو دعوت دیتے وقت اس لازمی امر کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل کام لوگوں کا ہمارے متعلق تصور کو سمجھنا اور اُس کو سمجھ کر ان کے دل ودماغ کو اپیل کرنا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت ہے یا مذہبی گروہ اور آپ لوگوں کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اپنے متعلق بجاطور پر مثبت تصورپیدا کریں۔ سوال پیداہوتا ہے کہ لوگوں سے کیا مراد ہے؟ لوگوں سے مراد پورے ملک کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، کسی صوبے، ضلع یا شہر کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، اور لوگوں میں کوئی خصوصی گروہ بھی ہوسکتا ہے، مثلاً صحافی، اساتذہ، وکلا، تاجر، دیہاتی آبادی، شہری آبادی، نوجوان، بزرگ یا معاشرے کے بااثر لوگ جو دوسروں کے تصور، اِدراک، قیاس یا نقطۂ نظر کو متاثر کرسکتے ہیں، بدل سکتے ہیں اور اس طرح آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ جاننی چاہیے کہ فی الوقت پیش نظر آبادی میں آپ کے متعلق آپ کا تصور یا امیج کیا ہے؟ یہ کام اب مشکل نہیں رہا۔ بس ایسے ماہرین کی معاونت حاصل ہونی چاہیے جو اس تجزیے کی تکنیک کو جانتے ہیں۔ چونکہ ہم ایک دینی جماعت ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ خالص دینی بنیاد پر ہمارے ساتھ ہوں تو ہم کو جاننا ہوگا کہ لوگوں کے دینی رجحانات کیا ہیں اور آپ اپنی دعوت کو لوگوں کے دینی رجحانات سے کس طرح قریب تر کرکے پیش کرسکتے ہیں؟
لوگوں کے دینی رجحانات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ کے پاس آبادی/آبادیوں کی مساجد اور جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد کا اندازہ ہونا چاہیے اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خطیب صاحب جمعہ کے خطبے میں کن موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں؟ ایک عمومی مشاہدہ بھی ہوتا ہے جس کے مطابق نچلی اور عمومی سطح پر ملک بھر کے مختلف علاقوں کے مذہبی رجحانات کا اندازہ لگاسکتےہیں۔
وہ لوگ جن کو ساتھ لے کر چلنا ہے ان کی سوچ، فکر اور رجحانات کو جاننے کے بعد اگلا کام یہ ہے کہ کوئی ایسا موقف اختیار کیا جائے جو بالکل غیر متنازعہ ہو اور اکثریت کے لیے قابلِ قبول ہو۔موقف جتنا مضبوط ہوگا، جتنا دوامی نوعیت کا ہوگا، جتنا قبولیت ِ عامہ کا حامل ہوگا اور جتنا غیر متنازعہ فیہ ہوگا، اتنا ہی اس کے اثرات دُور رس ، دیرپا اور دل و دماغ کو چھو لینے والے ہوںگے۔
اس مجوزہ موقف کو نہ صرف عام کریں بلکہ اپنے قول و فعل سے اس کے ساتھ اپنی وفاداری بھی ثابت کریں۔ ایک عمومی طریقہ سیاسی /مذہبی معاشرت میں یہ ہے کہ لوگ کسی شخصیت کو مرجع خلائق بناتے ہیں۔ اس کے گرد ایک روحانی، فکری، کرداری ہالہ بناتے اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنے دُنیا و آخرت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس شخصیت کا ساتھ دیں۔ اس عمل سے نظریہ پسِ پشت چلا جاتا ہے اور شخصیت اُبھر کرسامنے آجاتی ہے اور جب کبھی کسی بھی وجہ سے اُس شخصیت کا طلسم ٹوٹتا ہے تو خیالات اور عقیدتوں کی پوری عمارت دھڑام سے گر پڑتی ہے۔ اس لیے موقف تشکیل دیتے ہوئے، نظریہ پیش نظر ہو تو دعوت کے دوام کی اُمید ہوسکتی ہے۔ شخصیت کی طرف بلانے سے صرف دو ہستیاں مستثنیٰ ہیں:ایک اللہ تعالیٰ اور دوسری محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
ہم آسان لفظوں میں یہ موقف پیش کرسکتے ہیں: اللہ کی حکمرانی، اللہ کےرسولؐ کی حکمرانی، قرآن و سنت کی حکمرانی ۔
پاکستان کا آئین قرآن و سنت کی بالادستی قبول کرتا ہے، لہٰذا، ہم آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں۔اس پیغام کو عام کرنے کے لیے کئی چینلزاستعمال کیے جاسکتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موقف کے ساتھ کوئی ایسا تصور یا لاحقہ سابقہ منسلک نہ ہوجائے جو عوام کے بعض حلقوں میں متنازعہ فیہ ہو۔ جن چینلز کو اس موقف کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ان میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا ، اخباری کالم، خطباتِ جمعہ اور جلسہ ہائے عام شامل ہیں۔ اس موقف کو جتنا عام کیا جاسکے، کیا جائے اور اسے ایک عوامی مطالبہ کی شکل دے دی جائے۔
جس طرح حُرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ختم نبوت عوامی مطالبہ ہے اور بجا طور پر، اسی طرح ’قرآن و سنت کی حکمرانی‘کو عوامی مطالبہ بنا دیا جائے۔ اقامت ِدین کی عوامی تفہیم کا حامل موقف قرآن و سنت کی حکمرانی ہے اور اس کے سیاسی، قانونی اور عوامی مضمرات ہیں۔ اس لیےلوگوں کے تصوراور ادراک میںقرآن وسنت کی حکمرانی کا موقف ان کے اسلام کے متعلق تصور و قیاس کو متاثر کرے گا اور جتنی اس مطالبے کی قبولیت بڑھتی جائے گی اتنی ہی اسلامی قوتوں کے آگے آنے کا امکان بڑھتا جائے گا۔ اس کا ضمنی فائدہ یہ ہوگا کہ مسلکی اورفرقہ وارانہ اختلافات پس پشت چلے جائیں گے۔جو دعوتی دینی و سیاسی قوت اس موقف کے فروغ کے لیے کام کرے، وہ اس امر سے بالکل نہ گھبرائے کہ اس موقف کو تو دیگر گروہ بھی قبول کر رہے ہیں بلکہ اس کو لے کر چل پڑے ہیں کیونکہ مقصود یہ نہیں ہے کہ اس بیانیے کے نفاذ کے لیے صرف انھیں حق حکمرانی ملے جو اس کو لے کر چلے تھے، بلکہ مقصود تو موقف کا فروغ، سربلندی، نفاذ اور اس کی خیروبرکت سے معاشرے کو فیض پہنچانا ہے، نہ کہ کسی خاص گروہ کا اقتدار یا حکمرانی۔ کیونکہ موقف جو آگے بڑھایا جارہا ہے، وہ ہے ’قرآن و سنت کی حکمرانی‘۔ کسی موقف کو عوامی آواز بنانے کے لیے بنیادی کردار بااثر اشرافیہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے اس موقف کے لحاظ سے بااثر اشرافیہ بنیادی طور پر ائمہ مساجد اور خطبا جمعہ ہیں۔
دوسری سطح پر اساتذہ، شاعر اور دانش ور ہوسکتے ہیں۔ تیسری سطح پر وکلا اور ڈاکٹر بھی مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ موقف کی مقبولیت عوامی جلسوں کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے فرداً فرداً اور رُوبرو حکمت عملی اور مختصر اجتماعات زیادہ کارآمد ہوسکتے ہیں، جن میں براہِ راست ذاتی رابطہ بھی ممکن ہوتا ہے۔عوام عموماً خالی الذہن ہوتے ہیں۔ یہ بااثر اقلیت ہے جو عوام کی ذہن سازی کرتی یا کسی موقف کے پیچھے لگاتی ہے۔ عوامی رائے بنانے کے ماہرین کے مطابق اگر فعال آبادی میں شامل ۱۰ فی صد افراد کسی موقف کے پُرجوش حامی بن جائیں تو وہ موقف یا نقطۂ نظر عوامی تائید حاصل کرلے گا۔
سیّد سعادت اللہ حسینی صاحب رائے عامہ کی تیاری کے لیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ ’’اسلام کی نمایندگی کرنے والوں کے درمیان اعلیٰ درجے کے مصنّفین، محققین اور کالم نگار ہوں۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے تخلیق کار اورفن کار ہوں۔ ملک کے تمام مسائل میں بھرپور دل چسپی لینے اوران کا حل فراہم کرنے والے افراد،ادارے اور تنظیمیں ہوں۔ ملک کے سماجی ایشوز پر سرگرمی سے کام کرنے والے جہد کار ہوں جو ان ایشوز کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرسکیں۔ معاشرے کے بااثر طبقات پر توجہ مرکوز کی جائے اور بااثر طبقات کے درمیان جاری مباحثوں میں سرگرمی سے حصہ لیا جائے۔
عملی نمونوں کے ظہور کے ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ لوگ اُسی آئیڈیا پر بھروسا کرتے ہیں جو آئیڈیا پیش کرنےوالا خود عمل کرکے دکھائے، یا لوگوں کو یقین ہو کہ وہ عنقریب اسے رُوبہ عمل لاسکتا ہے، یا لوگ خود اس پر عمل کرکے اس کی سچائی جان سکتے ہیں۔ عمل کے واضح خاکے کے بغیر کسی آئیڈیا کو رائے عامہ قبول نہیں کرتی‘‘۔
اس کے علاوہ ہم سمجھتےہیں کہ:
۱- موقف، نقطۂ نظر یا آئیڈیا پیش کرنے والے دعوتی گروہ کا اندرونی ڈھانچا مستحکم اور یکسو ہو۔ یک سمت ، یک ذہن، پُراعتماد اور ایک دوسرےسے محبت کرنے والے رجالِ کار کے بغیر کسی موقف کا فروغ ممکن نہیں۔ اُلٹی صفوں، پریشاں دلوں اوربے ذوق سجدوں کے حامل لوگوں میں جذبِ اندروں نہیں ہوتا اور جذبِ اندروں کے بغیر جدوجہد کا جذبہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں داعیانِ خیر کی قیادت کو ہرسطح پر اور ہرلمحہ بیدار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
۲- اللہ کی حکمرانی، اللہ کے رسولؐ کی حکمرانی، قرآن و سنت کی حکمرانی جیسے آفاقی اور انقلابی بیانیے کو لے کرچلنے والےرجالِ کار کے لیےضروری ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ پر کسی اور حکمرانی کا پرتو نہ پڑنے دیں۔خصوصاً ایسے مفادات اور کاروبار کہ جن سے اُن کے موقف اور نظریے کی نفی ہوتی ہو، مثلاً ایسی مالی سرگرمیاں جن سے ذاتی مفادات کا شبہہ پڑتا ہو۔