ہر آنے والا دن تعلیم وتحقیق کی دوڑ میںبہترسے بہترین کا تقاضا کرتا ہے، لیکن پاکستان میں آنےوالاہر دن تعلیم کی تباہی کا نوحہ سناتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی ملک میں تعلیم و تحقیق کا مرکز و منبع اس کی یونی ورسٹیاں ہوتی ہیں، جہاں تحقیق و جستجو میں مگن ماہرین اور نوجوان محققین کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی یونی ورسٹیاں اس باب میں ماتم کے مقبرں کی تصویر پیش کرتی ہیں ، خصوصاً ۲۰۰۰ کے بعد نجی شعبے میں یونی ورسٹیوں کا جو سیلاب آیا ہے ، اس نے تو علم و تحقیق کی روایات کو روند کر رکھ دیا ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل پاکستان کے ایک نام وَر محقق ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر ان کی فکرمندی میں رچی دردمندی نے اس کتاب کی صورت گری کی ہے۔ مختلف اوقات میں انھوں نے تعلیمی زبوں حالی، یونی ورسٹیوں کے تدریسی ماحول کی پامالی اور تحقیقی ذوق کی روزافزوں بربادی پر قوم کو باربار متوجہ کیا۔ یہ مضامین اس کتاب میں یک جا ملیں گے۔
یہ کتاب یونی ورسٹی اساتذہ اور تعلیمی انتظامیات سے وابستہ اہل حل و عقد کے لیے ایک تازیانہ ہے، جسے ان کے دل و دماغ پر برسنا بھی چاہیے اور ان کی آنکھیںکھلنی بھی چاہییں۔ کتاب جتنی قیمتی ہے، اس کی اشاعت اتنی ہی بے توجہی سے کی گئی ہے۔ (س م خ)
مشرقی پاکستان کا المیہ اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ باریک بینی اور کھلی آنکھوں کے ساتھ اس المیے کی تَہ تک پہنچا جائے اور پھر اپنےموجودہ حالات کا جائزہ لے کر، مستقبل کو محفوظ اور شان دار بنانے کی کوشش کی جائے۔
زیرنظر کتاب، مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے مغربی پاکستان آنے والے ایک بنگلہ نژاد شہری کی تحریر ہے، جنھوں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے ان اسباب کی نشان دہی کی ہے کہ جو پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنے۔ ان کا خیال ہے کہ ’مجیب صرف پاکستان کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا‘ (ص۲۰۵)، یعنی ’توڑنا نہیں چاہتا تھا‘ اور اس مفروضے کی تائید کے لیے وہ آخری زمانۂ جیل میں مجیب کی اس گفتگو کو بنیاد بناتے ہیں، جس کے راوی میانوالی سنٹرل جیل کے جیلر تھے۔ لیکن قرائن و شواہد اس دعوے کی تائید نہیں کرتے ، کیونکہ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اوررفقا اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجیب کی سربراہی میں ۱۹۶۳ء سے پاکستان سے علیحدگی کی سازشوں میں مصروف تھے۔ اس لیے، مجیب کا جیل میں مذکورہ بیان ،ان کے تخریبی عزائم سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ (س م خ)