بھارت میں ۱۹۹۸ء کے عام انتخابات کے موقعے پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں پارٹی اتحادی سطح پر انتخابی منشور تیار کیا جا رہا تھا ، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو سونپا گیا تھا ۔ منشور کی تیاری کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کشن ایڈوانی، جارج فرنانڈیز، موجودہ نائب صدر وینکییا نائیڈو، پرمود مہاجن، شرد یادو اور چند دیگر لیڈران شامل تھے۔
گوروسوامی پر واجپائی صاحب نے زور دیا کہ ’’ملک کو جوہری طاقت بنانے اور تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے وعدے منشور میں شامل ہونے چاہییں‘‘۔ جوہری دھماکا کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں کچھ زیادہ بحث نہیں ہوئی، صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس کو مبہم انداز میں لکھا جائے گا۔ تبدیلی ٔمذہب کے مسئلے پر اجلاس کے شرکا تذبذب میں تھے، کیونکہ تبدیلی ٔمذہب پر پابندی لگانا، بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح، یعنی مذہبی شخصی آزادی کے منافی تھا۔
بھارت اور پاکستان کے جو لوگ بے جا غلط فہمی کا شکار ہوکر واجپائی کو ’سیکولر رواداری‘ کا منبع اور ’امن کا دیوتا‘ سمجھتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ آنجہانی وزیر اعظم واجپائی، لازمی طور پر اپنی دھوتی کے نیچے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کی نیکر پہنتے تھے۔ واجپائی کا اصرار تھا کہ ’’اگر تبدیلیٔ مذہب پر مکمل طور پرپابندی عائد نہیں کی جاتی ہے، پھر بھی اس کو لازمی طور پر ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے ساتھ نتھی کردینا چاہیے‘‘۔ گورو سوامی نے پاس میں بیٹھے لال کشن ایڈوانی کو کان میں بتایا کہ ’’یہ وعدہ آج کربیٹھنا ایک تنازعے کا باعث ہوگا، جب کہ بی جے پی اقتدار کے بالکل قریب ہے‘‘۔ ایڈوانی ، جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے رتھ یاترا کی قیادت کرکے، بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا تھا، اب اپنا تاثر (Image) درست کروانے میں لگے ہوئے تھے۔ اپنی اسی انتہاپسندانہ مشکل کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے وہ وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے قبول کیے جانے کی دوڑ سے نکال دیے گئے تھے، اور دُور رس نتائج پر نظررکھنے والے پارٹی کے شہ دماغوں نے واجپائی کو آگے کردیا تھا۔ گوروسوامی کے بقول ۱۹۹۸ءمیں ایڈوانی ہندو قوم پرستی کا جامہ اتار کر اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی قدامت پسند لیڈر کے بطور متعارف کروانا چاہتے تھے‘‘۔
مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ منشور جاری ہو رہا تھا ، دہلی کے ہماچل پردیش بھون میں تقریب کے بعد ظہرانے کا اہتمام تھا۔ میں جس کھانے کی میز پر بیٹھا تھا، اسی پر ایڈوانی ، معروف صحافی راج دیپ ڈیسائی اور چند دیگر صحافی بھی تشریف فرما ہوئے تھے۔ چونکہ تب تک بی جے پی کے لیڈران کو حکومت کی ہوا نہیں لگی تھی، اس لیے ان تک رسائی آسان تھی۔ ڈیسائی نے کسی غیر ملکی مصنف کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’’دنیا بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خائف ہے‘‘۔ تو ایڈوانی نے سوال کیا کہ ’’جرمنی میں کرسچن ڈیموکرٹیک پارٹی، امریکا میں ری پبلکن اور برطانیہ میں ٹوری پارٹی کام کررہی ہیں تو بطور کنزر ویٹو پارٹی کے بی جے پی سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
اس اجلاس میں جب گوروسوامی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حوالہ دے کر تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون بنانے کے وعدے کو منشور میں شامل کرنے سے انکار کردیا، تو ’امن کے دیوتا‘ واجپائی نے غصّے سے لال پیلا ہوکر کہا کہ ’’ہارورڈ اور اوکسفرڈ کے ڈگری یافتہ لوگ، تبدیلیٔ مذہب کی شدت اور ہندو سماج کے بچاؤ کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ ایڈوانی نے مداخلت کرکے واجپائی کا غصّہ ٹھنڈا کرکے کہا کہ ’’اقتدار میں آنے کے بعد اس پر سوچا جاسکتا ہے‘‘۔ وزیراعظم بننے کے بعد واجپائی نے ایک عوامی جلسے میں اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ ’’اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے‘‘۔ ان کی اس تقریر کے فوراً بعد مشرقی صوبہ اڑیسہ میں ایک آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم پرتاپ سارنگی آج کل مرکزی حکومت میں وزیر ہیں۔ گوروسوامی تب تک حکومت کے اقتصادی مشیر مقرر ہو چکے تھے۔ واجپائی کی تقریر اور پادری کی ہلاکت کے سانحے کے بعد انھوں نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھ کر وزیرا عظم واجپائی کا نام لیے بغیر تبدیلی ٔمذہب کی مخالفت کرنے والوں کی خوب خبر لی۔ چند روز بعد ہی واجپائی کی ایما پر انھیں حکومت کی پیش کردہ ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیا۔
آج اس واقعے کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی ٔمذہب کے احق کو سخت مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگر ے بین المذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں، جب کہ لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔
۲۰۱۷ءمیں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا بگل بج گیا، تو موجودہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میرے علم میں آئے۔اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی:’’اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندؤ) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی ۱۰۰ لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ اس پروپیگنڈا کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دیا گیاہے۔
اترپردیش کے مشرقی حصے میں تو معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ایک خاتون ساتھی رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہات خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کا’شُدھی کرن‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔وہیں پر ہمیں بنجاریہ گاؤں کی ۱۷ سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغواکرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ نکلی۔ صرف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وا ئی گئی تھیں۔
چوپیہ رام پور گاؤں میں ’زبیدہ‘ اب ’امیشا ٹھاکر‘ کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔ہلکےنیلے اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو ۱۳سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننھیال ہے، جن کے لیے زبیدہ مرچکی ہے۔ اس کے ماموں عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا اور اب وہ ایک زندہ لاش کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘‘۔ پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’طاقت وَر ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی‘۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لیے زبیدہ یا امیشہ نے ہم کو بتایا کہ ’’میں اب زندگی کے ساتھ سمجھوتا کر چکی ہوں، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں ۳۸۹ نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔
دہلی واپس آکر ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ یوگی کو، جو ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھ پور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے ، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ نوش کرتے دیکھا۔ بیٹھنے کی اجازت مانگنے کے بعد ان سے اس ’ریورس لو جہاد‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ بھارت میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق ۱۷کروڑ سےزیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے اور نہ ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزار سکیں؟‘‘یوگی صاحب کہنے لگے :’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں، اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندوؤں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے کہا: ’’مسلمان، ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ پھر ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی کے لیے کورم کی گھنٹی بجائی جارہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے کہا:’’مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہیے‘‘۔
آج یہی ادتیہ ناتھ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ ہیں، اور وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شا کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔
اتر پردیش کی بی جےپی حکومت نے ۲۶نومبر۲۰۲۰ء کو ایک آرڈی ننس منظور کیا اور پھر ۴۸گھنٹوں کے اندر اندر اس کا اطلاق کرکے لکھنؤ میں ایک ایسی شادی کو رکواتے ہوئے ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ اسی طرح ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لے کر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر اذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساںکیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ اب رفتہ رفتہ مسلمانوںکو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل مقامی پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی ، اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا ، کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ پیدایشی اور نسلی مسلمان ہی ہے۔ جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیمیں باضابطہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات سے صرفِ نظر کرتی آئی ہیں۔
بین المذہبی شادیوں میں مسلمانوں کو ’لوجہاد‘ کا نام دے کر مطعون کیا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان لڑکے ہندوؤں کے بھیس میں دیہاتوں اور قصبوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو محبت کے جا ل میں پھنساتے ہیں۔ شادی کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ لڑکا مسلمان ہے،تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پھر لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے‘‘۔
اس بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور لغو پروپیگنڈے کو نام نہاد تحقیقی رنگ دینے کی غرض سے ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے، جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے دلائے جاتے ہیں، جب کہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات، یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے‘‘۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ایسی پروپیگنڈا بریگیڈ کے مطابق ’’ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔
اب ان کو کون بتائے کہ اگربھارت میں رہنے والے تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو اس کے باوجود ۹۸کروڑ ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نئے ’لو جہاد‘ کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اترپردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے ثبوت نہ مل رہے ہوں ، تو ’لو جہاد‘ کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کی طرف دیکھ لینے ہی کی پاداش میں انھیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے اوربنایا جاسکتاہے۔ ۲۰۱۳ء میں دہلی سے صرف ۱۰۰کلومیٹر دُور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریباً ۶۰؍ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں مردوںاور عورتوں کی آبادی کا تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گاؤںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گاؤں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی مواقع پر لڑکیاںگاؤں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے میں ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابطہ طور پر کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔
چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی ’اسرائیلی عربوں‘ (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) پر بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔ اس سارے پروپیگنڈے کا ماخذ۲۰۱۰ء میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ ’’اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا‘‘۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پروپیگنڈے کو عام کرنے میں خاصی دل چسپی دکھائی، کہ ’’یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں‘‘، تاکہ بقول ہٹلر ’’اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے‘‘۔ ایڈولف ہٹلر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مین کیمف (Mein Kampf) میں لکھا ہے: ’’چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں‘‘۔ بالکل اسی طرح کا کھیل ۸۰برس کے بعد اب بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔
حیر ت کا مقام ہے کہ '’لو جہاد‘ کا یہ مفروضہ۲۰۰۶ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ ۲۰۰۹ء میں کرناٹک کی ہائی کورٹ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ ’’محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ہمارے ریکارڈ پر نہیں ہے، تاہم ۲۵جون۲۰۱۴ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان ۲۶۶۷ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ مگر پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں، یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا‘‘۔
چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرنے جیسے امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمایندہ ہیں، انھیں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹائی جائے اور منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فضا برقرار رکھی جائے۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے نسل پرست بی جے پی کی فکر مندی کو دوچند کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی خانگی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں اور نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ اسی بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔