یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ جب کارل مارکس کا معاشی نظام، اشتراکیت، روس میںفروغ پارہا تھا۔ اس نظام سے مغرب کی سرمایہ دارحکومتیں خائف تھیں۔ اس زمانے میں، جب چاروں طرف اشتراکی لہر کا شور تھا۔ اقبال ایک بہت بڑادعویٰ کرتے ہیں ع
مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے
قدیم ایران میں مزدک نامی ایک شخص گزرا ہے، جس نے سب سے پہلے اجتماعی ملکیت (زر، زمین اورزن) کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال اشتراکیت کو ’مزدکیت‘ کے نام سے پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرمایہ داری کا اصل مقابلہ اسلام سے ہوگا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اشتراکیت کا خاتمہ ہوجائے گا اور سرمایہ داری کا اصل مقابلہ اسلامی نظام سے ہوگا، مگرآج یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ۱۹۹۰ء میں اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا اور’تہذیبوں کے تصادم‘ کا نظریہ پیش کرتے ہوئے مغربی مفکرین نے پکارا کہ مغربی تہذیب سے اصل مقابلہ اسلامی تہذیب ہی کا ہے۔ اس نکتے کو سردست یہاں چھوڑکر اقبال کے اس شعر پرغوروفکر کرتے ہیں:
جو حرف قُلِ الْعَفْوَ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
’قُلِ الْعَفْوَ‘ قرآن کے دو الفاظ ہیں۔ ان الفاظ میں کون سی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ جس کےنمودار ہونے کے اقبال منتظر ہیں؟ دراصل یہاں بھی اقبال بہت بڑے راز سے پردہ اُٹھانے والے ہیں۔ کیونکہ اس شعرسے پہلے وہ قرآن کا ذکرکرتے ہیں ؎
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
اگرچہ اسلام کا ظہور مکّہ میں ہوا، اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد ۱۳سال مکّہ میں گزارے، مگر وہاں اسلامی معاشرے کی تشکیل نہ ہوسکی، کیونکہ مکّے کے قریش تو مسلمانوں کی جان کے دشمن تھے۔ یہ اعزاز مدینے کے حصے میں آیا۔ قرآن نے ہجرت کے دوران نازل ہونے والی سورۃ الحج میں اس کی نشان دہی کردی تھی:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ(الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گےاور بُرائی سے منع کریں گے۔
اب چونکہ اسلامی معاشرے کے قیام کا وقت آگیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرح سے ریاست ِ مدینہ کے خدوخال بیان کردیے۔ ہجرت کے بعد حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترتیب سے اسلامی معاشرے کی بنیادیںاُٹھائیں۔ صلوٰۃ کے نظام کے لیے مسجد نبویؐ، قریش اور انصار کے درمیان مواخات اور میثاقِ مدینہ جیسےاقدام کیے۔ ان چیزوں سے ہم واقف ہیں، مگر ان کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ نے معاشی نظام کی بھی تکمیل کی تھی، جس سے ہم اکثروبیش تر غافل اوربے خبر رہے۔ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ؟ (ہم کیا خرچ کریں؟) ایک ایسا سوال ہے جو ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کے تناظر میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا۔دراصل ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کا ایک مقصد ’مشترکہ خوش حالی‘ (Shared Prosperity) کا حصول تھا، جس کے باعث ایمان داری اورباہمی فلاح پر مبنی معاشی جدوجہد وجود میں آئی۔
اگرہم مدنی زندگی کے ۱۰ برسوں کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں، تو سیرتِ نبویؐ کے حیران کن پہلو سامنے آتے ہیں۔ ہجرت کےپہلے سال ہی آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر مکمل کرلی۔ مواخات اور میثاقِ مدینہ ہوا۔ زکوٰۃ بھی اسی سال فرض ہوئی اورآپؐ نے معاشی نظام کا نفاذ شروع کرنے کے لیے پہلی اسلامی مارکیٹ قائم کی۔ عبداللہ بن ابی کی مخالفت بھی اسی سال میں شروع ہوئی۔ اگلے چارسال بیرونی جارحیت اوراندرونی سازشوں کے ہیں۔ انھی پانچ برسوں میں قریشِ مکّہ کے حملوں (بدر،اُحد اور خندق) اوریہودیوں کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا گیا۔
اسی دوران میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سیاسی اور معاشی نظام کے نفاذ کی تکمیل بھی کی۔ یہ پانچ سال بنیادی اصلاحات (reformation) کا دورہے، جس کے اثرات آنےوالے برسوں میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ چھٹی ہجری میں کفّارِ مکّہ کے ساتھ صلح حدیبیہ ہوئی اور ساتویں صدی ہجری میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت پر مبنی خطوط بھیجنا شروع کیے۔ غالباً اسی عرصے میںکئی صحابہؓ نےسوال پوچھا کہ ’’ہم اپنی آمدنی سے (زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد) دوسروں پر کیا خرچ کریں؟‘‘ اس سوال کا جواب قرآن نے یوں دیا:
يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) اے نبیؐ! لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: ’’جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو‘‘۔
یہاں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تاریخِ انسانی میں اہلِ ثروت کی طرف سے ایسا سوال کبھی نہیں پوچھاگیا۔ اس کی بڑی وجہ قبل از اسلام تجارت کے طورطریقے تھے، جن کے باعث تجارت، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا ذریعہ بن چکی تھی۔ معاشرے میں تاجر کے پیشے کی عزّت نہ تھی۔ قدیم یونان میں اگرچہ علم و دانش کی عمل داری تھی، مگر تجارت اور تاجر کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا۔ اس دور میں ہرطبقے کے لوگوں کا اپنا اپنا خدا تھا، مگر چور، ڈاکو اور تاجر کا ایک ہی خدا (Hermes) تھا۔ یونان کے لوگ تو فلسفہ اور عقل و دانش کے دلدادہ تھے، مگر چور، ڈاکو اور تاجر کو ایک ہی صف میں کھڑاکرنے کی بڑی وجہ ڈکیتی نما تجارت تھی، جس میں تاجر دھوکا دہی اور فریب سے اشیا کی خریدوفروخت کرتے تھے۔
ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے تجارت اور تاجر کو عزّت واحترام کی نگاہ سے دیکھا۔ تجارت کو ایک معزز پیشہ بنایا اور تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد قراردیا۔ اس سلسلے میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ملتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مارکیٹ (منڈی) حرم کی مانند ہے یعنی مسلمان کی زندگی میں مارکیٹ مسجد کی طرح اہم اور پاک ہے۔ ایک اورحدیث میںآتا ہے کہ بازار (مارکیٹ) شیطان سے مقابلے کی جگہ ہے، یعنی زیادہ منافع کی ہوس سے بچاجاسکے۔ سچے تاجر کے رُتبے کے بارے میں فرمانِ رسولؐ نے گویا نجات کا راستہ دکھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ سچے تاجر کا رُتبہ شہدا اور صالحین کے بعد ہے۔ بڑی غورطلب بات ہے کہ ایسا فرمان، طبیب (Doctor) یا کسی اور پروفیشن کے بارے میں نہیں ہے۔ اس حدیث میں پیغمبرانہ بصیرت اور دُور رس پیغام اور دعوت پوشیدہ ہے۔
دورِ حاضر میں تجارت کی تعریف اشیا اور خدمات (goods and services) کی خریدوفروخت کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بازار میں روزمرہ کے استعمال کی چیزیں فروخت کرنے والا شخص ہی تاجر نہیں بلکہ خدمات مہیا کرنے والےڈاکٹر، وکیل اور استاد وغیرہ سب تاجر کے زُمرے میں آتے ہیں۔ اگر یہ سب لوگ دیانت دار ہوجائیں تو انسانی زندگی اس کرئہ ارض پر خوش حالی اور امن کی ضامن بن جائے اور ایسا ہی ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں ہوا تھا۔جب معاشی جدوجہد میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے معاشرے کے ان افراد کے بارے میں سوچا، جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے۔ قرآن نے قُلِ الْعَفْوَ کے مختصر مگر خوب صورت جواب میں معاشیات کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا۔ اقبال نے اسی پوشیدہ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
معاشی جدوجہد انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے اور ہرفرد اپنی صلاحیتوں، ارادے اور دستیاب ماحول کے مطابق حصولِ معاش کی کوشش کرتا ہے مگرمعاشی تگ و دو کے ثمرات یکساں اور ہموار نہیں ہیں۔ معاشی دوڑدھوپ کے نتیجے میں کچھ لوگ بہت آگے نکل جاتے ہیں، جب کہ معاشرے کا بڑا حصہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ ساد ہ الفاظ میں معاشی جدوجہد کے باعث قدرِ زائد (Surplus Value) تو پیدا ہوتی ہے، جسے اکنامکس کی زبان میں بڑھوتری (Growth) کہتے ہیں مگر اس کی منصفانہ تقسیم (Judicious Distribution) معاشی نظام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ منصفانہ تقسیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دستیاب بڑھوتری (Given growth) کو معاشرے کے سارے افراد میں یکساں طورپر تقسیم کر دیا جائے بلکہ معاشی دوڑ دھوپ کے لیے ایسا سازگار ماحول (Enabling environment) پیدا کر دیا جائے، جس میں معاشی ثمرات ممکن حد تک سارے معاشرے تک پہنچائےجاسکیں ۔ دورِ حاضر کی زبان میں اسے مشترکہ خوش حالی یا مربوط معاشی ترقی کہتے ہیں۔
قدرِ زائد یا بڑھوتری کی تین بڑی بنیادی وجوہ ہیں، جن میں دو تو فطری ہیں اور تیسری انسانی۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں وسائل کے حوالے سے فطری ودیعت (Natural Endowment) مختلف ہے۔ کچھ علاقے معدنی دولت (تیل، سونا اور ایسی دوسری اشیا) سے مالا مال ہیں، جب کہ کچھ محروم۔ اسی طرح انسانی زندگی بھی استعداد اور میلان طبیعت (Aptitude) کے باعث ایک جیسی نہیں ہے۔ اس فطری غیرہمواری کے باعث کچھ علاقے/ملک دوسرے علاقوں/ملکوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اور ایک ہی علاقہ میں کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ خوش حال ہوجاتے ہیں۔
قدرِ زائد کی افزایش کی تیسری شکل انسانی ہے، یعنی سود کا کاروبار جس کے باعث سرمایہ کے ثمرات (return on capital) چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کے باعث دولت کی تقسیم انتہائی غیرہموار ہوجاتی ہے جیساکہ دورِ حاضر کی معاشی ترقی سےظاہرہے۔ قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم کا انتظام آج کی معاشیات کا سب سے اہم مسئلہ ہے، جسے ہم انسانیت کے تینوں معاشی نظام (مدینہ اکنامکس، سرمایہ داری اوراشتراکیت) کی زبان میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔
سرمایہ داری کی بنیاد سودی کاروبار اور Survival of the Fittest ہے۔ سودی کاروبار کی دوبڑی قباحتیں ہیں: ایک تو پیداواری عمل میں سرمایہ کامعاوضہ بطورِ سود دوسرے عاملینِ پیداوار (زمین، محنت اورآجر) سے زیادہ ہے۔ مشہورمعاشیات دان تھامس پکٹی نے یہ بات معاشی اعداد و شمارسے ثابت کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو کوئی اپنےزورِ بازو سے جس قدر کما لے وہ سب اس کا ہے۔
چونکہ سود کے کاروبار میںدوسرے عاملینِ پیداوار (خاص طور پر محنت) کا استحصال ہے، اس لیے ضروری تھا کہ Survival of the Fittestکے نظریے کا سہاا لیا جائے تاکہ دھوکا، فریب اور استحصال کے ذریعے کمائی ہوئی دولت چھپائی جاسکے اور اس کا ارتکاز ہوسکے۔ لہٰذا سرمایہ داری نظام میں قُلِ الْعَفْوَ جیسا سوال نہ پوچھا جاسکتا ہے اورنہ کبھی پوچھا گیا۔ سودی کاروبار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آخرکاریہ ساری انسانی زندگی کو اپنےکنٹرول میں لے لیتا ہے۔ معاشی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کے ادارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے معاشی نظام سیاسی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ غالباً اسی لیے شروع میں اکنامکس کےمضمون کو Political Economy کہا جاتا تھا۔ چونکہ پچھلے ۵۰۰ برس سے سودی کاروبار سماجی و معاشی زندگی کا مرکز و محور ہے، اس لیے اس عرصے میں سودی کاروبار نے وہ زری طاقت (Money Might) حاصل کرلی ہے جس سے حکومت کی فیصلہ سازی کے عمل کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر کا سودی کاروبارحکومت کے تحفظ میں پرورش پاتا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے مالی بحران کے بعد مغرب کے ترقی یافتہ مگر سود زدہ ممالک کے دانش ور اب ایسی باتیں کررہے ہیں، جیساکہ ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی کتاب Barren Metal: A History of Capitalism as the Conflict between Labour and Usury کے نام سے ظاہر ہے۔ کتاب کے مصنف ای مائیکل جان کہتے ہیں کہ: Capitalism is state-sponsored usury ۔ سادہ الفاظ میں سرمایہ داری حکومتی تحفظ میں سود کا کاروبار ہے۔ آج کل امریکا اور یورپ میں ’مشترکہ خوش حالی‘ (Shared Prosperity) کا بہت شوروغوغا ہے مگر نظامِ سرمایہ داری اس کا حامل نہیں ہے۔
قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم اشتراکیت میں انتہائی صورت میں سامنے آئی۔ اٹھارھویں صدی کے صنعتی انقلاب سے اگرچہ معاشی ترقی کے سارے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے، مگر ایک سوسال بعدہی دولت کی انتہائی غیرمساوی تقسیم اوراس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونےوالی غربت اورمزدور کی کسمپرسی اورزبوں حالی نے انسانیت کے تیسرے معاشی نظام، اشتراکیت کو جنم دیا۔ اس نظام کے بانی کارل مارکس کا کہنا تھاکہ ’’پیداواری عمل میں محنت بہت اہم عامل پیداوار (factor of production) ہے جس کے باعث قدرِ زائد پیدا ہوتی ہے مگر قدرِ زائد کا زیادہ حصہ سرمایہ لے جاتا ہے‘‘۔
اس صورتِ حال کی وضاحت کے لیے کارل مارکس نے نظریہ قدرِ زائد اور نظریۂ اجنبیت اوربیگانگی (Theory of Alleniation) پیش کیے۔ یہ دونوں نظریے مزدور (have nots) کے بارے میں تھے۔ پہلے نظریے کے مطابق مزدور کو پیداوار کے عمل میں مناسب حصہ نہیں ملتا کیونکہ سرمایہ دار سرمایہ کے زور پر پیداوار کا بڑا حصہ لے جاتا ہے جس سے غربت میں تسلسل کے باعث امیر اورغریب کی خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ غریب آدمی کی ساری زندگی پیٹ کےدوزخ کو بھرنے میں گزرجاتی ہے اوروہ اعلیٰ انسانی اقدار سے اجنبی اوربیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ نظریۂ اجنبیت اوربیگانگی ہے۔ انسانی غربت اوراجنبیت کو ختم کرنے کے لیے کارل مارکس نے تمام ذرائع دولت کو حکومتی کنٹرول میں لینے کی بات کی جس پر پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد۱۹۱۷ء سے روس میں عمل ہوا۔ دراصل یہ قدرِ زائد کو نظم میں لانے کی کوشش تھی جس کانعرہ تھا:’’ہر ایک کو اس کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق ملے‘‘۔ یہ کوشش حقیقت میں معاشی ثمرات کو جبری طور پر تمام انسانوں میں برابر برابر تقسیم کرنے کا ایک غیرفطری عمل تھا۔ شروع کی کچھ کامیابیوں کے بعد یہ نظام ۷۰سال کے قلیل عرصے میں ہی زمین بوس ہوگیا۔
قُلِ الْعَفْوَ کا حصول ایسے ماحول کا متقاضی ہے جس میں ایک طرف افراد کو معاشی جدوجہد کی آزادی ہو، وہ محنت اور جانفشانی سے کام کریں اور منافع حاصل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد اخلاقی اقدار کے بھی حامل ہوں، جس کے تحت وہ محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اپنی مرضی سے ان لوگوں پر خرچ کریں جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں۔ مگر سرمایہ داری میں سودی کاروبار کے باعث ایسے ماحول کی کوئی گنجایش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مدینہ اکنامکس کی طرح اشتراکیت میں بھی سود کی مکمل ممانعت ہے مگر قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم کا اشتراکی تجربہ اس لیے بُری طرح ناکام ہوگیاکہ یہ طریق کار غیرفطری تھا۔ وسائلِ پیداوار پر جبری حکومتی قبضہ اور ہرقسم کی الٰہیات اور اخلاقیات سے مکمل دُوری نے ثابت کردیا کہ ایسے نظام کو دوام اوراستحکام حاصل نہیں ہوسکتا۔
روسی ادیب مائیکل شولوخوف کی دو کتابیں (اور ڈان بہتارہا اور کنوارے کھیت) اشتراکی نظام کی عملی کارکردگی پر بہت مؤثر انداز میں روشنی ڈالتی ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اجتماعی ملکیت کے تصور کی سمجھ نہیںآتی تھی۔ کمیون (Commune) سسٹم کے تحت گاؤں کے سارے گھوڑے اب سارے گاؤں کی ملکیت تھے۔ ناول میں ایک کسان کا ذکرہے جو انقلاب سے پہلے ایک گھوڑ ے کا مالک تھا۔ انقلاب کے بعد اس کی ڈیوٹی فارم ہاؤس پر لگا دی گئی، جس میں سارےگاؤں کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔ اشتراکی فلسفہ پر لیکچر کے دوران اسے بتایا جاتا کہ اب وہ سارے گاؤں کے گھوڑوں کا مالک ہے۔ کسان کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ اس کا تو اپنا گھوڑا بھی اس کی ملکیت میں نہیں رہا تھا، مگر گھاس ڈالتے وقت وہ زیادہ ہری گھاس اس گھوڑ ے کوڈالتا جو کبھی اس کا اپنا ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ایک افسانوی واقعہ ہے مگر اس سے بہت بڑی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کہ ملکیت کا تصور (sense of ownership) انسانی سرشت میں شامل ہے۔ انقلاب کے بعد دو نسلوں نے بڑی محنت سے کام کیا جس سے پہلے ۵۰برسوں میں روسی معیشت نے خوب ترقی کی۔ تیسری نسل میں محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کے لیے کوئی جذبۂ محرکہ (motivation to work) موجود نہیں رہا۔ الہامی اور اخلاقی جواز کی نفی کے باعث اشتراکیت وہ جوش اور ولولہ قائم نہ رکھ سکی، جس سے مشترکہ خوش حالی وجود میں آتی ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے معاشیات منتشر حالت (fragmented) میں موجود تھی مگر معاشی نظام ابھی تک وجودمیں نہیں آیا تھا۔ معاشیات کی تاریخ کے مطابق سرمایہ داری کا آغاز تو ایڈم سمتھ نے ۱۷۷۶ء میں کیا، جسے عام طور پر پہلا معاشی نظام کہا جاتا ہے۔ اس کے ۱۰۰ سال بعد کارل مارکس نے دوسرے معاشی نظام، اشتراکیت کی بنیاد رکھی۔یہ صورتِ حال بہت بڑے سوال کو جنم دیتی ہے۔ کیا تینوں ابراہیمی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) معاشی نظام کے بغیر ہیں؟ حالانکہ تینوں مذاہب سرمایہ کا استعمال بطور سود کے بارے میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ یعنی سود تینوں مذاہب میں معاشی جدوجہد کا حصہ نہیں ہے مگر تینوں مذاہب میں قرض (بغیر سود کے) کی گنجایش موجود ہے۔ تورات میں اپنے بھائی کی مشکل وقت میں مدد کرنے کو کہا گیا ہے۔ بائبل میں قرض دینے کے بعداسے معاف کرنے (debt forgiveness) کا تصور بہت اہم ہے۔ بیان ہے کہ سات سال بعد اپنے بھائی اور دوست کا قرض معاف کر دیا جائے۔ بائبل میں اسے خداوند کی ادائیگی (Gods's Release) کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں یہی بیانیہ قرضِ حسن اور قُلِ الْعَفْوَ کے نام سے ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ سرمایہ داری انسانیت کا پہلامعاشی نظام ہے۔ تینوں مذاہب نے معاشی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں سود کو معاشی عمل کا حصہ نہیں بنایا اور سود کے انسانی زندگی پر بُرے اثرات کی بات کی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں چھپنے والی کتاب Religion and Finance میں سود کا ابراہیمی مذاہب کے تناظر میں ذکر کرنے کے بعد ۲۰۰۸ء کے مالی بحران کی بڑی وجہ سودی کاروبار کو بیان کیا ہے۔
حقیقت میں معاشیات اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی سماجی زندگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکلیں بدلتی رہیں۔ ابتدائی معاشی حالت کو ہم شکارچی دور (Hunter Gathere Age) سے جانتے ہیں جس میں خوراک اور پناہ گاہ ہی دو بنیادی مسئلے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں بہتری آتی رہی۔ منظم معاشرے اور حکومتیں وجود میں آئیں۔ ساتویں صدی میں دُنیا میں ایران اور روم دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ان ممالک کی معاشیات بھی بہت مضبوط تھی۔ بڑی بڑی تجارتی منڈیوں میں زرعی اجناس اور صنعتی اشیا کی خریدوفروخت ہوتی۔ عوام اور بادشاہ ضرورت کے وقت ساہوکاروں سے اُدھار لیتے۔ ملکیت کے تصور کو قبولیت ِ عام کا درجہ حاصل تھا۔ تاجر کے پیشے نے تجارت کے فروغ کی نئی راہیں کھولیں۔ کرنسی کی ایجاد سے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری آئی۔
معاشیات کے یہ بنیادی ستون تو موجود تھے مگر ابھی تک وہ معاشی قوانین اور ضوابط وجود میں نہیں آئے تھے، جنھیں ہم معاشی نظام کہہ سکیں، مثلاً مارکیٹ میں اشیاکی قیمتیں کیسے طے ہونی ہیں؟ اکثرقیمتیں منڈی کی رسد اور طلب کے مطابق ہی ہوتی تھیں مگر حکومتی مداخلت عام تھی۔ قحط اورسیلاب کی صورت میں حکمران قیمتیں اپنی مرضی سے مقرر کرتے۔ سودی قرض کی واپسی بھی بادشاہ اور امرا کی منشا کے مطابق تھی۔ تجارت اور تاجر کے پیشے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ملکیت (زمین، جاگیر وغیرہ) کا عطا ہونا یا ضبط ہوجانا، بادشاہ کی خوشی یا ناراضی کے مطابق ہوتا۔ اسلام کے ظہور نے اس منتشر معاشیات کو قانون و ضوابط عطا کرکے اسے ایک معاشی نظام میں منظم کر دیا، مثلاً تجارت کو معزز پیشہ قرار دیا اور تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد بنادیا۔ قیمتوں کے تعین (determination of prices) کوہرحال میں منڈی کی طلب اور رسد سے جوڑ دیا۔ سود کو منع مگر قرض کی ادایگی کو لازمی کردیا۔ ایمان داری اور فلاح کو تجارت کی بنیاد بنا دیا۔ مارکیٹ میں اشیا کی خریدوفروخت پرٹیکس ختم کرکے زکوٰۃ کا نظام متعارف کرایا۔ صاحب ِ ثروت لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ان لوگوں کا بھی خیال کریں جو معاشی طور پرکمزور ہوں۔ یہ نظام قرآن میں نازل ہوا اور خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں نافذ کیا۔ اس طرح مدینہ اکنامکس دُنیا کا پہلا معاشی نظام ہے، جس میں دورِحاضر کےمعاشی نظام کےتمام اجزائے ترکیبی نہ صرف موجود ہیں بلکہ آج کے معاشی مسائل خاص طورپر ’مشترکہ خوش حالی‘ کا حل بھی دستیاب ہے۔
ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کی بنیاد ایمانیات اور اخلاقیات پر ہے۔ یہ ترتیب قرآن کے دو الفاظ صلوٰۃ اورزکوٰۃ فراہم کرتے ہیں۔ دل چسپ بات ہے کہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی یہی ترتیب ہے۔ سورئہ مریم میں حضرت عیسیٰؑ جو ایک دن کے بچے ہیں لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے نبی بنایا اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے صلوٰۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے‘‘۔ قرآن کی اس آفاقی ترکیب (صلوٰۃ اور زکوٰۃ) کو جب ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں نافذ کیاگیا تو ایک مثالی معاشرہ وجود میں آیا جس میں تجارت معاشی فلاح پھیلانے کا ذریعہ بن گئی اور لوگوں نے خود اپنی مرضی سے محنت اور ایمان داری سے کمائی ہوئی آمدنی سے ان لوگوں پر خرچ کیا جو معاشی طور پر کمزور تھے۔ قُلِ الْعَفْوَ کی یہی حقیقت ہے جس کے نمودار ہونے کے علامہ اقبال منتظر ہیں۔
درج بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’مشترکہ خوش حالی‘ کے لیے ضروری ہے کہ معاشی نظام سود سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط اخلاقی اقدار پرمبنی ہو۔ دونوں مشہور معاشی نظام (سرمایہ داری اور اشتراکیت) مشترکہ خوش حالی کےدرج بالا بنیادی لوازمات سے خالی ہیں۔ یہ اعزاز صرف ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کو حاصل ہے، جس میں یہ دونوں عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں اوراس معاشی نظام کی بنیاد دانش و بُرہان پر ہے۔ پچھلے ۵۰سال معاشیات کی تاریخ میں بہت اہم ہیں کیونکہ ان برسوں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری بطورِ معاشی نظام اپنی چکاچوند (glitter and shine) کھو بیٹھے۔ ۱۹۹۱ء میں اشتراکیت کے خاتمے پر نظامِ سرمایہ داری کی افادیت اور فعالیت کے بڑے ترانے گائے گئے۔ساری دُنیا کی معاشی قیادت سرمایہ داری کو سونپ دی گئی۔ اس بات کو بڑے متکبرانہ انداز میں بیان کیا گیا کہ سرمایہ داری ہی انسانیت کا اکلوتا معاشی نظام ہے جس سے معاشی فلاح کے چشمے پھوٹیں گے۔ ۲۰۰۸ء کے مالی بحران نے ان سارے دعوؤں کی نفی کردی۔
قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے ۱۹۴۸ء میں کہہ دیا تھا کہ کوئی معجزہ ہی اسے مکمل تباہی سے بچاسکتا ہے۔ علامہ اقبال تو اس سے پہلے ہی سرمایہ داری کے سفینےکے ڈوبنے کی بات کرچکے تھے۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ قُلِ الْعَفْوَ کی عالم گیر حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کو یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جائے۔ اپنے نوجوانوں کو اسلام کی گمشدہ معاشی جنّت سے آگاہ کیا جائے کیونکہ اکیسویں صدی کی دُکھی انسانیت ایسے ہی معاشی نظام کی متلاشی ہے اور علّامہ اقبال بھی یہی چاہتے تھے:
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نُورِ بصیرت عام کر دے