دعوت وتبلیغ کے دوران قرآن سنانے کا التزام جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اسی چیز کا اہتمام کرنا آپؐسے تربیت پانے والے صحابہ کرامؓ کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔
نبوت کے پانچویں سال قریش کے مظالم سے تنگ سو کے قریب مسلمان مردوخواتین جب ہجرت کر کے حبشہ پہنچ گئے تو قریش کو یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ ان کے آبائی دین کے باغی ایک دوسرے ملک میں امن وعافیت کی زندگی گزاریں اور ان کا دین وہاں پھلے پھولے۔چنانچہ قریش کے ایک اجتماعی فیصلے کے تحت سیاسی وسفارتی امور کے ماہر عمروبن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کی دورکنی سفارت حبشہ کے دربار میں بھیجی گئی۔ اس سفارت نے وہاں پہنچ کر پہلے درباری امرا اور عیسائی پیشواؤں کو قیمتی تحائف پیش کر کے انھیں اپنے موقف کا ہم نوا بنایا۔انھیں اس نئے دین کے خطرے سے آگاہ کیا جس کے ماننے والے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے تھے اور کہا کہ یہ لوگ آپ کے مذہب کے لیے بھی اتنا ہی خطرہ ہیں جتنا ہمارے آبائی دھرم کے لیے۔
پھر نجاشی کے دربار میں پہنچ کر اسے شاہی آداب کے مطابق سجدہ کیا، رؤسائے مکہ کی طرف سے اعلیٰ عربی نسل کا گھوڑا اور نفیس ترین ریشمی جبہ بطور نذرانہ پیش کیا اور باد شاہ سے درخواست کی کہ آپ کے ملک میں ایک نئے دین کے پیرو کار ہمارے پیچھے بھاگ کر آ گئے ہیں ۔ ہمیں ان کے سرپرستوں نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انھیں ہمارے ساتھ واپس بھیج دیں تا کہ وہ آپ کے پُرامن ملک میں اپنی تبلیغ سے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں جیسے انھوں نے مکہ میں کیا ہوا ہے ۔ درباری امرا اور پادریوں نے ان کے موقف کی حمایت کی لیکن نجاشی نے کہا کہ دوسرے فریق کی بات سنے بغیر فیصلہ کرنا خلاف انصاف ہو گا۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دربار میں حاضری کا حکم ہوا۔ جب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے تو انھوں نے شاہی آداب کے مطابق نجاشی کو سجدہ نہ کیا تو درباریوں نے اس پر ناک بھوں چڑھایا۔ مہاجرین کے ترجمان حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے عمروبن عاص کے پیش کیے گئے موقف کی ایک ایک دلیل کا توڑ کیا، پھر دین اسلام اور اللہ کے رسولؐ کی رسالت کے خصائص اور نمایاں تعلیمات بتائیں۔ اور آخر میںنجاشی کی خواہش پر سورئہ مریم، سورئہ کہف، سورئہ روم اور سورئہ عنکبوت کے ابتدائی حصے تلاوت کیے۔
اکثر روایات میں صرف سورۂ مریم کے ابتدائی حصے کے پڑھنے کا ذکر ملتا ہے لیکن شیخ عبداللہ بن محمدبن عبدالوہاب نے کتاب مختصر سیرت الرسول میں ان چار سورتوں کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ چاروں سورتیں ہجرت حبشہ کے قریبی زمانے میں نازل ہوئی تھیں اور سورۂ کہف کی ابتدا میں دین مسیح قبول کرنے کے نتیجے میں باد شاہ کے مظالم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لینے والے چند نوجوانوں کا تحسین آمیز ذکر ہے ۔ سورۂ روم میں روم کے عیسائی حکمرانوں کے غلبے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جب کہ اس وقت ایران نے رومی عیسائیوں کا بھرکس نکال دیا تھا اور سورۂ مریم میں حضرت یحییٰ ؑو مریم ؑکی پاکیزگیِ کردار اور حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدایش کا ذکر ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ مسیحی باد شاہ کے دربار میں حکمتاً حضرت جعفرؓ نے ان حصوں کا انتخاب کیا۔
تمام روایات میں ذکر ہے کہ آیات الٰہی سن کر نجاشی پر رقّت طاری ہو گئی ،آنکھیں پُرنم ہوگئیں اور بے اختیار وہ پکار اُٹھا:’’خدا کی قسم! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔ یہ تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیح ؑنے دی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ان کا زمانہ ملا‘‘۔
نجاشی نے مکے کی سفارت کو کہا کہ میں ان لوگوں کو تمھارے سپرد نہیں کروں گا۔اگلے دن عمروبن عاص نے پادریوں سے مل کر باد شاہ کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کے لیے دربار میں یہ مسئلہ اٹھادیا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ ؑکو عیسائیوں کی طرح اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ یہ بڑا نازک مسئلہ تھا۔ اگر مسلمان نجاشی کے عقیدہ کے خلاف اپنا عقیدۂ توحید بیان کرتے تو نجاشی کی مذہبی عصبیت ان کے خلاف بھڑک سکتی تھی لیکن مسلمانوں نے سچی بات کے کہنے کا عزم کیا اور بھرے دربار میں کہا کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بندے ، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری اور پاکدامن حضرت مریم ؑکی طرف القاء کیا اور یہ کہنے کے بعد حضرت جعفر طیارؓ نے سورئہ مریم کے ابتدائی دورکوع تلاوت کیے۔
یہ سن کر نجاشی نے اپنی مسواک سے ایک بار یک تنکا لیا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’واللہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے، حضرت عیسیٰؑ اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔ یہ ضرور وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ؑ نے دی تھی، جن کا تذکرہ ہم انجیل میں پاتے ہیں۔اللہ کی قسم! اگر باد شاہت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے جوتے اٹھاتا‘‘۔ اپنے غلط عقیدے کی عصبیت میں جب پادری بُڑ بُڑائے تو نجاشی نے انھیں بھی یہی حقیقت بیان کی ۔ نجاشی نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والوں پر جرمانہ عائد کر دیا۔ اہل مکہ کے تحائف انھیں واپس لوٹا دیئے۔ شاہی مصلحت کے تحت اس نے اپنے قبولِ اسلام کا اظہار تو نہ کیا البتہ چند سال بعد وہ علانیہ مسلمان ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت جعفر طیارؓ نے دونوں مرتبہ اپنی تقریر کے دوران قرآن سنایا اور اس کے حیرت انگیز اثرات مسلمانوں کے حق میں ظاہر ہوئے (مسند احمد، فتح الباری، ج۲، ص ۱۳۰، البدایہ،ج۳،ص ۶۹، بیہقی، طبرانی،ج۶، ص۳۱)۔
یہ کلام الٰہی کا ہی اعجاز تھا کہ کافروں نے درباری امراء وپیشواؤں کو اپنا ہم نوا بنایا، باد شاہ کو قیمتی تحائف دیے ،باد شاہ کےعقیدے کے خلاف ایک نازک بحث کو چھیڑا ، اس کے باوجود باد شاہ مسلمانوں کے حق میں مہربان رہا۔ایک حکمران قوم کے دربار میں اس کے عقیدے کے خلاف عقیدے کے بیان کو نہ صرف برداشت کرنا بلکہ سراہنا قرآن کی تاثیر سے ہی ممکن ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ کافاتح قرآن ہے۔ ابو نعیم نے امام زہری سے مروی یہ حدیث بیان کی کہ انصار مدینہ نے حضرت معاذ بن عفراء اور رافع بن مالک کو حضوؐرکی خدمت میں یہ پیغام دے کر مکے بھیجا کہ آپؐ اپنے ہاں سے ہمارے پاس ایک ایسا آدمی بھیج دیں جو لوگوں کو کتاب اللہ سنا کر دعوت دے ۔ کیونکہ اس کی بات ضرور قبول کی جائے گی۔ چنانچہ حضوؐر نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ مدینے بھیج دیا۔
اسی مضمون کی حامل ایک تفصیلی روایت حضرت عروہؓ بن زبیر سے مروی ہے کہ جب انصار قبول اسلام کے بعد یثرب چلے گئے تو اگلے سال حج کے موقع پرانھوں نے حضور ؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ دعوت دینے کے لیے کتاب اللہ کا عالم ان کے پاس بھیجیں ۔حضورؐ نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب روانہ کر دیا۔ وہ بنی غنم میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھیرے۔ وہ لوگوں کو حضورؐ کی باتیں بتاتے اور قرآن پڑھ کر سناتے، حتیٰ کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسلمان ہو گئے اور ان کے سرداروں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یثرب میں حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ’مُقرِی(قرآن پڑھانے والا)کے نام سے پکارا جاتا تھا(حلیۃ الاولیاء،ج۱،ص۱۰۷)۔ طبرانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت مصعب ؓ نے قرآن سنا کر انھیں حضورؐ اور دین کی طرف دعوت دی۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے قرآن کے ذریعے کس طرح دعوت دی اور اس کے کیا اثرات ظاہر ہوئے؟ اس بارے میں عبداللہ بن ابی بکر کی ایک طویل اور دلچسپ روایت اوّلین سیرت نگار ابن اسحاق نے بیان کی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ وہ حصہ بیان کریں گے جو براہِ راست ان کی دعوت بالقرآن سے متعلق ہے:
حضرت مصعبؓ نے نہایت تحمل سے کہا: ’’ذرا بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو ۔ اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات سے رک جائیں گے‘‘۔ اسید نے جواباً کہا:’’تم نے انصاف کی بات کی ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نیزہ زمین میں گاڑ کر مجلس میں بیٹھ گئے ۔حضرت مصعب ؓ نے اسلام کے بارے میں ان سے بات کی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ قرآن سنتے ہی اُسید کے چہرے کی چمک اور رقت سے انھیں محسوس ہو گیا کہ یہ اسلام ضرور قبول کر لیں گے۔ چنانچہ اُسید نے کہا:یہ کتنا اچھا اور عمدہ کلام ہے۔پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئے۔اس کے بعد حضرت اُسیدؓ نے ان دونوں سے کہا:’’میرے پیچھے ایک شخص ہے، میں اسے تمھارے پاس بھیجتا ہوں۔ اگر اس نے تمھاری بات مان لی تو ان کے قبیلے کا کوئی فرد بھی ان سے پیچھے نہ رہے گا‘‘۔یہ دیکھ کر حضرت اُسید ؓ بن حضیر جلدی جلدی سعد بن معاذ کے پاس گئے اور انھیں ایسی بات کہی کہ وہ مجلس کی طرف چل پڑے۔
سعد بن معاذ نے بھی کھڑے کھڑے انھیں بُرا بھلا کہا اور پھر اسعدؓ بن زرارہ سے کہا:’’اللہ کی قسم !اگر تم میرے خالہ زاد بھائی نہ ہوتے تو تم ہمارے محلے میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے‘‘۔حضرت مصعب ؓ نے ان سے کہا:’’اللہ کے بندے بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو، اگر پسند آئے تو قبول کر لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات پر اصرار نہیں کریں گے‘‘۔ یہ سن کر سعد نے کہا:’’آپ نے انصاف کی بات کہی ‘‘۔یہ کہہ کر انھوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور مجلس میں بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے اسلام پیش کیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ انھوں نے سورئہ زخرف کی ابتدائی آیات سنائیں۔ قرآن سنتے ہی حضرت سعدؓ کے چہرے کی چمک اور نرمی سے دونوں مبلّغین نے محسوس کر لیا کہ یہ بھی اسلام قبول کر لیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ اور شام تک بنی عبدالا شہل کے تمام مردوعورت مسلمان ہو چکے تھے(البدایہ،ج۳،ص ۱۵۲)۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ط (المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعالِ فسق ہیں۔
میں ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا لیکن وہ اس کا انکار کرتے رہےبالآخر کچھ عرصے بعد وہ مسلمان ہو گئے(طبرانی ، مستدرک حاکم، ج۳،ص ۶۴۱، ہیثمی، ج۹، ص ۳۸۷)۔
lصحابہ کرامؓ میدانِ جنگ میں بھی دعوت بالقرآن کا اہتمام کرتے تھے اور وہ اس طریقے پر حضوؐر کے بعد بھی کاربند رہے۔واقدی کے مطابق جنگ یرموک (عہد فاروقی میں لڑی گئی) کے دن رومی لشکر کے سرداروں میں سے جرجہ نامی ایک سردار نے حضرت خالدؓ بن ولید سے اسلام کے متعلق بہت سے سوال کیے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیے۔ ایک جواب یہ دیا کہ نبیؐ کے پاس آسمان سے خبریں آتی تھیں۔ وہ ہمیں قرآن سناتے تھے اور ہمیں معجزے دکھاتے تھے۔ جرجہ کو جب اطمینان ہو گیا تو اسی موقع پر وہ مسلمان ہو گئے اور پھر رومی فوج کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے(البدایہ، ج۷،ص ۱۲، الاصابہ، ج۱، ص ۲۶۰)۔
عہد رسالتؐ میں باطل کے اوپر نظریاتی برتری کا سب سے بڑا ہتھیار مسلمانوں کی نظر میں قرآن تھا۔ جس کے سننے سنانے کے مواقع مسلمان پیدا کرتے رہتے تھے۔
مکے میں ایک مرتبہ اصحابِ رسولؐ آپس میں کہنے لگے کہ قریش نے آج تک با ٓواز بلند تلاوت نہیں سنی۔ کوئی ایسی صورت ہو کہ ان کے سامنے کلام الٰہی سنایا جائے۔یہ سن کر نوخیز لڑکے عبداللہ بن مسعودؓ نے فوراًخود کو اس کام کے لیے پیش کیا۔اگلی صبح جب حسب معمول حرم میں قریش کی مجالس برپا ہو گئیں تو حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے با ٓواز بلند قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ مشرکین مکہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں سنتے رہے بالا ٓخر مشتعل ہو کر ابن مسعودؓ پر پِل پڑے۔ ان کے جسم کے کئی حصوں سے خون بہنے لگا۔ لیکن وہ پٹتے جا رہے تھے اور قرآن سناتے جا رہے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے جو سورت شروع کی تھی وہ مکمل ہو گئی ۔ ابن مسعودؓ جب سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ اصحابِ رسولؐ کے پاس پہنچے تو انھوں نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا :’’اے ابن ام عبد! اسی خدشے کی وجہ سے ہم تمھیں روک رہے تھے‘‘۔یہ سن کر دبلے پتلے ابن مسعودؓ نے کہا:’’اللہ کی قسم! مشرکین کے بڑے بڑے سردار مجھے اتنے کمزور کبھی دکھائی نہ دیئے تھے جتنے وہ آج دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے توارادہ کر لیا ہے کہ کل پھر انھیں کلام الٰہی سناؤں گا۔ یہ سن کر سب صحابہؓ نے کہا:جس کلام کو سننا مشرکین کو سخت ناگوار تھا، اس کو تم نے ان کے کانوں تک پہنچانے کا حق ادا کردیا۔ اتنا ہی کافی ہے‘‘(سیرۃ ابن کثیر،ج۱،ص۴۴۴)۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ بھی کافروں کو قرآن سنانے کے لیے دستیاب مواقع کو پورا استعمال کرتے تھے ۔حضرت ابو بکرؓ جب حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل کر مکہ سے دور چلے گئے تو راستے میں انھیں قبائل احابیش کا سردار ابن دغنہ مل گیا۔ وہ آپؓ کے اخلاق فاضلہ کا قدر دان تھا۔ آپؓ کو اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ حضرت ابو بکرؓ جب اپنے گھر میں بلند آواز سے تلاوت کرتے اور کافروں کی عورتیں، بچے اور نوجوان مکانوں پر چڑھ کر اور دیواروں سے لگ کر آپؓ کی پُرسوز تلاوت قرآن سننے کے لیے جمع ہونے لگے تو کافروں نے ابن دغنہ پر دباؤ ڈالا۔ بالآخر اس نے حضرت ابو بکرؓ کو کہا کہ اگر وہ قرآن بلند آواز سے پڑھیں گے تو میں اپنی پناہ جاری نہ رکھ سکوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھے ایسی پناہ کی ضرورت نہیں جس میں مجھے تلاوت بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہ ہو (ابن ہشام ،ص۳۲۳)۔
اللہ کے رسولؐ جس طرح دعوت دیتے ہوئے تلاوت قرآن کا اہتمام فرماتے تھے ایسے ہی لوگوں کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کی تربیت کے لیے بھی تعلیم قرآن کا اہتمام فرماتے۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد میں مکہ میں حضوؐر کے پاس ٹھیرگیا۔ آپؐ نے مجھے اسلام سکھایا اور میں نے کچھ قرآن بھی پڑھ لیا‘‘(طبرانی)۔
روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضورؐ کی تعلیم وتربیت کے باعث صحابہ کرامؓ خود بھی اپنے طور پر تعلیم قرآن کی مجالس کا اہتمام کرتے اور حضورؐ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ۭ (النساء۴:۴۱) ’’اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ‘‘۔پھر آپؐ نے فرمایا: ’’رُک جاؤ‘‘۔ میں جب تلاوت سے رک گیا تو دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے(بخاری، کتاب التفسیر)۔
قرآن کو سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا وہ عمل ہے جس کے کرنے والے کو اللہ کے رسولؐ نے سب سے بہتر قرار دیا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (بخاری، نسائی، ترمذی، ابوداؤد)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے ہر نو مسلم کے لیے دین کو سمجھنے کے لیے قرآن سیکھنا ضروری قرار دیا۔گویا یہ ہر مسلمان کی تربیت کے لیے لازمی نصاب ہے۔
عمیر بن وہب جمحی نبیؐ کو قتل کرنے کے ارادے سے مکے سے مدینے پہنچا۔ حضوؐر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے قیدی بیٹے کی رہائی کے لیے آیا ہے جو جنگ بدر میں قید ہو گیا تھا۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہواور تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم کعبہ میں بیٹھ کر منصوبہ بنایا ہے۔ صفوان نے تیرا قرض اتارنے اور تیرے اہلِ وعیال کے زندگی بھر کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لی ہے۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ صفوان اور عمیر کے سوا کسی اور کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ عمیر سمجھ گئے کہ یہ ضروراللہ نے انھیں بتایا ہے چنانچہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔اب رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: فقّھوا ،اپنے بھائی میں دین کی سوجھ بوجھ پیدا کرو، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو(سیرت ابن ہشام، ص۵۹۵) ۔
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ بھی حضورؐ کی طرح دعوت وتبلیغ میں تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ حضورؐ نومسلموں کو قرآن کے مختلف حصوں کی تعلیم کا اہتمام کرتے اور تعلیم قرآن کا اہتمام کرنے والے صحابہ کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ کافروں کو قرآن سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کی عظمت کلام کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ مشرکین بھی قرآن کی تاثیر کلام سے خوف زدہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کے سننے سنانے کے عمل کے نتیجے میں ان کے غلبے کا ٹوٹ جانا یقینی ہے:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶ (حم السجدہ۴۱:۲۶) یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو، اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔
آج ہم جدید تعلیم یافتہ اور مغربی فکر سے متاثر لوگوں کو جدت پسندانہ مباحث سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ دشمن کو زیر کرنے کے لیے ہمیں ہتھیار اس چیز کو بنانے کی ضرورت ہے جس کا توڑ ہمارے دشمن کے پاس نہیں ہے اور وہ ہے اللہ کا کلام۔