وفاقی حکومت نے یکساں قومی نصاب کے مطالبے کی پذیرائی اس بنیاد پرکی تھی کہ ’’ملک میں تعلیم کے مختلف سلسلےچل رہے ہیں۔ جس سے طبقاتی تفریق اور معاشی و معاشرتی ناہمواری جنم لیتی ہے۔ کہا گیا کہ ’’اگر اشرافیہ کے اسکولوں، عام نجی اسکولوں،سرکاری اسکولوں اوردینی مدارس کے طالب علموں کو ایک کمرے میں اکٹھا بٹھا دیا جائے تو وہ آپس میں بات چیت بھی نہیں کرپائیں گے۔ یہ صورتِ حال قومی یک جہتی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ پھر دینی مدارس اور پبلک سیکٹر اسکولوں سے پڑھ کر آنے والے طلبہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جس سے معاشرتی تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام طلبہ کے لیے یکساں تعلیمی نصاب ہونا چاہیے، تاکہ قوم کےسب بچوں کوزندگی کی دوڑ میں ایک طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہو‘‘۔
یکساں قومی نصاب کے لیے، مندرجہ بالا موقف بالکل درست اور سچائی پر مبنی ہے لیکن عدل و انصاف اور زندگی کے یکساں مواقع دینے کے لیے صرف یکساں قومی نصاب ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی سہولیات، تعلیمی و تدریسی ماحول،تربیت یافتہ اساتذہ میں یکسانیت ہو اور امتحانات اور سنداتِ تعلیم عطا کرنے کا نظام بھی ایک جیسا ہو۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ بیرونی امتحانی بورڈز کے امتحانات، یعنی اولیول، اے لیول، آئی بی اور آئی جی سی ایس ای میں بیٹھنے والے اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے غلبے کے علاوہ جو طالب علم بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا مقامی تعلیمی بورڈز کا امتحان دیتے ہیں، وہ قومی تعلیمی نصاب ہی پڑھ کر آتے ہیں، چاہے ان طلبہ کا تعلق دولت مند طبقے کے اسکولوں سے ہو، سرکاری اسکولوں سے ہو، یا وہ دینی مدارس سے پڑھ کر مذکورہ امتحانات دے رہے ہوں۔ البتہ جو طلبہ صرف دینی مدارس سے پڑھ کرعامہ، ثانویہ یا شہادت العالمیہ کا امتحان دیتے ہیں، وہ صرف درسِ نظامی کا نصاب پڑھتے ہیں۔
ان گزارشات سے یہ معلوم ہوا کہ فرق امتحانی نظام اورسرٹیفکیشن (certification) کے نظام سے پڑتا ہے، نیز تعلیمی سہولیات اور تعلیمی و تدریسی ماحول کے ساتھ اساتذہ کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت فرق پیدا کرتی ہے۔ موجودہ حکومت محض نصاب کے ذریعے سے یکسانیت پیدا کرنا چاہتی ہے تو منطقی اور عملی سطح پر یہ ایک بے ثمر کوشش ہوگی۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کا یکساں قومی نصاب بُری طرح متنازع ہوچکا ہے۔ اسلامی اور پاکستانی ذہن کے حامل ماہرین تعلیم نصاب کے سیکولر لبرل چہرے پر تنقید کررہے ہیں اور اس امر پراعتراض کررہے ہیں کہ نئی نسل کی سیرت و کردار کی تربیت کےلیے اسلامی اقدار کو بنیاد بنانے کے بجائے ہیومنزم کی سیکولر، لبرل اقدار کو نصاب میں سمویا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکولر لبرل لابی اپنے بیرونی سرپرستوں کی زیرہدایت اسلامیات کے نصاب پر اعتراضات اُٹھا رہی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تویکساں قومی نصاب میں بدرجۂ اَتم مانا گیا کہ اسلامیات کے نصاب کے علاوہ دیگر مضامین کی ترتیب و پیش کش میں اسلامی اقدار اور اسلامی تصورِ حیات شامل نہیں ہوگا ۔ اب ان کااعتراض یہ ہے کہ قرآن کی تدریس، بعض سورتوں، دُعاؤں اور احادیث کی تعلیم اور حفظ شامل نصاب کیوں ہے؟ نیز یہ کہ مجوزہ نصاب تو دینی مدارس کے نصاب سے بھی زیادہ بوجھل ہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو ’بنیاد پرستی‘ شروع کی گئی تھی اس نصاب میں تو اس سے بھی زیادہ ’بنیاد پرستی‘ شامل ہے۔
ہم جب اسلامیات کے موجودہ مجوزہ نصاب کا جائزہ لیتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ قرآن کی تدریس تو ۱۹۶۰ء سے پرائمری اسکول پر لازم ہے۔ نیز اسلامیات کا موجودہ نصاب جنرل پرویز مشرف دور میں ۲۰۰۲ء کے نصاب، ۲۰۰۶ء کے نصاب اور صوبوں کے اسلامیات کے موجودہ نصاب سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہے۔ اب جوسیکولر لبرل لابی ’اسلامیات‘ کےنصاب پر اعتراض کناں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامیات کے علاوہ پورے نصاب کو لبرل سیکولر شکل دینے کے بعد اب وہ اسلامیات کے نصا ب کا بھی تیاپانچا کرنا چاہتی ہے۔
۱۳؍اگست ۲۰۲۰ء کو جب وفاقی وزیرتعلیم نے یکساں قومی نصاب کو سرکاری سطح پر جاری کرکے انٹرنیٹ پر ڈالا تو ماہرین نصابیات نے اس کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے اور خالص تکنیکی سطح پر سنجیدہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں اور حکومتی دعوؤں کی قلعی کھل رہی ہے۔ خاص طور پر دولت مند حلقوں سے جو نام نہاد مخالفانہ انگریزی پریس کے مضامین اور ٹویٹس کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو جناب شفقت محمود وفاقی وزیرتعلیم نے یکے بعد دیگرے متعدد اعلان کیے:
۱- پہلا اعلان یہ تھا کہ ’’ہم اولیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں لگا رہے، وہ حسب ِ معمول جاری رہیں گے‘‘۔ اب اگربیرونی امتحانات جاری رہتے ہیں تو بیرونی نصابات کی تدریس بھی جاری رہے گی۔ تعلیم کی بیرونی سرٹیفکیشن بھی جاری رہے گی اور یکساں قومی نصاب طاق نسیاں رہے گا۔
۲- دوسرا اعلان یہ فرمایا کہ ’’ہم جو نصاب لا رہے ہیں، اس کی حیثیت بنیادی (Core Curriculum) کی ہوگی۔ ادارے اور صوبے اگر اس میں اضافے کرنے چاہیں تو وہ آزاد ہیں اور ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس اعلان کے بعد یکساں قومی نصاب کے غبارے سے تو ہوا بالکل نکل گئی۔
۳- پہلے بارباراعلان ہوتا رہاکہ ’’وفاق درسی کتب تیارکرے گا جو تمام ادارے اپنے ہاں لاگو کریں گے’’ لیکن اب جناب شفقت محمود نے اعلان فرمایا ہے کہ ’’وفاق صرف ماڈل درسی کتب تیارکرکے صوبوں کو اور اداروں کو دے دے گا‘‘۔ لیکن یہ متعلقہ اداروں اور صوبوں کی مرضی ہوگی کہ وہ ان کتب میں کمی بیشی کرکے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر شائع کریں اور رائج کریں۔
۴- یکساں قومی نصاب میں وفاقی وزارتِ تعلیم نے فیصلہ کیا تھا کہ ’’پری اسکول سے ہی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا‘‘۔ قومی سطح پر اس کی مخالفت ہوئی۔ ماہرین تعلیم اوراساتذہ نے مخالفت کی، لیکن صرف اشرافیہ کے اسکولوں کے مالکان نے اس کی حمایت کی۔ اس پر بھی جناب وزیرتعلیم نے پسپائی اختیار فرمائی ۔ پہلے اعلان کیا کہ:’’ صوبوں کو آزادی ہوگی کہ وہ جس زبان میں تعلیم دینا بہتر سمجھتے ہیں وہ زبان بطورِ ذریعۂ تعلیم استعمال کریں‘‘۔ یہ بیان مبہم اور شرانگیز تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی اور آخرکار وزیرمحترم نے چار و ناچار اعلان فرمایا کہ اُردویا صوبائی زبان ذریعۂ تعلیم ہوگی، کیونکہ سندھ میں پہلے ہی اسکول کی سطح پر سندھی اور اُردو ذریعۂ تعلیم ہیں‘‘۔
۵- معلوم ہوا کہ جو نام نہاد ماڈل درسی کتب تیارہورہی ہیں، وہ اُردو میں لکھی جارہی ہیں اور شاید نومبر کے آخر تک مسودات مکمل کرلیے جائیں گے۔ اس کے بعد اعلان کے مطابق یہ ماڈل درسی کتب صوبوں کو اور اداروں کو مہیا کی جائیں گی اور اس کے بعد وہ اپنا تیاری کا عمل شروع کریں گے۔ اس صورت میں نہیں نظر آتا کہ مارچ تک نئے نصاب کے مطابق درسی کتب صوبائی سطح پر سرکاری اورپرائیویٹ اداروں کو مہیا کی جاسکیں گی اور حکومت کا یہ ہدف کہ مارچ ۲۰۲۱ء سے پری اسکول سے پانچویں جماعت تک نیا نصاب نافذ اور شرمندئہ تعبیر ہوسکے۔
سطور بالا کی بحث سے صاف نظرآتا ہے کہ مہنگی فیسوں والے اسکولوں (Elite Schools) میں یکساں قومی نصاب نافذ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں اور نہ وہ ادارے ہی ایسا کوئی نصاب اپنے ہاں نافذ کریں گے۔ کیونکہ جب او لیول اور اے لیول کے کیمبرج کےامتحانات اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی تو اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب ِ معمول اپنا تعلیمی پروگرام جاری رکھیں گے۔
صوبائی سرکاری اداروں اور نچلے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں کا تعلق صوبائی حکومتوں اور صوبائی تعلیمی بورڈز سے ہے۔ وہ بھی وفاقی نصاب کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ آئین کے مطابق یہ ان کی صوابدید پر ہے اور اس کے لیے صوبائی قوانین موجود ہیں ۔ رہ گئے دینی مدارس تو ہماری نظر میں یکساں قومی نصاب کا اصل ہدف دینی مدارس ہوں گے۔ پچھلے سال کے آخر میں وزارتِ وفاقی تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان جو تحریری معاہدہ ہوا ہے، اس میں صراحت کے ساتھ یہ شق موجود ہے کہ دینی مدارس اپنے ہاں یکساں قومی نصاب نافذ کریں گے۔ لہٰذا، اب تان یہاں آکر ٹوٹ رہی ہے کہ:
۱- اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب معمول او لیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات کے لیے اپنے طلبہ کو تیار کرتے رہیں گے اور اس صورت میں ظاہرہے کہ یکساں قومی نصاب ان کے ہاں نافذ نہیں ہوگا اور نہ ان کے موجودہ ذریعۂ تعلیم کی پالیسی ہی میں کوئی فرق پڑے گا۔
۲- صوبائی حکومتیں اپنی ضروریات کے مطابق یکساں قومی نصاب اور ماڈل درسی کتب میں ترمیم و اضافہ کرسکیں گی۔
۳- دینی مدارس معاہدے کے مطابق وزارتِ وفاقی تعلیم کا تیار کردہ نصاب اوردرسی کتب اپنے ہاں نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ ان کے امتحانات کے لیے الحاق بھی وفاقی امتحانی بورڈ سے ہوگا ، لہٰذا آخری صورتِ حال کے مطابق یہ سارا دھندا محض دینی مدارس کو کنٹرول میں لانے کے لیے ہورہا ہے۔ باقی رہا یکساں قومی نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم تووہ پہلے کی طرح ناآسودہ ایک خواب ہی رہے گا۔ اب یہ دینی مدارس کے وفاقوں،دینی تنظیمات اور دینی و سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اس مسئلے پر غورکریں اور قومی مفاد میں درست فیصلوں کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
اگر یہ صورتِ حال چلتی رہی تو واضح ہے دینی تشخص کو بہت سخت دھچکا لگے گا۔ اگرچہ ہم دینی مدارس کی موجودہ تعلیمی صورتِ حال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ نصاب، تعلیم و تدریس اور امتحان کی سطح پر اصلاح ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ہرگز یہ بھی نہیں چاہتے کہ ’اصلاح کے نام پر‘ ان اداروں کا دینی، علمی، ملّی کردار اور غریب طبقے کے بچوں کے لیے ان کی خدمات کے امکانات کو ہی ختم کر دیا جائے۔ جو معاہدہ اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان اوروزارتِ وفاقی تعلیم کے مابین ہوا ہے، اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے نتیجے میں دینی مدارس کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔