۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۲۹ء میں ہوئی، جب علامہ، مدراس (چنائے) میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے کہ ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوط مودودی، دوم،ص ۶۹) اور تیسری ملاقات اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں (لاہور میں) ہوئی۔ ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع جمال پور، پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادی اور سیّدمودودیؒ شامل تھے (چودھری نیاز علی خاں اور مولانا مودودی کی باہمی خط کتابت کے لیے دیکھیے: سیّد اسعد گیلانی کی تصنیف اقبال، دارالاسلام اور مودودی۔اسلامی اکادمی لاہور، ۱۹۷۸ء)۔ مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے کام یہی ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر ۱۹۶۳ء)۔
دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام پڑھ چکے تھے اور ترجمان القرآن بھی ان کے زیرمطالعہ رہتا تھا۔ چنانچہ بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّد صاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء، ص ۲۳)
علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی نے بھی مسلسل اصرار کیا اورمولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور سے واپس دکن واپس پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ کے نام ملتا ہے (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے)۔ اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادکار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ خط میں مولانا نے لکھا کہ ’’آپ نے ہماری معنوی قوت میں بہت کچھ اضافہ کردیا ہے‘‘ اور پھر بتایا کہ ’’اکتوبر۱۹۳۷ء میں خاص طور پر انھی مسائل پر بحث کرنے کے لیے مَیں علامہ اقبالؒ سے لاہور میں ملا تھا… ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ خوب غوروخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ مختصراً مَیں یہاں عرض کرتا ہوں:
’’حالات کی رفتار نے خود بخود مسلمانوں کو گھیر گھیر کر ایک اجتماعی ہیئت کی طرف لانا شروع کردیا ہے،ہندستان کے مختلف حصوں میں ان کو جو پیہم ضربات لگ رہی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرطرف سے بھاگ بھاگ کر مسلم لیگ کی طرف آرہےہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان میں ایک تنظیمی ہیئت پیدا نہیں ہوئی ہے، جو فکر اور وحدتِ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ درحقیقت ان کے سامنے اپنا نصب العین بھی واضح نہیں ہے۔مختلف خیالات، مختلف مقاصد اور مفادات اور خصائل رکھنے والے لوگ اس طرح جمع ہوگئے ہیں جیسے جنگل میں آگ لگنے پر مختلف گلے ہرطرف سے بھاگ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، تاہم یہ تنظیمی ہیئت پیدا کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس وقت کوئی الگ جھنڈا بلند کرنا، بجاے مفید ہونے کے، اس تالیفی عمل میں مانع ہوجائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
’’ مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے، اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی۔
’’سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگےرہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس مفکورے کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کے لیے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۹۸-۲۰۴)
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔
مولانا ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو دکن سے جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے (ابوالاعلیٰ مودودی، علمی و فکری مطالعہ، ص ۵۶۸)۔ اگلے ماہ وہ لاہور آنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل کو انھیں ایک خط لکھا کہ’’ ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقع لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لایئےتاکہ ملاقات ہوجائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ اس خط کا ڈاکٹر جاویداقبال نے زندہ رُود ، سوم میں بھی ذکر کیا ہے۔ علامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے، اس پر مولانا مودودیؒ کو شدید صدمہ ہوا اور انھوں نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا۔ دیکھیے کہ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں وہ صدمے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں:
علامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی، دفعتاً دل بیٹھ گیا۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بناپر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا… میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا، جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی‘‘(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹)۔
اسی خط میں لکھتے ہیں کہ ’’کچھ خبر نہیں، اللہ کو کیا منظورہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری اور نااہلی کی سزا دی جارہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اس وقت پر اُٹھا لیے جاتے ہیں، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔اب سارے ہندستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکے۔ ہرطرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی، وہ بھی اُٹھا لی گئی۔
’’مجھے جو چیز پنجاب کھینچ کر لائی تھی، وہ دراصل اقبالؒ ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور ان کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اسلام اورمسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسامحسوس کررہاہوں کہ اس طوفانی سمندر میں، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں، دل شکستگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ صرف اس خیال سے اپنے دل کوڈھارس دےرہا ہوں کہ اقبالؒ مرگئے تو کیا ہوا، خدا تو موجود ہے، سب مرجانے والے ہیں، زندہ رہنے والا وہی حی و قیوم ہے، اوراگر وہ تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تو تیری مدد کے لیے اورکچھ سامان کرے گا‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹- ۱۹۱)۔
علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریک اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں علامہ اقبالؒ کی رہنمائی کا بھی بڑادخل ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہرپیدا ہوئی، اس میں مولانا مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ آیت اللہ خمینی کے انقلابِ ایران میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا میں اسلامی بیداری میں بھی ان کے اثرات برگ و بار لائے۔
بحیثیت مجموعی علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودی، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘(چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘(انواراقبال، ص ۲۱۶)۔
اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّد مودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا کہ جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابواالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد فنون لاہور، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ، ص ۸۷) یہی اثرات ہمیں جدید عالمی تحریکوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے۔ اور تحریک اسلامی کی پیش رفت میں اقبال کے اثرات کارفرما ہیں۔علامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
_______________
حاشیہ
۱ معروف صحافی میاں محمدشفیع (م ش۔ م: یکم دسمبر ۱۹۹۳ء)نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں لکھا تھا: ’’علامہ اقبال اس امرپر نوحہ کناں تھے کہ ہند میں حکمت ِ دین سیکھنے کے لیے اُنھیں دُوردُور تک کوئی فرد یا ادارہ نظرنہیں آتا تھا۔ انھوں نے بڑی تلاش کے بعد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حیدر آباد(دکن) سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان سے خط کتابت کرکے انھیں پنجاب کو اپنی جولان گاہ بنانے کی دعوت دی۔ اس دعوت پر مولانا نے پٹھان کوٹ میں چودھری نیاز علی صاحب (جو کہ ایک مخلص مومن اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے) کے بھرپور تعاون سے دارالاسلام کی بنیاد رکھی‘‘… لیکن جب مولانا مرحوم مسائل نظری میں اُلجھ کر اپنی منطق کا شکارہوگئے تو میں نے حضرتِ علّامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مولانا مودودی بھی ملّا ہی برآمد ہوئے‘‘۔ (نوائے وقت، لاہور، ۲۶؍اگست ۱۹۸۶ء)
اس کالم کے حوالے سے نوائے وقت لاہور (۸ستمبر۱۹۸۶ء) میں پروفیسرآسی ضیائی کا ایک مراسلہ بہ عنوان ’م ش کی خدمت میں‘ شائع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میرے لیے یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ جن علامہ اقبال نے مولانا مرحوم کوخود ہی دکن سے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی (اور آپ [م ش] ہی راوی ہیں کہ اس دعوت کا خط انھوں نے آپ ہی سے لکھوایا تھا) وہ مولانا کی طرف سے اتنے مایوس ہوگئے؟ ریکارڈ پر شہادت تو یہ ہے کہ علامہ کی دعوت پر مولانا ۱۶مارچ [صحیح:۱۸مارچ]۱۹۳۸ءکو پٹھان کوٹ پہنچے تھے اور اس کے بعد علامہ سے ان کا ملنا نہ ہوسکا تھا۔ البتہ اس دوران میں علامہ اپنی تشویش ناک علالت کےپیش نظر ، مولانا کو بار بار ملنے کے لیے بلواتے رہے۔ ا ن کی وفات سے صرف تین دن قبل سیّدنذیرنیازی مرحوم نے علامہ کی طرف سے بھی مولانا کو جلد آنے کے لیےخط لکھا تھا، اوراسی خط میں اپنی طرف سے بھی یہ اضافہ کیا تھا کہ علامہ کی غیریقینی صحت کے پیش نظر، آپ جلدلاہور آکر علامہ سے مل لیجیے۔ (یہ خط بھی محفوظ ہے)۔ گویا ۱۸؍اپریل [۱۹۳۸ء] تک تو علامہ کو مولانا سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، لیکن بعد کے تین دنوں میں مولانا مودودی سے وہ کون سا قصور سرزد ہوگیا کہ علامہ نے انھیں بھی مُلّا قرار دے ڈالا؟ اب کم از کم ہم نیازمندوں کو یہ تو بتا دیا جائے کہ ان تین دنوں میں علامہ کی راے مولانا کے متعلق یکایک کیوں اور کیسے بدل گئی؟ خصوصاً جب کہ یہ وہ دن تھے جب علامہ کی علالت پورے اشتداد پرتھی، اور وہ ہرقسم کی نوشت و خواند سے معذور ہوگئے تھے؟ اس کالم سے پہلے آپ نے (یا کسی اورشخص نے) علامہ کی اس راے کا اظہار نہیں فرمایا، حالا نکہ یہ بہت ہی اہم تبصرہ تھا اوراسے مولانا تک جلد سے جلد پہنچاناضروری تھا۔ آج جب نہ مولانا اس دنیا میں موجود ہیں، نہ علامہ، آپ ہمیں بتارہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مودودی بھی نرا مُلّا ہی نکلا۔ پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سے’نظری مسائل‘ تھے جن میں مولانا اُلجھ کر ’اپنی منطق کا شکار‘ ہوگئے؟ستمبر ۱۹۳۷ء میں جب مولانا، لاہورآکر علامہ سے ملے ،فروری ۳۸ء تک وہ سلسلہ مضامین لکھا جارہا تھا جو اسی فروری میں ترجمان القرآن اورپیغام حق پٹھان کوٹ میں مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش (حصہ اوّل) کے نام سے شائع ہوا تھا، جسے علامہ نے پسند بھی فرمایا تھا۔ اس کے بعد تواپریل تک کچھ لکھنے کی نوبت ہی نہیںآئی، کیونکہ مولانا حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں پہنچ کر ٹھکانے سےبیٹھتے بیٹھتے بھی انھیں خاصا عرصہ لگ گیا ہوگا‘‘۔
راقم کا خیال ہے کہ میاں صاحب کوعلامہ کی بات سننےیا اس کو روایت کرنے میں تسامح ہوا ہے۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ علامہ اقبال رسالہ ترجمان القرآن پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔اور مَیں نے حضرتِ علامہ اقبال کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘۔ مولانا کے بارے ایسی توقع رکھنے والے (اقبال) سے یہ بعید ہے کہ انھوں نےمولانا مودودی پر کوئی منفی ریمارک دیا ہو۔چنانچہ یہ کہ سیاق و سباق میں م ش کی روایت کا وہ حصہ درست معلوم نہیں ہوتا ، جس سے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔یہ امربھی تعجب خیز ہے کہ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۸۶ء تک میاں صاحب نے سیکڑوں کالم لکھے، مگر کبھی اس روایت کا ذکر نہیں کیا۔ کم و بیش نصف صدی تک معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت ’پردۂ خِفا‘ میں رکھا ؟