ساورکر کے عقیدے کے مطابق: ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ شہریت کے متنازعہ قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر، آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔
آج ’سَنگھ‘ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو سی اے اے، این آر سی، این پی آر کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے، وہ دراصل اسی ایجنڈے کو بھارتی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شا تو بس آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کا اندھادھند استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بانیان کون ہیں؟ بھارت کی آزادی کے لیے ان کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات سینیر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی کتاب The RSS: Icons of The Indian Right [صفحات: ۴۹۹، پبلشرز ٹرنکوبار] میں تفصیل سے دیے ہیں۔مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اسے مضبوط شہادتوں اور مسکت دلائل سے ثابت بھی کیا ہے۔ کتاب میں ہیڈگیوار کے علاوہ آرایس ایس کے جن بانیان اور لیڈروں کا تذکرہ شامل ہے، وہ وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا، اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے ہیں۔
آر ایس ایس کے بانیان کی اس فہرست میں آخرالذکر نام دیکھ کر ابتدا میں کچھ حیرت ہوئی تھی، کیونکہ ٹھاکر ے نہ کبھی آر ایس ایس کے رکن رہے اور نہ عہدے دار۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام اس لیے درست ہے کہ اپنی حمایت سے سنگھی نظریات کو انھوں نے زبردست تقویت دی۔
بات سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے شروع ہوئی تھی، لہٰذا اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں ۔کیشوبلی رام ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے پہلے سرسنگھ چالک کی اس بات پر کہ تمام ہندستانی بلالحاظ مذہب ’ہندو‘ ہی ہیں، زور دیتے ہوئے اسے ’ گھرواپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے، اور جو داخل نہ ہو، وہ ’غیر‘ کہلاتا ہے۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد ’ملکی‘ اور ’غیرملکی‘ میں بدل دیا گیا۔ ونایک دامودر ساورکر کے باب میں اس پر تفصیل سے بات کی گئی ہے: ’’ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر طے کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوںکو باہر رکھا گیا ہے۔
آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر کے باب میں اس پر مزید بحث کی گئی ہے۔ جس کے مطابق تقسیم ہند کے بعد جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے، گولوالکر انھیں ’بچے کھچے‘ کہتے اوراس بات پر زور دیتے تھے کہ ہندوپاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ جو ’بچے کھچے‘ مسلمان ہیں، انھیں بھارت سے نکالا جاسکے۔ سنگھی نظریہ ساز شیاما پرشاد مکھرجی کے باب میں بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکرٹری آشوتوش لہری کو ان کی طرف سے دی گئی اس ہدایت کا ذکر ہے: ’’اب ان مسلمانوں کو جو ’ہندو استھان‘ میں رہتے ہیں ہم یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے‘‘۔
دین دیال اپادھیائے چوٹی کے سنگھی قائد نے بھی ’’بلاتفریق مذہب سب ہندو ہیں‘‘پر زور دے کر ’’ان پر جو خود کو ’ہندو‘ نہیں کہتے، ہندستان کے دروازے بند‘‘ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔
کتاب میں آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالاصاحب دیورس پر سب سے طویل اور ایک ہوش ربا باب ہے، جس میں دیورس کے بقول: ’’مہاجر اور گھس بیٹھئے برابر نہیں ہوسکتے، ہندوجو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ مہاجر ہیں، جو اپنے گھر سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے بھاگے، اس لیے آسام کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیرمقدم کریں۔ لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بالکل نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا‘‘۔ یہی وہ ’دلیل‘ ہے، جو آج مودی اور امیت شا کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دےرہی ہے۔
نیلانجن لکھتے ہیں کہ بال ٹھاکرے نے تو باقاعدہ ’بھیونڈی کو مِنی پاکستان‘ کانام دے دیا تھا۔ بعد میں وہ بنگلہ دیشیوں کی بات بھی کرنے لگے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے والے شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے سی اے اے کےحامی ہیں اور ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے، مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ تو خم ٹھونک کر پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ دراصل ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے۔ نیلانجن نے کتاب میں سنگھ اور جرمنی کے نازی، اٹلی کے فاشسٹ اوردیگر ’قوم پرست جماعتوں‘ کے درمیان روابط کو غیرجانب داری کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کے مطابق ہیڈگیوار کے دست راست ڈاکٹر مونجے کی ڈائری میں اس تعلق سے بہت ساری باتیں تحریر ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’’ہندوؤں کومنظم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ماضی کے شیواجی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہمارا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو‘‘۔ برطانیہ کے محکمۂ خفیہ کی رپورٹ کابھی مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ ’’سنگھ کو یہ یقین ہے کہ مستقبل کے ہندستان میں یہ وہی بن جائیں گے جو ’فاشسٹ‘ اٹلی میں اور ’نازی‘ جرمنی میں ہیں‘‘۔
نیلانجن نے کتاب کے ابتدائیے میں تحریر کیا ہے:’’اس کتاب میں، مَیں نے ’’آر ایس ایس کے بانیان کے نظریے ہی نہیں ان کے باطن کو ٹٹولنے کی بھی کوشش کی ہے‘‘ اور وہ اس میں یقینا کامیاب ہیں۔ چاہے ساورکر کی شخصیت کا ظاہروباطن ہو یا ٹھاکرے اور دیورس اور واجپائی کی شخصیت کا، نیلانجن بغیر کسی جانب داری کے سب واضح کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’دیورس ایک طرح سے ’غیرمذہبی‘ تھے۔ لیکن آر ایس ایس کا سر سنگھ چالک بننے کے بعدانھوں نے ’پوجاپاٹ‘ شروع کردی تھی۔ واجپائی نے بی جے پی کے قیام کے بعد کچھ عرصے کے لیے بطور حکمت عملی گاندھی جی کی فکر کواپنایا، مگر پھر دین دیال اپادھیائے کے سنگھی فلسفے پر واپس آگئے‘‘۔
مصنف نے گیارہ کی گیارہ شخصیات کی ’مفاد پرستی‘ اور ’خودغرضی‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ہیڈگیوار کم عمری میں انگریز مخالف تھے، مگر حیرت انگیز بات ہے کہ آرایس ایس کے قیام کے بعد آزادی کی تحریک سے مسلسل غائب رہے۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تاکہ سیاسی زندگی کو آگے بڑھاسکیں۔ ٹھاکرے نے علاقائیت کے نام پر اپنی دکان چمکائی، واجپائی مکھوٹا بنے رہے، اور اسی کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بنے۔
نیلانجن کی یہ کتاب آرایس ایس کے گیارہ بانیان کے ظاہروباطن کو عیاں کرنے کے ساتھ آر ایس ایس کے قیام کی تاریخ کو بھی سامنے لاتی ہے اور آر ایس ایس اور کانگریس کے ’پیچیدہ‘ مگر حیران کردینے والے رشتے اور رابطے بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ رشتہ، محبت اور نفرت کا رہا ہے۔ پنڈت نہرو اور گاندھی جی آر ایس ایس کے سخت مخالف تھے۔مگر سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ایسےبھی کانگریسی تھے، جو آر ایس ایس اور کانگریس کے ’رشتے‘ کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنارہے تھے۔ یہ کتاب ملک کی آزادی کی تاریخ میں آر ایس ایس اور ہندو ’توادیوں‘ کے منفی کردار کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ اور ۱۹۴۷ء سے پہلے اور بعد میں نفرت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
یہ کتاب گاندھی جی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے کردار کی تفصیلات پیش کرتی ہے اور مسئلہ کشمیر، بالخصوص آرٹیکل ۳۷۰ کابھی ذکر کرتی ہے جس کی مخالفت شیاماپرساد مکھرجی نے کی تھی اور کشمیر کی جیل میں ’مُردہ‘ پائے گئے تھے۔ یہ ایک دل چسپ، معلوماتی اور عبرت ناک کتاب ہے جو کمال درجے غیرجانب داری سے لکھی گئی ہے۔ اسے بھارت میں انگریزی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے Tranquebar نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔