ستمبر ۲۰۲۰

فہرست مضامین

کشمیر:غلامی اوربے بسی کا یہ رنگ

افتخار گیلانی | ستمبر ۲۰۲۰ | اخبار اُمت

ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان مظالم کو سہنے کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے بھارت نے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا، اس نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

۷؍اگست ۲۰۲۰ء کو ’پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ (PIPFPD) اور ’جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ‘ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۶صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ The Siege میں کئی دل خراش واقعات قلم بند کیے ہیں ، جن کو پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر نہیں مل سکی ہے۔رپورٹ کے مصنّفین تپن کے بوس، ریتامن چندا، انورادھا بھاسین، راجا سری داس گپتا، جاشودرا داس گپتا، اشوکا اگروال، ایم جے وجین اور دیگر افراد نے دیہات اور قصبوں کا دورہ کرکے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطے میں عدم تعاون کی ایک خاموش تحریک چل رہی ہے، جس سے بھارت نواز پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہے اور سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔

پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر نے وفد کو بتایا کہ: چند ماہ قبل جب مَیں انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا تو راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے مجھ کو سڑک پر سے اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ میں نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر یہ پیش کش کی کہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلاکر یہ کام کروا دوں گا۔ مگر سپاہی یہ جواب سن کر اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ ـ’’ کشمیریوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس متمول اور درمیانی عمر کے تاجر کے سر پر وہ اینٹوں اور گارے کا ٹوکرا زبردستی لاد کر اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

 اسی طرح رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے ، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا ،اس پر بدترین تشدد کیا۔

رپورٹ میں ایک ایسے شخص کی آپ بیتی درج ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینیرنگ سروس اور اس کے حقیقی چچا بھارتی فضائیہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیںاور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ ۲۰۱۸ء میں راشٹریہ رائفلز کی ۵۵ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیا اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس مظلوم کو بلاکر کہا کہ وہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ تک رسائی حاصل کرکے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ [ذاکرراشدبٹ شہید - ۲۴مئی ۲۰۱۹ء]کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ ہے۔ اس گھٹیا حرکت سے انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے انڈین فوج کے کیپٹن کو ۳ لاکھ [یعنی پاکستانی ۵ لاکھ] روپے ادا کرکے اس کو چھڑوایا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس فوج کے اندر جس قدر کرپشن سرایت کر گئی ہے اس کا مَیں چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ پچھلے سال ۵؍ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے ’’کرفیو کی وجہ سے اس دن اپنی فیکٹری میں ہی رُکا رہا۔ مگر میرے گھر پر انڈین آرمی نے دھاوا بولا اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور میرے ۱۵سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر میں کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں احتجاج میں شریک تھا اور پھر چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر مجھ کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب ۱۳سے ۱۵سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو مجھ کو چھوڑدیا گیا ، مگر ان بچوں پر بد نامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انھیں جیلوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔

دل دہلا دینے والی اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ۱۲سے ۱۵ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان گرفتار شدہ اور دیگر بہت سے زیرحراست افراد کا کوئی حساب کتاب، لواحقین اور سول سوسائٹی کو نہیں ہے۔ مصنّفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں محض اس وجہ سے پہنچا دیا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو ایک نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی ۴۵۰ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دُور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جایداد بیچنی پڑی ہے۔

کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا، اسے پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میںلے لیا۔ ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ دیگر نوجوانوں کو تو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے ۱۶۰۰کلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ضلع لکھنؤ سے ۲۰۰کلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب اس نوجوان کے والد صاحب کو پتا چلا تو وہ محض ۲۵ہزار روپے میں گائے بیچ کر امبیڈکر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دُور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر کرائے کے کمرے میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیل کے کمرئہ ملاقات میں بلال نے ان کو بتایا: ’’مجھ کو بُری طرح زدو کوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس جیل میں دیگر ۲۵؍ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟‘‘ سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی ، میرے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اس کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے‘‘۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں منتقل کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر اس عدالتی حکم پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ بلال کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ حکم نامہ جاری کیا، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اتنی مشقت کے بعد اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں میں خوار ہونے کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔

                  اسی طرح بارہ مولہ کے ۲۱ سالہ دیہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی بیمار اور بوڑھی والدہ کو زد وکوب کیا گیا،  گالیاں دی گئیں، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے ۳۵ہزار روپے میں اپنی ۱۰مرلہ زمین بیچی۔ یاد رہے نوید، خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنّفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پڑوس سے ادھار لے کر اس اُمید پر زندگی کاٹ رہے ہیں کہ بیٹا آکر قرض اُتارے گا۔ لیکن کیا بیٹا صحیح سلامت واپس آبھی سکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

 ۲۸سالہ فیاض میر نے قرضہ پر ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو بھی گرفتار کرکے اترپردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے ۲۵ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیے بریلی پہنچا۔ مگر سلاخوں کے پیچھے وہ اپنے بیٹے کو صرف  دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائے گی، جب کہ اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ ۲۰منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ گھسیٹتے ہوئے اندر لے کر گئے اور ملاقاتی کو زبردستی باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ ۱۱۰۰کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔ صبر کرتی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا رہا مظلوم پر! (ملاحظہ کیجیے ویب پیج: www.pipfpd.net)