قوم ، ملک، جاے پیدایش اور زبان عموماً کسی گروہِ انسان کو اپنے تشخص اور وجود کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، قبل اسلام کا دور ہو یا تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کے ادوار اور بعد میں آنے والے روشن خیالی ، نشاتِ ثانیہ اور انسان پرستی کے اَدوار، ہرزمانے میں اقوام عالم نے اپنی شخصیت اور وجود کو ان میں سے کسی نہ کسی تصور سے وابستہ کر کے خود اپنی تعریف بطور ایک خطہ میں بسنے والے افراد کے ( یونانی اقوام، افریقی اقوام ، ایشیائی اقوام)، یا رنگ ونسل کی بنیاد پر (زرد اقوام ، سفید اقوام ، سیاہ اقوام)،یا اپنی علاقائی زبان(انگلش ، فرنچ، جرمن، ڈچ) کی بنیاد پر اپنا تعارف کرایا۔حتیٰ کہ بحری راستوں کو بھی ان میں سے کسی ایک تصور سےمنسوب کر دیا ، مثلاً بحیرۂ عرب ، ساؤتھ چائنا سی وغیرہ ۔
قوم پرستی اور رنگ و نسل یا کسی خطے کی بنا پر اپنی پہچان کا تصور ، اسلام کے بنیادی عالم گیریت اور الہامی دین ہونے کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ امت مسلمہ کے لیےایک سانحہ تھا کہ سیاسی میدان میں خلافت کے اسلامی تصور سے انحراف کے نتیجے میں خاندانی اور موروثی طرز حکومت رواج پا گیا۔ اس طرح اکثر مسلم فرماں رواؤں نے اپنے دینی تشخص کی جگہ نسلی ، لسانی یا قبائلی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اموی ، عباسی ، فاطمی، مغل ، عثمانی کہلوانا پسند کیا ۔
مسلمان فرماں روا جنھوں نے طویل عرصے تک برصغیر پرحکومت کی ، اسلام کے دعوتی پہلو پر بہت کم توجہ دی۔تاہم، اپنے اقتدار کو اقلیت میں ہونے کے باوجود تقریباً آٹھ صدی سنبھالے رکھا۔ اگر وہ دین کی اشاعت کے لیے حکمت عملی بناتے تو بہ آسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوجاتی، یا وہ اسلام کے ان اصولوں کو جو شریعت نے بیان کیے تھے، نافذ کرتے تو اسلام کے عدل اجتماعی سے متاثر ہو کر بے شمار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر فرماں روا ، موروثی بادشاہت کے تحفظ کے علاوہ کسی اور اعلیٰ مقصد سے دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ بہرصورت مغلوں کی حکومت کے زوال اور انگریز سامراجیت کے یہاں پر غلبے کے بعد برصغیر میں جو غالب رجحانات پائے جاتے تھے،انھی میں سے ایک رجحان یہ تھا کہ انگریزی طور طریقوں کی پیروی کو اس تعبیر کے ساتھ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ’’انگریز نے اکثر اچھائیاں اسلام سے ہی سیکھی ہیں، گو اسلام قبول نہیں کیا‘‘۔
ایک طبقے نے انگریز کی ہر بات کو کفر اور شرک قرار دیتے ہوئے مسلسل جہاد کی حالت کا اعلان کیا ،حتیٰ کہ جمعہ کا قیام بھی ملتوی کر دیا۔چنانچہ فرائضی تحریک نے بنگال میں یہی موقف اختیار کیا ۔ ایک طبقے نے انگریز سے نجات کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن بہت جلد ان حضرات کو تجربات نے یہ سکھایا کہ یہ اتحاد ان کی نجات کی جگہ مقامی ہندو اکثریت کی مستقل غلامی پر جا کر ختم ہو گا۔اس لیے مسلمانوں کے دین ، تہذیب و ثقافت اور مفاد ات کے تحفظ کی صرف ایک ہی شکل ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک آزاد خطہ وجود میں آئے ۔ یہی وہ شعور تھا، جو تصور پاکستان کی شکل میں دو قومی نظریہ کی صورت میں وجود میں آیا اور جس کی تعمیر میں سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی اور سب سے بڑھ کر قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت کا کردار ادا کیا۔زیر نظر مقالہ اس تصور کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے ۔
برصغیر میں اسلام کا تعارف ، محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے علاوہ بےشمار تاجروں اور صوفیاے کرام کی مساعی جلیلہ سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں تصوف آمیز اسلام، جو ظاہر کے مقابلے میں قلب اور داخل کی اصلاح کو فوقیت دیتا تھا، اور جو بادشاہت اور عوام کے لیے زیادہ سہولت مند تھا، رواج پا گیا ۔اس زمینی حقیقت کی بنا پر وہ علماے کرام بھی جو اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جو حاکمیت الٰہیہ کے تصور کو سمجھتے تھے، غالباً مصلحت عامہ کی بنا پر بادشاہت کی مخالفت کی جگہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی طرف راغب رہے ۔حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور اور صوفیا نے بادشاہت کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دعوتی اور اصلاحی سر گرمیوں سے نظام میں بہتری کی کوشش کی۔
اس پس منظر میں اسلام کا جو تصور برصغیر میں رواج پا یا، وہ ایک محدود مذہبیت کا تصور تھا، جو چند عبادات اور شخصی معاملات تک محدود ہو گیا ۔اسی لیے انگریز کی آمد سیاسی قیادت کی تبدیلی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی اور برصغیر میں کم از کم مسلمانوں نے یہی سمجھا کہ جب تک ہند میں مسلمانوں کو سجدے کرنے کی اجازت ہے، ان کا دین بھی آزاد ہے ۔ وہ عبادت کی آزادی کو نہ صرف مذہبی بلکہ دینی آزادی بھی سمجھتے رہے ۔یہی وہ فکر تھی جس کی علم برداری دیوبند جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ نے بھی اختیار کی، اور جسے مسئلہ خلافت جیسی علمی کتاب تحریر کرنے والے مفسر قرآن مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اختیار کیا اور ہندو کانگریس کے ساتھ مکمل تعاون کے ذریعے ’ہندستانی قومیت‘، یا ’ایک قومی نظریہ‘ کا علَم بلند کیا۔ اس طرح یہ فکر برصغیر کے مسلمانوں کے ایک طبقے میں سرایت کر گئی۔
چنانچہ مولانا حسین احمد مدنیؒ ناظم دیو بند نے ایک کتابچہ تصنیف کیا(متحدہ قومیت اور اسلام) کہ مسلمان اور ہندو دراصل ایک ہی قوم ہیں اور مذہب ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ تصور نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریز سامراج کی فکر کو تقویت اور حمایت فراہم کرتا تھا۔ اس لیے اس کی پذیرائی کی گئی ۔اس کے برعکس علامہ محمد اقبالؒ ، قائد اعظمؒ اورمولانا مودودیؒ نے دوقومی نظریہ کو تحریک پاکستان کی بنیاد بنایا ۔ علامہ اقبال نے فکری طور پر اپنے خطبات اور شاعری کے ذریعے اور خصوصاً اپنے کُل ہند مسلم لیگ کے الٰہ آباد میں صدارتی خطاب میں یہ بات واضح کی کہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ ہدایت ہے ۔ ادھر مولانا مودودیؒ نے مولانا حسین احمد مدنی ؒکے دلائل کی تردیدایک اہم علمی رسالہ مسئلہ قومیت لکھ کرکی ۔جسے مسلم لیگ کی قیادت نے ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ تحریک پاکستان کی نظری بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔
اسی طرح قائد اعظم نے ۱۹۳۰ء کے بعد اپنے تمام خطبات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین ، اپنی ثقافت ، اپنی تاریخ ، اپنے نام وَران و مشاہیر کے لحاظ سے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے ایک مکمل اور الگ قوم ہیں، جو زمین ، رنگ اورنسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، اور ان کے دین کا تحفظ صرف اور صرف اسی شکل میں ہو سکتا ہے، جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظام حکومت ، نظام معیشت ، نظام معاشرت، نظامِ قانون ، نظام تعلیم غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں ۔ظاہر ہے یہ عمل آزاد خطہ اور سر زمین کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پاکستان کا وجود میں آنا، ایک منطقی ضرورت تھا ۔
اس مختصر مقالے کا مقصد ان ’کرم فرماؤں‘ کے خیالات کا مفصل جواب دینا نہیں ہے، جو آج بھی متحدہ قومیت کے مرض کا شکار ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ براہ راست قائداعظم سے یہ پوچھا جائے کہ ان کا تصور پاکستان ان کے اپنے الفاظ میں کیا ہے ؟ اور کیا ان کا یہ موقف ان کے اعتماد ، مستقل مزاجی اور فکری بلوغت کا مظہر ہے یا وہ کسی سیاسی دباؤ میں آکر کچھ طبقات کو خوش کرنے کے لیے، یا غیر سنجیدگی کے ساتھ محض ہوا کے رُخ کو دیکھ کر کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے رہے ۔یہ معاملہ نہ صرف ان کی شخصیت اور مقام سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اس کا بہت گہرا تعلق ملک کے تشخص، اس کی نظریاتی بنیاد اور اس کی داخلی اور خارجی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔
تصورِ پاکستان، یعنی ایسی سرزمین کا حصول جس پر زمین کے اصل مالک کا نظام اس کی مرضی کے مطابق نافذ ہو ، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے ،اسی وقت وجود میں آچکا تھا، جب برصغیر میں پہلے مسلمان نےقدم رکھا۔ اس کی توثیق بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کی ۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اس خطے میں محمد بن قاسم کی آمد اور مقامی افراد کا ابن قاسم کے عدل و احسان کے نظام کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنا، اس تصور کا ایک حقیقی عکس تھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے زوال کے دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنے کے لیے نجیب الدولہ اوراحمد شاہ ابدالی کو دعوت دینا اس عمل کا حصہ تھا ۔ خود ان کے اپنے گھر کے فرد شاہ اسماعیل شہیدکاسید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ شامل ہوکر ۱۸۲۷ء میں پشاور میں خلافت قائم کرنا، اس خطے میں احیاےاسلام اور نظام عدل کے قیام کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی میں انگریزوں کی کامیابی نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی تھی۔
اب دہلی کی مغلیہ سلطنت ، بنگال اور دیگر مقامات پر مسلمان فرماںرواؤں کی جگہ برطانیہ کے پنشن خوار نواب اور فرماںرواؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ ایسا شگاف نہ صرف برصغیر میں بلکہ سلطنت عثمانیہ میں بھی پیدا ہوا۔برصغیر کے بعض جرأت مند مسلمان فرماںرواؤں مثلاً میسور کے حکمران حیدرعلی اورٹیپوسلطان نے اٹھارھویں صدی کے آخر میں اپنی مقدور بھر کوشش کی اور ذلت کی زندگی کی جگہ شہادت کے اعلیٰ مقام کو منتخب کیا۔ لیکن۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں سیّد احمد کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شکل میں ایک مزید کوشش کے بعد برصغیر کے مسلمان بڑی حد تک مایوسی کا شکار ہو گئے اور اب انھیں آسان راستہ یہی نظر آیا کہ وہ انگریز کے اقتدار کو مانتے ہوئے اپنے ذاتی فوائد کے حصول کے لیےمفاہمت کارو یہ اختیار کریں۔
جو مسلمان اس پر آمادہ نہ تھے،انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی زمینیں، ان کے کاروبار ختم کردیے گئے اور ہندو زمینداروں نے بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کیا ۔بہت سے مقامات پر" ڈاڑھی ٹیکس" لگایا گیا۔ گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مساجد کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔یہ سب انگریز کی سرپرستی میں ہوا اور حکومت نے اس پر کوئی گرفت نہ کی۔
انگریز سامراج نے مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے عسکری وانتظامی قوت کے ساتھ تعلیمی قوت کو بھی استعمال کیا اور سرکاری زبان فارسی اور عربی اور عوامی زبان اردو کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر ان تمام مسلمانوں کے لیے جو کل تک تعلیم یافتہ تھے اور حکومت کے مختلف شعبوں عدالتوں، انتظامیہ اور تعلیمی ذمہ داری ادا کر رہے تھے، ایک لمحے میں تعلیم یافتہ سے ناخواندہ میں تبدیل کردیا ۔ ہندو اس سے بہت پہلے انگریز کے ساتھ ساز باز اور تعاون کرنے میں پیش پیش تھے اور انگریزی تعلیم کو اختیار کر چکے تھے اور سرکاری مناصب کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مئی ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک مدرسے کا آغاز کیا، جو آگے چل کر اینگلو محمڈن اورینٹل کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسری جانب ہندو ۱۸۳۱ء سے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور راجا رام موہن رائے کی کوششوں سے برطانوی حکومت ان کے ساتھ کھل کر تعاون کر رہی تھی۔ ہندوؤں کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۵۲ء تا ۱۸۶۲ء کلکتہ ہائی کورٹ میں ۱۴۱ وکلا رجسٹر کیے گئے، جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ اس صوبے کے ۲۱۴۱گزیٹڈ افسران میں صرف ۹۲ مسلمان تھے ۔ اس بات سے ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم، کاروباراور پیشہ ورانہ شعبوں میں ہر طرف ہندو چھائے ہوئے تھے، خصوصاً بیوروکریسی میں ہندو عمل دخل غیر معمولی تھا۔
انیسویں صدی میں برصغیر میں مسلمانوں کا سیاست میں کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔اس صورتِ حال میں ۱۸۸۵ءمیں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس انگریز حکمرانوں کی مشاورت اور حمایت کے ساتھ قائم ہوئی، تاکہ عوامی سطح پر بھی انگریز کی حمایت حاصل کی جائے اور مسلمان جو انگریز حکومت کے رویے سے غیر مطمئن اور شاکی تھے، ان کے مقابلے میں ایک توازن پیدا کرنے والی عوامی قوت انگریز کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ انڈین کانگریس کے ذمہ داران نے کھلے عام انگریز سے اپنی وفاداری کی بنیاد پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔
مسلمانوں کو جگانے والا ایک واقعہ اس دوران میں یہ پیش آیاکہ ۱۹۰۵ء میں برطانوی وائس رائے ہند لارڈ کرزن نے اپنی اصلاحات میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام کا جس میں مسلمان اکثریت تھی اور اس کا مرکز ڈھاکاتھا ،مشرقی بنگال بعد میں مشرقی پاکستان بنااور دوسراحصہ مغربی بنگال جس کا مرکز کلکتہ تھا -یہ تقسیم ہندوؤں کو گوارا نہیں ہوئی ۔انھوں نے مسلسل مہم چلا کراور حکومت میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ ان حالات نےہر صاحب ہوش مسلمان کو یہ بات باور کروا دی کہ برصغیر میں بسنے والے قطعاً ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہاں صدیوں سےدو اقوام موجود رہی ہیں، جن کے مفادات ،عقائد، دین، تاریخ ،ثقافت، زبان ہر چیز دوسرے سے ممتاز ہے اور کوئی بھی حکومت جس کی بنیاد محض کثرت تعداد پر ہو مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں نواب وقارالملک کی صدارت میں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام اسی شعور کا اظہار تھا۔
یہ جداگانہ قومی تصور ہی تھا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے مختلف وفود انگریز وائسرائے سے وقتاً فوقتاً ملے ۔ مثلاً آغا خان سوم کی سربراہی میں لارڈ منٹو سے ملاقات اور یہ مطالبہ کے جداگانہ انتخابات کرائے جائیں، اسی فکر کا ایک مظہر تھا۔ لیکن معاہدوں کی سیاست مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔ ۱۹۱۶ءسے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کے صرف ۹ ماہ بعد ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء کو شاہ آباد ،آگرہ اور اعظم گڑھ میں ۲۵ہزار ہندوؤں نے مسلم دیہات پر حملہ کر کے بہیما نہ قتل و غارت اور مسلمانوں کو زندہ جلا کر نام نہاد ’اتفاق‘کی حقیقت کو واضح کر دیا۔۱۹۲۸ء میں ’نہرورپورٹ‘ نے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے مخلوط انتخابات اور ایسی تجاویز دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کا تشخص اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔
اس تاریخی تناظر میں ۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے کُل ہند مسلم لیگ کنونشن میں اپنے صدارتی خطاب میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے حوالے سے شمال مغربی ہندستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد ریاست کی تجویز پیش کی۔ ۱۹۳۳ءمیں چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم نے اپنے فکرانگیز پمفلٹ Now or Never میں علامہ کے خواب کو اپنے الفاظ کی شکل میں پیش کیا۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں ایک فیڈرل نظام کی تجویز دی گئی تھی ،اس دوران یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ کانگریس کا تصور متحدہ قومیت، یعنی زمین یا سکونت کسی قوم کی قومیت کی بنیاد ہوتی ہے، مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس کے تصورِ متحدہ قومیت کی حمایت میں مسلمانوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کے علما کا ایک مؤثر طبقہ سب سے آگے تھا۔ چنانچہ مولانا سیّد حسین احمد مدنی صاحب اور ان کے ہم خیال علما نے، جن میں بعض علما بعد میں سیاسی مناصب پر فائز ہوئے، پوری قوت سے کانگریس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کی۔کانگریس کے حمایتی علما میں مولانا ابوالکلام آزاد سب سے آگے تھے ، جو بعد میں مرکزی وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
اس کے برعکس دارالعلوم دیوبند ہی کے اکابر علمامیں سے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے علاوہ مولانا مودودی نے کھل کر دو قومی نظریہ کی حمایت کی ۔
مولانا مودودی نے ایک سلسلہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش تحریر کیا اور ایک رسالہ مسئلہ قومیت تصنیف کیا جس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث پر مبنی اس رسالے نے مولانا حسین احمد مدنی کے موقف کو پُرزہ پُرزہ کردیا اور انتہائی سنجیدہ ٹھنڈے اور عقلی اور قرآن و حدیث پر مبنی دلائل سے دو قومی نظریہ پر ناقابلِ تردید تحریر پیش کی:
۱- اس رسالے کو مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا ۔علامہ اقبال نے مولانا مدنی صاحب پر سخت تنقید شعر کی زبان میں کی :
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیست
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خیرز مقام محمد عربیست
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ
اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست
[عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفےٰ کی بارگاہ میں پہنچاؤکہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو اس تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے]۔
اور دوسری جانب تصور قومیت، یعنی دین کی بنیاد پر قومیت کا تصور جسے مولانا مودودی نے اپنے رسالے میں وضاحت سے بیان کیا تھا اسے علامہ محمد اقبال نے یوں بیان کیا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
اس دوران مولانا عبدالماجددریابادی کے بقول یوپی صوبہ کی مسلم لیگ نے ایک مجلس قائم کی کہ جس اسلامی حکومت کے قیام کے لیے پاکستان بنانے کا خیال ہے، یہ مجلس اس کا نقشہ مرتب کرے۔ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا آزاد سبحانی ، اور خود مولانا عبدالماجد دریابادی کو شامل کیا گیا۔
۲- جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ہی تحریکِ پاکستان کا بنیادی مقصد تھا اور اس غرض کے لیے مسلم لیگ خود ایسے علما کی امداد حاصل کر رہی تھی، جو دو قومی نظریہ کے حامی تھے، لیکن مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے ۔
مسلم لیگ کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح، نواب بہادر یارجنگ، نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب خان نشتر ،خواجہ ناظم الدین ،مولوی اے کے ایم فضل الحق، مولانا حسرت موہانی اور قائداعظم کے قریبی حلقہ کے افراد مثلاً علامہ محمد اسد دو قومی نظریہ اور پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ جس کا اظہار ان قائدین نے بے شمار مواقع پر اپنے خطبات ،خطوط اور بیانات میں کیا۔
یہ ایک عجیب معما ہے کہ ان تمام دستاویزات کو نظرانداز کرتے ہوئے، پاکستان کے نام نہاد آزاد خیال دانش وَر صرف ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی اس تقریر کو سیکولرزم کی تائید میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں، جس میں قائد اعظم نے سیکولر یا مغربی جمہوریت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا، جب کہ قائد نے دیگر مواقع پر واضح طور پر پاکستان کے لیے اسلامی تشخص اور مغربی جمہوریت کے پاکستان کے لیے ناموزوں ہونے کا بار بار اظہار کیا ۔ قائد کے ان خطبات کو معلوم نہیں کیوں یہ دانش وَر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں ؟
اس مختصر تاریخی پس منظر کے بعد ہم قائداعظم اور ان کے رفقاء کے پاکستان کے بیانیہ کو کسی تعبیر و تشریح کے بغیر ان کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقتباسات اصل زبان میں درج کیے جا رہے ہیں تاکہ ترجمہ کرتے وقت تعبیر کا کوئی دخل نہ ہو اور اصل مدعا بالکل اسی طرح سامنے آئے، جیسے اظہار خیال کرنے والے نے بات کہی ہے ۔
قائد اعظم کے فکری رہنما اور مسلم لیگ سے براہ راست وابستہ سیاسی بصیرت اور دینی فہم رکھنے والے علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے کنونشن سے ۱۹۳۰ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں جو بات تحریراً پیش کی، وہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کی نمایندہ اور مسلم لیگ کی اعلان شدہ پالیسی کا درجہ رکھتی ہے ۔علامہ نےمسئلے کی نبض پر ہاتھ رکھ کرواضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ مسلم قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے جو زندگی کو سیاسی اور مذہبی، مادی اور روحانیت کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی تعلیم کے ذریعے مسلمان کے ہر عمل کو دین کے دائرے میں اور ہر سر گرمی کی بنیاد دین کو قرار دیتا ہے:
"What, then, is the problem' and its implications?? Is religion a private affair? Would you like to see Islam as a moral and political ideal, meeting the same fate in the world of Islam as Christianity has already met in Europe?? Is it possible to retain Islam as an ethical ideal and to reject it as a polity, in favour of national politics in which [the] religious attitude is not permitted to play any part?? This question becomes of special importance in India, where the Muslims happen to be in a minority. The proposition that religion is a private individual experience is not surprising on the lips of a European"....
سوال یہ ہے کہ آج جو مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے اس کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی مذہب ایک فرد کا نجی معاملہ ہے ، اور کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کوبطور ایک اخلاقی تخیل کے توبرقرار رکھیں، لیکن اس کے نظامِ سیاست کےبجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں، جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟ ہندستان میں تو یہ سوال اور بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ باعتبار آبادی ہم اقلیت میں ہیں ۔یہ دعویٰ کہ مذہبی ارادت محض انفرادی اور ذاتی واردات ہیں، اہلِ مغرب کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا....
The religious ideal of Islam, therefore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the other. Therefore the construction of the polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim…
لہٰذا، اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیداکردہ ہے، الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نےایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غورکرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر جو اسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔
The principle of European democracy cannot be applied to India without recognizing the fact of communal groups. The Muslim demand for the creation of a Muslim India within India is, therefore, perfectly justified....
مغربی جمہوریت کا اصول مختلف قومیتوں کی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہندستان میں نافذ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا مسلمانوں کا انڈیا میں مسلم انڈیا کی تشکیل کا مطالبہ مکمل طور پر منصفانہ ہے…
I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and Balochistan amalgamated into a single State. Self-government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India.
میری ذاتی طورپر خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد [خیبرپختونخوا]، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہند کےمسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی۔
"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State ln the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times…"
میں صرف ہندستان اور اسلام کے فلاح و بہبودکے خیال سے ایک منظم مسلم ریاست کے قیام کامطالبہ کر رہا ہوں۔اس سے ہندستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پرقائم ہیں اس جمود کو توڑڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی ، بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہوجائیں گے۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل واضح تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی بالکل بے معنی ہے اگر تقسیم ملک کے بعد بھی ہندوؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کوصرف اپنے مندر ، چرچ اور مسجد جانے کی اجازت ہو، اور وہ اپنی ذاتی زندگی میں روزہ، نماز ،زکوٰۃ اور دیگر مراسمِ عبودیت ادا کرسکتے ہوں۔’ مذہب‘پر اس نوعیت کے عمل سے نہ تو انگریز سامراج نے کبھی روکا اورنہ ہندو اکثریت کے ماتحت ہونےکے بعد ہندستان کا سیکولر دستور اس سے روک سکتا تھا، نہ کسی سیکولر نظام نےدنیا کے کسی بھی خطے میں یہ اعلان کیا کہ وہ عبادت کی آزادی نہیں دے گا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا نئے بننے والے پاکستان کی بنیاد علاقائی، لسانی یانسلی قومیت ہوگی جیسے یورپ میں پائی جاتی ہے؟ اس لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بار بارجن باتوں کو واضح کیا ان میں اول یہ تھی کہ اسلام میں دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ دوم یہ کہ پاکستان کا اسلامی تشخص ہی اس کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس پختہ عزم کا اظہا کیا گیا کہ کہ نئے ملک میں اسلامی تعلیمات، قوانین ،ثقافت ، سیاسی نظام ،روایت علم اور معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اور نافذ کیا جائے گا ۔ دونوں قائدین کےواضح بیانات اور تحریر وں میں یہ با ت تکرار کے ساتھ کہی جاتی رہی، حتیٰ کہ مسلمانانِ ہند نے اس بات پر یقین کیا اور اس کے نتیجے میں عامتہ المسلمین نے جان، مال،عزّت، ہر چیز اس خطۂ زمین پر قربان کرتے ہوئے وہ عظیم قربانی دی، جس کی انسانی تاریخ میں نظیرتلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔
علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اسی کنونشن میں یہی بات بیان کی :
"Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam, God and universe, spirit and matter, church and state are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realizing itself in space and time".
لیکن اسلام کےنزدیک ذاتِ انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، کلیسااور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزاہیں ۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر جو کسی دوسری جگہ واقع ہے، ترک کر دینا چاہیے۔اسلام کے نزدیک مادہ روح کی ایک شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔
اسلامی ریاست کے اسی تصور کو علامہ اقبال اپنے خطبے The Principal of Movement in the Structure of Islam (الاجتہادفی الاسلام) میں یوں بیان کرتے ہیں :
"The essence of Tawhid, as a working idea, is equality, solidarity and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavor to transform these ideal principles into space- time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization. It is in this sense alone that the state in Islam is a theocracy, not in the sense it is headed by a representative of God on earth, who can always screen his despotic will behind his supposed infallibility… All that is secular is, therefore sacred in the roots of its being.....There is no such thing as a profane world. All this immensity of matter constitutes a scope for the self-realization of spirit. All is holy ground. As the Prophet so beautifully puts it: "The whole of this earth is a mosque"...The state, according to Islam is only an effort to realize the spiritual in a human organization.
گویا بہ حیثیت ایک اصولِ عمل، توحید اساس ہے حُریت ، مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کرظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں ۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنے مفروضہ معصومیت کے عُذر میں اپنے جورو استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے… جس کا ماحصل یہ ہے کہ مادی کے بحیثیت مادی کوئی معنی ہی نہیں ، اِلا یہ کہ ہم اس کی جڑیں روحانی میں تلاش کریں۔ بالفاظِ دیگر یہاں کسی ناپاک دنیا کا وجود نہیں… برعکس اس کے مادے کی ساری کثرت روح ہی کے ادراک ذات کا ایک میدان ہے اور اس لیے جو کچھ بھی ہے، مقدس ہے۔ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’ہمارے لیے یہ ساری زمین مسجد ہے‘‘۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسےروحانی کہتے ہیں ، اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ ہی میں کریں (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۲۲۸-۲۲۹)۔(جاری)