پاکستانیات


پاکستان کی معیشت کو بدستور سنگین خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔حکومت بہرحال معاشی استحکام لانے اور معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کرنے کے دعوے تواتر سے کرتی رہی ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ان کے نتیجے میں معیشت میں عارضی استحکام یقیناًنظر آرہا ہے۔ تاہم، ہر محب وطن پاکستانی کے لیے یہ امر باعث تشویش ہونا چاہیے کہ یہ عارضی معاشی استحکام دراصل ملک کی معیشت، کروڑوں عوام اور قومی سلامتی کی قیمت پرحاصل کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی نظر آرہی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کے موجودہ پروگرام کے دوران معیشت لڑکھڑاتی رہے گی اور پاکستان کے گردگھیرا مزید تنگ کرنے کے لیے خدانخواستہ ۲۰۲۷ءکے بعد بھی پاکستان ایک مرتبہ پھر۲۵ویں پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے دستِ سوال دراز کرے گا۔ حکومت کے ان دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں کہ آئی ایم ایف کا قرضے کا موجودہ پروگرام پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا۔

ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ،وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیاں یا اقدامات، بڑھتی ہوئی مالیاتی وانٹی لیکچویل (ذہنی) بدعنوانی سے معیشت وقومی سلامتی کو جو سنگین خطرات اور چیلنج درپیش ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

ٹیکسوں کا غیر منصفانہ نظام

 پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ اور استحصالی ہے۔ یہ نظام طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور مراعات دیتا ہے، ٹیکس چوری ہونے دیتا ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے، کالے دھن کی پیداوار کو روکنے کے بجائے کالے دھن کو سفید بنانے کے راستے کھلے رکھتا ہے، اور ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کرنے کے بجائے اُونچی شرح سے ’جنرل سیلز ٹیکس‘ نافذ کرتا ہے، جس کا بوجھ براہِ راست عوام پر ہی پڑتا ہے۔ یہی نہیں، عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کا صحیح استعمال بھی نہیں ہوتا اور ان رقوم کا بڑا حصہ حکومت اور حکومتی اداروں کی شاہ خرچیوں، قرضوں پر سود کی ادائیگیوں اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کئی ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے عوام کو ان کی ادا کردہ رقوم سے عملاً کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔

 اس ضمن میں کچھ حقائق پیش ہیں:

۱- ہماری تحقیق کے مطابق موجودہ مالی سال میں وفاق اور صوبائی حکومتیں مجموعی طور پر ٹیکسوں کی مد میں حقیقی استعداد کے مقابلے میں تقریباً ۲۳ہزار ارب روپے کم وصول کریں گی، یعنی تقریباً ۱۹۰۰؍ ارب روپے ماہانہ کی کم وصولی۔ اس کم وصولی کے بڑے حصے کو ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کے تحت وصول کیے بغیر معیشت کی بحالی اور تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے خاطر خواہ رقوم مختص کرنا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وفاق اور صوبے۱۰ لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی چھوٹ، مؤثر طور سے ٹیکس نافذ اور وصول کریں اور ساتھ ہی جنرل سیلزٹیکس کی شرح بھی مرحلہ وار ۷ء۵ فی صد پر لے آئیں،ماسوائے ان اشیاء کے جو لگژری کے زمرے میں آتی ہیں۔

بدقسمتی سے وفاق، صوبے اور اشرافیہ ان اصلاحات کے لیے تیار ہی نہیں ہیں اور نہ اس ضمن میں کسی سیاسی، دینی یا مذہبی جماعت کا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے کیونکہ کوئی بھی طاقتور اشرافیہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، خصوصاً وہ جماعتیں جو ان سے ووٹ اور نوٹ لینے کی خواہش رکھتی ہیں، انتخابات جیتنےکے لیےان کی مدد ضروری سمجھتی ہیں یا ان سے چندہ وغیرہ وصول کرتی ہیں۔

۲- معیشت کو دستاویزی بنانے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں نقد کاروبار عروج پر ہے ۔ تخمینہ ہے کہ کالے دھن کا حجم تقریباً ۷۰ ہزار ارب روپے ہے۔

۳- پاکستان میں پراپرٹی سیکٹر میں کئی ہزار ارب روپے کا کالا دھن لگا ہوا ہے۔ ان رقوم میں ٹیکس کی چوری اور کرپشن وغیرہ سے حاصل کی ہوئی رقوم بھی شامل ہیں۔پراپرٹی کی مالیت مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کے لیے نہ وفاقی حکومت تیار ہے اور نہ صوبائی حکومتیں۔ چنانچہ اس سیکٹر سے ٹیکسوں کی وصولی بہت کم ہورہی ہے۔

ہماری تجویز یہی ہے کہ ۱۵ملین روپے سے زائد ہر جائیداد کی فروخت کے اخبار میں شائع شدہ اعلان کے بعد ہر پاکستانی شخص کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ۱۵ فی صد زیادہ قیمت کی پیش کش کرکے جائیداد کو خرید سکے۔ اس طرح یہ سودے بڑی حد تک مارکیٹ کے نرخوںپر ہوسکیں گے۔

پاکستان میں حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں وقتاً فوقتاًملک سے لوٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کی گئی خطیر رقم پاکستان واپس لا کر عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کے بارے میںسیاسی بیانات دیتی رہی ہیںچونکہ وہ سب اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ مختلف وجوہ کی بنا پر اب اس ضمن میں کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہے۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ٹیکس حکام سے خفیہ رکھےہوئے کئی ہزار ارب روپےکے ایسے اثاثے ملک کے اندر موجود ہیں، جن کی تفصیلات بہرحال ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔

 ہم برس ہا برس سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے حکومتوں کی توجہ اس طرف دلاتے رہے ہیںلیکن یہ ملکی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ ہی کا کمال ہے کہ سیاسی، مذہبی، رفاہی، صحافتی اور اصلاحی قوتوں میں سے کوئی بھی ان کی ناراضی مول لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اسلام کا نظامِ زکوٰۃ

پاکستان میں زکوٰۃ ، خیرات اور چندہ کی رقوم میں بڑے پیمانے پر غلط کاریاں ہوتی رہی ہیں۔ مختلف ادارے یہ مہم زور شور سے چلاتے رہے ہیں کہ زکوٰۃو خیرات وغیرہ کی رقوم ان کو دی جائیں تاکہ وہ مستحقین تک پہنچاسکیں۔ اسلام میں اجتماعیت کا تصور ہے۔ ارشادِربانی ہے: ’’ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کو پاک و صاف کردو‘‘(التوبہ ۹:۱۰۳)۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ آپؐ ان سے زکوٰۃ وصول کریں یعنی مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ زکوٰۃ کی رقوم کو الگ الگ خرچ کریں۔ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب ِنصاب مسلمانوں بشمول اداروں سے زکوٰۃ وصول کرے اوران رقوم کو مستحقین تک پہنچانے کا ایک باقاعدہ نظام بھی وضع کرے۔ ان قرآنی احکامات کے باوجود کوئی بھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ حکومت، معاشرے کی اصلاح کرکے بیت المال کے نظام کا شفاف ڈھانچا قائم کرنے کے لیے حکمت عملی تشکیل دے۔ پاکستان میں جو سماجی ادارے ’رجسٹرڈ این پی اوز‘ (منافع نہ کمانے والے سماجی ادارے)ہیں،ان کی تعداد ۴۵۰۹ ہے مگر صرف ۲۷۷۶؍ ادارے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ اس سے زکوٰۃ،خیرات اور چندہ وغیرہ کی وصولی اور ان رقوم کی تقسیم وغیرہ کے ضمن میں متعدد شبہات جنم لیتے رہے ہیں۔ ان امور کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔

ترسیلات،برآمدات،درآمدات

یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ برآمدات بڑھانے کے بجائے حکومتوں نے یہ پالیسی اختیار کیے رکھی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈنینس کی شق ۱۱۱(۴) کے تحت کارکنوں کی ’ترسیلات‘ (Remittances) کے نام پر بڑی بڑی رقوم کی ’ترسیلات‘ پاکستان آنے دی جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ :

۱-         لوگ قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیراپنا کالادھن سفید کراسکیں۔

۲-         غیر ضروری درآمدات کی وجہ سے پیدا ہونے والے تجارتی خسارے کے جھٹکے کو سنبھالنے کے لیے زرمبادلہ کی رقوم حاصل ہوسکیں۔

مالی سال۲۰۱۹ءسے مالی سال ۲۰۲۴ءکے ۶ برسوں کے یہ اعداد و شمار چشم کشا ہیں:

۱-         ملک کی مجموعی درآمدات کا حجم   ۳۴۶؍ ارب ڈالر

۲-         ملک کی مجموعی برآمدات کا حجم   ۱۶۱؍ ارب ڈالر

۳-         ملک کے تجارتی خسارے کامجموعی حجم     ۱۸۵؍ارب ڈالر

۴-         ملک میںآنے والی ترسیلات کا مجموعی حجم   ۱۶۳؍ارب ڈالر

 ۵-        ملک کے جاری حسابات کے خسارے کا مجموعی حجم ۴۲؍ارب ڈالر

            پاکستان میں مختلف حکومتیں بڑی چابک دستی سے جاری حسابات کے خسارے کے کم ہونے یا جاری حسابات کے عارضی طور پر فاضل ہونے پر کامیابیوں کی دعوے کرتی ہیں، جوعملاً پاکستان کے مخصوص حالات میں سفاکانہ خود فریبی کے مترادف ہے۔ حالانکہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنج یہ ہے کہ اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ(ن )کے منشور میں کہا گیا تھا ’’سمندر پار پاکستانیوں کی آنے والی ترسیلات کا کم از کم ۵۰ فی صد سرمایہ کاری میں تبدیل کریں گے‘‘۔ اگر گذشتہ چھ برسوں میں ۱۶۳؍ارب ڈالر کی ترسیلات کا ۵۰فی صد ملکی سرمایہ کاری میں منتقل کردیا جاتا تو یقینا پاکستان کی قسمت بدل جاتی، مگر بدقسمتی سے ترسیلات کی رقوم، تجارتی خسارے کو سنبھالنے کے لیے استعمال کی جارہی ہیں جو کہ تباہی کا نسخہ ہے۔

            ہماری تجویز ہے کہ کسی شخص کو اگر ایک مالی سال میں ۱۰ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ کی رقوم کی ترسیلات وصول ہوں، تو ان ترسیلات پر ملکی قوانین کے تحت انکم ٹیکس نافذ اور وصول کیا جائے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ انکم ٹیکس آرڈنینس کی شق ۱۱۱(۴)کو منسوخ کردیا جائے۔ جس کے نتیجے میں حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگی اور ٹیکسوں کی وصولی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ ان اضافی رقوم کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ سال میں پاکستان کی ترسیلات ۳۵؍ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں، جب کہ برآمدات تقریباً ۳۲؍ارب ڈالر تک رہیں گی۔ یہ تخمینے حکومت کی غلط ترجیحات کی واضح مثال ہیں۔

کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ

کرپشن کا ناسور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلاکررہا ہے۔ یہ ایک محتاط تخمینہ ہے کہ کرپشن، بدانتظامی، نااہلی، بدعنوان ونااہل افراد کی حکومتی اداروں میں تقرریوںو ترقیوں ، قواعدو ضوابط کو نظرانداز کرنے، شاہانہ اخراجات کرتے چلے جانے اور وفاق اور صوبوںکی جانب سے ٹیکسوں کی استعداد سے کم از کم۲۳ہزار ارب روپے سالانہ کی کم وصولی سمیت، قومی خزانے کومجموعی طور پر تقریباً ۳۴ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے، یعنی تقریباً۲۸۸؍ارب روپے ماہانہ۔ اس نقصان کے صرف ۲۵ فی صدپر قابو پانے سے پاکستان کی معیشت میں اتنی بہتری آسکتی ہے جس کا فوری طور پر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، مگر اشرافیہ کے ناجائزمفادات کے تحفظ کے لیے کوئی بھی حکومت اس ضمن میں سیاسی عزم نہیں رکھتی۔اس صورتِ حال میں اسلامی نظام معیشت و بنکاری شریعت کی روح کے مطابق نافذ ہوہی نہیں سکتا۔

 سرمائے کا فرار۔ بنکوں میں بیرونی کرنسی کے کھاتے

گذشتہ تقریباً ۳۲برسوں سے ملک میں رہائش پذیر پاکستانی اپنی ناجائز اور جائز رقوم سے کھلی منڈی سے بڑے پیمانے پر ڈالر خرید کرپاکستان میں کام کرنے والے بنکوں میں یہ رقوم اپنے بیرونی کرنسی کے کھاتوں میںجمع کراتے رہے ہیں۔ تخمینہ ہے کہ ملکی قوانین کے تحت ان کھاتوں میں جمع کرائی گئی رقوم میں سے تقریباً ۲۰۰؍ارب ڈالر بنکوں کے ذریعے پاکستان سے باہر بھجوائے گئے ہیں۔اس طرح ان کاکچھ کالادھن بھی سفید ہوگیا،جو بہرحال منی لانڈرنگ کی زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاںقومی خزانے میں ایک روپیہ جمع کرائے بغیر لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ حاصل کرنا اب بھی ممکن ہے۔ گذشتہ برسوں میں حکومت نے ان کھاتوں کے ذریعے بیرونی کرنسی میں رقوم باہر منتقل کرنے پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں،مگر سرمائے کا فرار بدستور جاری ہے ۔بیرونی کرنسیوں کے کھاتوںکے ذریعے رقوم کی باہر منتقلی کے مندرجہ ذیل تخمینے چشم کشا ہیں:

۱- گذشتہ ۳۲برسوں میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے بیرونی ممالک میں رقوم کی منتقلی کا مجموعی حجم   ۲۰۰؍ارب ڈالر

۲- آزادی کے تقریباً ۷۷برسوں کے بعد ۳۱دسمبر۲۰۲۴ءتک  پاکستان پر بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کامجموعی حجم  ۱۳۱؍ ارب ڈالر

            اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ اگر تعلیم اور علاج معالجے وغیرہ کے علاوہ بیرونی کرنسیوں کے کھاتوں کے ذریعے مارکیٹ سے خریدے ہوئے ڈالرز کو باہر منتقل نہ ہونے دیا جائے، تو عملاً پاکستان پر بیرونی قرضہ ہوتا ہی نہیں اور پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آکر دانش مندانہ معاشی پالیسیاں بنانے کی پوزیشن میں آسکتا تھا۔ مگر حکومت اور اسٹیٹ بنک ان کھاتوں کے ذریعے تعلیم اور صحت کے علاوہ ملک سے باہررقوم کی منتقلی پر پابندی لگانے کے لیے تیارہی نہیں ہیں۔

شعبہ بنکاری ، معیشت اور قومی سلامتی

گذشتہ تقریباً چھ برسوں میں پاکستان میں کام کرنے والے بنکوں نے اپنے سالانہ منافع میں جس تیز رفتاری سے اضافہ کیا ہے، اس کی پہلے کوئی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے۔ بنکوں کے منافع میں زبردست اضافے کی وجوہ میں مندرجہ ذیل عوامل بھی شامل ہیں:

۱-         بنک نفع و نقصان میں شرکت کےکھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہیں کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کروڑوں کھاتے داروں کو قانون توڑ کرکئی ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

۲-         بنکوں نے صنعت ، تجارت، زراعت اور برآمدات وغیرہ کے لیے قرضے کی فراہمی کو ثانوی حیثیت دے کر حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جہاں فی الحال نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس طرح پاکستان میں کرپشن کی پیداوار بجٹ خسارے کی مال کاری کو بنکوں نے اپنا فرض اولین بنا لیا ہے۔

۳-         بنکوں نے بیرونی کرنسی میں سٹے بازی کی اور عملاً ڈالرائزیشن اور سرمائے کے فرار میں کردار ادا کیا۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ۲۰۰۸ء کابنکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع ۶۳؍ارب روپے تھا جو۲۰۱۸ء میں۲۴۲؍ارب روپے،۲۰۲۱ء میں۴۵۱؍ارب روپے، ۲۰۲۲ء میں۷۰۳؍ارب روپے اور ۲۰۲۳ء میں۱۲۸۷؍ارب روپے ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ میںبنکوں کے منافع میں اس حیرت انگیز تیز رفتاری سے اضافہ ہونے کی پہلے سے کوئی مثال نہیں ہے۔یہی نہیں، ۲۰۰۸ءمیں بنکوں کے قرضوں کا مجموعی حجم بنکوں کی مجموعی سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ تھا،لیکن ۲۰۲۳ءمیں بنکوںکی مجموعی سرمایہ کاری بنکوںکے قرضوں کے حجم سے دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی۔ یہ خسارے اور تباہی کا سودا ہے اور اس سے قومی سلامتی کے لیے خطرات بڑھےہیں۔

بنکوں کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی شرح نمو سست ہوئی، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ،بچتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی، ڈالرائزیشن و سرمائے کے فرار میں اضافہ ہوا، اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات بھی دوچند ہوگئے۔ یہ نجکاری کے عمل کی زبردست ناکامی کا ایک اور ثبوت ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والے تمام بنکوںکے دسمبر ۲۰۲۴ء میں مجموعی قرضوں کا حجم تقریباً  ۱۶۳۰۹؍۱ رب روپے تھا، لیکن مجموعی سرمایہ کاری کا حجم تقریباً ۲۹۱۲۹؍ارب روپے تھا ۔تجارتی بنکوں کا اپنے قرضے کے مقابلے میں اتنی بڑی رقوم کی سرمایہ کاری کرنے کی پاکستان میں کوئی مثال موجود نہیں ہے اور شاید ہی دنیا بھر میں کوئی اور مثال ہو۔ ہم اس بارے میں برس ہا  برس سے تواتر کے ساتھ اپنی پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر وزارتِ خزانہ،اسٹیٹ بنک اور بنکوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ تباہ کن پالیسی برقرار رہی ہے۔ اب چونکہ پانی سر سے گزرچکا ہے، اس لیے ملک میں اِکا دکا کچھ آوازیں نیم دلی سے اٹھنا شروع ہوئی ہیں۔

 پاکستان میں کام کرنے والے بنکوں کے ڈپازٹس کا تقریباً ۸۰فی صد ان بنکوں کے پاس ہے، جن کے مالکان غیر ملکی ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۴ء میں پاکستان میں کام کرنے والے تمام بنکوں کے مجموعی اثاثوں کا حجم تقریباً۵۲۱۱۲ ارب روپے تھا،جب کہ پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی کا حجم تقریباً ۱۰۵۰۰۰؍ارب روپے تھا یعنی بنکوں کے مجموعی اثاثے پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً ۵۰فی صدہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والے بنکوں نے برس ہا برس سے اسٹیٹ بنک اور وزارتِ خزانہ کے تعاون سے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ہم یہ مسئلہ برس ہا برس سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اٹھاتے رہے ہیں ۔ آخر کار بعد از خرابیٔ بسیار گورنر اسٹیٹ بنک نے ۲۰۲۵ء میں یہ تسلیم کر ہی لیا کہ مالی سال ۲۰۰۴ءمیں بنکوں نے نجی شعبے کو جو قرضے دیے تھے،ان کا تناسب جی ڈی پی کا ۱۵فی صد تھا، جو مالی سال ۲۰۲۴ء میں کم ہوکر۸ء۴ فی صد رہ گیا۔ یہ حکومت، اسٹیٹ بنک اور بنکوں کے گٹھ جوڑ سے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بنکوں کی جانب سے حکومتی تمسکات میںسرمایہ کاری کی پالیسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنکوں کے شاہانہ اخراجات میںبھی حیرت انگیز تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔

ہم یہ بات کہنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتےہیں کہ بنکوں کی نجکاری کے بعد ان کی کارکردگی کی جو صورتِ حال سامنے آئی ہے، وہ ہمیں ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ (EIC)کے دور کی یاد دلاتی ہے،جو نیوگریٹ گیم کے تناظر میں نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کے مترادف ہے۔ اس پس منظر میں موجودہ حکومت کا نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کا فیصلہ بہت پریشان کن ہے۔

دہشت گردی ۔ امریکا کے استعماری مقاصد برقرار

یہ امر بھی انتہائی تشویشناک ہے کہ گذشتہ تقریباًدوبرسوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتاچلاجارہا ہے۔ یہ سنگین وارداتیںپہلے سے طے شدہ منصوبےاورایک مربوط حکمت عملی کے تحت کروائی جارہی ہیں۔ اب یہ چیزیں کھل کر سامنے آرہی ہیں کہ امریکا نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جولائی ۲۰۲۱ء میںطالبان سےمفاہمت کے بعد اپنی افواج افغانستان سے اچانک واپس بلا لی تھیں۔ امریکا کا افغانستان سے انخلا کو پاکستان میں فتح مبین، امریکا کی شرمناک شکست اور طالبان کی زبردست کامیابی قرار دیاگیا تھا ۔ہم نےبہرحال اسی وقت کہاتھا:

۱-         امریکا نے خطے میں اپنے استعماری مقاصد تبدیل کیے بغیر افغانستان سے انخلا کرکے صرف اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔اسے شکست سے منسوب کرنا خوش فہمی ہے۔

۲-         امریکا، پاکستان اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

۳-         امریکی انخلا کے بعدنئی افغان حکومت کے پاکستان سے تعلقات کشیدہ رہیں گے۔

۴-         امریکا دہشت گردی کے نام پر جنگ جیتنےمیں کبھی بھی دلچسپی نہیں رکھتاتھا اور نہ وہ طالبان کی طاقت کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔

گذشتہ تقریباً چار برسوں میں یہ تمام باتیں درست ثابت ہوئی ہیں۔نائن الیون کے فوراً بعد ہم نے لکھا تھا: ’’دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ میں معاونت و شرکت پاکستان کے لیے خسارے اور تباہی کا سودا ہوگا اور اس معاونت و شرکت کے بدلے پاکستان کو جو امداد و مراعات ملیں گی، ان سے کہیں زیادہ نقصانات پاکستان کو اس دہشت گردی کی جنگ میںمعاونت کے نتیجے میں اٹھانا پڑیں گے‘‘(۲؍اکتوبر ۲۰۲۱ء)۔ اور اُسی وقت یہ بھی کہا تھا: ’’امریکی پالیسیوں کی نتیجے میں دہشت گردی کی اس جنگ میں معاونت اور شرکت سے جو چیلنج سامنے آئیں گے، ان سے نمٹنا پاکستان کی طاقت اور صلاحیت سے باہر ہوگا‘‘۔

عالمی دہشت گردی انڈیکس

افغانستان سے امریکی انخلا کے چند ماہ بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میںایک مرتبہ پھر تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ عالمی دہشت گردی انڈیکس ۲۰۲۵ءکے مندرجہ ذیل نکات انتہائی تشویشناک ہیں:

۱- عالمی دہشت گردی انڈیکس میںپاکستان کو دہشت گردی سے متاثر ہونے والا دنیا کا دوسراسب سے بڑا ملک قرار دیا گیا ہے۔

۲- کا لعدم تحریک طالبان پاکستان کو دنیا کی چار بڑی دہشت گرد تنظیموں میں شامل کیا گیاہے۔ اس تنظیم نے پاکستانی قوم اور مملکت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی خوفناک اور خونی مہم شروع کی ہوئی ہے۔

۳- ۲۰۲۳ءکے مقابلے میں ۲۰۲۴ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیںدوگنی اور ۲۰۲۵ء کے پہلے تین ماہ ہی میں شدت پکڑگئی ہیں۔

۴- دہشت گردی کی ۹۶ فی صد وارداتیں صوبہ خیبر پختونخوا اورصوبہ بلوچستان میں ہورہی ہیں۔ بلوچستان کی دہشت گرد تنظیم، وہاں پر ہونے والی خوفناک دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ افغانستان میں ۲۰۲۱ء میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے افغانستان ہی پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے۔   ان برسوںمیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں مختلف حکومتوں کے دور میںدہشت گردی کی وارداتوں سے نمٹنے کے لیے صرف طاقت کا استعمال کیا جاتارہا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے خطےکے عوام کے دل و دماغ بھی جیتنا ہوں گے اورپاکستان میں حکومتوں کو خود اپنی معاشی و مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے عوام کے خلاف اقتصادی دہشت گردی کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ میں معاونت اور بعد میں اس جنگ کوامریکی ایجنڈے کے مطابق پاکستان کی خود اپنی جنگ بنانے کے صلے میں امریکا نے پاکستان کے کچھ قرضے معاف کیے تھے۔ پاکستان کو نقد امداددی تھی اور دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات کے ایک حصے کی تلافی بھی کی تھی، مگر یہ خسارے اور تباہی کا سودا ہی رہا۔ پاکستان میںدہشت گردی کی وارداتوںسے اب تک تقریباً ۸۵ ہزار افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا بھی سامنا ہے۔

اب سے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں صبح شام ڈیفالٹ کرنے کے نعرے خود حکومتی حلقوں کی جانب سےبھی لگائے جاتے رہے تھے، مگر ہم نے درجنوں بار کہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا،کیونکہ امریکا کوپاکستان میں جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی، افغانستان کے معاملات، روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور’گریٹر اسرائیل‘ کے ناپاک منصوبے میں پیش رفت کرنے اور اپنے استعماری مقاصد کے حصو ل کے لیےبہترین محل وقوع کا حامل پاکستان، اس کی طاقت ور فوج اور عالم اسلام کا اہم ملک ہونے کی وجہ سے ابھی بھی امریکا کو پاکستان کی مددکی ضرورت ہے۔

حالیہ تشویشناک پہلو

۲۸ فروری ۲۰۲۵ءکو مدرسہ حقانیہ میں خود کش حملہ اور ماضی میں دینی مدارس کے خلاف اسلام دشمن قوتوں کے پروپیگنڈا سے اس بات کا خدشہ نظر آرہا ہے کہ استعماری طاقتیں آگے چل کر پاکستان میں دینی مدارس کے معاملات اور نصاب میں کسی نہ کسی شکل میں مداخلت کریں گی۔

 افغانستان سے امریکی افواج نے انخلا کے وقت اربوں ڈالر کا اسلحہ اور فوجی سازوسامان دانستہ افغانستان میں چھوڑا تھا تاکہ یہ ہتھیار پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے بھی استعمال کیے جاسکیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نےایک حکمت عملی کے تحت امریکی اسلحہ اور (چین پر نظر رکھنے کے لیے) افغانستان کا بگرام ائربیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ عزائم متعدد سنگین خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔ دراصل نیو گریٹ گیم کےمقاصد کے حصول کے لیےاٹھائے جانے والے امریکی اقدامات اور پالیسیاںاس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ کا پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور فیصلہ کن مرحلہ چار برس قبل ہی شروع ہوچکا ہے، اور اس کا محور افغانستان اور پاکستان تک محدود نہیں ہے اور نہ رہے گا۔

امریکا میں حکومت ڈیموکریٹک پارٹی کی ہو یا ری پبلکن پارٹی کی، سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں وہ بہرحال جاری رکھے گا۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان کی معیشت آنے والے برسوں میںبحال تو نہ ہو مگر لڑکھڑاتی ہوئی چلتی رہے۔ بدقسمتی سےوفاقی وصوبائی حکومتوں ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں، اسٹیٹ بنک اور ایف بی آروغیرہ کی پالیسیاں اس مقصد کے حصول میںعملاً معاونت کررہی ہیں۔ امریکا کا موجودہ نسبتاً ’ہمدردانہ رویہ‘ لمبے عرصےتک برقرار نہیں رہے گا اور ایک مرتبہ پھر معاندانہ ہوجائے گا ۔ اس مدت کو ایک مہلت سمجھ کر پاکستان کو معیشت، مالیات اور توانائی کے شعبے میں اسٹرکچرل اصلاحات کرنا ہوںگی اور معیشت کو خود انحصاری کے زریں اصولوں پر استوار کرنے کے لیے اسلامی نظام معیشت کےاصولوں کے مطابق انقلابی نوعیت کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

تنبیہہ:مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جوہری طاقت کے حامل پاکستان نے ایک فلاحی اسلامی مملکت کے شایان شان، اسلام کےعادلانہ معاشی نظام کے مطابق اپنی پالیسیاں اور قوانین وضع نہیں کیے اور سرمایہ دارانہ نظام کی بگڑی ہوئی شکل پر مبنی مختلف پالیسیاں برقرار رکھیں، تو خدشہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کو خطرات دو چند ہوجائیں گے بلکہ معیشت سے سود کے خاتمے اور اسلامی نظام معیشت وبنکاری شریعت کی رو ح کے مطابق نافذ کرنے کے دعوے خواب و خیال بن کر رہ جائیں گے، جو کہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔

پاکستان پانی کی فراوانی و دستیابی والے ملک کے مقام سے گر کر اب پانی کی قلت والا ملک بننے کے قریب ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق بن چکا ہے۔ دیگر ماہرین کے مطابق اگر اس سلسلے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ۲۰۳۵ء تک یقینی طور پر پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ اس صورت حال تک پہنچنے میں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافے کا حصہ ہے، وہاں اس میں ایک بہت بڑا حصہ پانی کے غیرمحتاط استعمال، اس کی ترسیل کے ناقص انتظام اور اسے ذخیرہ کرنے میں کوتاہی کا بھی ہے۔ یہی وہ پہلو ہیں جن پر اس تحریر میں ہماری توجہ مرکوز ہے۔ اس مقصد کے لیے ماضی میں تیار کی گئی متعدد رپورٹوں سے مدد لی گئی ہے، جن میں سے اکثر کی تیاری کے لیے حکومتِ پاکستان کا کوئی نہ کوئی محکمہ شامل رہا ہے۔

ہمارے تجزیے کے مطابق قابلِ عمل منصوبہ بندی اور ترجیحات کے درست تعیّن کے ذریعے صورت حال کو اب بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ملک کے تمام صوبوں کی مشاورت اور شمولیت سے اور ان کے تحفظات کو دُور کرتے ہوئے ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ ہمارے پاس ایسی دستاویزات، معاہدے، ایکٹ اور پالیسیاں موجود ہیں، جن کی بنیاد پر تعمیری پیش قدمی ممکن ہے۔ اسی طرح ہمیں ایسے فورم بھی میسر ہیں جہاں گفتگو اور تبادلۂ خیال کے ذریعے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔

تاریخی پس منظر

تاریخی طور پر وہ تہذیبیں اور شہر جو پانی کی عدم دستیابی سے اُجڑ گئے، ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت سے جو خشک سالی پیدا ہوئی تو اس نے ان علاقوں میں زراعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ زراعت ہی ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی اور غذائی ضروریات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ تھی۔ اس میں خلل پڑا تو یہ بستیاں اُجڑ گئیں۔

پاکستان بننے کے بعد بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں شدید خشک سالی اور قحط جیسی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے، جس کی کثرت موجودہ صدی میں بڑھ گئی ہے۔ مثلاً، پاکستان کی تاریخ کی شدید ترین خشک سالی صوبہ بلوچستان میں ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۲ء کے دوران ہوئی اور یہی صورت حال ۲۰۱۳ء-۲۰۱۴ء میں صوبہ سندھ کے علاقے تھرپارکر میں رہی، جب کہ ۲۰۱۸ء، ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۰ء میں سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع خشک سالی کا شکار ہوئے۔ اس دوران، پاکستان کے موسمیاتی ادارے کے مطابق ان علاقوں میں ۲۰ سے ۳۰ فی صد بارش کی کمی رہی، جو ان علاقوں کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

دوسری جانب ہم حالیہ برسوں میں سیلابوں سے ہونے والی تباہی دیکھ چکے ہیں۔ جن میں ۲۰۲۲ء کے سیلاب میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں دو ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ مویشیوں، فصلوں اور رہائشی علاقوں کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کی تباہی کا تخمینہ ۴۰ بلین ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۵۰ء، ۱۹۷۳ء،۱۹۹۲ء اور موجودہ صدی میں ۲۰۰۳ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں بھی سیلاب نے ملک میں تباہی مچائی۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سیلابوں کی کثرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کا زیادہ تعلق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے، جو ایک قابلِ تشویش اور توجہ طلب صورت حال ہے۔

پانی کی تقسیم کے اعتبار سے بین الااقوامی اور بین الصوبائی معاہدوں کی تاریخ یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ بہت اہم سندھ طاس معاہدہ مغربی اور مشرقی دریاؤں کی تقسیم کے سلسلے میں ۱۹۶۰ء میں ہوا، جو اب تک برقرار ہے۔ تاہم، انڈیا نے اس معاہدے پر نظرثانی کے لیے حال ہی میں دو نوٹس پاکستان کو بھیجے ہیں، جب کہ جموں و کشمیر میں پاکستان کے لیے مختص پانی پر روک لگانے کے انڈین منصوبوں کے خلاف پاکستان نےعالمی عدالت میں مقدمات دائر کر رکھے ہیں، جنھیں عدالت نے شنوائی کے لیے منظور بھی کر لیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر تبدیل یا ختم نہیں کر سکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے بین الاقوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے لابنگ کررہا ہے۔

اگرچہ انڈیا ایک کمزور پوزیشن میں ہے، کیونکہ وہ خود بھی دریائے برہماپتر کے پانی کی نسبت سے ایسی صورت حال سے دوچار ہے جیسا کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی صورت حال ہے۔ حال ہی میں چین نے دریائے برہماپتر پر ایک بڑا ڈیم بنانے کے منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ پاکستان کے بین الصوبائی معاہدوں میں اہم اور نافذ العمل معاہدہ ۱۹۹۱ء کا پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے، جس میں چاروں صوبوں کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے درمیان اس معاہدے کے نفاذ سے متعلق بعض اوقات اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، تاہم ان اختلافات کو ٹکنالوجی، جدید مانیٹرنگ سسٹم اور واٹر آڈٹ کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان نے جب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا تو مغربی پاکستان کی آبادی ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ تھی، جو بڑھ کر ۲۰۲۵ء میں ۲۵کروڑ ۴۰ لاکھ ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ فی کس پانی کی دستیابی میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کمی آئی ہے۔ ۹۵ فی صد تک پانی زراعت پر صرف ہوتا ہے۔ زرعی شعبہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جی ڈی پی میں اپنے حصے کے حساب سے ۵۳  فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچا، اور اس کے بعد تنزلی کا سفر طے کر کے اب ۲۴-۲۳ فی صد کے درمیان پہنچ گیا ہے (اکنامک سروے آف پاکستان ۲۰۲۴ء) ۔ اسی طرح زرعی اجناس کی برآمد ابتداء میں کل برآمد کا تقریباً ۹۹  فی صد تھی، جو ۹۰  فی صد زرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ تھی۔ تاہم، اب بھی پاکستان کی ۷۰ فی صد برآمدات بالواسطہ یا براہِ راست زراعت سے منسلک ہیں۔ اس طرح یہ شعبہ یقیناً ملک کے لیے بہت اہم ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرسودہ طریقوں سے جاری کاشت کاری کے باعث ایک جانب تو ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہے، ساتھ ہی پانی کے غیرمؤثر اور بلا ضرورت استعمال اور فراہمی آب کے ناقص نظام کے سبب پانی کی ایک بڑی مقدار ضائع ہوتی رہی ہے۔ فصلوں کے لیے پانی کے استعمال میں جدید سائنسی معلومات اور طریقوں کو اختیار کر کے جو کمی لائی جا سکتی تھی وہ ہم نہیں لاسکے۔ اگرچہ ہم اپنے نہری نظام کی وسعت پر تو فخر کرتے ہیں، جو صدیوں پرانا ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا گیا ہے، لیکن ان نہروں کو پختہ کرنے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ کچی نہروں کے کناروں اور تہوں سے رس کر پانی کی ایک بہت بڑی مقدار ضائع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس طرح پانی کا ایک حصہ زیرزمین آبی ذخیروں کو قائم رکھنے میں بھی صرف ہوتا ہے۔ اسی طرح نہروں اور آبی ذخیروں سے سورج کی شعاعوں سے بخارات بن کر بھی پانی کا ایک حصہ اُڑ جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں اس طرح پانی ضائع ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے جن میں بلوچستان سرِ فہرست ہے، جہاں تاریخی طور پر کاریزوں کے زیرِ زمین نظام کے ذریعے اس پر قابو پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں یہ ہدف آبی ذخیروں پر فلوٹنگ شمسی پینل لگا کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پیدا ہونے والی بجلی کو مین گرڈ سے دُور علاقوں میں استعمال کے لیے مہیّا بھی کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی پانی کے ضیاع میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ایک نسبتاً کم خرچ حل ان ذخائر پر فلوٹنگ پلاسٹک گیندوں کو پھیلاکر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

یہاں اس چیلنج کو حل کرنے کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں:

پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش

پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی کل تعداد ۱۵۰ ہے۔ ایک تقابلی جائزے کے لیے، انڈیا میں ایسے ڈیموں کے تعداد ۵۳۰۰ ہے، جب کہ سیکڑوں ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ چین میں ڈیموں کی تعداد ۲۸ہزار ۹سو ہے۔ پاکستان میں ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ۳۰ دن، جب کہ انڈیا میں ۱۲۰ دن کی ہے۔ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش زیر تعمیر ڈیم منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد تقریباً ۱۳ ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کر تقریباً ۲۴ ملین ایکڑ فٹ ہوجائے گی۔ ان منصوبوں میں دیامر- بھاشا ڈیم سب سے بڑا ہے، جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ۸ء۲ملین مکعب فٹ ہوگی اور ۴۵۰۰ میگاواٹ بجلی بھی یہاں سے پیدا کی جا سکے گی۔ پاکستان میں اکثر ڈیم کثیرالمقاصد ہیں،  جن کی افادیت میں پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ، بجلی پیدا کرنا، سیلاب سے بچاؤ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مستقبل میں بننے والے ڈیموں میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو شامل کرنا موجودہ حالات اور مستقبلِ قریب کے تناظر میں بحث طلب ہے۔

پچھلے چند عشروں میں ہماری حکومت کی ناقص منصوبہ سازیوں کے سبب ہم کبھی ’آئی پی پیز‘ (IPPs)کے جال میں پھنس گئے اور کبھی ایل این جی (LNG) جیسے قیمتی سرمائے (ایندھن) کو بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد (Import) کرنے کے لیے ناقابلِ تصور شرائط سے بُنے معاہدوں میں جکڑے گئے۔ پھر یہ بھی کہ ہم اس مہنگی بجلی کے استعمال کے وسیلے سے صنعتی ترقی بھی نہ کرسکے۔ اب ان معاہدوں سے نکلنے کی کوششوں میں مختلف وجوہ کے سبب خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی۔ چنانچہ ہم اس صورتِ حال سے دوچار ہیں کہ ہم آج بھی اپنی ضرورت سے تقریباً دوگنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور زیرِ تعمیر منصوبے، جن میں دیامیر- بھاشا ڈیم اہم ہے، اس صلاحیت کو دُگنا کر دیں گے۔ بجلی کی پیداوار کو مؤخر کر کے اگر ان ڈیموں کی تعمیر کے کل اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہو تو ایسا کرنا مناسب ہو گا۔ کم از کم مستقبل قریب کے لیے تجویز کردہ منصوبوں کے لیے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمیں فی الحال بجلی پیدا کرنے کے مزید منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے، اس کے باوجود کہ پن بجلی ایک سستی اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ ذریعۂ توانائی ہے۔

پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت میں اضافے، پانی کی قلت کی رواں صورت حال اور اس کے مستقبل کے اندازوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کو مزید آبی ذخیروں کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے متحمل بھی ہیں؟ دیامر- بھاشا ڈیم جو کہ پانی کا ایک بڑا ذخیرہ تخلیق کرے گا، پاکستان اس منصوبے کے لیے منظوری دے چکا اور اس کا پابند ہے۔ مزید آبی ذخائر کے لیے چھوٹے ڈیموں پر توجہ دینا ایک بہتر راستہ ہوگا، جن کے لیے صوبہ جات میں متعدد مقامات کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ چھوٹے ڈیم اور آبی ذخائر نسبتاً کم قیمت پر اور قلیل مدّت میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری تجویز ہے کہ تمام صوبے ۱۹۹۱ء کے بین الصوبائی معاہدے کے تحت اپنے متعین شدہ فی صد حجم کی مناسبت سے پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات کریں، تاکہ موسمیاتی تغیرات وغیرہ سے پیدا ہونے والی کمی اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اضافی ضروریات کو ان ذخائر سے حسب ضرورت پورا کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت اس مقصد کے لیے کل اضافی مقدار کا تعین کرے، صوبے اپنے اپنے حصے کا پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت میں اضافے کے لیے کم از کم اپنے مجوزہ حصے کے ہدف کو حاصل کرنے کے پابند ہوں۔

 ڈیموں کے جہاں کچھ نقصانات ہیں اور ان سے بچاؤ کی تدابیر ضروری ہیں، وہاں ان کی افادیت کی فہرست طویل ہے، جس میں مچھلیوں کی افزائش، سیاحت کا فروغ اور ان کے آبی ذخائر کی تہہ میں معدنیات کے ذخائر (placer deposits) سے لے کر اس مٹی کی زرخیزی سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بناء پر بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ یہاں تک کہ دریائوں اور ندی نالوں کے ساتھ ساتھ موجود آبادی کے اشتراک سے  حکومتی سرپرستی میں چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر بنانے کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے۔ ہماری نظر میں، ہر وہ منصوبہ جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شامل ہو، وہ انفرادی اور قومی سطح کے فوائد حاصل کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ ایسے منصوبوں کی طرف خصوصی توجہ دینا ہمارے لیے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد سے زیادہ بہتر نتائج کا ذریعہ ثابت ہو گا۔

مزید یہ کہ زیرزمین پانی کے ذخائر کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر ’الیکٹرک ری سسٹیویٹی سروے‘  (Electric Resistivity Survey) اور اس قسم کے دیگر طریقوں کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ خاص طور پر بارانی اور ریگستانی علاقوں میں اس قسم کے سروے اور ’ہائیڈرلوجک ماڈلنگ‘ سے مدد لے کر زیرزمین پانی کے ذخائر کے مناسب استعمال کی منصوبہ سازی کی جائے۔ ایسا کرنے سے دریائی پانی کی قلّت کے پیش نظر اس پر انحصار کو کم کیا جاسکے گا۔ چولستان جیسے علاقوں میں دریا کی پرانی گزرگاہیں زیرزمین پانی کی تلاش کے لیے موزوں علاقے ہوسکتے ہیں۔

مجوزہ اقدامات

اس مسئلے سے جڑے ایک اہم سوال پر غور و خوض ضروری ہے، اور وہ یہ کہ شعبۂ زراعت کے لیے مستقبل میں پانی کی کتنی ضرورت ہوگی؟ یہ بھی کہ اس ضمن میں ایسی کون سی نئی راہیں ہیں جنھیں اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پانی کی متوقع ضرورت کو پورا کیا جا سکے؟ مختلف تخمینے بتاتے ہیں کہ زراعت کے لیے کل پانی کا ۹۰ سے ۹۵  فی صد کاشت کاری کے لیے نہری نظام کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے، مگر اس میں سے ۵۰ سے ۶۰  فی صد ضائع ہو جاتا ہے، جس کی بعض وجوہ اُوپر بیان کی گئی ہیں۔ مقدار کے حساب سے یہ ضائع ہونے والا پانی ۶۰ سے ۷۰ ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے۔ اس ضیاع کو جس قدر مؤثر انداز میں کم کیا جا سکے اتنا ہی قومی خزانے پر نئے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے کم بوجھ پڑے گا۔ کیونکہ یہ اقدامات نسبتاٌ کم خرچ اور بآسانی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے کیے جا سکتے ہیں۔ انھیں ہنگامی بنیادوں پر، بڑے پیمانے پراور بلا کسی تاخیر کے شروع کرنا ناگزیر ہے۔ ان اقدامات کی ایک فہرست درج ذیل ہے:

  • کسانوں کی آگہی اور تربیت کے لیے انتظامات، جن میں میڈیا کا بھرپور استعمال ہو، اور موبائل فون سروس کو اس مقصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کیا جائے۔ اس میں پانی کے مناسب استعمال کی طرف ترغیب دی جائے۔ یہ بھی کہ اس سلسلے میں ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن سے کسانوں کی آمدنی کم نہ ہو اور جو زمین کی زرخیزی کے لیے بھی بہتر ہوں، جب کہ ان کے لیے پانی کی ضروریات کم ہوں۔
  • جدید ٹکنالوجی جس سے پانی کے استعمال کو ضرورت تک محدود رکھا جا سکے، جیسا کے ڈرپ فارمنگ وغیرہ کے لیے آسان اقساط پر قرضوں کی فراہمی۔
  • پانی کی ترسیل کے نہری نظام کو ٹکنالوجی کی مدد سے بہتر بنانا، جس سے صرف ضرورت کا پانی ہی نہروں میں ڈالا جائے اوراس کا ڈیٹا ہمہ وقت ایک ڈیش بورڈ پر معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند افراد اور اداروں کے لیے میسّر ہو۔
  • ٹوٹ پھوٹ کا شکار ترسیلِ آب کا نظام بڑے پیمانے پر مرمّت اور تجدید کا متقاضی ہے، جس میں بیراجوں سے لے کر پائپ لائنوں تک، فلٹریشن پلانٹ سے لے کر ٹریٹمنٹ پلانٹ وغیرہ تک شامل ہیں۔ موجودہ ناقص نظام پانی کے ضائع ہو جانے کی بہت اہم وجہ ہے۔
  • پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے، ان علاقوں کی نشاندہی کے بعد جہاں زیادہ ضرورت ہو، وہاں ترجیحی بنیاد پر جھیلوں پہ فلوٹنگ شمسی پینلوں کی تنصیب ایک بہتر طریقہ ہے، جس کے ذریعے بخارات بن کر اُڑ جانے والے پانی کی مقدار میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ جھیلوں اور کہیں کہیں نہروں کے بعض حصوں پر شمسی پینلوں کی تنصیب سے پیدا ہونے والی بجلی کو کسانوں کے گھروں اور بجلی سے چلنے والے ٹریکٹروں اور دیگر زرعی مشینری کے لیےاستعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • اُوپر بیان کردہ طریقہ نہروں کے مقابلے میں جھیلوں کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ جھیلوں پر نسبتاً کم قیمت ڈھانچا زیادہ بڑے رقبے کے لیے کافی ہوتا ہے،جب کہ نہروں پر ایسے انتظام میں زیادہ لاگت آتی ہے۔ اس بنا پر نہروں کے لیے پانی کو بخارات بن کر ضائع ہونے سے بچانے کے لیے صرف ایچ ڈی پی ای فلوٹنگ شیٹ یا فلوٹنگ گیندوں کی تنصیب جیسا کہ دنیا میں کئی مقامات پر کیا جا رہا ہے، جو ایک نسبتاً کم لاگت والا طریقہ ہے، جسے منتخب مقامات پر استعمال کرکے پانی کے ضیاع میں خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔
  • جہاں پر پانی زیرِ زمین ذخیروں تک نہیں پہنچتا اور رس کر ضائع ہو جاتا ہے، وہاں نہروں کے پختہ کرنے کا کام ترجیحی طور پر کیا جائے، جب کہ بعض صورتوں میں پانی چوسنے والے کنوئیں کھودے جائیں۔ ایسے کنوئیں نہ صرف دیہی علاقوں میں نہروں کے کناروں پر بلکہ شہروں کے لیے بھی زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو ریچارج کرنے کے لیے مؤثر ہو سکتے ہیں۔
  • دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پانی کی بقدرِ ضرورت ترسیل کو مرکز اور صوبوں کے تعاون سے یقینی بنایا جائے۔ تاکہ سمندری حیات اور ماحول کا تحفظ کیا جا سکے اورڈیلٹا سے متصل علاقوں میں سمندری پانی کے زمین کی طرف آنے کو روکا جا سکے، جو قابلِ کاشت زمین کے تباہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔
  • شہری آبادی اگرچہ دریائی پانی کا بہت کم حصہ استعمال کرتی ہے، تاہم اس میں بھی ری سائیکلنگ اور واٹر کنزرویشن کے دیگر طریقوں سے جن میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اور اسے  زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو قائم رکھنے اور اس کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرنا شامل ہے۔ ان طریقوں کو شہری میونسپل کارپوریشنوں کے لیے ہدف مقرر کرکے پانی کے ضیاع میں کمی لائی جائے۔ نیز یہ کہ کراچی سمیت صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ نصب کیے جائیں۔ اس طرح کے انتظامات پر آنے والے اخراجات میں حالیہ برسوں میں خاصی کمی آئی ہے اور ٹکنالوجی بہتر ہونے کے ساتھ سستی بھی ہوگئی ہے۔

اس مضمون میں ایسی بہت سی تفصیلات شامل نہیں کی گئیں، جنھیں انٹرنیٹ پر موجود رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں مختلف مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ یہاں پر صرف پاکستان کے مخصوص اقتصادی حالات سر فہرست ہیں، اور منصوبوں کے قابلِ عمل ہونے کے اعتبار سے ترجیحات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ان کے حساب سے نئی ترجیحات مرتب کرنی پڑتی ہیں۔ جیسے کہ آئی پی پیز وغیرہ کے مسائل سے چھٹکارا پانے کی صورت میں اور ملک کی اقتصادی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر دوبارہ پن بجلی کے منصوبوں کی طرف توجہ کرنا، وغیرہ۔ اس بنا پر تمام مسائل اور ان سے نبردآزما ہونے کے ممکنہ طریقوں کونظر میں رکھنا ضروری ہے۔ ہماری ٹیم کی تیار کردہ جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، اس مجموعی صورت حال کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

یہ بات امید افزا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت سے متعلق خطرات کو حکومتی سطح پر، ماہرین سائنس و ٹکنالوجی نے اور سماجی مسائل پر نظر رکھنے والے اہلِ علم و دانش نے شدّت سے محسوس کیا ہے اور پچھلے چند برسوں میں اس ضمن میں تحقیق کے نتیجے میں متعدد معیاری مقالے شائع ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین اور اداروں کا بھی اس کام میں بڑا حصہ ہے۔ مگر جو بات تشویشناک ہے وہ یہ کہ ایسی آگہی عوامی سطح پر موجود نہیں۔ اسی کمی کو پورا کرنے کے ہدف کو ہم نے مقدّم رکھا ہے۔

دو اہم سوالات

  1. کیا آج پاکستان کے لیے اپنی قابلِ کاشت زمین میں اضافہ کر کے زرعی پیداوار کو بڑھانا ایک اچھا راستہ ہے؟
  2. کیا پانی کی قلت پر قابو پانا آج ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہماری غذائی اور دیگر ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی ہماری بین الاقوامی زرعی تجارت کا میزانیہ درآمد کی جانب کئی بلین ڈالر بڑھ گیا ہے ( External Trade, Pakistan Bureau of Statistics 2023)۔

۲۰۲۳ء میں یہ خسارہ۵۵ء۲۷ بلین ڈالر تھا (Agricultural Performance Finance Division 2022-2023 )۔ یہ صورت حال اس کے باوجود رہی کہ اس سال پاکستان نے گندم اور چینی کی ریکارڈ مقدار برآمد کی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زرعی پیداوارمیں اضافہ اپنی موجودہ صورت میں زرعی تجارت کے خسارے کو کم کرنے میں مؤثر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے، کہ پاکستان کی کل برآمدات میں ۷۰  فی صد حصہ براہِ راست زرعی پیداوار اور اس سے وابستہ اشیاء کا ہے۔ یہ صورت حال درج ذیل اقدامات کا تقاضاکرتی ہے:

  • زرعی پیداوار اوراس سے وابستہ برآمدات اپنی موجودہ صورت میں غالباً ایسا ذریعہ نہیں جس سے بین الاقوامی تجارتی خسارہ مؤثر طور پر کم کیا جاسکے۔ اس بنا پرہمیں برآمدات کے لیے اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔
  • زراعت میں ایسی فصلوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن کی دنیا میں مانگ زیادہ ہو، اور یہ ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ اس بنا پر دنیا کے حالات پر نظر رکھتے ہوئےایک جامع حکمتِ عملی کے تحت ہر سال کے اہداف مقرر کرنے ہوں گے اور ان کی طرف مؤثرانداز میں کسانوں کو اپنی ترجیحات متعین کرنے پر ترغیب دلانا ہوگی۔ اس سلسلے میں دیگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ موبائل فون کسانوں سے مسلسل رابطے اور ان کے لیے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ ہوسکتا ہے۔
  • فی ایکڑ پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کرنا ہوگا۔ آج ہم اس میدان میں اپنے قریبی ممالک چین اور انڈیا سے پیچھے ہیں۔ اس ضمن میں چین کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین کی یہ برتری، جدید زرعی ٹکنالوجی کے استعمال، پانی کے مؤثر استعمال اور حکومتی مراعات کی بنا پر ہے۔ تاہم، ہمارے لیے جی ایم پراڈکٹس سے دُور رہ کر پیش رفت کرنا مناسب ہوگا، کیونکہ اس معاملے میں پاکستان چین، انڈیا اور دیگر کئی ممالک سے بہتر مقام پر ہے۔ اسی بنا پر یورپی ممالک میں پاکستانی زرعی اجناس کی مانگ بڑھتی رہی ہے۔ یہ بھی کہ فی ایکڑ پیداوار اور مجموعی پیداوار میں اضافے کے لیے بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے ’کارپوریٹ فارمنگ‘ کے مقابلے میں ملکی اداروں اور نجی کمپنیوں کے تعاون سے ’کوآپریٹو فارمنگ‘ کے ماڈل کو آگے بڑھایا جائے، تاکہ شعبہ زراعت میں بین الاقوامی انحصار کم رہے اور ثمرات چھوٹے کسانوں تک منتقل ہو سکیں۔ ترقی پذیری میں ہماری سطح کے ممالک مثلاً، کینیا، مراکش اور جنوبی افریقہ اس میدان میں کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں۔

اُوپر بیان کیے گئے نکات کی روشنی میں قابلِ کاشت زمین میں اضافے سے پہلے ہمارے لیے موجودہ قابل کاشت زمین کی زرعی پیداوار میں اضافے اور فصلوں کے انتخاب میں بہتری لانے کے مواقع پر توجہ کرنا اہم ہو گا، جن سے زرعی تجارت کے خسارے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ زراعت سے وابستہ مصنوعات جن میں کپاس سب سے اہم ہے۔ ان کی پیداوار، ان کی قدر بڑھانے اور زیادہ قیمتی اور قابلِ قدراشیاء کی تیاری وغیرہ پر توجہ دینا بہت فائدہ مند ہوگا۔  اس سلسلے میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو جدید نہج پر اٹھانے کی سعی کرنا ہوگی، تاکہ ہم محض کپاس کی بیلز اور دھاگے سے آگے بڑھ کر زیادہ قدرو قیمت والی اشیا برآمد کرسکیں۔ اس سلسلے میں حکومتی سرپرستی میں توانائی کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنانا ہماری مصنوعات کے لیے بین الاقوامی مسابقت میں اہم کردار ادا کرے گا۔

زرعی اجناس کی برآمدات کو متنوع بنانے پر توجہ دینا ہو گی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بتدریج زراعت پر انحصار والی معیشت سے ایک کثیرالجہت معیشت کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔ ایسا کرنا مستقبل میں پانی کی قلت کے دباؤ کو کم کرنے میں بھی معاون ہو گا۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ’’کیا پانی کی قلت پر قابو پانا آج ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ ہے؟‘‘ اگرچہ اس تحریر کے ابتدائی حصے میں اس مسئلے کی اہمیت اور شدت پر گفتگو ہو چکی ہے اور اس سے نبردآزما ہونے کے لیے چند تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ تاہم، یہاں ہم اپنے پہلے سوال سے وابستہ گزارشات کی روشنی میں چند مزید معروضات پیش کرتے ہیں۔

اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل قریب میں پانی کی قلت پاکستان کے لیے اہم ترین مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ بن کراُبھر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں، ایک جانب تو عوام الناس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، قومی ترقی متاثر ہو گی، اوردوسری جانب اس سے بین الاقوامی اور اندرونی تنازعات بھی سر اٹھا سکتے ہیں۔ انڈیا سے سندھ طاس معاہدے سے جڑے مسائل کا ذکر اوپر ہو چکا، جن سے نمٹنے کی تدابیر ضروری ہیں۔ پانی کی اندرونِ ملک تقسیم کے سلسلے میں ۸۰ کے عشرے میں ہم ’کالا باغ ڈیم‘ کے معاملے میں صوبوں کے درمیان کشیدگی کے شاہد ہیں۔ بعدازاں بھی اس قسم کے چھوٹے بڑے تنازعات سر اٹھاتے رہے ہیں۔ اگرچہ ان تنازعات کو ۱۹۹۱ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق اور سی سی آئی جیسے فورمز پر حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم، ہم دیکھتے ہیں کہ ان راستوں کے موجودگی کے باوجود پانی سے تعلق رکھنے والے منصوبے عوام اور میڈیا میں موضوعِ بحث بن جاتے ہیں۔ ان بحثوں کے شرکاء میں مکمل معلومات کے فقدان کے سبب بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جو عوامی سطح پر پھیل جاتی ہیں۔

اس سلسلے میں حالیہ دنوں کی مثال چولستان کا نہری منصوبہ ہے:

ہم اس منصوبے کے بارے میں چند حقائق پیش کرتے ہیں، جسے ’چولستان کنال پروجیکٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو ’گرین پاکستان انیشیٹیو‘ کا ایک جزو ہے۔ اس کے ذریعے پہلے مرحلے میں چولستان کی ۴۵۲ ہزارایکڑصحرائی زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا اور اس منصوبے کی اہم شریان یعنی نہرچولستان ۱۷۶ کلو میٹر طویل ہو گی، جب کہ اس سے مشرق کی طرف نکلنے والی مروٹ نہر ۱۲۰ کلومیٹر طویل ہوگی، جس سے آگے چھوٹی نہروں کا ایک جال بچھایا جائے گا جو مجموعی طور پر ۴۵۲ کلومیٹرطویل ہوگا ۔ منصوبے کے اس پہلے حصے پر ۲۱۱ بلین روپے خرچ ہوں گے۔ IRSA  (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے فروری ۲۰۲۵ء میں اس منصوبے کے لیے پنجاب حکومت کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے، جس کی صوبہ سندھ نے مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود کہ موجودہ صدرِ مملکت مبینہ طور پر اس سے پہلے جولائی ۲۰۲۴ء میں اس منصوبے کی توثیق کرچکے ہیں۔ چولستان کی سیرابی کے دوسرے مرحلے میں نہری نظام کو مزید توسیع دے کر اس سے ۷۴۴ ہزار ایکٹر اضافی رقبے کو سیراب کرنے کا منصوبہ ہے۔

۲۰۲۳ءمیں ۱۰ اور ۱۴؍اگست کے درمیان سیلابی صورت حال کے باعث انڈیا نے ۸۰سے ۱۰۰ ہزار کیوسک کا ریلا ستلج اور بیاس کے مشرقی دریاؤں کے ذریعے پاکستان کی طرف چھوڑا، جس سے پاکستان کے کئی شہروں میں سیلاب سے تباہی آئی۔ تاہم، ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایسی سیلابی صورت ۳۵ برسوں میں ایک بار ہی پیدا ہوئی، جب کہ اس سے برعکس یعنی خشک سالی کی کیفیت متعدد بار سامنے آئی ہے۔ مزید یہ کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ۲۰۱۰ء کی رپورٹ جو گلیشیروں کے پگھلنے کے بارے میں ہے، آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پانی کے استعمال کے بڑے منصوبوں سے اس وقت تک اجتناب بہتر ہوگا، جب تک ہم واٹر مینجمنٹ کے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کر لیتے۔

اُوپر بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں مستقبل میں پانی کی دستیابی میں کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں قابلِ کاشت رقبے کو بڑھانے کے ایسے منصوبوں پر عمل درآمد، جن میں اضافی پانی درکار ہو گا، تشویش پیدا کرتے ہیں۔ چولستان کی سیرابی جیسے منصوبوں کو محض سیلابی پانی پر تکیہ کر کے نہیں بنایا جا سکتا۔ غرض یہ کہ چولستان میں بنائے جانے والے نہری نظام کے لیے پانی کی ضروریات کو موجودہ زرخیز زمینوں کے پانی میں کٹوتی کر کے ہی پورا کیا جا سکے گا، جہاں پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس اضافی کٹوتی سے جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کی تمام نہری زمینیں متاثر ہوسکتی ہیں، کیونکہ پنجاب حکومت کو اپنے طے شدہ حصے ہی میں سے یہ پانی چولستان کی سیرابی کے لیے مہیّا کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر کسی انداز میں بھی دریائے سندھ کے زیریں بہاؤ کے لیے مقرّرہ پانی کے حصے کو کم کیا جاتا ہے تو جنوبی پنجاب سے لے کر دریا کی انتہا پر موجود ڈیلٹا سے متصل اراضی تک بلکہ ڈیلٹا کی آبی حیات اور ماحولیات بھی متاثر ہوں گے۔ 

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ، زرعی پیداوار اپنی موجودہ صورت میں زرِ مبادلہ حاصل کرنے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس کے لیے قابلِ کاشت رقبے کو بڑھانے کے نتیجے میں ہم پانی کے استعمال میں اضافہ کریں گے اور اس اعتبار سے مزید دباؤ کی کیفیت میں آ جائیں گے۔ اس بنا پر چولستان کی سیرابی جیسے منصوبوں کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے پانی کے ترسیلی نظام کی مرمت اور اس کے استعمال کو جدید ٹکنالوجی کی مدد سے درست کرکے پانی کی بچت کا سامان کرنے پر توجہ دیں، اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہمیں جو اضافی پانی دستیاب ہوگا، وہ وقت قابلِ کاشت زمین میں اضافے کے لیے موزوں ہوگا۔ کیونکہ چولستان کی سیرابی جیسے منصوبے کی تکمیل میں کئی سال لگ جائیں گے، لہٰذا اس طرف سوچا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کو دو بڑے حصوں کے بجائے، چھوٹے چھوٹے کئی مراحل میں مکمل کیا جائے، اور جیسے جیسے دیگر اقدامات کے نتیجے میں پانی کی اضافی مقدار دستیاب ہوتی جائے، اسی رفتار سے یہ منصوبہ اپنی تکمیل کی طرف گامزن رہے۔ کیونکہ اس منصوبے کے بعض پہلو ہماری دفاعی ضروریات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اس پہلو کے پیشِ نظر منصوبے کی ترجیحات کو ترتیب دینا مناسب ہوگا۔

اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہوگی کہ پانی کا وہ حصہ جو ریگستان کی طرف ارسال کیا جانا ہے اور بالخصوص سیلابی پانی کو مجوزہ نہروں میں ایک عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر کی جائیں، تاکہ بعدازاں وقت ِضرورت استعمال کیا جا سکے۔ اس میں پانی کو بخارات بن کر ضائع ہونے سے روکنے کی تدابیراہم ہیں۔

پاکستان کی نا قابلِ کاشت زمین کے مفید استعمال کے موضوعات پر سوچنا اور ایسے قابلِ عمل منصوبوں پر آگے بڑھنا قابلِ تحسین عمل ہوگا کہ جس سے چولستان، تھرپارکر یا تھل وغیرہ کی زمینوں کو ملک کے لیے اور ان علاقوں میں بسنے والوں کے لیے منفعت بخش بنایا جاسکے۔ ایسی کسی بھی پیش رفت کے لیے ملک کی تمام اکائیوں اور بالخصوص منصوبوں کے لیے زیرِ غور علاقوں اور منصوبوں سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کو منصوبہ بندی کے لیے مشورے میں شامل رکھا جائے اور تمام اقدامات ایک مشترکہ اور قابلِ قبول لائحہ عمل کے تحت ہی کیے جائیں۔

اطلاع ہے کہ ’پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ‘ نے نہم جماعت کے لیے سات کتابوں کا نیا نصاب تیار کر لیا ہے، اب طلبہ اپنی مرضی سے اردو یا انگریزی میں نصاب پڑھ سکیں گے۔ خبر کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تمام تعلیمی اداروں اور بورڈز کو کتابوں کی تبدیلی کے حوالے سے آگاہ کردیا ہے۔جولائی۲۰۱۹ء میں حکومت پنجاب نے ذریعۂ تعلیم کو انگریزی سے تبدیل کر کے اردو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے بائیس اضلاع میں اساتذہ، طلبہ اور والدین کا سروے کروایا تھا، جس کے مطابق ہر طبقے سے ۸۵ فی صد افراد نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے حق میں رائے دی۔ اس کے باجود ذریعۂ تعلیم میں زبان کی دورنگی جاری رہی۔ یہ خبر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حیرت ہے کہ جو بات ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کو ۱۸۳۷ء میں معلوم ہو گئی تھی، جب انھوں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ بات ہمارے منصوبہ سازوں کو اب تک کیوں معلوم نہیں ہو سکی ہے؟ برطانوی دورِ حکومت میں ہندستان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ہی بڑی یونی ورسٹی، کلکتہ یونی ورسٹی تھی، جس کا ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا۔ انگریزی کو یہ منصب فارسی سے چھین کر دیا گیا تھا، جس نے سات سو سال تک ہندستان کے نظام تعلیم پر حکمرانی کی تھی۔ خطے کی تہذیبی اور تعلیمی زبان سے اس کا منصب چھین کر ایک اجنبی زبان کو دیے جانے کے نتائج اسی دورمیں آنا شروع ہو گئے تھے۔

 حیرت ہے کہ ہمارے اربابِ حل و عقد آج تک ان نتائج سے بے خبر ہیں۔ ہم کوئی تبصرہ کیے بغیر انگریزوں ہی کے قائم کردہ دہلی کالج کے ایک پرنسپل ای ولموٹ کی ۱۳دسمبر ۱۸۶۷ء کی رپورٹ کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ یہ رپورٹ آج بھی ’محکمہ پنجاب آرکائیوز‘ میں موجودہے۔ ای ولموٹ، کیمبرج یونی ورسٹی کے ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے والی کلکتہ یونی ورسٹی کے حاصل کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:’’ہمارے فاضلین کی اکثریت نہایت سطحی علم کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتی، خواہ وہ انگریزی ہو یا اس زبان میں حاصل کیے جانے والے دوسرے علوم۔ اس لیے عمومی طور پر اس سے جو ذہنی تربیت ہو رہی ہے، وہ خالص نقالی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

سطحیت ،نقالی اور تحصیلِ علوم میں زبان کی اجنبیت کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹ جیسے عوامل کواسی عہد میں جس اعلیٰ ترین سطح تک محسوس کیا گیا اس کا بڑا ثبوت اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر کے خیالات ہیں، جو انھوں نے ہندستان آنے اور یہاں اعلیٰ ترین تعلیمی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد ظاہر کیے۔ یہی احساس تھا، جس نے ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب کی تشکیل کی اور ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے اس نیم علمی، ادبی، سماجی انجمن کے مقاصد میں یہ بات شامل کروائی کہ ’’اس انجمن کے ذریعے قدیم مشرقی علوم کا احیا کیا جائے گا اور اس ملک کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے ذریعے تعلیم دے کر ان میں مفید علوم کی اشاعت کی جائے گی‘‘۔ اس کے نتیجے میں جہاں لاہور سے اردو اخبارات ورسائل جاری ہوئے، وہاں اورینٹل اسکول بھی قائم ہوا۔ ’انجمن پنجاب‘ کی رپورٹوں کے مطابق قیام انجمن کے پہلے ہی سال ۱۱ستمبر ۱۸۶۵ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈاکٹر لائٹنر نے اورینٹل یونی ورسٹی کے قیام کا تخیل بھی پیش کیا، جس کے نتیجے میں بعد ازاں ۱۸۸۲ء میں پنجاب یونی ورسٹی کا قیامِ عمل میں آیا۔

تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تہذیبی تفاوت کے جس المیے کا رونا آج رویا جاتا ہے، اسے سب سے پہلے ان لوگوں نے محسوس کر لیا تھا جنھیں ہماری تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آج ہم مسٹر میکلوڈ کا نام صرف لاہور کی ایک سڑک کی نسبت سے جانتے ہیں۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ سر ڈونلڈ فریل میکلوڈ ۱۸۶۵ء سے ۱۸۷۰ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ جب اہلِ پنجاب کی جانب سے مشرقی علوم کی ایک یونی ورسٹی کے قیام کے مطالبے پر مشتمل ایک محضر نامہ انھیں پیش کیا گیا، تو انھوں نے اس حوالے سے لکھا تھا کہ غیر ملک کی زبان میں تعلیم دینے سے تعلیم کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے مسٹرمیکلوڈ نے یہ بھی لکھا کہ خود انگلستان میں جہاں شائستگی کے حصول کے لیے لاطینی اور یونانی زبانوں کی تحصیل ضروری سمجھی جاتی ہے، عام تعلیم کے لیے دیسی زبان یعنی انگریز ی ہی کو موزوں سمجھا جاتا ہے‘‘۔

 مسٹر میکلوڈ کی یہ تحریر اپنے اندر بصیرت کا خاصا سامان رکھتی ہے۔ اس تحریر میں اعتراف کیا گیا کہ نئے نظامِ تعلیم نے اردو اور ہندی کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں اس نظام سے کوئی اچھا انگریزی دان بھی نہیں نکلا بلکہ اس نظام کا حاصل فقط وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے محض انگریزی بول چال سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے طلبہ کا فقدان ہے، جو تعلیمی اداروں سے حصولِ علم کی خاطر منسلک ہوتے ہوں۔ گورنر نے اس طریقۂ تعلیم کو ناقص او ر افسوس ناک قرار دیا۔ سر ڈونلڈ میکلوڈ نے اورینٹل یونی ورسٹی کی اس تجویز پر کلکتہ کالج کے پرنسپل میجر ناسائو لیز\سے بھی مشورہ کیا۔ ناسائولیز نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس نظامِ تعلیم نے صرف کلرک پیدا کیے ہیں، علمی خوبیوں کا حامل کوئی فرد پیدا نہیں کیا‘‘، گورنر پنجاب کے خیالات کی تائید کی۔

اجنبی زبان میں تعلیم کے ان نتائج سے آگاہ ہو جانے پر انگریز حکام نے مقامی باشندوں کو مقامی زبانوں ہی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں پنجاب یونی ورسٹی قائم ہوئی۔ پنجاب یونی ورسٹی کے ایک کانووکیشن میں جب وائس چانسلر نے خطبۂ استقبالیہ انگریزی میں پیش کیا تو وائسرائے ہند نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کو اردو میں خطاب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ بنیادی اور اصولی بات جس سے انگریز واقف تھے، ہم نجانے کیوں اب تک اس سے واقف نہیں ہو سکے؟ ذریعۂ تعلیم کی بار بار تبدیلی سے نئی نسلوں کا جو نقصان ہوتاہے اور معاشرتی تفاوت کی جو راہیں کھلتی ہیں، ہم اس سے بے خبرہیں یا بے نیاز؟ پچھلے دنوں ایک دوست نےیہ بتا کر حیران کر دیا کہ اب ہمارے سرکاری دفاتر اور ٹیلی فون کمپنیوں میں اردو پیغام رسانی کے لیے رومن حروف استعمال کیے جاتے ہیں۔ توجہ دلانے پر کہا جاتا ہے: ’’پالیسی یہی ہے‘‘! یاللعجب؟ زبان کے بعد رسم الخط بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ دکانوں کے بورڈ ہوں یا گاڑیوں کے نمبر ہمارے ہاں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، حالانکہ ملک میں انگریزی جاننے والے عوام کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پھرکیا یہ طریق کار ابلاغ کے اصولوں پر بھی پورا اترتا ہے؟ آپ جن لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں، کم از کم درجے میں زبان اور حروف تو وہ استعمال کیجیے، جوان کی سماعتوں اور نگاہوں کے لیے مانوس ہوں۔

۱۰ نومبر ۲۰۲۴ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک تصویر جاری کی، جس میں نظرآرہا ہے کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب ’سموگ‘ کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے، جنھیں خلا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس تصویر کو دنیا بھر کے میڈیا نے دکھایا ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نمبر وَن کا مقابلہ لاہور اور نئی دہلی میں چل رہا ہے۔ کبھی ایک آگے ہوتا ہے تو کبھی دوسرا، لیکن اگر سال بھر کا ڈیٹا دیکھا جائے تو لاہور دنیا کا پانچواں، فیصل آباد ۱۲واں اور پشاور ۳۴واں آلودہ ترین شہر ہے۔ دنیا کے ۵۰ آلودہ ترین شہروں میں سے ۴۲ انڈیا میں اور تین پاکستان میں واقع ہیں۔ گویا پوری دنیا میں آلودگی میں نمبر ون یہی خطہ ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں۔

’سموگ‘ کا لفظ پہلی بار دنیا میں ۱۹۰۵ء میں اس وقت استعمال ہوا، جب برطانیہ کے بہت سے شہر اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ ۱۹۰۹ءمیں صرف گلاسکو اور ایڈنبرا میں سموگ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، لیکن آج یورپ، چین یا امریکا جیسے صنعتی ممالک کے بجائے دنیا کے آلودہ ترین ملکوں میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ۷۰ لاکھ لوگ ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں، جن کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے۔ پاکستان گذشتہ دس برسوں سے سموگ سے بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، مگر اس سال سموگ کا موسم اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہی شروع ہو گیا اور نومبر کے پہلے ہفتے میں لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس نے ایک ہزار کے ہندسوں کو چھوتے ہوئے دنیا کے آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا تھا۔شکاگو یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب فضائی آلودگی اس حد تک پہنچ جائے تو وہاں رہنے والے انسانوں کی اوسط زندگی پونے چار سال کم ہو جاتی ہے۔

کیا سموگ میں اضافے کی وجہ چاولوں کی فصل کو آگ لگانا ہے؟

یاد رہے فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ پرانی اور خراب گاڑیوں سے جو دھواں نکلتا ہے، اس میں نائٹروجن آکسائیڈز، پی ایم ۱۰ اور پی ایم۲ء۵  نامی زہریلے ذرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے چھوڑے ہوئے دھوئیں سے سلفر، اوزون وی او سی، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔

جلائی جانے والی فصلوں کا دھواں اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ پنجاب میں سموگ بڑھنے کی وجوہ کا جائزہ لینے کے لیے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر ’فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن‘ نے ۲۰۱۹ء میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی، جس کے مطابق پنجاب کی سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ سب سے زیادہ یعنی ۴۳ فی صد ہے۔

دوسرے نمبر پر صنعتی شعبہ ہے جس کا حصہ ۲۵  فی صد، زراعت کا ۲۰ فی صد، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور جنریٹروں سے نکلنے والے دھوئیں کا حصہ ۱۲ فی صد ہے۔ اگر صرف لاہور کی سموگ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ۸۳ فی صد ذمہ داری گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی ہے۔ لاہور میں چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد ۷۳لاکھ ہے۔ حالیہ برسوں میں ’بائیکیا‘ اور ’آن لائن ڈیلیوری سسٹم‘ کا بڑھتا ہوا استعمال بھی سموگ میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔

ٹو سٹروک موٹر سائیکلوں کا آلودگی میں مجموعی حصہ ۶۹ فی صد بنتا ہے اور کاروں اور جیپوں کا ۲۳ فی صد ہے۔ پاکستان میں یورو ۲ معیار کا پیٹرول ۱۹۹۲ء سے استعمال ہو رہا ہے، جس کا حصہ ۷۰فی صد ہے۔ ۲۰۱۹ء میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے یورو ۵ کو رواج دیا گیا مگر اس کا مارکیٹ شیئر ابھی تک صرف ۱۰ فی صد ہے۔ یورو ۲ کے مقابلے میں یورو ۵ کے استعمال سے گاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک ذرات اور دھوئیں کی مقدار ۶۰ فی صد تک کم ہو جاتی ہے۔

عموماً سموگ میں اضافے کو چاول کی فصل کی باقیات یعنی ’مُنجی‘ جلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے، مگر یہ سموگ کی پہلی یا دوسری نہیں بلکہ تیسری وجہ ہے۔ تاہم، حکومت پنجاب اب کسانوں کو ایسی مشینری خریدنے پر سبسڈی دے رہی ہے، جس سے انھیں چاول کی فصل کی باقیات جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔(بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)

فضائی آلودگی سے نقصان

سموگ سے بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بچوں میں سانس، ناک اور گلے کے ساتھ دل کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے آپ کو اینگزائٹی اور ڈیمنشیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی ۶۰  فی صد آبادی ایسی جگہوں پر رہائش پذیر ہے، جہاں شدید آلودگی ہے اور سال میں کم از کم سات بار اسے زہریلی ترین فضا میں سانس لینا پڑتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ اموات میں سے ۲۰۰؍ اموات کی وجہ فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ہر سال ۲۲ہزار بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور چار کروڑ افراد کو ناک کا انفیکشن ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ہر سال ۲۸ ہزار لوگ آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ آج کل ہر دوسرا فرد گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کی شکایت کر رہا ہے۔ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ موٹر ویز بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ دفاتر، فیکٹریوں اور اسکولوں میں حاضریاں محدود ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ سرکاری اور نجی ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پی ایم۲ء۵  نامی زہریلے مادے سے عالمی معیشت کو سالانہ ۸۱ کھرب ڈالر نقصان ہو رہا ہے،جب کہ پاکستانی معیشت کو سالانہ پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ ۲۰؍ ارب ڈالر ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک حالیہ رپورٹ ’Unveiling The Smog Crisis Solutions Ahead ‘ کے مطابق سموگ سے فصلوں اور ایکو سسٹم کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

پودوں کی افزائش کے ساتھ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔ صرف چاول اور گندم کی پیداوار ۵ سے ۲۰ فی صد کم ہو چکی ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق سموگ پودوں کی افزائش کو ۱۰ سے ۴۰  فی صد تک متاثر کرتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ۲۰۳۰ء تک فضائی آلودگی میں ۵۰ فی صد مزید اضافہ ہو جائے گا۔

مسئلہ قانون میں ہے یا حکمتِ عملی میں؟

’پاکستان انوائرمینٹل پرفارمنس انڈیکس‘ میں دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں ۱۷۹ ویں نمبر پر ہے۔ آخری ملک سے ایک درجے اوپر کا مقام، کیا یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہمیں بحیثیت قوم کیا کچھ کرنا ہے؟

اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم سیاسی عزم اور دیرپا پالیسیاں ہیں۔ ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر شفقت منیر نے بتایا ہے کہ’’سموگ کا کنٹرول اس لیے نہیں ہوتا کہ اس پر سال کے آٹھ ہفتے فوکس ہوتا ہے اور جب سموگ ختم ہوجاتی ہے تو سب بھول بھال جاتے ہیں، اس کے لیے طویل المدتی اور دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سماجی سطح پر بھی اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

 ناسا کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق فصلوں کو جلانے کے ۸۰ فی صد واقعات انڈین علاقے میں ہو رہے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گذشتہ دنوں ایک بیان دیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو انڈیا کے ساتھ اٹھانا چاہتی ہیں، کیونکہ آلودگی کو سرحد پار کرنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر خود سرحد کے اندر صوبوں اور وفاق میں کوئی باہمی حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کا دائرہ کار صرف اسلام آباد تک محدود کیوں ہے؟

جب اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا دائرۂ کار اسلام آباد تک محدود ہے، جہاں فضائی آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صوبے اپنے اپنے طور پر کام کررہے ہیں‘‘۔ ان سے پوچھا: کیا اگلے چند برسوں میں اسلام آباد میں بھی لاہور والی صورت حال ہو سکتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے وفاق کا کیا لائحہ عمل ہو گا؟ انھوں نے جواب دینے کے بجائے کہا کہ وہ فی الوقت مصروف ہیں اور ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے ۱۹۸۳ء کے ایک ’انوائرمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس‘ کے تحت ۱۹۹۳ء میں ’نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرز‘ کی تشکیل کی گئی اور ۱۹۹۹ء میں ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن‘ کونسل بنائی گئی۔ تاہم، پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ۶ دسمبر ۱۹۹۷ء کو ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس کیا گیا، جو ماحولیاتی تحفظ کی وسیع البنیاد حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔ اسی کے تحت یکم جنوری ۲۰۱۲ءکو ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی‘ بنائی گئی۔

۲۰۰۰ء میں نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرڈ میں تبدیلی لائی گئی۔ ۱۹۹۷ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل ایکٹ‘  پاس کیا گیا۔ پھر یہی کام ۲۰۱۶ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ‘ کو سونپ دیا گیا، جس نے ۲۰۱۷ء میں ’پنجاب سموگ پالیسی اینڈ ایکشن پلان‘ دیا۔۲۰۱۸ء میں ’پنجاب کلین ایئر ایکشن پروگرام‘ ، ۲۰۱۸ء ہی میں ’پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام‘، ۲۰۲۱ء میں ’پنجاب سموگ کنٹرول آرڈی ننس‘، ۲۰۲۲ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن‘ میں ترمیم کرنے کے بعد ۲۰۲۳ء میں ’نیشنل کلین ائر پالیسی‘ تشکیل دی گئی۔ گذشتہ دو عشروں سے پاکستان میں ماحول بدسے بدتر ہوتا آرہا ہے۔ دوسری جانب مسئلے کے حل کے نام پر درجنوں قوانین اور ادارے بنادیے جاتے ہیں، جن کی عملی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ (بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)

 ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۴۰ لاکھ سے زائد کاریں اور ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ سے زائد موٹر سائیکل ہیں۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے کُل ایندھن میں سے ۴۰  فی صد صرف موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان نے ۷۳؍ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سالوں میں ۱۵؍ ارب ڈالر کا تیل ان موٹرسائیکلوں میں استعمال ہوا، جن کا ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی میں حصہ ۶۹ فی صد ہے۔ اتنی رقم اگر ہم شہروں میں ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ پر لگاتے تو آج اس صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

پاکستان کے ساتھ بدقسمتی کا کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے، اور اس میں سفاکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کھیل کھیلنے والے اپنے مفاد کے اسیر بن کر اصول، اداروں اور قوم کا مذاق بناتے ہیں۔کبھی یہ کھیل سیاست دان کھیلتے ہیں، پھر چند مقتدر جرنیل اس کا کنٹرول سنبھالتے ہیں اور بیورو کریسی اپنی پیشہ ورانہ ’نیازمندی‘ میں اسے انتہا تک پہنچانے کے راستے سُجھاتی اور گُر سکھاتی ہے۔

پاکستان میں رائج جمہوریت کا تصور برطانوی پارلیمانی جمہوریت سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ ، کہ جس کی پارلیمنٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے: ’’پارلیمنٹ کچھ بھی، یا سب کچھ کرسکتی ہے، سوائے اس کے کہ مرد کو عورت یا عورت کو مرد بناد ے، یا سوائے اس کے کہ جسے فطری طور پر کرنا ممکن نہ ہو‘‘۔ قانون سازی کے اس مادرپدر آزاد تصوّر کے، تلخ تجربوں سے سبق سیکھ کر یکم جنوری ۱۹۷۳ء کو مغربی دُنیا ایک قدم پیچھے ہٹنا شروع ہوئی، اور یہ تسلیم کیا کہ ’’بہرحال قانون سازی کی کچھ حدود ہیں، جنھیں عدالت ہی واضح کرسکتی ہے‘‘۔

اس مغربی تجربے سے بہت پہلے، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، پارلیمنٹ کی مطلق العنانیت کو یہ کہہ کر ایک حد میں رکھا کہ مقننہ، پارلیمنٹ اور حکومت کے پاس قانون سازی کے جو اختیارات ہیں، وہ ایک مقدس امانت ہیں، کوئی بے لگام اختیار نہیں، اور یہ اختیارات حدودِ الٰہی کے پابند ہیں۔ ’قرارداد مقاصد‘ ملک کے تمام دساتیر کا حصہ چلی آرہی ہے، لیکن افسوس کہ اس کی روح کو ہرحکومت نے کچلنے اور ہرپارلیمنٹ یا قومی اسمبلی نے نظرانداز کرنے کی پے درپے کوشش جاری رکھی ہے۔

حکومت اور پارلیمنٹ کے ایسے قانونی و دستوری تجاوزات کو نمایاں کرکے حد کا پابند بنانے کا واحد اداراتی ذریعہ عدالت ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اکثر عدالت کے اس اختیار کو نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مداخلت کرنے اور اپنی مرضی کے افراد کے تقرر کے ذریعے عدل کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے رہے ہیں۔ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو دستور میں کی جانے والی ۲۶ویں ترمیم اسی منفی اور غیرعادلانہ سوچ کی ایک بدنُما مثال ہے۔ جبر، دھونس اور شاطرانہ ڈرامے کے ذریعے رُوبہ عمل آنے والی یہ ترمیم ایک رجعت پسندانہ قدم ہے اور کھلا فائول پلے۔ جس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ دستوری عمل میں اور اعلیٰ عدالتی مناصب یعنی چیف جسٹسوں (سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں) کے تقرر کا معاملہ سیاسی اور انتظامی انگوٹھے تلے دبائے رکھا جائے۔

سیاسی مداخلت کی اسی روش کو ۴۹ برس تک برداشت کرنے کے بعد ۲۰مارچ ۱۹۹۶ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے، حکومت کی آمریت اور قانون شکنی اور عدلیہ میں مداخلت کا دروازہ بند کیا اور طے کیا کہ آیندہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی کی بنیاد پر مقرر ہوں گے۔اس فیصلے پر تب وزیراعظم بے نظیر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومتی کیمپ سے وابستہ صحافیوں نے انتہائی گھٹیا اور رکیک لب و لہجے کے علاوہ غیرمعیاری الفاظ میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس زمانے کے اخبارات دیکھیں تو یہ جارحیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔

وزیراعظم بے نظیر بے جا طور پر ایک ہیجانی ردعمل کا شکار ہوگئی تھیں۔ دراصل وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اگر عدلیہ نے حکومت کے غیرمنصفانہ فیصلوں کو انصاف کی میزان پر جانچنا شروع کر دیا تو پھر حکومت کو اُوپر سے لے کر نیچے تک قانون کی پابندی پہ مجبور ہونا پڑے گا۔ اس لیے کبھی تو انھوں نے پہلے صدر فاروق لغاری صاحب سے فرمایا کہ ’’چیف جسٹس کو برطرف کرنے کے لیے کچھ کریں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’۲۰مارچ کا فیصلہ آرڈی ننس کے ذریعے کالعدم قرار دے دیں‘‘۔ پھر یہ بھی فرمایا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مگر جج جماعت اسلامی لگائے؟‘‘

سپریم کورٹ کی بے بسی اپنی جگہ قابلِ رحم ہوتی ہے کیونکہ سوائے قلم کی طاقت کے، نہ اُس کے پاس فوج ہوتی ہے نہ پولیس، نہ دھونس جمانے کے لیے سوشل میڈیا، اور نہ وہ صحافی، جو قلم کی حُرمت کو بیچنے کے لیے ہردم تیار ہوتے ہیں۔ اس بے بسی کا مشاہدہ ۲۰۲۲ء میں اُس وقت باربار کیا گیا، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن کرانے کے واضح دستوری حکم اور عدالتی فیصلے کو پامال کیا گیا، اور الیکشن کمیشن، فوج اور بیوروکریسی ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے نے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۲۳ء کے دوران چیف جسٹس کے تقرر کی بحث کا خاتمہ کر دیا تھا، کہ اس میں ’’میرا بندہ چیف بنے گا، اُس کا بندہ چیف نہیں بنے گا‘‘ اور یہ کہ وہ ’’بندہ ہمیں تنگ کرسکتا ہے، اس لیے اس کا راستہ روکنا ہمارا حق ہے‘‘۔ ۲۶ویں ترمیم ہونے کے دوسرے روز سے حکومت کے ذمہ داران نے تسلیم کیا ہے کہ ’’ہم نے یہ ترمیم جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے لیے کی ہے‘‘۔ درحقیقت یہ ترمیم صرف ایک آدمی کا راستہ روکنے کی دھاندلی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے سینئر ججوں کو خوف اور دبائو کا شکار کرکے، اپنے من پسند ججوں کے تقرر کا اختیار لینے کا شیطانی کھیل بھی ہے۔ ۴۹برس کے دوران دھکے کھانے کے بعد عدالت اور قوم نے جو سُکھ کا سانس لیا تھا، اسے ’معزز‘ ارکان نے سیاہ دھبہ بنا کر دستور اور عدلیہ کے چہرے پر تھوپ دیا ہے۔

اس عرصے میں چند غیرمعمولی چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں:

  • مارچ کے بعد سے حکومت نے ترمیم آرہی ہے، ترمیم نہیں آرہی کا نفسیاتی حربہ اختیار کیا اور پھر ستمبر کی ایک رات اچانک ترمیمی بلّی تھیلے سے نکالنا شروع کی۔
  • حکومتی ارکان اور وزرا نے کھلے لفظوں میں تسلیم کیا کہ اس کا ’مسودہ تیار شدہ‘ ملا ہے۔
  • ’کالے ناگ‘ کا جھانسا دیا گیا، عملاً ’سنپولیا‘ پیش کیا جسے ’سفید‘ بنا کر دستور کا حصہ بنا لیا گیا۔
  • اس ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس حق دار پارٹی کو خصوصی نشستیں دینے سے انکار کیا، تاکہ اعداد و شمار پر حکومت اور مقتدر حلقوں کو کنٹرول حاصل ہوسکے۔
  • افراد کو خریدنے، اغوا کرنے اور جبر کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے کے واقعات۔

اس سب کے باوجود دہائی یہ دی گئی: ’’ہم نے دستور لکھنے کی عدالتی مداخلت کا خاتمہ کیا ہے‘‘۔ حالانکہ عدلیہ کی جانب سے اِکا دُکا ناپسندیدہ اقدامات اور فیصلوں کے باوجود، مجموعی طور پر قانون اور ضابطے کے تحت ہی عدالتی عمل چلتا رہا ہے۔

معاملہ درحقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ مادر پدر آزاد ہے اور نہ ہوسکتی ہے، اسے دستور کو قتل کرنے کا کوئی حق اور اختیارنہیں۔ مثال کے طور پر بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی پارلیمنٹ اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا کرے گی تو عدالت ہی اسے چیک کرے گی۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت بہرحال بنیادی اخلاقی، تہذیبی اور آفاقی اصولوں کے تابع ہے۔

ذرا ۱۹۷۴ء کا انڈیا دیکھیے، وزیراعظم اندرا گاندھی نے دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرکے کچھ بنیادی حقوق حذف کر دیئے، جس پر انڈین سپریم کورٹ نے وہ پوری دستوری ترمیم ہی کالعدم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’یہ حقوق، دستور کی بنیادیں ہیں، جن میں ترمیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔

ممتاز برطانوی قانون دان سر ولیم ویڈ نے لکھا: ’’ایک قانون ایسا ضرور ہے، جو پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے، اور اس قانون کی حفاظت عدالت ہی کے ذمے ہوتی ہے، جسے پارلیمنٹ کا کوئی قانون نہیں چھین سکتا‘‘ (کرنٹ لا جنرل، ۱۹۵۵ء، ص ۱۷۲، بحوالہ خرم مراد، پاکستان کے قومی مسائل، ص ۱۷۹)۔ اور جسٹس سرجان لاز کے بقول: ’’جمہوریت کی بقا کا تقاضا ہے کہ جو سیاسی جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں… ہرآمرِ مطلق حکمران یہ کہتا ہے کہ میرا ہر لفظ قانون ہے، اور پھر اگر ایک منتخب ادارہ پارلیمنٹ بھی یہ دعویٰ کرنے لگے تو وہ کیوں آمرِمطلق نہیں کہلائے گی؟ اس لیے لازم ہے کہ دستور کی بنیادیں حکومت کی تحویل میں نہ ہوں، اور کوئی حکومت اپنی اکثریت سے ان کو تباہ نہ کرسکے، اور وہ عدالت کی تحویل میں ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ناگزیر ہے‘‘۔ (پبلک لا جنرل، ۱۹۹۵ء، ص۸۱-۸۵، بحوالہ ایضاً)

جب ہم ۲۶ویں ترمیم کو دیکھتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ اقتدار اور اختیار کی ہوس میں اندھے حکمران، عدل و انصاف کو بالکل اسی طرح اپنا تابع فرمان دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح عام ملازمینِ ریاست کے بارے میں وہ سوچتے ہیں۔ ولیم بلیک سٹون نے کمنٹریز آن لاز آف انگلینڈ (شکاگو یونی ورسٹی) میں برلیگ کا قول درج کیا ہے: ’’انگلستان کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوسکتا، مگر پارلیمنٹ کے ذریعے‘‘۔ کیا واقعی ہماری پارلیمنٹ قوم، تہذیب اور عمرانی معاہدہ تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے؟ حالانکہ خود اس اسمبلی کی انتخابی شفافیت حدد رجہ مشکوک ہے!

انصاف، حکومت کی روح ہے۔ ’انصاف تک رسائی‘ کی اصطلاح جن معنوں میں سمجھی اور استعمال کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور اس کی ذات یا جائیداد کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالےکے لیے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتی اداروں سے رجوع کیا جائے۔

پاکستان کے آئین کے دیباچہ میں، جو بنیادی طور پر ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کی ’قرارداد مقاصد‘ پر مبنی ہے، جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دے گا، جن میں حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے مساوات و برابری ہوگی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل ہوگا۔ سوچ، اظہاررائے ، عقیدہ، ایمان، عبادت اور اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی ہوگی، بشرطیکہ وہ قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں ہوں ۔

اس میں عدلیہ کی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو انصاف تک رسائی کے لیے ایک ناگزیر لازمہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۳۷ ریاست کے لیے یہ ہدف متعین کرتا ہے کہ وہ سستا اور تیز تر انصاف کو یقینی بنائے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، ریاست کی عدالتی طاقت کو استعمال کرنے والی عدالتوں اور دیگر ٹربیونلوں کے قیام کے لیے وسیع تر انتظامات کرتا ہے۔ عدالتی اہرام کی چوٹی پر سپریم کورٹ آف پاکستان ہے ،جو اپیل اور اصل دائرہ اختیار کا استعمال کرتی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت سترہ جج ہیں۔ پانچ ہائی کورٹ ہیں، چاروں صوبوں میں ایک ایک اور اسلام آباد دارالحکومت علاقے کے لیے ایک۔ صوبائی ہائی کورٹس میں ان کی بنیادی نشستوں کے علاوہ دیگر جگہوں پر بنچ ہوتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں تین بینچ ہیں، جہاں ججوں کو ایک سال کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے بنچ سکھر میں اور سرکٹ بنچ حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے بنچ سبی اور تربت میں ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان اور مینگورہ سوات میں بنچ ہیں۔ ہائی کورٹوں کے پاس آئینی، اپیل اور نظرثانی کا دائرۂ اختیار ہے۔ ان بنچوں کے قیام کا مقصد فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔

ریاست اور صوبے کی سطح پر درج بالا آئینی اور اپیلیٹ عدالتوں کے علاوہ، ضلع اور سیشن کی سطح پر صوبائی قوانین کے تحت دیوانی اور فوجداری عدالتیں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں کی ایک بڑی تعداد خصوصی قوانین کے تحت بنائی گئی ہیں۔ مثلا: انسداد دہشت گردی کی عدالتیں، بنکنگ کورٹ، کسٹم کے لیے خصوصی عدالت، انسداد منشیات کی عدالتیں وغیرہ۔یہ تمام عدالتیں آئین کے تحت تین ضروری کام انجام دیتی ہیں: پہلا اور سب سے اہم مسئلہ افراد کے درمیان یا ریاست اور افراد کے درمیان تنازعات کا حل ہے۔ یہاں ریاست کا مطلب حکومت کی ایک شاخ ہے۔

دوسرا، عدالتیں حکومت کی ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کے خلاف، عوام کے بنیادی اور آئینی حقوق کو نافذ کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کی پابند ہیں۔ یہ آئینی عدالتوں،ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ، کا دائرۂ کار ہے ، اور یہ عدالتی یا آئینی نظرثانی کے اختیارات انھیں آئین پاکستان کے آرٹیکل ۸، ۱۸۴ (۳) اور ۱۹۹ کے تحت حاصل ہیں۔

ان آئینی عدالتوں کا تیسرا اور سب سے مشکل کام آئین کا دفاع اور نفاذ ہے۔ چونکہ عدلیہ کے پاس نہ دولت ہے نہ ہتھیار، بلکہ صرف اخلاقی اختیار ہے، اس لیے یہ کام مکمل طور پر آزاد اور نڈر ججوں پر منحصر ہے۔ جو لوگ دوسروں کا فیصلہ کرنے بیٹھتے ہیں اور خودبھی چاہتے ہیں کہ عوام کی عدالت سے ان کا فیصلہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ ان کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت کی دیگر شاخوں کی طرح عدالتی شاخ بھی احتساب سے اپنے پاؤں سمیٹ رہی ہے۔ گذشتہ ۷۵ برسوں میں ہائی کورٹوں کے صرف تین ججوں کو بددیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر ہٹایا گیا۔

پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں مختلف اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کا انبار معاملات کی افسوسناک حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر عدالتوں میں بھی ہزاروں مقدمات اور اپیلیں  زیر التوا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عام طور پر کسی کیس کو اپنے آخری عدالتی مراحل مکمل کرنے میں ۲۰ سال لگتے ہیں۔

پاکستان میں انصاف تک رسائی تین بنیادی وجوہ کی بنا پر حاصل کرنا مشکل ہے: ایک، عدالتوں اور ججوں کی خاطر خواہ تعداد فراہم کرنے کے لیے ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ سال ۲۰۰۰ء کے اوائل میں ۳۵۰ ملین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ قرض، عدالتوں میں نوآبادیاتی ہارڈویئر اور فرنیچر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ذیلی عدالتی افسروں کی تربیت پر بہت ہی کم رقم خرچ کی گئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اور ذیلی عدلیہ کے لیے مختص شدہ سالانہ بجٹ بنیادی طور پر تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس طرح انصاف کی فراہمی کے نظام کی بہتری کے لیے بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔

دوسرا، عدالتی نظام، جو کہ پہلے سے کمزور اور انتہائی غیر محتسب ہے، اسے انتقامی کارروائیوں  کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فوجداری اور دیوانی مقدمات کی فہرست جھوٹے، فضول اور چھوٹے موٹے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ اس بڑے التوا کے لیے ہمارے بلا وجہ کے ’مخاصمتی رویے‘ بہت حد تک ذمہ دار ہیں، جو اصل حق داروں کو فوری انصاف تک رسائی سے محروم رکھتے ہیں۔

تیسرا، ریاستی ادارے بھی بنیادی طور پر ایگزیکٹو برانچ اور کسی حد تک قانون ساز اور عدالتی شاخیں، انصاف تک رسائی میں رکاوٹ کی ذمہ دار ہیں۔ اگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا سروے کرایا جائے، تو ایگزیکٹو برانچ، وفاقی اور صوبائی دونوں، پاکستان میں سب سے زیادہ مقدمہ چلانے والے ثابت ہوں گے۔ یہ بنیادی طور پر دو وجوہ کی بنیاد پر ہے: ایگزیکٹو طاقت پر اندرونی جانچ پڑتال کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ چونکہ ریاستی عہدے داروں کو حاصل اختیارات زیادہ تر صوابدیدی ہیں، جس کے نتیجے میں بدعنوانی اور کرپشن ایک لامتناہی قانونی چارہ جوئی میں تبدل ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ لائسنس کلچر، پبلک کنٹریکٹس ، پولیس کی طاقت کا غلط استعمال اور کاروبار اور تجارت کے ضابطے سب وہ صوابدیدی اختیارات ہیں، جو قانونی چارہ جوئی کی بنیادی وجہ بنتے ہیں۔

مقننہ تو قوانین کم ہی غور و فکر کر کے پاس کرتی ہے۔ قانون سازی کے طریق کار پر عمل کیے بغیر راتوں رات دسیوں قوانین منظور کر لیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً ہر قانون، اصول اور ضابطے کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہوتا ہے۔ عدلیہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے بر بنائے ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ (عدالتی فعالیت)، سیاسی مسائل اور ’پالیسی ڈومین‘ میں اُلجھی ہوئی ہے۔ اسی ’عدالتی فعالیت‘ نے سیاسی اور پالیسی سازی کے عمل میں مداخلت کرکے عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

فوری اور سستے انصاف تک رسائی، چند بنیادی تبدیلیاں کرکے اور کچھ عملی اقدامات اٹھا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک تو، پورے برصغیر میں جرگہ/پنچایت کے ادارے ہوا کرتے تھے، جو کامیابی سے فوری اور سستا انصاف فراہم کرتے تھے۔ تمام چھوٹے مسائل (بکری کی چوری، جائیداد کے چھوٹے موٹے جھگڑے وغیرہ) ان پنچایتوں میں جا سکتے ہیں۔ ہندستان میں، ان پنچایتوں کو آئینی شناخت اور تحفظ حصہ IX (نہم) ہندستانی آئین کے تحت دیا گیا ہے۔ اس سے سماجی ہم آہنگی اور سماجی اداروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ یہاں تک کہ خاندانی جھگڑے بھی ان اداروں کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا عائلی قانون، ثالثی کونسل کا انتظام کرتا ہے، لیکن ہمارے مخاصمتی رویوں کی وجہ سے یہ ناکام ہو چکا ہے۔ مندرجہ بالا سماجی اداروں کے علاوہ، ریاست کو تنازعات کے حل کے لیے متبادل طریقوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

عدالتوں کو ’حقیقی‘ اور ’مثالی اخراجات‘ دینا شروع کر دینے چاہییں۔ اخراجات کی گرانٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ وکلا اور قانونی چارہ گر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں جہاں عدالتیں اصل اخراجات دیتی ہیں، وکلا اور مدعیان غریب نہیں مرتے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اخراجات کا سرٹیفکیٹ طلب کرنا شروع کر دیا ہے۔جلد ہی وہ ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کر دیں گے۔ علاوہ اَزیں سپریم کورٹ نے بھی فضول قانونی چارہ جوئی پر اخراجات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اب اسے چاہیے کہ متاثرہ فریقوں کو ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کردے۔

ریاست کو عدلیہ کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ججوں کی میرٹ پر شمولیت اور وسائل کی مناسب اور متناسب تقسیم، انصاف کی فراہمی کے نظام کو تیز تر اور سستا بنائے گی۔

کیا یہ بیان حقیقت ہے یا بے جا مغالطہ انگیزی؟___ ’’اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے‘‘۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

  • دینی پہلو: یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اُردو میں ہے، لیکن خطرناک حد تک اُردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور غیراستعماری سازش کے تحت یا پھر ہماری نادانی کے سبب اُردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ذرا سوچیے، ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اُردو کا وجود بس ۲۰، ۲۵ سال کی کہانی ہے (یعنی اُردو یا نیم قسم کی اُردو بس بول چال کا ذریعہ رہ جائے گی، لکھنے پڑھنے اور برتنے کی چیز نہیں ہو گی)۔

ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آنے والی نسلیں اُردو ادب سے کٹتی  جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی، تہذیبی اور تاریخی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کریں تو واقعی ہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

کہا جا سکتا ہے کہ ’’قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں: ایک تو سورۂ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہٗ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔

پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے، اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو، جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے جڑے رہ سکیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے، تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے، یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)، اور جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘ مگر اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔

  • سیاسی پہلو: اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کسی ایک ملک کی بھی مثال نہیں دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی ہو؟ جاپان کے بارے میں تو یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد فاتح امریکا نے شہنشاۂ جاپان سے پوچھا: ’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘ تو دانا اور محبِّ وطن شہنشاہ نے جواب دیا: ’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘۔ اس لین دین کا نتیجہ  آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً ۵۰ فی صد توانائی (بعض اوقات تو ۷۰ اور۸۰ فی صد )دوسری زبان سمجھنے پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ ۲۰ تا ۳۰ فی صد نفسِ مضمون پر۔

دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح صورت میں سامنے آتا ہے کہ ’انگریزی میں‘۔ پنجاب میں پچھلے ۲۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۷۰ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے، جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔

  • معاشی پہلو: پاکستان میں اُردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ’گندمی انگریزوں‘ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان لوگوں کا اقتدار اور برتری قائم ہے۔ اگر اُردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے، تو ان ’گندمی انگریزوں‘ اور ان کی آیندہ نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اُردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی، تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی عہدے اور منصب بھی اسی مقتدر طبقے کے بچوں کا مقدر بنیں گے۔ سی ایس ایس کے امتحان اُردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو)میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل ولیم ہنری سلیمین کے اپنی کتاب Rambles and Recollections of an Indian Official  (۱۸۴۴ء) میں یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانانِ ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پائے کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بوعلی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یورپی بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور پست محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔

اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں نہ کسی کو بھکاری دیکھا ہے اور نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے لوگ دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی اور روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو   تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے ثقافتی نظام کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت ماضی کی داستان بن کر رہ جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنھیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح سے مغلوب قوم....‘‘۔

 چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے پہلے علمِ دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزائے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، آخرکار طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے، تابع فرمان ملازم!

  • معاشرتی پہلو: اُردو اپنے حق کے مطابق اگر رواج نہیں پاسکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوتِ کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اُوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساسِ برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنا ان کی پختہ عادت بن جاتی ہے، اور وہ اپنی زبان بھی بگاڑ لیتے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ جن دنوں نام نہاد اسرائیل والے اپنی مُردہ عبرانی زبان کو زندہ کر رہے تھے، ان دنوں ہمارے ہاں تمام تر اعلیٰ سائنسی مضامین بہ شمول ایم بی بی ایس، بی ای (انجینیرنگ)، طبیعیات، کیمیا وغیرہ، الغرض ایک مضمون انگریزی کے سوا تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جارہے تھے۔یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا اور پھر وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔

دوسری طرف آزادی کے بعد پڑوسی مشرک ملک میں جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے لیے رائے شماری ہوئی تو اُردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہوگئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہرسال اپنی مُردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مُردہ الفاظ کو عام کرتے ہیں۔

آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہوچکا ہے۔ نئی نسل تو ایک طرف خود بڑے بھی، اُردو اعداد (۱،۲،۳،۴) لکھنے کے بجائے رومن یا انگریزی اعداد (4,3,2,1) لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ یہاں پر تین واقعات ملاحظہ کیجیے:

  • ایک معالجِ امراضِ ذہنی ڈاکٹر سیّد مبین اخترکہتے ہیں: انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے، اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو وہاں تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصص کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور وہ گورے امریکیوں کے شانہ بشانہ ہیں، جب کہ میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں نے اپنے آپ کو اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کاٹ لیا تھا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہارِ خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو میری اپنی زبان ہے۔
  • دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے ’گندمی انگریزوں‘ نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ گورے صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے، لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا، تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں بُری طرح کچلی جاتی ہیں۔
  • اسی طرح فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جارہے ہیں، آپ کی جیب میں ۲۳۰ روپے ہیں۔ راستے میں آپ کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں جس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔  اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ آپ کہیں گے کہ اس میں کوئی بُرائی نہیں، اور فی الواقع اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو دوسری طرح دیکھیے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ جیب میں ۲۳۰روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ کوئی معقول بات ہوگی؟ یقینا نہیں۔   زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھیے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ غلط اور بلاضرورت ’لسانی قرض‘ بھی کچھ ایسے ہی منفی اثرڈالتے ہیں، جیساکہ مالیاتی قرضے کمرتوڑتے ہیں۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ مالی قرض تو واپس ہوسکتا ہے، لیکن لسانی اور تہذیبی قرض کا بوجھ واپس نہیں کیا جاسکتا۔
  • آئینی پہلو: پاکستان میں اُردو کا نفاذسیاسی ہی نہیں ایک اہم دستوری اور آئینی پہلو سے بھی ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ الفاظ اُردو کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں:

پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے [یعنی اگست ۱۹۷۳ء] ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج خلفشار کے اس دور میں بھی یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا باوقار قومی ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے گذشتہ کئی عشروں سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو، جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔  اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ’سافٹ ویئر‘ ما ہرین نے اب اِن پیج  ایپلی کیشن کو ’مائکرو سافٹ ورڈ‘ اور ’ایکسل‘ کے ساتھ جوڑ کر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ’اِن پیج‘ کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جاسکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔

  • صوبائی زبانوں کے لیے اہمیت: پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان کا دستور بھی دفعہ ۲۵۱ (۳) کے تحت انھیں ان الفاظ میں تحفظ دیتا ہے:’’قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی‘‘۔

ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔

  • انگریزی کا مقام: ہم نے انگریزی (بمقابلہ اُردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہم  انگریزی سے قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان ہے، لہٰذا ترقی کے لیے ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی۔ لیکن ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور انگریزی ہی سرکاری زبان ہو۔ ہم انگریزی کے بطور مضمون پڑھائے جانے کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اُردو تراجم ہونے چاہییں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت  نکل جائے گا، جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچیے ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوںگی لیکن زبان اپنی نہیں ہوگی۔

اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی قومی زبان اُردو کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کریں۔ آپ کا یہ قدم قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی قدم ہوگا۔ اس اقدام سے استحصالی نظام کی گرفت بھی کمزور ہوگی، اور ان شاء اللہ اپنے ربّ کے ہاں آپ کو اجر بھی ملے گا۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، بلکہ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔

نفاذِ اُردو:کرنے کے کام

  • اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ دعا کی جائے کہ نفاذِ اُردو کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
  • اُردو کے نفاذ کی تنظیمیں متحد اور منظم ہوکر اور اشتراکِ عمل سے کام کریں۔
  •  دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں، ہمیں اپنے دستخط اُردو میں کرنے چاہییں۔
  •  اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ)اُردو میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے چیک اُردو ہندسوں میں لکھیں۔ بنک ایسے چیک قبول کریںگے۔
  •  ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے موبائل فون کی ترتیب اُردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اُمور اُردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
  • اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈ اُردو (یا انگریزی کے ساتھ اُردو) میں لکھوانے چاہییں۔
  • حسب ِاستطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِاُردو کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
  • اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں اور دفتر کے ساتھیوں کو اُردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان اُمور پر عمل کرنے سے ہمارا قدم آگے بڑھے گا۔

 ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا، وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی، تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟

پارلیمنٹ بنیادی طور پر قوم کا ایک امانت دار فورم ہے، جو حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ ان احساسات سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ قانون سازی اس کی تازہ مثال ہے۔ ’قرارداد مقاصد‘ کے مرکزی اصولوں میں پہلے تین نکات یہ ہیں: ۱- حاکمیت اعلیٰ، اللہ کی ہوگی، ۲-اقتدار ایک مقدس امانت ہے، جسے اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے گا، ۳- اقتدار کا جواز، آزادانہ رائے کے ذریعے منتخب نمایندوں کو حاصل ہوگا___ لیکن اس وقت ’حاکمیت اعلیٰ‘ عملاً عالمی ساہوکاروں،عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک، مقتدر اداروں اور ایجنسیوں کی ہے ۔ اقتدار ’مقدس امانت‘ کے بجائے مراعات یافتہ طبقوں اور اشرافیہ کی خدمت کے لیے استعمال ہورہا ہے جس کی سب سے بڑی تکلیف دہ مثال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں۱۲۰ قوانین متعارف کرائے گئے۔ ۷۵قوانین منظور کیے گئے۔ ان منظور کردہ قوانین کا انسانی فلاح سے ذرہ برابر تعلق نہیں ہے، بلکہ محض طاقت ور اور دولت مند طبقوں کی چاکری اور عوام کی غلامی کے لیے قانونی تحفظ کا حصول ہے۔ ایسی ربرسٹمپ اور انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کے بارے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا لمحۂ فکریہ ہے کہ بعض ارکانِ پارلیمنٹ پر مطلوبہ قانون سازی کے لیے تعاون حاصل کرنے پر بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں۔

یہاں مثال کے طور پر چند قوانین کی منظوری کے وقت میں نے جو معروضات پیش کیں، ملاحظے کے لیے پیش ہیں:

آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ

آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ جو بڑی جلدبازی میں پیش کیا گیا، اس میں کچھ اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جو حددرجہ بودی، سطحی (superficial) اور ناکافی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ نے اس کو اسی انداز سے منظور کیا تو نتیجے میں پورا ملک ایک چھائونی کا منظر پیش کرے گا۔

اس مجوزہ ایکٹ کے نتیجے میں غیرمعمولی اندھے اختیارات، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس آجائیں گے، جن سے انسانی حقوق، سیاسی و انسانی آزادیاں اور میڈیاکی آزادی بُری طرح متاثر ہوگی۔ ’فوجی مارشل لا‘ کے وزن پر اگر ’قانونی مارشل لا‘ کی کوئی اصطلاح قانون کی کتابوں میں درج ہے تو یہ ایکٹ اس اصطلاح پر پورا اُترتا ہے، کیونکہ اس قانون سازی کے نتیجے میں وہی سامنے آئے گا۔اس ایکٹ کو دستورِ پاکستان کی روح کے مطابق رکھنے کے لیے مَیں نے ۶ ترامیم جمع کروائی تھیں، مگر ان پر غور تک نہیں کیا گیا۔

اس ایکٹ کے مسودے کے پہلے صفحے پر لکھا ہے: include written and unwritten (’لکھا‘ اور ’نہ لکھا‘ اس میں شامل ہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ unwritten (نہ لکھے)میں تو سادہ کاغذبھی ہوتا ہے، جس پر کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ میں کوئی قانون دان نہیں ہوں، لیکن پھر یہاں یہ بھی لکھا ہے: memorandium etc (یادداشت وغیرہ)۔ قانون کی دستاویزات میں تو etc یا وغیرہ وغیرہ کا لفظ نہیں ہوتا۔ آپ نے تو یہ ایک ایسی چیز اس میں رکھ دی ہے کہ اس میں کوئی بھی چیز شامل کی جاسکتی ہے۔ قانون تو سیاہ و سفید میں بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں اس طرح کی چیزیں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح صفحہ ۲ پر ہے:

Any place occupied by Armed force for the purpose of war games, exercise, training, research and development.

جس کا مطلب ہے افواج کے تعلیمی ادارے، نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی، ایئر یونی ورسٹی اور باقی اداروں کو بھی آپ نے اس میں شامل کیا ہے۔ اور آگے چلیں تو آپ نے ’دشمن‘ (enemy) کی تعریف (definition) میں ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ کو بھی شامل کیا ہے۔ ’نان اسٹیٹ ایکٹر‘ کی تعریف کی جائے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس کی تعریف واضح نہیں کی گئی تو پھر آپ یہاں ANSA /انسا، آرمڈ نان اسٹیٹ ایکٹر کو شامل کریں۔ اس طرح آپ نے تمام این جی اوز کو بھی اس میں ڈال دیا ہے اور تمام خیراتی اداروں کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ اس لیے نان اسٹیٹ ایکٹر کی وضاحت کے ساتھ باقاعدہ تعریف شامل کریں یا پھر ANSA لکھیں۔

پھر اس میں دفعہ ۲-الف کا اضافہ کرلیا جائے یعنی دستور ِ پاکستان میں جن بنیادی انسانی حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے، ان کو اس میں شامل کرلیا جائے۔ دستور کے پہلے باب کے دوسرے حصے میں جو بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے ہیں اور بالخصوص آرٹیکل ۹، آرٹیکل ۱۰، آرٹیکلA- ۱۰ اور آرٹیکل ۱۴ کو پیش نظر رکھا جائے۔

ص ۴ پر بھی کئی چیزوں میں ترمیم ہونی چاہیے۔ ان میں ایک چیز unauthorise disclosure of identity ہے، اسی طرح یہ بھی ہے کہ:

a person shall commit an office who intentionally acting in any pre-judicial to public order or safety.

یہاں ’پبلک آرڈر‘ یا ’سیفٹی‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس میں پورے معاشرے کو اس کے اندر لے آیا گیا ہے اور غیرمعمولی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔

اسی طرح یہ شامل کرنا چاہیے کہ اس پر قانونِ شہادت کے مطابق ہی عمل درآمد کیا جائے گا۔

میں پھر خبردار کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اس قانون کو اسی طرح منظور کرلیا تو اس کے نتیجے میں انسانی حقوق، انسانی آزادی، جمہوری آزادی، میڈیا اور سیاسی آزادیاں سب خطرے میں پڑجائیں گی اور انٹیلی جنس اداروں کو اندھے اختیارات مل جائیں گے۔

این ایل سی (NLC)کو سویلین حکومت کے تحت کر دینا درست قانون سازی ہے، لیکن یہ نامکمل ہے۔ اس کے آرٹیکل ۱۰  میں لکھا ہے:

Appointment of Director General: the prime minister shall on recmendation of chief of Army Staff appointing a serving major general of the Pakistan Army .....

ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ پاکستان کی قومی فوج کو ان کاموں سے دُور رکھیں۔ فوج پورے وطنِ عزیز کا قابلِ قدر اور غیرمتنازع ادارہ اور اثاثہ ہے۔ فوج کا کام ملک کی سلامتی کا تحفظ اور سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ جب ان سے بنک، ہسپتال اور یونی ورسٹیاں بنوائیں گے، زمینوں کی خرید و فروخت، کاروباری کاشت کاری اور فارمنگ کروائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ان کے حوالے کریں گے، تو وہ اپنا بنیادی اور منصبی کام نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اسے سول انتظامیہ کے تحت لایا جائے۔

پاکستان کی مسلح افواج سے اخلاص اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ سوائے دفاعی اُمور کے انھیں باقی تمام کاموں سے فارغ کردیا جائے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ملکی دفاع پر ایک پروفیشنل انداز سے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرسکیں۔ آپ نے ۴۰/۴۵ سال بعد ترمیم کی اور قانون سازی کی اور این ایل سی جو پہلے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت فوج کے پاس تھا، اب اسے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے فوج کے حوالے کر رہے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک غلط اقدام ہے۔

اینٹی نارکوٹکس قانون میں ترمیم

آپ قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کریں لیکن قانون سازی سوچ سمجھ کر ہی کریں، بحث و مباحثہ کے بعد کریں، ووٹوں کی قوت کے زور پر نہ کریں۔اینٹی نارکوٹکس قانون کے بارے میں متعلقہ وزیرجناب مرتضیٰ عباسی صاحب سے پوچھیں کہ اس قانون میں کیا تھا اور انھوں نے اسے کیوں پاس کیا؟ تو مجھے یقین ہے کہ ان کو بھی اس کے مندرجات کا علم نہیں ہے۔

اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں دفعہ ۶ میں پوزیشن( قبضہ یا ملکیت)، دفعہ۷ میں درآمد و برآمد، دفعہ۸ میں ترسیل یا ٹریفکنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جس کے پاس پانچ کلوگرام اور چھے کلوگرام نارکوٹکس ہوگی، اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس مضحکہ خیز شق سے مَیں اختلاف کرتا ہوں۔

اس وقت اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ۱۵سال سے لے کر ۳۹سال کی عمر تک ۹۰لاکھ لوگ نشے کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دُنیا کے ۶۲ممالک کی آبادی سے زیادہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو ہائی وے آف دی نارکوٹکس (منشیات فروشی کی شاہراہ)کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں نارکوٹکس کا جو کاروبار ہورہا ہے وہ پاکستان کے دفاع کے بجٹ سے ۸۰گنا زیادہ ہے۔ہمارے بچّے تباہ ہورہے ہیں۔ گلی کوچوں میں نارکوٹکس ہے، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں نارکوٹکس ہے۔ حال ہی میں بہاولپور اسلامیہ یونی ورسٹی کا واقعہ پیش آیا ہے۔اس میں نارکوٹکس برآمد ہوئی ہیں اور سیکس ٹیبلٹس اور ہماری بچیوں کی ہزاروں قابلِ اعتراض تصاویر نکلی ہیں۔ ان حالات میں آپ نے جو لوگ پانچ اور چھ کلوگرام نارکوٹکس رکھتے ہیں، ان کی سزائے موت کو ختم کردیا ہے۔

 مرتضیٰ عباسی صاحب یا ن لیگ سے وابستہ اور وفاقی وزیرقانون و عدل سینیٹر نذیر تارڑ صاحب یہ بتائیں کہ اب تک نارکوٹکس کے جرم میں کتنے لوگوں کو سزائے موت ملی ہے؟ کسی ایک فرد کو بھی اس جرم میں پھانسی کی سزا نہیں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے نارکوٹکس کا کاروبار پوری قوت اور پورے پھیلائو کے ساتھ چل رہا ہے۔ اسی لیے ہمارے نوجو ان نشے کے عادی بن رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں اور ملک کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ نارکوٹکس ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے حیرت اور شرمندگی ہورہی ہے کہ آپ منشیات اسمگلروں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ڈرگ کا کاروبار کرنے والوں اور اُسے امپورٹ ایکسپورٹ کرنے والوں کو امداد فراہم اور راستہ دینا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نشے کا کاروبار کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ

نگران حکومتوں کے اختیارات میں اضافے کے اس بل کی مَیں حمایت نہیں کرسکتا اور حکومت کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کیا نگران حکومت خیبرپختونخوا غیر جانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ کیا نگران حکومت پنجاب غیرجانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ یہ تو اب بالکل واضح ہوچکا ہے کہ یہ حکومتیں ایک ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ بہت دُکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہم آئی ایم ایف کی غلامی میں اس حد تک جکڑ گئے ہیں کہ یہ ہمارے انتخابی قوانین کے اُوپر بھی اثرانداز ہورہا ہے اور ان کی ناراضی اور خوشی کو ہم پیش نظر رکھ رہے ہیں۔

نئی ترامیم آئین کی روح کے خلاف ہیں۔ یہ سب نگران حکومت کے وجود اور فرائض کی روح کے خلاف ہے۔مَیں اس کو ’سافٹ کو‘ کہتا ہوں اور اس کو آیندہ انتخابات کو متنازعہ بنانے کی بنیاد قرار دیتا ہوں، جس کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ نگران حکومت اس کی آڑ میں اپنی مدت کو توسیع دے کر انتخابات کو التوا میں ڈالے۔ اس وقت ملک میں جمہوریت بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ میری درخواست ہوگی کہ اس شق کو نکالیں اور آیندہ انتخابات کو متنازع نہ بنائیں اور نگران حکومتوں کو وہ اختیارات نہ دیں جو ان کو دستور میں نہیں دیئے گئے ہیں۔

پاکستان میںوقتاً فوقتاً بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور حیرت کے سمندروں میں ڈبو دیتی ہیں۔عقل، منطق، اخلاق اور شعور ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔

’پیمرا‘ نے اے آروائی چینل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ۲۰۲۰ء میں مذکورہ چینل پر ایک ڈراما ’جلن‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں ایک بہنوئی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ پھر کہانی اور ڈرامے کے لوازمات پورا کرنے کے لیے اخلاق باختگی و بے حیائی کا پورا طرزِ بیان اپنے مناظر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ’پیمرا‘ کے چیئرمین نے عوامی حلقوں کے رَدعمل کے جواب میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی۔ چینل نے سندھ ہائی کورٹ میںاستدعا کی کہ پابندی ہٹائی جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فنی بنیادوں پر یہ کہہ کر پابندی ہٹادی کہ ’’پابندی عائد کرنے کے لیے سیکشن ۲۶ کے ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا‘‘، جس پر ’پیمرا‘ نے چینل کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں سے ڈھائی سال بعد ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء کو دورکنی بنچ، مشتمل بر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے متفقہ طور پر ’پیمرا‘ کا موقف مسترد کردیا اور اے آر وائی چینل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

اس فیصلے میں تین نکات پر زور دیا گیا ہے:l’پیمرا‘ عوامی نمایندوں پر مشتمل ایک وفاقی اور صوبائی شکایات کے لیے کونسلیں بنائے۔  lشکایات کی کونسلیں کسی پروگرام پر پابندی کے لیے معیار مقرر کریں lفحاشی اور بیہودگی کی کیا تعریف ہے؟

بلاشبہہ کسی بھی ڈرامے پر پابندی کی مختلف وجوہ میں بنیادی پہلو اخلاقیات کی مناسبت سے سامنے آتا ہے ، جب کہ ایک مسلم معاشرے میں اخلاقیات کا قانون اور ضابطہ: قرآن، سنت، فقہ اور تاریخی نظائر کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی کہ  ان کی نسلوں میں دینی اُمور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ عمومی حکم کی بنیاد پر یہی امکان ہے کہ معروف این جی اوز کے زیراثر اور دین بے زار لوگ ہی ایسی کونسلوں کے کرتا دھرتا بن کر فیصلے کریں گے، جیساکہ عام طور پر ہوتا آرہا ہے۔

اس فیصلے پر کلام کرتے ہوئے شریعت اور قانون کے پروفیسر محمد مشتاق صاحب کہتے ہیں:  ’’اے آر وائی کا بنیادی اعتراض تو یہ تھا کہ ’پیمرا‘ نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا، جو ’پیمرا‘ کے قانون میں طے کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے کہ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی ہے ،جس کی ضرورت نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی بنیادی اور اہم اُمور کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ’برداشت‘ ( Tolerance)سب سے اہم 'آئینی قدر ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فاضل ججوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’برداشت‘ سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی عمومی، ادھوری اور سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے‘‘۔

یاد رہے، آج کی دُنیا میں ’Tolerance ‘(برداشت) کوئی مجرد لغوی لفظ نہیں ہے بلکہ لبرل ازم کی ایک سوچی سمجھی اور پورے پس منظر کو لیے سیاسی و تہذیبی اصطلاح ہے، جس کا مخصوص ہدف، مفہوم اور متعین ایجنڈا ہے۔

فیصلے کے پیراگراف ۲۴ میں فاضل ججوں نے تحریر فرمایا ہے: ’برداشت‘ ایک کثیرالجہتی تصور ہے، اور عام طور پر اس سے مراد افراد یا گروہوں کے درمیان رائے، عقائد، رسم و رواج اور طرزِعمل میں اختلاف کو قبول کرنا، اور ان کا احترام کرنے کی صلاحیت رکھنا اور ان سے راضی ہونا شامل ہے۔ اس میں نسل، مذہب، ثقافت، جنس(gender)، جنسی رجحان (sexual orientation)، سیاسی نظریہ اور انسانی تنوع (diversity)کے دیگر پہلوئوں میں فرق اور اختلاف شامل ہوسکتا ہے‘‘___ صاف نظر آتا ہے کہ فیصلے میں اس اصطلاح کو ’جنس اور جنسی رجحان‘ سے منسوب کرکے، اباحیت پسندی کے پورے فلسفے کو زیرغور لائے بغیر فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔

پروفیسر محمد مشتاق صاحب کے مطابق: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کے حق پر کئی حدود و قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان حدود میں وہ بھی ہیں جو 'اسلام کی عظمت کے مفاد میں لگائی جاسکتی ہیں( یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے)۔ پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ۲۰صفحات پر مشتمل اس پورے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبویؐ یا اسلامی اصول کا ذکر تک نہیں کیا گیا!

اسی طرح فاضل ججز نے ’جنسی رجحان‘ کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ’جنسی رجحان‘ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا، جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں ’جنس‘ ہو یا ’صنف‘، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ ’جنس ‘اور’ صنف‘ میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن ان اُمور کو بحث میں لائے بغیر فاضل جج یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ یقینا اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہوگا، لیکن آئین و قانون کی رُو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے اُمور پر کوئی بات کہنے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیتے اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتے۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی فیصلے میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔

’’فیصلے کا یہ حصہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔

چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو واضح طور پر درست نہیں ہیں، اس لیے اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے، جس میں درج ذیل اُمور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:

  • اظہارِ رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حقوق کی حدود۔
  • ان حقوق پر عائد ہونے والی ان قیود کی وسعت، جو اسلام کی عظمت کے مفاد میں کسی قانون کے تحت عائد کی جاسکتی ہیں۔
  • اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی اور آرٹ کے مفہوم کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔ کیونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں تمام قوانین کی اسلام کی روشنی میں تدوین اور تعبیر ضروری ہے۔
  • '’جنسی رجحان‘ کی ترکیب کا مفہوم اور اس کی حدود کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔
  • میڈیا، سوشل میڈیا اور اظہار و بیان کے تمام پلیٹ فارموں پر اس فیصلے کے مضمرات پر بات ہونی چاہیے،اور رائے عامہ بیدار کرنی چاہیے۔

نظر ثانی کی درخواست مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے، لیکن اگر ’پیمرا‘ کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ ۱۸۳ (۳) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس پر اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے سخت شرائط کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے بہترین لوگ ہی پارلیمنٹ کے رکن بن کر ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ چوں کہ انھی ممبران پارلیمنٹ سے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیر منتخب ہوتے ہیں، اس لیے آئین کے آرٹیکل ۶۲،۶۳ کے ذریعے یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ، ہمارے پالیسی میکرز ایمان دار ہوں، بہترین کردار کے مالک ہوں، باعمل مسلمان ہوں، اسلام کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور بڑے گناہوں کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں، وغیرہ وغیرہ۔

تاہم، یہ افسوس کا مقام ہے کہ آئین کی ان دفعات پر عمل نہیں ہوتا۔ جس کے نتیجے میں ہرقسم کے لوگ پارلیمنٹ میں آکر ہم پر حکمران بن کے مسلط ہو جاتے ہیں۔ پھر ان آئینی شقوں کی خلاف ورزی پر کبھی کسی نے یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ اُن تمام افراد اور اداروں کے خلاف آرٹیکل ۶ لگایا جائے،جو آئین کے اس حصے پر عمل درآمد میں دلچسپی نہیں لیتے۔اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ہے، جن کو آئین کی ان شقوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔ اگر ان شقوں پر عمل ہو تو چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آجائے، ہمارے ممبران پارلیمنٹ اور حکمران صرف اور صرف اچھے کردار کے مالک، سچے ، ایمان دار اور باعمل مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں۔ اور اسی وجہ سے آج ہم اس حال کوپہنچے ہیں۔

فروری۲۰۲۳ء کے اواخر میں، ’’۹۰دن کے اندر الیکشن‘‘ منعقد کرنے کے سوال پر ’سوموٹوکیس‘ کو سنتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا: ’’آئین پاکستان آج عدالت کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے‘‘۔ یہ بیان پڑھ کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ۹۰دن کے اندر الیکشن کرانے کی آئینی شق کی خلاف ورزی کے خطرے کو محسوس کرکے عزّت مآب چیف جسٹس صاحب کو عدالت کے دروازے پر آئین کی دستک سنائی دی ہے، تو اسی آئین کی اسلامی شقوں بشمول آرٹیکل ۶۲،۶۳کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر یہ دستک کیوں سنائی نہیں دیتی؟

آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ماحول فراہم کریں، لیکن ہمارا ماحول اور ہمارے فیصلے مغرب کی تقلید میں زیادہ نظر آرہے ہیں اور اُن پر کوئی بولتا بھی نہیں۔ آئین میں کتنی ہی شقیں ایسی ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہورہا بلکہ اُن کی خلاف ورزی ہورہی ہے، لیکن صرف چند شقوں سے متعلق ہمارے حکمراں اور سیاست دان، آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، اور عدالتوں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔

چند روز قبل ایک سینئر صحافی نے لکھا  تھا کہ ’’آرٹیکل ۶۲،۶۳ کا اطلاق پارلیمنٹ کے اراکین سے کہیں زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر ہونا چاہیے‘‘۔ یقیناً یہ تجویز بہت اہم ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے لیے اس نوعیت کی کوئی شرائط موجود نہیں۔ان معزز ججوں کی تعیناتی صوابدیدی انتخاب کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ علمِ قانون میں کمال کے ساتھ ایمان داری، سچائی، بہترین کردار کی شرائط  واقعی ہر جج کے لیے لازم ہونی چاہیے۔ ججوں کا کردار، اُن کی ایمان داری، اُن کی سچائی اور انصاف پسندی ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھا سکے۔لیکن ہمارے ججوں پر طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں۔ اُن کے فیصلوں سے انصاف کے بجائے ناانصافی اور طاقت ور کی حمایت کی بُو آتی ہے اور  اس میں کیا شک اُنھوں نے بار بارآئین کو کچلنے والوں کا ساتھ دیا۔ آرٹیکل ۶۲،۶۳کو اُن کی روح کے مطابق اور ہرشک و شبہے سے بالا ہوکر لاگو کرنے کے بجائے انھیں اپنی پسند کی بنیاد پر چند ایک سیاست دانوں کے حق یا اُن کے خلاف استعمال کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں اگر مجموعی طور پر ہمارے جج واقعی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھیں تو دوسرے تمام ادارےبھی صحیح کام کریں گے، اور سب کو انصاف ملے گا۔ اس مقصد کے لیے خود عدلیہ کو ایک اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہیے اور ججوں کی تعیناتی کے نظام کی بنیاد ایسے میرٹ پر رکھی جائے کہ جج کی ایمان داری، سچائی اور انصاف پسندی پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔

پاکستان کو اس وقت تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا ہے اور دوسری جانب خبروں میں روز جاری ہونے والے تازہ اعداد وشمار اس ہیجانی کیفیت کو ہوا دے رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں سب سے اہم نکتہ جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس بار بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً پیاز جیسی روزمرہ استعمال کی شے ۴۰۰ گنا مہنگی ہو چکی ہے۔

چونکہ ایک آدمی اپنی آمدن کا  ۸ء۵۰ فی صد حصہ انھی بنیادی اشیا کی فراہمی میں صرف کرتا ہے، اس لیے یہ سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست نتیجہ جرائم کی شرح بڑھانے اور معاشرتی بے چینی میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ (آثار واضح نظر آرہے ہیں۔ کوئی بھی اخبار دیکھ لیجیے)  

ماہرین معیشت، تجزیہ کاروں اور مفکرین نے ایسے کئی ممکنہ حل پیش کیے ہیں، جن کے ذریعے ملک کو معاشی تباہی اور اس کے بعد ہونے والی سماجی شکست و ریخت سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں غیر ذمہ داری کا احساس جڑوں تک اتر چکا ہو، ایسے لوگوں کی آوازیں اکثر وقت کے شور میں دب جایا کرتی ہیں۔ اس لیے اگر ترتیب کو درست کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں، اخلاقی ہے۔

یہاں اعداد وشمار کی بات نہیں دُہرائوں گا کہ وہ انٹرنیٹ پر بہ آسانی دستیاب ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ یہی پتا چل سکتا ہے کہ حالات کتنے خراب ہیں؟ لیکن کیوں خراب ہیں؟ اس کا جواب ہمیں کہیں اور ڈھونڈنا ہوگا۔

ایک طرف لوگ اس قدر مشکل میں ہیں کہ بنیادی ضرورت کی اشیا بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، لیکن دوسری طرف سڑکوں پر جرمن ساختہ کاروں خصوصاً آڈی (Audi) اور مرسیڈیز (Mercedes) کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جن کے ہاں مالی وسائل کا سیلاب ہے، ان کے ہاں کراس اوور (Crossover) یا سپورٹس گاڑیاں لوگوں کی ترجیح بنتی جارہی ہیں۔ اب دولت کی نمایش کے لیے پہلے سے زیادہ دولت خرچ کرنا پڑتی ہے کیونکہ ان گاڑیوں کی قیمت میں ۱۴۹فی صد اضافے کے باوجود ہم ہر سال اربوں روپیہ(۳۴  بلین) ’اُون‘ (ON)کی مد میں خرچ کرڈالتے ہیں۔ ’اون‘ اس زائد قیمت کو کہا جاتا ہے، جو گاڑی بکنگ کے بعد انتظار سے بچنے اور گاڑی کی فی الفور دست یابی کے لیے ادا کی جاتی ہے۔

جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار پر اس وقت بڑے مگرمچھوں کا قبضہ ہے۔ اس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے پاس مارکیٹ کے زیادہ تر وسائل موجود ہیں۔ جس طرح بہار میں پتّے نکلتے ہیں، اس طرح قریہ قریہ نئی رہایشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ آپ اپنے کسی بھی امیر کبیر دوست سے پوچھ لیجیے کہ ان کا ذریعۂ روزگار کیا ہے؟ قوی امید ہے کہ آپ کو ایک مبہم سا جواب ملے گا: ’کاروبار‘ اور ذرا تفصیل سے پوچھیں تو: ’پراپرٹی کا‘۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ملک میں ’کاروبار‘ تو پھیل رہے ہیں، لیکن ہماری کُل قومی پیداوار اسی جمود کا شکار ہے، بلکہ تنخواہیں اُلٹا کم ہو رہی ہیں۔ پیداواری اشاریے تنزلی کی جانب گامزن ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اگر ملک میں نئے کاروبار شروع ہو رہے ہیں تو صورتِ حال ایسی کیوں ہے؟

بیوروکریسی، افسران اور دیگر صاحبانِ اختیار کی تربیت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ پالیسی سازی کے عمل میں شامل ہو کر ملک کو مستقبل کے لیے کوئی سود مند حکمت عملی مہیا کر سکیں۔ لیکن یہ ’بابو‘ جیسے ہی اپنی بھوری کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں، ان کا ویژن اپنی میز کے طول و عرض تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ انھیں ہرلمحہ اپنے وقت کی قلت کا خدشہ دامن گیر رہتا ہے اور عوامی خدمت کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

اقربا پروری اور فائلوں کا گورکھ دھندا وہ کھونٹیاں ہیں، جنھیں سرکاری دفاتر میں ٹھونک کر ان کے ساتھ قابلیت کے تمام معیار اُلٹے لٹکا دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارا وہ سفر جس کے سامنے پہلے ہی کئی طرح کی سرکاری رکاوٹیں موجود ہیں، مزید سُست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ 

ہمارے پالیسی ساز اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیوں کے اثرات سے بے خبر ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان سرکاری اقدامات کو ’پالیسی ‘کہنا بھی مشکل ہے، کیونکہ یہ اکثر کسی نئے حادثے یا واقعے کے ردعمل میں اٹھائے جاتے ہیں۔ خود سے کسی مسئلے کی پیش بینی کر کے اس کے تدارک کی حکمت عملی تیار کرنا ہمارے ہاں مفقود ہے۔

ریلوے کا منتظم ہم ایسا آدمی ڈھونڈتے ہیں جس کے پاس ڈاکٹری کی سند ہو، جب کہ  ضلعی انتظام چلانے کے لیے ہمیں اکثر انجینئر میسر آتے ہیں۔ وطن عزیز کے معاشی و انتظامی ڈھانچے میں وسائل کی ایسی بے جا، غلط اور نقصان دہ تقسیم ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ دوسری طرف پیداواری ذرائع یعنی زمین، محنت اور سرمایہ، معاشرے کو مجموعی طور پر کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے انفرادی دولت کو بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

راقم اس صورتِ حال کو اخلاقی بحران کیوں سمجھتا ہے؟ کیونکہ سرکاری اداروں میں موجود زیادہ تر لوگ وہ کام نہیں کر رہے ہیں، جس کے لیے انھیں منتخب کیا گیا ہے۔ وہ چیزوں کو وسیع تر تناظر میں نہیں دیکھتے، بلکہ امرواقعہ ہے کہ دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

ان کی ترجیحات اپنی ذات تک محدود ہیں۔ اس میں یقیناً کوئی خرابی نہیں، اپنا شخصی فائدہ دیکھنا بھی ہم سب کا حق ہے لیکن اس فائدے کو اسی قدر دیکھنا چاہیے کہ ملکی معاملات نظر انداز نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے بھی سعی کی جانی چاہیے۔

مقابلے کا امتحان اور اس کی تیاری خاصے محنت طلب کام ہیں۔ کامیاب امیدوار تعلیمی میدان سے لے کر اپنی شخصی صلاحیتوں تک ہر چیز میں خاصی محنت کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر انسانی دماغ کو ایک مشین فرض کر لیا جائے جس سے کوئی ’آؤٹ پٹ‘ حاصل کرنے کے لیے پہلے ’اِن پٹ‘ ضروری ہوتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اچھی اِن پٹ اور تربیت کے باوجود آؤٹ پٹ اس قدر خراب کیوں ہے؟ یقیناً کام کے لیے سازگار ماحول ہونا بھی بہت ضروری ہے، لیکن یہ سازگار ماحول مہیا کرنا کس کا کام ہے؟

بدقسمتی سے ہمارا قومی مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ اگر کوئی تخلیقی خیال سامنے آ بھی جائے تو لوگ فوراً اس کی ناکامی کے لیے ایک سو ایک ممکنات اور خدشات پیش کر دیں گے،یا اس کو سرے سے شروع ہی نہ کرنے کے لیے درجنوں وجوہ ڈھونڈ لائیں گے۔ برائی کو ابتدا ہی میں کچل دینا بالکل ضروری ہے، لیکن اگر کہیں سے کوئی ایک آدھ اچھا خیال نکل آئے تو اسے پنپنے کا موقع ملنا چاہیے۔ افسوس ناک بات ہے کہ اب تک ہمارا طرز عمل اس کے الٹ رہا ہے۔

سیاست دان، امیر اور طاقت ور خاندان و افراد، صحافتی شخصیات، ماہرین تعلیم، نوجوان، دکان دار، غرض یہ کہ سب ہماری موجودہ صورتِ حال کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہیں۔ تاہم، یہ بھی بجا ہے کہ اس میں زیادہ حصہ انھی کا ہے، جن کے کندھوں پر براہ راست اس ملک کی ذمہ داری ہے۔

اگر آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہو اور تین دن سے آپ بھوکے ہوں تو آپ سے مہذب یا تعمیری رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ہمارے نچلے طبقے کی صورتِ حال یہی ہے۔ ایک طرف امیر مزید امیر اور طاقت ور ہوتا جا رہا ہے اور خیالی دنیا میں رہنے والے فیصلہ ساز اپنے کنویں سے باہر آنے کو تیار نہیں، جب کہ دوسری طرف غریب، انسانیت کش حالات کی چکّی میں کچھ اس طرح پس رہا ہے کہ اندازہ بھی ممکن نہیں۔

ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔پاکستان اس وقت اندھیرے اور اُجالے کے درمیان کھڑا ہے۔

اللہ کرے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں اور ہم ایک ایسا نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں جس میں سب کے لیے حصہ ہو۔ ہمارا اگلا سفر اندھیروں کے بجائے روشنی کی جانب ہو۔

سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا معاملہ ہو تو یہ ہمارے ہاں قومی سیاسی موقف اور بحث کا محور بن جاتا ہے۔ لیکن سخت حیرت کی بات یہ ہے کہ پارلیمان سے لے کر صحافت تک کہیں یہ معاملہ زیربحث نہیں آ سکا کہ وفاقی شرعی عدالت اس وقت ۸ کے بجائے صرف دو ججز سے کام کررہی ہے اور ایک عرصے سے ججز کی آسامیاں خالی پڑی ہیں ۔

 سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کے لیے جب بنچ تشکیل دیے جاتے ہیں،تو ان کی خبریں ذرائع ابلاغ پر اہتمام سے شائع کی جاتی، لیکن اس نکتے پر کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بنچ دوسال سے معطل ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات زیر التواپڑے ہیں کہ بنچ بنے تو ان کی سماعت ہو۔

ریاست پاکستان جس کا مملکتی مذہب آئین کے آرٹیکل ۲ کے تحت اسلام ہے، اور جس کے آئین میں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے، اور جس کے آرٹیکل ۳۱ کے تحت ریاست پابند ہے کہ ایسے اقدامات کرے، جن کے نتیجے میں لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔اس کے ذمہ داران واقعتاً اپنا نظمِ اجتماعی قرآن وسنت کے مطابق مرتب کرنا چاہتے ہیں یا اسلام کی بات یہاں محض برائے وزن بیان کی جاتی ہے؟اگر عملی سطح پر اہلِ حل و عقد کا طرزِ عمل دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاملاتِ زندگی نو آبادیاتی دور غلامی کے قانونی ڈھانچے کے مطابق ہی چلانا چاہتے ہیں۔

یہاں سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بنچ بنایا گیا اور طے کیا گیا کہ اس میں دو جید علما جج بھی شامل ہو ں گے۔ یہ دو جج وفاقی شرعی عدالت سے بھی لیے جا سکتے ہیں اور صدر مملکت چاہیں تو جناب چیف جسٹس کی مشاورت سے براہ راست علمائے کرام میں سے ان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان علما ججوں کے ساتھ جو ’ حُسن سلوک‘ کیا جا رہا ہے، آئیے اس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ آپ کو اس باب میں کوئی شک نہ رہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچا اور مقتدرہ ’ اسلامائزیشن ‘ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی مجموعی تنخواہ دس لاکھ روپے سے زیادہ ہے، تقریباً ۱۳یا ۱۴لاکھ روپے ماہانہ۔ لیکن اسی سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے علما جج صاحبان کی تنخواہ مبلغ ۲ لاکھ۶۶ ہزار روپے ہے، جو ضلعی عدالت کے جج کی تنخواہ سے بھی شاید کچھ کم ہی ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے علما جج صاحبان کو مراعات یعنی گاڑی ، ڈرائیور ، دفتر ، سٹاف وغیرہ کی سہولیات صرف اس دوران ملتی ہیں، جب وہ بنچ میں کسی مقدمے کی سماعت کر رہے ہوں۔ مقدمے کی سماعت کے دس دن ( اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن) بعد ان سے یہ تمام مراعات لے لی جاتی ہیں۔فیصلہ سازوں نے طے کر رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے علما جج صاحبان کو میڈیکل الائونس بھی نہیں دینا، وہ بیمار ہوں تو ہوتے رہیں۔ اس ملک میں ایک چوکیدار کو بھی میڈیکل الائونس دیا جاتا ہے، لیکن سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے علما جج صاحبان کو نہیں دینا۔ (سچ پوچھیں تو علما ججوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی دور میں کیا گیا تھا)۔

 اب آئیے ملک کے نظام عدل کے اس اہم ترین اسلامی اور شرعی ستون کی فعالیت کا عالم دیکھ لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ شریعت ایپلیٹ بنچ ہی نے وہ مقدمات سننے ہوتے ہیں، جن کا تعلق اسلامی قانون کی تعبیر سے ہو۔ حتیٰ کہ اگر کسی کے خیال میں کوئی قانون اسلام سے متصادم ہے تو یہ مقدمہ بھی فیڈرل شریعت کورٹ سے پھر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ میں آتا ہے۔

’رشیدہ پٹیل کیس‘ کا فیصلہ ۱۹۸۹ء میں وفاقی شرعی عدالت نے کیا۔ اس فیصلے میں لکھا گیا کہ ’زنا بالجبر کا جرم اصل میں حرابہ ہے‘ ۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور شریعت ایپلیٹ بنچ نے ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں کیا۔ ۳۲سال گزر گئے، فیصلہ معطل پڑا ہوا ہے۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا، تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔ اس اپیل پر فیصلہ آ جاتا تو شاید جنرل پر ویز مشرف کو ویمن پروٹیکشن بل لانا ہی نہ پڑتا۔ یاد رہے کہ مشرف دور کی اس قانون سازی کے خلاف بھی وفاقی شرعی عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے پاس اپیل زیر التوا ہے۔ آخری مرتبہ اس بنچ نے ۲۰۱۰ء میں اس اپیل پر سماعت کی تھی۔ ۱۲ سال گزر گئے اپیل وہیں کی وہیں پڑی ہے۔ اب بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا، تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔

یہی معاملہ کورٹ فیس ایکٹ کے ساتھ ہوا۔ مغلوں کے زمانے میںیہ نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی دور غلامی میں رعایا سے کہا گیا: ’’انصاف لینے آتے ہو تو فیس بھی ادا کیا کرو‘‘۔ چنانچہ کورٹ فیس عائد کر دی گئی۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۹۹۴ء میں اس کورٹ فیس کے خلاف فیصلہ دیا کہ ’’یہ غیر اسلامی ہے اور انصاف کے لیے عدالت آنے والوں سے یہ فیس نہیں لی جا سکتی‘‘۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور اس اپیل پر آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا، تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ نے آخری سماعت ۵دسمبر ۲۰۲۰ء کو کی تھی۔پانچ دن سماعت ہوئی اور پھر بنچ ٹوٹ گیا۔یہیںیہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پچھلے ۲۰،۳۰ سال میں شریعت ایپلیٹ بنچ کے سامنے ایسے کتنے مقدمات سماعت کے لیے رکھے گئے، جن کا تعلق قوانین کو اسلام کی رُو سے جانچنے سے تھا کیونکہ اس بنچ کا اصل مقصد تو یہی تھا۔

پارلیمان اگر آئین سے مخلص ہے ، اگر وہ واقعی آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، تو اسے اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کی عدم فعالیت کی وجوہ کیا ہیں اور اس سلسلے میں وہ ضروری قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہی؟ مقدمات کب تک التوا میں رہیں گے اور بنچ کب تک نہیں بنیں گے؟ سماعت کب تک نہیں ہو گی؟ یہ سوالات اب معاشرے کے اجتماعی ضمیر کا رستا ہوا ناسور بن چکے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر قانو ن سازی کی ضرورت ہے تو کیوں نہیں کی جاتی؟ کم از کم اتنا قانونی ضابطہ تو بنا دیا جائے کہ یہ بنچ زیادہ سے زیادہ کتنے دن یا ہفتے یا مہینے یا سال غیرفعال رہ سکتا ہے اور اسے زیر التوا مقدمات کا فیصلہ کتنے عرصے میں کر دینا چاہیے۔ابھی تو کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کب بنچ بنے گا اور کب سماعت ہو گی؟ کیا اسلامائزیشن اس طرح ہوتی ہے؟