ایک سائنسی سروے اور تجزیے کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا چوتھا فرد ڈپریشن یا مایوسی اور افسردگی کا شکار ہے۔ ڈپریشن کا مطلب ذہنی عدم توازن کا شکار ہونا ہے۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ ڈپریشن دراصل اس بات کی علامت ہے کہ فرد داخلی طور پر شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کا شعور، لاشعور سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہے۔
ڈپریشن کے ظاہری اسباب کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
ڈپریشن خواص میں ہو یا عوام میں، اس کا بنیادی سبب انسانی شعور اور عمل کا آپس میں ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ شعور بھٹکتا پھرتا ہے تو اسے زندگی بے معنی نظر آتی ہے۔ ایسی زندگی جس کا کوئی پاکیزہ مقصد نہ ہو، جو دل اور روح کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہو، جو محبت کے حقیقی تقاضے سے عدم مطابقت رکھتی ہو، اس طرح کی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور مایوسی کا ذریعہ بھی۔
یہ ایسی قابلِ رحم حالت ہے، جس پر درد مند افراد خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پاکستانی ملت کے اگر کروڑہا افراد اس بیماری، یعنی ڈپریشن کا شکار ہوں تو اجتماعی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔
ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم و ملّت کے ذہین افراد کی ذہنی توانائیاں اس بات پر صرف ہوتیں کہ ملّت اس بحران سے کیوں دوچار ہے؟ اور اسے اس بحران سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے؟ لیکن بے حسی اور بے بسی ملاحظہ ہو کہ اتنے بڑے المیہ کے باوجود کہ ہمارے کروڑہا افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ افراد اور قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی، جو لوگ مرض کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، انھیں ان نفسیاتی ماہرین کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جو زندگی بھر افراد کو نشہ آور یا نیندآور گولیوں پر چلاتے رہتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو ڈپریشن کی اس بڑھتی ہوئی بیماری کا ذریعہ مادیت پرستی، ہیجان خیز جنسی مناظر اور انسانی ہمدردی کے احساس میں فساد کا نتیجہ ہے۔ احساس میں جب پاکیزگی کے بجائے فساد برپا ہوجاتا ہے، احساس میں جب روحانیت کے بجائے مادیت کے اجزا غالب آجاتے ہیں، احساس جب محبوبِ حقیقی سے محبت کی ہم آہنگی کے بجائے مادی مقاصد سے رشتہ جوڑ لیتا ہے، تو فرد اور افراد کی داخلی زندگی شدید ہیجان خیزی، شدید اضطراب اور بے قراری کے انگاروں پر لوٹنے لگتی ہے۔ اس سے انسانی ذہن شل ہوجاتا ہے۔ وہ پاکیزہ اور صحیح مقصد ِزندگی نہ پاکر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی مایوسی اس کے ذہنی توازن میں خلل پیدا کردیتی ہے اور ڈپریشن کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
ڈپریشن کے مریض کے سامنے آپ دولت کے ڈھیر پیش کردیں، مادی حُسن کا وافر ذخیرہ سامنے کر دیں، ذہنی دبائو کے شدید حملے کی وجہ سے ان چیزوں کی موجودگی سے اس کا ذہنی سکون بحال نہیں ہوسکتا۔ یعنی ڈپریشن دل اور روح کے اس بحران کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اسے محبوبِ حقیقی کی معرفت اور اللہ کی محبت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس عمل میں فرد کا اپنا ذاتی قصور ہو یا معاشرے کا، سردست اس سے بحث نہیں، لیکن بڑھتے ہوئے ڈپریشن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے۔
ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے بحران سے بچائو کی صورت یہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں مغربی ماہرین نفسیات کی تحقیق سے بلند ہوکر، اپنے تاریخی، تہذیبی پس منظر میں اس کا علاج تلاش کریں۔ مسلم نفسیات کے ماہرین جنھیں ’اہل اللہ‘ کہنا زیادہ صحیح ہے، جب ہم ان کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی خود اختیار کردہ فقر سے عبارت تھی۔ فقر کی اس حالت میں رہ کر ، انھوں نے ہزاروں لاکھوں افراد میں زندگی کی رَو دوڑا دی تھی۔ انھیں خود اعتمادی سے سرشار کر دیا تھا اور انھیں خودشناسی اور اللہ شناسی سے اس طرح آشنا کر دیا تھا کہ ڈپریشن ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سارے سوچنے والے مؤثر طبقات کے ذہنوں پر ہرمعاملے میں مغرب کی نقالی اور جاہلانہ تقلید کی روش غالب ہے۔ وہ زندگی کے سارے معاملات میں مادہ پرست اہلِ مغرب کو ماہر، رہبر اور اپنا استاد سمجھ کر ان کے اختیار کردہ نسخوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس صورت میں صحیح سمت میں سوچ کا عمل ہی دشوار ہے۔
یاد رکھیں کہ اگر ہم نے مادیت پرستی کی غیرفطری روش کو جاری رکھا اور نوجوان نسل کی فطرت سے ہم آہنگ پاکیزہ نصب العین سے مطابقت کی صورت پیدا نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں طرح طرح کی سنگین بیماریوں کا شکار ہوتی رہیں گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوعمر افراد اس قدر فکری انتشار کا شکار ہیں کہ ایک طرف الحاد اور دہریت کے اسیرہیں، تو دوسری طرف جانوروں کی سی جنسی آزادی اور روش پر مٹے چلے جارہے ہیں، اور تیسری جانب امراضِ دل، شوگر اور بلڈپریشر کے بھی دائمی مریض بن رہے ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں پر رحم کھاتے ہوئے، اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر بچائو کی ساری صورتیں مسدود ہیں۔
جب اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوگی تو اس سے معاشی ناہمواری، امیرکے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے کی فضا میں کمی پیدا ہوگی۔ اس لیے کہ پاکیزہ اسلامی تہذیب ہمیں اُن ہدایات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے گی۔ جن میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے لیے جو کچھ چاہتا ہے، وہی کچھ اپنے دوسرے بھائی کے لیے نہ چاہے۔ (حدیث شریف)
قرآنِ مجید میں ہے: وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’یہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہو کہ ضرورت سے زیادہ سب کا سب‘‘۔ قرآنِ مجید میں ایک دوسری جگہ ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (الِ عمرن۳:۹۲) ’’تم نیکی کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جس چیز سے تمھیں محبت ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو‘‘۔
اپنی پاکیزہ تہذیب پر عمل کرنے اور فطرت میں موجود محبت کے طاقت ور پاکیزہ نصب العینی تقاضے کی تسکین سے ایک تو ذہن، دل، روح اور نفسیات کے درمیان توازن اور مطابقت پیدا ہوگی، جس سے بے پناہ سکون حاصل ہوگا اور ڈپریشن قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے ایسا معاشرہ جنم لے گا، جس کے افراد محبوب حقیقی سے محبت کے جذبات کے ارتقا کی خاطر معاشرے کے مفلوک الحال افراد کو اپنی دولت میں شریک کریں گے، یعنی زکوٰۃ کے علاوہ صدقات وخیرات کی صورت میں اپنی وافر دولت غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر صرف کریں گے۔ اس کام کو وہ اللہ کی رضا اور اللہ سے محبت کی دولت پانے کا ذریعہ سمجھیں گے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے نظام کو، اپنے حالات کو اور اپنے مزاج اور نفسیات کو بدل کر صحت مند خطوط پر تشکیل دیں؟ اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں؟
آج سے کم و بیش تیس برس پہلے واشنگٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر سڈنی کابرٹ نے اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے’’دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دیا تھا‘‘۔ ایک اور سروے کے مطابق اردو برعظیم کے علاوہ دنیا کے چوالیس سے زیادہ ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ عالمی زبانوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک سروے میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو کو تیسری بڑی عالمی زبان قرار دیا گیا۔
یہ امر بہرحال ہرشبہے سے بالا ہے کہ اردو کا شمار عالمی زبانوں میں ہوتا ہے اور یہ بات بجائے خود اہلِ پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس عظیم زبان کو وطن عزیز میں ابھی تک وہ مقام نہیں ملا، جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی آئین میں آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ ۱۹۸۸ء تک قومی زبان اردو کو پورے پاکستان میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کردیا جانا لازم ہے۔ یہ سنہ بھی گزر گیا اور اس پر ۳۳ برس کا مزید عرصہ بھی گزر چکا مگر اونٹ اب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔
اس دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت میں رٹ دائر کی گئی اور ایک لمبی بحث و تمحیص اور حکومت کے تاخیری حربوں کے باوجود ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز فیصلے کا ظہور ہوا۔ یہ رٹ جو دراصل دو الگ الگ رِ ٹوں کی صورت میں محمد کوکب اقبال اور سیّد محمود اختر نقوی نے داخل کی تھی، اپنے نفسِ مضمون کے باعث ایک ہی قرار دی گئی اور اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ ایک بنچ نے کیا جس میں خواجہ صاحب کی معاونت دوفاضل ججوں دوست محمد خاں اور قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں اعلیٰ عدالت کو کس ہفت خواں سے گزرنا پڑا، آئیے ان مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
سال ۲۰۱۵ء میں جو اس کیس کا سالِ سماعت تھا، اس کیس کی اٹھارہ بار سماعت ہوئی اور ہر بار کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ تراشا گیا۔ چار بار تو ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوتے رہے اور جامع بیان جمع کرانے کے لیے ہر بار وقت مانگتے رہے۔ پانچویں پیشی پہ انھوں نے گویا ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات وغیرہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر کان نہیں دھرے۔ ایک مرحلے پر وفاقی حکومت ِ پاکستان کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث حکومت پر ہرجانہ بھی عائد کیا گیا۔ پھر دوسرے مرحلے پر کہا گیا کہ وزیراعظم ملک سے باہر ہیں۔ ان افسوس ناک حیلہ تراشیوں پر یاد آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں حنیف رامے صاحب نے، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے (پروفیسر فتح محمد ملک ان دنوں ان کے مشیر تھے) یہ فیصلہ کیا کہ کم از کم پنجاب کی حد تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے۔ رامے صاحب اور پروفیسر ملک صاحب اس معاملے میں بہت پُرجوش تھے، مگر جب بھٹو صاحب سے اس کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے رامے صاحب سے کہا کہ ’’پنجاب میں ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے کیونکہ ہمیں سندھ میں الیکشن بھی لڑنا اور جیتنا ہے!‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ برعظیم کی زبانوں میں اردو ہی ایک ایسی زبان ہے، جو اس کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور صرف وہی قومی اور سرکاری زبان بننے کی اہل تھی اور ہے، مگر اس سلسلے میں سوائے ظاہری عذر تراشیوں اور درپردہ سیاسی اور لسانی تعصبات نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو طاقِ نسیاں پر رکھا ہوا ہے۔ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی مصلحت کیشی اور ذاتی منفعت کوشی کی سپاہِ سیاہ نے اردو کے نفاذ میں کس قدر روڑے اٹکائے اور معاملے کو اس قدر اُلجھائے رکھا کہ اب تک یہ معاملہ سلجھتا نظر نہیں آتا اور افتخار عارف کا یہ شعر یاد آئے بغیر نہیں رہتا:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
مگر لگتا ہے کہ سازشوں اور لسانی تعصبات کے تماشے کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں گو کہ بالآخر نابود ہونا اس کا مقدر ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مذکورہ حیلہ تراشیوں کے ضمن میں بڑا واضح موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کی زبان پر غور کریں تو اس بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجایش نہیں رہتی۔ اس کے متن میں لفظ ”شیل“ Shall کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد اختیاری یا کسی کی منشا کا پابند نہیں بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے۔ لہٰذا آرٹیکل ۲۵۱کی حکم عدولی کی کوئی گنجایش نہیں۔
آگے چل کر عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’آئین کی پابندی ہر شہری کا لازمی اور بلا استثنا فریضہ ہے‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ریاست کے تمام اعلیٰ حکام آئین کی بقا اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ آئین کی حکمرانی تب قائم ہو سکتی ہے جب اس کی ابتدا صاحبِ اقتدار طبقے سے ہو۔ اگر حکومت خود آئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو وہ قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مُجاز نہیں سمجھی جا سکتی‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ نے اس ضمن میں ’سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان‘ کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عدالت کا یہ اٹھایا ہوا سوال قابل توجہ ہے: یہ کام عوام کے نمایندوں اور تمام سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آیا اعلیٰ طبقات اور ریاست کے باقاعدہ قائم شدہ اداروں میں قانون کی حکمرانی غائب ہونے سے تو وہ لاقانونیت پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے معاشرے میں آج سرایت کر چکی ہے؟‘‘ دراصل عدالت کے اس سوال کے پسِ پشت وہ بڑی صداقت کام کر رہی تھی کہ النَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلوکِھِم ،یعنی عام لوگوں کا چلن اور طور طریقہ وہی ہوتا ہے جو ان کے حاکموں کا ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’آئینِ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱باقی دستور سے کوئی الگ تھلگ شق نہیں بلکہ دستور کی اس دفعہ کا شہریوں کے بنیادی حقوق سے گہرا تعلق ہے۔ دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضا ہے کہ ریاست ہر مرد و زن کی زبان کو چاہے وہ قومی ہو یا صوبائی، ایک قابل احترام زبان کا درجہ ضرور دے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کا عدم نفاذ پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو، جو ایک غیر ملکی زبان، یعنی انگریزی سے ناواقف ہے، بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حاکم طبقات ایک بدیسی زبان، یعنی انگریزی کے پاکستانی عوام پر تسلط سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مقصد واضح ہے: حاکم طبقہ اور بیوروکریسی محدود مقاصد کی اسیر ہے اور یہ محدود مقاصد اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ لوگ ایک بدیسی زبان کے ذریعے طبقاتی اُونچ نیچ کا افسوس ناک کھیل جاری رکھ سکیں۔ حالانکہ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ: صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک!
نشۂ قوت میں مست و مغرور یہ طبقہ اپنے استعماری آقایانِ ولی نعمت کی تھپکیوں سے حوصلہ پکڑے ہوئے ہے۔ کاش! یہ طبقہ ہوش کے ناخن لے اور آئینِ پاکستان کے تحت شہریوں کو دیے گئے لسانی حقوق سے انھیں محروم کر کے فرنگی طالع آزما میکالے کی روح کو مسرور نہ کرے۔ وہی متکبر میکالے جو مغربی کتب کی ایک شیلف کو ایشیا اور عرب کے تمام ادبیات پر برتر اور بھاری گردانتا تھا۔ پاکستان کے عوام بیدار ہو رہے ہیں اور یہ بیداری اس خود غرض اسیرِ ذات استحصالی طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے:
دل نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا!
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا
حسن جعفر زیدی، علامہ اقبال کو ’خالق تصور پاکستان‘ کہے جانے پر بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ان کے، ’’ اقبال نے نہ تو اپنی کسی تحریر میں لفظ پاکستان استعمال کیا اور اگر کسی نے یہ تاثر دینا چاہا تو اقبال نے اس کی سختی سے تردید کی‘‘۔ جہاں تک پہلی بات ہے، وہ تو بالکل درست ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات تو کی ،لیکن اس ریاست کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا، لیکن جب اقبال کے تصور سے ملتی جلتی ایک ریاست وجود میں آ گئی اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا، تو کیا اس سے صاف انکار کر دیا جائے گا کہ اس ریاست کے قیام میں اقبال کا کچھ حصہ نہ تھا؟
اس حوالے سے ہمیں اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جن میں انھوں نے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہوئے ہندستان کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کا تعین کیا۔ اقبال نے ۲۰مارچ ۱۹۳۷ءکو قائداعظم کے نام خط میں لکھا:
I suppose you have read Pandit Jawaharlal Nehru's address to the All India National Convention and that you fully realize the policy under lying it in so far as Indian Muslims are concerned. I believe you are also aware that the new constitution has at least brought a unique opportunity to Indian Muslims for self organization in view of the future political development both in India and Muslim Asia. While we are ready to co-operate with other progressive parties in the country, we must not ignore the fact that the whole future of Islam as a moral and political force in Asia rests very largely on a complete organization of Indian Muslims. I therefore suggest that an effective reply should be given to the All India National Convention (p29).
میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ملاحظہ فرما لیا ہوگا، جو انھوں نے کُل ہند نیشنل کنونشن میں دیا اور اس میں اسلامیانِ ہند کے بارے میں جس حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس کو بھی آپ نے بخوبی محسوس کیا ہوگا۔ مجھے یقین ہے، آپ اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ نئے آئین نے ہند کے مسلمانوں کو کم از کم اس امر کا ایک نادر موقع ضرور دیا ہے کہ وہ ہند اور مسلم ایشیا میں رُونما ہونے والے سیاسی حالات کے پیش نظر اپنی ملّی تنظیم کرسکیں۔ بلاشبہہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک خود ہند کے مسلمانوں کی مکمل قومی تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ کُل ہند نیشنل کنونشن کو ایک مؤثر جواب دینا بے حد ضروری ہے۔(پاکستان: تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ، بزمِ اقبال، ص ۳۱-۳۲)
اسی طرح علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا:
After a long and careful study of Islamic law, I have come to the conclusion that, if this system of law is properly understood and applied, at least the right to subsistence in served to everybody. But the enforcement of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states. This has been my true conviction for many years and I still believe this to be the only way to solve the problem of bread for Muslims and as well as secure a peaceful India (p32).
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔(ایضاً، ص۳۴-۳۵)
قائداعظم کا اقبال کو خراجِ تحسین
قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے خطوط کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا، وہ بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔ یہ خطوط پہلی بار قائد اعظم کی زندگی میں اور ان کے Forward (پیش لفظ) کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ قائد اعظم نے ان خطوط کی اہمیت اور علامہ اقبال کے ساتھ اپنے ذہنی و فکری روابط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا :
Hence, I had no alternative but to publish the letters without my replies as I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his (Iqbal) views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India. His view were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore resolution of the all India Muslim League. Popularly known as the "Pakistan Resolution" passed on 23 March, 1940.
چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ میں ان مکاتیب کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں، کیونکہ میرے نزدیک یہ مکاتیب بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ مکاتیب جن میں مسلم ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیرمبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور بالآخر میں ہند کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انھی نتائج پر پہنچا، اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہند کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر ’قراردادِ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہے۔(ایضاً،ص ۳۱)
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہندستان کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ایک الگ ریاست میں دیکھ رہے تھے اور کم از کم اقبال واضح طور پر اس میں Islamic Law کا نفاذ چاہتے تھے اور قائد اعظم نے بھی اپنے ’پیش لفظ‘ میں اس سے کہیں اختلاف نہیںکیا۔
حسن زیدی، اقبال کے خالق تصور پاکستان ہونے کے رد میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے بعد، جب کُل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا،لیکن ان کے اس پہلو کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے قائد اعظم کا جو اقتباس درج کیا ہے، وہ بالکل درست ہے، مگر کاش! وہ اس سے آگے نکل کر ۲۰مارچ ۱۹۴۳ء کے یوم اقبال پر جناح کے پیغام کا بھی مطالعہ کر لیتے، قائد اعظم لکھتے ہیں :
Iqbal was not only philosopher but also a practical politician. He was one of the first to conceive of entire feasibility of the division of India on national lines as the only solution of India's political problem. He was one of the most powerful though tacit precursors and heralds of the modem practical evolution of Muslim India.
Iqbal, therefore, rises above the average philosopher, as the essence of his teachings in a beautiful blend of thought and action. He combines in himself the idealism of a poet and the realism of a man who took practical view of things. In Iqbal this compromise is essentially Islamic. In fact it is nothing but Islam. His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto "Dare and Live" (Speeches, Statements & Message of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. III, p1683-84).
اقبال محض فلسفی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ انھیں ان لوگوں میں اوّلیت کا مقام حاصل ہے جنھوں نے قومی بنیادوں پر ہند کے سیاسی مسئلے کا واحد قابلِ عمل حل تقسیم تجویز کیا۔ وہ مسلم ہند کے جدید سیاسی ارتقاء کے سلسلے میں ایک طاقت ور ترین مگر خاموش نقیب تھے۔ لہٰذا ،اقبال کا مقام عام فلسفیوں سے بہت بلند ہے، کیونکہ ان کے پیغام کی روح میں تخیل اور عمل دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی ذات میں ایک شاعر کا تخیل اور ایک باعمل انسان کی حقیقت پسندی کا ایسا ملاپ ہے جو مسائل حیات کے بارے میں عملی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اقبال میں یہ مفاہمت یقینی طورپر اسلامی ودیعت ہے۔ حقیقت میں یہ اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اس لیے ان کا نظریۂ حیات اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ ہے: ’’جیو اور بے خطر جیو!‘‘(ایضاً، ص ۴۵-۴۶)
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خود قائد اعظم ہندستان میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد میں اقبال کی فکر کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے نظریات میں تبدیلی اور اسلام کی جانب جھکاؤ کے پس پردہ بھی اقبال کی فکر کارفرماتھی ۔ اب ایسی صورت حال میں ایک نئی مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے تصور کے حوالے سے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ،تو وہ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ہاں، اگر اعتراض صرف یہ ہے کہ قائداعظم نے علامہ اقبال کے لیے خالق تصور پاکستان کے الفاظ کیوں استعمال نہیں کیے، تو اسے صرف کج فہمی اور بحث برائے بحث کہا جا سکتا ہے۔
یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے ایک سیکولر کالم نگار وجاہت مسعود کے سلسلہ وار کالم بعنوان ’قرار داد مقاصد اور سیکولرازم‘ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ (روزنامہ آج کل ، مارچ - اپریل ۲۰۱۰ء)
موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے: ’قرار داد نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے، بلکہ یہ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے اہم لوگوں بالخصوص قائد اعظم کے افکار سے بھی متصادم ہے‘۔ پھر یہ کہ: ’جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی اور قرارداد مقاصد لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی‘۔ وہ مولانا شبیر احمد عثمانی پر کئی ایک اعتراضات کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’مولانا ریاست حیدر آباد دکن کے وظیفہ خوار تھے‘۔ یہاں پر کالم نگار سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ متحدہ ہندستان میں رہنے والے فرد کے لیے اگر یہ بات باعث الزام ہے کہ کسی ریاست کا وظیفہ لے تو آج پاکستان میں این جی اوز کے زیر سایہ پرورش پانے والے ان دانش وروں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جن کی زندگی کی ساری چکا چوند غیر ممالک سے ملنے والے عطیات (donations )کی مرہون منت ہے؟ یاد رہے کہ امیرملکوں کے وہ ادارے، جو پاکستان جیسے ملکوں میں این جی اوز کو رقوم فراہم کرتے ہیں Donors کہلاتے ہیں، یعنی ’عطیہ اور بخششیں دینے والے‘۔
جہاں تک قائد اعظم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ وہ تھیوکریسی یا تھیوکریٹک اسٹیٹ نہیں چاہتے تھے، تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہے۔ بذاتِ خود اسلام میں تھیوکریسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر قسم کے دانش ور، چوں کہ مغربی طرزِ فکرکے قائل ہیں اور اسی کو طرزِ حیات کا افضل ماڈل تصورکرتے ہیں، اس لیےوہ اسلامی تصورات اور اداروں کو بھی مغربی اداروں اور مغربی تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ۔پاکستان کو جب اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اسلامی قوانین اور اصولوں کی بالادستی ہوتا ہے، بحیثیت فرد یا بحیثیت ادارہ مولوی کی بالا دستی نہیں۔ اسلام اپنے پیروکار سے مذہب کی تفہیم کا مطالبہ کرتا ہےاور چودہ سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں ہمیں ایک بھی تھیوکریٹک ریاست کی مثال نہیں ملتی ،مگر مذہب اسلام لوگوں کی زندگیوں میں اور اجتماعی زندگیوں میں رائج رہا ہے۔ جہاں جہاں حکمرانوں نے اسلامی تصورات سے رُو گردانی کرنے کی کوشش کی ہے، انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آگے چل کر خود یہی کالم نگار تسلیم کرتے ہیں :’’مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت تھی، چنانچہ قائداعظم کی جانب سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں‘‘___ ہمارے نزدیک حیرت کی بات ہے کہ خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت کے سربراہ کے طور پر، مذہب کی بنیاد پہ ایک الگ وطن کے لیے جدوجہد کرنے والے قائداعظم حاصل ہونے والے ملک کو سیکولر بنانا چاہتے تھے! قائد اعظم نے پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وہ اسلام کے مذہبی رواداری کے اصول کے عین مطابق تھا۔
یہاں ایک نظر قائد اعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر پر ڈال لی جائے۔ اس تقریر کو اکثر قائداعظم کے سیکولر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریر کا پورا متن موجود ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حوالے سے ایک بار بھی ’سیکولر ریاست‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کے مساوی حقوق کی بات ضرور کی ہے اور درست کی ہے۔ یہاں انھی کالم نگار نے ایک اور نکتہ اٹھایا ہے، جس پر بات کرنا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
ایک اہم زاویہ یہ ہے کہ اپنی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انھوں نے پاکستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ’نیشن‘ قرار نہیں دیا، کیوںکہ پاکستان بننے کے بعد قوم کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا۔ (آج کل، ۷مارچ۲۰۱۰ء،لاہور)
آگے چل کر کالم نویس پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی لاتے ہیں کہ ’قائد اعظم نے ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکی تقریر میں اسلام کا نہیں، مسلم کا لفظ پانچ، چھ بار استعمال کیا‘۔بقول وجاہت مسعود ’پاکستان مسلم ریاست ہے، اسلامی نہیں‘۔
چلیے اس طرزِ بیان کو درست مان لیتے ہیں، مگرمجرد جمہوری اصولوں کے مطابق، کہ جن کی پاس داری کا احساس ہردم ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کے دامن گیر رہتا ہے۔ انھی اصولوں کے مطابق جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو گی تو وہاں قوانین بناتے ہوئے ان کے عقیدے کا خیال کیوں نہیں رکھا جائے گا؟
اسی خلط مبحث کو بڑھاوا دیتے ہوئے وہ یہاں پر ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا کمزور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین اور دوسری صف کے بعض مسلم لیگی رہنماؤں نے قائد اعظم کی ۱۱؍ اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ الطاف حسین کی گواہی اس لیے کمزور ہے کہ اس بات کی شہادت کسی دوسرے فرد نے نہیں دی اور پھر الطاف حسین کا جو کردار بعد میں رہا، وہ بھی ان کے بیان کو مشکوک بناتا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے ۱۹ دسمبر ۱۹۴۶ءکو قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دینا ضروری ہے، جو انھوں نے مصر کے سرکاری ریڈیو سے کی تھی:
We want those two regions to be separate where possible, and to establish a Muslim Government dominating their territories. We want to live as a free and independent people our own life and to preserve all that Islam stands for. This means one fourth of the country, and the three fourths will go to the Hindus where they will live also as a free and independent people their own life according to their philosophy, culture and social order based on Hindustani rites.
Muslims and Hindus are the two major nations in India. They are totally different and distinct in the essentials which affect everything that matters in life. Not only are we different and distinct but we are sometimes antagonistic.We, the Muslims, have our history, culture, language, legislations, and jurisprudence, music, architecture, calendar, social and educational life, which totally differ from that of the Hindus (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. IV, p2494).
ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں کو جہاں جہاں ممکن ہو علیحدہ کردیا جائے، جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں پر فرماں روائی کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علَم بردار ہے۔ اس کے معنی ہیں ملک کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کو اور تین چوتھائی ہندوئوں کو مل جائے گا جہاں وہ بھی ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے ہندستانی رسم و رواج پر مبنی اپنے فلسفے، اپنے تمدن اور معاشرتی نظم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔
ہند میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ وہ ان ناگزیر عناصر کے تعلق سے، ہراس شے پر اثرانداز ہوتے ہیں جو زندگی میں ذرا بھی اہمیت رکھتی ہے، کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں بلکہ بعض اوقات ہم ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اپنی تاریخ، ثقافت، زبان، قوانین، اصول قوانین، موسیقی، فن تعمیر، تقویم، معاشرتی اور تعلیمی زندگی ہے جو ہندوئوں سے بالکل مختلف ہے(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۲۸۸)۔
اب بھی اگر قائد اعظم کےاس فرمان سے بھی ان کے تصور قومیت کے بارے میں ہمیں رہنمائی نہ مل سکے، تو اسے قومی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس سے پیش تر جب قیام پاکستان کی منزل سامنے نظر آ رہی تھی، تو انھوں نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۷ءکو بمبئی میں میمن چیمبر آف کامرس میں تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا:
We assure the Hindus that in Pakistan the minorities will be treated justly, fairly and generously. The whole history of Islam has shown that. The whole teaching of Islam is in that direction. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, Vol IV, p2538).
ہم ہندوئوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ، عادلانہ اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا۔ اسلام کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اسلام کی ساری تعلیمات اسی جہت کی جانب اشارہ کرتی ہیں (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۳۱۷)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان بھی من و عن روزنامہ ڈان کی اشاعت ۲۸ مارچ ۱۹۴۷ء سے لیا گیا ہے اور اس وقت بھی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہی تھے۔ پتا نہیں اسے مسلم لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے سنسر کیا بھی تھا یا نہیں، کم از کم الطاف حسین اس معاملے میں خاموش ہیں۔
پاکستان میں معاملات کو کیسے چلایا جائے گا؟ اس کی وضاحت ایک بار پھر قائد اعظم کے الفاظ ہی میں ہے۔ یہ خطاب بار ایسوسی ایشن کراچی میں ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا گیا اور دی سول اینڈ ملٹری گزٹ کی اشاعت۲۷ جنوری ۱۹۴۷ء میں موجود ہے:
Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, Governor General of Pakistan, speaking at a reception given to him on the Holy Prophet's birthday by the Bar Association, Karachi, said that he could not understand a section of the peoplewho deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat.The Quaid -i- Azam said"Islamic Principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, Vol IV, p2669)
قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب پر، اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کر نا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی‘‘۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح ۱۳سوسال پیش تر ہوتا تھا۔(قائداعظم: تقاریر وبیانات،چہارم، ص ۴۰۱-۴۰۲)
اب وجاہت مسعود اور ان کی فکرکے حامل افراد یہ بتائیں کہ کیا قائد اعظم پاکستان میں سیکولر آئین چاہتے تھے اور قرارداد مقاصد صرف لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی ذہنی اختراع تھی؟ اپنے تیسرے کالم (۹مارچ ۲۰۱۰ء) میں مذکورہ کالم نگار نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کے عالمی اخباری ایجنسی رائٹرز کے نمایندے کے حوالے سے ایک بیان نقل کیا ہے:
نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی ،جس میں اختیارات کا سر چشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب، ذات یا عقیدے کے بنا کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔
وجاہت مسعود نے اس جانب اشارہ کرنے سے اجتناب کیا ہےکہ یہ بیان جسٹس محمدمنیر [م:۱۹۷۹ء] کی کتاب Pakistan from Jinnah to Zia سے لیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنے کالموں میں آگے چل کر انھوں نے جھجکتے ہوئے ایک جگہ جسٹس محمدمنیر صاحب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس بیان پر سیکولر حلقے بہت اصرار کرتے ہیں۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ خود کو روشن خیال، عقلیت پسند اور حقائق کو معروضی انداز میں سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے دانش ور حضرات اپنے عصر میں شائع ہونے والی کتابوں سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔
جسٹس محمد منیر کے اس بیان کی حقیقت کو برطانوی نژاد محققہ سلینہ کریم نے بڑے مدلل انداز سے اپنی کتاب Secular Jinnah as Pakistan میںواضح کر دیا تھا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں اور اس کا چوتھا ایڈیشن ۲۰۲۱ء میں یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور سے شائع ہوا ہے۔ جس میں سلینہ کریم نے جسٹس منیر کے درج کردہ اقتباس اور قائداعظم کے اصل انٹر ویو کا موازنہ کرکے بتایا تھا کہ ’’قائد اعظم کے حوالے سے یہ بیان نقل کرتے ہوئے جملے تبدیل کر دیے گئے ہیں‘‘۔ سلینہ کریم کی کتاب سے جسٹس منیر کا درج کردہ اقتباس اور اصل اقتباس درج ذیل ہیں۔بقول سلینہ کریم، جسٹس منیر نے سنہ بھی غلط درج کیا تھا۔ ۱۹۴۶ء کے بجائے ۲۱مئی ۱۹۴۷ء تھا۔ گویا انھوں نے اصل متن نہیں دیکھا اور ثانوی ماخذ کو استعمال کیا۔
جسٹس محمد منیر کا درج کردہ بیان یوں ہے:
The new state would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regarding of religion, caste or creed.
یہ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ کا اختیار عوام کے پاس ہوگا، اور نئی قوم کے تمام ممبران کو بلاتمیز مذہب اور ذات پات یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
جب کہ، قائد اعظم کے بیان کی اصل عبارت یہ ہے:
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of Government. Its Parliament and Cabinet responsible to the Parliament will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the Government that may be adapted from time to time (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. IV, p2563).
لیکن حکومت ِ پاکستان مقبول، نمایندہ اور جمہوری طرز کی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ اور اس کی کابینہ پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوگی اور یہ دونوں رائے دہندگان اور عوام الناس کے سامنے بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ، ذات پات یا مسلک جواب دہ ہوں گی جو قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے، اور حکومت کی حکمت عملی اور اس کے پروگرام کی تشکیل کے ذمہ دار ہوں گے، جنھیں حکومت وقتاً فوقتاً ترتیب دے گی۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۳۳۴)
آپ نے دیکھا کہ جسٹس منیر کا بیان اصل سے کتنا دُور ہے۔ یہ جسٹس منیر بھی عجیب آدمی تھے۔ یہ جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کے ممبر بنے تو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہ کر سکے اور مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں ہندستان کو دے کر مسئلہ کشمیر پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب بطور چیف جسٹس پاکستان آئین کی حفاظت کا معاملہ سامنے آیا تو ’نظریۂ ضرورت‘ کی نذر ہو گئے، اور جب پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی تو بڑی دیدہ دلیری سے اصل تحریر میں تحریف کا ارتکاب کرگزرے۔
وجاہت مسعود کے کالموں کا یہ سلسلہ اپنے اندر چند در چند داخلی تضادات بھی رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان کا حوالہ کبھی وہ اپنے موقف کی تائید میں درج کرتے ہیں اور کبھی انھی کے خلاف لکھتے ہیں۔ کبھی وہ حسین شہید سہروردی کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کرانے کا ملزم قرار دیتے ہیں اور کبھی وہ ان کو مسلم لیگ کے واحد لیڈر نظر آتے ہیں ،جو بنگال میں ہندو مسلم فسادات کے دوران انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی وہ قائد اعظم کو سیکولر لبرل لیڈر ثابت کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر انھیں بہادر یار جنگ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بڑے جوش سے میز پر مکہ مارتے دکھاتے ہیں ۔
ان کالموں میں ایک عبرت ناک موڑ اس وقت آتا ہے، جب وجاہت مسعود تقسیم ہند کے حوالے سے ہونے والے فسادات کی تفصیلا ت بیان کرتے ہوئے اپنا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ فسادات بنیادی طور پر مسلمانوں نے کیے تھے۔ حالانکہ اپنے مقدمے میں وہ دراصل ’قرار داد مقاصد‘ کو اپنا ہدف بنا رہے تھے۔ اب یہ سوال تو ان سے کیا ہی جا سکتا ہے کہ کیا فسادات کی یہ بات، قرارداد مقاصد کے اسباب میں درج کر رہے ہیں یا نتائج میں؟ اسی طرح وہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی طرف سے ’راست اقدام‘ (Direct Action) کو بنگال میں فسادات کا موجب بتاتے ہیں۔ وجاہت صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ راست اقدام کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا، لیاقت علی خان یا مولانا شبیر احمد عثمانی نے نہیں ۔ بہتر معلوم ہوتا ہے جسٹس منیر صاحب نے جو بیان نقل کیا ہے، اس کی مزید وضاحت خود سلینہ کریم کے افکار کے حوالے سے کر دی جائے:
First the above statement was given in answer to the a specific question. Don Campbell had asked of Jinnah: on what basis will the central administration of Pakistan be set up??
In other words he wanted to know the thoughts of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state, and how this would affect its relationship with neighboring? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose and this would have surely suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted. Secondly the questions were given to Jinnah in writing a day before the interview giving him time to prepare his answer (p31).
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیان ایک مخصوص سوال کے جواب میں دیا گیا تھا۔ ڈون کیمپ بل نے جناح سے پوچھا تھا: ’’پاکستان کا مرکزی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا؟‘‘
دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کی فکر جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست ہوگی، اور یہ کس طرح سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرے گی؟ یہ جناح کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دیتے، اگر وہ ایسا کرتے اور یہ یقینا مغربی سامعین کو مناسب لگتا جن کے مفاد کے لیے یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوالات جناح کو انٹرویو سے ایک روز قبل تحریری شکل میں دیئے گئے تھے تاکہ انھیں سوالات کے جواب کی تیاری کے لیے وقت مل سکے۔
اپنے بیان کی مزید وضاحت کے دوران میں سلینہ کریم نے حاشیے میں بتایا ہے کہ ’’قائداعظم نے ۱۳دسمبر ۱۹۴۶ءکو امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بیورلی نکولس کو انٹر ویو دیتے ہوئے بطور گورنر جنرل پاکستان، آسٹریلیا کے لوگوں سے ریڈیائی گفتگو کرتے ہوئے اور ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ءکو Manchester Guardian کو انٹر ویو دیتے ہوئے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان ایک Islamic Polity (اسلامی سیاسی نظام)قائم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان قائم کرنے والوں کے ذہن میں پاکستان کا نقشہ کیا تھا؟ اس کے بارے میں جاننے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم ۱۹۴۶ءکے انتخابات کا جائزہ لیں۔ ۱۹۴۶ءکے انتخابات اس حوالے سے اہمیت حیثیت رکھتے تھے کہ ہندستان کے مستقبل کا فیصلہ کن خطوط پر ہو گا؟ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کی مذہبی وابستگی کو اپیل کرتے ہوئے انھیں مائل کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں، تاکہ ان کے لیے الگ وطن کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے آئین ٹالیوٹ نے پنجاب کی سیاست پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے مذہبی نعروں کا استعمال اس قدر شدید تھا کہ یونینٹسٹ پارٹی نے بھی اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ مانگنے شروع کر دیے۔
اس حوالے سے دوسری مثال جو اس سے بھی اہم ہے، وہ صوبہ سرحد [خیبرپختون خوا]کی ہے۔ سرحد میں سرخ پوش، کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مسلم لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ انھی کے باعث سرحد میں جہاں ۹۲فی صد مسلمان تھے، ریفرنڈم کروانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب سرخ پوش صوبہ سرحد کے لوگوں کو اپنی بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، تو انھوں نے پختونوں کی آزاد ریاست کا ذکر شروع کر دیا۔
جس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کے مطابق وضع کرنے کاوعدہ کیا گیا تھا، اس حوالے سے ہمیں قائداعظم پیپرز میں موجود درج ذیل دستاویز سے حقیقی شہادت مل سکتی ہے، ۸-۲۱، قائد اعظم کے اخباری بیان کا نظر ثانی شدہ مسودہ:
مجھے افسوس ہے کہ عبد الغفار خان نے وعدے کے مطابق مجھے صوبہ سرحد کانگریس کے فیصلے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا ، مگر ان کی قرارداد کا متن اخباروں کو دے دیا گیا ہے، جو ۲۳ جون ۱۹۴۷ءکو شائع ہو چکا ہے، لہٰذا اخباری رپورٹ کے مطابق میں اس معاملے پر تبصرہ کرنے کا پابند ہوں۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے:
۱- تمام پختونوں کی ایک آزاد پٹھان ریاست قائم ہونی چاہیے۔
۲- اس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گا۔
۳-تمام پٹھانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور غیر پختون تسلط کو قبول نہ کریں۔
پٹھانوں کی الگ ریاست کی بیل اس لیے بھی منڈھے نہ چڑھی کہ انگریزوں نے ریفرنڈم میں پٹھانوں کی آزاد ریاست کی شق کا اضافہ کرنے سے انکار کر دیا اور ریفرنڈم میں لوگوں سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ ’’پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں؟‘‘۔ یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے معمولی اکثریت سے جیت لیا۔
اپنی ان معروضات کے آخر میں ہندستان سے شائع ہونے والی دو کتابوں کا تذکرہ لازمی سمجھتا ہوں۔ ان میں سے پہلی کتاب اجیت جاوید کیSecular and Nationalist Jinnah (وطن پرست اور سیکولر جناح) ہے۔ اس کتاب میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ: ’’قائداعظم ایک سیکولر، لبرل سیاست دان تھے، لیکن کانگریس کے رویے نے انھیں مسلم قومیت کی طرف دھکیل دیا۔ دراصل قائد اعظم کی سیاست میں فیصلہ کن موڑ ۱۹۳۷ء میں ہندستان کے مختلف صوبوں میں بننے والی وزارتیں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال کے ساتھ ربط و تعلق نے بھی محمد علی جناح کے خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔ جب ایک بار وہ مذہب کی بنیاد پر قومیت کے قائل ہو گئے تو اس کے بعد انھیں سیکولر، لبرل کہنا ان کے ساتھ نا انصافی ہے‘‘۔
اجیت جاوید نے جو کچھ قائد اعظم کے بارے میں کہا، اس کا بیش تر حصہ تو ہم نے اپنی تعلیم کے دوران’مطالعہ پاکستان‘ میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی درسی کتابیں اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ قائد اعظم کا سیاسی سفربطور سیکولر، لبر ل سیاست دان کے ہوا تھا (ہمارے سیکولر، لبرل دانش ور اس سے پریشان نہ ہوں، یہ سب ہماری درسی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتابیں آپ کے گھروں میں مشکل سے ملیں گی، کیوںکہ اب آپ کے بچے تو پاکستان میں شائع ہونے والی درسی کتابیں پڑھتے ہی نہیں )۔
اجیت جاوید سے بھی زیادہ جس مصنف کی کتاب نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا، وہ جسونت سنگھ [م: ۲۰۲۰ء]کیJinnah: India, Partition, Independence [۲۰۱۰ء] ہے۔ جسونت سنگھ کا نقطۂ نظر بھی کم و بیش اجیت جاوید سے ملتاجلتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے پہلے پانچ عشروں میں ہندستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق جناح نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل کر سیاسی جدوجہد کریں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کریں ،لیکن گاندھی، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بات وہاں تک پہنچا دی کہ محمد علی جناح کو کہنا پڑا: ’’عددی برتری کے زور پر ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے زیر نگیں لانے کی کانگریس کی سوچ غلط ہے۔ مسلمان ہر حوالے سے ایک الگ قوم کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک چوتھائی ہندستان پر اپنی آزادخود مختار ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔
جسونت سنگھ کے مجموعی موقف کو زیربحث لانا اس مضمون کا موضوع نہیں ہے، تاہم یہ بات تو کم از کم وہ بھی مانتے ہیں کہ رفتہ رفتہ محمد علی جناح متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوگئے تھے اور اسلام کو بنیا د بنا کر مسلم قومیت کے تصور سے جڑ گئے تھے۔ جناح، اتحاد سے تقسیم تک کتاب کا اردو عنوان ہے، جو اس جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ جسونت سنگھ نے ہندستان کی سیاسی کش مکش میں علامہ اقبال کے کردار کو بہت کم کرکے دکھانے کی کوشش کی ہےاور علامہ اقبال کا اتنا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل نہیں جتنا سرشفیع کا ہے۔
مضمون کے آخر میں ہم اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ ہمارے جو دوست پاکستان کو بطور سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنی بات کا پرچار شروع دن سے کرتے آئے ہیں۔ اُن کے اس حق کو کوئی بھی سلب نہیں کررہا، تاہم ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے خیالات کا پرچار کرتے وقت اپنی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ کرنے سے لازماً گریز کریں، کیوںکہ اس سے ان کے موقف میں مضبوطی نہیں آتی،بلکہ اس کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس کا آئین اسے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے۔
اس بات کا فیصلہ کرنا پاکستان کے لوگوں کی واضح اکثریت کا حق ہے کہ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام کیسا ہو گا؟ جس دن پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی عظیم اکثریت یہاں سیکولر طرزِحکومت کی قائل ہوجائے گی، تب کسی کو قائد اعظم یا کسی اور رہنما کے بیانات کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ تب تک ہمارے سیکولر، لبرل، روشن خیال دوستوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ بہرحال، یقین ہے کہ اس انتظار کا دامن، قیامت کے دامن سے بندھا ہواہے ! [مکمل]
پاکستان کا تشخص کیا ہو گا ؟ یہ سوال قیام پاکستان سے پہلے بھی اپنا وجود رکھتا تھا اور آج بھی پاکستانی قوم کے سامنے یہ سوال موجود ہے ۔ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے ذہن میں جواب بالکل واضح تھا کہ متحدہ ہندستان میں مسلمانوں کے تشخص، ان کی تہذیب کا محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔ اس لیے ہندستان کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی ضرورت کے اسباب ایک سے زیادہ تھے ۔ مختلف اوقات میں ان کی جانب کُل ہند مسلم لیگ کے رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح اشارے بھی کرتے رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس بحث میں مزید ابہام اور چند در چند اشکالات نے حقیقت پر ڈالی جانے والی دھند صاف کرنے کی ضرورت دوچند کر دی ہے۔ ضروری ہے کہ مستند تاریخی دستاویزات سے شہادت لی جائے۔
فرد ہو یا قوم، تشخص کا سوال اس کے وجود کی بقاء کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ شخصی یا قومی تشخص کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم قومی تشخص کی بات کریں تو کسی قوم کے تشخص کو بیان کرنے کے لیے اس کے جغرافیہ، زبان، تاریخ، ثقافت، مذہب وغیرہ عناصر کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے ، اگرچہ تشخص کے درخت کی شاخیں بہت سی ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا تنا ایک ہی ہوتا ہے، پھر تنے سے نیچے پھیلی ہوئی جڑیں زمین کے ان حصوں تک جاتی ہیں، جہاں سے درخت اپنی نشوو نما کے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔
برعظیم پاک و ہند میں برطانوی سامراج کے تسلط کے بعد ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی، جس کا سامنا ایک خطے کے لوگوں کو اس سے پیش تر کبھی نہیں ہوا تھا۔ بالخصوص ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعدبحکم سرکار اسے ’غدر‘ کا متبادل نام دیا گیا تھا۔ اس جنگ میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے حصہ لیا تھا، لیکن ناکامی کا زیادہ تر بوجھ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا تھا ۔ یہ صورت حال بدلے ہوئے تناظر میں ایسی حکمت عملی کا تقاضا کرتی تھی، جس میں جدید مغربی تصورات کے تحت ملک کی تعمیر و تشکیل میں اس خطے میں آباد مختلف مذہبی، لسانی اور ثقافتی گروہوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ تاہم، جدید مغربی اثرات کےتحت ہندستان میں اُٹھنے والی تحریکوں میں مشترکہ ہندستانی قوم سے زیادہ مذہبی بنیاد پر اپنے اپنے ہم مذہب لوگوں کو متحد اور منظم کرنے کی طرف رجحان نمایاں تھا۔ مگر یہاں اس مضمون میں مذہبی حلقوں کی تحریکیوں کو حوالہ نہیں بنایا جا رہا، بلکہ ان لوگوں کی تحریکوں کو سامنے رکھ کر بات کی جارہی ہے، جو نہ صرف جدید مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر تھے، بلکہ انھی خطوط پرہندستانی معاشرے کے لوگوں کو ڈھالنا چاہتے تھے۔
ہندستان میں انگریز حکومت (ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ) کے زیر اثر جو پہلی طاقت ور تحریک پیدا ہوئی ،وہ راجہ رام موہن [م: ۱۸۳۳ء]کی تحریک (’برہموسماج‘: تاسیس ۱۸۳۰ء) تھی۔ یہ تحریک واضح طور پر ہندو دھرم کی تحریک تھی۔ یہ ہندستان میں بسنے والے ہندوؤں کے مفادات کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی تھی۔ اس کے مقاصد میں ہندوؤں کو انگریزوں کے قریب لانا، انھیں انگریزی تعلیم کی طرف مائل کرنا اور معاشی دوڑ میں آگے بڑھاناشامل تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جدید مغربی فکر اپنے سیکولر مزاج کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کی تقسیم کی قائل نہیں تھی۔ یہ مذہب اور سیاست کی علیحدگی پر اصرار کرتی تھی۔ لیکن اس فکرکے زیر اثر پروان چڑھنے والی پہلی تحریک ہی ہندستان کے لوگوں کو تقسیم کر رہی تھی۔
راجہ رام موہن کے بعد سر سید احمد خاں [م: ۱۸۹۸ء] نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی علی گڑھ تحریک ۱۸۶۸ءمیں شروع کی۔ تب تک حالات بہت تبدیل ہو چکے تھے۔ کمپنی کی حکومت کی جگہ براہِ راست تاج برطانیہ لے چکا تھا۔ ہندستان میں انگریز ی راج مستحکم ہو چکاتھا۔ ہندو بہ طور طبقہ انگریزوں کے زیرسایہ ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔ ایسے میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم اور تہذیب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، تو ان کے مخاطب ہندستان کے سارے لوگ نہیں تھے۔وہ صرف ایک مذہب کے لوگ تھے۔ پھر جب ہندستان میں اردو ہندی تنازعے نے سر اٹھایا تو اس کی بھی یگانگت کے بجائے مذہبی تقسیم بنیاد تھی۔ ان حالات میں جب ۲۵دسمبر ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی بنیاد رکھنے والے ڈیوڈہوم تھے۔ ان کا مقصد حکومت اور لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا۔ اس میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ جب کانگریس کے سیاسی مقاصد نمایا ں ہونے لگے اوریہ دکھائی دینے لگا کہ انگریز ہندستان میں مغربی طرز ِجمہوریت کو جزوی طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو جن لوگوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کا کہا، ان میں سر فہرست سرسید احمد خاں تھے۔
بیسویں صدی کا آغاز بر عظیم کی سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کا دور ثابت ہوا۔ ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو کُل ہند مسلم لیگ کی بنیاد خواجہ سلیم اللہ خاں [م: ۱۹۱۵ء] نے رکھی تھی اور اسی سال مسلمانوں کا جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ مطالبہ کرنے والے بھی مغربی تعلیم سے آراستہ لوگ تھے اور ان کی قیادت سر آغا خان سوم [م:۱۹۵۷ء] کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں کو اس سمت لانے میں بنیادی کردار، تقسیم بنگال کے حوالے سے سامنے آنے والا ہندوؤں کا رد عمل تھا جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی۔ اگر کانگریس واقعی ہندستان کے تمام طبقوں کی نمایندہ تھی، تو اسے صوبے کی تقسیم پر معترض نہیں ہونا چاہیے تھا ۔اس حقیقت سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ اس وقت بھی کانگریس پر ہندوؤں کا غلبہ تھا اور کانگریس کی مالی معاونت کرنےوالے زیادہ تر ہندو ہی تھے۔
عددی برتری کے مقابلے میں اپنے تشخص کو کھو دینے کا جو احساس جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو تھا،اس میں ہندستان میں ہونے والے واقعات اور بالخصوص کانگریس کے رد عمل نے اضافہ کردیا تھا۔ تقسیم بنگال اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ کانگریس کے رد عمل اور ہندوؤں کی طرف واضح جھکاؤ کا دوسرا اظہار، ۱۹۰۱ء میں پنجاب کی تقسیم اور صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا] کی تخلیق کے وقت دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کی تقسیم سے ہندوؤں کے مفادات متاثر نہیں ہورہے تھے،بلکہ صوبہ سرحد کے قیام سے پنجاب میں ان کی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے کانگریس نے تقسیم بنگال کے برعکس اس تقسیم پر خاموشی اختیار کی۔ دو صوبوں کی تقسیم کے ایک جیسے عمل پر انڈین کانگریس کے متضاد رد عمل نے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ وہ کس حد تک ہندستان میں بسنےوالے تمام طبقوں کی نمایندگی کرتی ہے۔
قیامِ پاکستان تک بر عظیم کی سیاست میں اصل سوال یہ تھا کہ ’’ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟‘‘ بر عظیم کے تناظر میں یہ کوئی آسان سوال نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی واحد جواب ممکن تھا۔ اس خطے میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ اس میں بےشمار زبانیں بولی جاتیں تھیں ۔ مختلف نسلی گروہ موجود تھے۔ ذات پات کا نظام مذہب اور ثقافت کی سرحدیںبھی عبور کر جاتا تھا۔ ان سب کی موجودگی میں ہندستان میں مغربی طرز کی جمہوریت صرف اسی وقت کارگر ہو سکتی تھی، جب وہ اس خطے میں بسنے والے تمام طبقوں کے مفادات کی نگہداشت کر سکے۔ ایسا بہ ظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس لیے ہندو اور مسلمان دونوں کی جانب سے یہ آواز سنائی دیتی رہتی تھی کہ ہندستان میں دو بڑے گروہوں کے درمیان کوئی لکیر کھینچ دی جائے۔ ہندوؤں کی طرف سے لالہ لاجپت رائے [م: ۱۹۲۸ء] اور پنڈت مدن موہن اور مسلمانوں کی طرف سے حسرت موہانی [م: ۱۹۵۱ء] اور علامہ محمد اقبال کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جدوجہد میں ہندو مسلم کبھی کبھی بہت قریب آ جاتے تھے، جیسے ’لکھنو ٔپیکٹ‘ اور’ تحریک خلافت‘ کے دوران ہوا۔ مگر پھر یہ دونوں کبھی کبھی بہت دور چلے جاتے تھے ،جیسے ۱۹۳۷ء کی بر صغیر کے آٹھ صوبوں میں بننے والی وزارتوں کے دوران کانگریسی حکومتوں اور قیادت کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف اقدامات اور رجحانات میں دکھائی دیتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کا کام وہ رہنما کرتے تھے ،جو اس بات کے قائل تھے کہ اگر ہندستان کو واقعی انگریز کے تسلط سے نجات حاصل کرنا ہے ،تو پھر ہندو اور مسلمان دونوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے سب سے اہم نام قائد اعظم محمد علی جناح [م:۱۹۴۸ء] کا ہے اور ان کے بارے میں گوپال کرشن گوکھلے جیسے قوم پرست رہنما نے کہا تھا :’’جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہیں ۔‘‘
ایک دلچسپ نکتہ ہندستان کی سیاسی جدوجہد میں مرکزی مسئلے کے طور پر موجود تھا اور وہ تھا’جداگانہ انتخابات‘۔ جدا گانہ انتخاب کا حق، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہونے والے تمام مذاکرات کا محور رہا ۔ یہی وہ نکتہ ہے، جس پر دونوں فریق مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کر سکے اور بالآخر ہندستان کی تقسیم عمل میں آ گئی۔
یہ احوال مختصراً انداز میں اس لیے رقم کیے گئے ہیں کہ قیام پاکستان کی بنیاد میں جنم لینے والے معاملات کو واضح کیا جاسکے۔ قیام پاکستان سے تاحال پاکستان کے تشخص کی بحث میں بھی یہ پس منظر جاننا ضروری ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ مسلسل اس بات کو اچھالتا رہاہے کہ ’’پاکستان کے قیام کا مقصد ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا۔ پاکستان کو مذہبی تشخص دینے کی بات قیامِ پاکستان کے بعد اور محمد علی جناح کے انتقال کے بعد کی جانے لگی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقف میں کتنی صداقت ہے، اسی موضوع پر آیندہ صفحات میں بات کی جائے گی۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک میں آئین سازی کا مرحلہ آیا تو لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، چودھری محمد علی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر احباب نے آئین کی رہنمائی کے لیے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پاس کروائی۔ اس وقت اسمبلی میں اس قرارداد کی مخالفت میں بھی آوازیں آئیں ۔ ظاہرہے جمہوری عمل میں اختلاف رائے ہونا کوئی اَنہونی بات نہیں ہے، لیکن یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے اسے بڑی بھاری اکثریت سے منظور کیا۔ ہمارے وہ دوست، جو ’قرار داد مقاصد‘ کی مخالفت کرتے ہیں، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ قرار داد کسی ایک فرد کے ذہن کی اختراع نہیں تھی، بلکہ اس قراردادکی منظوری تو پاکستان کی بانی اور پہلی دستور ساز اسمبلی نے دی۔ پھر ۳۱جیدعلما نے، جن کا تعلق پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تھا، قرارداد کی منظوری کے بعد ریاست کے سیاسی و اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے متفقہ طور پر بائیس نکات پر مشتمل رہنما اصول وضع کیے تھے کہ پاکستان میں قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ چوں کہ اس پر جمہوری انداز میں لوگوں سے اتفاق رائے حاصل کیا گیا تھا،اس لیے پاکستان کے پہلے آئین ۱۹۵۶ء، پھر دوسرے آئین ۱۹۶۲ء سے لے کر ۱۹۷۳ء کے آئین تک میں ’قراردادِمقاصد‘ ابتدائیہ کے طور پر موجود ہے۔
نائن الیون کے بعد جہاں امریکا نے فوجی اعتبار سے پاکستان کو اپنے حصار میں لیا ،وہاں اس نے پاکستان کے سیکولر تشخص کے حوالے سے بھی بحث کو نئے سرے شروع کروایا۔ اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر پتھر ۲۰۰۴ء میں امریکی حکومت کی پالیسی پلاننگ سٹاف کے ایک سابق رکن سٹیفن فلپ کو ہن [۱۹۳۸ء-۲۰۱۹ء]کی طرف سے ان کی کتاب The Idea of Pakistan [ناشر: بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس، واشنگٹن ڈی سی]کی شکل میں آیا۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب فتنہ انکار پاکستان میں سٹیفن پی کوہن کے نقطۂ نظر کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔
سٹیفن فلپ کوہن، امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ادارے بروکنگز میں پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینئرفیلو کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یہاں انھوں نے ایک دوسری کتاب The Future of Pakistan بھی تحریر کی ہے، جو اسی سوچ کی غماز ہے۔ کوہن، تحریک پاکستان کی کامیابی کو ’المیاتی کامیابی‘ (Tragic Vcitory) خیال کرتے اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو ڈرانے کی پرانی امریکی روش پر چلتے ہوئے کہتے ہیں:
Failure of vision, Pakistan's founders expected the idea of Pakistan to shape the state of Pakistan, instead, a military bureaucracy governs the state and imposes its own vision of a Pakistani nation. (p:3)
وژن کی ناکامی، پاکستان کے بانی تصورِ پاکستان سے ریاست ِ پاکستان کی تشکیل کی توقع رکھتے تھے، بجائے اس کے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستانی قوم کا اپنا تصور مسلط کرتی اور ریاست پر حکومت کرتی۔(ص ۳)
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کی تشکیل ویسی نہ ہوسکی، جیسی تصور پاکستان میں سوچی گئی تھی، تو بلاشبہہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اسی بنیاد پراگر ریاستوں کی کامیابی اور ناکامی کی جانچ کی جائے گی، تو خود ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں نے جس تصور پر امریکا کی تشکیل کی تھی، گذشتہ ۱۵۰ سال میں امریکا نے سامراج کی شکل اختیار کرکے اس تصور کی خوب مٹی پلید کی ہے۔ پھر اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی، بھارت کی عدم تشدد کی بنیاد پر تشکیل کرنا چاہتے تھے ۔ بھارت وجود میں آنے سے لے کر اب تک دوسری اقوام کے خلاف اور خود بھارت کے اندر بسنے والے باشندوں کے لیے بار بار تشدد کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ کیا بھارت کو ایک ناکام ریاست نہ سمجھ لیا جائے؟ پروفیسر فتح محمد ملک نے بجاطور پر لکھا ہے کہ: ’’پاکستان کو نئے نئے استدلال کے ساتھ جو بار بار ناکام ریاست کہا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہم اپنے خواب کی تکمیل سے کتنے بھی دور ہوں، ہماری ناکامیاں کیسی بھی ہولناک ہوں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں‘‘ ۔بہ قول فتح محمد صاحب: ’’پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں بن پایا ہے، مگر امکانی طور پر ایک مسلم ریاست ضرور ہے اور یہی وہ امکانی صورت ہے، جو امریکی استعمار کو ہضم نہیں ہوتی۔
کوہن نے لکھا ہے: ’’پاکستان اپنی قومی شناخت کو اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی راہ اپنائے‘‘۔ اس پر ملک صاحب کہتے ہیں: ’’اب جہاں تک ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا مشورہ ہے ،یہ بڑا صائب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک صرف بھارت اور افغانستان تو نہیں، چین اور ایران بھی ہیں۔ دوسری جانب چیلنج یہ درپیش ہے کہ امریکی سامراج ہمارے لیے یہ طے کرنے کا بے جا ’حق‘ جتاتا ہے، کہ وہی ہمارے لیے یہ طے کرے گا کہ کون ہمارا ہمسایہ ہے اور کون نہیں، کس سے ہمیں تعلقات رکھنا ہیں اور کس سے نہیں؟ اسی طرح امریکا ہماری داخلی شناخت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق متعین کرنا چاہتا ہے‘‘۔
اس حوالے سے سٹیفن کوہن لکھتے ہیں:
Pakistan was clearly "Indian" in that the strongest supporters of the idea of Pakistan identified themselves as culturally Indian, although in opposition to Hindu Indians. This Indian dimension of Pakistan's identity has been systematically overlooked by contemporary Pakistani politicians and scholars. (p37).
پاکستان واضح طور پر ان معنوں میں ’بھارتی‘ تھا کہ تصورِ پاکستان کے مضبوط ترین حامی ہندو بھارتیوں کی مخالفت میں ثقافتی طور پر اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے تھے۔ پاکستان کی بھارتی شناخت کا یہ پہلو ایک منظم انداز میں ہم عصر پاکستانی سیاست دانوں اور اسکالروں نے نظرانداز کردیا۔
آپ نے دیکھا کہ امریکی دانش ور کس خوب صورتی سے پاکستان کی شناخت کو دھندلانے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ ایک نئی شناخت کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ اس کام سے فارغ ہونے کےبعد وہ پاکستان کے تشخص پر مزید بات کرتے ہیں اور ’قرارداد مقاصد‘ کو نشانہ بنا کر پاکستان کے اسلامی تشخص کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سٹیفن پی کوہن کے خیال میں:
’’قائد اعظم کا تصور پاکستان ایک سیکولر تصور تھا‘‘ (ص۴۵)، ’’پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی‘‘(ص۴۲)۔اور قرارداد مقاصد میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولر اسلام کا ذکر تک نہیں :
The resolution defines both the state and the idea of Pakistan. The new country was to be a federal, democratic and Islamic entity, but there was no mention whatsoever of a secular Muslim life, a secularized Islam, or even the term "Secular" (p57).
قرارداد ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کو واضح کرتی ہے۔ نئی مملکت کی ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی شناخت ہونا تھی، لیکن اس میں ایک سیکولر مسلمان کے طرزِ زندگی، سیکولر اسلام، حتیٰ کہ اصطلاح ’سیکولر‘ کی نشان دہی نہیں کی گئی۔
اطلاعاً عرض ہے کہ ’قرارداد مقاصد‘ جس [دستور ساز]قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اس کے ارکان تحریک پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھے۔ قرار داد منظور کرنے والوں کو بخوبی علم تھا کہ پاکستان کانظریہ کیا ہے ؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے ؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہی انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ قرار داد مقاصد میں ’سیکولر‘ کی اصطلاح کی عدم موجودگی ایک قدرتی امر ہے۔
اس بحث کی مناسبت سے ہم معروف تاریخ نگار حسن جعفر زیدی کے مضمون ’پاکستان نظریاتی یا جدلیاتی‘کا تجزیہ کرتے ہیں۔ متعدد جلدوں پر مشتمل اس کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک سنجیدہ کاوش سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں بڑے پتے کی بات کہتے ہیں:
مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے، اس میں ذاتی پسند یا نا پسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ عقائد خواہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے، عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہو سکتی ہے نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
حسن جعفر زیدی کی بات سے ،اگر اتفاق بھی کر لیا جائے تو یہ سوال بہرحال باقی رہتا ہے کہ کیا تاریخ کو متعین کرنے والے اسباب کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ یہ درست ہے کہ تاریخ عقیدہ نہیں، لیکن کیا بعض تاریخی واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ اپنی جھلک نہیں دکھاتا؟ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں جب ہندستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دہلی پر حملے کی دعوت دی تھی تو کیا وہاں مذہب ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر موجود نہیں تھا؟ مرہٹوں نے مغلیہ دربار میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد مغل شہنشاہ سے احکامات صادر کروائے۔ کیا ان کی بنیاد ہندومت اور ہندوؤں کے مفادات نہیں تھے؟
جب ہم تاریخی واقعات کے پس منظر میں کارفرما عوامل کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے تو اور کئی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہب اور عقیدہ بھی اہم سبب کے طور پر موجودہوگا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہر واقعے کے پیچھے صرف مذہب اور عقیدہ ہی اہم محرک ہوتے ہیں، لیکن بہت سے واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ ایک اہم محرک کے طور پر ملتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے تاریخی واقعات کے پس منظر میں صرف ایک محرک کار فرما نہیں ہوتا، بلکہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سا محرک سب سے قوی اور فیصلہ کن ہے؟
پھر حسن جعفر زیدی نے ہندستان میں جاری سیاسی کش مکش کے حوالے سے ایک دل چسپ پیراگراف تحریر کیا ہے، جس سے ان کے اپنے ہی موقف کی تردید ہو جاتی ہے:
بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو بر صغیر میں تینوں قوتوں کے درمیان کش مکش جاری تھی۔ اسٹرکچر میں دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ’’کوئی ہندو، سکھ، عیسائی نہیں ہے۔ یہ سب ہندستانی ہیں‘‘۔ وہ ان کی قومی شناخت کا انکار کرکے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گذشتہ ایک ہزار سال کا بدلہ بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورت حال میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے تھے (نقاط ۸،ص ۱۰۱-۱۰۲)۔
اس سلسلے میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :
اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی اصلاحات کا ایک پیکیج لاتے تھے، لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو مسلم تضاد شدیدہو جاتا تھا۔ وجہ یہ ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بلا شرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی، خود کو پورے ہندستان کا واحد نمایندہ ثابت کرتی، جب کہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس پر سے اٹھتا چلا گیا اور ہندو مسلم جدلیات کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ (نقاط ۸،ص۱۰۲)
مندرجہ بالا اقتباسات کا بہ غور مطالعہ کریں، تو واضح ہوتا ہے کہ حسن جعفر زیدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد تھیں اور انگریزوں کے زیرِتسلط زندگی گزارتے ہوئے یہ دونوں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم رہتی تھیں ۔ اس کش مکش کو وہ ’ہندو مسلم جدلیات‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدلیات کی بنیاد کیا معاشی مفادات تھے، لسانی محرکات تھے یا گروہی مفادات؟ اس بات کو تو حسن جعفر زیدی بھی قبول کرتے ہیں کہ ان کے درمیان جدلیات کی بنیاد مذہب تھا۔ جب ہندستان میں بسنے والے لوگوں کی تقسیم’ ہندو‘ اور ’مسلم‘ کے خانوں میں کرتے ہیں تو ہم اس تقسیم کے لیے مذہب ہی کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب آپ خود ’ہندو مسلم جدلیات‘ کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، تو اس جدلیات کے پس منظر میں موجود مذہب کے اس عنصر کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ جدلیات وجود پذیر ہو رہی ہیں ۔
یہاں ہم قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے موقف کی طرف آتے ہیں۔ علامہ اقبال، راجہ صاحب محمود آباد، حسرت موہانی اور خود قائد اعظم محمد علی جناح نے با ربار اس موقف کا اعادہ کیا کہ ہندستان میں ایک قوم آباد نہیں، جیسا کہ کانگریس کا دعویٰ تھا، بلکہ اس میں بہت سی قومیں آباد ہیں اور انھی میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ جب تک ان دو قوموں کے درمیان حقوق و مفادات کے حصول کا طریقۂ کار طے نہیں ہوتا، ہندستان کے مسائل کا سیاسی حل ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ ابتداء میں مسلم لیگ اور مسلمان رہنماؤں کا موقف مسلم مفادات کا تحفظ تھا اور اس کے لیے وہ کسی بھی آئینی صورت حال کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے، جو انھیں اپنے تشخص کے تحفظ کی ضمانت دے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی چالیس سال اسی نوعیت کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔
اس ساری جدوجہد کے پیچھے دو قومی نظریہ کار فرما تھا کہ مسلمان، ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں اور اپنے اس تشخص سے مسلمان ایک دن کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے ،سوائے نیشنلسٹ مسلمانوں کے۔ اسی اصول یا موقف کو بعد میں نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ موقف یہ تھا، چوںکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، اس لیے انھیں ایک الگ وطن کی ضروت ہے۔ اس حقیقت کا باضابطہ طور پر اعلان ۱۹۴۰ء کی قرار داد لاہور میںکیا گیا، جسے اس وقت کے پریس اور خصوصاً ہندو پریس نے ’قراردادِ پاکستان‘ کا نام دیا تھا، کیوںکہ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتداء میں چودھری رحمت علی’پاکستان‘ نام کی مجوزہ ریاست کا خاکہ پیش کر چکے تھے۔
پھر اسی مضمون میں حسن جعفر زیدی نے بحث کی ہے کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے تصور کا خالق قرار دینا غلط ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعض نکات کی طرف اشارے کیے ہیں ۔ پھر پروفیسر ای جے ٹامسن کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۴ ءمیں علامہ اقبال کی کتاب ’رموز خودی‘ کے انگریزی ترجمے پر پروفیسر ای جے ٹامسن نے تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الٰہ آباد کو چودھری رحمت علی کی پاکستان تجویزسے منسلک کر دیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر ٹامسن کے خطوط کے مجموعے میں شامل ہے، جسے علی گڑھ یونی ورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا:’’آپ نے ایک غلطی کی ہے۔ جس کی میں فوری نشان دہی ضروری سمجھتا ہوں ۔ کیوںکہ یہ ایک فاش غلطی ہے، آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس اسکیم کا حامی ہوں، جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔جب کہ پاکستان میری اسکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی، وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی، جو شمال مغربی ہندستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری اسکیم میں یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان اسکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ اس اسکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے‘‘(نقاط۸، ص ۱۰۶)۔
مندرجہ بالا اقتباس میں دو تین بڑی فاش غلطیاں ہیں۔ حسن جعفر زیدی نے کہا ہے کہ پروفیسرٹامسن نے علامہ اقبال کی کتاب رموز خودی پر تبصرے کا ذکر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس نام کی کوئی کتاب علامہ اقبال نے تخلیق نہیں کی۔ گمان گزرتا ہے کہ حسن احمد کی مرتب کردہ کتاب His Political Ideas at Cross Road جو دراصل پروفیسر ٹامسن کے نام کتاب کے خطوط پر تبصرہ کی شکل میں ہے۔ زیدی صاحب کی نظر سے ہی نہیں گزری اور انھوں نے کسی ثانوی ماخذ پر بھروسا کیا ہے، اور یہی کمزوری محسوس کرکے حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔ اگر وہ اصل کتاب دیکھ لیتے تو انھیں علم ہوجاتا کہ علامہ اقبال نے پروفیسر ٹامسن کو اپنے ۵فروری۱۹۳۴ءکے خط میں گزارش کی تھی کہ وہ علامہ اقبال کی کتابReconstruction of Religious Thought in Islam Six Lectures پر Observerکے لیے تبصرہ لکھ دیں ۔ اس سلسلے میں ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو پروفیسر ٹامسن کا تبصرہ وصول ہونے کے بعد، اپنے خط میں علّامہ محمد اقبال نے پروفیسر ٹامسن کی اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے، جو پروفیسر موصوف سے سرزد ہو گئی تھی۔ اقبال کے پورے خط کا متن کچھ یوں ہے :
I have just received your review of my book. It is excellent and I am grateful to you for the very kind things you have said of me. But you have made one mistake, which I hasten to point out as I consider it rather serious. You call me (a) protagonist of the scheme called "Pakistan". Now Pakistan is not my scheme. The one that I suggested in my address is the creation of a Muslim Province i.e.,a province having an overwhelming population of Muslims in the North West of India. This new province will be, according to my scheme, a part of the proposed Indian Federation. Pakistan scheme proposes a separate federation of Muslim Provinces directly related to England as a seprate domination. This scheme originated in Cambridge. The authors of this scheme believe that we Muslim Round Tablers have sacrificed the Muslim nation on the altar of Hindu or the so called Indian Nationalism.
ابھی ابھی آپ کے ذریعے میری کتاب پر کیا گیا تبصرہ موصول ہوا۔ یہ نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے اور آپ نے میرے بارے میں جو اچھی باتیں کہی ہیں اس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ لیکن آپ سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی جانب میں توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جسے میں سنجیدہ غلطی سمجھتا ہوں۔ آپ نے مجھے ایک منصوبہ کا رہنما کہا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں لیکن پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبہ میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ ہندستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم صوبہ بنائے جانے کا منصوبہ تھا جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ میرے منصوبہ کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ ہندستانی وفاق کا ہی ایک حصہ ہوگا، جب کہ منصوبۂ پاکستان مسلم صوبوں کا ایک علیحدہ وفاق بنائے جانے کی تجویز ہے جو انگلینڈ سے براہِ راست ایک ڈومینین کی شکل میں مربوط ہوگا۔ اس منصوبہ کی پیدایش کیمبرج میں ہوئی تھی۔ اس منصوبہ کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے ہم مسلمان نمایندوں نے مسلم قوم کو ہندوئوں یا نام نہاد ہندستانی قومیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے (علامہ اقبال - چند جہتیں، ڈاکٹر مختار احمد مکّی، ص ۱۵۸)۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ذرا باریک بینی سے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کی طرف رجوع کریں ۔ اس خطبے میں علامہ اقبال نے اسلام کے تصور قومیت پر روشنی ڈالی ہے اور بھارتی قوم پرستی کے اس تصور کو جس کی وکالت کانگریس کر رہی تھی، سختی سے رد کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال اس تاریخی بیان کی طرف آتے ہیں، جس میں اسلام کے تصور قومیت کی بنیاد پر ہندستان کے شمال مغرب میں ایک علیٰحدہ وطن کا مطالبہ کیاگیاہے:
I would like to see the Punjab, North West Frontier Province, Sindh and Baluchistan amalgamated into a single state. Self government within the British empire or without British empire, the formation of a consolidated north-west-Indian Muslim state appears to me to be the final destiny of the Muslim, at least of north- west-India.
میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کردیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ خودمختارحکومت، خواہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط مغربی ہندو مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھیرے گی۔
مندرجہ بالا اقتباس حسن جعفر زیدی نے نقل کرتے ہوئے دو اعتراضات وارد کیے ہیں: پہلا یہ کہ نہ تو اس خطبے کا مکمل متن پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھا یا جاتا ہے‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ: ’’اردو کی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ’خود مختار‘ اور انگریز درسی کتابوں میں autonomous کے لفظ کا اضافہ کیا جاتا ہے، جو اصل خطبے میں نہیں ہے‘‘(نقاط۸،ص۱۰۴)۔
درسی کتابوں کا معاملہ مرتبین پر چھوڑتے ہیں۔ جو اقتباس ہم نے اُوپر انگریزی میں دیا ہے اس میں لفظautonomousنہیں ہے۔ یوں اگر کسی جگہ یہ درج کیا گیا ہے، تو یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔ مندرجہ بالا انگریزی بیان اور اس کے اردو ترجمے سے اس بات کا اندازہ تو ہوتا ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست (صوبہ) کی بات واضح الفاظ میں کی ہے اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے کے دوران کی ہے تو اس سے اس بیان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے حوالے سے علامہ اقبال نے نہ صرف خطبہ الہ آبادمیں ایک تصور کی تشکیل کی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے قائد اعظم کو ہندستان واپس آ کر کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت کرنے پر بھی مائل کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اسلام کے تصور قومیت کے حوالے سے قائداعظم کی فکری راہنمائی بھی کی۔ دوسری گول میز کانفرنس کی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کرمحمد علی جناح کو اقبال نے خطوط لکھےاور ۱۹۳۷ءمیں ہندستان کے مختلف صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریس وزارتوں کے طریق کار نے محمد علی جناح کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہندستان میں مسلمان ایک اقلیت نہیں ہیں،بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اس طرح بات مارچ ۱۹۴۰ءکی قرارداد لاہور تک آگئی۔ (جاری)
تہذیب اور ثقافت کی روایتی تعریف پر غور کیا جائے تو چاہے ثقافت سے مراد کسی اجتماعیت میں پائی جانے والی اقدارِ حیات ہوں یا ان کا تصور مذہب، قانون، معیشت، سیاست، فنون اور ادب یا وہ قابلِ محسوس ورثہ جو فنِ تعمیر میں، شعروادب میں، رسوم و رواج اور مذہبی عبادات، تہواروں اور نامور ان کی عزت واحترام کی شکل میں پایا جاتا ہو، ہم جس زاویے سے بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف اپنے ذہن میں کریں، ایک مشترک قدر بہرصورت نظر آتی ہے اور وہ ہے ’تہذیبی یا ثقافتی تشخص‘ identity یا پہچان۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص نے ماتھے پر زعفرانی رنگ کی لکیریں بنائی ہوں اور عین ماتھے کے وسط میں ایک بندیا لگاکر اور گلے میں گیارہ رنگین دھاگے لٹکاکر وہ اپنے بارے میں امام مسجد یا کسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے۔ ایسے ہی اگر ایک شخص حالت ِ سفر میں ہو اور کسی ریستوران میں جاکر کھانا طلب کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرانس یا جرمنی یا امریکا کے اُس ریستوران میں ’حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی اور بھوک پر قابو کرتے ہوئے دودھ یا سوکھی روٹی پر گزارا کرلے تواس کا یہ عمل اس کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا پتا دے گا۔ اپنی اس ثقافتی اور تہذیبی شناخت کا اہتمام اور اس پر فخر بعض اوقات ایک مضحکہ خیز طرزِعمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن اپنی تمام مضحکہ خیزی کے باوجود اپنے اندر ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس تشخص کا جزوی اہتمام انسان کے اندر حق و باطل کی کش مکش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ ایک غلطی کو غلطی ہی سمجھتا ہے۔
اُردو ادب کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے کہ گیسوے اُردو کو سنوارنے والوں میں مرزا اسد اللہ غالب وہی مقام رکھتے ہیں جو معنوی ادب کی تعمیر میں اقبال کا ہے لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے دوران جب ثقافتی اور تہذیبی تشخص کے حوالے سے مرزا کو ایک انگریز کرنل کے سامنے مسلمان ہونے کے جرم میں پیش کیا گیا اوراس نے پوچھا کہ ’ویل کیا ٹم مسلمان ہے؟‘ تو مرزا کا جواب انتہائی معنی خیز تھا۔ انھوں نے کہا: جناب میں ۵۰ فی صد مسلمان ہوں۔ انگریز نے تعجب سے دوبارہ استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ شراب ضرور پیتا ہوں لیکن خنزیر کبھی نہیں کھاتا۔ یہاں پر مرزا نے اپنی شناخت اعترافِ گناہ کے ساتھ جس بلیغ انداز میں کی وہ ان کی اپنی ذات کے بارے میں تصور کو واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ بنیادی طور پر تو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ثواب طاعت و زُہد سے آگاہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن طبیعت سے مجبور ہوکر بعض اوقات بھٹک بھی جاتے ہیں۔ ایسے ہی مرزا کی چار گوشے والی ٹوپی، ان کا خرقہ، ان کی شکل صورت، ان کے ہرہرشعر میں جنت اور جہنم کا حوالہ، ان کی شخصیت کے سیاق و سباق ان کے تشخص کو کھول کر بیان کردیتا ہے۔
اس تاریخی جملۂ معترضہ سے ہماری مراد صرف یہ ہے کہ تہذیبی تشخص کا تعلق اُس تصورِحیات اور بعد الممات سے ہوتا ہے جو ایک فرد اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ جب پوچھا جائے کہ تم کون ہو؟ تو اس کا جواب یہ نہیں ہوتا کہ میں کس علاقے، کس زبان، یا کس ذات پات اور نسل سے تعلق رکھتا ہوں بلکہ اس کا جواب تہذیبی اور ثقافتی تشخص، اقدارِ حیات پر مبنی خودبینی اور اجتماعی وابستگی کوظاہر کرتا ہے۔
شکست خوردہ اور محکوم ذہنیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیرمحسوس طور پر جس فضا اور ماحول میں پلتی بڑھتی اور ترقی کرتی ہے، اس فضا کی اتنی عادی ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے اپنی محکومیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں ہرشخص کو پسینہ آتا ہے لیکن عموماً ایسے افراد جن کے پسینے میں تیزابیت اور بو ہوتی ہے انھیں خود اپنی اس کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، جب کہ ان کے دائیں اور بائیں نماز کی صف میں کھڑے ہونے والے نمازی اس بُو سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے دین نے ہمیں نظافت اور طہارت کا حکم دیا ہے اور سیرتِ پاکؐ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ نمازی نماز کو جانے سے قبل لہسن نہ کھائے اور ایک محنت کش اپنے بازوئوں سے پسینہ صاف کر کے صف میں شامل ہو۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا ہر صاحب ِ ایمان میں یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ وہ خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے عقیدے اور نظریۂ حیات کا جائزہ لے یہاں تک کہ انتہائی معمولی باتوں میں بھی اپنا جائزہ لیتا رہے۔
اس کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ ذہنیت کو اپنے سامراجی نظام کی فکر، زاویۂ تحقیق اور تعلیم سے گہری وابستگی کی بناپر وہ اچھائی جو سامراجی تعلیم و ثقافت کی پہچان ہے، غیرمحسوس طور پر درست، اور ہر وہ بُرائی جو سامراجی تہذیبی و ثقافتی روایت میں بُری سمجھی جاتی ہے، اپنے خیال میں بُرائی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے بڑی واضح مثال ان مفکرین کی ہوگی جو سامراجی فکر اور سامراجی پیمانۂ معروف ومنکر پر غیرمحسوس طور پر ایمان رکھنے کی بنا پر مغرب کے رواج کو مثالی انسانی طرزِعمل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مغرب میں صرف ایک شادی قانونی طور پر درست سمجھی جاتی ہے یا قاتل کو سزاے موت دینا ایک غیرمہذب فعل سمجھا جاتا ہے یا تہذیب کی معراج یہ سمجھی جاتی ہے کہ انفرادی آزادی کے نام پر مردوں اور عورتوں کوتن کی عریانی کا غیرمحدود حق دے دیا جائے تو یہ مفکرین اور دانش ور مسلم معاشروں میں ایسی ہی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔
معاشرے میں پایا جانے والا ظلم و استحصال انھیں مضطرب نہیں کرتا۔ اگر انھوں نے انگریز کے دیے ہوئے تعلیمی نظام میں تربیت پائی ہوتی ہے تو وہ اسی نظامِ تعلیم کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس میں کسی معمولی سی اصلاح کو انحراف قرار دیتے ہیں۔ الجیریا کے معروف مفکر مالک بن نبی مرحوم نے اس ذہن کے بارے میں بہت صحیح کہا تھا کہ سامراجیت سے زیادہ سامراج زدہ ذہن خطرناک ہوتا ہے کیوںکہ و ہ سامراجی طاقت کی طرح کھلا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ سامراجیت کے زہر سے آلودہ ہوکر بظاہر ایک نوآزاد مملکت کا مقامی سربراہ ہوتا ہے لیکن اپنی فکر اور عمل میں وہ سامراجی طاقت سے زیادہ سامراجیت کا وفادار ہوتا ہے۔
اس شکست خوردہ ذہنیت سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی تشخص پر کم از کم چار زاویوں سے غور کیا جاسکتا ہے:
۱- عمرانی اور سماجیاتی زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی بنیاد وہ مقامی بودوباش کی روایت ہوتی ہے جو کسی قبیلے یا قوم نے کسی خطے میں اختیار کی ہو اور عرصۂ دراز تک اس پر عمل کرنے کے سبب وہ ان کی عادت اور عرف بن گیا ہو۔ اسی بنا پر ہندستان کی تہذیب کو ہندووانہ رسوم و رواج، عبادات اور ناچ گانوں، طبقاتی تقسیم اور رنگ (وارنا)کی بنیاد پر تفریق اور طبقاتی تقسیم والی تہذیب قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تہذیب برصغیر میں محدود رہی اور اگر کسی نے اس کے زمینی تقدس کو پامال کرنا چاہا تو اسے مذہب بدر کر دیا گیا، حتیٰ کہ گاندھی نے بھی جب ہندستان کو چھوڑ کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا رُخ کیا تو اس مذہبی خلاف ورزی پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی فرد کو اس کی مسلمان دشمن سیاسی حکمت عملی اور نام نہاد پُرامن احتجاج کے تصور کی بنا پر ’مہاتما‘ کے اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہونے کا اعزاز دیا گیا۔
زرتشت کے زیراثر پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت چونکہ صرف ایران میں مقید و محدود رہی، اس لیے اس کی بنیاد بھی وہ زمینی روایات ہیں جو اس خطے میں پائی جاتی تھیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ہم اس طریق تحقیق کو اس کے بنیادی نقص، یعنی دائرۂ تحقیق کو ایک مخصوص خطے تک محدود کردینے کی بناپر استعمال نہیں کرسکے۔ گو بہت سے غیرمسلم اور ان سے متاثر بعض مسلمان اسلامی ثقافت و تہذیب کو عربی ثقافت و تہذیب قرار دینے کی صریح غلطی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔
۲- سامراجی ثقافت و تہذیب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بعض اقوام نے اپنے زیرتسلط محکوم اقوام کو اپنے دورِ اقتدار میں تعلیم، معاشی، سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کے ذریعے سامراجی فکر کا تابع بنانے اور ان کی اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے کے لیے ان کی زبان و ادب، ان کی معاشرت اور کاروبارِ حیات میں ان پر بندشیں لگاکر انھیں فکری اور عملی طور پر اپنا مکمل محکوم بنایا۔ بہترین مثال برطانوی سامراج کی ہے جس نے ۱۰۰سال سے اُوپر برعظیم کے مسلمانوں پر اپنی تعلیمی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حکمت عملی کے ذریعے ان کے ماضی سے تعلق کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے ساتھ ان کی ذہنیت کو یورپی بلکہ انگریزی فکرومزاج سے اتنا ہم آہنگ کردیا کہ اگر آج ایک دانش ور انگریز ادیبوں، فلسفیوں، ماہرین عمرانی علوم کے حوالے دے کر اپنی قومی زبان میں کوئی مقالہ لکھتا ہے تواس کی تمام تحقیق اور محنت کو صحافیانہ تحریر قرار دے کر ایک طرف کردیا جاتا ہے۔
انگریز سامراج کی یہ ذہنیت اسے اپنی زبان میں سوچنے اور اس میں اظہارِ خیال کرنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم کردیتی ہے او روہ ان اصطلاحات کے استعمال کے بغیر جن کا منبع اور روحانی رشتہ یورپی اور انگریزی ثقافت سے ہے اپنی بات بیان نہیں کرسکتا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو قوم اپنی زبان میں سوچ نہ سکتی ہو اور اپنی زبان میں اظہارِ مدعا نہ کرسکتی ہو اس پر ترقی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بین نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں ہوسکتی کہ کوریا ہو یا چین ان کی ترقی کا راز ان کی اپنی زبان میں تعلیم اور اپنی زبان و ثقافت پر فخر کا بنیادی دخل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم غیرملکی زبانوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں محض قومی زبان نہیں بلکہ مزید پانچ یورپی زبانوں پر عبور ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انگریز سامراجی ذہن سے ہرمسئلے پر غور کرنا اور جوتحقیق کی حکمت انھوں نے اپنے مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے ایجاد کی ہو، اس کو ایک مختلف معاشرتی، ثقافتی، دینی ماحول کی تعبیر میں استعمال کرنا طریق تحقیق کی ایک بنیادی ناسمجھی ہی نہیں واضح غلطی ہے۔
مثال کے طور پر اگر یورپ زدہ سامراجی علمِ عمرانیات میں خاندان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ایک شخص اور اس کی قانونی منکوحہ اور اس کے حد سے حد دو بچوں پر مبنی اولاد، تو غیرشعوری طور پر اگر ایک ایسے معاشرے کا مطالعہ کرنا ہو جس کے بنیادی تصورات میں کثیرالاولاد ہونا اچھائی کی علامت ہو، جہاں خاندان کا مطلب والدین، شوہر،بیوی، شوہر کے بھائی بہن، ان کے بچے اور اس کے اپنے بچے ہوں___ تحقیقی تعصب سے اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہوگا اور نتائجِ تحقیق کا لازمی طور پر رنگین عینک سے دیکھنے کی وجہ سے گمراہ کن ہونا یقینی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ زدگی کے شکار علومِ عمرانی کے ماہر، تاریخ دان ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، جس تحقیقی حکمت عملی میں تربیت پاکر اعلیٰ تعلیمی سندات حاصل کرتے ہیں اپنے آپ کو اُس فکری حلقے میں نہ تو قید تصور کرتے ہیں اور نہ اُس سے نکل کر زمینی حقائق پر غور کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
اگر یورپ زدہ سماجیاتی تصور یہ ہے، اور جو تقریباً ۲۰۰ سال سے ہماری اپنی جامعات میں رائج ہے، کہ ثقافت اور تہذیب کی جڑیں مقامی رسوم و رواج میں ہوتی ہیں، تو پھرکسی کا مصر میں اپنا تشخص تلاش کرنے کے لیے یہ کہنا کہ وہ فراعنہ کی اولاد سے ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں مصری دیومالائوں میں پائی جاتی ہیں، بالکل فطری عمل ہے۔ یہی تصور قومیت کی بنیاد بنتا ہے اور ایک فرد جس خطے میں پیدا ہو، اس مغرب زدہ فکری زاویۂ نگاہ کی بناپر اپنا نسب اور تعلق زمین سے جوڑتا ہے۔ قدیم ہندو تصور جس میں ’دھرتی ماتا‘ کو مقدس قرار دیا گیا تھا، بظاہر ایسے تمام جغرافیائی قومیت کے تصورات کی بنیاد نظر آتا ہے۔ اس طریق تحقیق کے نتیجے میں جو شخص اپنے آپ کو فرانسیسی یا برطانوی کہتا ہے اس کی حقیقی وجہ اس کا جغرافیائی طور پر اس جگہ پر پیدا ہوجانا، یا اس کا فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا ، یا کسی کا برطانوی انگریزی میں بات کرنا قرار پاتا ہے۔
اسی طرح عمرانیات میں جس چیز کونسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد بھی یورپ زدہ طریقِ تحقیق ہے جو رنگ، خون یا نسل کو تشخص قرار دیتا ہے۔ آج بھی فرانسیسی قومیت کا ایک اہم جز سفیدفام نسل سے تعلق اور فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ اس طریق تحقیق کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے بارے میں اس کی روشنی میں کوئی تاریخی یا عمرانی تحقیق کی جائے تو انھیں عرب یا ایرانی یا ترک یا نائیجیری اور انڈونیشی کی حیثیت سے زیرمطالعہ لایا جاتا ہے اور ان کے مقامی لباس، چہرہ مہرہ یارنگ کی بنیاد پر ان کا تشخص قرار دیتے ہوئے اسلام کو بھی انڈونیشی اسلام، ایرانی اسلام یا ترکی اسلام کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس تحقیقی حکمت عملی کے استعمال کرنے والوں میں مشہور کینیڈین اسکالر اسمتھ جیسا سنجیدہ شخص بھی شامل ہے۔
اس بظاہر طویل نظری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہمارا اصل تشخص کیا قرار پاتا ہے اور کیا ہونا چاہیے اور کیا وہ جیسا ہونا چاہیے ویسا ہے؟
پہلی بات تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی خطہ نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ تقسیم ہند سے قبل جن خطّوں کو بعد میں یک جا کر کے پاکستان بنا وہ زبانی عصبیت کی جگہ جغرافیائی خصوصیت کی بنا پر اپنا ایک نام رکھتے تھے ، مثلاً پانچ دریائوں کی زمین کو پنج آب اور دریاے سندھ کی وادی کو سندھ اور ہندستان کی شمال مغربی سرحد کو سرحد کا نام دیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بنیاد بھی زبان نہیں قبائلی نسبت تھی۔ ایسے ہی مشرقی اور مغربی بنگال کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی کیوںکہ جو زبان مغربی بنگال میں مستعمل تھی وہ سنسکرت زدہ اور جو مشرقی بنگال میں (جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا) استعمال ہوتی تھی وہ عربی،فارسی کے سرمایے سے بھرپور تھی۔۱؎ گویا پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی حدیں یا مقامی زبان، غذا یا وضع قطع نہیں ہوسکتی۔
دوسری بنیاد جس پہ مغرب زدہ علومِ عمرانیات قائم ہیں علاقائی اور قبائلی تعلق ہے۔ پاکستان کے تناظر میں مختلف خطوں اور قبائلی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے قبائلی یا علاقائی تشخص قومی تشخص نہیں بن سکتا۔خود بانیِ پاکستان نے اس پہلو پر مختلف مواقع پر پُرزور الفاظ میں یہ بات کہی کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ آپ کی پہچان نہ بلوچیت ہے، نہ پنجابیت، نہ سندھیت، نہ سرحدیت، اب آپ ایک نئی اکائی اور وحدت میں شامل ہوگئے ہیں۔ آپ کا تشخص اُس سے بہت مختلف ہے جو مغرب نے ہمیں سکھایا ہے۔۲؎
تیسری بنیاد غالب تہذیب کا صدیوں کے عمل کے نتیجے میں محکوم پر غالب آجانا ہوسکتاہے۔ اگر غیرمنقسم ہندستان کے تناظر میں اس مفروضے کا جائزہ لیا جائے تو ۸۰۰ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کے باوجود تقسیم ملک کے وقت مسلمان تعداد میں ایک چوتھائی یا اُس سے کچھ کم رہے۔ اگر وہ سامراجی طاقت ہوتے تو اپنی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حکمت عملی اور دبائو سے غیرمسلم اکثریت کی تعداد کو اقلیت میں تبدیل کرسکتے تھے۔ جدید فرانس اسی اصول کی بناپر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ وہ غالب اور حاکم تہذیب ہے اس لیے اس کے نوآبادیاتی نظام سے آنے والے افریقی ہوں یا الجزائری، وہ فرانسیسی طرزِ زندگی اختیار کیے بغیر فرانسیسی نہیں شمار کیے جاسکتے۔ انھیں اپنے دینی معاملات کو بھی فرانسیسی تہذیب کا تابع کرنا ہوگا۔ چنانچہ سر پررومال کے استعمال پر پابندی کو ایک قومی مسئلہ بنایا گیا۔
اگر اکثریت کے رواج، بودوباش، دینی فکر اور عمل اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی طرزِعمل کی بنیاد پر کسی قوم کا تشخص قرار دیا جانا فرانس، برطانیہ، امریکا یا دیگر ممالک میں ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، تو پھر پاکستانی تشخص اور تہذیب و ثقافت بھی پاکستان کی غالب اکثریت کی بناپر جو قدرِمشترک پائی جاتی ہو اسی پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ قدر مشترک نہ تو علاقائی زبان ہوسکتی ہے، نہ جسم و قدوقامت نہ قبائلی اور نسلی تعلق، یہ صرف اور صرف وہ تصورِ حیات ہی ہوسکتا ہے جو اس کے رہن سہن، کھانے پینے، معاشرتی عادات، معاشی ترقی کے تصور اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی زندگی میںکامیابی کے تصور کا تعین کرتا ہے۔
تہذیب و ثقافت میں مذہب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کیا وجہ ہے مغرب زدہ دانش ور اور مغربی مفکرین جب بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف کرتے ہیں، تو اس میں مذہب کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت سے مراد وہ رہن سہن اور روایات لیتے ہیں جو صدیوں سے کسی مقام یا کسی اجتماعیت میں پائی جاتی ہوں۔ اس سوال کا مختصر جائزہ ہم اس مقالے کے آغاز میں لے چکے ہیں کہ یورپی تاریخ میں عیسائی چرچ کے دور کو تنگ نظری، انتہاپسندی، مذہبی نفاق، ردِعقلیت، جذباتیت اور ترقی پسندی کی ضد خیال کیا جاتا ہے بلکہ یہ تصور مغربی فکر میں ایک ’مصدقہ حقیقت‘ کا مقام رکھتا ہے۔ جدید علمی تحقیق میں عیسائی چرچ کے خلاف ردعمل کو لبرل ازم یا اباحیت پرستی، عقل پرستی، سائنسی فکر، نشاتِ ثانیہ، احیاے انسان پرستی (Humanism)، احیاے فطرت پرستی اور روشن خیالی کے نام پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج جو مکاتب ِ فکر یورپ و امریکا میں پائے جاتے ہیں اور ان کے زیراثر تعلیم پاکر آنے والے مسلم ممالک کے دانش ور، سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقلیت میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے۔ وہ غیرشعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر انتہاپسندی کو پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ اس لیے مغرب زدہ عمرانی علوم کا نقطۂ آغاز ہی عقل کی مطلق العنانی، مذہب کی چرچ کی چاردیواری تک محدودیت اور معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کا مذہب کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہونا، ترقی کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے اور جب علم پر مبنی معاشی ترقی، علم پر مبنی معاشرہ ، یا روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے، تو ذہنی پس منظر میں عملاً مادیت پرستی، افادیت پرستی، اخلاقی اضافیت (Ethical Relativisim)، انفرادیت پرستی اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا پر ایمان بالغیب لانے کے بعد ہی مذہب اور ثقافت کو معاشرتی ارتقا کے تابع کردیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ مزید یہ کہ مغربی تصورِ حیات کی پیروی میں مسلم معاشرے میں بھی مذہب کو ذاتی یا انفرادی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس مغربی فکری شیش محل میں محصور ذہن کے مقابلے میں ایک آزاد ذہن جو مغرب زدگی کے سحر سے نکل چکا ہو، جب تہذیب و ثقافت کے تصور پر غور کرتا ہے تو تہذیب و ثقافت صرف اور صرف ایک ملت کے تصورِ حیات کی قابلِ محسوس شکل اور مظہر قرار پاتی ہے۔ عصرِحاضر کے عظیم دینی رہنما اور مفکر سیدمودودی نے اس ساری بحث کو محض چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم و آداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اَطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا، مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں،شجر تہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدروقیمت ان ظاہری صورتوں اور نمایشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اوراس کے اساسِ اصول کا تعین کرنا چاہیے۔
اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے۔ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اورانسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، ۱۹۶۰ء ص ۱۱)
پاکستان بلکہ کسی بھی ایسے ملک کا تشخص جو اپنے آپ کو مسلمان یا اسلامی کہتا ہو، اس کی اسلامیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیوںکہ نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحد، نہ اس کا رنگ، نہ اس کے افراد کا نسلی یا قبائلی تعلق اس کا اصل تشخص قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مغربی سامراجی فکرسے متاثر تحقیق کی حکمت عملی سے نجات اور آزادی کے بغیر ہم زمینی حقائق اور معاشرتی تصورات کو جیسے کہ وہ ہیں نہ تو صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد کوئی نتائج نکال سکتے ہیں۔
اس معروضی اور مختصر تجزیاتی مقالے کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق جس اصول کی بنیاد پر ہوئی وہ مسلمانوں کا اپنی تہذیب، ثقافت اور نظریۂ حیات کی بنیاد پر ایک ملّت ہونا تھا جسے دوقومی نظریہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان دو ملّتوں میں ایک دریا کا پانی پینے اور ایک فضا میں سانس لینے کے باوجود بنیادی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اختلاف پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ملّت اسلامیہ کو اپنے ثقافتی، تہذیبی اور دینی تشخص پر قائم رہنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جہاں وہ اپنی ’پہچان اور تہذیبی اور ثقافتی تشخص‘ کو نہ صرف برقرار رکھ سکے بلکہ مزید ترقی دے سکے۔ ظاہر ہے یہ تشخص اور پہچان اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی۔ ہند میں مسلم اُمت کی بقا اور ترقی کے لیے لازم تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس کی پہچان صرف اور صرف اسلام ہو۔
پاکستان کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اسی تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی نشان دہی کی تھی:
ہم ہند کو ہندستان اور پاکستان میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں… ہندو ہند اور مسلم ہند دونوں کو الگ ہونا چاہیے۔ چونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو کچھ اختلافات کے بارے میں بتا دوں۔ ہم ان سے تاریخ، ثقافت، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، اصولِ قانون اور ہمارا سارا معاشرتی تانابانا اور ضابطۂ حیات میں مختلف ہیں (اے بی سی لندن کے ذریعے امریکیوں کے نام پیغام، لندن ۱۳دسمبر۱۹۴۶ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ناشر: بزمِ اقبال لاہور، ترجمہ: اقبال احمدصدیقی، ۱۹۹۸ئ، ص۲۷۲)
اس تشخص کے حوالے سے قائداعظم نے بارہا وضاحت سے یہ بات کہی کہ ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں سے ان کی مراد اسلامی نظامِ حیات ہے چنانچہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظریۂ حیات کا قیام و نفوذ ہے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ’Muslim Ideology‘(مسلم نظریے) کی اصطلاح استعمال کی:
ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے اپنی قوم کی تنظیم کرنا۔ اور ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں۔ نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آئیڈیل اوراصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔(مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ سرحد کے نام پیغام، ۱۸جون ۱۹۴۵ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ۱۹۹۸ئ، ص۴۳۸)
آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پاکستان کے اصل تشخص اور پاکستانیت کے اصل مفہوم کو نہ صرف اس کے صحیح تناظر میں بلکہ بانیانِ پاکستان کے بیانات کی روشنی میں تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے، لیکن یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب محققین یورپ زدگی سے اپنے ذہن کو آزاد کرکے مغربی معاشرتی علوم کے طرزِ تحقیق کے خطرات کو ذہن میں رکھتے اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے غور کریں۔ وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جن کی نظریاتی اساس مضبوط ہو اور جو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوں
۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے پشاور میں ایک چرچ پر دہشت گرد حملے کے بعد اَزخود نوٹس لیا۔ یہ نوٹس ’جسٹس ہیلپ لائن‘ نامی این جی اوز کی درخواست پرلیا گیا تھا۔ اقلیتی برادری کی چند دیگردرخواستوں کو یکجا کرکے چیف جسٹس نے صرف سرکاری حکام کو بلایا، تین رکنی بنچ بنایا،جس میں خود ان کے علاوہ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیرعالم تھے۔ ۱۹جون ۲۰۱۴ء کو انھوں نے اس نوٹس کی سماعت کی اور ایک ایسا فیصلہ سناڈالا، جس کے متاثرین ۹۶ فی صد مسلمان تھے۔ لیکن ان کے کسی نمایندے کو نہ تو سنا گیا، نہ بلایا گیا اور نہ انھیں علم ہوا کہ ان کی پشت پر کیا خنجر آبدار گھونپا جارہا ہے۔چرچ پر مذکورہ دہشت گردانہ حملے کا کوئی مجرم نہیں پکڑا گیا تھا۔
اس سماعت میں عدالت کے اندر کے تمام حاضرین نے اَزخود یہ فرض کرلیا کہ ’’دہشت گرد چونکہ موجودہ نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں، لہٰذا اس نظامِ تعلیم کو بدل دیا جائے‘‘۔ معلوم نہیں یہ فرض کرنے کی بنیاد کیا تھی؟ کیا دہشت گرد غیرملکی نہیں ہوسکتے ہیں؟ ممکن ہے وہ ہندستان سے آئے تھے؟ کیا وہ واقعی مسلمان تھے؟ کیا یہ حملہ خود مسیحیوں کے دوگروہوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ کیا اس میں خاندانی یا ذاتی دشمنی کا کوئی عنصر تو نہیں ہے؟ یہ وہ چند ممکنہ سوالات ہیں، جن کا جواب تلاش کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن معزز عدالت نے سرسری سی سماعت میں اتنا بڑا فیصلہ سناڈالا کہ ا س کے نتائج تصور میں لاتے ہوئے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بس یہ فرض کرلیا کہ ’’تمام دہشت گرد پاکستانی مسلمان تھے اور دہشت گردی کا سبب تعلیمی نصاب ہے‘‘۔اس فیصلے کے منفی اثرات مسلم نسل کشی کی شکل میں مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اسی حکم نامے میں عدالت نے پولیس سروس کے ایک معروف افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں کمیشن مقرر کیا، جس کے ذمے عدالتی حکم نامے پر عمل درآمد کرانا تھا۔ کمیشن کی معاونت کے لیے ایک چاررکنی کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان تھے: ڈاکٹر شعیب سڈل، ڈاکٹر رمیش کمار، کوئی ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور خود معزز چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے معزز صاحبزادے جناب ثاقب جیلانی۔ جسٹس جیلانی فیصلہ سنانے کے سترہ دن بعد ریٹائر ہوگئے۔ یہ کمیٹی اور کمیشن گزشتہ سات سال سے کام کررہے ہیں۔ اس عرصے میں ملکی تعلیمی نظام اور مسلمانوں کی نسل کشی کا کیا بندوبست ہورہا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے۔
یوں تو یہ فیصلہ ’’ازخود نوٹس‘‘ پر چار فی صد اقلیتوں کے لیے تھا، لیکن اس فیصلے سے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی نسلوں پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان کے بارے سوچ کر دل لرزتا ہے۔ اس سے بڑھ کر شرم ناک تماشا یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ اس مقدمے میں فریق بنایا گیا اور نہ انھیں سنا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیا جائے، جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے‘‘۔ فیصلے میں ۱۹۸۱ء میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما، سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے ، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل فوراً متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی ’دانش وروں‘ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی، جس نے سفارشات مرتب کیں۔ تین مقامی اورمطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے(جس کے سربراہ جناب شہباز شریف تھے) سرکاری و نجی یونی ورسٹیوں کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ’’ان سفارشات پر عمل کرکے بالوضاحت بتایا جائے کہ نصاب میں کیاترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں، وہ کتب بھی منسلک کی جائیں‘‘۔ اسی پربس نہیں، یونی ورسٹیاں امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میںمرتب کیا کریں گی۔لیکن پہلے کمیٹی کی چند سفارشات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک ِ خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظر ثانی کی جائے‘۔ یہ تعلیمی سفارش بھارت میں مودی حکومت کے کسی متعصب رہنما کی نہیں تھی، بلکہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی، جب لاہورکے کالجوں میں دوپروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسر پر مشتمل کمیٹی نے ’رواداری اور روشن خیالی ‘کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کیں، یہ ان کی دیگ میں سے چاول کا ایک دانہ ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔ بریکٹ میں ہمارا تبصرہ ہے:
۱- طلبہ کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم، موسیٰ، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا، جو محمدؐ کا ہے۔[گویا یہودیت اور مسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں، جو مذکورہ پیغمبروںؑ کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہا جائے یا استخفاف؟]
۲- ’’تحریک ِ پاکستان کا اَزسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کاکردار اُجاگر کیا جائے‘‘۔ [قیام پاکستان کے آٹھ برس بعد مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جناب ظفراحمد انصاری نے واضح طور پر لکھا تھا: حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے عناصر خصوصاً ہندوقوم نے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘‘ (Daily Dawn، ۲۳دسمبر ۱۹۵۵ء)]۔
۳- ’’یورپ میں تحریک احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘[مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (Dark Age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’تاریک دور‘ میں اُن کے نزدیک بعثتِ رسولؐ، خلافت راشدہ اور مسلمانوں کے دوسرے عہد زریں بھی شامل ہیں،کہ جب عورت کو تحفظ، وقار اور جایداد میں حصہ ملا۔ کیا اب ہمارے بچے عہد نبوی اور خلافت ِ راشدہ کو عہد ِ ظلمات کے طور پر پڑھیں گے؟]
یہ نمونے کی چندسفارشات ہیں، جو پشاور میں ایک چرچ پر شرپسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے ثمرات ہیں۔ امریکا اور ناٹو کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ۸۰ہزار سے زیادہ، پاکستان کے مسلمان مارے گئے ہیں، مساجد اور درگاہیں تک تباہ ہوئی ہیں، اور بچوں اور نمازیوں تک کی لاشیں تڑپی ہیں، تاہم وہ صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر۲۰۱۳ء میں اذیت ناک حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے کیے گئے، جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ۹۶ فی صد آبادی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں یا کرداروں نے خودبخود یہ فرض کرلیا ہے کہ ’’چرچ پرحملہ آور، غلط نصابِ تعلیم کی پیداوار پاکستانی مسلم طلبہ تھے اور نصابِ تعلیم عدم برداشت پر مبنی ہے‘‘ (مگر اس مفروضے کا ایک بھی تائیدی ثبوت فیصلے میں درج نہیں)۔ چونکہ اس ’اَزخود نوٹس‘ کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سےکسی کو بطور فریق سنا گیا، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی اور نہ کسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا گیا۔
معزز چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جو عدلیہ کے لیے پوری دُنیا میں تسلیم شدہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ’’ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے، جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے‘‘۔ معزز عدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان ’دہشت گردی‘ کے نام پر سپریم کورٹ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے؟ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔
ذرا اندازہ کیجیے کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی کہ جنھیں سماعت کے دوران میں سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ دہشت گرد، عالمی غنڈوں کے پروردہ ہیں۔ ان کا عامۃ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟ چرچ پر حملے کوجواز بنا کر ایک این جی او کی درخواست اور ازخودنوٹس پر سماعت میں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے۔
کیا چرچ پر حملے کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی کہ جس میں انھوں نے اپنے اس فعلِ بدکو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کر کوئی اعتراف کیا ہو؟
کیا کسی نے نصاب کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اُجاگر کیے؟
ظاہر ہے یہ سب کچھ نہیںہوا۔ فیصلے میں معزز عدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پر حملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا، لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ اور نامعلوم مجرموں کو ’’اوّلاً خود بخود مسلمان فرض کرلیا‘‘۔ پھر یہ بھی فرض کیا کہ ’’ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے‘‘۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ’’نصابِ تعلیم تبدیل کیا جائے‘‘۔
اس اعلیٰ عدالتی قصّے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہواتو اس کا ذکر کیا جائے، یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک والا معاملہ ہے۔یونی ورسٹیاں دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خودمختار ادارے ہیں۔ حکومتیں ان سے تحقیق کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انھیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے یونی ورسٹی کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔
اس زیرنظر فیصلے کے بعد حکومت پنجاب نے ۲۰۱۶ء میں لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور تین میں سے صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں۔یہ اصحاب علمی دُنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں ہے۔ تاہم، عقل و دانش سے ماورا اس کمیٹی کے قیام کے فیصلے پر حیرت ضرور ہے کہ اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران، صفِ اوّل کی یونی ورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایت نامے مرتب کیا کریں گے۔ یہ یونی ورسٹیوں میں ’معیار کی بلندی‘ کے ثناخوانوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
اس سات سالہ عرصہ کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں، آخرکار مارچ ۲۰۲۱ء میں کمیشن نے عمل درآمد کی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ کمیشن نے سفارش کی کہ اُردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور ان جیسے دیگر مضامین میں سے حمد، نعت، نبی کریمؐ کا ذکر، خلفائے راشدینؓ اور تاریخ اسلام کے مشاہیر کا تذکرہ نکالا جائے کہ یہ آرٹیکل ۲۲ کے منافی ہے۔ کچھ دیگر مسیحی ماہرین تعلیم نے بھی اس کی تائید کی کہ مطالعہ پاکستان، سائنس اور اُردو اور انگریزی جیسے مشترک مضامین میں بھی اسلام موجود ہے جو آئین کے آرٹیکل ۲۲ کی خلاف ورزی ہے کہ جس کے تحت کسی شخص کو اس کے مذہب سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
معترضین کے سرفہرست اعتراضات ملاحظہ ہوں:’’طالب علم سے مشقی کام کرنے کو یوں کہا گیا ہے کہ وہ سوچ کر بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کون کون سی نعمتیں دی ہیں؟‘‘ اور یہ کہ 'اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے، اس جملے کو درست تلفظ اور روانی سے پڑھیں‘‘۔ اسی طرح یہ کہ ’’اساتذہ بچوں سے نعت سنیں‘‘۔ ’’چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں مضمون بھی قابلِ اعتراض ہے‘‘۔
ان جملوں میں لفظ ’اللہ‘ کا استعمال چند مسیحی افراد اور ان کے ’مسلمان وکلا‘ کو ناگوار ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ’اللہ‘ بائبل کے عہدنامہ عتیق میں ’ایلوہ‘(Eloah) کہلاتا ہے، جو صدیوں کے زمانی اور نطقی تغیرات کے باعث عربی میں ’اللہ‘ ہے۔ ہمارے یہ چند مسیحی معززین اور ان کے مسلمان وکلا آتش پرستوں کے ہاں برتا جانے والا لفظ ’خدا‘ تو لینے کو تیار ہیں،کلمہ طیبہ سے لے کر سارے اسلامی ذخیرے کا مرکزی لفظ ’اللہ‘ سامنے آتے ہی ان کی رواداری اور وسعت قلبی کا جذبہ دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ گویا اب رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ اور الفاظ کا چنائو مسیحی آبادی کی خواہش پر صرف مسلمانوں کی طرف سے ہوا کرے گا۔ چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل صاحب کا فرمان ہے:’’اس مذہبی مواد کو نصاب سے نکالنا ہو گا‘‘۔
چونکہ ایک طے شدہ معاملے کو سپریم کورٹ نے بطورِ سماعت یہ مسئلہ ایوانِ عدل میں رکھا ہے، اس لیے انھیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے متفقہ آئین کے آرٹیکل ۳۱ کا انکار کس طرح کیا جائے گا جس کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے لیے تعلیمات اسلامی کا اہتمام کرے۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادی کے اطمینان کے لیے تو مسلمان ماہرین تعلیم کچھ نہ کچھ کر لیں گے، لیکن تعلیمی امور میں شعیب سڈل صاحب کی اس رائے کو کون مسلمان اہمیت دے گا جن کا تعلیمی اُمور سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا موجودہ یکساں متفقہ نصاب بنیادی طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے درجنوں ماہرین تعلیم کی پالیسیوں اور انتظامی ذمہ داروں کا نتیجہ ہے، جس میں دیگر بہت سے سیاست دانوں اور ماہرین کی محنت بھی شامل ہے۔ عملی میدان میں جب کبھی اس نصاب کے حُسن و قبح سامنے آئے تو ماہرین تعلیم اسے بہتر بنا لیں گے۔ یہ کام ماہرین تعلیم اور کارپردازانِ سیاست کا ہے، جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے والے پولیس افسر کا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسی متفقہ نصابِ تعلیم کے تحت پرائمری جماعتوں تک اقلیتی آبادی کی کتب تیار ہو چکی ہیں، جو پورے ملک میں چار فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ تمام اقلیتی آبادی ملک بھر میں منتشر اور پھیلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کے سیکڑوں ہزاروں اسکولوں میں سے بمشکل تمام درجن بھر اسکولوں میں ایک دو غیرمسلم بچے ملیں گے۔ یہی حال ملک بھر کے اضلاع کا ہے۔ جہاں اپنی آبادی کے تناسب سے چند اسکولوں ہی میں اِکا دکا بچے ملتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین تعلیم نے یہ نصاب ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے تیار کیا ہے۔ ان اِکا دکا غیرمسلم بچوں کے لیے بھی نصاب کا ہرحصہ پڑھنا لازم نہیں ہے، مثلاً مشقی کام میں جہاں استاد بچے سے نعت سنتا ہے تو وہیں یہ ہدایت موجود ہے کہ غیرمسلم بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔تاہم، صوبہ سندھ کے چند اضلاع میں ہم وطن ہندو طالب علموں کی تعداد مقابلتاً ذرا مختلف ہے۔ لیکن ان کے مذہبی اطمینان کا طریقہ اسی نصاب میں موجود ہے۔اقلیتی آبادی کی معتدل اور غالب اکثریت کو ان جملوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے اس متفقہ مذہبی مواد کو نصاب سے نکلوانے کے درپے وہ چند لوگ ہیں، جو نہ تو مسیحی اور نہ مسلمانوں کے نمایندے ہیں۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کے بچے ہم سب کے بچے ہیں۔
اگر کوئی بچہ مسیحی ہے، تو اسے مسیحی تعلیمات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور ریاست یہ ذمہ داری تمام اقلیتوں کی نصابی کتب تیار کرکے پوری کرچکی ہے۔ معمولی لفظی اختلاف کو لے کر اقلیتی آبادی کے یہ چند لوگ اور مخصوص این جی اوز سے ان کے چند مسلمان ہم نوا ، اگر سپریم کورٹ کے توسط سے چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے متفقہ نصاب سے اسلامی تعلیمات نکلوانے میں کامیاب ہوگئے، تو خدشہ ہے کہ آیندہ کسی وقت ۹۶فی صد مسلم آبادی اس پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دے گی اور اس طرح بے جا طورپر، معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کا خرمن جل کر راکھ ہوجائے گا اور اس المیے کی ذمہ داری آج مسند انصاف پر بیٹھے جج حضرات پر ہوگی۔
یہ تلخ جملہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ دورانِ سماعت ۳۱مارچ ۲۰۲۱ء کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے منسوب یہ تبصرہ ذرائع ابلاغ پر مسلسل دُہرایا جاتا رہا: ’’۱۹۶۰ء کا نصاب نکال کر پڑھائیں، اس میں بہترین مذہبی ہم آہنگی تھی ‘‘۔
راقم نے یہی نصاب پڑھا تھا جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندستان میں فی الحقیقت اس وقت کے ہندو مسلمان دونوں کے لیے تھا۔ اس نصاب میں ہم طلبہ رام چندر، سیتا، لچھمن اور راون کی اساطیری داستانیں پڑھتے تھے۔ دیوالی، ہولی، دسہرہ اور کرسمس تہوار پوری طرح سے اس نصاب میں موجود تھے۔ کیا یہ اساطیری داستانیں مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانے پر رضامند ہو جائیں گے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس سے منسوب یہ جملہ پڑھ سن کر یقین نہیں آیا کہ اقلیتی کمیشن کے مسلمان چیئرمین کے لیے نصاب میں لفظ ’اللہ‘ تک ناگوار ہو اور مسلمان بچوں کو جناب چیف جسٹس کے حکم پررام چندر، سیتا اور لچھمن کی وہ داستانیں پڑھائی جائیں، جن پر ملک کی ہندو آبادی کا بھی اتفاق نہیں ہے۔ ذرا سندھ کی ہندو آبادی میں سروے کرائیں۔ سو ہندوئوں میں آپ کو دس ہندو کہلوانے والے ملیں گے باقی خود کو دلت، بھیل، کوہلی اور دیگر شیڈولڈ کاسٹ کہلوانے پر مصر ہیں۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں کے معزز ارکان اور دانش وروں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ براہِ کرم ان بارودی سرنگوں پر نظر رکھا کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم غور کریں۔ یہ دینی و غیر دینی سیاست کا موضوع نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات کے تدارک کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دُور نہیں جب طلبہ کتابوں میں خلافت ِ راشدہ کو ظلمات کے دور ہی کا ایک عہد پڑھیں گے۔ اور ۱۹۶۰ء کے نصابِ تعلیم کو امرت دھارا سمجھیں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہمیں واقعی رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جائے گا؟ ہمیں معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ فیصلہ اور پھر تعلیمی سفارشات طبقاتی خلیج کو اور گہرا کریں گی۔
آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ اعلیٰ عدلیہ سے ضلعی عدالتوں تک کے تمام افسران دستورِ اسلامی جمہوری پاکستان کے بعد اگر کسی کتاب کو حرزِ جاں بنائیں تو وہ پاکستان کے سابق مسیحی جسٹس جناب اے آر کارنیلیس کی کتابLaw and Judiciary in Pakistan ہے۔ہرجج کو یہ کتاب اپنے سرہانے رکھنا چاہیے۔ اگر اس مسیحی جج ہی سے لی گئی رواداری اور وسعت قلبی کا ہلکا سا اثر بھی عدلیہ میں دیکھا گیا تو ملک کی کوئی اقلیت نہ مسلمانوں سے شاکی ہوگی، نہ نصابِ تعلیم پر نظر ڈالنے کی اس طرح ضرورت پیش آئے گی اور نہ عدالتوں کو بے سوچے سمجھے نامعلوم دہشت گردوں کو اسلامی نظامِ تعلیم کی پیداوار سمجھنا پڑے گا۔محترم چیف جسٹس صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سپریم کورٹ کے ایک ہندو جج جناب رانا بھگوان داس، اسلامیات میں ایم اے تھے۔ وہ ہندو کے طور پر ہی دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن اسلام انھوں نے وسعت ِ قلبی سے پڑھا، کوئی جبر اُن پر نہیں تھا۔
ہمارے ہاں بھی بہت عجیب معاملہ ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص محض اپنے ذاتی ذوق کی تسکین کے لیے طے شدہ آئینی و قومی امور پر نقطۂ اعتراض اٹھا دیتا ہے اور عدالت جا پہنچتا ہے۔ وزیراعظم نے اس قوم کو یکساں نصابِ تعلیم کا خواب دکھایا۔ پھر تقریباً اڑھائی برس تک وزارتِ تعلیم کے افسروں اور ماہرین تعلیم نے اس مقصد کے لیے شب و روز کوششیں کیں۔ اور جیسے ہی یہ قومی نصاب آخری مراحل پر پہنچا ہے تو ہم وطن مذہبی اقلیتوں کے کچھ نمایندوں نے عدالت میں رٹ دائر کردی کہ ’’وزارتِ تعلیم کے مجوزہ نصابِ تعلیم میں اسلامی تعلیمات کو انگریزی اور اردو جیسے لازمی مضامین کا بھی حصہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق حمدونعت کو اردو نصاب میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ یہ مسئلہ غیرمسلم اقلیت کا نہیں، مٹھی بھر سیکولر حضرات اور مراعات یافتہ اقلیت کا ہے، جو اپنے بچوں کو قومی نصاب نہیں غیرملکی نصاب پڑھانا چاہتی ہے تاکہ گذشتہ عشروں کی طرح اُن کے بچوں کی امتیازی شان اور پہچان الگ رہے۔
روزنامہ جنگ [۵؍اپریل ۲۰۲۱ء] میں محترم تجزیہ نگار انصار عباسی کے مطابق وزارتِ تعلیم کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ ’’ایک طبقہ جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلاکر، لازمی مضامین میں سے اسلامی نصاب نکالنے کی کوشش میں ہے‘‘۔ افسر موصوف نے کہا کہ ’’قرآنِ پاک صرف مسلمان طلبہ کو پڑھایا جائے گا، جب کہ لازمی مضامین میں شامل حمدونعت بھی صرف مسلمان طلبہ کے لیے ہی لازم ہوگی، جب کہ غیرمسلم طلبہ کے لیے نصاب کا یہ حصہ پڑھنا لازم نہ ہوگا، اور نہ اس بارے میں ان سے کوئی سوال پوچھا جائے گا‘‘۔ افسر وزارتِ تعلیم کی نمایندگی کرنے سپریم کورٹ میں گئے ہوں گے، جہاں وہ سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کر سکے۔ کیا ہمارے اعلیٰ بابوؤں کو اتنا بھی علم نہیں کہ حمدونعت اور مثنوی و مرثیہ اردو شاعری کے اہم ترین اجزا ہیں۔ مسلمان ہی نہیں، ہندو، سکھ اور دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے اردو شعرا نے نہایت اعلیٰ پائے کی ادبی نعتیں اور کئی حمدیہ نظمیں تخلیق کی ہیں۔ ان ادب پاروں کو اردو لٹریچر میں نہایت نمایاں مقام حاصل ہے۔یہ حمدونعت کے ادبی شاہکار مسلم و غیرمسلم طلبہ کے لیے یکساں طور پر ضروری ہیں۔ دلورام کوثری کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
کچھ عشقِ محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگارِ محمد
اُردو کی مشہور مثنوی ’گلزار نسیم‘پنڈت دیاشنکر نسیم کی لکھی ہوئی ہے۔ اس مثنوی کا آغاز حمدباری تعالیٰ اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے۔
سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
امریکا میں مقیم چند دوستوں سے امریکا کے سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصابِ تعلیم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہر امریکی بچے کو ایلیمنٹری اور جونیئر وسینئر ہائی سکول میں امریکا کی تاریخ کے اہم واقعات اور امریکا کے ہیروز کے بارے میں بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اسکولوں کے لازمی مضامین میں بائبل کو بطورِ تاریخ، کلچر، لٹریچر اور ’اخلاقیات‘ پڑھایا جاتا ہے؛ البتہ بطورِ مذہب بائبل الگ پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
جہاں تک ’اخلاقیات‘ کا تعلق ہے تو اسلامی اور دیگر ادیان کی اقدار حتیٰ کہ سیکولر تعلیمات میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ مثلاً انگلش یا اردو میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور آدابِ معاشرت کا تذکرہ اگر اسلامی تعلیمات و تاریخ کی روشنی میں کیا جاتا ہے تو اس پر کسی غیرمسلم کو کیونکر اعتراض ہوگا۔
حیرت ہے کہ وزارتِ تعلیم کے افسران اور ہمارے سیکولر دانشوروں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں مذہب، سائنس، تاریخ، فلسفہ اور بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ ادب پارہ تخلیق کرتے ہوئے شاعر یا ادیب غیرفطری طریقے سے اپنے تخلیقی شاہکار میں مذہبی و آسمانی حوالوں کا داخلہ بند نہیں کرتا اور نہ ایسا ممکن ہے۔ برنارڈشا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تاریخِ عالم میں جتنی پرکشش شخصیت محمد مصطفیٰﷺ کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں، اسی لیے میں محمد (ﷺ) کو ساری دنیا کا نجات دہندہ سمجھتا ہوں۔ اب برنارڈشا کا ڈراما پڑھاتے ہوئے، انگریزی کا ٹیچر اسلام کے بارے میں ڈرامہ نگار کے خیالات بتائے گا تو ان تاریخی ریمارکس پر کسی غیرمسلم طالب علم کو کیوںکر اعتراض ہوگا؟
کیا ہم انگلش لٹریچر پڑھتے ہوئے جان ملٹن [م: ۱۶۷۴ء]کا ادبی شاہکار Paradise Lost اوراطالوی دانش ور دانتے الیگیری [م:۱۳۳۱ء] کا Divine Comedy کا تخلیقی ادب پارہ اس لیے نہیں پڑھیں گے کہ وہ مسیحی تعلیمات و عقائد کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں؟ اپنے قومی اہداف کی روشنی میں ہر قوم اپنی تاریخ، اپنے کلچر اور اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار کی عکاسی کرنے والا قومی نصابِ تعلیم تشکیل دیتی ہے، جس میں اپنے ہیروز کے عظیم کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کروایا جاتا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے اسکولوں کے لازمی مضامین میں اسلامی اقدار اور قومی و ملّی شخصیات کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے اسکولوں میں اسلامیات کو بطورِ لازمی مضمون پڑھایا جاتا ہے، جب کہ غیرمسلموں کے لیے اخلاقی تعلیمات کا الگ نصاب موجود ہے۔ تاہم، جس چیز کو اقلیت کے کچھ نمایندے اور ہمارے بعض سیکولر دانش ور اسلامی تعلیمات قرار دے رہے ہیں، وہ شاعری، ادب اور ہمارا تہذیبی و تاریخی ورثہ اور ہمارے قابل فخر ہیروز کے کارنامے ہیں۔ ان سب چیزوں کو اگر لازمی مضامین سے نکال دیا جائے تو پھر باقی کیا بچے گا۔ وزارتِ تعلیم کو چاہیے کہ وہ قومی و ملّی شعور رکھنے والے ماہرین تعلیم کی رہنمائی میں عدالت عظمیٰ میں اپنے موقف کو منطقی دلائل کے ساتھ پیش کریں۔
یاد رہے جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں ایک یکساں نصابِ تعلیم مرتب کروایا تھا اور اسے تمام سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں میں رائج کرنے کی مکمل تیاری بھی کرلی گئی تھی مگر مراعات یافتہ ’اقلیت‘ کو اکثریت والی تعلیم نامنظور تھی۔ اس بااثر اقلیت نے بڑی ’معصومیت‘ یا چالاکی سے غیرممالک سے آنے والے پاکستانی بچوں کے لیے غیرپاکستانی نصاب پڑھانے والے انگلش میڈیم سکول قائم کرنے کی اجازت لے لی۔ اس ’اجازت نامے‘ کی آڑ میں ہر طرف سے غیرملکی نصاب والے اسکولوں کا ایک سیلاب آگیا۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ یکساں قومی نصاب کے معاملے میں کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہ دیں۔
یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پرقائد اعظم ؒنے اپنی زندگی کی آخری تقریرفرمائی تھی،جس میںانھوں نے ملک میںمغرب کے ُسودی نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کونا فذکرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:
I shall watch with keenness the work of your Research Organisation in evolving banking practices compatible with Islamic Ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world.
میں انتہائی توجہ سے آپ کے تحقیقی ادارے کے کام کا جائزہ لیتا رہوں گا ،جو وہ بنکاری نظام کو اسلام کے معاشرتی اورمعاشی اصولوں پرترتیب دینے میں سرانجام دے گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے لاینحل مسائل پیدا کردیے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو نظر آتاہے کہ آج کی دنیا کو جس تباہی کا سامنا ہے، کوئی کرشمہ ہی اس سے بچا سکتا ہے ۔
اسی خطاب میںقائد محترم نے اہل پاکستان کو دنیا کی رہنمائی کرنے کی طرف بھی ان الفاظ میں متوجہ کیا تھا: ’’مغرب کے اقتصادی نظام کے نظری اور عملی طریق کارکو اختیار کرنا ہمارے لیے بے سود ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک نئی راہ ِ عمل اختیار کریں اوردنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کریں، جو انسانی اخوت اور سماجی انصاف کے صحیح اسلامی نظریات پرمبنی ہو‘‘۔
۱۲مارچ ۱۹۴۹ءکوجب قرارداد مقاصد کی منظوری دی گئی،تو دراصل یہ پاکستان سے سُود سمیت مغرب کے تمام اسلام دشمن نشانات کو ختم کرنے کا آغاز تھا۔۲مارچ۱۹۸۵ ء کے بعد تو یہ قرارداد دستور کا رُوبہ عمل جزو بنا دی گئی ہے۔بدقسمتی سے قائد اعظم ؒ قیام پاکستان کے بعدصرف تیرہ ماہ زندہ رہے۔بانیٔ پاکستان کی وفات سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ان کے مقتدر رفقا نے بعض صورتوں میں گومگو کی کیفیت میں، بعض حوالوں سے دانستہ طور پر ملک کو ان کے نظریات سے کاٹ دیا۔
گذشتہ پون صدی سے سود کے خلاف یہ جنگ مسلسل جاری ہے،مگر ہماری بے بسی اور کج فہمی دیکھیں ،پھر بھی اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’پاکستانی عوام تباہ حال کیوں ہیں؟ پاکستان کے معاشی،سماجی اور سیاسی حالات اتنے ابتر کیوں ہیں؟‘‘ ہم اس کا یہ جواب کیوں نہیں جانتے کہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ سے دو مرتبہ یہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ سُود، اللہ کے واضح احکام کے خلاف ہے،یہ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت حکم دے چکی ہے کہ ’’سُود سے پاکستان کے قومی مالیاتی نظام کو پاک کر دیا جائے۔یہ آئینِ پاکستان کی رُو سے بھی ناجائز اور ممنوع ہے‘‘۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت پاکستان کو متعین مدت کے اندر اندر تمام مالیاتی اداروں اور بنکوں میں سُودی معیشت کو ختم کرنے اور اسلامی مالیاتی نظام کو رائج کرنے کا حکم دیاتھا۔ تاہم، تمام حکومتوں نے اللہ اور رسولؐ کے احکام سے علانیہ بغاوت کی اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو غتربود کرنے کے لیے کئی بار ناپاک سازشیں رچاکرسُود جیسی ناپاک معیشت کو جاری و ساری رکھا۔
پاکستان قائم ہوا توہندستان نے شروع ہی سے اسے شدید مادی اور عسکری نقصانات سے دوچاررکھا۔اثاثوں کی تقسیم میں بھارتی لیڈر شپ نے ڈنڈی ماری، فوجی سازوسامان کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ہندستان کے مرکزی بنک میں موجود چار ارب روپوں میں سے پاکستان کا حصہ ایک ارب روپیہ غتر بود کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے مشترکہ ہندستان کا آخری وفاقی بجٹ پیش کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے مالی سال۴۹-۱۹۴۸ء کا ۸۹ کروڑ ۵۷ لاکھ روپے حجم کا ،۱۱؍ کروڑ روپے خسارے کا بجٹ تھا ۔ ہندستان کی طرف سے مالی خیانت کے باوجود مالی سال کے خاتمے تک پاکستان مالیاتی بحران سے نکل آیا تھا۔ تاہم، پاکستان کے مالیاتی نظام اور معیشت میں سود کو شامل رکھا گیا۔ مالی سال۵۰-۱۹۴۹ء کا دوسرا قوی بجٹ ایک ارب ۱۱ کروڑ کا بغیر خسارے کا بجٹ تھا۔ اس کے بعد ۱۹۶۹ء تک تمام قومی بجٹ خسارے سے پاک تھے۔یہاں تک کہ سقوط ِ ڈھاکہ کے ایک برس بعد ۷۳-۱۹۷۲ء کاپہلا قومی بجٹ بھی خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا، اگرچہ اس بجٹ میں سعودی عرب اور لیبیا کی بھاری مالی امداد شامل تھی۔ بہرحال اس میں ۱۸کروڑ کی بچت دکھائی گئی تھی ۔لیکن سودی معیشت ہمارے نظام حکومت میں اوپر سے نیچے تک موجود رہی۔
۱۹۴۷ء میںپاکستان کے قیام سے لے کرآج تک ملک کو سود سے نجات دلانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اگرچہ یکے بعد دیگرے تشکیل دیے گئے تینوں دساتیر میں سُود کو جلدازجلدختم کرنے کے عزائم ظاہر کیے گئے۔۱۹۶۲ء کے آئین کے آرٹیکل۲۰۴ کے تحت ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ قائم کی گئی،جس کا نام۱۹۷۳ء کے آئین میں بدل کر ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کر دیا گیا۔ ۷۳ء کے آئین کی شق نمبر ۲۲۷ کے مطابق: ’’پاکستان میں قرآن وسنت سے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘۔ پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض میں ایسی سفارشات پیش کرنا شامل ہے کہ جن سے مسلمانان پاکستان کو ایسی رہنمائی مل سکے کہ ’’وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے تحت بسر کر سکیں‘‘۔پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دیں۔ اب تک کونسل کے ۲۱۱ اجلاس ہوچکے ہیں۔ کونسل نے قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظاموں کا جائزہ لے کر ساڑھے ۶ہزار سفارشات مرتب کی ہیں۔تاہم، صرف ۹۰ سفارشات پر عمل ہوسکا ہے۔
سُود کو ختم کرنے کے بارے میں اسلامی مشاورتی کونسل نے پہلی سفارشات۱۹۶۹ء میں پیش کی تھیں،لیکن ان پرکبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس رپورٹ کے آٹھ سال بعد ستمبر۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ سے رجوع کیا ۔انھوں نے کونسل کو سود کے خاتمے کی سفارشات پیش کرنے اورایسے متبادل طریقے تجویز کرنے کے لیے کہا،جن پر عمل کرکے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جنرل ضیاء الحق سود کے خاتمے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں، مگر جلد ہی یہ تاثر زائل ہو گیا۔سُود کے خاتمے کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے علما، بنک ماہرین اور اقتصادی ماہرین سے طویل مباحث اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی دوسری رپورٹ کو حتمی شکل دی اور ۲۵جون ۱۹۸۰ءکو یہ رپورٹ جنرل ضیاء کوپیش کردی گئی۔ رپورٹ کے ساتھ سودی نظام کا متبادل اورقابلِ عمل مالیاتی نظام کاخاکہ بھی پیش کیا گیا،جس پر عمل درآمد سے دوسال کے اندر اندر ہدف حاصل ہوسکتا تھا۔
۱۹۸۰ء کے اواخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ’’۱۹۸۱ء سے وہ اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے‘‘۔ اسٹیٹ بنک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بنکوں نے نفع و نقصان پر مبنی پی ایل ایس اکائونٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اوراس بات کا عندیہ دیا کہ: ’’رفتہ رفتہ پورے بنکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا‘‘۔تاہم، وقت گزرتا رہا،مگر کوئی ٹھوس تبدیلی سامنے نہ آئی۔۱۹۸۳ء میںاسلامی نظریاتی کونسل نے جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں حکومت کو یاد دلایا کہ ’’۱۹۷۹ء میںسودی معیشت کے خاتمے کے لیے تین سال کی مقرر کی گئی مدت دسمبر۱۹۸۱ءمیں ختم ہوگئی ہے، لیکن سودی نظام نہ صرف ختم نہیں ہوا بلکہ حکومتی اقدامات سودی نظام کے استحکام کا سبب بن رہے ہیں‘‘۔
پاکستان میں غیرملکی منحوس سُودی قرضوں کی شروعات۱۹۵۲ء میں ہی ہو گئی تھی،لیکن یہ چندلاکھ سے زیادہ نہ تھے۔سودی معیشت کی نحوست بھی پاکستان کے مالیاتی نظام میں شروع ہی سے موجود تھی۔یہی وجہ تھی کہ۱۹۵۶ء میں پاکستان کا پہلا دستور منظور ہوا،تو اس کی دفعہ ۲۸- الف میں کہا گیا تھا کہ ’’ریاست سُود اور سُودی معیشت کو بہ عجلت ختم کرنے کی کوشش کرے گی‘‘۔جنرل محمدایوب خان ۱۹۵۶ء کے آئین کو توڑ کر ملک پر قابض ہوئے اور ۱۹۶۲ء میں اپنا دستور نافذ کیا۔ اس آئین کے پالیسی اصولوں میں اصول نمبر ۱۸ میں سُود کو فی الفور ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ایوب خان کا دستورکم وبیش دس برس نافذ رہا،مگر نہ تو ایوب خان، نہ ان کے جانشین یحییٰ خان نے سُود ختم کرنے میں کوئی دل چسپی دکھائی۔ ان کے بعدذوالفقار علی بھٹو آئے، جن کے دور میں ۱۹۷۳ء کا آئین بنا اور نافذہوا۔ ۱۹۷۳ءکے آئین کی دفعہ ۳۸- الف میں بھی سُود کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا،مگر نہ تو بھٹو اور ضیاء الحق نے دستور کایہ تقاضا پورا کیا،نہ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ملک کو سُود کی نحوست سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ بلکہ پے درپے ایسے اقدامات کیے گئے، جن سے معیشت پرسُودی نظام کی گرفت مستحکم ہوئی اور ملک اقتصادی طور پر تباہی سے دوچار ہوا۔
افغان جہاد کے دوران پاکستان کو اربوںڈالر کی امداد اور آسان شرائط پر سُودی قرضے ملتے رہے، ضیاء دور میں پاکستان کو ریکارڈ غیرملکی مالی امداداورآسان شرائط پر قرضے ملے،مگر ملکی معیشت ڈوبتی رہی، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۷۶) ’’اللہ سُود کو مٹاتا اورصدقات میں اضافہ فرماتا ہے‘‘۔ اگر جنرل ضیاء چاہتے کہ سُود ختم ہو،تو انھیں سُود کی لعنت سے ملک کو نجات دلانے کا بہترین موقع ملاتھا، مگر انھوں نے یہ موقع گنوا دیا۔ انھوں نے باربار اسلامی نظام کے نفاذ کا عندیہ دیا،مگرسُودکے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدر جنرل ضیاء کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا۔ انھوں نے اس اختیار سے کام لیتے ہوئے اپنے مارشل لا کے دوران قانون سازی کو تحفظ دینے کے لیے آئین میں آٹھویں ترمیم کی۔ جس کی رُو سے صدر پاکستان کو اضافی آئینی طاقت میسر آ گئی۔ ’وفاقی شرعی عدالت‘ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ میں ’شریعت اپیلٹ بنچ‘ بھی بنایاگیا، لیکن انھوں نے وفاقی شرعی عدالت پر یہ پابندی لگادی کہ ’’دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے یہ کوئی مقدمہ نہیں سنے گی‘‘۔ یاد رہے شریعت کورٹ ۱۹۸۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ ۱۹۹۰ء میں عدالت پر سے سود کے خلاف مقدمات سننے کی پابندی ختم ہوئی۔
۲۶ جون ۱۹۹۰ء کو شرعی عدالت کا مالیاتی قوانین کی سماعت کرنے کا اختیار بحال ہو گیا۔پابندی اُٹھتے ہی ایک شہری محمو د الرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن نمبر۳۰؍آئی داخل کی اور استدعا کی کہ ’’عدالت رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردے اور حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام سے ُسود کا چلن ختم کردے‘‘۔۱۱دسمبر ۱۹۹۰ء کو شریعت کورٹ نے پٹیشن باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کی۔عدالت نے سود کے مقدمے کی سماعت شروع کی ،تو بہت سے دوسرے ادارے، اشخاص، قانون دان اور خود حکومت اس طرف متوجہ ہوئی اور عدالت کے پاس ۲۰ سُودی قوانین کے خلاف ۱۱۵مقدمات جمع ہوگئے۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے ان سب مقدمات کی مشترکہ سماعت شروع کی۔
وفاقی شرعی عدالت میںچالیس سے زیادہ وکلا نے سُود کے خلاف دلائل دیے۔ سُودی معیشت کو زندہ رکھنے کے حامی وکلا بھی بڑی تعداد میں آئے۔ان میں وفاق اور صوبوں کے علاوہ مختلف مالیاتی اداروں اور بنکوں کے وکیل بھی شامل تھے ،جنھوں نے بھاری فیسیں لے کر قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف مو شگافیاں پیش کیں۔۶۰ کے قریب افراد سُود کے خلاف اپنی درخواستوں کے ساتھ اصالتاً پیش ہوئے۔ان سب کا اس پر اتفاق تھاکہ ’’جب تک سُودی معیشت سے آ ٓزادی نہیںملے گی،ملک پر معاشی تباہی کے سائے منڈلاتے رہیں گے‘‘۔
پا کستان کے مختلف افراد، جماعتوں اور اداروںنے سُود کے۲۰ قوانین کے خلاف درخواستیں پیش کیں۔ ان میں سے آٹھ قوانین انگریزی دور کے اور بارہ قیام پاکستان کے بعد کے تھے، جب کہ سُود کے تین قوانین کے خلاف عدالت نے خود نوٹس لیا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کے آغاز میں ہی تیرہ نکاتی سوال نامہ مرتب کر کے علما، سکالرز،دانش وروں، ماہرین اقتصادیات اور مالیاتی اداروں کو بھیج دیاتھا۔ ان حضرات نے تحریری جوابات بھی دیے اور بعض نے عدالت میں پیش ہو کر اپنے دلائل بھی پیش کیے۔سٹیٹ بنک کے حسن الزمان، الائیڈبنک کے سابق صدر خاد م حسین صدیقی اور ڈاکٹر محمدغدیر نے سُودکی تمام شکلوں کو حرام کہا ۔ انھوں نے کہا:’’مغربی ماہرین معاشیات کے زیر اثر’سُود‘ اور ’ربا‘ کوالگ کیا جارہاہے،ورنہ یہ دونوں ہی یکساںہیں اور اسلام کی رُو سے دونوں حرام ہیں‘‘۔انھوں نے کہا: ’’مشارکہ اور مضاربہ کے طریقوںسے مالیاتی اداروں اور بنکوں کا کاروبار بھی چلایا جا سکتا ہے اور ملک سُودکی لعنت سے بھی نجات پا سکتا ہے‘‘۔
معروف قانون دان خالد ایم اسحاق، نیشنل بنک آف پاکستان اور اسٹیٹ لائف انشورنس کی طرف سے پیش ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے بنک، سٹیٹ بنک کے تیار کردہ فریم ورک کے ماتحت کام کرتے ہیں، جسے اسلامی نظریاتی کونسل کی تائید و توثیق حاصل ہے‘‘۔ حالانکہ انھوں نے جس رپورٹ کو حوالے کے طور پر پیش کیا،وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بجائے وزارت خزانہ کا پیش کردہ حکومتی نقطۂ نظر تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کبھی اس کی توثیق و تصدیق نہیں کی۔ خالداسحاق کو جب اس جانب توجہ دلائی گئی،تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’میرے پاس مکمل رپورٹ نہیں تھی، اس لیے غلطی ہو گئی‘‘۔
جناب خالد اسحاق نے یہ نکتہ بھی اُٹھا یا کہ ’’افراط زر سے مال میں جو کمی واقع ہوجاتی ہے، اس کی تلافی کے لیے جو رقم بڑھائی جاتی ہے، اسے ربا میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔پھر ’’بنک جو منافع حاصل کرتے ہیں،اس منافع کوربا اور سُود نہ کہا جائے کہ بنک تو قوم کے پیداواری عمل میں حصہ لیتے ہیں‘‘۔خالد اسحاق نے سُود کو جائز ثابت کرنے کے دلائل پیش کیے،لیکن وہ اپنے حق میں کسی ایک آیت یا حدیث کاحوالہ پیش نہ کر سکے۔وفاق پاکستان اور بنکنگ کونسل کے وکیل نے بھی بنکوں کے سُود کو درست ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگایا۔
ڈاکٹر سید اسعد گیلانی نے اپنے تحریری دلائل میں بتایا کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں بار بار سود کی ہر شکل کو حرام قرار دے کر فی الفور ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کونسل نے جنرل ضیا ء الحق کو سُود کی مکمل ممانعت کے آرڈی ننس کا مسودہ تک بھیج دیااور تجویز کیا تھاکہ۳۰ جون ۱۹۸۴ء تک سُود پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے‘‘۔ ڈاکٹر اسعد گیلانی نے صدرمملکت کو کونسل کی طرف سے پیش کردہ اس سفارش کا حوالہ بھی دیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ ’’چونکہ ربا کی ہر شکل اسلام میں حرام ہے ،اس لیے وہ غیر ملکی بنکوں اور مالیاتی اداروں کو بات چیت کے ذریعے غیر سودی لین دین پرقائل کریں۔ خدا نخواستہ ایسا ممکن نہ ہو تو ایسا لین دین ختم کر دیا جائے اور کسی قسم کے خسارے کو خاطر میں نہ لایا جائے‘‘۔مولانا گوہر رحمان نے سود کے خلاف اپنے دلائل میں قرآن مجید، حدیث اور اسلامی تاریخ سے ٹھوس حوالے پیش کیے۔عدالت نے ان درخواست گزاروں کو بھی سنا، جن کی طرف سے وکیل پیش نہیں ہوئے۔ان کی اکثریت نے سورئہ بقرہ کی آیات ۲۷۸ اور۲۷۹ کا حوالہ دیا اور کہا:’’ہم نے سود او سُودی معیشت کوجاری رکھ کر دراصل اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے جنگ چھیڑرکھی ہے،اسے فی الفور ختم کیا جائے‘‘۔
تقریباً ایک برس پر پھیلی طویل سماعتوںکے بعد وفاقی شرعی عدالت نے۱۴نومبر ۱۹۹۱ء کو سود کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ دیا۔ شرعی عدالت کے چیف جسٹس تنزیل الرحمان نے فیصلہ سناتے ہوئے سود اور سودی نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا اور سُود پر مبنی ۲۳ قوانین قرآن و سنت کے منافی ٹھیراتے ہوئے کالعدم قرار دیے ۔شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’’بنکوں کے منافع سمیت سُود ہر شکل میں حرام ہے ،خواہ اسے منافع کہا جائے یا ’مارک اَپ‘ کا خوب صورت نام دیا جائے‘‘۔ عدالت نے حکومت کو سُود ی قوانین کی متبادل قانون سازی کے لیے چھے ماہ کی مہلت دی اور فیصلے میں واضح کردیا کہ ’’یکم جولائی۱۹۹۲ء سے متذکرہ قوانین خود بخود کالعدم ہو جائیں گے‘‘۔
حکومت اور اس کے معاون مالیاتی اداروںنے پہلے تو خاموشی اختیار کیے رکھی ،مگر جب چھے ماہ کی حتمی مدت ختم ہونے کا وقت آگیا،تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں پے درپے اپیلیں دائر کردی گئیں۔ نواز شریف کی وفاقی حکومت خود بھی سود خواروں کی تائید میں اپیل لے کرسپریم کورٹ پہنچ گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے شریعت کورٹ کے فیصلوں کی جو قدر وقیمت گھٹائی تھی، اس کے خراب نتائج اب برآمد ہوئے۔ سپریم کورٹ میں اپیل داخل ہوتے ہی درخواست گزاروں کو’حکمِ امتناعی‘(Stay Order )مل گیا۔ اب یہ حکمِ امتناعی اس وقت تک مؤثر تھا، جب تک و فاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نمٹا نہ دی جاتی۔
شریعت کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعدانصاف پسندی اورآئین کی پابندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی مہلت کافائدہ اٹھاتی، خلوصِ نیت سے کام لیتی اور سُودی قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کرتی، لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی،بلکہ حسب ِمعمول سُود کی بنیاد پر نئی اسکیمیں بنتی رہیں ،پرانی سودی اسکیموں کو جاری رکھا گیااورملک اور بیرونِ ملک سے سُود پر نئے قرضے حاصل کیے جاتے رہے ۔
حکومت پاکستان نے شریعت اپیلٹ بنچ میں دعویٰ پیش کیا کہ ’’وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میںبہت سے قانونی نقائص رہ گئے ہیں، اس لیے اس پر نظرثانی کی جائے‘‘۔ تاہم، عدالت عظمیٰ نے جیسے ہی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمدروکا، تو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔اگلے سات آٹھ برس کے دوران تین حکومتیں آئیں اور گئیں،مگر کسی نے نظرثانی کے مقدمے کو ’چھیڑنے‘ یعنی سماعت شروع کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔جماعت اسلامی اور دیگر مدعی اداروں نے آواز اُٹھائی ،جو صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔حکومتی ایما پر یہ باب بند رکھا گیا۔
درحقیقت نواز شریف کی حکومت، شرعی کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کو روکناچاہتی تھی۔جب یہ مقصد حاصل ہو گیا،تو اب ان کی خواہش کے عین مطابق نظر ثانی کا معاملہ عدالتی فائلوں میں دبا رہا۔ نظر ثانی کے مقدمے کی سماعت ساڑھے سات برس (مارچ ۱۹۹۹ء) تک ملتوی ر ہی۔ مارچ ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع کی۔سماعت شروع کرنے کی وجہ حکومت کے مُوڈ کی تبدیلی نہ تھی،بلکہ سپریم کورٹ کے جس اپیلٹ بینچ کی تشکیل ہوئی ، اس کے جج اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خوف سے آزاد نہ تھے۔
اس اپیلٹ بنچ نے اپنے فرض منصبی کاتقاضا سمجھ کرشرعی عدالت کے فیصلے پر غور وفکر کرنے کافیصلہ کیا۔پہلے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی سب اپیلوں کو یک جا کیا گیا، پھر ان کے اُٹھائے ہوئے سوالات پرتفصیلی بحث کی گئی۔ ماضی کی عدالتی کارروائی فاضل ججوںکے سامنے تھی۔وہ سب یہ بھی جانتے تھے کہ سود کے مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے انھوں نے سُود کے بارے میں دنیا بھر کے جید علما اور ماہرین معاشیات کا نقطۂ نظر جاننا ضروری سمجھا۔ علما اور اقتصادی ماہرین کو عدالت کی رہنمائی کرنے کی دعوت دی گئی، جنھوں نے اپنے زبانی اور تحریری دلائل کے ذریعے عدالت کی بھرپورمدد کی۔کئی ایک نے عدالت میں سود کی حرمت کے حق میںاور دوسروںنے اس کے خلاف مقالات اور تقاریر کے ذریعے دلائل پیش کیے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام اس سے پہلے تاریخ انسانی میں کبھی نہ ہوا تھا ۔ اس طرح فیصلہ دینے سے پہلے فاضل ججوں کو نہ صرف سُودی نظام کے بارے میں شرعی احکام و حقائق سے آگاہی ملی،بلکہ اسلامی بنکاری نظام کا ایک مربوط خاکہ بھی عدالت کے سامنے آ گیا، جس کو اپناکر بنکوں سے سودی نظامِ زر کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا۔
عدالت کے رُو برو پیش ہونے والے قرآن و سنت کے علما اور جدیدماہرین معاشیات کے مابین ایک طویل صحت مندانہ مکالمہ ہوا:
ڈاکٹر وقار مسعود صاحب نے بین الاقوامی حاصل کردہ قرضوں میں سود کی کمٹ منٹ کو پورا نہ کرنے کی صورت میں کہا:’’اس کے نتیجے میں، مستقبل میں حاصل ہونے والے تمام قرضوں سے محروم رہ جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
ڈاکٹر عمر چھاپرا صاحب نے واضح کیا کہ ’’مشارکت اور مضاربت کے اسلامی اصولوں کو جدید معاشیات کی روشنی میں ترقی دے کر جدیدبنکاری نظام بنایا جا سکتاہے‘‘۔
حافظ عبدالرحمان مدنی صاحب نے کہا: ’’ابتدائے نبوت ہی سے سود کی نوع بہ نوع صورتوں کی تدریجاً حرمت کا موقف اختیار کر لیا گیا تھا‘‘۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے کہا: ’’پوری دنیا میں سودی نظامِ زر کا جہاز آہستہ آہستہ غرقاب ہو رہا ہے۔ موجودہ سودی نظامِ آیندہ نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیں وہ اسلامی نظامِ زر سے بہت قریبی اور حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے‘‘۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پروفیسرخورشید احمد غیر سودی بنیاد پر کام کرنے والے ایک مکمل اور جدید بنک کا خاکہ تیار کرکے حکومت ِپاکستان کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔
شیخ القرآن مولانا گوہر الرحمان نے عدالت کی جانب سے جاری کیے جانے والے دس سوالات کی روشنی میں اپنا ایک مبسوط مقالہ عدالت میں پیش کیا اور نہایت مدلل انداز میں جدید بنکاری میں اختیار کیے گئے طریقوں کا تجزیہ کیا اور بعثت ِمحمدی کے وقت رائج مماثل اشکالِ تجارت سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے رائے دی کہ ’’انڈیکسیشن اور مارک اَپ وغیرہ اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً حرام اور ممنوع ہیں؛ لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کا چلن فی الفور ختم ہونا چاہیے‘‘۔
معروف قانون دان محمد اسماعیل قریشی نے کہا:قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے مطابق سود اپنی تمام تر اَشکال کے ساتھ مطلقاً حرام قرار پاچکا ہے۔ بیع موجل، بائی بیک، مارک اَپ، انڈیکسیشن، ڈی ویلیوایشن ، ڈی نامی نیشن اور بنک کمیشن سمیت تمام جدید اَشکال سودی نظام ہی کی توسیع اور حرام و ممنوع ہیں‘‘۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے کہا: اسلام نے سود کی ہر شکل کو مکمل طور پر حرام قرار دیا ہے۔ بیرونی ممالک سے سود پر قرضے حاصل کرنا بھی اسلامی حکومت کے لیے ناجائز اور ممنوع ہے‘‘۔
معروف وکلا اورقانونی ماہرین کے علاوہ جید علمائے کرام بحث میں شریک ہوئے اور قرآن و حدیث کی تفاسیر اور شروح کے علاوہ جدید معاشی کتب کے حددرجہ قیمتی ذخیرے سے نہایت اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے ریکارڈ پر لائے۔ ڈیڑھ ہزار سال میں لکھی جانے والی قرآنی تفاسیر اور فقہی آرا کے ایک عظیم علمی اثاثے سے سود سے متعلق مباحث عدالت کے سامنے لائے گئے۔ اسی طرح خود عدالت کے وضع کردہ سوالات کے ضخیم تحریری جواب نامے داخل کیے گئے۔ قرآنِ مجید کے تراجم و تفاسیر کے علاوہ تقریباً دو ہزار احادیث کے حوالے بھی پیش کیے گئے۔
مارچ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے سماعت شروع کی،توابھی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی دوسری بار منتخب شدہ حکومت کو اقتدارسے بے دخل نہیں کیاتھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کورٹ نے تقریباً پانچ ماہ تک تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا،تب بھی نواز شریف ہی وزیراعظم تھے۔تاہم، فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو نواز شریف رخصت ہوچکے تھے اورجنرل پرویز مشرف اپنے تمام تر آمرانہ جاہ و جلال کے ساتھ برسرِ اقتدار آچکے تھے۔
مشرف کی فوجی حکومت نے عدلیہ پرواضح کر دیا کہ ’’و ہ سُود کے خلاف فیصلے کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔پھر فیصلہ سنانے کے خلاف ہر سطح پر سازشیںکی گئیں۔ بنچ نامکمل کرنے کے لیے جسٹس محمود احمد غازی کو سیکیورٹی کونسل کا حلف پڑھوا دیا گیا اور ایسا کرنے سے وہ جج نہ رہے، لیکن آئین کے مطابق ایک عالمِ دین سے بھی کام چل سکتا تھا،اس لیے بنچ نہ ٹوٹااور ۲۳ دسمبر۱۹۹۹ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ سنا دیا۔عدالت عظمیٰ کے اپیلٹ بنچ نے شرعی کورٹ کے فیصلے کی نہ صرف تصدیق و تو ثیق کی ،بلکہ تقریباً ۱۱۰۰صفحات پر مشتمل تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے ’’سُود کو غیرآئینی، غیر قانونی اور اسلامی احکامات کے منافی قراردے دیا‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے طویل ترین تحریری فیصلے میں قرآن وسنت کے محکم دلائل اورگذشتہ صدیوں کے نظائر کی بنیاد پر سُود کی ہر شکل کے لیے ابدی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ اس پانچ رکنی بنچ میں جناب جسٹس خلیل الرحمٰن خان بطور چیئر مین شامل تھے، جب کہ جسٹس وجیہہ الدین،جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس مفتی تقی عثمانی اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور ممبر شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے اس قطعی فیصلے کے بعدماہرین قانون کابجا طور پر یہ خیال تھا کہ ’’اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی جسارت کوئی نہ کر سکے گا،پاکستان کی حکومت کو اس کے سامنے سر جھکانا پڑے گا اور ملک پر سے سُودی معیشت کے منحوس سائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے‘‘۔جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ کاتاریخی فیصلہ آیا ،تو پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ شروع ہو چکی تھی۔
اب اس فیصلے کی عملی تنفیذجنرل مشرف کے سپرد ہو چکی تھی،مگرجنرل مشرف نے سود کے خلاف اب تک کی پوری پیش رفت کو سبو تاژ کر دیا۔ ۲۰۰۰ء میں ان کے کہنے پر یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ نے شریعت اپیلٹ بنچ میںایک درخواست دائر کی، جس میں ۱۹۹۹ء کے فیصلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ صحیح الفکر علما اور وکلا نے ’مشرف کے ارادے بھانپ کر یہ اعتراض اُٹھایا کہ بنچ کی تشکیل خلاف آئین ہے، مگر اس ناجائز عدالت نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سماعت شروع کردی۔اس پر اسلامی نظریے کے حامی وکلا نے عدالت کی سماعت کے دائرئہ اختیار کے خلاف آواز اُٹھائی اور کہا، جن قوانین اور حقائق کا جائزہ سپریم کورٹ پہلے ہی لے چکی ہے اور عدالت ِ عظمیٰ جن پر تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے، اُنھیں نظرثانی کی آڑ میں دوبارہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔تاہم، مشرف مارشل لا کے تابع پی سی او عدالت نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کے لیے انھی مباحث کو بنیاد بنایا جن پرسپریم کورٹ پہلے ہی سیر حاصل بحث کرچکی تھی۔ بنچ کے سربراہ جسٹس شیخ ریاض احمدچیئر مین، جسٹس وقاص محمد فاروق، جسٹس ڈاکٹر خالد محمود اور جسٹس رشید احمد جالندھری ارکان تھے۔ ان ججوں کے انداز فکر سے سب آگاہ تھے، اور اب یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ یہ بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ سودکے مخالف وکلا کے ساتھ عدالت کا سلوک حددرجہ غیرمنصفانہ اور غیردوستانہ اور غیر پیشہ ورانہ تھا، جب کہ بنک کے وکلا اور سرکاری وکلا کو زیربحث مقدمے کوغلط رخ پر موڑنے کی پوری سہولت فراہم کی گئی۔
وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے فیصلے آئین کے تقاضے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے قوانین اور مرضی کے مطابق تھے۔یہ فیصلے اتنے واضح اور مبنی برحق تھے کہ اگر نظر ثانی کی اپیل کی ایک شرم ناک سازش نہ رچائی ہوتی اور بنچ کی تشکیل میں خفیہ مقاصدکارفرما نہ ہوتے، تو ان فیصلوں کی تائید وتصدیق نا گزیر تھی، لیکن مشرف آمریت سود کے ظالمانہ نظام کو باقی رکھنے پر تلی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ تھا، جس کا فیصلہ لکھنے کے بجائے اسے ماتحت عدالت کو واپس بھجوادیا گیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ سُود کے مخالفین کو واپس اس جگہ پہنچایا جائے جہاں سے سُود کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔۱۹۹۰ء میںسود کے خلاف مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں شروع ہوا تھا،۱۰ برس بعد مشرف نے اسے ملیا میٹ کر کے پھر شرعی عدالت کو بھجوا دیا۔ اس کے بعدیہ کیس یکے بعد دیگرے تین حکومتوں نے(۱۵ سال تک ) سرد خانے میں رکھا۔ پہلے مشرف، پھر آصف زرداری اور آخر میں نواز شریف کی حکومت نے اس مقدمے کی سماعت نہ ہونے دی۔ اگر کوئی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو اپیل مستردکر دی جاتی تھی۔
سپریم کورٹ کے نئے اپیلٹ بینچ میں نظر ثانی کا مقدمہ لے جانے و الے یو بی ایل کے وکیل راجا محمد اکرم نے دریدہ دہنی کی حد کر دی۔انھوں نے قرآنی آیات کی سود کو ’حلال‘ کرنے والی خود ساختہ تفسیر پیش کرتے ہوئے سود کو جائز قرار دیا۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۳۰ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبـٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۰۠ کی واضح تحریف کرتے ہوئے راجہ اکرم نے کہا ، اس آیت میں سود سے متعلق اضعَافًا مُّضَاعَفَۃً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور لوگوں کو دوگنا چوگنا سود وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر سود کی رقم دوگنی چوگنی رفتار سے نہیں بڑھتی،تو ایسے سود کی اسلام میں اجازت ہے۔ حالانکہ یہ آیت سود کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں نازل ہی نہیں ہوئی تھی،یہ تو غزوئہ احد میں بعض مسلمانوں کے فتح مکمل ہونے سے پہلے مال غنیمت کی طرف راغب ہونے پر بطور تنبیہ نازل ہوئی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
اُحد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقعے پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لْوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیمِ مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سود خواری سے باز آ ؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اس وکیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سود کے متعلق قرآن وسنت کی ہدایات قانونی نہیں، بلکہ اخلاقی درجے کی ہیں۔ اس لیے سود کی حرمت کو پاکستان کے عوام پر بذریعہ قانون نافذ کرنا قرین انصاف نہیں۔ حالانکہ قرآن پاک کے سب سے بڑے مفسر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودلینے اور دینے والے اور سود لکھنے اور سود کی شہادت دینے والے پراللہ کی لعنت فرمائی ہے۔
آج شریعت کورٹ میں سود کا مقدمہ قدیم ترین مقدمات میں شمار ہوتا ہے۔شریعت کورٹ اورسپریم کورٹ میں چلتے ہوئے اس کیس کو ۳۲واں برس آ لگا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان پر قابض بدعنوان حکومتوں نے دو اہم ترین فیصلوں کو نافذ ہونے دیا ہوتا،تو ملک اتنی بُری طرح سودی قرضوں میں جکڑا ہوا نہ ہوتا۔ماضی کی سب حکومتوں کی یہی خواہش رہی کہ عدالتوں میں سود کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر ہوتی رہے۔چنانچہ گذشتہ ۳۰برس میں تمام حکمرانوںکی طرف سے تاخیر در تاخیر کے سوا کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اپریل ۲۰۱۷ء میںشرعی عدالت میںچوتھی مرتبہ اس کیس کی سماعت شروع ہوئی مگر پہلی سماعت کے بعد ہی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس سماعت سے منفی اشارے ہی ملتے رہے۔ چند برس پہلے شریعت کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو اس دور کے چیف جسٹس صاحب کے جو ریمارکس اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں، وہ کسی طرح بھی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے شایانِ شان نہیں۔ انھوں نے بعض مجالس میں کھلے بندوں کہہ دیا: ’’آج کے دور میں اسلام ناقابلِ عمل ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات آج کے معاشرے میں نافذ نہیں ہو سکتیں‘‘۔ انھوں نے کہا:’’موجودہ دور میں اسے سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ کہا جائے گا‘‘۔ ان الفاظ سے ان کی واضح جانب داری ثابت ہوجاتی ہے۔ اگر چیف جسٹس کے موقف کو قبول کر لیا جائے تو پھر آئین پاکستان میں جن دفعات میں قرآن و سنت کے نفاذ اور حکومت کو ان کے نفاذ کا پابند بنایاگیا ہے، وہ بھی بے مقصد اور محض نمایشی قرار پاتی ہیں اور پھر خود اس شرعی عدالت کے قیام کا ہی کیا جواز باقی رہتا ہے۔
آئینِ پاکستا ن کے تقاضے کے تحت چالیس برس پہلے سود کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کی گئی تھی۔ دینی جماعتوں، اداروں اور افراد نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مقدمات چلے، مگر اس دوران حکمرانوں،افسر شاہی اور عدلیہ کے ایک حصے نے سود کی بقا کے لیے پورا زور لگا دیا۔ سُودی معیشت کے خاتمے کے مطالبے کو نواز شریف، بے نظیر،مشرف اور زرداری کے اَدوار میں حکومتی وسائل سے ناکام بنایا گیا۔سودی معیشت کو ختم کرنے کی تحریک کے خلاف ۲۰۱۳ء سے۲۰۱۸ء تک نواز شریف نے ہر ممکن تدبیر کی۔اور پھر جولائی ۲۰۱۸ء کے بعد عمران خان،سود کے دفاع کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ان کے دورِ حکومت میں سود کے خاتمے کے سفر کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس مقدمے کی تازہ سماعتوں پرعمران خان حکومت کے رویے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سُود کو ختم کرنے کے بجائے وہ اس مقدمے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سرکاری وکیل نے شروع میںتو عدالت کو تسلیم کیا،مگر اب وہ اس کا یہ اختیار ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے پہلے تو یہ کہاتھاکہ وہ خود پیش ہو کر چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن پھر ۳فروری ۲۰۲۱ءکی سماعت میں حکومت نے سود سے متعلق کیس کی سماعت میںوفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’شرعی عدالت یہ کیس سننے کا اختیارہی نہیں رکھتی۔ یہ آئین کی تشریح کا مقدمہ ہے۔ آئین کی تشریح صرف سپریم کورٹ کا اختیار ہے‘‘۔
چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جماعت اسلامی سمیت دیگر دینی جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے پہلے توعدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے اٹارنی جنرل کے موقف تبدیل کر نے کو مسترد کر دیاتھا، مگر تازہ سماعت میں عدالتی دائرۂ اختیار کے حوالے سے درخواست پیش کرنے کا حکم دے دیاہے۔ عمران حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنے کا دوسرا ثبوت اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا رویہ ہے۔ عدالتی ہدایت کے باوجود اس سماعت پر بھی سٹیٹ بنک کی جانب سے تحریری جواب جمع نہیں کروایاگیا۔اسٹیٹ بنک نے سودی نظام کے خلاف مقدمات میں طویل التوا کی درخواست دی، جوشرعی عدالت نے مسترد کر دی۔چیف جسٹس محمد نورمسکان زئی نے کہاہے کہ ’’سود کا خاتمہ آئینی تقاضا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
۲۰۰۲ء میں جب سود کے خاتمے کا مقدمہ مشرف کی خواہش پر شریعت کورٹ میں بھیج دیا گیا، تو اس مقدمے کے غم زدہ مدعیوں اور ورثاء میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔اگرچہ کچھ اور جماعتوں، اداروں اور افرد نے بھی سود کے خلاف مقدمے میں حصہ لیا،لیکن حکومتی عدم دل چسپی اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے بعض اوقات سماعت کے موقعے پر صرف جماعت اسلامی کے وکیل ہی نظر آتے تھے۔مختلف حکومتوں کی خواہش تھی کہ سود کے خلاف پاکستانی عوام کی عدالتی جدوجہد ہمیشہ کے لے دم توڑ دے،مگر جماعت اسلامی اوراس کے وکلا کی بھرپور کوششیں جیسے تیسے اسے زندہ رکھنے میں کامیاب رہیں۔ فروری ۲۰۱۹ء میں جماعت اسلامی کے واحد رکن مولانا عبد الاکبر چترالی کا قومی اسمبلی میں سود کے خلاف بل پیش کرنا بھی جماعت اسلامی کی انھی کوششوں کا تسلسل ہے۔
مولانا چترالی نے امتناع سود کابل پیش کیا ،تو حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے کسی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ اس طرح بل قائمہ کمیٹی برائے قانون کوبھیج دیاگیا، تاہم کمیٹی کی سُست رفتار کارروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سود کے خاتمے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اس امتناع سود بل میں۲۹ مقامات کو نشان زد کیا گیا ہے، جہاں سود کی ناپاک مداخلت اور سودی قوانین کو ہدف بنایا گیاہے، جن کے ذریعے پاکستان میں سودی معیشت کو تحفظ حاصل ہے۔
مولانا عبد الاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں اپنے بل کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’قومی اسمبلی کے سپیکر اور وزیراعظم سمیت تمام ارکان اسمبلی نے پاکستا ن کے آئین پر حلف اْٹھایا ہواہے۔ا س آئین میں اللہ رب العالمین کوحاکم اعلیٰ اور قرآن و سنت کو سپریم لا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کی جا سکے گی۔اس آئین کی دفعہ ۳۸ -الف کے تحت سود کا خاتمہ بھی ایک اہم آئینی تقاضا ہے۔ ہمارا آئین سود کو حرام کہتا ہے، مگر ہمارا عمل اس کے خلاف ہے۔ ہمارے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۸ء تک پانچ برسوں میں پاکستان پر۲۴؍ ارب ۳۲کروڑ بطورسود واجب الادا تھا۔سود کی ادائیگی کے لیے گذشتہ سال کے بجٹ میں تقریباً ۱۷۰۰؍ ارب روپے مخصوص کیے گئے تھے،جو اَب بڑھ کر ۳۰۰۰؍ارب ہو چکے ہیں۔سود کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا پورا دفاعی بجٹ سود کی سالانہ قسط کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ یعنی نہایت خطرناک رفتار سے سود کی ادائیگی کے لیے ہر گزرتے سال کے ساتھ بجٹ میں مختص رقم بڑھ رہی ہے۔ اگر ایک سال میں سود کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آیندہ ایک دو سال میں سود کے لیے مختص بجٹ چار پانچ ہزار ارب تک پہنچ جائے گا۔اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے مستقبل قریب میں پاکستان کا سارا بجٹ ہی سود کھا جائے گا۔ اسلامی بنکاری میں اضافے کے خوش نما اعلانات تو بہت کیے گئے،مگرگذشتہ ۱۷برس میں ہم اسلامی بنکاری میں کوئی اضافہ نہیں کر سکے۔ ملک میں ۸۴فی صد سودی بنکاری کے مقابلے میں اسلامی بنکا ری کا حجم صرف ۱۶ فی صد ہے‘‘۔
قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی کے پیش کردہ ’امتناعِ سود بل‘ پر بحث ومباحثے کے بعد جب کچھ سب کمیٹیاں بنائی گئیں تو مولانا چترالی کے کہنے پرچند علما کو بھی سب کمیٹیوں میں شامل کیا گیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس کمیٹی میں مولانامفتی تقی عثمانی صاحب کو بھی شامل کیا جائے۔ ۱۹ نومبر ۲۰۲۰ء کے اجلاس میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام شامل تھا،لیکن انھوں نے اس اجلاس میں شرکت سے اس لیے معذرت کر لی کہ ان کو بتایاہی نہیں گیا کہ وہ کس حیثیت سے شریک ہورہے ہیں۔اس کے بعد سے کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔یاد رہے کہ مفتی صاحب ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کے ایک اہم رکن تھے،جس نے سود کے خلاف فیصلہ لکھا تھا۔
’ امتناعِ سود بل‘ کے موضوع پر قائمہ کمیٹی کے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ ابتدائی اجلاسوں میں حکومتی مالیاتی پالیسی کی نمایندگی کے لیے سٹیٹ بنک کے اعلیٰ افسر شریک ہوتے رہے، جنھوں نے پورا زورسودی بنکاری کی حمایت پر لگادیا۔تیسرے اجلاس میں مولانا عبدالاکبر اور سٹیٹ بنک کے ایک اہل کار کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس موقعے پرمولانا چترالی نے مطالبہ کیاکہ آیندہ ماتحت افسروں کے بجائے گورنر اسٹیٹ بنک کو اجلاس میں بلایاجائے۔ چنانچہ چوتھے اجلاس میں گورنر سٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ شریک ہوئے۔اس اجلاس کے آخر میں سٹیٹ بنک کے گورنر نے درخواست کی کہ مذکورہ بل انھیں دے دیا جائے،تاکہ وہ متعلقہ افسروں کے ساتھ مشاورت کرکے آیندہ اجلاس میں قابل عمل تجاویز پیش کر سکیں۔ اس کے لیے انھوں نے دوماہ کا وقت مانگا۔ کمیٹی نے دو ماہ دے دیے، دوماہ مزید مانگے، وہ بھی دے دیے گئے۔ چار ماہ بعد پھر ایک ماہ کی مزید مہلت مانگ لی،مگرپانچ ماہ پورے ہونے سے پہلے کرونا کی وباکا مسئلہ سامنے آگیا، تو چارماہ کی مزید تاخیر ہو گئی۔ اگست۲۰۲۰ء میں انھوں نے کمیٹی کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس کا اس بل سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،بلکہ یہ سٹیٹ بنک کی وہ پانچ سالہ رپورٹ تھی، جو بنک ۲۰۰۲ء سے پیش کرتا چلا آیا ہے۔ باعث حیرت بات یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کی طرف سے پون سال گزرنے کے باوجود امتناع سود کے بل میں نہ توکوئی ترمیم لائی گئی نہ کوئی تجویز ہی شامل کی گئی۔ اس پر مولانا چترالی صاحب نے سوال اٹھایا کہ ہمیں بتایا جائے اس رپورٹ کا ہمارے پیش کردہ امتناعِ سود بل سے کیا تعلق ہے؟
اگرچہ حزب اقتدار اور اپوزیشن کے متعدد ارکان نے مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب کو یقین دلا یاہے کہ وہ اس بل کو پاس کرانے میں پوری مدد کریں گے،لیکن ماضی میں بھی کئی بار اس قسم کے خوش نُما وعدے کیے جا چکے ہیں،جن پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔اگر موجودہ وفاقی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ بل بھی سُود کے خلاف سپریم کورٹ کے مقدمے کی طرح لٹکارہے ۔ اور حکومت کی جانب سے بھی وہی روایتی تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چھیڑی ہوئی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور سودی قرضوں سے نجات پانے کے بجائے نئے سودی قرضے چڑھائے جاتے ہیں، توموجودہ حکومت بھی یاد رکھے کہ بدترین ناکامی اور ذلت و رُسوائی کے سوا اسے بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔
ان غیر مبہم ، واضح اور مستند تحریری و تقریری بیانات کے مطالعے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم کا بیانیہ اسلامی پاکستان، اسلامی معیشت ، اسلامی معاشرت اور اسلامی ثقافت کے علاوہ کوئی اور تھا۔اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر اور ایک دوسرے موقعے پر جسٹس منیر کے قائد اعظم سے منسوب ایک گمراہ کن بیان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہےتاکہ وہ نسل جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے حقائق سے آگاہ ہو اور قائد اعظم کی اصل تصویر ان کے سامنے آ سکے۔
ٹیلی ویژن کے دانش وَر اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے ’سیکولر‘ اسکالرز بار بار کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے ۱۱؍ اگست کی تقریر میں مذہب اور ریاست کو الگ کر کے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کر لیا۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر درج کردہ درجن بھر سے زیادہ بیانات جو ان کے اپنے قلم سے تحریر کردہ ہیں اور جو تقاریر وہ لکھ کر پڑھتے تھے ان میں مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیت کا مطلب اسلامیت اور نظریۂ پاکستا ن کا مطلب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے یہ سب بیانات ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکے بعد کے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم محض ایک مفروضے کے طور پر سیکولر طبقے کی ذہنی اختراع کو مان بھی لیں تو ان ساری تحریروں ،بیانات کے بعد۱۱؍ اگست کے خطاب کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے؟ ہم چند لمحات کے لیے اگر یہ مان بھی لیں کہ قائد نے تمام زندگی میں صرف ۱۱؍ اگست کو ہی ایک تقریر کی، تب بھی حقیقت وہ نہیں ہے، جو مخصوص طبقے کا دعویٰ ہے۔
آئیے اس تقریر کو جو تحریری تھی اور جس کا مسودہ ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی مرتب کردہ دستاویزات میں پایا جاتا ہے، خود پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت کی گئی ۔ تقریر کا متن مع حوالہ درج ذیل ہے:
As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class.... The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of great Britain and they all are members of the nation. Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Qua‘id -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989, P271)
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیساکہ آج ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیںجہاں ایک مخصوص فرقےسےامتیاز برتا جاتاہے اوران پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں…
انگلستان کےباشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنےوالے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اوراس بارِ گراں سے سبکدوش ہوناپڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کےاس مرحلے سے بہ تدریج گزر گئے۔ آپ بجاطورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ، اب جو چیز موجودہے وہ یہ کہ ہرفرد ایک شہری ہے اورسب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کےسب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہند و رہےگا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے (قائداعظم: تقاریرو بیانات ، جلدچہارم، ص ۳ ۶۰)۔
اس تقریر کو پُراسرار بنانے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ اس کے مسودہ کو کہیں چھپاکر رکھا گیا تھا اور قوم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ یہ تقریر ہراس مجموعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں قائد کے خطابات کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یک جا کیا گیا ہے۔ ہمارایہ حوالہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے طبع کردہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء کی تقاریر و بیانات کی مطبوعہ کتاب سےہے ۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کا پیش لفظ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ اس کو عوام سے چھپایا گیا ۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ تقریر میں کیا کہا گیا۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اس تقریر کا پس منظر بیان کرتے ہیں ، جس کا جاننا بہت ضروری ہے:
Islamic ideology recognizes a distinction of meaning in the words "mazhab" and "din". "Mazhab" means personal faith, view point or path, whereas "din" means a body of those universal principles of Islam which are applicable to entire humanity. Therefore, in this sense, Pakistan does not have any specific mazhhab; because it is neither founded on nor projects the personal viewpoint of any particular Muslim sect. This very important aspect of the Sate of Pakistan was clarified by the Quaid-e-Azam in his famous Presidential address to the Constituent Assembly on August 11, 1947:
"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State" (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005 P.16).
نظریۂ اسلام ’مذہب‘ اور’دین‘ کے معنوں میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ ’مذہب‘ کا مطلب ہے ذاتی اعتقاد، نقطۂ نظر یا راستہ، جب کہ ’دین‘ کا مطلب ہے اسلام کے وہ عالم گیر اصول جو تمام نوعِ انسانی پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مفہوم میں تو پاکستان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ اس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور نہ یہ کسی مخصوص مسلم فرقے کی فکر کو فروغ دیتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس نہایت اہم پہلو کی وضاحت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ءکو قانون ساز اسمبلی سے اپنے مشہور صدارتی خطاب میں کر دی تھی: ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا کسی بھی عبادت کی جگہ پر جانے کے لیے پاکستان کی ریاست میں آزاد ہیں۔ آپ جس بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے اُمور سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔
گویا قائد نے پہلی بات یہ کہی کہ ملک کی آزادی کے بعد جدوجہد آزادی کے دوران جو فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوا اب اس سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی فکر کے تناظر میں بین المذاہب تعلقات پر غور کی ضرورت ہے ۔چنانچہ برطانیہ کی مثال دے کر یہ بات کہی کہ وہاں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے یا مسلک کے افراد نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کا قتل عام کیا لیکن آخر کار وہ سمجھ گئے کہ ان سب کو ملک کے دستور و قانون کے مطابق امن اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا ۔ایسے ہی اب پاکستان بننے کے بعد اس کے قیام کے دوران جو ہندو مسلم اور سکھ فساد او رقتل وغارت کی گئی اسے بھلا کر ملک میں قانون کی برتری کو قائم کرنا اورقانون پر اعتمادبحال کرنا ہو گا ۔اور یہ کرتے وقت برطانیہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گاکہ وہاں پر اب نہ کوئی کیتھولک ہے نہ پروٹسٹنٹ بلکہ دونوں فرقے یکساں شہری کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں۔ گو ذاتی طور پر وہ اپنے مسلک پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان بننے کے بعد ریاست کسی کو محض ہندو یا عیسائی یا پارسی ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ نہیں بننے دے گی۔ وہ ریاست کی نگاہ میں یکساں شہری ہوں گےاور ان کا مسلکی یا مذہبی معاملہ ان کی ذات تک ہوگا۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قائد نے برطانیہ کی مثال اس لیے پیش کی کہ مسلک کی بنیاد پر جس طرح عیسائی وہاں قتل و غارت کر رہے تھےایسے ہی تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے۔اس میں نہ کسی سیکولر ازم کی طرف اشارہ ملتا ہے اور نہ یہ بات کہ پاکستان میں اسلام ریاست کی بنیاد نہیں ہو گا ۔لیکن لبرل دانش وَروں نے پوری تقریر پڑھے اور سمجھے بغیر محض لفظ Religionکے استعمال کی بنیاد پر ایک خیالی محل تعمیر کر ڈالا اور اسے اتنی بار دُہرایا کہ لوگوں کو یقین آ جائے۔اسے علمی دیانت اور اصول تحقیق سے واضح انحراف کی ایک شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد کہ مذہب یاReligionسے مراد مسلک ہےجو ایک ذاتی پسند ہے، جب کہ اسلام دین، یعنی مکمل نظام حیات ہے،اس مغالطے کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سے قبل نصف درجن تقاریر و بیانات میں قائد اعظم اسلام کی تعریف جس طرح کرتے ہیں ، اس کو مسجد کی نماز تک محدود ایک ذاتی مذہب نہیں کہا جا سکتا ۔وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، جو معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی شعبوں میں الہامی ہدایات فراہم کرتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان کے بقول ہندوؤں اور بعض مسلمانوں کے ذہن میں نہیں آتی۔
دوسرا بڑا ظلم کرنے والا کوئی انگریز یا امریکی مستشرق نہیں بلکہ پاکستان کی عدالت عالیہ سے وابستہ ایک فرد ہے جو بہت سے دیگر مصنّفین کو گمراہ کرنے کا واحد ذریعہ بنا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں تحریر کرتے ہیں :
The pattern of government which the Qua’id –i–Azam had in mind was a secular democratic government.This is apparent from his interview which he gives to Mr Doon Campbell ,Reutter’s correspondent in New Dehli in 1946, in the course of which he said: "The new State would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of religion cast or creed" (M.Munir, From Jinnah to Zia , Lahore, Vanguard book,1980,P29).
وہ طرزِ حکومت جو قائداعظم کے ذہن میں تھا وہ ایک سیکولر جمہوری طرزِ حکومت تھا۔ اس کا اظہار ان کے اس انٹرویو سے ہوتا ہے جو انھوں نے رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل کو ۱۹۴۶ء میں نئی دہلی میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام اورنئی قوم کے ارکان کی ہوگی جن کو مذہب، ذات یا مسلک سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستانی نژاد برطانوی محقق سلینا کریم نے اپنی محققانہ تصنیف Secular Jinnah and Pakistan: What the nation Does't know میں جسٹس منیر کی تحریر اور خصوصاً رائیٹر کے نمایندے Doon Campbell کے انٹریوو کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :
The date of the Reuter’s interview of Jinnah with Doon Camble provided by Munir was simply the year 1946. No proper reference was provided anywhere in the book.The actual date of this interview is 21May 1947. The full transcript of the interview appears in the first volume of Z.H.Zadi’s Jinnah Papers. This in turn was obtained from an original typewritten document containg corrections in Jinnah’s own handwriting as well as his signature, conforming the textual authority of this particular interview. In particular wording of the text as given by Munir does not appear in the interview (Saleena Karim, Secular Jinnah and Pakistan: What the Nation doesn’t know, Karachi, Paramount Publishing Enterprises, 2010, P.30).
جناح کی رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل سےانٹرویو کی تاریخ جو [جسٹس ] منیرنے دی ہے وہ محض ۱۹۴۶ء ہے۔ کتاب میں کوئی معقول حوالہ کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اس انٹرویو کی اصل تاریخ ۲۱مئی ۱۹۴۷ء ہے۔ انٹرویو کا مکمل متن زیڈ ایچ زیدی کے Jinnah Papers کی پہلی جلد میں سامنے آیا ہے۔ یہ درحقیقت ٹائپ کیےہوئے اس اصل مصدقہ دستاویز سے حاصل کیا گیا ہے جس پر جناح کی اپنی تحریر میں تصحیح کے ساتھ ساتھ دستخط موجود ہیں جو اس مخصوص انٹرویو کی مستند حیثیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ متن کے وہ مخصوص الفاظ جن کی نشان دہی [جسٹس]منیر نے کی ہے انٹرویو میں نہیں ملتے۔
سلینا کریم کی تحقیق کے مطابق اور ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی سرکاری نگرانی میں طبع شدہ کتاب میں موجود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے اصلاح شدہ مسودہ میں جسے ان کے سیکرٹری نے ٹائپ کیا اور انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کے بعد آخر میں اپنے دستخط بھی کیے ،وہ الفاظ نہیں پائے جاتے جو جسٹس منیر نے قائد سے منسوب کر کے یہ بات پھیلا دی کہ وہ مغربی طرز کی سیکولر ریاست چاہتے تھے۔ دستاویز کے الفاظ یہ ہیں :
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government.Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect , which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010, p30-31).
لیکن حکومت پاکستان صرف ایک عوامی نمایندہ اور جمہوری طرز کی حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اورکابینہ، پارلیمنٹ کو جواب دہ اور بالآخر یہ دونوں راے دہندگان اور عوام کو بلاامتیاز ذات، مسلک یا فرقہ جواب دہ ہوں گے، اورحکومت وقتاً فوقتاً جو حکمت عملی اورپروگرام بناتی ہے اس ضمن میں یہ عنصر حتمی فیصلہ کن ہوگا۔
The question Doon Campbell asked was : on what basis will the central administration of Pakistan be set up?? In other words he wanted to know the thought of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state and how this would affect its relationship with neighboring countries? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose, and this would have surly suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted (Saleena Karim, 2010, p-31).
ڈون کیمپبل نے جو سوال پوچھا تھاو ہ یہ تھا: پاکستان کی مرکزی انتظامیہ کن بنیادوں پر قائم ہوگی؟ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست اورکس طرح یہ اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو متاثر کرے گی؟ جناح کے لیےیہ ایک اچھا موقع تھا، اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دےدیتے، اور یہ بات مغربی سامعین کو یقیناپسند آتی جن کےمفاد کے پیش نظر یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے جو الفاظ قائد سے منسوب کیےوہ اصل دستاویز میں نہیں پائے جاتے،مثلاً قائد نے درج ذیل الفاظ قطعاً استعمال نہیں کیے:
the new state would be a modern democratic state.
اور نہ sovereigntyکا لفظ ہی استعمال کیا اور نہ religionکا۔ سلینا اپنی کتاب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر واقعی قائد سیکولر ریاست چاہتے تھے تو یہ بہت اچھا موقع تھا کہ بیرونی اخباری نمایندہ اس بات کو دنیا میں پھیلا دیتا لیکن قائد نے ایسا نہیں کیا۔دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ماہر قانون جس کی ساری عمر دستاویزات جانچنے ، پرکھنے اور ان پر فیصلے کرنے میں گزرتی ہے کس منہ سے سو فی صد غلط بیانی کر تا ہے؟ مگر حقائق یہی ہیں اور سلینا کریم نے اصل مسودہ تلاش کر کے جسٹس منیر کی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا ماخذ مانتے ہوئے بہت سے غیر مسلم اور مسلم ماہرین کے خیال کی مستند تردید کردی ہے۔
دستورپاکستان اور شریعت
بانی ٔپاکستان نے میلاد النبی کی ایک تقریب میں کراچی کے وکلا کی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ۲۵جنوری۱۹۴۸ء کو واضح الفاظ میں بیان کیا کہ نظریہ پاکستان کے جو دشمن بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں اور ان کا اشارہ خصوصاً ڈاکٹر خان کی طرف تھا جو سرحدی گاندھی باچاخان کی طرح دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کےمخالف تھے ۔قائد اعظم نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ جو شریعت ۱۳۰۰سال پہلے درست تھی وہی آج بھی درست ہے اور وہی دستور کی بنیاد ہو گی:
He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia. The Qua’id-e-Azam said “the Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. The Governor General of Pakistan said that he would like to tell those who are misled "some are misled by propagating" that not as the Muslim but also the non-Muslims have nothing to fear and its idealism have taught democracy. Islam has taught equality, justice and fair play to everybody. What reason is there for anyone to fear democracy, equality of man, freedom and the highest standard of integrity and on the basis of fair play and , justice for everybody. The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah said, Let us make it (the future constitution of Pakistan). We shall make and we will show it to the world (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48, Government of Pakistan, 1989, p125).
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوںکا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرناچاہتاہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پراسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہیں ، انھیں بتا دینا چاہتاہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموںکو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسلام اوراس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نےہرشخص کومساوات، عدل اورانصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اورحُریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ وہ دیانت کےاعلیٰ ترین معیارپرمبنی ہو اور اس کی بنیاد ہرشخص کے لیے انصاف اور عدل پررکھی گئی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا: ’’ہمیں اسے (پاکستان کا آیندہ دستور) بنا لینے دیجیے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم،ص ۴۰۲)
قائد اعظم کے دستور پاکستان کے شریعت پر مبنی ہونے کے بیان کی مزید تائید قائد کے ان اقدامات سے ہوتی ہے جو انھوں نے اس حوالے سے کیے ۔ ہم یہاں صرف دو ایسے شواہد کا ذکر کریں گے ، جن کی سند کی ضرورت نہیں ۔ اول علامہ محمد اسد کو قائد کے مشورے پر ’قومی تعمیر نو‘ کے ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا کہ وہ اسلامی دستور کا مسودہ تیار کریں۔ دوسرے دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ تعلیمات اسلامی بورڈ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری مولانا ظفر احمد انصاری کی زیرنگرانی قائم کیا گیا ۔جس کی صدرات مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کی گئی اور اس بورڈنے قرارداد مقاصد اور دستور میں اسلامی دفعات کی تیاری کا فریضہ انجام دیا ۔
اسلام کے معاشی نظام پر بات کرتے ہوئے،انتقال سے بہ مشکل دوما ہ قبل یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا :
I shall watch with keenness the work your Research organization, in evolving banking practices compatible with the Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insolvable problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world... The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and prove to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of mankind and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it,and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind (ibid, p 271).
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طورطریقوں کو معاشرتی اوراقتصادی زندگی کےاسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کےسلسلے میں جو کام کرے گا مَیں اس کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثرکو یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسےاس وقت سامنا ہے.... مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے خوش و خرم اورمطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اوردُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچاسکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اورانسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
یہ حقیقت ہر باشعور پاکستانی کے علم میں ہے کہ ۱۹۳۳ء میں کمیرج یونی ورسٹی کے چند طلبہ جن میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفیق کار خواجہ عبد الرحیم شامل تھے ، شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے پیش نظر ان صوبوں کے ناموں میں سے حروف لے کر ملک کے لیے ایک نام تجویز کیا تھا جو ’پاک-ستان‘ تھا۔اس تجویز کے محرک چودھری رحمت علی تھے۔
جو بات قوم کے علم میں نہیں لائی گئی وہ یہ ہے کہ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو، یعنی قرارداد پاکستان کے اگلے روز لاہور میں خواجہ عبدالرحیم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ۔ اس موقعے پر قائد اور خواجہ عبدالرحیم کی گفتگو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان کے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کا کیا تعلق تھا اور پاکستانیت یا پاکستانی قومیت کی بنیاد کس تصور پر ہے؟
“On March 24, 1940, a day after the Lahore Resolution, Khawaja Abdurrahim one of those who in Cambridge proposed the name of the country invited the Quai’d at his residence. The Quai’d told him Rahim the name you gave in 1930 is highly talked about in Hindu press.Khawaja Rahim asked the Quai’d then what should be the name in your view, Allama Iqbal in those days had already endorsed this name. The Quai’d said "if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add 'I' which stands for Islam and is the link between these provinces". Khawaja Rahim conveyed it to Chaudary Rahmat Ali, who was visiting Karachi those days (Sultan Zaheer Akhter, Shayed Keh Tery Dil main uter jai meri baat, Rawalpindi, Tanzim Karkunan-i-Pakistan, 1998, p 23-24).
۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء ، قرارداد لاہورکےایک روز بعد، خواجہ عبدالرحیم نے جو ان میںسے ایک ہیں جنھوں نے کیمرج میں ملک کا نام تجویز کیاتھا، قائداعظم کو اپنی رہایش گاہ پر مدعو کیا۔ قائد نے ان سے کہا کہ ۱۹۳۰ء میں جو نام آپ نے تجویز کیا ہے ہندو پریس میں اس کا بہت چرچا ہے۔ خواجہ رحیم نے قائدسےپوچھا کہ ان کی رائے میں ملک کا کیا نام ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال پہلے ہی اس نام کی تصدیق کرچکے تھے۔ قائد نے کہا: ’’اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک -ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خواجہ رحیم نے چودھری رحمت علی کو اس سے آگاہ کیا جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے۔
کیا اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد بھی کوئی شخص قائد کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا تصور پاکستا ن اسلام کے علاوہ کچھ اور تھا؟
قائد اعظم کی فکر کا تسلسل اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان کا حصول ہر دور میں ان کی تقاریر اور بیانات کا موضوع رہا لیکن ’لبرل‘ دانش وروں ، نوکر شاہی ، ابلاغ عامہ پر قابض تجزیہ نگاروں نےبھرپور کوشش کی کہ قائد کو ایک سیکولر شخص کے طور پر projectکیا جائے۔ خود قائد کا اپنا اسلام سے تعلق کتنا گہرا تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تقریر سے کیا جا سکتا ہےجو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ ۱۹۳۹ء میں کی گئی:
I have seen enough of the world and possess a lot of wealth.
I have enjoyed all comforts of life. Now my only desire is to see the Muslims flourish and prosper as an independent community. I want to leave this world with a clean conscience and content with the feeling that Jinnah had not betrayed the cause of Islam and the Muslims. I do not want your praise nor any certificate. I only want that my heart, my conscience and my faith should prove at the time of my death that Jinnah died defending Islam and cause of the Muslims. May my God testify that Jinnah lived and died a Muslim fighting against the forces of "Kufar" and holding the flag of Islam high (Address at All India Muslim League 1939 reported in Daily Inqalab Lahore, October 22, 1939, Quoted by Dr.Safdar Mehmood, "Quaid wanted Islamic, democratic state, Dawn Pakistan Day Supplement" , March 23, 2002, P5).
میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اورکافی دولت رکھتا ہوں۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہےکہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اورآزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اورپورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اورمسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میراضمیراور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اورمسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہواہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح ’کفر‘کی قوتوں کےخلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور اسلام کےپرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔
ہم آخر میں صرف دو مزید حوالے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق قائد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اس کے راوی نامورمسلم لیگی لیڈر مولانا حسرت موہانی ہیں:
In 1945, Maulana Hasrat Muhani went to see the Quai’d at his Delhi residence (10- Aurangzeb Road) and was told he does not like to meet people at this evening hour. It was time for Magrib prayer, the maulana prayed in the lawn, and then started walking in the corridor. He heard some whispers and thought the Qua’id is talking with someone, he tried to peep into his room. What he saw was reported by him: "The Quai’d was sitting on prayer rug and was praying to Allah for the success of the Muslims with tears and sobs" (Agha Ashraf, Muraqa Quaid-i-Azam, Lahore, Maqbool Academy, 1992).
۱۹۴۵ء میں، مولانا حسرت موہانی، قائدسے ملنے کے لیے دہلی میں ان کی رہایش گاہ (۱۰- اورنگ زیب روڈ) پر گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ شام کے ان اوقات میں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ مولانا نے باغیچے میں نمازادا کی اور پھر برآمدے میں چہل قدمی شروع کردی۔ ا نھوں نے سرگوشی سنی اور سمجھا کہ قائد کسی سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کے بقول: ’’قائدجائے نماز پر بیٹھے تھے اور وہ آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ سے دُعاگو تھے‘‘۔
دوسری اہم دستاویز وہ عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ کے عہدے داران نے دہلی میں ۹،۱۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقدہ اجلاس میں اٹھایا ۔اس عہد نامہ کا آغاز قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۱ سے ہو رہا ہےاور اختتام سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہوتا ہے ۔
عہدنامے کا آغاز سورئہ انعام کی آیت سے ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ (انعام ۶: ۱۶۱) ’’میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
عہد نامہ کا اختتام بھی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہو رہا ہے: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۵۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہماری مدد کر‘‘۔
اس عہد نامہ کے الفاظ اور ان پر قائد اعظم کے دستخط اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی پوری جدوجہد ِقیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی زندگی اور موت کو کس عقیدہ سے وابستہ سمجھتے تھےاور اس وابستگی کے اظہار میں کسی معذرت کے بغیر پوری استقامت کے ساتھ قائم تھے۔
ایک بنیادی سوال اس عہد نامہ کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا اس عہد نامہ کے کرنے والے بہ شمول ایک ماہر قانون اور بے باک اور نڈر قائد یہ عہد ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے اُٹھا رہے تھے ؟ کیا قائد اعظم نے اپنے دستخط کرتے وقت اس عہد نامہ کو پڑھ کر اور سمجھ کر دستخط کیے تھے یا محض مروتاً دستخط ثبت کر دیے؟ ایک ماہر قانون جس نے زندگی میں کوئی جھوٹا مقدمہ ہاتھ میں لینا پسند نہیں کیا۔کیا وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اس عہدنامے پر دستخط کر سکتا ہے ؟قائد کے کردار ، عزم ، جرأت اور دوٹوک بات کرنے کی روایت کی روشنی میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دانش وَروں اور لبرل ازم کے سہارے زندہ رہنے والے افراد نے قائد کی حیات اور فکر پر بھاری ظلم کیا ہے اور پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے۔
دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک غیر مسلم محقق نے سمجھ لی اور جس کا اظہاروہ اپنی ایک مشہور کتاب میں کرتا ہے ، اس پر ہمارے بہت سے دانش وَر آج بھی جانتے بوجھتے شکوک میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ کنا ڈا کے تقابل ادیان کے ماہر کینٹول اسمتھ جنھوں نے ایک عرصہ علی گڑھ میں گزارا پھر تحریک پاکستان کے دوران لاہور کے فورمین کرسیچین (FC) کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور جو اردوسے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے جس کا راقم چشم دید گواہ ہے، وہ تصور پاکستان کو یوں چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
In the Pakistan case…the whole raison detre of the state was Islam:it was Islam that first brought it into being, and that continued to give it meaning. The purpose of setting up the state was to enable Muslims here to take up once again the task of implementing their faith also in the political realm".
…Pakistan came into being as already an Islamic state not because its form was ideal but because, in so far as, its dynamic was idealist To set up an Islamic State then was the beginning not the end of an adventure.To achieve an Islamic state was to attain not a form but a process (Wilfred Cantwell Smith, Islam in Modern History, New York, Mentor Books 1957, P 217-219).
پاکستان کے معاملے میں …ریاست کا حقیقی مقصد اسلام تھا: یہ اسلام ہی تھا جو سب سے پہلے اسے معرضِ وجود میں لایا اورجس نے اس کے مفہوم کا تعین کیا۔ ریاست کا مقصد مسلمانوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ ایک بار پھراپنے ایمان پرعمل پیرا ہوسکیں اور میدانِ سیاست میں بھی…
پاکستان ابتدا ہی سے ایک اسلامی ریاست کےطور پر معرضِ وجود میں آیا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مثالی تھا بلکہ اس کا محرک اصولِ پسندی تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام ایک مہم کا انجام نہیں بلکہ آغاز تھا۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل محض ایک وجود کا حصول نہیں بلکہ ایک عمل کا آغاز تھا۔
یہ وہ چند ناقابل تردید حقائق ہیں جن کے تذکرہ سے وہ تاریخِ تصورِ پاکستان جو ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل و سیکولر طبقہ کے تعلیم یافتہ مؤرخین نے ’ معرو ضیت‘ کے نام پر تحریر کی اور جو ہماری نسلوں کو قیام پاکستان سے آج تک پڑھایا گیا، تاکہ ان کے ذہنوں میں وہی ’مذہب‘ و ’سیاست‘ کی تفریق جاگزیں ہو جس نظریہ کی پیداوار یہ دانش وَر خود تھے۔معروضیت کا تقاضا ہے کہ ان حقائق کو ہر مسلم و غیر مسلم پاکستانی کے علم میں لایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس عظیم انعام اور تحفہ ، پاکستان کی امانت کا حق ادا کر سکے اور اپنے تشخص اور پہچان کو صوبائیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور مسلکیت سے الگ کر کے پاکستان کا مقصد کیا لاالٰہ الا اللہ کو اپنی زندگی اور ملک کے نظام میں عملاً نافذ کر سکے۔(مکمل)
قائداعظم کا موقف ہمیشہ یہی رہا کہ پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ، علاقائیت ، نسلیت، لسانیت نہیں ہے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی حیثیت سے ایک عالمی کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے برخلاف جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا نہ صرف دیو بند اور اس کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی بلکہ پوری انگریز سامراجیت اور انگریز کی تربیت یافتہ بیورو کریسی جو پاکستان کی قسمت میں آئی ، بہ شمول عسکری ادارہ جو انگریز ہی کا تربیت یافتہ اور انگریز ی ثقافت کا علم بردار تھا ۔ ان اداروں کے لیے اسلام کا دین ہونا اور محض پوجا پاٹ کا مذہب نہ ہونا ایک نئی بات تھی۔ انھیں روزِ اوّل سے سمجھایا گیا تھا کہ مذہبی آزادی کا مطلب جمعہ کے دن یا عیدین میں نیا لباس پہن کر نماز پڑھ لینا ہے ۔ بقیہ دنوں میں انگریز کی وفاداری اور اندھی پیروی ہی نجات دے سکتی ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس سے ہم آج تک گزر رہے ہیں ۔
علمائے دیوبند میں سے ایک مؤثر جماعت اور احرار جو نظریہ پاکستان اور دو قومی تصور کے مخالف تھے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہتے ہیں :
As the congress ulema grew more unpopular, their writings became more and more vituperative …The main target of their abuse was the Qua’id -i-Azam, some of the maulvies drew special pleasure in distorting his name “Jinnah an Arabic word, into jina and when this failed to irritate him or his followers , they assigned him all kind of insulting sobriquets like kafir-i-A‘zam (this was invented by Ahrar leader Mazhar Ali Mazhar"). He further adds: The Ahrar ulma specially maulana ‘Ataullah Shah Bukhari and Habib-ur-Rehman Ludhianvi were strangers to a balanced language. They seldom mentioned the Qua’id -i- Azam by his correct name. (Ishtiaq Husain Qurashi, Ulama in Politics, Karachi, Ma'aref Ltd,1974, p.354)
جیسے جیسے کانگریسی علما غیر معروف ہوتے گئے، ان کی تحریریں اور زیادہ دشنام طرازی پر مبنی ہوتی چلی گئیں… ان کی گالیوں کا مرکزی ہدف قائداعظم تھے۔ کچھ مولوی صاحبان کو ان کے نام جناح جو کہ عربی لفظ ہے کو Jina کہہ کر تضحیک کانشانہ بنا کر زیادہ خوشی ہوتی تھی۔ جب وہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو مشتعل کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے انھیں ہرطرح کے بُرے القاب جیسے ’کافراعظم‘ (یہ نام احرار کے لیڈر مظہرعلی ظہرنے رکھا تھا) سے پکارا۔ وہ مزید کہتے ہیں: احرار کے علما بالخصوص عطاء اللہ شاہ بخاری اور حبیب الرحمٰن لدھیانوی ایک متوازن زبان سے ناآشنا تھے۔ وہ کبھی کبھار ہی قائداعظم کو درست نام سے پکارتے تھے۔
تصورِ پاکستان کی حمایت اور دو قومی نظریہ کے دفاع میں اوردیو بندی علما کا مدلل جواب اگر کوئی دیا گیا تو وہ صرف مولانا مودودی کا تحریر کردہ رسالہ مسئلہ قومیت تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
in fact Maulana Mawdudi’s rejoinder [to Mutahhidah qawmiyat aur Islam by Maulana Hussain Madani] was so logical, authoritative, polite and devastating that it was beyond the capacity of any supporter of a united nationhood to counter. Maulana Mawdudi pointed out that Maulana Hussain Ahmad had been carried away by his hatred of the British and had twisted history and facts. Are nations really created by political boundaries? If they are, why are ethnical, cultural and religious conflicts endemic in many states including the European countries? Maulana Husain Ahmad had indulged in willful distortion of the Arabic dictionary and even the meaning of verses of the Qur’an. He had no business to use a well-known word like "nation" in any sense except the one internationally assigned to it. The Muslims and Jews of Madina did not form a single nation even after the Prophet had brought about an alliance between them for a short while after his migration from Mecca to that city. (Ibid, p 351)
درحقیقت مولانا مودودی کا جواب [متحدہ قومیت اور اسلام ، از مولانا حسین مدنی] اس قدر مدلل ، مستند، شائستہ اور زبردست تھا کہ متحدہ قومیت کے کسی حامی کی بساط سے باہر تھا کہ وہ اس کا ردکرسکے۔مولانا مودودی نےنشان دہی کہ مولانا حسین احمد انگریز سے نفرت کی وجہ سے حقیقت سے دُور ہوگئے اور انھوں نےتاریخ اورحقائق کو مسخ کردیا ہے۔ کیا قومیں واقعی سیاسی سرحدوں کی بنیاد پر بنتی ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر نسلی،ثقافتی، مذہبی تصادم مختلف ریاستوں بشمول یورپی ممالک میں کیوں پھوٹتے ہیں؟ مولاناحسین احمد عربی الفاظ حتیٰ کہ آیاتِ قرآنی کا مفہوم جانتے بوجھتے مسخ کرنے میں ملوث ہیں۔ انھیں ایک معروف لفظ ’قوم‘ کو کسی بھی مفہوم میں استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے سوائے اس کے جوعالمی سطح پر مستعمل ہے۔جب رسولؐ اللہ نے مکہ سے اس شہر ہجرت کے بعد باہمی اتحاد تشکیل دیا تھا تو اس وقت بھی مدینہ کے مسلمانوں اوریہودیوں نے ایک محدود مدت کے لیے بھی ایک قوم کو اختیار نہ کیا۔
"Maulana Mawdudi’s superior scholarship, his telling arguments, his cold logic and his knowledge of modern concepts in political science and law made it impossible for the Jami‘at group to answer his contentions.In fact Mufti Kifayatullah who was a faqih (jurist) and , therefore more cognizant of the demands of logic and academic debate, advised his colleagues against any attempt to continue the discussion, because he opined the Maulana Mawdudi was in the right and there was no point in attempting to defend the indefensible.(Ibid, p352)
مولانا مودودی کی علمی برتری، ان کے منہ بولتے دلائل، ان کی غیرجذباتی منطق اور جدیدسیاسیات اورقانون پران کے فہم نے جمعیت کے گروپ کے لیے ناممکن بنادیا کہ وہ ان کے دعویٰ کا جواب دے سکیں۔ درحقیقت مفتی کفایت اللہ نے جو کہ ایک فقیہہ تھے اوراس علمی و منطقی بحث کے تقاضوںسے بخوبی آشنا تھے ، اپنے ساتھیوں کو اس بحث کو مزید جاری رکھنے کی کسی بھی کوشش سے منع کیا کیونکہ ان کی نظر میں مولانامودودی کا موقف درست تھا اور اس ناقابلِ دفاع موقف کا دفاع کرنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔
پھر پاکستانی قومیت کی صیحیح بنیاد کیا ہے ؟اس کا واضح اظہارقائد اعظم نے انتہائی مختصر الفاظ میں یوں فرمایا :
"What is that keeps the Muslims united, and what is bedrock and sheet anchor of the community? asked Mr. Jinnah, "Islam" he said and added "It is the great Book, Qur’an, that is the sheet- anchor of Muslim India. I am sure that as we go on and on there will be more and more of oneness ___ one God, one Book, one Qibla, one Prophet and one Nation". (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 3.,Dawn , Dec27, 1943).
وہ کون سی چیز ہے جس نے فردِ واحد کی طرح مسلمانوں کو متحد کردیا ہے اور قوم کا ملجا و ماویٰ کیا ہے؟ انھوں نے خود ہی جواب دیا: ’اسلام‘ اور مزید کہا: ’’یہ عظیم کتاب قرآنِ کریم ہے جو مسلمانانِ ہند کی پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے زیادہ سے زیادہ یکتائی آتی جائے گی___ ایک اللہ،ایک کتاب، ایک قبلہ، ایک رسولؐ اور ایک قوم‘‘۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدسوم، ص ۲۵۱)
قائد کے نقطۂ نظر اور حد نظر تک ہدف کے واضح ہونے کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ دسمبر۱۹۴۳ء کو انھوں نے نپے تلے الفاظ میں دو قومی نظریہ اور خود مسلم قومیت کی سنگ بنیاد کو ایک تعریف کی شکل میں بیان کر دیا کہ اس کا لنگر جو اسے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کی سنگ بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ قرآن کریم ہے۔ پھر اس کی مزید وضاحت کر دی کہ کس طرح یہ کتاب مسلمانوں کو ایک قوم بناتی ہے، یعنی ایک اللہ ، ایک کتاب ، ایک قبلہ ، ایک رسول اور ایک ملت(یا قوم)۔
اسلام کس طرح پاکستانیت اور پاکستانی قومیت کی واحد بنیاد ہے ؟ اس بات کو سادہ الفاظ میں ڈاکٹر جا وید اقبال نظریۂ پاکستان کے تناظر میں یوں بیان کرتے ہیں:
"Pakistan claims itself to be an ideological state because it is founded on Islam …it is obvious that the people of Pakistan descend from different racial stock, different language, but live in geographically contiguous territories. The foundation of the state therefore could not possibly be laid on such principles as common race, common language and common territory… The real factor which sustains the state of Pakistan is the existence of a consciousness among the people of belonging to each other because a large majority of them adheres to a common spiritual aspiration i.e.faith in Islam… Consequently, the basis of nationhood in Pakistan is Islam. Islam acted as a nation –building force long before the establishment of Pakistan… Hence the historical fact which cannot be denied is that the formation of the Muslim nation preceded the demand for a homeland. Pakistan by itself did not give birth to any nation on the country, the Muslim nation struggled for and brought Pakistan into being. therefore, Pakistan is not technically the cause of any kind of nationhood. It is only an effect, a result or a fruit of the strength of the Muslim nation for territorial specification.(Javid Iqbal, Ideology Of Pakistan, Lahore, Sang-e-Meel Publications,2005,p13)
پاکستانی ایک نظریاتی ریاست کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے… یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کے لوگ مختلف نسلوں، مختلف زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جغرافیائی طور پرملحق خطوں سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا ریاست کی بنیاد مشترکہ نسل، مشترکہ زبان اورمشترکہ خطے جیسے اصولوں پر نہیں رکھی جاسکتی… وہ حقیقی عنصر جو ریاست پاکستان کو قائم رکھتا ہے وہ لوگوں کے درمیان شعور کی بیداری ہے، اس لیے کہ ان کی اکثریت ایک مشترکہ روحانی اُمنگ رکھتی ہے، یعنی اسلام پرایمان… نتیجتاً پاکستان میں قومیت کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام نے قیامِ پاکستان سے کافی عرصہ پہلے ایک قومی تعمیرپر مبنی قوت کا کردارادا کیا ہے… لہٰذا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم قوم کی تشکیل کے نتیجے میں ہی ملک کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے بذاتِ خود ملک میں کسی قوم کو پیدا نہیں کیا، بلکہ مسلم قوم نے جدوجہد کی اور پاکستانی کو معرضِ وجود میں لائی۔ لہٰذا تکنیکی طور پر پاکستان کسی قومیت کی تعمیر کی اساس نہیں ہے۔ یہ صرف مسلم قومیت کی علاقائی خصوصیت اورقوت کا نتیجہ اور ثمرہے۔
قائد اعظم کا تصورِ پاکستان ان کے فکری تسلسل اور اعتماد کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ وہ ایک بات کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر قبول کرنے کے قائل تھےاور لمحہ بہ لمحہ موقف تبدیل کرنے کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ چنانچہ یکم فروری ۱۹۴۳ء کو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam....
The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them, they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarded.As a matter of fact they will be more safeguarded then in the present day so-called democratic parliamentary form of Government (Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari, Bombay, February 1, 1943. M. A. Harris ed. Quaid-e-Azam, 1976, Karachi, Times Press, p 174)
پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے،ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی ، سیاسی اورمعاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔
قائد کے اتنے دوٹوک ، غیر مبہم اور پر اعتماد بیان سے جو کسی ’طبقہ علما‘ کے دباؤ پر نہیں دیا گیا قائد کے تصورِ پاکستان کی تصویر بالکل واضح ہو جاتی ہے لیکن پاکستان کے وہ دانش وَر جو بظاہر تاریخ کے شعبے میں دکتورہ(ڈاکٹریٹ)بھی رکھتے ہیں اور اصول تحقیق سے بھی آگاہ ہیں ، نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر ان تاریخی بیانات کو مکمل طورپرنظر انداز کر جاتے ہیں اور ان کی سوئی صرف ایک تقریر پر آکر رکتی ہے ۔جس میں قائد نے وہ بات نہیں کہی جو ان دانش وَروں کے ذہن میں پائی جاتی ہے ۔
علامہ اقبال، قائداعظم اور علامہ اسد اسلام کے دین ہونے اور مغرب یا مشرق کے تصورِ ’مذہب‘ کے اسلام سے عدم تعلق پر یکسو اور متفق نظر آتے ہیں ۔قرآن کریم نے تقریباً ۸۵مقامات پر اسلام کے لیے دین کی اصطلاح استعمال کی ہے،جب کہ مذہب جو ایک عربی اصطلاح ہے ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کی گئی۔ وجہ ظاہر ہے،کیوں کہ مذہب کا مفہوم وہ نہیں جو دین کا ہے۔ مذہب عموما ً عبادات اور رسومات تک محدودسمجھا جاتا ہے اور اسی بنا پر مغرب زدہ اور لبرل طبقہ اسلام کو مذہب کہہ کر پکارتا ہے ۔ یورپ اپنے تاریخی تناظر میں مذہب جس سے مراد اصلاً عیسائیت تھی ، سائنس، جدیدیت، عقلیت ، نشاتِ ثانیہ کی فکر وغیرہ سے ٹکراؤ کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچا کہ مذہب ایک غیر عقلی ، اندھے عقیدہ کا نام ہے۔ چنانچہ یورپ میں سترھویں صدی سے لے کر آج تک ’مذہب‘کا رسمی مفہوم علمی مباحث میں یہی پایا جا تا ہے ۔ اسلام اس کے برعکس عقل اور عقلی استدال کے استعمال ، تجربہ اور تحقیق کو دین کا حصہ قرار دیتا ہے ۔اس لیے اس کے لیے مذہب کی اصطلاح استعمال کرنا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ اسلام کسی ذاتی طریق عبادت کا نام نہیں بلکہ مکمل نظام حیات کا نام ہے ۔
پاکستان اور دیگر ممالک میں جو لوگ اپنے آپ کو لبرل کہلانا پسند کرتے ہیں ،وہ ہمیشہ یہی بات کہتے ہیں کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ یہی موقف کانگریس اور انگریز کا تھا کہ چونکہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے، اس لیے قومیت کی بنیاد نہیں بن سکتا، جب کہ ہم نے اوپر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے جواقتباسات پیش کیے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم یقین رکھتے تھے کہ اسلام بہ حیثیت دین سیاست ، معیشت ، معاشرت، ہر معاملے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔اور پاکستانی قومیت کی اگر کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف دین اسلام ہی ہے ۔اسی بات کو ۲۲مارچ ۱۹۴۰ء کو اپنے صدارتی خطاب میں قائد اعظم نے وضاحت سے بیان کیا :
"It is extremely difficult to appreciate why our Hindu friends fail to understand the real nature of Islam and Hinduism. They are not religions in the strict sense of the word, but are, in fact, different and distinct social orders, and it is a dream that the Hindus and Muslims can ever evolve a common nationality, and this misconception of one Indian nation has gone far beyond the limits and is the cause of most of your troubles and will lead India to destruction if we fail to revive our nation in time. The Hindus and Muslims belong to two different religious philosophies, social customs and literatures.
They neither inter-marry nor inter-dine together and indeed they belong to two different civilizations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions. Their aspects on life and of life are different. It is quite clear that Hindus and Musalmans derive their inspiration from different sources of history. They have different epics, different heroes and different episodes. Very often the hero of one is a foe on the other end, like wise their victories and defeats overlap. To yoke together two such nations under a single state, one as numerical minority and the other as a majority, must lead to growing discontent and final destruction of any fabric that may be so built up for the government of such a state". (K.A.K Yusufi,1996, Vol-2, p 1881)
یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندودوست اسلام اور ہندومت کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی صورت میں منسلک ہوسکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کرگیا ہے اورآپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اوراگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کردے گا۔ ہندوؤںاور مسلمانوں کا دومختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوارہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اورمسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے۔ ہیرو الگ ہیں اورداستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اوردوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگی اور آخرکار وہ تانا بانا ہی تباہ ہوجائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لیے بنایا جائے گا۔ (قائداعظم:تقاریرو بیانات، دوم، ص۳۷۱)
عموماً لبرل طبقہ یہ بات کہتا ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظریہ اور نظام حکومت کے سلسلے میں اسلامی نظریۂ حیات یا Islamic Ideologyکی اصطلاح استعمال نہیں کی اوراس اصطلاح کو ایک معروف دینی جماعت کے ایک دانش وَر نے قائد اعظم سے منسوب کر دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ ۱۸ جون ۱۹۴۵ء کو سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس کے نام اپنے تحریری پیغام میں قائد فرماتے ہیں :
I have often made it clear that if Musalmans wish to live as honorable and respectable People there is only one course open to them: fight for Pakistan, live for Pakistan, if necessary, die for the achievement of Pakistan or else Muslims and Islam are doomed.There is only one course open to us to organize our nation, and it is by our own dint of arduous and sustained and determined efforts that we create strength and support our people not only to achieve our freedom and independence but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles. Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim ideology, which has been preserved, what has come to us as a precious gift and treasure, and which, we hope, others will share with us. (K.A.K Yusufi,1996, Vol-3, p 2010)
میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہناچاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے، پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔( قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم،ص۴۳۸)
اس تحریری پیغام سے دوسال قبل۲۶ دسمبر۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے:
What is that keeps the Muslims united, and what is bedrock and sheet anchor of the community, asked Mr. Jinnah "Islam" he said and added "It is the Great Book, the Qur’an that is the sheet anchor of Muslims India. I am sure that as we go on and on there will be more and more of oneness ___one God, one Book, one Qibla, one Prophet and one Nation".(K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam, e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 3, p 1821)
وہ کون سی چیز ہے جس نے فردِ واحد کی طرح مسلمانوں کو متحد کردیا ہے اورقوم کا ملجا و ماویٰ کیا ہے؟ انھوں نے خود ہی جواب دیا : ’اسلام‘ اور مزید کہا: ’’یہ عظیم کتاب قرآنِ کریم ہے جو مسلمانانِ ہند کی پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے زیادہ سے زیادہ یکتائی آتی جائے گی___ ایک اللہ، ایک کتاب، ایک رسولؐ اورایک قوم‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص۲۵۱)
اس خطاب میں قائد اعظم نے واضح الفاظ میں اتحاد اور تنظیم کے لیے اسلام ہی کو قومیت کی بنیاد قرار دیا اورقومیت کے دیگر تصورات، یعنی نسل ،وطن اور زبان کی واضح تردید کر دی۔ قائداعظم کو اس بارے میں ذرہ برابر بھی شبہہ نہیں تھا کہ اسلام ذاتی مذہب نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے اور سیاست ، معیشت ، معاشرت ہر انسانی سرگرمی کا انحصار اسلام کی تعلیمات پر ہے ۔ ان کا دین کاتصور علامہ اقبال اور علامہ اسد سے مسلسل رابطہ اور تبادلۂ خیالات کے نتیجے میں بالکل واضح شکل اختیار کر چکا تھا۔ ۸ستمبر ۱۹۴۵ء کو عید کے پیغام میں فرماتے ہیں:
Everyone except those who are ignorant knows that the Qur’an is the general code of the Muslims.A religious, social, civil, commercial, military, Judicial, criminal and penal code. It regulates everything from ceremonies of religion to those of daily life. It is a complete code regulating the whole Muslim society in every development of life, collectively and individually. (Eid message to the Muslims of India, September 8, 1945 in K.A.K. Yusufi, 1996, Vol-3, p 2053).
جہلا کے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔روح کی نجات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کرعقبیٰ میں سزا تک۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص ۴۷۴)
قائد اعظم اسلام کو ایک تہذیبی قوت سمجھتے تھے اور ان کے خیال میں پاکستان کا قیام اس روایت علم ، تحقیق و ایجادات کا احیا تھا جسے ناموران اسلام نے پہلی صدی سے عالمی سطح پر قائم کیا تھا۔
وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے خواہاں تھے ۔ مسلمانان ہند کو ۳۰ ستمبر۱۹۴۳ء کو عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں فرماتے ہیں:
We are a nation of 100 million of people inhabiting this great sub-continent and we have a great history and great past behind us. Let us prove worthy of it and bring about true renaissance of Islam and revive its glory and splendor. (K.A.K. Yusufi, 1996, Vol-3, p 1766)
ہم ۱۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم ہیں جو اس برصغیر میں آباد ہے اور ہم ایک عظیم تاریخ اورماضی کے وارث ہیں۔ آیئے ہم خود کو اس کے اہل ثابت کریں اور اسلام کی حقیقی نشاتِ ثانیہ کا آغاز اور اس کی عظمت اورشان وشوکت کو زندہ کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص۲۱۰-۲۱۱)
اسلام کا احیااور اس غرض سےپاکستان کا قیام قائد کے پسندیدہ موضوعات نظر آتے ہیں۔ اسی بات کو ایک دوسرے پیرائے میں ۱۸مارچ ۱۹۴۴ءکو پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور سے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :
But on this auspicious day I would urge upon you in the name of our national cause and our cherished goal of Pakistan to stand united and unswerving in your determination and that you should hesitate to make every specific and prepared for all sacrifice for collective good and our national cause.
The league had give them a definite goal and taken them out of darkness and confusion and give them a clear cut and crystalized goal of Pakistan which was now an article of faith with the Muslim, millions of whom were prepared to fight with lives for its achievements.it was no more a slogan, it was something which the Muslims had to understand and in it lay their defence, deliverance and destiny which would once more bring to the world that there was a Muslim state which would revive the past glories of Islam. We want to rule our homeland and we shall rule.(K.A.K Yusufi, 1996, Vol-3, p 1856-1857)
لیگ نے ان کے لیے قطعی منزل کی نشان دہی کر دی ہے اور انھیں واضح اور صاف شفاف نصب العین ’پاکستان‘ دے دیا ہے۔ جو اَب مسلمانوں کے عقیدے کا جزو بن گیا ہے جس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمان سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی شے ہے جسے مسلمانوں نے سمجھ لیا ہے، اور اسی میں ان کا دفاع، نجات اور تقدیر مضمر ہے جس کی صدائے بازگشت ساری دنیا میں سنائی دے گی کہ ایک مسلم مملکت ہے جو اسلام کی عظمت رفتہ کو واپس لائےگی۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اپنے وطن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کرکے رہیں گے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص ۲۸۰)
قائداعظم نے اپنے خطابات اور بیانات میں جن امور پر بار بار زور دیا ان کاواضح اور براہِ راست تعلق قوم کی فکری قیادت اور اسلام کی عظمت کے احیا سے بھر پور نظر آتا ہے۔چنانچہ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ءکو اس تقریر کے پورے ایک ماہ بعد جس کی تسبیح لبرل حضرات صبح شام پڑھتے ہیں، فوج اور سول انتظامیہ کے افسران سے کراچی کے خالق دینا ہال میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
The establishment of Pakistan for which we have been striving for the last ten years is, by the grace of God, an established fact today, but the creation of a State of our own was means to an end and not the end in itself. The idea was that we should have a State in which we could live and breathe as free men and in which we could develop according to our own lights and culture and where principles of Islamic social justice could find free play. (Address to civil, naval, and military officers, Khaliq Dena Hall, Karachi, Oct 11, 1947, in Speeches and Messages of the Quai’d-e-Azam,1947-48, Islamabad, Govt of Pakistan, 1989, p 74 ; also K.A.K Yusufi, VOL IV, P 2623-24).
قیامِ پاکستان ، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل وکرم سے آج ایک مسلّمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں گے اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں گے۔ جسے ہم اپنی صواب دید اور ثقافت کے مطابق ترقی دےسکیں اورجہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، چہارم، ص۳۷۴-۳۷۵)
قائد نے بارہا یہ بات دُہرائی کہ ہمارے لیے مغربی جمہوریت نہ مثال بن سکتی ہے اور نہ اس میں سیاسی اور دیگر امور کو عقل اورعدل کے ساتھ چلانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو بلوچستان سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
In proposing this scheme, I have had one undelaying principle in mind, the principle of Muslim democracy. It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us by our great law-giver, the Prophet of Islam.Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic ideals and principles. Our Almighty has taught us that “our decisions in the affairs of the State shall be guided by discussion and consultation.(al-Shura 42:38). (K.A.K Yusufi op.cit,1996, Vol-4, p 2682)
اس اسکیم کو پیش کرتے ہوئے میرے پیش نظرایک ہی اصول تھا، یعنی اسلامی جمہوریت کا اصول۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انھی سنہری قوانین کی پابندی میں ہے جو ہمارے شارع اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پراستوار کریں۔ ہمارے خدائے عزوجل نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ’’کاروبار مملکت کے سلسلے میں ہمارے فیصلے، مباحثے اورمشاورت کے اصول کے تحت ہوں گے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، چہارم، ص۴۱۲)
قائد اعظم کی فکر کا تسلسل و تواتر ان کے ہر بیان اور تقریر میں واضح نظرآتا ہے ۔سبی دربار میں اپنے خطاب کے تقریباً ایک ہفتے بعد ۲۱فروری ۱۹۴۸ءکو ملیر کراچی میں اک-اک رجمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مزیدوضاحت کرتے ہیں :
You have fought many a battle on the far flung fields of the globe to get rid the world of the fascist menace and make it safe for democracy.Now you have to stand guard over the development and maintenance of Islamic democracy, Islamic social justice and the equality of mankind in your own native soil. You will have to be alert, very alert, for the time for relaxation is not yet there. With faith, discipline and selfless devotion to duty, there is nothing worthwhile that you cannot achieve.
آپ نےدنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطۂ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں، اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ آپ کو چوکنا رہنا ہوگا، بہت ہی چوکنا کہ ابھی آرام کا وقت نہیں آیا۔ یقین، نظم و ضبط اوربے لوث فرض کی لگن سے شاید ہی کوئی ایسی قابلِ قدر شے ہو جو آپ نہ حاصل کرسکیں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم، ص۴۱۹)
اپنے خطاب میں وہ بار بار یہ بات واضح کررہے ہیں کہ اسلام ایک ذاتی مذہب نہیں ہے بلکہ سیاست ، معیشت ، معاشرت کی بنیاد اور جزو لاینفک ہے۔ اسے جدا نہیں کیا جا سکتا کہ ذاتی زندگی میں محدود کر دیا جائے ۔اس کی معاشرتی ، معاشی، سیاسی تعلیمات آج بھی ترو تازہ ہیں اور معاشرے کے لیے واحد حل کی شکل رکھتی ہیں اور یہی پاکستان کا مقصد ِوجود ہے۔
دستوری طور پر جب ۱۹۵۶ء کا دستور بنا تو ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان طے پایا لیکن اس سے بہت پہلے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکا کے عوام کو ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے بطور خود ملک کا نام بنیادی طور پر ’اسلامی ریاست‘ قرار دے دیا تھا۔
This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947. Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 4, p 2692)
یہ مملکت جو کسی حد تک ا س برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم،ص ۴۲۰)
اپنے اسی خطاب میں آگے چل کر قائد اعظم پاکستان کے زیر ترتیب دستور کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں :
constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1,300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. (K.A.K Yusufi,ibid,p2694)
مجلس دستورسازپاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امرکا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگاجس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ (ایضاً، ص۴۲۱)
قائداعظم کی تقاریر، بیانات اور انٹرویوزکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی نوجوانوں سے غیر معمولی طور پر پُر امید تھے۔ مسلم اسٹوڈنس فیڈریشن ہو یا کسی کالج کی پارلیمنٹ یا طلبہ کی ریلی ، ہر موقعے پر وہ ایک ہی بات دُہراتے ہیں کہ نوجوان نسل اللہ تعالیٰ کے اس عظیم عطیہ کو جو ہمیں پاکستان کی شکل میں ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو دیا گیا اور جس کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا ، اس امانت کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس میں اسلامی معاشرت ،اسلامی قانون، اسلامی معیشت اور اسلامی ثقافت و تعلیم کو رائج کیا جائے۔یہی وہ فریضہ ہے جو نوجوانوں کو ادا کرنا ہے ۔ ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی اس مشہور زمانہ تقریر کے بعد جس کے علاوہ کوئی تقریر ہمارے لبرل دانش وَروں کو یاد نہیں آتی ۔قائد نے پنجاب یونی ورسٹی کے طلبا کی ریلی ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اور ملک سے اسلام کے تعلق اور نوجوانوں میں روحِ جہاد کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ آج بعد از اسلامو فوبیا دور میں اچھے خاصے باشعور مسلمان قائدین بھی کہنے سے پہلے اپنے الفا ظ کو بہت ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں، لیکن قائد اعظم اپنی روایتی جرأت، اعتماد ، یقین محکم اور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف نوجوانوں کو علامہ اقبال کی طرح روحِ جہاد پیدا کرنے پر ابھارتے ہیں بلکہ پاکستان کو ’اسلام کا قلعہ‘قرار دیتے ہیں :
Do not be overwhelmed by the enormity of the task.There is many an example in history of young nations building themselves up by sheer determination and force of character. You are made of sterling material and are second to none. Why should you also not succeed like many other, like your own forefathers. You have only to develop the spirit of the “Mujahids". You are a nation whose history is replete with people of wonderful gifts, character and heroism. Live up to your traditions and add to it another chapter of glory.
All I require of you now is that every one of us to whom this message reaches must vow to himself and be prepared to sacrifice his all, if necessary, in building up Pakistan as a bulwark of Islam and as one of the greatest nations whose ideal is peace within and peace without… Along with this, keep up your morale. Do not be afraid of death. Our religion teaches us to be always prepared for death. We should face it bravely to save the honor of Pakistan and Islam. There is no better salvation for a Muslim than the death of a martyr for a righteous cause. (K.A.K Yusufi Speech, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 4, p 2643)
کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اورکردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآبدار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم نہیں۔ اوروں کی طرح، اورخود اپنے آباؤاجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابلِ صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پرقائم رہیے اور اس عظمت کے ایک اورباب کا اضافہ کردیجیے۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اوراسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے… اس کے ساتھ اپنا حوصلہ بلند رکھیے۔ موت سے نہ ڈریئے ۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ موت کا استقبال کرنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کا وقار بچانے کے لیے اس کا مردانہ وارسامنا کرنا چاہیے۔ صحیح مقصد کے حصول کی خاطر ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر کوئی راہِ نجات نہیں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم، ص ۳۸۹-۳۹۰)
قائد اعظم کے ان تحریری پیغامات ، بیانات اور تقاریر سے یہ بات حتمی طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی فکر اور موقف جو ۱۹۴۳ء میں تھا ، وہی ۱۹۴۷ء اور۱۹۴۸ء تک رہا ۔اس میں کہیں نہ مفاہمت ہے نہ معذرت بلکہ پورے اعتماد سے مسلم آئیڈیالوجی ، اسلامی ریاست ، شریعت کی بالادستی ، اللہ کی حاکمیت اور مغربی سیکولر جمہوریت سے بے زاری صاف طور پر نظر آتی ہےاور ان کے تصورِ پاکستان کے بیانیہ کو غیر مبہم اور دوٹوک بنا دیتی ہے ۔ ۱۵ جون ۱۹۴۵ءکوفرنیٹئیر مسلم فیڈریشن پشاور کے نام اپنے تحریری پیغام میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اس پر قائم و دائم رہے اور بغیر کسی معذرت کے اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کرتے رہے ۔ہم ایک مرتبہ پھر اس بیان کو دُہراتے ہیں:
I have often made it clear that if Musalmans wish to live as honorable and respectable People there is only one course open to them: fight for Pakistan, live for Pakistan, if necessary, die for the achievement of Pakistan or else Muslims and Islam are doomed. There is only one course open to us to organize our nation, and it is by our own dint of arduous and sustained and determined efforts that we create strength and support our people not only to achieve our freedom and independence but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles.
Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim ideology, which has to be preserved what has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope, others will share with us. (K.A.K Yusufi op.cit ,1996ٍ Vol-3, p 2010)
میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگرمسلمان باوقار اورلائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہوتو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔
ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت،مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں،نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطاق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا مطلب نہ صر ف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھناہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اورسرمائے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،سوم، ص ۴۳۸)۔ (جاری)
قائد اعظم کے دست راست نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی ان حقائق کا اندازہ تھا ۔ چنانچہ ۱۶ فروری ۱۹۴۷ءکو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کےجلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے ، پارلیمنٹ کے کردار اور نام نہاد پارلیمنٹ کی بالا دستی کا رد کرتے ہوئے پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ کس کی ہو گی___عوام یا پارلیمنٹ کی یا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی؟ اس پر واضح اور دوٹوک بات کہتے ہیں:
There is one very important question that will be asked. We say we want to live in our own way and in order to be able to do so we want to have a free and independent state. What is that way of life and what are the principles on which our state will be based?? Such a question for a Muslim has only one answer. The Ideal which Muslim has before him is and can be non-other than the ideal that was set before the world by Muhammad P.B.U.H of Arabia over 13 hundred years ago.The message that Muhammad P.B.U.H brought is still with us, preserved for the whole of humanity in greatest of all books the Qur’an. Every Muslim should live and die for God. God is the only King the only Sovereign.
According to Islam no one can wield authority in his own right as all authority is derived from God and can be exercised only on His behalf. Islam aims at building of a society in which all possibilities of exploitation of man by man will disappear, in with all distinction of birth, colour and geographic origin will be wiped away. (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).
ایک بہت اہم سوال ہے جو پوچھا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق رہنا چاہتے ہیں اوراس پر عمل درآمد کے لیے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی ضرورت ہے۔ وہ طرزِ زندگی کیا ہے اوروہ کیا اصول ہیں جن پر ہماری ریاست انحصار کرے گی؟ ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ ایک مسلمان کے سامنے وہ تصور ہے اور اس کے علاوہ کوئی تصور نہیں ہوسکتا جو دنیا کے سامنے تیرہ سو سال قبل عرب کے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا۔ وہ پیغام جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے، ہمارے پاس آج بھی موجود ہے اور پوری انسانیت کے لیے دُنیا کی عظیم ترین کتاب قرآنِ مجید کی شکل میں محفوظ ہے۔ ہرمسلمان کو اللہ کے لیے جینا اور مرنا چاہیے۔ اللہ ہی واحد شہنشاہ اور واحد بااختیار ہستی ہے۔
اسلام کے مطابق کوئی بھی شخص اپنے استحقاق کی بناپر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے اور صرف اسی کی مرضی کے مطابق ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کی غرض و غایت ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہے جس میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے تمام امکانات کا خاتمہ کردیا جائے گا اور پیدایش، رنگ اور علاقائی تمام امتیازات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔
وہ پاکستانی دانش وَر جو اپنے آپ کو ’آزاد خیال‘ کہنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔کاش! کھلے ذہن کے ساتھ کبھی قائد اعظم اور ان کے رفقاء کارکے ارشادات کو پڑھ لیتے کہ کیا وہ اس مغربی جمہوریت کے پرستار تھے جس کی تبلیغ یہ دانش وَر کرتے ہیں یا ان کا تصور ان سے مختلف تھا؟ علمی دیانت (academic honesty)کا تقاضا ہے کہ جب کسی فرد سے کوئی بات منسوب کی جائے تو اس میں اپنی رائے کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود ایک صاحب ِقلم کو یہ آزادی رہتی ہے کہ وہ اس بیان سے اختلاف کرے اور اپنی رائے کو پیش کرے لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی رائے کو کسی دوسرے کے بیان میں پڑھ لے یا ایک بے بنیاد تصور اس سے منسوب کر دے۔ دُکھ کی بات ہے کہ قائد کے ساتھ یہی ظلم دانش وَری کے عنوان سے ایک طویل عرصے سے کیا جا رہا ہے اورقائد کی اپنی آواز کو دبا کر ہمارے ’دانش وَر‘ یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ قائد مغربی سیکولر ڈیموکریسی کے قائل تھے۔۶ مارچ ۱۹۴۰ء کو قائد اعظم علی گڑھ میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :
Two years ago at Simla I said that the democratic parliamentary system of government was unsuited to India. I was condemned everywhere in the Congress press. I was told that I was guilty of disservice to Islam because Islam believes in democracy. So far as I have understood Islam, it does not advocate a democracy which would allow the majority of non-Muslims to decide the fate of the Muslims. We cannot accept a system of government in which the non-Muslims merely by numerical majority would rule and dominate us. The question was put to me, if I did not want democracy what then did I want___ Fascism, Nazism or totalitarianism?? I say, what have these votaries, these champions of democracy done?? They have kept sixty millions of people as untouchables:; they have set up a system which is nothing but a 'Grand Fascist Council'. Their dictator (Gandhi) is not even a four anna member of Congress. They set up dummy ministries which were not responsible to the legislatures or the electorate but to a caucus of Mr. Gandhi’s choosing. Then, generally speaking, democracy has different patterns even in different countries of the West. Therefore, naturally I have reached the conclusion that in India where conditions are entirely different from those of the Western countries,the British party system of government and the so - called democracy are absolutely unsuitable. (Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, ed. Khurshid Ahmed Khan Yusufi, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol.II, p1159)
دو برس قبل میں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی طرزِ حکومت ہند کے لیے ناموزوں ہے۔ اس پر کانگرسی اخبارات نے ہرجگہ میرے لتے لینے شروع کر دیئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ میں اسلام کی بدخدمتی کا مجرم ہوں۔ کیونکہ اسلام جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔جہاں تک مَیں نے اسلام کو سمجھا ہے،یہ ایسی جمہوریت کی قطعاً وکالت نہیں کرتا جس میں غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کے مقدّر کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ ہم ایسے نظامِ حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض کثرتِ تعداد کی بناپر ہم پر حکومت کریں اور ہم پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ مجھ سے یہ سوال کیا گیا: اگرمیں جمہوریت نہیں چاہتا تو پھر میں کیاچاہتا ہوں؟___ فاشزم، نازی ازم یا آمریت! مَیں پوچھتا ہوں کہ جمہوریت کے اِن سورماؤں اورفدایوں نے کیا کیا ہے؟ انھوں نے ساٹھ ملین (چھے کروڑ) انسانوں کو اچھوت بنا رکھا ہے۔ انھوں نے جمہوریت کے لبادے میں جو نظام قائم کیا، وہ ایک ’گرانڈ فاشسٹ کونسل‘ کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا ڈکٹیٹر کانگرس کا چارآنے کا رُکن بھی نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیں بنارکھی ہیں جو نہ تو قانون ساز ادارے اور نہ ہی انتخاب کنندگان کے سامنے جواب دہ ہیں، بلکہ مشیرمطلق مسٹر گاندھی کے زیرفرمان ہیں۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ مغرب کے مختلف ملکوں میں بھی جمہوریت کے مختلف سانچے ہیں۔ چنانچہ قدرتی طور پر مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہند میں، جہاں کے حالات مغربی ملکوں سے قطعی طور پرمختلف ہیں، برطانیہ کا پارٹی سسٹم نظامِ حکومت اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر ناموزوں ہے (پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور،۱۹۹۷ء، ص ۵۸-۵۹)۔
قائد اعظم کے ان واضح الفاظ کی تعبیر اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ مغربی سیکولر جمہوریت کے نظام کو سمجھنے اور اس کا ذاتی تجربہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ اندھی جمہوریت جو عقل و شعور کی جگہ صرف افراد کی گنتی اور شمار کی بنا پر کسی چیز کو جائز و ناجائز قرار دیتی ہے ، اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ اسلام میں اکثریت کی رائے کی اہمیت نہیں۔ اسلام تو وہ واحد دین ہے جو اولین انسان حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک فرد کے اختیار و آزادی کا علَم بردار اور مشاورت(شوریٰ)کے بغیر کوئی بھی معاملہ طے کرنا نہیں چاہتا ۔ اس کی روح ہی مشاورت میں ہے، آمریت میں نہیں۔ تاہم، یہ مشاورت انسان کو ، کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ عقل و شعور کے خلاف محض اکثریت رائے کی بنا پر یہ فیصلہ کر دے۔
قائد اعظم کو اس بات کا پورا شعور تھا کہ اگر غیر منقسم ملک میں مسلمان اس وقت ۱۰ فی صد ہیں اور ۵۰ سال میں ۲۵ فی صد بھی ہو جائیں جب بھی وہ یکساں طور پر بڑھتی ہوئی ہندو آبادی کے تناسب میں ابدی طور پر محکوم قوم بن کر رہیں گے ۔ہندستان میں آج مسلمانوں کی حالت زار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد کا تجزیہ کتنا صحیح تھا ۔ آج جو کچھ اہل کشمیر کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور ان کے دستوری اور جمہوری حقوق کو نام نہاد ’سیکولرزم‘ کی بنیاد پر پامال کیا جار ہا ہے ۔اس کا ایک نابینا بھی منکر نہیں ہو سکتا ۔ قائد اعظم کا اس نتیجے تک پہنچنا ان کی سیاسی فراست کا ایک ثبوت ہے کہ ایک نظریاتی ملت اور قوم ہونے کی بنا پر مسلمان ایک سیکولر جمہوریت میں اپنا تشخص اور بقا برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ اس لیے ایک نظریاتی مملکت کا وجود ہی ان کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا تھا۔
یہ بات محض قائد اعظم نہیں بلکہ ان کے فکری راہنما علامہ اقبال پر بھی واضح تھی ۔ قائداعظم کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں :
The Muslim has begun to feel that he has been going down and down during the last 200 years. Ordinarily he believes that his poverty is due to Hindu money- lending or capitalism. The perception that it is equally due to foreign rule has not yet fully come to him. But it is bound to come. The atheistic Socialism of Jawahrlal is not likely to receive much response from the Muslims. The Question therefore is :how is it possible to solve the problem of the Muslim poverty?? And the whole future of the League depends on the League’s activity to solve this question. If the League can give no such promises I am sure the Muslim masses will remain indifferent to it as before.
Happily there is a solution in the enforcement of the Law of Islam and its further development in the light of modern ideas. After a long and careful study of Islamic Law I have come to the conclusion that if this system of Law is properly understood and applied, at least the right to subsistence is secured to everybody.
But the enforcement and development of the Shariat of Islam is impossible in this country without a free state or states. This has been my honest conviction for many years and I still believe this to be only way to solve the problem of bread for Muslims as well as to secure a peaceful India. If such a thing is impossible in India the only other alternative is a civil war which as a matter of fact has been going on for some time in the shape of Hindu-Muslim riots. (Dr. G. H. Zulfiqar, ed, Pakistan, as Visualized by Iqbal Jinnah, Lahore, Bazm-i-Iqbal, n.d. p32)
مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو صد سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری یا سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے، ابھی پوری طرح نہیں اُبھرا، لیکن آخر کو ایسا ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کرسکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگراس امر میں مسلم لیگ نے کوئی وعد ہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ میں اس کا حل ہے، اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں ترقی کا امکان ہے۔
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیےکم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یاریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہاسال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہند میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسری متبادل صورت صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے(پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور، ص۳۴-۳۵)۔
نہ صرف علامہ اقبال بلکہ قائد اعظم جو بطور ایک اعلیٰ درجے کے قانون دان، اسلامی شریعت و قانون سے واقفیت رکھتے تھے ، اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ پاکستان میں اگر کوئی نظام ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام ہے جسے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً نافذ کرکے اس کی عملیت کو مستحکم فرما دیا ۔ چنانچہ ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی کی وکلا برادری (بارایسوسی ایشن ) کو خطاب کرتے ہوئے اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے شریعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ بھی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد کا بیان ہے ۔ جو کسی سیاسی دباؤ میں نہیں دیا گیا،بلکہ قائد اعظم کی سوچی سمجھی رائے اور موقف کو ظاہر کرتا ہے :
He further said that he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat. The Qa‘id-e-Azam said the "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago". No doubt there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct even in politics and economics and the like. It is based on the highest principle of honour, integrity, fair play and justice for all.
انھوں نے مزید فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جودانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص۴۰۲-۴۰۳)
قائد اعظم کے اس موقف اور تصور کا اظہار ایک نہیں سو سے زائد مواقع پر ان کے خطابات، بیانات ، اور انٹرویوز میں ہوا۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانش وَر اور آزاد خیال محققین کی نگاہ صرف اور صرف ایک تقریر پر اٹک کر رہ گئی ۔ جس میں وہ بات نہیں کہی گئی جو وہ اس بات میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے دسمبر۱۹۴۳ ء کے سیشن میں نواب بہادر یار جنگ کی تقریر پر قائد اعظم کا تاثر اور رد عمل ان کے موقف کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے ۔ نواب بہادر یار جنگ نے کہا:
Gentlemen achievement of Pakistan is not that difficult as to make it true Pakistan and sustain it. Your Quaid have on several occasions mentioned that Muslims cannot frame their constitution and law by themselves. This constitution in the form of the Quran is already in their hands. How well taken is this vision and decision of ours. No one can deny the fact that, we do not want Pakistan simply as a land where they became instruments of shaytan like in so many other places in the world today. If this is the objective of our Pakistan , at least I am not in favour of such Pakistan.
Who can deny the fact that we want Pakistan in order to establish Qurani nizam hukumat.
This will be a revolution. It will be a renaissance, a new life in which our cherished Islamic ideas and dreams shall become a reality and Islamic way of life shall be revived. If constitutional and political system proposed by the planning committee does not have its foundations in the Book of Allah and the sunnah of Rasool sallallahu alaihi wasallam,it will be a satanic political system, we seek Allah’s protection from such politics.
The Qua’id banged forcefully on the table and said “you are absolutely right".
حضرات! پاکستان کا حصول اس قدر مشکل نہیں ہے جتنا کہ اسے حقیقی پاکستان بنانا اور اس کو برقرار رکھنا۔ آپ کے قائد نے مختلف مواقع پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمان اپنے لیے دستور اور قانون کی تشکیل خود نہیں کرسکتے۔ یہ دستور قرآن کی شکل میں ان کے ہاتھوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ وژن اور فیصلہ کس خوبی سے لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہم پاکستان کو محض ایک ایسی سرزمین کے طور پر نہیں چاہتے جہاں ہم موجودہ دنیا کے بہت سے خطوں کی طرح شیطان کے آلۂ کار بن جائیں۔ اگر ہمارے پاکستان کا یہی مقصد ہے، تو کم از کم مَیں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ قرآنی نظامِ حکومت قائم کرسکیں۔ یہ ایک انقلاب ہوگا۔ یہ ایک نشاتِ ثانیہ ہوگی، ایک نئی زندگی جس میں ہمارے انتہائی عزیز اسلامی تصورات اور خواب حقیقت میں ڈھل سکیں گے اور اسلامی طرزِ زندگی کا احیا ہوسکے گا۔ اگر منصوبہ بندی کمیٹی کے تجویز کردہ دستوری اور سیاسی نظام کی بنیادیں اللہ کی کتاب اور سنت ِ رسولؐ پر مبنی نہیں ہیں تو یہ ایک شیطانی سیاسی نظام ہوگا۔ ہم ایسی سیاست سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
قائداعظم نے اس پر اپنی میز کو بہت زورسے بجایا اور کہا: ’’آپ بالکل حق بجانب ہیں‘‘ (تصورِ پاکستان بانیانِ پاکستان کی نظر میں، شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد، ۲۰۱۳ء، ص ۸۲-۸۳)۔
نہ صرف نواب بہادر یار جنگ بلکہ قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد پیش کرتے وقت دستور ساز اسمبلی میں جو خطاب کیا وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام پر ریاست کے سوچے سمجھے موقف کو واضح کر دیتا ہے اور اس کے لیے کسی پہاڑ کو کھود کر حقائق تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک غیر جانب دار ذہن اور قلب کی ضرورت ہے ۔اور صرف وہ شخص جو یہ غیر جانبدار ذہن اور قلب رکھتا ہواپنے آپ کو طالب ِدانش کہہ سکتا ہے ۔ ہم اصولِ تحقیق کے خلاف قائد ملت کا یہ طویل اقتباس دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ اس کا پورا متن مطالعہ کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی ۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے خطاب کا آغاز یوں کیا:
"Sir, I consider this to be a most important occasion in the life of this country, next in importance only to the achievement of independence, because by achieving independence we only won an opportunity of building up a country and its polity in accordance with our ideals. I would like to remind the House that the Father of the Nation, Quaid-e-Azam, gave expression to his feelings on this matter on many an occasion, and his views were endorsed by the nation in unmistakable terms.Pakistan was founded because they wanted to demonstrate to the world that Islam provides a panacea to the many diseases which have crept in to the life of humanity today...."
"We, as Pakistanis, are not ashamed of the fact that we are overwhelmingly Muslims and we believe that it is by adhering to our faith and ideals that we can make a genuine contribution to the welfare of the world. Therefore, Sir, you would notice that the Preamble of the Resolution deals with frank and unequivocal recognition of the fact that all authority must be subservient to God. It is quite true that this is in direct contradiction to the Machiavellian ideas regarding a polity where spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people and, therefore, it is also perhaps a little out of fashion to remind ourselves of the fact that the State should be an instrument of beneficence and not of evil.But we, the people of Pakistan, have the courage to believe firmly that all authority should be exercised in accordance with the standards laid down by Islam so that it may not be misused...."
"Sir, I just now said that the people are the real recipients of power. This naturally eliminates any danger of the establishment of a theocracy.It is true that in its literal sense, theocracy means the Government of God;; in this sense, however, it is patent that the entire universe is a theocracy, for is there any corner in the entire creation where His authority does not exist? But in the technical sense, theocracy has come to mean a Government by ordained priests, who wield authority as being specially appointed by those who claim to derive their rights from their sacerdotal position.I cannot over emphasise the fact that such an idea is absolutely foreign to Islam. Islam does not recognise either priesthood• or any sacerdotal authority; ; and, therefore, the question of a theocracy simply does not arise in Islam.If there are any who still use the word theocracy in the same breath as the polity of Pakistan, they are either labouring under a grave misapprehension, or indulging in mischievous propaganda.
You would notice, Sir, that the Objectives Resolution lays emphasis on the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, and further defines them by saying that these principles should be observed in the constitution as they have been enunciated by Islam. It has been necessary to qualify these terms because they are generally used in a loose sense…”
“When we use the word democracy in the Islamic sense, It pervades all aspects of our life;; it relates to our system of Government and to our society with equal validity,; because one of the greatest contributions of Islam has been the idea of the equality of all men. Islam recognises no distinctions based upon race, colour or birth".
"In the matter of social justice as well, Sir, I would point out that Islam has a distinct contribution to make Islam envisages a society in which social justice means neither charity nor regimentation. Islamic social justice is based upon fundamental laws and concepts which guarantee to man a life free from want and rich in freedom. It is for this reason that the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice have been further defined by giving to them a meaning which, in our view, is deeper and wider than the usual connotation of these words".
"The next clause of the Resolution lays down that Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunna. It is quite obvious that no non-Muslim should have any objection if the Muslims are enabled to order their lives in accordance with the dictates of their religion".
"You would also notice, Sir, that the State is not to play the part of a neutral observer, wherein the Muslims may be merely free to profess and practice their religion, because such an attitude on the part of the State would be the very negation of the ideals which prompted the demand of Pakistan, and it is these ideals which should be the corner-stone of the State which we want to build. The State will create such conditions as are conductive to the building up of a truly Islamic society, which means that the State will have to play a positive part in this effort. You would remember, Sir, that the Quaid-e-Azam and other leaders of the Muslim League always made unequivocal declarations that the Muslim demand for Pakistan was based upon the fact that the Muslims have a way of life and a code of conduct. They also reiterated the fact that Islam is not merely a relationship between the individual and his God, which should not, in any way, affect the working of the State. Indeed, Islam lays down specific directions for social behaviour, and seeks to guide society in its attitude towards the problems which confront it from day to day. Islam is not just a matter of private beliefs and conduct. It expects its followers to build up a society for the purpose of good life ___ as the Greeks would have called it, with this difference, that Islamic "good life" is essentially based upon spiritual values. For the purpose of emphasising these values and to give them validity, it will be necessary for the State to direct and guide the activities of the Muslims in such a manner as to bring about a new social order based upon the essential principles of Islam, including the principles of' democracy, freedom, tolerance and social justice. These I mention merely by way of illustration;; because they do not exhaust the teachings of Islam as embodied in the Quran and the Sunna. There can be no Muslim who does not believe that the word of God and the life of the Prophet are the basic sources of his inspiration. In these, there is no difference of opinion amongst the Muslims and there is no sect in Islam which does not believe in their validity".
"Therefore, there should be no misconception in the mind of any sect which may be in a minority in Pakistan about the intentions of the State. The State will seek to create an Islamic society free from dissensions, but this does not mean that it would curb the freedom of any section of the Muslims in the matter of their beliefs. No sect, whether the majority or a minority, will be permitted to dictate to the others and, in their own internal matters and sectional beliefs, all sects shall be given the fullest possible latitude and freedom. Actually we hope that the various sects will act in accordance with desire of the Prophet who said that the differences of opinion amongst his followers is a blessing. It is for us to make our differences a source of strength to Islam and Pakistan, not to exploit them for narrow interests which will weaken both Pakistan and Islam. Differences of opinion very often lead to cogent thinking and progress, but this happens only when they are not permitted to obscure our vision of the real goal, which is the service of Islam and the furtherance of its objects. It is, therefore, clear that this clause seeks to give the Muslims the opportunity that they have been seeking, throughout these long decades of decadence and subjection, of finding freedom to set up a polity, which may prove to be a laboratory for the purpose of demonstrating to the world that Islam is not only a progressive force in the world, but it also provides remedies for many of the ills from which humanity has been suffering".
"In our desire to build up an Islamic society we have not ignored the rights of the non-Muslims. Indeed, it would have been un-Islamic to do so, and we would have been guilty of transgressing the dictates of our religion if we had tried to impinge upon the freedom of the minorities. In no way will they be hindered from professing or protecting their religion or developing their cultures. The history of the development of Islamic culture itself shows that cultures of minorities, who lived under the protection of Muslim States and Empires, contributed to the richness of the heritage which the Muslims built up for themselves. I assure the minorities that we are fully conscious of the fact that if the minorities are able to make a contribution to the sum total of human knowledge and thought, it will rebound to the credit of Pakistan and will enrich the life of the nation. Therefore, the minorities may look forward, not only to a period of the fullest freedom, but also to an understanding and appreciation on the part of the majority which has always been such a marked characteristic of Muslims throughout history". (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).
’’جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم (unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔
پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے‘‘....
’’ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔
جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی فلسفی میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ: نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔
اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے‘‘....
’’میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی کا شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے‘‘۔
’’جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قراردادِ مقاصد میں جمہوریت، حُریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں‘‘....
’’جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا‘‘۔
’’جہاں تک سماجی عدل (Social Justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں‘‘۔
’’قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
’’جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔
جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطۂ اخلاق‘ موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبارمیں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔
ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام قائم ہوجائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حُریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبویؐ پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو‘‘۔
’’لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس [فطری] اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسااوقات اختلافات رائے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب رائے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے‘‘۔
’’ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے‘‘۔(اردو ترجمہ: س م خ)
اس طویل اقتباس کو پیش کر نے کا مقصد یہ بات واضح کر دینا ہے کہ نہ صرف علامہ اقبال ، قائد اعظم،علامہ اسد بلکہ ان کے قریبی رفقابہ شمول نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین ، ان میں سے ہر ایک اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریہ کا سبب کسی فرقہ یا گروہ کا دباؤ نہیں تھا۔ اگر یہ بے بنیاد ڈر اور خوف تسلیم کر لیا جائے تو قائد اعظم کی پوری سیرت اور کردار ہمارے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ ان کا موقف آغاز سے انجام تک ایک تھا ۔ اس میں کہیں نہ تضاد ہے، نہ مفاہمت اور کمزوری۔ بلکہ اعتماد اور مطالعہ کی بنا پر ان کا موقف یہی رہا کہ پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ، علاقائیت ، نسلیت، لسانیت نہیں ہے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی حیثیت سے ایک عالمی کردار ادا کرنا ہے۔(جاری)
قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ یہاں وہ بیان ملاحظہ فرمایئے جو قائد اعظم نےامریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے دیا :
The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslim ___ Hindus, Christians and Paresis ___ but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan".
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔(قائداعظم : تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلد چہارم، ص۴۲۱-۴۲۲)
اس بیان میں قائداعظم نے تین بنیادی اصول واضح کر دیے۔ اول یہ کہ چوں کہ دستورسازاسمبلی ابھی دستورر پر کام کر رہی ہے، اس لیےدستور کی آخری شکل وہ ہوگی جو اسمبلی طے کرے گی لیکن اس کی جو بھی شکل ہو گی وہ اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ہوگی۔دوئم یہ کہ سیاسی نظام نام نہاد مذہبی اجارہ داری، یعنی Theocracy پر مبنی نہیں ہوگا ۔ریاست اسلامی اصولوں کی پابند ہوگی لیکن کسی مخصوص مسلک کی پیروی نہیں کرے گی ۔سوئم یہ کہ اسلامی نظام ریاست میں غیرمسلموں کو ان کے تمام بنیادی حقوق اور تحفظات حاصل ہوں گے۔ یہ وہی تین اہم باتیں ہیں جو قرآن وسنت بار بار دُہراتے ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی انسانوں کے گروہ یا پارٹی کی نہیں ہوسکتی (فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یوسف ۱۲:۴۰)
قرآن و سنت نے غیر مسلموں کو ان کے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی ہے اور بنیادی انسانی حقوق جان ،مال ،عزّت، مذہبی آزادی کے قیام کو مقاصد شریعت قرار دیا ہے (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔الکافرون ۱۰۹:۶)۔ مستشرقین اور اکثر مغرب زدہ مسلمان دانش وَر یورپ کی تاریخ اور فکر کے تناظر میں بار بار یہ بات دُہراتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں یورپ کی طرح ایک مذہبی یا مسلکی گروہ کی اجارہ داری ہو گی۔ اسلامی ریاست میں Theocracy نہ ہونے کو معروف اسکالر علامہ اسد یوں بیان کرتے ہیں:
Since every adult Muslim has the right to perform each and every religious function,no person or group can legitimately claim to possess any special sanctity by virtue of religious functions entrusted to them. Thus the term "theocracy" as commonly understood in the West is entirely meaningless within the Islamic environment.
چونکہ ہر بالغ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہرطرح کی مذہبی رسم ادا کرسکے، لہٰذا کوئی فرد یا گروہ قانونی طور پر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی رسومات کی ادایگی کے لیے خصوصی استحقاق دیا گیا ہے۔ لہٰذا ’تھیاکریسی‘ کی اصطلاح جیساکہ عموماً مغرب میں سمجھی جاتی ہے، اسلامی تصور میں مکمل طور پر بے معنی ہے۔ (Principles of State and Government in Islam،ص ۲۱)
نہ صرف علامہ اسد بلکہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پاپائیت (تھیاکریسی) کی مخالفت کرتے ہوئے حاکمیت الٰہی کے اصول کو یوں واضح کرتے ہیں:
اسلامی ریاست جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے، نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (Democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی اُلجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں ’اسلامی ریاست‘ کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی اُن کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:
۱-خدا کی بادشاہی قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کے معنی میں، اور
۲- پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔
ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِواقعی کا بھی اضافہ ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقیات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے، اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کرعیسائیوں کو احکامِ تورات کی پابندی سے آزاد کردیا۔ اب اپنی عبادت، معاشرت، معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان مذہبی پیشواؤں نے اپنے خودساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔
اسلام میں اس مذہبی حکومت (Theocracy) کا صرف ایک جزآیا ہے، اور وہ ہے خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز، تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے، اوراس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو مآخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہ، امام،ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہےکہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو اصطلاح میں ’مذہبی حکومت‘ (Theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔(اسلامی ریاست، ص ۴۷۹-۴۸۰)
قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات میں یہ یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ نظام شریعت اور اسلامی ریاست نہ تھیا کریسی یا کسی فرقہ کی جابرانہ حکومت ہے، نہ لادینی مغربی جمہوریت بلکہ شریعت کے اعلیٰ عالم گیر انسانی اخلاقی اصولوں کے نفاذ کا نام ہے۔مغرب زدہ دانش وَروں کا یہ واہمہ کہ اسلامی ریاست کا مطلب ’ملاؤں‘یا ’طالبان‘ کی حکومت ہے، ایک بے معنی اور بے حقیقت دماغی خلل ہے۔
گویا ایک عرصہ سے جو واویلا مچایا جاتا ہے کہ شریعت کا نفاذ ہوا تو بیچارے غیرمسلم مارے جائیں گے، ان کے حقوق سلب ہو جائیں گے، قائداعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات اس غبارے کی ہوا نکال کر اسلامی ریاست کے منفرد ہونے کو وضاحت سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی نام نہاد،’آزاد خیال دانش وَر‘یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست ’مولویوں کے ٹولے‘ کی حکومت ہوتی ہے تو وہی جائزہ لے کہ وہ کہاں تک آزاد خیال ہے؟ کہاں تک خود ساختہ تصور ہی میں گم ہے اور نہ حق تک پہنچنے کی کوشش پر آمادہ ہے اورنہ اپنی رائے پر نظرثانی اورغور کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال میں قرآن حکیم نے یہ کہا کہ ’’ان کے پاس دل ہیں، مگر وہ سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۷۹)
مناسب ہو گا کہ علامہ اقبال کے ایک رفیق کار جن کا تذکرہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاریخ پاکستان پر لکھی گئی کتب میں کہیں نظر نہیں آتا، حالاں کہ وہ تحریک پاکستان کے فکری قائدین میں سے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انھوں نے قومی تعمیر نوکےادارہ کے سربراہ کے طور پر جو خدمات انجام دیں، اور بعدازاں پیدایشی طور پر یورپی باشندہ کے ہونے کے باوجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے،یعنی نومسلم علامہ محمداسد۔ وہ قائد اعظم کی زندگی میں یہ بات تحریراً اپنےرسالے عرفات میں طبع کرتے ہیں :
… I do believe (and have believed for about fourteen years) that there is no future of Islam in India until Pakistan becomes a reality and that if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving it is possible to establish an Ideological, Islamic polity in our times no less than it was possible thirteen hundred years ago. But ask yourselves: Are all leaders of Pakistan movement, and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islam and nothing but Islam, provides the ultimate inspiration of their struggle?? Are they really aware of what it implies when they say, the objective of Pakistan is la ilaha illa‘Allah?? Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan??
میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کرقائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا : کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین، اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوؤں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’لا الٰہ الا اللہ ‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟(’ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی، ترتیب و تدوین: محمد اکرام چغتائی، ص ۲۹۳)
یہ بات یاد رہے علامہ اسد کی یہ تحریر مئی ۱۹۴۷ء کی ہے جو رسالہ عرفات میں لاہور سےطبع ہوئی ۔ یہ الفاظ کسی ’فرقہ وارانہ گروہ‘کے دباؤ میں نہیں کہے گئے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے مکمل علم کے ساتھ کہے گئے اور ان الفاظ کو تحریر کرنے والا کوئی بند ذہن کا دینی مدرسہ کا فارغ نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس کی علمیت سے علامہ اقبال اور قائد پوری طرح آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے ان کی تحریر قائد کی فکر کی آواز بازگشت کہی جا سکتی ہے ۔
علامہ اسد آگے چل کر مزید وضاحت سے تحریک پاکستان کا مقصد واضح کرتے ہیں:
In the Pakistan movement, on the other hand, there undoubtedly exists such a direct connection between the people’s attachments to Islam and their political aims. Rather more than that the practical success of this movement is exclusively due to our people’s passionate, if as yet inarticulate desire to have a state in which the forms and objectives of government would be determined by the ideological imperatives of Islam – a state ,that is, in which Islam would not be just a religious and cultural “label” of the people concerned, but the very goal and purpose of the state-formation. And it goes without saying that an achievement of such an Islamic state –the first in the modern world would revolutionize Muslim political thought everywhere,and would probably inspire other Muslim peoples to strive toward similar ends; and so it might become a prelude to an Islamic revolution in many parts of the world.
بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست___ جو جدید دُنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیاسی افکار میں انقلاب برپا کردے گی، اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دُنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔(ایضاً، ص ۲۹۶)
پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے اور صرف نظام اسلامی کے لیے قائم کیے جانے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اسد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:
It is, thus, quite legitimate to say that the Pakistan movement contains a great promise for an Islamic revival, and as far as I can see it offers almost the only hope of such a revival in a world that is rapidly slipping away from the ideals of Islam. But the hope is justified only so long as our leaders, and masses with them, keep the true objective of Pakistan in view and do not yield to the temptation to regard their movement just another of the many "national" movements so fashionable in the present day Muslim world a danger which, I believe is very imminent.
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریک پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظرجاتی ہے، تحریک ِ پاکستان ایک ایسی دُنیا میں تجدید و احیاے اسلام کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُورہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبارپر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دُنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رُونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۹۶-۲۹۷)
مزید لکھتے ہیں:
In short, it is the foremost duty of our political leaders to impress upon the masses that the objective of Pakistan is the establishment of a truly Islamic polity; and that this objective can never be attained unless every fighter for Pakistan – man or women, great or small –honestly tries to come closer to Islam at every hour and every minute of his or her life that, in a word, only a good Muslim can be a good Pakistani.
مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریک ِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہرگھنٹے، اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔(ایضاً، ص ۳۰۶)
علامہ اسد کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ مسلم لیگ میں جو لوگ اپنے مفادات کے لیے شامل ہوگئے تھے اور ایسے ہی وہ نوکرشاہی جسے انگریزکے تربیتی اداروں نے آداب حکومت سکھائے تھے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کو کبھی آپس میں ملنا بھی نہیں چاہئیے۔ مذہب ایک’ ذاتی معاملہ‘ہے اور یہ مسجد ، چرچ اور مندر تک محدود ہونا چاہیے۔ بقیہ تمام معاملات انگریز کے دیئے ہوئے ’روشن اصولوں‘ سے طے ہونے چاہییں، چنانچہ ایسی بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے امید رکھنا کہ وہ قائد کے انتقال کے بعد تصور پاکستان کے نفاذ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ایک واہمہ سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔
ہر وہ شخص جو معروضی طور پر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اگر ۱۹۳۳ءمیں ظفراللہ خان نے چودھری رحمت علی کے اور علامہ اقبال کے تصور قیام پاکستان کو غیر عملی قرار دے کر رد کر دیا تھا تو کیا سرحدی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پاکستان کی حدود کا تعین ایمانداری سے کر سکتے تھے؟ اگر غلام محمد ،اسکندر مرزا اور دیگر افراد نے سازشوں کے ذریعے ملک کے نظریاتی تشخص کو دبانا بلکہ تبدیل کرنا چاہا تو ایسے افراد سے کوئی اور توقع کی جاسکتی تھی؟ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اسد کے خدشات درست تھے اور یہی وہ بات ہے جو مولانا مودودی نے کہی تھی کہ ہمارا مقصد محض ایک خطے کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کے حصول کے ساتھ ایسے افراد کی تیاری اور کردار سازی ہونا چاہیے جو اس خطے کو صحیح معنی میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور کی مثال بنا سکیں ۔علامہ اسد اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
To a Muslim who takes Islam seriously every political endeavour, must in the last resort ,drive its sanctions from religion , just as religion can never remain aloof from politics: for the simple reason that Islam, being concerned not only with our spiritual development but with the manner of our physical , social and economic existence as well , is a “political” creed in the deepest morally most compelling sense of this term. In other words, the Islamic religious aspect of our fight for Pakistan must be made predominant in all the appeals which Muslims leaders make to the Muslims masses. If this demand is neglected, our struggle cannot properly fulfill its historic mission.
ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سند ِ جواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اوراقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴)
علامہ اسداور قائد اعظم کی فکر میں اس یکسانیت کے باوجود دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو قائد اعظم کے تصور پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور وہ بھی جو اپنے مفادات کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے،اور ان کی وفاداریاں مروجہ نظام کے ساتھ تھیں۔ علامہ اسد کو ان حقائق کا پورا علم تھا ۔چنانچہ اس اندورونی تضاد یا فکری انتشار کو سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:
The need for ideological, Islamic leadership on the part of our leaders is the paramount need of the day. That some of them -though by far not all are really aware of their great responsibility in this respect is evident, for example, from the splendid convocation address which Liaquat Ali Khan,the Quaid-e-Azam's principle lieutenant, delivered at Aligarh a few month ago. In that address he vividly stressed the fact that our movement drives its ultimate inspiration from the Holy Qur’an and that, therefore, the Islamic State at which we are aiming should drive its authority from the Shari‘ah alone. Muhammad Ali Jinnah himself has spoken in a similar vison on many occasions. Such pronouncements, coming as they do from the highest levels of Muslim League leadership go a long way to clarify the League‘s aims. But a clarification of aims is not enough. If these ideal aims are to have a practical effect on our politics, the high command of the league should insist on a more concrete elaboration, by a competent body of our intellectual leaders,of the principles on which Pakistan should be built.
ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں،تو گنتی کےچند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست ِ راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریک ِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذاہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پرعملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پروضاحت و تشریح کا طریقہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے۔ جو ان اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے، جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴-۳۰۵)
It is quite possible that before these lines appear in print the Quaid-e -Azam will have sent forth a call to the Muslim nation to establish a constituent assembly for Pakistan or if this has not been done so for, is bound to be done in the very near future. Hence Muslim legislators and intellectuals must make up their minds here and now as to what sort of political structure, what sort of society, and what sort of national ideals they are going to postulate. The fundamental issue before them is simple enough; shall our state be just another symbol of the world wide flight from religion, just one more of the many "Muslim" states in which Islam has no influence whatever on the community’s social and political behavior or shall it became the most exciting, the most glorious experiment in modern history, our first step on the road which Greatest Man has pointed out to mankind? shall Pakistan only become a means of "national" development of Muslims in certain areas of India - or shall it herald, to all over the world , the majestic rebirth of Islam as practical political proposition.
یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثراور عمل دخل نہیں ہے۔ نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اس شاہراہ میں پہلا قدم جو انسانِ کامل نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دُنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟(ایضاً، ص ۳۰۵)۔(جاری)