انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے بڑا تحفہ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جو پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک اپنی بنیادی خصوصیات کے ایک بڑے حصے پر اعتماد اور فخر کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ پھر الحاد اور تشکیک کے موجودہ دور میں باحیا، صالح نوجوانوں ، محصنات اور ایک محفوظ خاندان کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔ انسانیت کے تہذیبی سفر میں یہ انقلابی تبدیلی ایک ایسے معاشرتی ماحول میں وجود میں آئی، جہاں فحاشی اور عریانی نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور برائی کو برائی سمجھنے کا احساس بھی دلوں سے جاتا رہا تھا۔قرآن کریم کی آفاقی تعلیمات اور رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی پاکیزہ سیرت نے اس زہریلے ماحول کو ایک صحت مند ،پُرامن، پُرسکون اور مودت و رحمت سے بھرپور معاشرے اور خاندان میں تبدیل کر دیا۔ یہ بنیادی تبدیلی کسی طویل عرصے میں ارتقائی مراحل سے گزر کرعمل میں نہیں آئی بلکہ دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی صرف دو عشروں میں اپنے نقطۂ کمال تک پہنچ گئی۔ لیکن پھر اپنوں کی نااہلی اور عدم توجہ اور مسلم معاشرے میں بیرونی اور اندرونی در اندازیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے کا توازن متاثر ہوا۔ اخلاقی بے راہ روی نے اسے بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی گذشتہ دو صدیوں میں مغرب کی سیاسی، فکری اور معاشی غلامی اور لادینی اور مادیت پرست تہذیب کی مسلم معاشرے پر یلغار کے زیراثر مسلمان اہل ثروت نے اپنی کوتاہ نظری کے سبب ان خرابیوں کو اپنانا شروع کردیا، جو مادہ پرست تہذیب خصوصاً مغربی استعماری دنیا میں رچ بس چکی تھیں ۔
ان خرابیوں میں سرِ فہرست خاندان کے تقدس کا پامال کرنا تھا۔ خودمغربی معاشرہ گذشتہ ایک صدی میں جس تیزی کے ساتھ اباحیت اور وحشت کی حدوں کو چھوتی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ طلاق کی کثرت، ناجائز تعلقات ،فیشن اور خود نمائی کے نام پر فحاشی اور عریانیت مغرب میں اپنے عروج پر پہنچی اور معاشی اور سیاسی عالمگیریت کے ساتھ یہ متعدی وبا مسلم معاشروں میں پھیل گئی ۔ پاکستان کے حالیہ معاشرتی حالات پر اس تناظر میں نظر ڈالی جائے، تو ایک پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے تو ۲۲-۲۰۲۱ء میں وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو اسلام آباد کے مطابق ۱۱لاکھ ۱۹ہزار ۸سو ۱۷ جرائم کا اندراج کیا گیا۔ جن میں قتل کے ۱۰ ہزار ۷۸،اغوا کے ۲۸ہزار ۱۷،ڈاکا اور چوری کے ۴۲ہزار ۴سو ۳۰ اور دیگر جرائم کے ۲ لاکھ ۵۳ہزار۷ سو ۴۲ مقدمات کو زیرِ تفتیش لایا گیا۔ صوبائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ۲۰۲۲ء میں پنجاب میں ۷ لاکھ ۵۹ہزار ۸سو ۱۶ ، سندھ میں ایک لاکھ ۱۹ہزار ۴ سو ۹۹، خیبر کے ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۳سو ۶۶ ، بلوچستان میں ۱۹ہزار ۴ سو ۴۳، اسلام آباد میں ۲۱ہزار ۴ سو ۹۰ جرائم کا ارتکاب ہوا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق صرف پنجاب میں ۲۰۲۳ء میں سول نوعیت کے ایک لاکھ ۴۶ہزار ۴ سو ۲۱ مقدمات عدالتوں میں درج کیے گئے۔ جن میں طلاق، خلع، بچوں کی حوالگی جیسے مقدمات شامل ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں ہر گھنٹے میں تین طلاقیں دی گئیں (روزنامہ دنیا ، ۹ دسمبر ۲۰۲۳ء)۔ اسی طرح کی ایک خبر میں روز نامہ جنگ (۲۶دسمبر ۲۰۲۳ء) کے مطابق لاہور کے فیملی کورٹس ، گارڈین کورٹس ، دیگر عدالتوں سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق پسند کی شادی میں سالانہ ۴۲۶ فی صد اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔گویا رواں سال میں ہر گھنٹہ میں عدالتوں میں ۵۰مقدمات دائر ہوئے ۔ ایک لاکھ ۴۳ہزار ۸سو ۹ مقدمات کے فیصلے ہوئے ، جب کہ ایک لاکھ ۶۵ہزار مقدمات زیر التوا رہے۔
پاکستان میں ’طلاق‘ اور ’خلع‘ کے واقعات میں اضافہ کے حوالے سے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے عوامی رائے کے جائزے کو دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافہ کے اسباب میں سب سے زیادہ یعنی ۴۸ فی صد کے نزدیک صبر کا فقدان ہے۔ ۳۳ فی صد کی رائے میں اس کا سبب دین سے دُوری ہے۔ ٪ ۲۷ فی صد کے خیال میں مغربی تہذیب کا نفوذہے، جب کہ ۱۲ ٪ فی صد کے مطابق اس کا سبب خواتین کا برسر روزگار ہونے کی بنا پر خود انحصاری پر مبنی آزادی کا تصور ہے۔ مزید ۹ فی صد کا خیال خود مردوں میں شادی میں دلچسپی میں کمی کا پایا جاناہے۔
ان اسباب میں ایک داخلی ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان مسائل کا بڑا سبب لوگوں کی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنا پر عجلت پسند اور بے صبرا ہونا ہے۔ گویا ۸۱ فی صد افراد کے رویہ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔مغرب سے درآمد کردہ تحریک آزادیٔ نسواں کے بنیادی تصورات میں یہ بنیادی بات شامل رہی ہے کہ چونکہ یورپی معاشرہ بنیادی طور پر مردوں کی فوقیت کا پدرانہ معاشرہ رہا ہے ،جس میں معاشی عوامل کی بنا پر مردوں کی حاکمانہ نفسیات خواتین کے بارے میں یہ تصور رکھتی رہی ہے کہ وہ ذہانت،مشقت، تاجرانہ صلاحیت اور سیاسی فراست میں مرد کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے مرد کے مساوی نہیں سمجھی جا سکتیں ۔اس تصور کا رد عمل یورپ اور امریکا میں تحریک آزادیٔ نسواں کی شکل میں ۱۹ویں صدی میں رُونما ہوا اور جن مسلم ممالک پر یورپی سامراج کا تسلط تھا، وہاں پر اس کی پذیرائی نے مسلم معاشرے میں بھی ایک صنفی دوڑ کی کیفیت پیدا کر دی اور خواتین کی جانب سے نہ صرف مساوات بلکہ اپنی خود مختاری کے حصول کو ایک مطالبہ کی شکل دے دی گئی ۔خواتین کے معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا فطری نتیجہ خاندان کے نظام کا معطل اور تباہ ہونا تھا۔
مغرب سے درآمد کیا ہوا ملکی ترقی کا ایک پیمانہ یہ قرار پایا کہ کسی ملک کی کتنے فی صد خواتین سرکاری دفاتر میں،عدالتوں میں، کاروبار میں اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر سرگرم عمل ہیں۔ ظاہر ہے جو شعبے روایتی طور پر اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے لحاظ سے مردوں کے زیر اثر تھے، وہاں پر خواتین کا عمل دخل کم تھا، مثلاً فوج ، یا سڑکوں اور عمارتوں میں تعمیراتی کام لیکن ’مساوات مرد و زن‘ کے نعرے کو اتنی تکرار کے ساتھ دُہرایا اور باربار استعمال کیا گیا کہ مسلم ممالک میں سے ایک آمرمطلق صدر معمر قذافی نے اپنے محافظ عسکری دستہ میں بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کرنا اپنی ترقی کی علامت سمجھا۔لیکن اس تمام تحقیر آمیز غلامانہ ذہنیت کے باوجود ایسے افراد اورممالک کو ترقی یافتہ ممالک نے اپنی برادری کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ مشہور مثال ہے کہ ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘۔
مغرب کی اندھی پیروی اور ’مساوات مرد و زن‘ پر ایمان لے آنے کے نتیجے میں انفرادیت پسندی اور صنفِ نازک کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ زور پکڑ گیا ہے کہ وہ مرد سے زیادہ قوی ہے۔ ویسے بھی یہ عام انسانی نفسیات ہے کہ جب بھی جنگ اناؤں (egos)کی ہوگی تو اس میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست ممکن نہیں ہوا کرتی۔ خاندان کی بنیادی اینٹ خلوص اور ایثار و قربانی سے مرکب ہے۔ جب مقابلہ نفسا نفسی کا ہو تو زندگی کا سفر جس کے لیے کم از کم دو پہیے درکار ہوتے ہیں کیسے پُرسکون طور پر چل سکتا تھا ؟ اگر دونوں پہیے الگ الگ سمت میں گھومنا چاہیں تو گاڑی میں ٹوٹ پھوٹ کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
جن اسباب کا تذکرہ جائزوں میں نظر آتا ہے ان کے حوالے سے مجلہ Clinical Social Work and Health Intervention کی جلد نو شمارہ نمبر۲ میں ۲۰۱۸ء میں مطبوعہ مقالہ میں جس کا عنوان High Ratio of Divorce and its Rationale in Pakistan ہے، اور جس کے مصنّفین کا تعلق بلوچستان یونی ورسٹی سے ہے،ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق پر مبنی اس جائزے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کے معاشی سرگرمی میں مصروف ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے لیےمناسب وقت کا میسرنہ ہونا، معاشی سرگرمی میں مصروفیت کے ساتھ مزاج میں صبر و استقامت میں کمی کا واقع ہونا ، شریک حیات کے انتخاب میں مناسب غور و فکر کے بعد فیصلہ نہ کرنا ،ایک دوسرے کی اچھائی کو وزن دینے کی جگہ کمزوری کو زیادہ محسوس کرنا طلاق کی کثرت کا سبب ہے۔ ایک اور تحقیق کی رُو سے گذشتہ دو عشروں میں کثرت سے ٹی وی چینل وجود میں آئے اور ان میں جو ڈرامے، ٹاک شو پیش کیے گئے اور پیش کیے جا رہے ہیں وہ اسلامی تصورِ معاشرت کے برعکس اخلاقی بے راہ روی، خود خاندان کے اندر محترم رشتوں کی پامالی ،گفتگو اور طرز عمل میں بے احتیاطی ، فحاشی اور اباحیت کو پیش کرتے ہیں ۔ایک شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے بھائی یا شوہر کا اپنے بیوی کی بہن کے ساتھ قریبی تعلق اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے، جیسے وہ ایک روز مرہ کا قابلِ قبول اخلاقی رویہ ہو !
تجزیاتی مضامین میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور خاندانی تصور کو یا تو بالکل لاعلمی کی بنا پر اور یا پھر جان بوجھ کر ’مذہب‘ کا مذاق اڑانے کے لیے ابلاغِ عامہ میں ایسے انداز سے زیر بحث لایا جاتا رہا ہے جو غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں برداشت کے بہانے برائی کے برائی ہونے کے احساس کو ختم کردے اور حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔ یہ ابلاغی نفسیات عالم گیر پیمانہ پر مغرب ہو یا مشرق، ہر جگہ مصروفِ عمل رہی ہے۔
عدم برداشت کی اس روش کو جانچنے کے لیے مثال کے طور پر ۱۰؍ اپریل کو بہاولنگر میں پولیس اور فوج کے درمیان مبینہ تنازع ملک میں قانون اور دستور کے عدم احترام کی صورت حال کی ایک افسوس ناک مثال ہے ۔ اگرچہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے آپس میں دست و گریبان ہونے کے واقعات کی تعداد کم ہے ۔لیکن کسی ایسے واقعے کا ہونا خود امن و امان ، امن عامہ، اور سرکاری اداروں میں عدم برداشت اور حدود سے تجاوز کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ پھر اسی طرح ۵مئی کو کھاریاں میں خواجہ سراؤں کے درمیان مبینہ تنازعے میں پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں پر جسمانی تشدد اور جواب میں خواجہ سراؤں کا علاقہ صدر کے پولیس تھانہ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنا، قانون کو ہاتھ میں لینا اور قانون کے محافظ افراد کا مبینہ طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے ۔ اور اخلاق او ر قانون کا احترام جو کسی معاشرے کی بقا کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا وقار سخت مجروح ہو چکا ہے ۔
اس صورتِ حال میں ا صلاحِ احوال میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاشرے کے باشعور افراد کا فرض ہے کہ وہ منکر کے مٹانے اور معروف کے قیام کے لیے قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ کے تحت دینی حکمت کے ساتھ اس رجحان کو تبدیل کرنے میں اپنی فکری اور تجزیاتی ذہانت کا بھرپور استعمال کریں ۔
اس ضمن میں پہلا کام خود اپنے گھر کا جائزہ لینا اور اپنے خاندانی معاملات میں معروضی طور پر اصلاح کی غرض سے انفرادی و اجتماعی طرزِ عمل کا احتساب کرنا ہے کہ ، گھر کا ماحول، بچوں کا لباس، ان کی مصروفیات خصوصیت سے تفریحات کی نوعیت کیا ہے؟ تعلیمی درس گاہ کا انتخاب کس بنا پر کیا گیا ہے؟گھر میں بچوں اور بیوی کے ساتھ کتنا وقت گزارا جا رہا ہے ؟ کیا گھر میں نمازِ باجماعت یا کم از کم صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کا اہتمام ہے ؟ان مصروفیات کے تجزیے کے ساتھ ایک عملی نقشہ بھی بنانے کی ضرورت ہےکہ اگر ایک صاحب خانہ اور ان کی اہلیہ دونوں ملازمت یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں، تو اس کاروبار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فائدہ ( financial gain) میں اور خاندانی اور معاشرتی خسارے میں کیا تناسب ہے ؟اگر ان دونوں کی محنت و مشقت ان کے بچوں کے لیے ہے، تو کیا ان کی اس آمدنی سے بچوں کی سیرت و کردار ایسی تعمیر ہو رہی ہے کہ وہ بڑے ہوکر معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی کردار کا نمونہ پیش کر سکیں، یا وہ ہوا کے رخ پر مادیت، لذتیت اور انفرادیت کو اختیار کر رہے ہیں اور ان میں اخلاص، ایثار و قربانی ،وفا ، حیا اور خاندان کے تقدس کے تصورات کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا؟
اس تجزیاتی عمل یا احتساب کے لیے کسی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا شرط نہیں ہے، نہ اسے نفسیات میں اعلیٰ ترین ڈگری درکار ہے۔ ایک معمولی عقل کا انسان بھی اس ذاتی تجزیہ کے بعد یہ معلوم کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کی اہلیہ دن میں کم از کم آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد جب شام کو تھک ہار کر گھرمیں داخل ہوتے ہیں، تو کیا ان کے مزاج میں بے صبری، چرچڑاہٹ، غصہ پایا جاتا ہے، یا وہ خوش مزاجی اور حسِ مزاح کے ساتھ آپس میں بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں؟ کیا گھر کے افراد بشمول شوہر،بیوی اور بچوں کے کھانے کے دوران یا گھر کے باہر کسی ہوٹل میں گھنٹہ سوا گھنٹہ کھانے کے دوران آپس میں بات کرتے ہیں، تو کیا ان کی نظر یں موبائل پر آنے والے پیغامات اور ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شو پر جمی ہوتی ہیں، یا وہ آپس میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کر رہے ہوتےہیں؟کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے معاملات پر توجہ کے ساتھ بات کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بچے اور وہ خود ، ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا اپنا موبائل ہوتا ہےاور وہ اس پرچیٹ کر رہا ہوتا ہے ؟ کیا ہم ایسے خاندان کو ایک مربوط خاندان کہہ سکتے ہیں ؟ یا ہر فرد کا اپنی دنیا میں گم ہونا اور صرف مروتاً کھانے کی میز پراور ٹی وی کے کمرے میں صوفے پر کچھ دیر غائب دماغی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کمرے میں واپس چلے جانے کو رحمت، مودّت ، ایثار و قربانی سے متصف خاندانی ماحول کہا جا سکتا ہے ؟
یہ ذاتی جائزہ اگر ایمانداری سے لیا جائے تو ایک صاحب ِخانہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کا نام نسلوں کا فاصلہ (Generation gap) ہے، وہ کسی بیرونی سامراج نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ خود اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ مسلمان اور بظاہر تحریکی گھرانے کے افراد نے اپنے ہاتھوں اپنے گھر میں رائج کیا ہے۔اس آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھ لی جائے تو پھر صورتِ حال کی سنگینی اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں آسانی ہو سکتی ہے اور اصلاحِ احوال کا تعلق زمینی حقائق سے وابستہ ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ معلومات،عددی ابلاغ اور مصنوعی ذہانت کے دور میں بعض معلوماتی اور ابلاغی آلات سے فرار ممکن نہیں، لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ کھانے کی میز پر بیٹھنے والے خاندان کے افراد اپنے اپنے موبائل یا آئی پیڈ کو چھوڑ کر ۲۴ گھنٹے میں سے صرف ۴۵ منٹ وہ ایک دوسرے سے بات کر سکیں، یا کسی موضوع پر سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ معلومات میں اضافہ کر سکیں؟
دوسرا بنیادی کام گھر سے باہر تعلیمی اداروں کا ہے کہ چھٹی جماعت سے ، دسویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں ایک بااخلاق، معتدل ،بامروت و محبت آمیز خاندان کے خدوخال شامل کیے جا ئیں۔ خاص طور پر خاندانی زندگی کی اہمیت، تقدس اور ایک پرسکون خاندان کے نتیجے میں معاشرے میں توازن و برداشت، صبر و استقامت اور تشدد کے عدم استعمال کو تعلیمی نظام کے ذریعے شخصیت کا حصہ بنایا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ چھٹی جماعت کی عمر میں ایک بچے میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ اگر اس مرحلے میں اسے خاندان کی اہمیت و عظمت پر یکسو کر دیا جائے، تو پھر ایک پُرامن معاشرے کا وجود میں آنے کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔
تیسرا اہم کام ملک کے ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لے کر ان تصورات کو علمی و تحقیقی اور دستاویزی شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے، جو آنے والی نسلوں کو مغربی سامراجی تسلط، ذہنی غلامی، ثقافتی نقالی اور اخلاقی بیماریوں سے بچا سکیں اور مثبت، تعمیری رجحانات پیدا کریں ۔فحاشی و عریانی کی جگہ حیا اور عصمت و عفت پر مبنی ڈرامے، نغمے، مباحثے، مکالمات وغیرہ پیش کیے جائیں اور ابلاغ عامہ کے اس مثبت کردار کو درجہ بندی (ranking) کا بنیادی پیمانہ بنایا جائے۔ مقامِ عبرت ہے کہ اس وقت برقی ا بلاغ عامہ(Digital Media) سب سے زیادہ بے حیائی، مغربیت اور غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اُردو میں کسی تبصرہ کے لیے بھی رومن کو استعمال کیا جاتا ہے اور گفتگو میں کثرت سے انگریزی الفاظ اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ تین چوتھائی گفتگو انگریزی میں اور ایک تہائی کی حد تک اردو کا استعمال مشاہدہ میں آتا ہے۔
چوتھا بنیادی کرنے کا کام ان افراد کا ہے جو اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی فکر سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کیا ان کے گھر ،ان کے پڑوس اور محلے میں وہی ماحول ہے جو بغیر کسی تردد کے مغرب کی اباحیت پسند تہذیب سے مستعار لیا گیا ہے، یا ان کے رویے،طرز فکر ، رہن سہن ، طور طریقے دین کی تعلیمات پر مبنی ہیں؟ بات وہی اثر کرتی ہے جو انسان کے اپنے عمل سے ظاہر ہوتی ہو۔ الفاظ کتنے بھاری بھرکم کیوں نہ ہوں جب تک کردار اور الفاظ میں مطابقت نہ ہو ابلاغ نامکمل رہتا ہے۔
تحریک سے وابستہ افراد کا گھرانہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی بھی دیکھنے والے کے لیےصیحح اسلامی طرز عمل کا نمونہ ہو اور دین اور اس کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہو ۔اس غرض کے لیے تحریک اسلامی کو اپنے ہر گھر میں ایک مثالی خاندان کے نقشہ کو رائج کرنا ہوگا، تاکہ گھر کا ہر فرد اخلاقی، معاشرتی انقلاب کا نمایندہ سپاہی بن سکے اور اس کی گفتگو، سوچ اور عمل یکسوئی کے ساتھ قرآن و سنت کی عملی تشریح پیش کر رہا ہو ۔اگر خدانخواستہ تحریکی گھرانوں میں فکری انتشار، بول چال اور رہن سہن میں مغرب کی اندھی نقالی ،تحریکی تصورات میں عدم پختگی پائی جائے گی، تو ایسے گھروں کے سربراہ چاہے علمی مقالات تحریر کر لیں یا خطیب ِعصر بن جائیں، ان کی کسی بات کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ یہ قرآنی ضابطہ ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں!
اسی طرح ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے تحفظ و ترقی کے پیش نظر جہاں کہیں وہ اپنی بات پیش کر سکتا ہے، چاہے وہ کاروباری مرکز ہو یا پارلیمنٹ اور عدلیہ یا جامعہ، وہ اپنی تمام ذہنی قوت کو ایسے حالات پیدا کرنے میں صرف کرے جو خاندان کے ہر فرد میں احساس ذمہ داری ،احساس جوابدہی ،اخلاقی رویہ اور معاملات میں سچائی، امانت اور خیر خواہی کی ہمت افزائی کرتا ہو ۔دعوت اور اقامتِ دین کا قیام جب تک گھر اور محلہ سے نہیں ہوگا، اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔ یہ خاندان اور محلہ ہی ہے جو پورے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
تحریک اسلامی جس سیرت و کردار کے انقلاب اور معاشرتی ، اخلاقی ، معاشی ، اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حالیہ صورت حال کا تنقیدی جائزہ لے کر اضمحلال اور اخلاقی زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، اور پھر قائد تحریک اسلامی کے پیش کیے ہوئے سوچے سمجھے چار نکات پر مبنی منصوبۂ عمل کو توازن کے ساتھ عمل میں لایا جائے ۔خاندان اور محلہ میں اقامت دین کے بغیر معاشرہ اور دستور ساز ادارے مسلمان نہیں بن سکتے۔اگر گھر کے اندر ہی یک رنگی، فکری اتحاد اور عملی یکسوئی نہیں ہوگی، تو زبان سے نکلے ہوئے کلمات اور قلم سے وجود میں آنے والے فکری نگینے مصنوعی چمک دمک سے مزین ہوں گے۔وہ اس نور سے محروم رہیں گے جو قرآن و سنت کی شکل میں بطور ایک رحمت انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔۳۵ سے ۴۰ سال میں دل و دماغ جس غیر سنجیدہ عوامی ماحول کے عادی ہو گئے ہوں، ان کو دوبارہ صحیح رُخ پر لائے بغیر اصلاح احوال کا کام نہیں ہو سکتا۔یہ ایک دلیرانہ ، پر عزم ، صبر آزما لیکن مثبت نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔ اس مقصد سے زمین میں ڈالا گیا ہر بیج شجر طیبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔زمین نم ہے، بیج موجود ہے، ارادہ اور قوت میں کوئی کمی نہیں ہے!پھر انتظار کس کا؟کیا حالیہ گمراہی ، معاشرتی زوال، اخلاقی دیوالیہ پن ، عرب جاہلیت سے بد تر ہے کہ اسے بدلا نہ جا سکے ؟
قرآن و سنت کے وہ عملی حل جو جاہلی ماحول اور انسان کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے آج بھی اپنی تازگی کے ساتھ موجود ہیں۔ضرورت صرف توازن کے ساتھ تطہیر فکر و نظر، تزکیۂ اخلاق و عمل، تعمیر کردار و سیرت،مثالی خاندان اور مثالی معاشرہ کے لیے افراد سازی اور تنظیم کی ہے۔ وہ تنظیم جس میں بےغرضی ہو، للہیت ہو ، خلوص ہو اور جاہ طلبی نہ ہو۔ جس میں ہر کارکن قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایسے افرادِ کار کی تیاری کے بغیر قوت کا مظاہرہ، جلسے جلوس کی کثرت ،منکر اور طاغوت کی جگہ معروف اور حق کے قیام میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔صبر و استقامت کی راہ ،واضح ومتعین منزل اور افرادی زادِ راہ ہی وہ مسنون طریقہ ہے جو کسی بھی تحریک اسلامی کو فرد،معاشرہ اور نظام کی صالح تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے۔
دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے، ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں، جس طرح مبداء فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب، جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے، اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
بخار [بخارات] کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں، جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے، تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت ِبخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں، اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔
یہ سنتُ اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں، وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۲۳ (الفتح ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے، اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے، بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے، اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔
بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں، ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں، ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں، اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجَّار کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے، اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش، کتنی پریشانیوں، کتنی ٹھوکروں، اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟
غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے، ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں، ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔
دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں، اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے، اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے، قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے، اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں، یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں، لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں، ان دل چسپیوں، ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں، بلکہ حق ہے، اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے، اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔
یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)، یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان، مال، اولاد، رشتہ دار،دوست،وطن، قوم،عزت، شہرت، ہردلعزیزی، لذت و مسرت، عیش و آرام، عقائد و افکار، حریتِ خیال و آزادیِ عمل، غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے، اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔
حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو، وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ۲:۱۶۵)۔جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت، حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو،وہی بت ہے، صنم ہے، بنائے شرک و کفر ہے، نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔
غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے، انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام، لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں، بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے، اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۰ۭ (الاعراف ۷:۳)جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔
یہ ’اسلام‘ ،یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے، اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں، خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں، فرائض و طاعات ہیں، حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں، مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو، لذتوں کا خون کرو، فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات، اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے، فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے، اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔
جیساکہ عرض کیا گیا، یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے، یہ پورا اسلام نہیں ہے،بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں، معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں، بلکہ اسلام کی اصلی روح یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو، مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں، رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں، اور دوسری طرف باطل ہو، اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو، لطف و مسرت ہو، اور ہر طرح کے فائدے ہوں، تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے، اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۱۵۶ۭ (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶) ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے، اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔
اگر کسی وقت خود اپنے باپ، بھائی، اہلِ خاندان اور دوست، حق کے دشمن ہوجائیں تو مسلمان وہی ہے جو حق کے لیے ان سب کو چھوڑ دے اور کسی سے تعلق نہ رکھے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۲) تُو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے، چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
اگر کسی وقت قوم اور وطن کی حق سے دشمنی ہوجائے تو مسلمان وہی ہے جو حق کی خاطر قوم سے قطع تعلق کرلے اور وطن کو خیرباد کہہ دے، ورنہ اس کو منافق کہا جائے گا خواہ وہ کیسا ہی نمازی و پرہیزگار ہو:
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۰ۭ (النساء۴:۸۹) تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔
اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے، اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی، اس کا دعویٰ ٔ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا عابد و زاہد کیوں نہ ہو:
وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِيْنَ۱۶۶ۙ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا ۰ۚۖ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی، اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔
غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو، جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال، یا اولاد، یا ملک و قوم، یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو، اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔
قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا ؑ اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دُہرایا گیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں، سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ، رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا۲۶ (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے، بیوی ہلاک ہوتی ہے، مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔
حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے، رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِـمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ ج (یوسف ۱۲:۳۳)۔
فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۲۱ۙ رَبِّ مُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۱۲۲ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۰ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۷۲ۭ (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔
اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے، رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا (الکہف ۱۸:۱۴)۔اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار، عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں، اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ۲۶ (الزخرف۴۳:۲۶)۔ قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا، قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ،اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ تعلق نہیں ، ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی، تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو، كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ۶۰:۴)۔
یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا، ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں، مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ ٔعشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔
اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں، تب بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی، اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۱۱۱(الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱)، اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا، اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے، قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ (الممتحنہ۶۰:۴)۔
عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل، جانور پر چھری چلانا، اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے، بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اُس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محبوبِ حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے، ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں، ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔
بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا، بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی، اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو، ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے:
لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ (الحج ۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۳۴ء)
نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے اس واقعے کو ایک ’جرم‘ قرار دینے کے بجائے ’جنگ‘ کا نام دیا۔ پھر دُنیا بھر میں جنگ کا بگل بجانے کے ساتھ اسی امریکا نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالکلیہ نظرانداز کر دیا اور آگے بڑھ کر دومسلم ملکوں: افغانستان اور عراق پر اندھادھند فوج کشی کر دی۔ تمام مغربی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک نہ رُ کنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔محض شبہہ کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کر نے والے اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا اغوا، تفتیش میں تو ہین آمیز اور انسانیت سوز سلوک، حق دفاع سے محرومی، دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی،قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر وحشیانہ فوج کشی، کارپٹ بم باری اور سرحدوں کے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ پہلے تو عالمی برادری امریکی غصّے سے خوف زدہ ہوکر ان اقدامات کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی، مگر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سلسلہ جوں جوں طول کھینچنے لگا تو اس کے خلاف آوازاُٹھنے لگی۔
۲۰۰۹ء میںجنیوا میں قانون دانوں کے عالمی کمیشن کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک نہایت قیمتی رپورٹ شائع کی تھی:War on Terror for Eroding Human Rights۔ اس پینل کی سر براہ آئر لینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں۔ ان کے ہمراہ دُنیا کے کئی ماہرین قانون اور نیک نام سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پربھر پور گرفت کی گئی ہے، جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے نام پر بنائے گئے ہیں، اور جن کی زد بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو ’جنگ‘ نہیں، بلکہ ایک ’جرم‘ اور انسانیت کے لیے خطرے سے تعبیر کیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اس کے انسداد کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ذیل میں اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جن سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بھی پتا چلتا ہے اور ان کی خامیوں پر بھی روشنی پڑتی ہے:
’’دہشت گردی سے جو خطرات در پیش ہیں، ان کو ہلکا سمجھنا ایک غلطی ہوگی۔ان خطرات کا مقابلہ ریاستی سطح پر لازم ہے، مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں، بلکہ ان کے منفی نتائج رونما ہور ہے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں سے جو نقصان ہوا ہے، اس کا تدارک کر نے کے لیے عالمی،علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
’’بہت سی ریاستیں اس آڑ میں خوداپنے معاہداتی اور روایتی قانون کے تقاضوں سے انحراف کی راہوں پر بے دھڑک دوڑ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی ہے۔ نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خوف نے عالمی حقوق انسانی کے بنیادی قانون (بشمول پہلے سے طے شدہ اصول: ٹارچر،ظالمانہ اور غیرانسانی تو ہین آمیز سلوک،افراد کا اغوا اور غیر منصفانہ مقدمات کی ممانعت) کو پامال کر دیا ہے۔
’’لبرل جمہوری ریاستیں ماضی میں انسانی حقوق کے اصولوں کا دفاع کرتی رہی ہیں، مگر اب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کر کے عالمی قانون کو رفتہ رفتہ کم زورکر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں دوسری حکومتوں کی ان کا رروائیوں میں، جوحقوق کی پامالی کا ذریعہ ہیں، شریکِ کار ہیں، یا کم از کم خاموش رہ کران کی سرگرم ساتھی بن رہی ہیں۔
’’دہشت گردی کا مقابلہ کر نے کے لیے فوج داری قانون ہی مقابلے کا اوّلین ذریعہ ہونا چاہیے۔ ہماری تحقیقات اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں نے دہشت گردی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ قوانین وضوابط اور آزمودہ طریقوں کو اپنانے سے تو احتراز ہی کیا ہے، لیکن اس کی جگہ دوسری انتہا کو اختیار کرنے کے وسیلے اور بہانے تلاش کیے ہیں۔ تاہم، اگر ریاستوں کو عوام کی زندگی اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر نا ہے، تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مروّجہ فوج داری عدالتی نظام ہی اوّلین فریم ورک ہونا چاہیے۔
’’نائن الیون کے بعد بہت سے قوانین اور پالیسیوں کو غیر متعین مدت کے لیے بلامقد مہ حراست اور فوجی عدالتوں وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جار ہا ہے، حالاں کہ ماضی میں بھی یہ حربے آزمائے گئے اور اکثر وبیش تر نا کام رہے ہیں۔ مثلاً یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک آزادسویلین عدلیہ برقرار رکھی جائے، جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر جواب دہی کو یقینی بنائے۔
’’ریاستوں نے احتیاطی تدابیر مثلاً: ملک بدری، پابندیوں کے احکام، دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی فہرست پر انحصار بڑھادیا ہے۔ ہم کوتشویش ہے کہ غیر مصدّقہ شواہد اور ناقص خفیہ معلومات کوافراداورتنظیموں کے خلاف اقدام کر نے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور اپیل کا حق سلب کیا گیا ہے، جس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہور ہے ہیں۔
’’پوری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں نے نئے اختیارات اور خطرناک حد تک مؤثر وسائل و آلات حاصل کر لیے ہیں، جب کہ قانونی اور سیاسی جواب دہی بالکل ہی مفقود ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قابلِ اعتمادخفیہ معلومات بلاشبہہ ضروری ہیں، لیکن ساتھ ہی جواب دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے باہمی تعاون کے لیے واضح پالیسیاں اور طریق کار طے کیے جائیں۔
’’بہت سی ریاستوں میں مشتبہ دہشت گردوں کی حراست اور تفتیش پر راز داری کا پردہ پڑا ہوا ہے، جس سے ٹارچر، ظالمانہ،غیرانسانی اور توہین آمیز طر یقوں کو راستہ ملتا ہے، جب کہ ایسی خلاف ورزیوں پر سزا کا خوف بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں عدالتوں اور وکلا تک تیز رفتار اور مؤثررسائی ممکن بنائی جانی چاہیے، تا کہ اس قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے نجات مل سکے۔
’’امریکا کی قیادت میں اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں اور انسان دوست قانون (Humanitarian Law)کوبہت سخت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کو استحصال پرمبنی قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کو، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ ہیں، واضح طور پر مستر دکر نا چا ہیے۔ ماضی کی خلاف ورزیوں پر شفاف اور جامع تحقیقات کروانی چا ہیے اورمتاثر افرادکومناسب تلافی دینی چا ہیے‘‘۔
۲۵۰ صفحات پرمشتمل رپورٹ کے یہ چند اہم نکات ہیں۔ ان سے نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردی سے متعلق بنائے جانے والے عالمی قوانین میں موجود خامیوں اور حکومتوں کی فسطائیت کا پتا چلتا ہے۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے:
اللہ تعالیٰ اس کائنات کا مالکِ حقیقی ہے ۔ وہ دنیا میں امن وسلامتی چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے۔ طاقت ور کم زوروںکا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کر دیں۔ دنیا میں ظلم وفسادا ورقتل وغارت گری کا بازار گرم ہواور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے، دھن دولت، لا لچ ،ہوس،جہاں گیری اور کشور کشائی کے لیے انصاف کا خون بہایا جائے۔ چنانچہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کومحترم ٹھیراتے ہوئے ’’ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیا ہے‘‘(المائدہ۵:۳۲)۔دوسری طرف فتنہ وفساد کوقتل سے بڑھ کرسنگین جرم قرار دیاہے۔(البقرۃ۲: ۱۹۱)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بر پافتنہ وفساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کیا ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۲۵۱ (البقرۃ۲:۲۵۱) ،اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو ز مین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیاوالوں پر اللہ بڑ افضل والا ہے۔
اسی طرح بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کوا پنی ربوبیت کی تدابیر کے ذریعے سردکرتا ہے:
كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ ۰ۙ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۶۴(المائدہ ۵:۶۴) یہ لوگ جب بھی جنگ اور خون ریزی کی آگ بھڑ کا تے ہیں تو اللہ اس کو بجھادیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد بر پا کر نے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اللہ تعالی مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔
ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتاہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو عبادت گا ہیں تک محفوظ نہ رہتیں اور وہ منہدم کر دی جاتیں، مگر اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے، تا کہ فساد رُک جائے۔ (الحج۲۲:۴۰)
جولوگ دہشت گر دی پھیلا نے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک مجرموںجیسا برتاؤ کیا جانا چا ہیے۔ ان کو وہ مقام ہر گز نہیں دیا جانا چاہیے، جو ان جنگجوئوں کا ہوتا ہے جور یاستوں سے بر سرِ جنگ ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت بھی یہی ہے۔ برطانیہ کا قانون دان کوئیس کونسل جیفرے را برٹسن اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے :
ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون نا کام ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۱۵ کا اطلاق صرف ان حملوں پر ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کر یں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی اب تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کر نے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گر داور قانون نافذ کر نے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔
مراد یہ ہے کہ قرآن مجیدنے دہشت گردانہ افعال کوفساد فی الارض سے تعبیر کیا ہے اور اس کے انسداد کے لیے تمام ممکن وسائل وذرائع اختیار کر نے کی ہدایت کی ہے:
اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۰ۭ (المائدہ ۵:۳۳) جولوگ اللہ اوراس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور ز مین میں اس لیے تگ ودوکر تے پھرتے ہیں کہ فساد بر پا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔
اس سخت ترین سزا کا دائرۂ مجرمین تک محدود ہے۔ قانون کا یہ مسلّمہ اصول ہے کہ کسی فردیار یاست کو کسی دوسرے کے جرم کی پاداش میں سزانھیں دی جاسکتی۔انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہیں، جنھیں دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا وبرطانیہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱کے مطابق فرد یا گروہ کا ایسا طرز عمل جوکسی ریاست کی جانب سے نہ ہو، بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔
قرآن مجید نے دوسری قوموں سے کیے گئے معاہدوں کی پاس داری کی تلقین کی، حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی صلح کوتر جیح دی جائے۔ اگر دشمن صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس سے صلح کرلی جائے۔ چنانچہ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ ہواور وہ قوم اپنے یہاں کے مسلمانوں پر ظلم ڈھارہی ہوتو اس کے خلاف جنگ چھیڑ نا درست نہیں ہوگا ،جب تک کہ معاہدے کو ختم کر نے کا اعلان نہ کر دیا جائے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۰ۭ ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۶۲ۙ (الانفال۸:۶۱-۶۲) اوراے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جانے والا ہے۔ اور اگر وہ دھو کے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائیدکی۔
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۸ۧ (الانفال۸: ۵۸)’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہوتو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آ گے پھینک دو۔ یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔
دنیا کا ایک مسلّمہ قانون یہ ہے کہ اگر کسی پر الزام لگایا جا ئے تو جب تک وہ الزام ثابت نہ ہو جائے اسے مجرم نہیں قرار دیا جاسکتا اورنہ ا سے سزا کامستحق سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی کو پھانسی دینے سے پہلے عدالت میں اس کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کا کوئی جرم نہ امریکا کی طرف سے دنیا کے سامنے لایاگیا، اور نہ بین الاقوامی عدالت میں اسے ثابت کیا جا سکا، بلکہ اسے سرے سے پیش ہی نہیں کیا گیا ،بلکہ اس کے بغیر اس کے خلاف فوج کشی کر دی گئی۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں عام آبادی،معصوم بچے،عورتیں، بوڑھے اور مریض ہلاک ہوئے۔
امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘کے نام پر نہ صرف افغانستان کو تاراج کر دیا، بلکہ اس نے افغانستان کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں ڈرون حملوں کے ذریعے وہاں کی عام آ بادی کو نشانہ بنایا ،چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔بہت پہلے امریکی ادارے’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ (ACLU)نے اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیاتھا کہ یمن، صومالیہ اور پاکستان میں امریکا ڈرون حملوں کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے۔ محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور داڑھی کے جرم میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مردیا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید تمام فوج داری جرائم کو ثابت کر نے کے لیے گواہی کا اصول بیان کرتا ہے:
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۴ۙ (النور۲۴:۴) اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسّی (۸۰) کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرو،اور وہ خودہی فاسق ہیں۔
الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط رکھی گئی اور الزام ثابت نہ ہو نے پر اسّی (۸۰)کوڑوں کی سزا متعین کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے اثبات کے لیے کتنی سخت شرائط ہونی چاہییں۔
مغرب نے حقوق انسانی اور آزادی کا جتنا چر چا کیا، اس کے مقابلے میں اس نے حقوق پامال کیے اور آزادانسانوں کو قید خانوں میں برسوں ڈالے رکھا۔ اس کی بدترین مثال گوانتاناموجیل کے بے گناہ قیدی ہیں، جنھیں عر صہ تک قیدرکھاگیا اور ان پر مقد مہ چلائے بغیر رکھا گیا۔
قرآن مجید، تمام انسانوں کے حقوق کی پاس داری کی یکساں تعلیم دیتا ہے۔انسانی جان کی حُرمت کو وہ سب کے لیے یکساں طور پر ہمیشہ اور ہر جگہ تسلیم کرتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ (المائدہ ۵:۳۲) جوکوئی کسی نفس کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کوقتل کیا ہو، یازمین میں فساد پھیلا یا ہوتو اس نے گویا سب انسانوں کوقتل کیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
مساوات انسان کا بنیادی حق ہی نہیں ہے، بلکہ تمام حقوق کی اصل بنیاد ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی منشور میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کے متعلق کہاگیا ہے کہ یہ حقوق سب کو یکساں حاصل ہوں گے۔ ان میں نسل، رنگ، جنس (مرداورعورت)، زبان، مذہب، سیاسی یا دیگر افکاروخیالات، سماجی ومعاشی حیثیت اور جائے پیدائش کی بنیاد پرفرق وامتیاز نہیں کیا جائے گا۔
فرعون کے بارے میں قرآنِ عظیم میں کہا گیا ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۴ (القصص ۲۸:۴) بے شک فرعون نے ارضِ مصر میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں ایک فرقہ (بنی اسرائیل) کو کمزور بنائے رکھتا،ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا اوران کی عورتوں کوزندہ رکھتا۔بے شک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔
انسانوں کے درمیان مساوات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب کے ساتھ عدل وانصاف ہو اور کوئی بھی شخص ظلم وزیادتی کا ہدف نہ بننے پائے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (الحدید۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۸(المائدہ۵:۸)کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر ہرگز آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ جو کچھ تم کرتے اس سے باخبر ہے۔
اسلامی قانونِ شہادت کے تحت کسی شخص کو قید و بند کی سزا اس وقت دی جائے گی، جب قابلِ اعتمادشہادتوں سے ثابت ہوجائے کہ واقعتاً اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اس سزا کا مستحق ہے۔ قرآن مجید میں یہود کے ان مظالم کا حوالہ دیا گیا ہے جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ وہ ایک گروہ کوان کے گھروں سے نکالتے، انھیں قید کرتے،پھران سے فد یہ وصول کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے اور اسے میثاقِ الٰہی کو توڑنے کے مترادف قرار دیا ہے۔(البقرۃ۲:۸۳-۸۵)
گذشتہ برسوں میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ابوغریب(عراق)اور گوانتانا موبے کے قیدخانوں میں قیدیوں کی تذلیل وتو ہین او را نسانیت سوز ٹار چر کے جومناظر دکھائے تھے، وہ روح فرسا، اذیت ناک اور خون کے آ نسور لانے والے تھے۔ قیدیوں کو ما در زادننگا کر کے انھیں ایک دوسرے پرایسے ڈھیر کردیا جاتا تھا، جیسے وہ انسان نہیں کوڑا کرکٹ ہوں۔ بے لباس قیدیوں کوز نجیروں کے ذریعے دیوار سے باندھ کران پر کتّے چھوڑے جاتے تھے اوران کی بے بسی پر قہقہے لگائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ جنسی حرکات کرتے ہوئے تصویرکشی کی جاتی تھی۔ گوانتا نا مو بے کے قیدیوں کو خاص طور سے گز بھرمربع جگہ میں رکھاگیااور ان کے چاروں طرف خار دار تار وںمیں بجلی کا کرنٹ دوڑا دیاگیا۔ان جیلوں میں کیا کچھ ہوا اس کی محض چند جھلکیاں ہی مہذب دنیا کے سامنے آسکیں، ورنہ بہت کچھ پردئہ خفا ہی میں رہا۔
قرآن مجید میں حدود و قصاص کے ضمن میں بعض سزاؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن پر مغرب نے ہمیشہ اعتراضات کیے اور ان کوحقوقِ انسانی کے خلاف باور کرانے کی کوشش کی، مگر دہشت گردی کے انسداد کے نام پر اس نے ایسی ایسی سزائیں ایجاد کی ہیں کہ خدا کی پناہ! بہرحال قرآن مجید ایسی سزاؤں کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید میں حد ودو قصاص کے ضمن میں واضح اصول بیان کیے گئے ہیں اوران کا نفاذمتعین طور پر صرف مجرموں پر ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مشتبہ افراد کو غیر معینہ مدت تک انسانیت سوز سزائیں دی جاتی رہیں۔
ڈکیتی وغیرہ کی متنوع سزاؤں کے باوجودقر آن نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ اگر مجرم گرفت میں آنے سے پہلے تو بہ کر لے تو اس سے سز اساقط ہو جائے گی:
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ۰ۚ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۳۴ (المائدہ ۵:۳۴) مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اسلام میںارتداد کی سخت سزا رکھی گئی ہے، یعنی قتل، مگر اس کے باوجوداس کو تو بہ کی مہلت دی جائے گی۔اگر وہ تو بہ کرلے تو اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مجرم اگر اصلاح پر آمادہ ہوتواسے اس کا موقع دیا جائے گا۔جن مجرمین پر سزا کا نفاذ ہونا ہوان کی تذلیل وتحقیر کی اجازت نہیں دی گئی ہے، بلکہ جومتعین سزا (حدود یا قصاص) بیان کی گئی ہے صرف وہی نافذ کی جائے گی۔ یہ سزائیں صرف ان لوگوں پر نافذ کی جائیں گی، جوحقیقت میں مجرم ہوں اور جرم ثابت کرنے کے لیے تمام عدالتی کارروائیاں پوری غیر جانب داری کے ساتھ انجام پائی ہوں اور جرم اپنے جملہ شرائط کے ساتھ ثابت ہو چکا ہو لیکن اگر ثبوت میں کسی بھی پہلو سے اشتباہ ہوتو یہ سزائیں نافذنہیں ہوں گی، البتہ ریاست کو مجرم کی تعزیر کا حق ہے۔
امن کے اصل معانی نفس کے مطمئن اور بے خوف ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے امانت ہے، جو خیانت کی ضد ہے۔ امین کو امین اس لیے کہا جا تا ہے، کہ اس کی نیک معاملگی پر دل مطمئن ہو تا ہے۔ جواُونٹ قوی اور مضبوط جسم کا ہوا سے’ مامون‘ کہا جا تا ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی نیند کے لیے قرآن مجید نے اَمَنۃً نُعَاسًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ان کے معنیٰ ہیں ایسی نیند جس سے دماغ کو راحت وسکون اور دل کو اطمینان حاصل ہو۔ امن خوف کی ضد ہے، یعنی مستقبل میں کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے دو چار ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی سے مستامن ہے، جس کا اطلاق اس حربی پر ہوتا ہے جواسلامی حکومت سے امان نامہ حاصل کر کے دارالاسلام میں بے خوف ہوکر رہتا ہو۔ گویا امن ایسے حالات کا نام ہے، جن میں ہرشخص یا فریق اپنے تحفظ کے سلسلے میں دوسرے کی طرف سے بالکل بے خوف اور مطمئن ہو۔ سلم،سلام اور اسلام کے الفاظ کا استعمال امن کے مترادف کے طورپرہوتا ہے۔
قرآن مجید میں فرد کی تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، تا کہ وہ ربّ کی مرضی اور امن وسلامتی کی راہ پر گام زن ہو سکے ۔ اسلام امن وسلامتی انفرادی اور سماجی سطح پرہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم کرنا چاہتا ہے، تا کہ ہرمتنفس اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ قرآن مجید میں مختلف اخلاقی اوصاف کا تذکرہ کیاگیاہے، مثلاً ذکر، شکر، تقویٰ، توکل، صبر، توبہ واستغفار،شرم وحیا، احسان، صداقت، خوش اخلاقی، ایفائے عہد، امانت، عدل وانصاف، تواضع، رحم دلی، عفوودرگزر، خیر خواہی،مساوات، وغیرہ۔ اسی طرح فضول خرچی، سودخوری، رشوت، بدکاری، کبر وغرور،جھوٹ، فریب، غصہ ،خیانت ،چوری، شراب نوشی، جوا وغیرہ سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اگر افراد میں یہ اعلیٰ صفات پیداہوں تو ایک پُرامن معاشرہ وجود میں آئے گا۔
اسلام کی رُو سے سماج میں پائے جانے والے تمام طبقات اور گروہوں کے درمیان باہمی تعاون، رحمت و محبت اورامن وسلامتی کا تعلق پایا جا تا ہے۔اس کی بنیاد حقوق وفرائض کے متوازن اور معتدل تصور پر قائم ہے۔ قرآن مجید میں حقوق وفرائض کی صرف قانونی دفعات ہی مذکورنہیں ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں لوگوں کے درمیان اخوت ومحبت پیدا کر نے کی تدابیر بھی بیان ہوئی ہیں۔
معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بغض ونفرت اور خوف و ہراس پیدا کر نے کے ذرائع سے بچنے کی تا کید کی گئی ہے۔ اظہارِ کبر،بے رخی برتنے اور کرخت آواز میں بات کرنے سے منع کیاگیاہے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی تعلیم دی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ اس طرح دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔(حم السجدۃ ۴۱:۳۴)
اصولی طورپر یہ بات بہت واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے کہ باہمی تعاون ہمیشہ اچھے، نیک ،بھلائی اور خداترسی کے کاموں میں کیاجائے اور فتنہ وفساد، ظلم وزیادتی اور بغاوت وسرکشی کے کاموں میں ہرگز نہ کیاجائے(المائدہ۵:۲)۔ایسے طبقات کی نشان دہی کی گئی ہے جو تقویٰ اور حُسن سلوک کے مستحق ہیں اور جن کی مالی معاونت معاشرے میں امن وامان کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے۔ (الضحٰی ۹۳:۹-۱۰،الذاریات۵۱:۱۹)
اس حکم کے ساتھ تعاون باہمی میں رکاوٹوں کا بھی سدّباب کیاگیاہے۔ مثال کے طورپر خودغرضی باہمی تعاون میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ازالے کے لیے ایثار کا حکم دیا گیاہے(الحشر۵۹:۹)۔خود غرضی کی سب سے نمایاں مثال سود ہے، اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے(البقرۃ۲:۲۷۵)۔اس کے ساتھ ناپ تول میں کمی بیشی کو بھی ممنوع قرار دیاگیاہے (المطفّفین۸۳:۱-۳)، کیوں کہ یہ سب چیزیں بدامنی پیداکرتی ہیں اور اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتاہے۔قرآن مجید میں ایسے تمام افعال کو فساد فی الارض قرار دیاگیاہے، جن سے لوگوں کے مال واسباب میں خسارہ ہو۔(الشعراء۲۶:۱۸۳)
درج بالاتعلیمات، قرآن مجید میں عام پیرایے میں بیان ہوئی ہیں،جن کے مخاطب افراد بھی ہیں اور جماعتیں بھی اور حکومتیں اور ریاستیں بھی۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید معاشرے میں امن وسلامتی قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی بھی تلقین کرتاہے اور زمین سے فتنہ وفساد کے خاتمے کو پوری امت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے(اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)۔ وہ مسلمانوں پر بحیثیت خیرِ اُمت یہ ذمہ داری بھی ڈالتاہے کہ روئے زمین سے فتنہ وفساد کی ممکنہ تمام شکلوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے وہ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتاہے(النساء۴:۷۵)۔ اس کے ساتھ وہ حکومت اور قانون کو بھی بروئے کارلانے کی تاکید کرتاہے، تاکہ تمام شہریوں کو سماجی اور سیاسی عدل وانصاف حاصل ہواور امن وامان کا ماحول باقی رہے (النساء۴:۵۸، الحدید۵۷:۲۵)۔اسلامی ریاست کے فرائض میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے حدود وقصاص کے نفاذ کا حکم دیاگیاہے۔
اسلام جس امن وامان کو انفرادی اور قومی سطح پر قائم کرنا چاہتاہے اس کو وہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتاہے۔ چنانچہ وہ مختلف اقوام سے امن معاہدات کرنے اور امن کی پابندیوں کو کرنے کا حکم دیتاہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدہ۵:۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے عہد وپیمان پورے کرو۔
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ (النحل۱۶: ۹۱) اور اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو، جب کہ تم اسے باندھ چکے ہو پورا کرو۔
اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر امن و امان کو فروغ ہوگا، افراد اپنے بنیادی حقوق سے بہرہ ور ہوں گے، ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا، ظالموں کی سرکوبی اور مظلوموں کی داد رسی ہوگی، اور ایک پُر امن معاشرہ وجود میں آئے گا۔
اس مادی دور میں ہماری اسلامی اقدار انحطاط کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا مسجد کے ساتھ تنزل پذیر تعلق ہے۔ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں تو آپؐ کی مسجد سے وابستگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، مثلاً روزانہ پانچ وقت فرض نماز کی ادائیگی کے علاوہ جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپؐ مسجد کا رُخ فرماتے اور نفل ادا کرنے کے بعد دُعا فرماتے۔ سورج گرہن ہوتا یا چاند گرہن آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے اور نوافل ادا فرماتے۔ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد تشریف لے جاتے، نوافل ادا فرماتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے، علیٰ ہذا القیاس۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے (سورئہ احزاب، آیت۲۱)۔ جس کی پیروی کرتے ہوئے ہمارا مسجدوں سے گہرا تعلق قائم رکھنا لازم ہے۔
مسجد کی طرف باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جانے والے نمازی کے عزّو شرف کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ جس وقت بھی صبح کو یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے جنّت کی مہمانی کا سامان تیار کراتا ہے، وہ جتنی دفعہ بھی صبح یا شام کو جائے (متفق علیہ)۔اس حدیث شریف کی رُو سے مسجد میں نماز ادا کرنے والا نمازی اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والوں کا میزبان ہے، (سبحان اللہ)۔
بات سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں۔ اگر کبھی ہمیں کوئی صاحبِ اقتدار یا جس ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اس کے سربراہ (جو خوش یا ناراض ہوکر ہمیں کوئی دُنیاوی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی حیثیت میں ہو) ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے تو ہمارے احساسات کیا ہوںگے؟ پہلے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے اور اپنے دوست و احباب میں فخر سے ذکر کریں گے۔ پھر غور کریں کہ ہمارا رویہ کیا ہوگا؟ اچھے سے اچھے لباس کا انتخاب کریں گے۔ وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور میزبان کے گھر پہنچ کر پوری طرح اہتمام کریں گے کہ محفل کے آداب کے خلاف کوئی حرکت نہ سرزد ہوجائے جس سے ہمارے میزبان کو ناگواری کا احساس ہو، اور ہرطرح سے اپنے میزبان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں گے۔
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا مسجد میں بھی ہمارا ایسا ہی رویہ ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہرنمازی اپنے ضمیر سے لے، یقین جانیئے ضمیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
کبھی ہم نے غور کیا کہ جب ہم مسجد میں ہوتے ہیں تو کس ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں؟ کون ہمارا میزبان ہوتا ہے؟ کون سی باتیں یا حرکات اللہ تعالیٰ (ہمارے میزبان) کو ناپسند ہیں جن کی نشان دہی نبی کریمؐ نے وضاحت سے فرمائی ہے؟ کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ایک دُنیاوی میزبان سے بھی کم تر عزیز ہے ؟ کیونکہ مساجد میں ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم اپنے دُنیاوی میزبان کے گھر نہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں(انا للہ وانا الیہ رٰجعون)۔
ہماری آج کی بات چیت کا موضوع مساجد کے آداب ہی ہیں۔ اس ضمن میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکامات کا احاطہ تو اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف چند احکامات کا تذکرہ کریں گے جو عہد ِ حاضر میں نہایت توجہ طلب ہیں۔
جب بھی مسجد کا ذکر ہو تو اذان کا خیال آنا بالکل فطری عمل ہے۔ لہٰذا بات چیت کا آغاز اذان سے کرتے ہیں۔
روزانہ پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ہرکارہ (مؤذن) مسلمانوں کو مسجد میں نماز کی ادائیگی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو مؤذن کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ ان خوش نصیب بھائیوں سے گزارش صرف اتنی ہے کہ مسجد میں آکر سارا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کریں اور خدارا ایسے کام جانے یا انجانے میں ہرگز نہ کریں جن سے مسجد کا تقدس مجروح ہو، اللہ و رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہو۔ مسجد میں آنے کی غرض و غایت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اپنی بخشش کا سامان کروانا ہے، نہ کہ ممنوع کام (مسجد میں دُنیاوی باتیں کرنا، شوروغل کرنا، نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالنا وغیرہ) کرکے گناہوں کے بوجھ میںا ضافہ کرنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس نے پورے یقین کے ساتھ اذان کا جواب دیا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ (النسائی، باب مواقیت الصلٰوۃ، حدیث: ۱۶۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت عمرؓ سے اذان کا جواب دینے کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ ہرکلمہ کا جواب وہی کلمہ ہے (یعنی جو کلمہ مؤذن کہے وہی کلمہ اذان سننے والا کہے) سوائے حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کے۔ان کے جواب میں لاحول ولا قوۃ اِلَّا باللہ کہنا چاہیے۔ ( مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب القول مثل قول المؤذن، حدیث: ۸۷۶)
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اذان سن کر یہ کلمات کہے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَ انِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ ’’اے اللہ!اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے عطا فرما محمدؐ کو وسیلہ اور فضیلت اور فائز فرما آپؐ کو مقامِ محمود پر جس کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے ان سے‘‘، تو قیامت کے دن اس کی سفارش کرنا میرا ذمہ ہوگا۔(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الدعاء، عندالنداء، حدیث: ۵۷۹)
سبحان اللہ! کتنا قلیل عمل اور اتنا بڑا اجر! کیا ہم ایسے شخص کی طرح ہونا پسند کریں گے کہ اذان ہورہی ہو اور وہ خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو کہ اتنے بڑے اجر سے محروم ہوجائے؟ یقینا نہیں، لہٰذا اذان خاموشی سے سنیں اور جواب دیں۔ پھر مسنون دُعا مانگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار بن جائیں، (بفضلہٖ تعالٰی)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے اولادِ آدمؑ! تم مسجد میں حاضری کے وقت اپنے آپ کو (صاف ستھرے لباس سے) مزین کرلیا کرو اور خوب کھائو اور پیو اور حدسے نہ نکلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(الاعراف۷:۳۱)
مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون ضرور بند کردیں
مسجد میں ہر وہ کام کرنا منع ہے جو نماز میں خلل ڈالے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہرمسجد میں موبائل فون بند کرنے کا نوٹس لگا ہوتا ہے۔ خطیب حضرات بھی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ پھر بھی کسی نہ کسی کا فون بجتا ہے اور تمام نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتا ہے۔ لہٰذا سب نمازی بھائیوں سے گزارش ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اپنا موبائل فون ضرور بند کردیں اور مسجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ مسجد میں موبائل فون جیمر(Jammer) لگادیں تاکہ نمازیوں کے خشوع و خضوع میں موبائل فون سے پیدا ہونے والے خلل کا سدباب ہوسکے۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھیں پھر یہ دُعا مانگیں: اللّٰھُمَّ افْتَحَ لِیْٓ اَبْوَابَ رَحَمَتِکَ ، ’’اے اللہ! میرے لیےاپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۶۸۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ ہیں:
ان دونوں احادیثِ کریمہ سے تحیۃ المسجد کی اہمیت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے لیکن اگر فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو تو یہ حکم ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی، (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب تحیۃ المسجد، حدیث:۱۶۷۸)۔
مسلمان بھائیو! یہ سنت کریمہ ہماری غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے متروک ہوتی جارہی ہے۔ اس سنت کو ادا کرکے نماز کے ثواب کے ساتھ احیائے سنت کا ثواب بھی حاصل کریں۔
مساجد کا احترام کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سیّدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مغضوب (ناپسندیدہ) ان کے بازار اور منڈیاں ہیں، (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاۃ، حدیث: ۱۵۶۰)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا محلوں میں مسجدیں بنانے کا اور یہ بھی حکم دیا کہ ان کی صفائی کا اور خوشبو کے استعمال کا اہتمام کیا جائے۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد، ذکر الامر بتـنظیف المساجد وتطبیقھا، حدیث: ۱۶۳۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’جو شخص مسجد کی گندگی نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنّت میں گھر بنائے گا‘‘،(ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہر المساجد، حدیث:۷۵۷)۔
سیّدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پیاز یا لہسن کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے کیونکہ جس چیز سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد، باب نھی من اکل ثوما او بصلًا، حدیث:۵۶۴)
اس حدیث مبارکہ کی رُو سے ہربدبُودار چیز کھانے یا استعمال کرنے کے بعد جب تک منہ کی صفائی نہ کرلی جائے، حتیٰ کہ بدبُو ختم نہ ہوجائے مسجد میں آنا منع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۱۹ۧ (لقمان۳۱:۱۹) ’’اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور تم اپنی آواز کو کسی قدر پست رکھو۔ بلاشبہہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے‘‘۔
غور فرمائیں اگر عام دُنیاوی زندگی میں آواز پست رکھنے کا حکم ہے تو قابلِ احترام مساجد میں اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے؟ (العیاذ باللہ تعالٰی)
حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں سویا ہوا تھا۔ کنکری مار کر کسی نے جگادیا۔ دیکھا تو حضرت عمر فاروقؓ تھے۔ آپؓ نے دو شخصوں کی طرف اشارہ کیا جو مسجد میں شوروغل کر رہے تھے کہ ان کو پکڑ کر لائوں۔ میں نے حسب الحکم دونوں کو حاضرِ خدمت کردیا۔ آپؓ نے پوچھا:کہاں رہتے ہو؟ ان لوگوں نے طائف کا نام لیا۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تم کو سزا دیتا۔ تم مسجدِ رسولؐ اللہ میں شوروغل کرتے ہو۔ جائو آج صرف اس لیے معاف کرتا ہوں کہ تم باہر کے رہنے والے ہو‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الصوت فی المسجد، حدیث:۴۷۰)
حضرت واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی مسجدوں سے دُور اور الگ رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور دیوانوں اور شرارتی لوگوں کو (ان کو مسجد میں نہ آنے دو) اور (اسی طرح مسجدوں سے الگ اور دُور رکھو) اپنی خریدوفروخت کو، اپنے باہمی جھگڑوں کو، اپنے شوروشغب کو ،حدوں کو قائم کرنے کو اور تلواروں کو میانوں سے نکالنے کو۔ (یعنی ان میں سے کوئی بات بھی مسجدوں کی حدوں میں نہ ہو، یہ سب باتیں مسجد کے تقدس اور احترام کے خلاف ہیں)۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب ما یکرہ فی المساجد، حدیث:۷۵۰)
مسجد یں امن و سلامتی کا گہوارہ ہیں۔ ان میں اسلحہ کی نمائش اور تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔
مسجد سے باہر نکلتے وقت بایاں پائوں باہر رکھتے ہوئے یہ دُعا پڑھیے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا طالب ہوں‘‘۔(رواہ مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۱۶۵)
حاصل تحریر:مسجد میں ہم احکم الحاکمین کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا لازم ہے کہ نہایت باادب رہیں۔ ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہیں۔ کوئی ممنوع کام نہ کریں یعنی دُنیاوی معاملات، خریدوفروخت، ہنسی مذاق، شوروغل وغیرہ نہ کریں۔ بلندآواز سے دُنیاوی بات چیت تو کسی طرح بھی مسجد کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے نہ صرف اللہ و رسولؐ کی حکم عدولی ہوتی ہے بلکہ حاضرین مسجد کی عبادت میں خلل پڑتا ہے اور مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ رویہ اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات سے لاپرواہی کے مترادف ہے۔
آیئے آج سے ہم عہد کریں کہ ہم مساجد کا کماحقہٗ احترام کریں گے اور تمام ممنوع کاموں سے، خصوصاً اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت سے سختی سے اجتناب کریں گے۔
کسی بڑے مقصد اور انقلابی نصب العین کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ قرار دینے والوں سے اس کے بہت سے مطالبات ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین مطالبے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:
نصب العین جتنا بلندہوگا، اس کی نسبت سے ان تینوں اجزاء کی اہمیت اور ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی۔ اگر نصب العین بلند بھی ہو اور ساتھ ہی اپنی نوعیت میں منفرد بھی، تو اس کے تعلق سے ان تینوں امور کی اہمیت اور ضرورت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ ایسی انتہا کو، جس کے آگے کوئی اور حد شاید باقی بچی نہ ہوگی۔
ایک اسلامی تحریک، یعنی اللہ کے دین کی شہادت، نصرت اور اقامت کی تحریک ایسا ہی ایک بلند اور منفرد و ممتاز نوعیت کا نصب العین رکھنے والی تحریک ہوتی ہے۔ نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف وہی ایک ایسی تحریک ہوتی ہے، جسے واقعی بلند انقلابی اور شان دار انفرادیت رکھنے والی تحریک کہاجاسکتا ہے۔
ہم اور آپ ایسی ہی ایک دعوت اور تحریک سے وابستہ ہیں۔ پھر یہ کسی اور کے کہنے سے نہیں ، بلکہ اپنی آزاد مرضی سے ’خودگرفتارآمدی‘ کی قدیم رسم دُہرائی ہے اور جرأت کے ساتھ پُرعزم لہجے میں اس کا اعلان بھی کیے ہوئے ہیں، اور یہ جانتے ہوئے کیے ہوئے ہیں کہ اگر یہ دنیا جہان کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا شرف ہے، تو ساتھ ہی ایسا عہدِ وفا بھی ہے جس کا سچا احساس، دلوں کا سکون درہم برہم کیے اور دنیا کی لذتوں کو ڈھاکر رکھ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ جس کے حق کی ادائیگی اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اس کے لیے یکسو نہ ہوجائے اور ان تمام سرگرمیوں، مشغولیتوں اور دلچسپیوں سے دست کش نہ ہورہے، جو اس کے حقیقی تقاضوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہ رکھتی ہوں۔
ہمارے اس اعلان اور عہدِوفا کا یہ کھلا تقاضا ہے کہ اپنے نصب العین کے ان تینوں اوّلین اور بنیادی مطالبات کی طرف سے اپنے اوپر کبھی غفلت نہ طاری ہونے دیں، جن کی ابھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس وقت میری معروضات کا دائرہ صرف ایک مسئلہ یعنی دعوت کے صحیح فکرو فہم، دوسرے لفظوں میں دعوت کی فکری سلامتی تک محدود رہے گا۔
اس ضمن میں یہ حقیقت پہلے ہی سے واضح رہنی چاہیے کہ صحیح دعوتی فکرو فہم کے مفہوم میں دعوت و تحریک کی مزاج شناسی بھی لازماً شامل ہے۔ کیونکہ کسی دعوت کا فطری علم و فہم اس وقت تک اس کا صحیح اور واقعی علم و فہم کہلانے کا مستحق ہوہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مزاج شناسی کی کیفیت نہ پیدا ہوگئی ہو۔
دعوت کی مزاج شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فرد کے دل و دماغ میں دعوت کی روح اس طرح رَچ بس گئی ہو اور اس کے حقیقی تقاضوں کا اندازہ کرلینے کی ایسی استعداد بہم پہنچ گئی ہو، کہ جب اس کے سامنے کسی تحریکی قدم کے اٹھانے یا نہ اٹھانے کا، یا قریبی نوعیت کے دو رُخوں میں سے ایک کو موزوں اور مناسب قرار دینے کا سوال آکھڑا ہو، تو اس کا دعوتی وجدان کسی بحث و تمحیص کے بغیر آپ سے آپ بتادے اور کم و بیش نوّے فی صد بالکل صحیح بتادے، کہ اس سوال کا جواب یہ ہے۔ یہیں پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ گوہرِ گراں مایہ کیسے ہاتھ آتا ہے؟ دعوت و تحریک کا مزاج شناس کس طرح بنا جاسکتا ہے؟ بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ دعوت کی مزاج شناسی اس کے نصب العین کے تقاضوں پر گہرے غوروفکر سے اور اس دعوت کے اعلیٰ ترین معیاری و مثالی علَم برداروں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں اور ان کی دعوتی سرگزشتوں کے گہرے اور وسیع مطالعے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیے، دعوت کاصحیح علم وفہم اور اس کی مزاج شناسی وہ لنگر ہے، جس کے بغیر ہم حالات کے دھارے میں اپنی کشتی کو نہ محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور نہ صحیح سمت میں آگے بڑھاسکتے ہیں۔ سطح پر دکھائی دینے والی ہماری تحریکی سرگرمیاں اس دعوت کے صحیح فہم و شعور اور اس کے حقیقی مزاج سے جتنی زیادہ ہم آہنگ ہوںگی، ان کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوںگے۔ اسی طرح یہ ہم آہنگی جتنی کم ہوگی، منزل مقصود کی طرف پیش قدمی اتنی ہی کم بلکہ ناقابل اعتبار ہوگی۔ دعوت کے حقیقی مزاج اور مصالح کو نظرانداز کرکے جو بھی تگ و دو کی جائے گی، وہ بہت سے گوشوں سے داد و تحسین تو شاید حاصل کرلے گی، لیکن اُس میں ربِ کائنات کی تائید شامل نہ ہوگی، جس کے بغیر کوئی تحسین، تحسین نہیں رہ جاتی۔ اس لیے اس حقیقت کو ہر آن تازہ رکھنا چاہیے کہ دعوت کا صحیح علم و فہم اور اس کا حقیقی مزاج جب بھی نظرانداز ہوجائے گا تو وہ صرف کھونے کا وقت ہوگا، اس میں کچھ بھی پایا نہ جاسکے گا۔ اور یہ بات بھی اس دعوت کی انفرادیت کی شان کا ایک امتیازی مظہر ہے۔
دوسری تحریکیں خصوصاً یکسر غیراسلامی تحریکیں، اپنا مزاج پسِ پشت ڈال دیے جانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور اور باہم مخالف ہونے کے باوجود سب کی سب ’غیراسلامی‘ ہوتی ہیں اور ’غیراسلام‘ پورے کا پورا’ملت واحدہ‘ ہوتاہے۔ ’ملت واحدہ‘ کے مختلف اجزا میں بہت کچھ یا کم از کم کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہونا چاہیے، اور یقینا و لازماً ہوتا بھی ہے۔ اس لیے کفر یاغیراسلام کی کوئی بھی تحریک اپنے محور سے چاہے جتنی بھی ہٹا دی جائے اور اس کے اصل مقصد اور مزاج میں خواہ جیسی بھی آمیزش کردی جائے، اسے اپنے تئیں یہ سمجھے رہنے کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی، کہ وہ اپنے اعلان کردہ مقصد اور نصب العین سے بدستور وابستہ ہے۔ مگر کسی اسلامی تحریک کے بارے میں ایسی کسی گنجائش کا خیال یا امکان بالکل ہی ناقابلِ تصور ہے کہ وہ اسلامی مقصد اور مزاج اور اخلاقیات میں غیر اسلامی فکروعمل کو ملانے کے بعد بھی اپنے آپ کو اسلامی تحریک کہہ یا سمجھ سکے۔
میں اس وقت اسلامی تحریکوں کے صحیح مزاج اور ان کے مخصوص اندازِ فکر و عمل کے دو ایک نمایاں اور اہم پہلوئوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالے دے رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس سے بات کو سمجھ لینے میں کافی آسانی ہوجائے گی:
پہلی بات تو یہ کہ اسلامی تحریک کا مزاج نہایت احتیاط اور پوری مضبوطی کے ساتھ قدم جماکر چلنے اور آگے بڑھنے کا ہوتاہے۔ غیرمحتاط دوڑ لگانے کا نہیں ہوتا، بالخصوص اپنے ابتدائی مراحل میں تو وہ ایسی جلدبازی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔کیونکہ اسے نظامِ دین حق کی جو عمارت بنانی ہے اور جس کا ماڈل اس کے سامنے صرف چودہ صدیوں قبل کا مدنی ماڈل ہے۔ یہ عمارت کچی پکی اینٹیں اُوپر تلے رکھتے چلے جانے اور اوپر سے سفیدی پھیردینے سے نہیں بن سکتی۔ ایسی بودی تعمیر تو حوادث کا ایک معمولی جھکڑ بھی برداشت نہیں کرسکتی، اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوکر رہ جانے والی ہوگی۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلے اس کا ایک سبق آموز مشاہدہ کراچی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ جہاں تحریک اسلامی ملک کے سب سے بڑے شہر پر بظاہر پوری طرح چھاگئی تھی، مگر یکایک ایک لسانی قوت کے طوفان نے اُٹھ کر اس طرح پانی پھیر دیاکہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ حیرت انگیز المیہ ہر گز ظہور میں نہیں آسکتاتھا، اگر وہاں تحریک نے اپنی دعوت کا سپاہی اور علَم بردار صحیح ، سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے بنایا ہوتا، اور پوری توجہ اور مسلسل کوششوں سے کام لے کر ان کے دلوں میں حق کی سچی محبت اتاری ہوتی۔ ایسی محبت کہ جسے کوئی بھی نسلی، لسانی، طبقاتی یا علاقہ جاتی رشتہ زیرکرلینے کا بل بوتہ نہ رکھتا۔
دوسری بات یہ کہ اسلامی تحریک کے رفقائے کار کی طرح اس کی سوچ بھی حددرجہ صابرانہ، مدبرانہ اور منضبط ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنی ہی بات کا خیال اور اہتمام نہیں رکھتی کہ اپنے صحیح مزاج ومفاد کے مخالف کوئی فکری یا عملی روش نہ اختیار کربیٹھے۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے کہ ان کاموں سے بھی بہت دنوں تک اپنے کو روکے رکھے، جو اس کے مزاج و مفاد کے برعکس اور مخالف نہ ہوں بلکہ خود اسے مطلوب ہی ہوں۔ حق کے عین مطابق اور فرض کی حد تک مطلوب ہوں، مگر ان کی انجام دہی کا ابھی ٹھیک وقت اور موقع نہ آیا ہو۔
مثال کے طورپر ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘ کی بات کو لے لیجیے۔ ان دونوں اعمالِ خیر کے بلند پایہ ہونے سے ہم سب واقف ہیں۔ تمام اعمال میں یہ افضل ترین اعمال ہیں۔ یہ ایمان اور غیرایمان میں فرق وامتیاز کی کسوٹی ہیں۔ لیکن اللہ رب العالمین کے ایک پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے مسلسل انکار سے تنگ آکر جب ہجرت کربیٹھے، تو یہ ہجرت ان کے لیے اجرو ثواب کا موجب بننے کے بجائے الٹے اللہ کے سخت عتاب کا موجب بن گئی۔ اور ایسا صرف اس وجہ سے ہواکہ وہ یہ اقدام وقت سے کچھ پہلے کربیٹھے تھے۔
اسی طرح جب قریش کے مسلسل مظالم کے باعث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کے صبر کا پیمانہ چھلکنے پر آگیا اور یہ دیکھ کر انھیں ضبط کا یارا نہ رہ گیا۔ پھر مدینہ ہجرت کرکے آجانے کے بعد بھی ان ظالموں کی خشمگیں نگاہیں ان بے بس اور مظلوم صحابہؓ کے تعاقب سے باز نہیں آرہی تھیں، دوسری طرف جو کمزور اور بے بس اہل ایمان مکہ سے نکل آنے کی کوئی سبیل نہیں پاسکے تھے،ان پر ان کی مشق ستم بدستور جاری رہی بلکہ اس میں کچھ اور شدت ہی آچکی۔ اِدھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آکر انھیں ایک آزاد ماحول و مقام بھی میسر آچکاتھا اور اس بے چارگی سے نجات مل چکی تھی، جس میں وہ پہلے مکہ کے دارالعذاب میں گرفتار تھے۔ اس لیے ان کے دلوں میں اب اس ظلم کے پنجہ کو مروڑ کر رکھ دینے کے جذبات ابھر آئے، جو ایک فطری بات تھی۔ ان جذبات کا زبانوں سے اظہار بھی ہونے لگا۔ صورت حال کو اس موڑ پر پہنچتے دیکھ کر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ہدایت آئی:
كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ ۰ۚ (النساء۴:۷۷)(نہیں، ابھی) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ہاتھوں کو روکے رکھنے‘‘ کا یہ حکم واضح اور صریح طورپر صرف اس لیے تھا کہ اس کے نزدیک ابھی اس اقدام کا ٹھیک وقت اور صحیح موقع نہیں آیاتھا۔ کیوں اور کن وجوہ سے نہیں آیاتھا؟
اس سوال پر اگر گہرائی اور تفصیل سے غور کیاجائے، تو ذہن کئی اور باتوں کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ مگر اس طرح کی کسی کاوش سے کام لینے کی اس وقت کوئی خاص ضرورت نہیں۔ وہی ایک وجہ اس ہدایتِ خداوندی کی ضرورت اور حکمت سمجھادینے کے لیے کافی ہے، جس کی طر ف كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کے بعد کے لفظوں وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ نے خود رہنمائی کردی ہے، یعنی یہ کہ جنگی اقدام کرنے سے قبل تم اہل ایمان کو بحیثیت مجموعی اپنی معنوی قوت کو مزید سدھار اور نکھار لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے دین وخداپرستی کی دونوں عملی بنیادوں، یعنی اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ کی طرف پوری طرح متوجہ رہ کر، حتی الوسع اس ضرورت کا حق ادا کرلو۔ تب وہ وقت آئے گا، جب دین کے دشمنوں کے خلاف تمھارے اٹھنے والے ہاتھ کامیاب و بامراد ہوں گے۔ اس سے پہلے تمھارا میدان میں کُود پڑنا، بے وقت، نامناسب اور حکمت و احتیاط کے خلاف ہوگا اور ناکامی اور زیاں کاری کے اندیشوں کی مسلسل زد میں رہے گا۔
اِن دو تین واقعاتی مثالوں میں ہمارے لیے روشنی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔
اس روشنی میں ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صحیح معنوں کی اسلامی تحریک، جہاں اپنے افراد کی ایمانی، اخلاقی، عملی اور دعوتی تربیت کا مسلسل اہتمام رکھتی ہے اور انھیں اپنے نصب العین کا سچا اور یکسو وحنیف داعی اور مخلص و جانباز سپاہی بنائے رکھنے کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہتی، وہیں اپنے جماعتی طریق کار اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی حددرجہ محتاط اور عاقبت اندیش ہوتی ہے۔ وہ کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کرتی، جو اس کےصحیح مزاج و مفاد سے میل نہ کھاتی ہو، عجلت پسندی سے کام نہیں لیتی، سطحیت اور ظاہر بینی کے قریب نہیں جاتی، قدموں کو مضبوطی سے جمائے بغیر آگے بڑھ جانے کی بے بصیرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی، حتیٰ کہ اچھے اور شرعاً مطلوب و محمود سرگرمیوں اور کاموں کو بھی اس وقت تک اپنی عملی جدوجہد کا ہدف بنالینے سے صبر وضبط کے ساتھ رکی رہتی ہے، جب تک کہ اس کا صحیح موقع نہ آجائے۔
یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر ہمیں چلنا اور چلتے رہنا ہے۔ مگر معلوم رہنا چاہیےکہ راستہ ہموار اورکھلاہوا نہیں ہے۔ طرح طرح کے مخالف عوامل سے اَٹا ہواہے۔ ان میں سے تین عوامل اپنی بے پناہ قوتِ مخالفت کے باعث خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتاہے کہ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرلی جائے:
۱- پہلا مخالف عامل تو وہی جذبۂ عجلت پسندی ہے، جو اور سبھی افراد انسانی کی طرح ہماری سرشت میں بھی رچا بسا ہے اور جو کبھی نچلا نہیں بیٹھاکرتا۔ ابھی آپ واقعات کی زبان سے سن چکے ہیں کہ کتنی عظیم شخصیتوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ باز نہیں رہا۔ لہٰذا، انتہائی ضروری ہے کہ پوری پامردی سے اس کا مقابلہ کیاجاتا رہاہے، اور اس کے جال میں پھنسنے سے پوری ہوشیاری سے اپنے کو بچائے رکھاجائے، اورپوری طرح سنبھل کر چلاجائے۔ اس کی پروا بالکل نہ کی جائے کہ قدم تھوڑے ہی آگے بڑھ پارہے ہیں۔ پروا اس کی رکھی جائے کہ جو قدم بھی اٹھیں اور آگے بڑھیں وہ پوری مضبوطی اور جمائو کے ساتھ اُٹھیں اور درست سمت میں آگے بڑھیں۔
۲- دوسرا عامل موجودہ ’جاہلیت‘ کی طوفانی یلغار کا ہے۔ یہ جاہلیت ہمیشہ ہی اللہ کے دین اور اس کی دعوتوں کی راہ روکتی ہے، لیکن پرانے زمانے کی جاہلیتوں کا دائرہ اثر محدود ہوا کرتا تھا۔ وہ فکری اعتبارسے کچھ زیادہ جان دار بھی نہیں ہواکرتی تھیں۔ ان کا تانا بانا بھی سادہ بلکہ پھُسپھُسا ہواکرتا تھا، جب کہ آج کی جاہلیت، معاذاللہ اس کا غلبہ و تسلط اتنا آفاق گیر ہے کہ بحرو بر کا کوئی گوشہ اس سے بچا ہوا نہیں رہ گیا ہے۔ یہ نظری، علمی اور فلسفیانہ دلائل سے بھی پوری طرح سے مسلح ہے، اور معاشی، صنعتی ، سائنسی، سیاسی، حربی قوتوں سے پوری طرح لیس ہے۔ ساری دنیا اس کے ہاتھوں میں مجبور اور قیدی بنی ہوئی ہے۔ زندگی کے کسی میدان میں بھی فکر وعمل کی جوراہیں وہ متعین کردیتی ہے، مجبوراً سبھی کو اسی پر چلنا ہوتا ہے۔ اس سے بالکل ہٹ کر کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیاجاسکتا اور اگر تجویز ہو بھی گیا تو اس پر چلنے والوں کو آنکھیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک یا قوم اپنی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خاص لائحۂ عمل اپنانا یا اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی نئی تحریک چلانا چاہتی ہے، تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس غالب تہذیب اور جابرانہ نظام کے فکرو فلسفہ سے اس کی سندِ توثیق حاصل کرے۔ یہ سندِ توثیق اسے حاصل اسی وقت ہوسکے گی، جب اس کے بنیادی مقاصد اور اصولِ کار اس کے لیے اگر پسندیدہ نہیں تو کم از کم قابل گوارا تو ضرورہی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیاگیا ، کسی تحریک یا جماعت نے وقت کے اس جاہلیت پر مبنی حکمرانی نظام کی پسند اور ناپسند کی پروا نہ کی، اور اپنی مرضی کی آپ مالک بنے رہنے کے عزم کا اعلان کرتی رہی تو کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ اپنے اس عزم اور اعلان کابھرم کب تک قائم رکھ سکے گی۔
کسی اور طرح کے نظامِ نو کی حد تک تو یہ ممکن بھی ہے کہ یہ نظامِ جاہلیت اس کے سلسلہ میں کچھ نرمی اور چشم پوشی سے کام لے لے۔ لیکن اس نظام کے بارے میں ، جسے اسلامی نظام کہتے ہیں، اور اس تحریک کے معاملے میں جو اسلامی یا اقامتِ دین کی تحریک ہوتی ہے، اس جاہلیت کے نظام کے یہاں کسی نرمی، کسی چشم پوشی اور کسی رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاہلیت اس کی راہ روکنے، اس کی تصویر مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتےر ہنے کے ساتھ، اس پر الزامات اور تہمتوں کی مسلسل باڑ مارتے رہنے کی ایسی مہم چلادیتی ہے۔ علانیہ بھی اور خفیہ بھی، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی، حتیٰ کہ خود نام نہاد مسلم حکمرانوں اور دانش وروں کے ذریعے بھی، کہ خود اسلامی تحریک کے کارکنوں اور لیڈروں کے اعصاب بسااوقات جواب دینے لگتے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے اور پُرشور ماحول میں ہمیں کتنی مضبوطی ، کتنی ثابت قدمی، کتنی حکمت، کتنے تدبر اور کتنی عزیمت سے کام لینے کی ضرورت ہے؟اس کا اندازہ ہم میں سے ہر شخص بآسانی خود لگا سکتا ہے۔
۳- تیسرا مخالف عامل امت مسلمہ کی بالعموم، اور ملت اسلامیہ کی بالخصوص ، وہ زبوں حالی ہے جس سے وہ ان دنوں دوچار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا، پریشانیوں اور محرومیوں کا، بے چارگیوں اور پست حالیوں کا ایک طوفان ہے جو اسے بری طرح گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اس ملت میں جو تھوڑے بہت حساس اور دھڑکنے والے دل ہیں، وہ بھی بری طرح پریشان ہیں کہ آخر اس حالتِ زار کا کیا علاج کیاجائے اور کیسے کیاجائے؟ زخم، گہرے گہرے زخم، دوچار نہیں، ہزاروں ہیں۔ پورا جسد ِملی چھلنی بناہوا ہے۔ مرہم کہاں کہاں رکھاجائے!
یہ صورت حال اسلامی تحریکوں کے اپنے بنیادی اور حقیقی موقف کے لیے بڑی سخت آزمائش بن رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملّت کی اس زبوں حالی کا صحیح اور کارگر علاج ان کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے اپنے بھولے ہوئے اور پس پشت ڈالے ہوئے مقصدِ وجود کو پھر سے اپنالینااور اسی کا بن کر رہ جانا چاہیے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی اسلامی تحریکیں اس خوداعتمادی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہیں اور خود اپنی جگہ چھوڑتی جارہی ہیں۔
انھوںنے حالات کے غیرمعمولی دبائو اور ملت کے حالِ زار سے غلط انداز میں متاثر ہوکر اس کے علاج کے لیے اُن ہی تدبیروں کی طرف لپکنا شروع کردیا جو خدااور دین، کتاب اور سنت کی رہنمائیوں اور پابندیوں سے آزاد افراد اور جماعتیں اختیارکیاکرتی ہیں۔ بعض بڑی اور اہم تحریکیں تو اس جھونک میں اتنی تیزی سے آگے بڑھتی اور اپنا رنگ بدلتی جارہی ہیں کہ ان پر دینی اور اسلامی تحریک ہونے کا گمان کم،اور علاقائی یا قومی تحریک ہونے کا گمان زیادہ ہونے لگتاہے۔
مشکل یہ ہے کہ قومیت بالعموم ہمیشہ ہی سکہ رائج الوقت رہی ہے اور اب تو اس کی مقبولیت ایمان وعقیدت کامقام حاصل کرچکی ہے۔ ایک طرف تو یہ جذبۂ قومیت افراد کی فطرت کا ایک قوی ترین جذبہ ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ منہ زور بھی۔ یہ جب بھڑکنے پر آجاتاہے تو حق و صداقت کی بڑی سے بڑی چٹانوںکو بھی بہالے جاتا ہے۔ دوسری طرف عالمی پیمانہ پر وہی ہر ملک اور ہر قوم کی حیاتِ اجتماعی کا مرکز بناہوا ہے۔ یعنی افراد نے بھی اپنے انفرادی دائروں میں اسے تقدس کی حد تک عقیدت کا مستحق تسلیم کررکھا ہے اور قوموں نے بھی اپنے اجتماعی دائروں میں سب سے اونچا مقام دے رکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس کے اشاروں میں بلاکی کشش ہوتی ہے۔ اس کی پذیرائی دادوتحسین کے نذرانے پیش کرایا کرتی ہے،اس کی علَم برداری لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنادیاکرتی ہے۔
دوسری طرف دین کی طرف اور دین کی اقامت کے لیے بلانے والوں کا، اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا استقبال کسی اور ہی انداز میں ہوتا ہے۔ ہوتارہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ ایک مدت تک صحرا میں صدا لگاتے رہنے کے بعد اگر کروڑوں پر مشتمل ملت اسلامیہ میں سے چند ہزار ساتھی بھی نہ مل سکیں اور اس بنا پر تحریک کے علَم برداروں اور کارکنوں کے دل و دِماغ بھی تکان اور بے کیفی و بددلی محسوس کرنے لگ جائیں، ان کی سوچ میں غیرمحسوس طورپر تغیر راہ پالے۔ قوم کی محبت حقیقی نہیں، معروف معنوں کی محبت، انھیں اپنے خیمے کی طرف کھینچنے لگے اور وہ بھی کھنچتے نظر آنے لگیں، تو یہ بات چاہے کتنی ہی قابلِ افسوس ہو، مگر اسے خلاف توقع اور اَنہونی نہیں کہا جاسکتا۔
حق کی راہ میں حائل ان خاص موانع کی طرف خصوصی توجہ درکارہے جو انتہائی صبرو ہمت آزما ہی نہیں، ایمان و یقین آزما بھی ہیں۔
یہ ہیں وہ سوالات، جو ممکن ہیں کہ جماعت کے پرانے ارکان و کارکنان کے نزدیک زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہوں، لیکن جو بے شمار نئے رفقا جماعت کو میسر آئے ہیں، اور مستقبل میں جو ان شاء اللہ جماعت اسلامی کے قریب آئیں گے، اُن کے لیے یہ یقینا دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ ایسے حضرات اور خواتین کو کماحقہٗ علم نہیں کہ جماعت اسلامی کی غرض اور مقصد ِ وجود کیا ہے؟ وہ شاید اس کو بھی دیگر دینی و مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی یا اُن سے نسبتاً کچھ زیادہ منظم جماعت خیال کرتے ہوں۔ ایسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، جو رُکن سازی کا کام ماتحت جماعتوں کے سپرد ہوجانے کے بعد جگہ جگہ نیم پختہ کارکنوں کو جماعت میں شامل کرلینے کے نتیجے میں جماعت میں پیدا ہوگئی ہیں، اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اصل حیثیت کو واضح کردوں۔
جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر جماعت: جماعت اسلامی نہ عام مذہبی اور دینی و مذہبی جماعتوں کی طرح محض ایک مذہبی و دینی جماعت ہے اور نہ عام سیاسی یا اصلاحی جماعتوں کی طرز کی کوئی محض سیاسی، اصلاحی اور رفاہی جماعت ہے۔ یہ دراصل اللہ کے اُن صاحب ِ احساس و شعور بندوں کی جماعت ہے، جواپنے اُس فرض کی ادائیگی کے لیے اُٹھے ہیں جو انسان کی تخلیق و آفرینش کا اصل مقصد ہے، جسے ہمارے خالق و مالک اور پروردگار نے ہمیں انسان اور مسلمان کی حیثیت سے پیدا کرکے ہمارے ذمے لگایا ہے، اور جس کی ادائیگی کے بغیر بحیثیتِ انسان اور بحیثیتِ مسلمان ہم اپنے انسانی و اسلامی منصب کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں۔ صرف آخرت ہی نہیں بلکہ اس دُنیا میں بھی ہم اس شرف اور مقام سے ہم کنار نہیں ہوسکتے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا اور اس کی دسترس میں رکھا ہے۔
یہ فریضہ اور یہ ذمّہ داری کیا ہے؟ اسے خالق کائنات نے اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو وہ اسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور وہ اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اس کو اُٹھا لیا‘‘۔(الاحزاب۳۳:۷۲)
یہ امانت جسے انسان نے آگے بڑھ کر اُٹھا لیا، کیا تھی؟ دراصل یہ ’خلافت‘ کی ذمہ داری تھی، چنانچہ اس عظیم منصب پر انسان کے تقرر کی رسم یوں ادا کی گئی:
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں‘‘، تو انھوں نے عرض کیا: ’’ آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرشتوں کو اس بات کا مشاہدہ کرایا کہ مَیں انسان کو ’خلافت‘ ہی نہیں اس کے ساتھ علم اور ہدایت بھی دے رہا ہوں اور اس کے بعد فرشتوں کو بھی آدم کی اطاعت کا پابند کردیا: ’’اور ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائو‘‘(البقرہ ۲: ۳۴)۔ درحقیقت ’خلافت‘ کا یہ منصب صرف حضرت آدم ؑ کے لیے خاص نہیں تھا۔ ہرانسان اس منصب پر فائز ہے۔
قرآنِ مجید میں وضاحت ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم لوگوں کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (الانعام ۶:۱۶۵)
پھر یہ منصب ِ خلافت کسی ایک دور کے لوگوں تک محدود نہیں رکھا گیا ہے، ہر دور اور ہرنسل کے لوگ اس منصب ِ خلافت پر فائز ہیں اور ان کا امتحان لیا جارہا ہے کہ وہ اس کا حق کیسے ادا کرتے ہیں؟ ارشاد ہوتا ہے: ’’پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا کہ دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو‘‘۔ (یونس۱۰:۱۴)
’خلیفہ‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس دائرئہ زندگی میں خلافت (آزادی سے کام کرنے کا اختیار دیا ہے) وہ خود بھی خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اور اس کا پسندیدہ نظامِ زندگی اختیار کرے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے اور اس کا پابند بنائے اور انھیں خالق کی سرکشی سے باز رکھے۔
احکامِ الٰہی کی پابندی کیوں؟ :انسان کو آزادی اور حقِ خود اختیاری حاصل ہونے کے باوجود اِسے احکام و ہدایاتِ خداوندی اور اس کے مقرر کردہ نظامِ زندگی کی پابندی کیوں کرنی چاہیے؟ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دلیل ارشاد فرمائی ہے :
آگاہ رہو کہ مخلوق اس کی ہے تو پھر اُس پر حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔(الاعراف ۷:۵۴)
نیز فرمایا کہ تمھارے چاروں طرف زمین و آسمان کی ہرشے اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہے تو کیا تم باقی ساری مخلوق سے الگ کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہو؟
اصل الفاظ یہ ہیں: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقِ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اللہ ہی کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہیں اور آخرکار ان سب کو پلٹ کر بھی اُسی کے پاس جانا ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۸۳)
خدا کی مخلوق بسے اس کی زمین پر، تمام سامانِ زندگی وہ عطا فرمائے، پھر اطاعت اور بندگی اُس خالق و مالک کی چھوڑ کر کسی اور کی کیوں اور کیسے کرنے کا حق دار ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے: یہ خدا کا مقرر کردہ نظامِ زندگی (دینُ اللہ) کیا ہے؟
بلکہ جو لوگ یہ صحیح راہ پالینے کے بعد اسے چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیارکریں ان کے لیے تو پھر سیدھی راہ پانے کا راستہ ہی بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کج رو لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے:
كَيْفَ يَہْدِي اللہُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۸۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۸۶)آخر اللہ ایسے لوگوں کو کیسے اور کیوں صحیح راہ دکھائے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے اور رسول کے حق ہونے کی گواہی دینے کے بعد پھر کفر کی راہ اختیار کرلی اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تمام انبیائے علیہم السلام کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ یہ ایک ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان وہی ہے، کائنات اور ماحو ل وہی ہے، انسان کی فطرت اور جذبات و نفسیات اور ضروریاتِ زندگی بنیادی طور پر وہی ہیں، تو اس کے لیے زندگی کا نظام اور قانون بھی وہی رہے گا، جو ابتدا سے انسانی فطرت پر مبنی رائج ہے۔ پانی، ہوا، روشنی، گرمی، سردی، نباتات و جمادات اور ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے لیے اوّل روز سے آج تک قوانینِ قدرت کا ایک ہی مجموعہ رائج ہے، جن کے تابع یہ تمام اشیاء کام کرتی ہیں اور جن کی وہ پابند ہیں۔ ان میں کبھی کسی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیونکہ اُن کی فطرت و ماہیت، اُن سے متعلق قوانین میں بھی کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ آئے گی۔
جب تک پانی پانی ہے اور ہوا ہوا ہے، ان سے متعلق قوانینِ قدرت وہی رہیں گے جو اوّل روز سے ان پر لاگو ہیں۔ بلکہ ان کے اٹل اور غیرمتبدل ہونے پر ہی علومِ طبیعی اور تمام سائنسی ترقیات کا مداروانحصار ہے۔ جس قدر انسان ان قوانین کے بارے میں اپنی معلومات اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنے کی استعداد بڑھاتا جارہا ہے، اس کے علمی اور سائنسی کمالات حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ ہر صاحب ِ عقل انسان یہ امرواقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ انسانی ترقی کا سارا راز اللہ تعالیٰ کے قوانین کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور زیادہ سے زیادہ خوبی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں پوشیدہ ہے، خواہ اس کا تعلق انسان کی مادی اور طبعی زندگی سے ہو، جدید سائنس کا میدان ہو یا اخلاقی اور دینی زندگی کا، جس کے بنیادی قوانین و ضابطے ہمیں قرآن و سنت بتاتے ہیں۔
انسانی فطرت کی پکار :ان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر انسان اپنی اختیاری زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بھی وہ ضابطے اور قواعد و آداب سمجھتے ہوئے اختیار کرلے جو انسانی فطرت کے ٹھیک اسی طرح مطابق ہیں جیساکہ پانی، ہوا اور روشنی اور انسانی جسم کی طبعی صحت سے متعلق خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت ہیں، پھر اُن کے مطابق اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے تو وہ اپنی معاشرتی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں بھی مطابقت، باہمی اتفاق اور تعاون کے وہی کرشمے دیکھے گا، جو لوہے اور دھات کے ٹکڑوں کو قانونِ خداوندی میں جکڑ کر چاند اور مریخ تک پہنچنے کی شکل میں دیکھ رہا ہے۔
اس کائنات اور خود انسان کی زندگی کے طبعی دائرے کے لیے مقرر قوانینِ قدرت، اور انسانی زندگی کا اختیاری شعبوں کے لیے مقرر قوانینِ خداوندی دونوں کا سرچشمہ اورقانون ساز وہی قادرِ مطلق خالق ارض و سما ہے۔ مثال کے طور پر خالق نے کائنات اور خود انسان کے ذرّے ذرّے پر کچھ قوانین کو جبری طور پر نافذ کردیا ہے۔ اس لیے اس سے انحراف کی سزا اور انجامِ بد فوراً ظاہر ہوجاتاہے۔ جیسے: کوئی شخص زہر کھالے، یا آگ میں ہاتھ ڈال دے، یا بجلی کی رو کو چھوجائے تو نتیجہ خود واضح کردے گا کہ یہ غلط کام کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے جبری قوانین کو سکھانے کے لیے کسی نبی اور رسول کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی تجربہ و مشاہدئہ قدرت ہی اس کے لیے کافی تھے۔
اسی طرح ایک دوسری قسم ہے قوانین کی، جن میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے، آزادی دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے: سچائی میں ہمیشہ فائدہ اور فریب میں ہمیشہ نقصان نہیں ہوتا۔ انصاف و شرافت برتنے کا انجام ہمیشہ بھلائی اور ظلم و سفاکی سے ہمیشہ خرابی نمودار نہیں ہوتی۔ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرکے آدمی بسااوقات مشکلات و مصائب میں گھر جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی و سرکشی کی راہ اختیار کرکے عیش و فراوانی کی زندگی بھی گزارتا ہے۔ اس لیے کہ اس دائرئہ زندگی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانینِ قدرت کو جبری طور پر نافذ نہیں کیا، بلکہ ان کو اختیار کرنا، یا ان کو رَد کرنا انسان کے اختیاراتِ تمیزی پر منحصر رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آزمایش و امتحان اور خلافت کا سوال ہی باقی نہ رہتا۔ ان قوانین کو چونکہ انسان تجربے و مشاہدے اور سائنسی طریقوں سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کرسکتا تھا، اس لیے پہلے ہی روز انسان کو بتادیا کہ دائرئہ خلافت میں اس کے لیے ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ خود بتائے گا:
ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرہ ۲: ۳۸-۳۹)
lدین ، دُنیا میں عملًا قائم کرنے کے لیے ہـے :چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو طریقِ زندگی (دین) مقرر کیا ہے، وہ ہر دور اور ہرنبی اور رسول کے زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اس کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح انسان ہمیشہ سے وہی ابنِ آدم اور اسی فطرت پر ہے جس فطرت پر وہ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، تو اس کی زندگی کے لیے مقرر کردہ اللہ کا دین اور ضابطۂ حیات مختلف زمانوں میں مختلف کیسے ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
اے محمدؐ! کہہ دو کہ ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اُس کے اس دین کو مانتے ہیں جو ہم پر اُترا، جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر اُترا اور جو موسٰی اور عیسٰیؑ کو اور دوسرے انبیاؑ کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم تو صرف اللہ کے تابع فرمان ہیں۔(اٰلِ عمرٰن ۳:۸۴)
دوسری جگہ اس صراحت کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ دین زبانی اور صرف انفرادی طور پر ماننے اور عمل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ دُنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے ہے:
اُس (اللہ) نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب (قرآن کی صورت میں) تمھاری طرف وحی کیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسٰیؑ کو دیا تھا۔ (اور سب کو یہ حکم دیا تھا) کہ اس دین کو قائم کرو اور اس کام میں کوئی اختلاف نہ کرو۔(شوریٰ۴۲:۱۳)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض :حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ وضاحت سے فرمایا:’’اس نے اپنے رسولؐ کو دین حق اور اس بارے میں ضروری ہدایات دے کر اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ خدا کے دین کو دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کردے‘‘۔(التوبہ۹:۳۳ ، الکہف۱۸:۲۸، الصف۶۱:۹)
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لیے آں حضورؐ کے بعد آپؐ کے مشن کو تاقیامت جاری اور برپا کرنے کی ذمہ داری آپ سے آپ آپؐ کی پیرواُمت پر آجاتی ہے، لیکن اسے قیاس اور اندازے لگانے پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ اُمت کو صاف صاف بتا دیا گیا:
اللہ نے تمھارا نام مسلمان (اپنی تابع فرمان رعیّت) رکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس منصب پر فائز لوگوں کا یہی نام رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی تمھارا نام یہی رکھا گیا ہے (اور یہ اس لیے کیا گیا ہے) کہ رسولؐ تم پر خدا کے دین کی شہادت قائم کرے اور تم دوسرے لوگوں پر اس کی شہادت قائم کرو۔ (الحج۲۲: ۷۸)
اور اس طرح ہم نے تمھیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر خدا کے دین کے گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔ (البقرہ۲:۱۴۳)
اس فریضے کی ادائیگی سے کسی حال میں کوئی مسلمان سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ حضورؐ نے فرمایا:
تم میں سے جو کوئی خدا کی نافرمانی کی حالت کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے قوتِ بازو سے اطاعت ِ الٰہی کی حالت سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لازم ہے کہ اس صورتِ حال کے خلاف آواز بلند کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ اس سے دل سے نفرت کرے۔[مسلم، باب النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۱۸۶]
بـے وفائی کا مسئلہ :ان تمام حقائق و احکام کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو اپنی مملکت کے کسی حصے کا گورنر یا کسی ضلع کا حاکم بنا کر بھیجے، اور وہ اپنی حکومت کے احکام بجا لانے اور نافذ کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرنے لگ جائے، یا کسی دوسری حکومت کی اطاعت کرنے لگے، تو اس کو مقرر کرنے والی حکومت ایسے نمک حرام گورنر اور ضلعی افسر سے کیا سلوک کرے گی؟ وہی جو ایک نمک حرام کے ساتھ ہونا چاہیے یا کچھ اور؟
اسی طرح اگر ہم لوگ، جن کو خو د خالقِ کائنات نے انسان کی حیثیت سے پورے کرئہ ارض کی مخلوق میں سے چُن کر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، اسلام کی روشنی اور اس پر ایمان کی نعمت سے نوازا۔ ہم نے گلی گلی اعلان کیا کہ ہمیں اگر تو انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزاد ملک عطا فرمائے، تو ہم تیرے شکرگزار بندے بن کر تیرا پسندیدہ نظامِ زندگی یہاں قائم کریں گے اور تیرے دین کی شہادت ایک مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کی صورت میں ساری دُنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس پر اُس نے ہمیں دُنیا کی ایک بڑی مسلم مملکت عنایت فرمائی، لیکن ہماری طرف سے بحیثیت قوم سوائے بے وفائی اور وعدہ خلافی کے کوئی چیز سامنے نہ آئی، تو مالک ِ کائنات سے ہمیں اپنے ساتھ کس سلوک کی توقع کرنی چاہیے؟
آدھے سے زیادہ ملک کھو چکے ہیں اور باقی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کا مقصد :جماعت اسلامی زمین پر خلافتِ الٰہی کے اسی انسانی فرض اور فریضۂ اقامت ِ دینِ حق کو واحد نصب العین قرار دے کر وجود میں آئی ہے۔ اوّل روز سے اس کے سامنے یہی ایک مقصد رہا ہے۔ آج بھی اُسی کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرشعبے میں شریعت ِ الٰہی کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس نصب العین کو جماعت کے دستور کی دفعہ۴ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’جماعت اسلامی کا نصب العین اوراس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں فرق :ملک میں بہت سی مذہبی اور سیاسی اور اصلاحی جماعتیں کام کر رہی ہیں، جن کی کاوشوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہماری کوئی رقابت نہیں ہے۔ لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا اصلاحی جماعتیں ہیں ___ ان میں سے کوئی بھی جامع اسلامی جماعت نہیں کیونکہ اگر وہ مذہبی ہیں تو ان میں ہرمسلمان شامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کوئی دیوبندی مکتب ِ فکر کی ترجمان جماعت ہے، کوئی بریلوی مسلک سے وابستہ ہے، کوئی اہل حدیث، کوئی سنیوں کے کسی ایک گروہ کی اور کوئی شیعوں کی نمایندہ۔ ان کا اصل زور اپنے اپنے فقہی مسائل کی ترویج، اشاعت اور دفاع پر ہے۔ سیاسی اور اجتماعی حصہ صرف انتخابات میں شرکت کی حد تک ہے۔
سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کے پروگرام بیش تر یکساں اور سیکولر ہیں۔ صرف شخصیتوں کے اختلافات نے ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسلام اور دین کا نام وہ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے تو لیتی ہیں، لیکن ان کی سوچ اور پروگراموں کو اسلام سے عام طور پر اس سے زائد تعلق نہیں کہ ان کے بنانے والے مسلمان ہیں۔ اسلام سے رہنمائی لینا اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ ذہنی انتشار و پراگندگی کا اندازہ اس ایک بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت میں کوئی تضاد نہیں نظر آتا۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتی ہیں اور مسلمانوں کو امیر اور غریب، مالک اور مزارع اور کارخانہ دار اور مزدور میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی کررہی ہیں۔
جماعت اسلامی ان کے برعکس اسلام کے عقیدے، طریقِ تنظیم اور اخلاقی پابندیوں پر قائم کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی جماعت کے کارکن تو درکنار لیڈر تک فرائضِ اسلام کی پابندی، کبائر سے اجتناب اور صریح حلال و حرام کا امتیاز بھی نہیں کرتے، اپنا جماعتی نظام آمریت پر چلا رہے ہیں، تو ایسے لوگ ملک کو اسلام اور جمہو ریت پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قائم کریں گے؟
اسی طرح اگر مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کے پیش نظر وہی مقصد ہو، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کا مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا اور نہ ہونا چاہیے، تو سو چنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو فرائض کی پابندی اور کبائر سے بھی اجتناب نہ کرتا ہو، اور حرام و حلال کی پروا تک نہ کرے اور نظامِ جماعت کا پابند نہ ہو، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوسکتا تھا یا اس میں شامل رہ سکتا تھا؟ وہاں تو منافقین تک کو یہ سارے کام مخلص مومنین کی طرح کرنے پڑتے تھے، لیکن ہمارے یہاں تو کسی جماعت کے کسی چھوٹے یا بڑے لیڈر کے لیے بھی فریضۂ دین کی پابندی یا کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی ضرورت نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم اور نظام :جماعت اسلامی اپنے کام کا آغاز ملک کے تمام لوگوں کو اسلام کے عقیدے اور اس کے کم سے کم تقاضوں پر عمل کی دعوت سے کرتی ہے۔ جو لوگ اس عقیدہ کا احترام کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہوں، اُن کو اپنے سے باقاعدہ وابستہ کرتی ہے۔
جماعت اسلامی اپنی ’رکنیت‘ صرف ان لوگوں کودیتی ہے جو کلمۂ توحید اور اُس کے تقاضوں کو اچھی طرح سے سمجھ کر اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کا عہد کریں۔ خدا کو حقیقتاً اپنا مالک و معبود اور ہادی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً اپنا رہنما و پیشوا بناکر کلمۂ طیبہ کی شہادت دیں۔ اسلام کے عائد کردہ فرائض کی پابندی، کبائر سے اجتناب، حرام و حلال کی تمیز اور جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کریں اور اپنے عمل سے اِن سب باتوں کا ثبوت فراہم کردیں۔ جماعت کا ’رکن‘ ان شرائط پر پورا اُترنے والے لوگوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔
جو حضرات مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق اور اس کے اہتمام کی کوشش کا عہد کریں، اقامت ِ دین یعنی اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کو اپنا نصب العین بنالیں لیکن رکنیت کی ذمہ داریاں پوری طرح اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں یا کسی وجہ سے اس بارے میں معذور ہوں۔ اُن کو ’متفق‘ بنا لیا جاتا ہے اور ان کی مزید تربیت کی جاتی ہے کہ وہ آیندہ رکنیت کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائیں۔
جماعت کی مالیات کا سارا انحصار جماعت کے ارکان، متفقین اور عام حامیوں کی اعانت، زکوٰۃ، عشر اور جماعتی لٹریچر کی فروخت کی آمدنی پر ہے۔ ہرسال مرکزی مجلس شوریٰ سال بھر کے کاموں اور اخراجات کا تخمینہ لگاکر مرکزی بجٹ تیار کرتی ہے اور اسے صوبائی جماعتوں پر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ صوبائی جماعتیں اپنے ذمّے کی رقم میں اپنے سال بھر کے اخراجات شامل کرکے صوبائی مجلس شوریٰ کے ذریعے صوبائی بجٹ تیار کرتی ہیں اور اسے اپنی ضلعی جماعتوں پر تقسیم کردیتی ہیں، اور پھر ضلعی جماعتیں اسی طرح مقامی جماعتوں، حلقہ ہائے جماعت اور منفرد ارکان پر اُسے عائد کردیتی ہیں۔ اس طرح نیچے سے رقم جمع ہوکر مرکز تک پہنچتی ہے اور جماعت کے سارے کام چلتے ہیں۔
جماعت میں فیصلے کا طریقہ یہ ہے کہ:
۱- قرآن و سنّت کے واضح احکام کی پیروی کی جاتی ہے۔
۲- پالیسی اور پروگرام اور دوسرے اُن اُمور جن میں قرآن و سنت میں واضح ہدایات موجود نہ ہوں، ان کے آخری فیصلے کا اختیار ارکانِ جماعت کے اجتماع عام کو حاصل ہوتا ہے۔ اجتماع عام کی غیرموجودگی میں یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ میں عام طور پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، خواہ اس میں زیادہ وقت صرف ہوجائے، لیکن اختلاف باقی رہنے کی صورت میں آخرکار فیصلہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوتا ہے، جس کی پابندی پھر سب پر لازم ہوتی ہے۔
۳- جماعت اسلامی، کسی قسم کے تشدد، سازش، خفیہ جوڑ توڑ، اداروں سے سازباز یا اسلحے کے زور پر کسی قسم کی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ دستوری، اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر ان کی سخت مذمت بھی کرتی ہے، اور ایسے عناصر کو جماعت کی تنظیم کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتی۔
جماعت اسلامی فی الحقیقت اسلام کی عالم گیر دعوت کی علَم بردار ہے۔ اپنے ملک میں اپنی کوششوں کو اس امر پر مرتکز کیے ہوئے ہے کہ اسے ایک مثالی اسلامی ریاست اور معاشرہ بناکر دُنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے کہ کس طرح اسلام انسان کے تمام مسائل کو بہترین طریق پر اور پورے انصاف کے ساتھ حل کرتا ہے۔
جماعت کی دعوت خدا کے فضل سے دُنیا کے بیش تر ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ ۴۵ سے زائد زبانوں میں اس کے لٹریچر کی متعدد کتابوں کے تراجم شائع ہورہے ہیں۔ بیرونِ ملک تبلیغ کا کام ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں اس دعوت سے متاثر لوگوں نے خود دعوتی مشن شروع کردیے ہیں اور وہ بہت خوبی سے اس کام کو کر رہے ہیں۔
دورِ اُموی میں اگرچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ (۲نومبر ۶۸۱ء- ۵فروری ۷۲۰ء)کا عہد ِ حکومت (۲۴ستمبر۷۱۷ء- ۵فروری ۷۲۰ء) بہت مختصر رہا، لیکن انھوں نے بگڑے ہوئے شاہانہ نظامِ حکومت کو درست سمت دینے کے لیے بڑی روشن مثالیں قائم کیں۔
جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو منبرپر یہ پہلاخطبہ دیا:
یہ خطبہ سن کرشاعراورخطیب ان سے دُورہٹ گئے۔علمااورزاہد،ان کے پاس رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’جب تک یہ اپنے کہنے کے مطابق عمل کرتے رہیں گے،اس وقت تک ہم ان کے ساتھ رہیں گے‘‘۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو حسن بصری رحمۃ اللہ کو لکھا کہ ’’براہ کرم امامِ عادل کی صفات بیان کیجیے‘‘۔ حسن بصریؒ نے جواب میں درج ذیل خط لکھا:
اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ امامِ عادل ہر متکبر کو سیدھا کرنے والا، ہرظالم کوٹھیک کرنے والا،ہرفاسدکا مصلح،ہرکمزور کی قوت،ہرمظلوم کی امداداورہر غم زدہ کی جائے پناہ ہوتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایسے چرواہے کی طرح ہوتاہے، جو اپنے اونٹوں پر مہربان اور شفیق ہو ،ان کے لیے بہترین چارہ تلاش کرے اور انھیں درندوں سے،ہلاکت سے اور گرمی سردی سے بچائے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایک باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد پر شفیق ہوتا ہے،بچپن میں ان کی نگرانی کرتاہے،انھیں تعلیم دلاتاہے،اوراپنی زندگی میں ان کے لیے کماتا ہے اور مرنے کے بعدان کے لیے ذخیرہ بھی کرجاتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل اپنی اولادپر ایک نہایت ہی شفیق اورنرم دل ماں کی طرح ہے جو بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور اس کے جاگنے پرجاگتی ہے اور اس کے سونے پر سوتی ہے۔کبھی تو وہ دودھ پلاتی ہوئی نظرآتی ہے اورکبھی کھلانا کھلاتی ہوئی۔ اس کی خوشی پر وہ خوش اور اس کی تکلیف پر اس کو تکلیف ہوتی ہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل یتیموں کا وارث اور مسکینوں کا خزانچی ہوتاہے جو بچپن میں ان کی تربیت کرتاہے اور جوانی میںحفاظت کرتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل جسمِ انسانی میں دل کی طرح ہے جس کی صحت پر تمام دوسرے اعضا کی صحت وبیماری کادارومدار ہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل خدااوربندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بات سنتاہے اور لوگوں کو سناتاہے۔وہ خدا کی طرف بھی دیکھتاہے اور بندوں کی طرف بھی۔ وہ خداکافرماں بردارہوتاہے اورلوگ اس کے فرماں بردارہوتے ہیں۔
اے امیر المومنین!اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کاآپ کومالک بنایاہے ان میں اُس غلام کی طرح نہ ہوجائیے جس پر مالک نے اعتماد کیاہو،اپنے مال اوراہل وعیال کا محافظ بنایاہو،لیکن اس نے مال کو برباد کردیااوربچوں کواِدھراُدھربکھیردیا۔اس طرح بچے بھی بھوکے رہے اور مال بھی برباد ہوگیا۔
اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حدودنازل ہونے کا مقصدیہ ہے کہ لوگ بُرائی اور بدکاری سے بچ جائیں۔ اگر وہی لوگ بدکاری کرناشروع کردیں جواس کے خاتمے کے لیے مقرر کیے گئے تھے تو بدی کیسے رکے گی؟ اسی طرح قصاص مقرر کیاگیا ہے تاکہ انسانوں کوقتل نہ کیا جائے اور اگر وہی لوگ قتل کرنے لگیں جن کی ذمہ داری قصاص دلوانا ہے تو اس کا کیا علاج ہے؟
اے امیر المومنین!موت اور موت کے بعد اس وقت کو یاد کریں، جب کوئی ساتھی و مددگار نہ ہوگا،لہٰذا بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے لیے تیاری کریں۔
اے امیرالمومنین!آپ کا ایک ایساگھرہوگاجواس گھرسے بالکل مختلف ہوگا۔ جس میں آپ کاٹھیرنابڑا لمبا ہوگااور آپ کے دوست آپ سے جدا ہوں گے اورآپ کو تنہا ایک قبر میں ڈال دیں گے۔اس دن کے لیے اپناساتھی بنائیے جس دن کہ آدمی اپنے بھائی، ماں باپ،بیوی اوربچوں سے دُوربھاگے گا: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۳۴ۙ وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۳۶ۭ (عبس ۸۰: ۳۴-۳۶)’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ،اوراپنی بیوی اور اپنی اولادسے بھاگے گا‘‘۔
اے امیرالمومنین!وہ وقت یاد کریں جب قبروں سے مُردے اٹھ کھڑے ہوں گے اور سینوں کے راز کھل جائیں گے: اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ۹ۙ (العٰدیٰت۱۰۰:۹) ’’تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ(مدفون ہے)اسے نکال لیاجائے گا‘‘۔
اس موقعے پر اعمال نامہ ہرقسم کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ ظاہر کر دے گا۔
اے امیرالمومنین!ابھی فرصت اورمہلت ہے، موت سے پہلے کچھ کرلیں۔
اے امیرالمومنین!اللہ کے بندوں پر نہ تو جاہلوں جیسی حکمرانی کیجیے اورنہ ان کے ساتھ ظالموں جیساسلوک کیجیے۔طاقت ور کو کمزوروں پر مسلط نہ کیجیے، کیونکہ وہ قرابت اور ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کے اوپران کے غلط کاموں کا بوجھ آن پڑے گا،نیز یہ کہ دنیاداروں کو عیش وعشرت میں مبتلااور انھیں مرغن اور لذیذ کھانے کھاتے دیکھ کردھوکا نہ کھائیں کیونکہ آپ کو اس کے بدلے میںیہ چیزیںقیامت کے دن ملیں گے۔ خلیفہ ہوتے ہوئے آپ یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے پاس کتنی قدرت اور کتنی طاقت ہے،بلکہ یہ دیکھیں کہ کل، جب کہ آپ موت کی رسیوں میں بندھے ہوئے فرشتوں کے مجمعے میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور سب کے سب اسی انتظار میں ہوں گے کہ ربّ العزت کی طرف سے کیافیصلہ صادر ہوتاہے،اس وقت آپ کی کیا طاقت ہوگی!
اے امیر المومنین!اگرچہ میں بزرگوں کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتا جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں، مگر آپ کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کاجذبہ رکھتے ہوئے کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ انھیں اچھی طرح سمجھنا۔ میری یہ کڑوی باتیں اس جگری دوست کی دواکی مانند ہیں، جو وہ اپنے بیمار ساتھی کو اس امید پرپلاتاہے کہ اس بدمزہ دواکے استعمال سے وہ صحت مند ہوجائے گا۔والسلام
اسی طرح عمر بن عبدالعزیزؒ نے بعض باتیں پوچھنے کے لیے حضرت طاؤسؒ کو ایک خط لکھا، جس کےجواب میں حضرت طاؤس ؒنے لکھا:
اے امیرالمومنین!آپ پرسلامتی ہو۔اللہ تعالیٰ نے کتاب اتاری اور اس میں بعض چیزوں کو حلال اوربعض چیزوں کوحرام کیا۔اور مثالیں اور واقعات بیان کیے ہیں اور اس میں سے بعض آیات محکم اوربعض متشابہ ہیں۔لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کے حصول اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیں۔ قرآن پاک میں بیان کردہ واقعات پر غوروفکرکریں۔ محکمات پر عمل کریں اور متشابہات پر ایمان لائیں۔
والسلام
عمربن عبدالعزیزؒ نے حضرت سالم ؒبن عبداللہ کو یہ خط لکھا:
تم پر سلامتی ہو!سب سے پہلے میں اس اللہ کی تعریف کرتاہوں،جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔
امابعد! میرے مشورے اورمیری طلب کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس امت کا بوجھ میرے اوپر ڈال کے مجھے آزمائش میں ڈال دیاہے۔میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ اس معاملے میں میری مدد فرمائے اور میں اُسی سے التجا کرتاہوں کہ وہ اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے توفیق دے کہ لوگو ں پر شفقت کروں اور وہ میری اطاعت کریں۔ جب یہ خط آپ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر فاروقؓ کے خطوط،ان کی سیرت اور اہل قبلہ اور اہل ذمہ کے متعلق فیصلے مجھے ارسال کردیں کیوںکہ میں ان کی سیرت اور ان کے اقوال پر عمل کروں گا۔اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔
والسلام
حضرت سالمؒ بن عبداللہ نے اس خط کے جواب میںدرج ذیل خط عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا:
سلام مسنون اور حمدو ثنا کے بعد!اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق پیدافرمایا۔ اسے تھوڑی مدت باقی رکھ کر اسے اور اس میں رہنے والوں کو فنا کردے گا۔
اے عمر!آپ پربہت بڑی ذمہ داری ہے۔اگر آپ چاہیں کہ قیامت کے دن آپ اور آپ کے اہل وعیال خسارے میں نہ رہیں،تو اس کے لیے کوشش کریں کیوں کہ آپ سے پہلے جو لوگ بھی گزرے ہیں انھوں نے حق کو مٹانے اور باطل کوزندہ کرنے کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔ اس زمانے میں بہت سے مرداورعورتیں پیداہوئیں لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ اس غلط قسم کی کارکردگی کوسنت سمجھتے رہے ہیں۔
اگرآپ کسی کارندے کو اس کی غلط کاری کی وجہ سے معزول کردیں اور یہ کہیں کہ تم میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرسکتے، تو آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔
اگر آپ یہ کام صرف اللہ کے لیے کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا اور امدادنیت کے مطابق ہوتی ہے۔اگر آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ خدا کے سامنے اس حال میں پیش ہوں کہ آپ پرکوئی ذمہ داری نہ ہواورآپ سے پہلے گزر جانے والے آپ پررشک کریں تو ایسا ضرورکیجیے، کیوںکہ وہ تو موت کا نظارہ کرچکے ہیں اور اس کی خوف ناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور ان کی وہ آنکھیں جن کی لذتِ دیدختم نہیں ہوتی تھی،فنا ہوچکی ہیںا وروہ پیٹ جوکھانے سے پُر نہیں ہوتے تھے،پھٹ چکے ہیں۔ دنیا میں تو خدام، پلنگوں اور عالی شان بستروں اور تکیوں کا دوردورہ ہوتاتھا،مگر آج ان کی گردنوں کے نیچے کوئی تکیہ اور ان کے جسموں کے نیچے کوئی بستر نہیں۔ اب وہ زمین کی گہرائیوں میں گل سڑ چکے ہیں حالانکہ دنیا میں خوشبو کے اندر بسے رہتے تھے۔ اور اگر کوئی مسکین ان کے قریب کھڑا ہوتاتو اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کرتے تھے: اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ !
اے عمر!جس آزمایش میں آپ ڈالے گئے ہیں جانتے ہیں کتنی بڑی ہے!
جس عامل کو بھی آپ کام پر روانہ کریں،اسے خون بہانے اورناجائزطور پر مال لینے سے سزا کی حدتک پرہیز کرائیں۔ اے عمر! مال سے بچیں،اے عمر!خون سے بچیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں آپ کو حضرت فاروق اعظمؓ کے خطوط اور ان کی سیرت ارسال کروں،تواے امیرالمومنین! گزارش ہے کہ حضرت عمرؓ کا زمانہ اور ان کا عملہ،آپ کے زمانے اور عملے سے مختلف تھا۔ مجھے امید ہے کہ اُس طریقے پراپنی خلافت کو چلائیں گے جس طریقے پرحضرت عمرؓ نے چلائی تھی، جب کہ آپ نے ظلم وستم برداشت کیے ہیں، تو اللہ کے نزدیک آپ حضرت عمرؓ سے افضل ہوں گے۔ایک نیک بندہ کی طرح آپ یوں کہیں:
وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ۰ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۰ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۸۸ (ھود ۱۱:۸۸) میں ہرگزیہ نہیں چاہتاکہ جن باتوں سے میں تم کو روکتاہوں ان کاخود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتاہوں جہاں تک میرا بس چلے۔ اوریہ جوکچھ میں کرنا چاہتا ہوں، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پرہے۔ اُسی پرمیں نے بھروسا کیا اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف مَیں رجوع کرتاہوں۔
والسلام
ابوسلیم ہذلی کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنے آخری خطبے میں فرمایا:
امابعد!اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بے کار پیدانھیں کیااور نہ تمھارے تمام معاملات میں سے کسی کوبے کار بنایاہے۔ تمھیں ایک دن خداکے ہاں جانا ہے،اس دن تمھارے متعلق فیصلہ کیاجائے گا۔
وہ آدمی ناکام رہے گا جواللہ کی رحمت سے دور اور اس کی جنت سے محروم ہو جائے، جس کا عرض زمین وآسمان جیسا ہے۔ اور جس نے خوف کوامن کے بدلہ میں اورقلیل کو کثیر کے بدلہ میں خریدا،اس نے خسارے کا سودا کیا۔ تمھیں معلوم نہیں کہ تمھیں ایک دن مرنا ہے اور تمھاری اولاد کو تمھاری جگہ لینی ہے۔ اورپھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا ہے۔
ہردن کوئی نہ کوئی آدمی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتاہے تو تم اسے زمین میںدفن کر دیتے ہواور بغیربسترے اور تکیہ کے لٹاآتے ہواوروہ تمام اسباب اوراحباب کو چھوڑ کر زمین کے نیچے سکونت اختیار کرلیتاہے، اور وہ اس حال میں حساب دے گا کہ اس کے عمل رہن رکھے ہوئے ہوں گے، جو کچھ آگے بھیج چکا،اس لحاظ سے فقیر اور جو پیچھے چھوڑ آیا ہے، اس لحاظ سے وہ غنی ہوگا، لہٰذاموت کے آنے سے پہلے خدا سے ڈرو۔
خدا کی قسم! میں تمھیں یہ بات کہہ رہاہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کسی کے اتنے گناہ ہوں گے جتنے کہ میرے ہیں۔اورجوضرورت مند میرے پاس آتاہے،میں ہر ممکن کوشش کرتاہوں کہ اس کی ضرورت کوپوراکروں۔ اور کوئی ایسا شخص میرے پاس پہنچے جس کی ضرورت میںپوری نہیں کرسکتا تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس میں تبدیلی پیدا کروں اور میں اوروہ برابر ہوجائیں۔
خداکی قسم! اگر میں شان وشوکت اورعیش و عشرت کی زندگی بسر کروں تو میری زبان میں یہ طاقت ہے اورمیں اس کے لیے اسباب بھی مہیا کرسکتاہوں، مگر کتابُ اللہ اور سنت رسولؐ کو جانتا ہوں جس میں خداکی اطاعت کا حکم دیاگیاہے اوراس کی نافرمانی سے روکا گیا ہے۔
یہ خطبہ دینے کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنی چادر اپنے چہرے پرڈال لی اور رونے لگے۔لوگ بھی انھیںروتادیکھ کررونے لگے۔
مرشدعام حسن البنا ؒکی قیادت میں الاخوان المسلمون نے جو ہمہ پہلو جدوجہد کی، اس نے عالمِ عرب میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کو برگ و بار عطا کیے، مگر جلد ہی برطانوی سامراج کے زیراثر مصری حاکموں نے اخوان کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے اور پھر ۱۲فروری ۱۹۴۹ء میں حسن البنا کو گولی مار کر شہید کردیا۔ ازاں بعد یہ سلسلۂ داروگیر مسلسل چلتا رہا۔ ۲۰۱۱ء میں ایک بھرپور عوامی لہر نے مصر پر مسلط جون ۱۹۵۳ء سے فوجی حکمرانی کو گرا دیا۔ تاہم، ریاستی اداروں میں بیٹھی قوتوں کی تمام حیلہ سازیوں کے باوجود، اخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی، ۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدر جمہوریہ مصر منتخب ہوگئے۔ انھوں نے ایک سال اور ایک ماہ کے دوران جو بے پناہ کاوشیں کیں، ان میں چند ایک کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے، کیونکہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو مصرکی فوجی جنتا نے امریکا، اسرائیل اور عرب راجوں کی پشت پناہی سے صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جمالیا اور بڑے پیمانے پر ہم وطن اخوان المسلمون کے حامیوں کے خون کی ہولی کھیلی۔ صدر محمد مرسی قید کردیئے گئے جہاں ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ادارہ
ماضی قریب میں تہذیب و سیاست کے میدان میں اسلام کا مؤثر کردار آزمانے کے لیے اخوان المسلمون نے اپنے ایک سالہ دورِ حکومت میں بھرپور کوشش کی۔ یہاں اخوان کے دورِ حکومت کا واقعاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے:
پس منظر و پیش منظر: رواں صدی کا دوسرا عشرہ عالمِ عرب میں انقلاب کی بہار لے کر نمودار ہوا۔ دیگر عرب افریقی ممالک کے ساتھ محض آٹھ روز کی پُرامن مزاحمت کے نتیجے میں مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا ۳۰سالہ دورِ حکومت زمین بوس ہو گیا تو فروری ۲۰۱۱ء کو حسنی مبارک نے اقتدار کی کلید عبوری حکومت کے سپرد کردی۔ اسی دن سے متبادل نظام کی تگ و دو شروع ہوگئی۔ متعدد مہرے آزماتے ہوئے پوری کوشش کی گئی کہ اقتدار کسی طرح حسنی مبارک کی باقیات ہی کے ہاتھ میں رہ جائے۔ اس کے لیے عارضی نظام اور عالمی طاقتوں نے تمام ہتھکنڈے آزما لیے، مگر اس عوامی انقلاب کے بعد عوام کی مرضی کے بغیر کسی نظام کو چلانا ممکن نہ رہا تھا۔ اور جب مجبوراً بار بار عوام سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے بڑی تعداد میں اخوان المسلمون کے قائدین کو اختیار دینے کی تائید کی، اور چاروناچار، انتخابی عمل سے گزر کر اس عارضی حکومت نے نئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار سونپا۔
۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو ڈاکٹر محمد مرسی نے باقاعدہ زمامِ حکومت سنبھال لی۔ اس وقت ان کی آنکھوں کے سامنے گذشتہ ۶۵ برسوں کے دوران اخوانی ساتھیوں کی حالت ِ زار، موجودہ تحریک میں شہدا کے لاشے، انقلابیوں کے جذبات اور اخوان کے اللہ اور قوم سے کیے گئے وعدے چیلنج بن کر کھڑے تھے۔ اللہ کی مرضی اور اس کا قانون اس کی زمین پر نافذ کرنے کے مطالبے کے سامنے مصری قوم کے ۳۰ فی صد وہ افراد بھی ایک چیلنج تھے جو اللہ کی سرزمین پر طاغوتی نظام کا ہی بول بالا دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اپنی قوت لگائے ہوئے تھے۔ ایسے افراد کی دُنیا کی بڑی طاغوتی طاقتیں خفیہ و علانیہ مدد کر رہی تھیں۔ محمد مرسی کو سابقہ نظام کی تباہ کن پالیسیاں ، معاہدات، تفرقہ پسندی اور معاشی بدحالی جیسی مشکلات بھی ورثہ میں ملی تھیں۔ ایسے سخت حالات میں ڈاکٹر محمدمرسی نے اللہ پر بھروسا کرکے مضبوط عزائم، دُور رس پالیسی اور ہرطرح کی قربانی کے لیے تیار ہوکر صدارتی محل میں قدم رکھا اور ایک ایک لمحہ ان خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں صرف کردیا۔
صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد پہلی بار محمد مرسی ۲۸جون کو ’میدانِ تحریر‘ میں اپنے ہم نوائوں سے رُوبرو ہوئے۔ پھر ۳۰جون کو قاہرہ یونی ورسٹی میں قوم سے خطاب کیا۔ دونوں مواقع پر اپنی پالیسی اور عزائم کو سب پر واضح کردیا کہ مصر کی سرزمین پر اللہ کے قانون کی بالادستی ہوگی، سیاسی نظام سے جبروتشدد اور مطلق العنانی کا خاتمہ ہوگا اور ایسا سیاسی نظام برپا کیا جائے گا، جو عدل و اخوت پر مبنی، عوامی جذبات کا ترجمان اور وحی الٰہی کے تابع ہو۔ یہ کہ ہم پورے مصر کے، مصر کے ہرشعبے اور ہرادارے کا احترام کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ ان کی عظمت و وقار کو برقرار رکھنے کے لیے وہ بھرپور کوشش کریں گے۔
محمد مرسی نے نئے مصر کی تصویر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’نیا مصر شہیدوں کے خون اور انقلابیوں کے جذبات کا بھرپور عکاس ہوگا۔ جدید مصر ان شاء اللہ اپنے عظیم الشان ماضی کو واپس لائے گا کہ جب اسے علمی، فنی اور سفارتی میدانوں میں عالمِ عرب، افریقی خطے اور اسلامی ممالک میں قائدانہ کردار حاصل تھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جدید مصر، سفارتی اور اقتصادی محاذ پر تمام عرب اور اسلامی ممالک کوساتھ لے کر ایک نیا اقتصادی زون بنائے گا، جو یورپ و امریکا کی اقتصادی پالیسیوں سے بے نیاز کردے گا۔ پھر یہ کہ مصری قوم کا ہرفرد چاہے وہ مسلمان ہو یا مسیحی اور یہودی، ملک کی تعمیروترقی میں سب کا برابر حصہ ہوگا۔ سب کو ترقی کے یکساں مو اقع حاصل ہوں گے۔ سب کے حقوق اور اقدار کو تحفظ حاصل ہوگا اور کسی سماجی و ریاستی معاملے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی‘‘۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے خطاب کے آخر میں اللہ کی قسم کھا کر ’’ان وعدوں اور پالیسیوں کو سچّے دل سے رُوبہ عمل لانے اور ان کی تکمیل میں اپنی توانائیوں کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیں گے اور کبھی قوم سے خیانت نہیں کریں گے‘‘۔
اس پالیسی خطاب کے بعد وہ میدانِ عمل میں اُترے اور پورے ایک سال ملک کی تعمیروترقی میں لگے رہے۔ ان کے ساتھ ان کی سرپرست تحریک اخوان المسلمون شانہ بشانہ کھڑی رہی اور اس وقفہ کو خوابوں کی تکمیل کا موسم کا عنوان دیا اور اس مہلت عمل کے ایک ایک لمحے کو ملکی سیاست اور تہذیب کی تعمیروترقی میں لگادیا۔ اس ایک برس کے عرصے میں ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی جماعت نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، ان پر متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ایجازات دکتور محمد مرسی رئیس الجمہوریہ کے مصنّف طالب حازم سعید نے دس عناوین کے تحت ۱۰۰کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ ahramonline نے عثمان النشارنوی کا ایک تجزیہ Egypt's President Morsi in Power: A Time Line تحریر کیا ہے ، جس میں تاریخ وار ۷۰بڑے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ان جائزوں کی روشنی میں مرسی کے ایک سالہ دورِ حکومت کے اہم فیصلوں اور اقدامات کو مختصراً درج ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
حسنی مبارک کے دور میں مصر کی خارجہ پالیسی، عرب اور مسلم دُنیا دونوں کے مفادات کے خلاف تھی۔ فلسطینی مجاہدین سے دشمنی اور اسرائیل کی تابع داری اس پالیسی کا امتیاز تھا۔ ڈاکٹر مرسی نے خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں کیں اور مصر کے قائدانہ کردار کی بحالی کے لیے سنجیدہ جدوجہد کی۔ اِس محاذ پر ان کے چند اہم کارنامے درج ذیل ہیں:
سوڈان کے ساتھ مل کر ایک ایسے زرعی منصوبے کی بنیاد رکھ دی کہ مکمل ہوجائے تو ۲۰لاکھ ایکڑ بے آباد سوڈانی زمین مصر کے لیے غلہ اُگانے لگے۔ ۶لاکھ۶۰ ہزار ایکڑ کا ایک اور ۳لاکھ ۶۶ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا، جس کے تحت زمین کاشت کاروں کو ۵ سے ۱۱۰ ؍ایکڑ زمین مل جاتی اور وہ خود کفیل ہوجاتے۔
داخلی، خارجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں اخوان کے یک سالہ دورِ حکومت میں جو اُمور انجام پائے ان کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔ کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کا احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔ ان مثالوں میں یہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک اسلامی نظریہ کی حامل انقلابی تحریک کو بے مہار تہذیب، اور سیاست کو اسلامی عقیدہ و اخلاق سے آراستہ کرنے اور دُنیا کے سامنے ایک مثالی تہذیب اور سیاست کا نمونہ پیش کرنے کا موقع ملا تو اس تحریک نے اس کا کس حد تک حق ادا کیا۔
ایک سال کی قلیل مدت میں اتنے محاذوں پر کام کا آغاز بجائے خود بہت بڑی کامیابی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی جو ہدف لے کر آگے بڑھے، وہ طاغوتی طاقتوں کو کسی طرح بھی راس آنے والا نہ تھا۔ شیطانی قوتوں کو سب سے زیادہ یہ خوف ستاتا رہا کہ اگر اسلامی اخلاقیات اور اقدار کی لذت سے دُنیا ایک بار پھر آشنا ہوگئی، تو ان کے لیے یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے صدر ڈاکٹر محمدمرسی کے قدم اُکھاڑنے کے لیے کسی لمحہ کوئی کسر نہ چھوڑی اور ایک سال کے بعد اس حکومت پر شب خون مارا۔ اگر ان کے فیصلوں اور اقدامات کو زمین پر برگ و بار لانے کا موقع ملا ہوتا تو لازماً دُنیا ایک رفاہی اسٹیٹ کا مشاہدہ کرتی، اور اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوتے مگر ظالموں نے ان غنچوں کو بغیر کھلے ہی مَسل کر رکھ دیا۔ تاہم، یہ ابتدائی نقوش بھی بہت مبارک ہیں اور نظریاتی تحریکات کے لیے اس میں بھی بڑا پیغام ہے۔اسلام کے حوالے سے تہذیب و سیاست کی تعمیر کے لیے جو لوگ بھی اُٹھیں گے نمرود کی آگ ان کے دامن کو ضرور چھو ئے گی۔ ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی جماعت نے جس عزیمت کا مظاہرہ کیا ہے ، یہ تحسین کے مستحق ہیں۔
تقریباً ۶۰ برس کی جلا وطنی کے بعد شام میں اخوان المسلمون کے دوسرے بڑے راہ نما اور یورپ میں اخوان کے شامی نژاد قائد استاد عصام عطار ( ۱۹۲۷ء- ۲۰۲۴ء)۲مئی بروز جمعہ جرمنی کے شہر’ آخین ‘میں۹۷ سال کی عمر میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے : انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون !
داعی ،ادیب ، شاعر ،مفکر اور شام کی پارلیمان کے سابق رکن عصام عطار۱۹۲۷ء میں دارالحکومت دمشق کے ایک علمی اور مذہبی خانوادے میںپیدا ہوئے ۔ان کے والد محمد رضا عطار شام کے بڑے عالم اور قاضی تھے ۔ دمشق کی جامع مسجد الاموی میں ان کے دروس اور خطبے باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے ۔ان کا خانوادہ عثمانی خلافت اور سلطان عبد الحمید کا حامی تھا۔چنانچہ شام کے گورنر جمال پاشا نے ان کے والد محمد رضا عطار کو دیگر افراد کے ساتھ ایک فرضی مقدمہ میں پھانسی کی سزا سنائی مگروہ ملک سے باہر نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔
عصام عطار نے طالب علمی کے زمانے میں ایک انجمن تشکیل دی تھی جو فلاحی ،اصلاحی اور خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش رہتی ۔ شیخ عصام اور ان کے متعدد رفقا جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے دمشق کے مضافات کی مختلف بستیوں میں جایا کرتے ۔ کالج کے زمانے میں ہی عرب کے معروف ادیبوںمثلاً مصطفےٰ صادق رافعی ،طہٰ حسین ،عباس محمود عقاد، احمد امین ، سلامہ موسیٰ اوراحمد حسن زیات کی تصانیف ، ادبی رجحانات اور ذاتی افکار کا خوب مطالعہ کرلیا تھا ۔ ۱۹۴۵ء میں مصری عالم، مصنف اور اخوان رہ نمامصطفےٰ السباعی(۱۹۱۵ء- ۱۹۶۴ء) کے ذریعے اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں دمشق میں منعقد ہونے والی’مؤ تمر عالم اسلامی‘ [تاسیس:۱۹۲۶ء]کی اُس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں شام کے معروف اہل علم اور سیاسی رہ نمامثلاً محمد المبارک، معروف الدوالیبی اور مصطفےٰ زرقاء و غیرہ بھی موجود تھے۔کانفرنس میں عصام عطار کو ’مؤتمر عالم اسلامی‘ کا سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا۔
عصام عطار نے ۱۹۵۱ء میںشامی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے میں حصہ لیا ۔ اس سے قبل چالیس کے عشرے میں اخوان نے شام پر مسلط فرانسیسی سامراج کے خلا ف مسلح جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ آزادی کے بعد اخوان شام کے سیاسی عمل میں شامل ہوگئی ۔۱۹۴۹ء میںاس کے تین اراکین پارلیمان میں پہنچے، جب کہ ۱۹۶۱ء میںاس کے اراکینِ پارلیمان کی تعداد دس تھی۔ لیکن۱۹۶۳ء میں سیکولرزم اور سوشل ازم کی داعی بعث پارٹی نے جب بزورِ قوت جمہوری حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ جمایا، تو شام میںاخوان کے دوسرے مرشد عام شیخ عصام عطار نے بعث پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف عوامی تحریک منظم کی ۔
۱۹۵۴ء میں جب اخوان کے مرشد عام حسن الہضیبی اور محمد حامد ابو النصر وغیرہ نے شام کا دورہ کیا تو مصطفےٰ سباعی اور سعید رمضان کے ساتھ عوامی جلسے منعقد کیے، جن میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ اخوان کے دوسرے مرشد عام حسن الہضیبی ، عبد القادر عودہ، محمد فرغلی اور یوسف طلعت ان کے رفیقوں میں شامل تھے ۔مصر کے ایک ممتاز قانون دان، صحافی، دانشوراور امام حسن البنا (۱۹۰۶ء- ۱۹۴۹ء)کے انتہائی معتمد، ان کے داماد اوریورپ میں الاخوان المسلمون کے بانی سعید رمضان (۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء- ۴؍اگست ۱۹۹۵ء)عصام عطار کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔
عصام عطار ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک شام میں اخوان المسلمون کے سربراہ رہے۔ فرانسیسی استعمار اورفوجی انقلاب کے بعدمطلق العنان حکمران حافظ الاسد کے خلاف حزبِ اختلاف کی سب سے نمایاں آواز اور تحریک مزاحمت کی علامت تھے ۔ ۱۹۶۴ء میں ملک بدر کیے گئے ۔ لبنان ، مصر ، اردن اور کویت وغیرہ میں بھی وقت گزارا۔سید قطب اور محمود محمدشاکر اور عبد الوہاب عزام وغیرہ سے اسی زمانے میں ملاقاتیں کیں۔ ۱۹۷۰ء سے مستقل طور پر جرمنی میں مقیم تھے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی ‘مگر انگریزی ، جرمن اور فرانسیسی زبانوںپر بھی عبور تھا ۔ ان کی تصانیف میں: lبلادنا الاسلامیۃ و صراع النفوذ ، l الایمان و اثرہ فی تربیۃ الفرد والمجتمع ، lثورۃ الحق ، l ازمۃ روحیۃ وغیرہ قابلِ ذکر اور اہمیت کی حامل ہیں ۔
بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میںشام کی الاخوان المسلمون سے وابستہ افراد نے ہالینڈ کی سرحد پر واقع جرمن شہر’ آخین ‘کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا،جہاں شامی نژادمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبادتھی ۔ شامی اخوان کے سر براہ عصام العطار بھی شامی حکمرانوں کے مظالم سے بچ کر آخین میں آکر آباد ہوئے اور ایک اسلامی مرکز قائم کیا ۔ بعد میں رفتہ رفتہ اخوان کے بہت سے رفقاء وہاں جمع ہوگئے اور ایک قوت بن کر اُبھرے۔ جرمنی میں موجود مصری اور شامی اخوان کے درمیان تعلقات بہت مضبوط اور گہرے ہیں۔ اس کے علاوہ میونخ سے شائع ہونے والے عربی میگزین الاسلام کے ایڈیٹر احمد وان ڈینفرکا تعلق بھی آخین سے ہی تھا۔
استاذ خلیل احمد حامدی نے اپنی تصنیف تحریک اسلامی کے عالمی اثرات میں استاذ عصام العطار کے بارے میں لکھا تھا: ’’وہ جرمنی کے شہر آخین میں دعوتِ حق کی اشاعت میں مسلسل سرگرمِ عمل ہیں ۔ ان کی زیر ادارت ایک عربی ماہ نامہ الرائد بھی نکل رہا ہے جو یورپ کے اندر عربوں اور بالخصوص نوجوانوں کی فکری رہنمائی اور ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کررہا ہے‘‘۔ ستمبر ۱۹۷۹ء میںمولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒکی وفات کے بعد شیخ عصام نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے عربی میں ایک قصیدہ لکھا تھا، جس کا یہ شعربطور خاص ملاحظہ کریں ؎
انتَ المَنارۃُ لِلاِسلامِ اِنْ خبطتَ
سفینۃُ الفِکرِ فِی داج مِن الرّیبِ
(آپ اسلام کا روشن منارہ ہیں، جب فکر کا سفینہ شک و ریب کی تاریکی میں جاٹکرائے)۔
یورپ کے دیگر ممالک کی بہ نسبت جرمنی میں اخوان المسلمون زیادہ مؤثر اور فعال ہے۔ ۶۰ کے عشرے میں مصر اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مسلمان طلبہ جوجرمنی کی یونی ورسٹیوں میں تعلیم کی غرض سے داخل ہوئے تھے، ان کی بڑی تعداد نے وہیں سکونت اختیار کرلی اور اخوان سے وابستہ ہوکر اس کے پروگرام کو آگے بڑھایا ۔متعدد شہروں میں اسلامک سوسائٹیاں بنا کر فلاحی، رفاہی اور دینی کاموں کو منظم کیا ،حتیٰ کہ بہت جلد جرمنی کے ۳۰ سے زیادہ شہروں میں اسلامی مراکز قائم ہوگئے ۔ سعید رمضان ، غالب ہمت اور عصام عطار نے جرمن مسلم تنظیموں اور اخوان کی قیادت کے درمیان تعلقات اور روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
جرمن مسلم معاشرے میں اخوان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ جب چند برس قبل پہلے منتخب مصری صدر محمد مرسی (۲۰؍ اگست ۱۹۵۱ء-۱۷جون ۲۰۱۹ء)کا حراست میں انتقال ہوا تو جرمنی کی ۳۰۰ سے زیادہ مساجد کے ائمہ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرائی تھی ۔
’جرمن اسلامک کمیونٹی‘(I.C.G ) اخوان سے وابستہ ملک کی قدیم تنظیموں میں سے ایک ہے۔ جرمنی کی بیش تر مساجد’ آئی سی جی‘ سے منسلک ہیں ۔ ’ آئی سی جی ‘یورپ میں اسلامی تنظیموں کی یونین کی ایک اہم رکن ہے، جو اخوان کی برادر تنظیموں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔ واضح رہے کہ جرمنی میں ۹۰۰ مساجد اور تقریباً ۰ ۳ لاکھ ترک مسلمان مقیم ہیں ۔ بیش تر مساجد کاانتظام ’ترک اسلامی یونین برائے مذہبی امور‘کے ہاتھ میں ہے ۔جرمن شہر میونخ ،ہم برگ ، برلن، سٹوٹکارڈوغیرہ میں بھی اسلامی مراکز اور مساجد قائم ہیں۔ اس کے علاوہ آخین میں متحرک بلال سینٹر کے نگراں اور منتظم استاذ عصام العطارتھے۔
عصام عطار کی اہلیہ بنان طنطاوی، سیّد قطب شہید ؒکے ہم درس، معروف عرب عالم ، ادیب، مصنف ،مؤرخ اور صحافی علی بن محمدطنطاوی( ۱۹۰۹ء -۱۹۹۹ء) کی صاحب زادی تھیں، جنھیں شام کی خفیہ پولیس کے اہل کاروںنے محض ۳۷ برس کی عمر میں۱۷ مارچ۱۹۸۱ء کو جرمن شہر آخین میںان کے گھر میںگولی مار کرشہید کردیا تھا۔ استاد عصام عطار نے داعیہ اورمصنفہ زوجہ کی شہادت کے بعد ایک غم انگیز مرثیہ لکھا تھا، جو اُن کے دیوان میں ’رحیل‘ کے عنوان سے موجود ہے۔
یورپ میں تحریک اسلامی کی آبیاری اور نشوو نما میںبنیادی کردار ادا کرنے والے اور اخوان کی پہلی نسل سے متعلق بزرگ قائد استاد عصام عطار کو۳ مئی۲۰۲۴ء کو جرمنی کے شہر’ آخین‘ میں اخوان سے منسلک سیکڑوں سوگوار مرد و خواتین کی موجودگی میںسپرد خاک کیا گیا ۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات کو بلند کرے، آمین!
سینی گال مغربی افریقہ کا مسلم ملک ہے۔ اس کے مشرق میں مالی، شمال میں موریطانیہ، جنوب میں گنی بسائو ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام ڈاکار ہے۔ سینی گال میں جمہوریت بہت سے افریقی اور تقریباً سبھی عرب ممالک کی بہ نسبت کافی ترقی یافتہ ہے۔ یہاں کثیرجماعتی نظام پرانا ہے اور سول سوسائٹی آزاد بھی ہے اور فعال بھی۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُرامن انتقالِ اقتدار عملاً کئی مرتبہ ہو چکا ہے ۔ البتہ ۲۴ مارچ ۲۰۲۴ء کو ہونے والے آخری صدارتی انتخابات میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے، وہ سابقہ تمام ادوار سے مختلف ہے۔انتخابات کے بعد دارالحکومت ڈاکار کے سفر میں میری کوشش تھی کہ عربی بولنے والے سرگرم سیاسی کارکنان سے بھی اور فرانسیسی زبان بولنے والے سرگرم سیاسی لوگوں سے براہِ راست گفتگو اور تبادلۂ خیال کرکے اپنے ہاں، یعنی الجزائر کے جمہوری ماڈل کے لیے اب تک حل نہ ہوسکنے والے سیاسی و سماجی مسائل میں، سینی گال کے موجودہ سیاسی تجربے سے اسباق اخذ کر سکوں ۔
سابقہ ادوار میں سینی گال کی سیاست ایک ہی سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی محور کے گرد گھومتی رہی ہے اور وہ تھا فرانسیسی بالادستی کا مغرب نواز محور۔ البتہ آخری صدارتی انتخاب میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اسے افریقہ کی اُس عام بیداری سے منسوب کرسکتے ہیں، جو اس بر اعظم نے بحیثیت مجموعی یورپی استعماری طاقتوں کی اندھی تابعداری کے خلاف دکھائی ہے ۔تاہم، اس مقصد کے لیے سینی گال نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ اپنی جمہوری روایت پر اعتماد تھا نہ کہ مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فوجی انقلاب کا راستہ۔
سینی گال میں حالیہ تبدیلی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ نوجوانوں کے اندر پیدا ہونے والی ایک ایسی لہر کے زور پر آئی ہے، جس نے ملکی سیاست میں پہلے سے قائم ہر توازن کو بالکل اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے اپنے سادہ عوامی انقلابی بیانیے کے ذریعے ،کرپشن کی اُس صورتِ حال کو جو سینی گال کے معاشرے کی نس نس میں سرائیت کیے ہوئے تھی، موضوعِ بحث بنایا۔ ترقی کے سفر کی مسلسل ناکامی اور بیرونی قوتوں کی مسلسل تابعداری کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔ سینی گال کی اسلامی شناخت جوملک میں غالب مغربی سیکولر نظام کی وجہ سے مسلسل دبائی جارہی تھی ، کی بحالی کے ضامن اور متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔
انتخابات میں کامیاب ہونے والی تبدیلی کی لہر کے قائدین اگرچہ مروجہ معنوں میں دینی جماعتوں اور تحریکوں سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم ان میں سے بہت سے رہنمائوں کی نشوونمااسی عام اسلامی فضا میں ہوئی ہے، جو سینی گال میں روز افزوں ہے۔ یہ قائدین اسی فضا اور ماحول کا ثمرہ شمار ہوتے ہیں۔ان رہنمائوں میں حزبِ اختلاف کے لیڈر عثمان سونکو بھی شامل ہیں، جو طالب علمی کے زمانے میں جمعیت طلبۃ و تلامذۃ المسلمین (مسلمان طالب علموں کی جمعیت) کے سرگرم رکن تھے۔ وہ ہمیشہ مختلف اسلامی جمعیتوں اوراسلامی تنظیموں کے قریب رہے۔
وہ صوفیا کے مریدی طریقے، جماعت عباد الرحمٰن اور اتحاد العلماء والدعا ۃ کے بھی قریب رہے۔ مساجد میں قائم مختلف حلقہ ہائے دروس قرآن، دروس حدیث ، دروس فقہ و ادب میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ بعد ازآں وہ ٹریڈ یونین اور پھر سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں داخل ہوئے۔ اس طرح انھوں نے روایتی اسلامی (دعوتی و تنظیمی اور تحریکی) رستے سے ہٹ کر ایک نیا راستہ اور طریقہ اختیار کیا۔
انھوں نے تنظیم سازی کے بجائے فکری لہر اٹھانےپر توجہ مرکوز رکھی ،براہ راست عوام کے ساتھ رابطہ بنائے رکھا اور جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چھائے رہے ۔ انھوں نے کالموں، مضامین، مقالوں اور بروقت مختلف عملی اقدامات کے ذریعے متبادل حل تجویز اور پیش کیے۔ تعلقات بناکر اور نئے اتحاد قائم کرکے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ پھر جب انھوں نے اپنی پارٹی Patriots for Action Ethics and Brotherhood - Bastiste (محب وطن لوگ برائے عمل اخلاق اخوت- باستیف) کی ۲۰۱۴ء میں بنیاد رکھی، تو اسے بھی انھوں نے پارٹی کے بجائے ایک نیٹ ورک کی صورت ہی دی ۔ ہر وہ فرد اس میں حصہ لے سکتا تھا، جو تبدیلی کے ان کے وژن اور اہداف سے اتفاق کرتا تھا۔ انھوں نے ہر سطح کے مقتدر قائدین کے افکار کو منضبط کیا اور انھیں تنظیم میں پرویا اور مقام و عہدہ دیا ۔
تبدیلی کی اس لہر کی قیادت ۵۰سالہ عثمان سونکو نے کی، جو قربانی پیش کیے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں قید رکھا گیا۔ مسلسل یہ ڈراوا دیا جاتا رہا کہ انھیں صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں بننے دیا جائے گا۔ اسی خطرے سے نبٹنے کے لیے انھوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست اور اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور معتمد خاص ۴۴ سالہ باسیرو دیومائی فائی کے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا دیئے۔ آخرکار باسیرو دیومائی فائی تبدیلی کی اس لہر کی نمائندگی کرتے ہوئے سینی گال کے حالیہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوگئے۔
باسیر و بھی ذہانت اور شجاعت میں سونکو سے کچھ کم نہیں ہیں۔ برسرِ اقتدار سسٹم پر تنقید کرنے اور متبادل حل پیش کرنے کے حوالے سے ان میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ہے، بلکہ پارٹی سیکرٹری جنرل ہونے کے ناتے انھیں پارٹی امور چلانے کا اضافی اور قابل قدر تجربہ بھی حاصل ہے۔ اسی طرح تبدیلی کا واضح بیانیہ دینے میں بھی ان میں کمال درجے کی صلاحیت موجود ہے ۔ سونکو کی طرح ان کا پس منظر بھی مالی ، اقتصادی اور قانونی ہے۔ ان دونوں کا باہم تعارف بھی محکمہ ٹیکسیشن اینڈ ایکسائز اور ٹیکس لائرز یونین کے اُس پلیٹ فارم پر ہی ہوا تھا، جسے سونکو نے ۲۰۰۵ء میں قائم کیا تھا۔ ٹیکسیشن کے اس پس منظر نے انھیں کرپشن کوہدفِ تنقید بنانے اور کرپٹ لوگوں کو بے نقاب کرنے میں بہت فائدہ دیا۔
دونوں جیل گئے، دونوں نے جیل ہی سے کاغذات نامزدگی داخل کیے، اور جب ان کی پارٹی (باستیف) تحلیل کی گئی تو بطور آزاد امیدوار انھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اورآج باسیرو سینی گال کے منتخب صدر ہیں اور انھوں نے اپنے ساتھی اور اپنے محسن سونکو کو حکومت کا وزیراعظم مقرر کیا ہے، تاکہ دونوں ایک ساتھ نظریے اور افکار کی دنیا سے نکل کر ریاستی اور عملی عہدوں پر متمکن ہوں اوراپنی قوم کی خدمت کے چیلنج سے ایک ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں ۔
سابق صدر ’ماکی سال‘ اور سونکو اور باسیرو کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان تعلقات کو معمول پر رکھنے اور بگاڑ سے بچانے میں دینی حلقوں کا کردار بہت مثبت رہا ہے ۔ انھی اسلامی تنظیموں کی ثالثی کی بنا پر دونوں نوجوان رہنماؤں کی جیل سے رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم، یہ امر قابل توجہ ہے کہ ثالثی کرنے والے صوفی سلسلوں کے مشائخ اور دینی جماعتوں کے قائدین کی اکثریت انتخابی گرما گرمی شروع ہونے سے قبل جیسا کہ عموماً اقتدار پسند معتدل موقف رکھنے والی دینی جماعتوں میں ہوا کرتا ہے، سابق صدر ’ماکی سال‘ کے ساتھ کھڑی تھی۔ تاہم، اس بار ان پر کھیل کے نئے قواعد غالب آ گئے، خصوصاً نوجوانوں اور یوتھ کی سطح پر اور خاص طور پر طوبی شہر میں جو مریدیہ سلسلے کا مرکز ہے اور پھر تاریخی انتخابی نتیجہ سامنے آیا۔انتخابات کا پہلا راؤنڈ ہی مقبول عام محب وطن نوجوان صدارتی اُمیدوار کے حق میں فیصلہ کن رہا، جس کی توقع دینی جماعتوں کے قائدین اور اسلامی حلقے بالکل نہیں کررہے تھے ۔
سیکولر ریاست نے ملکی سیاست میں عشروں تک ایک ایسا نظام مسلط کیے رکھا، جس میں اقتدار کے لیے باہم مقابلہ صرف سیکولر پارٹیوں اور سیکولر اشرافیہ کے درمیان رہے۔ دینی سوچ کی حامل اوراسلامی فکری قیادت بھی مشترکہ اجتماعی وژن تشکیل دینے میں ناکام رہی کہ وسیع عوامی پذیرائی کے باوجود ، صوفیانہ طریقوں ،دعوتی فاؤنڈیشنوں اور اپنے اپنے ثقافتی و سماجی پلیٹ فارمز کے ذریعے ، جمہوری طریقوں اور راستوں سے ریاستی نظام پر اثر انداز ہوکر اسلامی ایجنڈے کے نفاذ کو آگے بڑھا پاتی۔ اسی طرح ’اصلاح پارٹی برائے سماجی ترقی‘ بنانے کا بعض افراد کا تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا تھا۔
تاہم، یہ دین پسند قائدین ہی کے افکار و نظریات ہیں اور انھی کی اُمنگیں ہیں، جنھیں اس وسیع و عریض قومی لہر نے اپنا لیا ہے۔اس لہر کی قیادت اب ایسے مقتدر قائدین کررہے ہیں جو انھی کے افکار ونظریات سے متاثر ہیں ۔ اب یہ ان کے افکار کی نمایندگی تو کرتے ہیں لیکن ان کی پارٹیوں، سلسلوں اور اداروں کی نمایندگی نہیں کرتے ۔انھی کے افکار تھے جنھیں نومنتخب صدر باسیرو، وزیراعظم سونکو اور ان دونوں کے حامیوں نے انتخامی مہم کے دوران زبان دی۔اسلام کا دفاع کرنا، عربی زبان کی خدمت اور اس کا فروغ ،ملک کے اقتدار اعلیٰ کی بحالی ،استعماری طاقتوں کی اقتصادی اور ثقافتی تابع داری سے گلو خلاصی ،خصوصاً فرانسیسی تسلط سے چھٹکارہ ،کرپشن کا خاتمہ، آزادیوں کا تحفظ، ترقی کو فروغ دینا اور عام سینی گالی کی زندگی میں بہتری لانا،قضیۂ فلسطین کے لیےکام کرنا___ ان کے منشور کے عنوان رہے۔
آج باسیرو اور سونکو کے سامنے بڑے چیلنج کھڑے ہیں اور کامیابی کے لیے ان میں سے چھ بڑے بڑے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ضروری ہے:اسلام،اقتدار اعلیٰ، آزادیاں، کرپشن کا خاتمہ، ترقی اورقضیۂ فلسطین۔اسی طرح سینی گال کی دینی جماعتوں اور اسلامی تنظیموں کے سامنے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح مذکورہ خواب کو واقعی حقیقت بنانے کے لیے اپنے آپ کو ایک مشترکہ وژن کے گرد اکٹھا اور منظم کرتے ہیں؟ اور ایک ایسے نئے نظام کے ساتھ کیسے اچھی ریلیشن شپ قائم کرتے ہیں جو وژن میں ان کے قریب تر ہے؟برسراقتدار پارٹی میں موجود نوجوانوں کے ساتھ اور آئینی اداروں کے ساتھ کس طرح تعلقاتِ کار قائم کرتے ہیں؟
عین ممکن ہے کہ نیا نظام سینی گال میں پہلے سے موجود اسلام پسندی کی لہر کو نئے آفاق سے ہم کنار کرسکے۔ ایک ایسا مسلم عرب ملک جو لمبے عرصے سے استبدادی جبر کا شکار رہا ہے اور جہاں اسلام ایک سوچ اور ایک نظریے سے آگے بڑھ کر ریاست کے ایوانوں میں پہلے کبھی داخل نہیں ہوسکا تھا، ایک ایسا ملک جس کی قوتیں اور جس کی پارٹیاں اسی کش مکش اور استبدادی نظام کے پیدا کردہ استیصالی نظام کی قیدی رہیں، کبھی بالادست قوتوں کی تابع دار اور ان میں انضمام کا شکارہوتی رہیں یا پھر غیر مؤثر اور غیر فعال رہیں۔ سینی گال اب آزادی کی حقیقی شاہراہ پر گام زن ہے۔ بہت سے خطرات، بہت سے چیلنج اور بہت سے امکانات کا ایک وسیع سلسلہ اس کے سامنے ہے۔
بھارت کی طرف سے اہل کشمیر سے وعدوں میں مسلسل خیانت اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو واضح طور پر نظر انداز کرنے کے نتیجے میں خطے میں جبر اور خوف کی کیفیت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے ایک اہم پہلو کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر پر خصوصی اجلاس کا انعقاد خطے میں دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور یو این سیکورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے اقوام متحدہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے بھی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں بلدیاتی انتخابات کی بحالی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری کشمیر میں احتساب اور انصاف کے لیے دباؤ ڈالے تاکہ خطے کے تمام افراد کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
امریکی حکومت اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس قضیے کا واحد پُرامن حل یہ ہے کہ تنازعۂ کشمیر میں شامل تمام فریق انسانی حقوق اور تمام متاثرہ افراد کے حقِ خود ارادیت کو ترجیح دیں۔
خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سفارت کاری، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پاسداری اور مذاکرات اور سمجھوتہ کے لیے مخلصانہ عزم ضروری ہے۔ ایک متوازن اور حقیقت پر مبنی نقطۂ نظر ہی مؤثر پیش رفت کا باعث بنے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اور اہل دانش مل کر کام کریں، تاکہ کشمیر کے لوگ آخرکار اس امن اور آزادی کا تجربہ کر سکیں، جس کے وہ حق دار ہیں۔
عالمی برادری کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور نقطۂ نظر کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق کی کسی بھی درجے کی خلاف ورزی یا بنیادی آزادیوں سے انکار ناقابلِ قبول ہے۔ ایسی صورتِ حال کا مناسب قانونی اور سفارتی ذرائع سے ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی علَم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن ان کے خدشات پر کان دھرے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ کشمیر کی صورت حال کی پیچیدگیوں کو اس کے متنوع نقطۂ نظر اور تاریخی شکایات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے اس کو تمام متعلقہ افراد کی بہتری کے لیے حل کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن (UNHRC) کی جون ۲۰۱۸ءاور جولائی ۲۰۱۹ء کی رپورٹوں میں کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور اس کے تمام متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک جامع، آزاد اور بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن آف انکوائری کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
۲۴مارچ ۲۰۲۲ءکو ہیومن رائٹس واچ نے کشمیری عوام پر عائد سخت پابندیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واشگاف طور پر کہا کہ ان کی آزادیٔ اظہار اور پُرامن اجتماع کو محدود کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی جابرانہ پالیسیوں سے کشمیریوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم نے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کی خصوصی قانونی دفعات کی بھرپور مذمت کی، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اسے فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
۲ ستمبر ۲۰۲۲ء کو، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے بیوروکریٹس، سیاستدان، دانش ور اور میڈیا کے لوگ بھارتی حکومت کی جانب تشویش بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی پریشان کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ (Genocide Watch)کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق، بھارت مبینہ طور پر ۲۰۰ملین مسلمانوں کی ’نسل کشی اور قتل عام‘ کی تیاری کر رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم مبینہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں درخواست کی گئی ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ مذہبی اقلیتوں پر جاری حملوں کی وجہ سے ہندستان کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ قرار دے۔ ہندستانی حکومت پر بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے ذریعے تنقیدی آوازوں، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی آوازوں کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں، جن میں جنوری ۱۹۸۹ء سے اپریل ۲۰۲۴ء تک ۹۶ہزار۳ سو سے زیادہ اموات ہوئیں، جن میں ۷ہزار ۳سو ۳۳ حراستی اموات بھی شامل ہیں۔ شہری گرفتاریوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۰ ہزار ۳ سو۵۴ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک لاکھ ۱۰ہزار ۵سو۱۰ سے زیادہ گھر اور دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اس ظلم و زیادتی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ تقریباً۲۳ ہزار خواتین بیوہ، ایک لاکھ ۷ہزار سے زیادہ بچّے یتیم اور ۱۱ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ رپورٹ ہندستان میں تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کی واضح یاد دہانی کے طور پر کام کرنے کے لیے خبردار کرتی ہے، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔
۲۰۲۳ء میں ہندستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی تشدد کے واقعات میں ۲۴۸؍ اموات ہوئیں۔ ان میں ۸۲ آزادی پسند، ۶۶ شہری اور ۱۰۰ بھارتی قابض افواج کے اہلکار شامل تھے۔ ہندستانی فوج صنفی بنیاد پر تشدد کو ہتھیار کے طور پر برت رہی ہے۔ اس طرح کشمیری عوام کی ہندستان کے قبضے سے آزادی کی خواہش کو ڈرانے اور دبانے کے ذریعے دبایا جارہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں ایک ہولناک واقعہ میں، کنان پوش پورہ میں تقریباً ۱۰۰ خواتین پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا، اور بٹوٹ میں ایک خاتون کو اس کے بچے کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انسدادِ بغاوت کے لیے بنائے گئے قوانین نے بھارتی قابض افواج کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے ہیں، جو ممکنہ طور پر معصوم کشمیریوں کے خلاف 'مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ۲۶۰ ’کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘ (CASOs) اور ’کورڈن اینڈ ڈسٹرائے آپریشنز‘ (CADOs) کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہندستانی افواج اور کشمیر کے آزادی پسندوں کے درمیان ۷۰ مقابلے ہوئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً ۱۳۸ شہری املاک کی توڑ پھوڑ اور تباہی ہوئی۔
مزید برآں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک انٹرنیٹ کی بندش کی متواتر مثالیں ہیں۔ اس طرح خطے میں مواصلات اور معلومات کے بہاؤ پر لگائی گئی سخت پابندیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول کے ساتھ تشدد اور جبر کے خوف سے آزادی کے حق کے مستحق ہیں۔
کشمیر میں نوجوانوں کو بلاجواز تفتیشی مراکز میں لے جایا جا رہا ہے اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا سامنا ہے۔ کشمیری باشندوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک انتقامی کارروائی، سزا اور کنٹرول کا طریقہ ہے، جسے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک منظم حربہ ہے، جو سول آبادی میں خوف پیدا کرنے اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے آزمایا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو جھوٹے الزامات کے ساتھ نشانہ بنانے اور اجتماعی سزا دینے کے لیے ’نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی‘ (NIA) کا ظالمانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ غیر منصفانہ مہم، خوف اور ناانصافی کا ماحول پیدا کرتی ہے، حقِ خود ارادیت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کر دیتی ہے۔ کشمیر کو آہستہ آہستہ ’روانڈا‘ جیسے انسانیت کُش خونیں ماحول کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہرباضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔آیئے، سب اس انصاف اور برابری کے مطالبے میں ایک ساتھ کھڑے ہوں۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی موجودہ نسل کشی واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکا و مغرب کی یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ سمیت اکثر عالمی ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے سے انکاری ہیں ۔ دوسری طرف یونی ورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اس نسل کشی اور اس خونریزی سے نظریں پھیر لینے والی ’مغربی اکادمیہ‘ (اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ)پر لازم ہے کہ وہ غزہ میں جاری تباہ کن جارحیت کے خلاف ایک زبردست مذمتی تحریک کھڑی کرے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ اپنی عقل و شعور، تمام تر علم، تحریک کے اثر کا ادراک، ترقی پسندی، حالات سے واقفیت، اور حقوق کے تحفظ کی بحثیں ملا کر یہ اصحاب علم ودانش ایک پوری کی پوری ریاست کے ملیامیٹ کرنے سے نہیں روک رہے ہیں۔ اس تباہ کاری نے غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے ڈھانچے کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا ہے اور اکا دمیہ اور طالب علموں کی نعشوں کے انبار لگا دیے ہیں، جن میں سے کئی ایک کے بے جان لا شے اب تک ملبے تلے دبے ہیں۔
اس غم زدہ کرنے والے ماحول میں دنیا کی مختلف یونی ورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے لگائے گئے ’غزہ یک جہتی کیمپس‘ میں یہ بات واضح طور پر نمایاں ہے کہ سیاسی شعور، حق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم، اور صحیح غلط کی پہچان جیسے بنیادی اوصاف یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں، یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ کے اہل کاروں اور ان کے اعلیٰ عہدے داروں سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ،جو بظاہر ان اصولوں کے مجاور بنے پھرتے ہیں۔ اور اب، جب اساتذہ کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے،تو جوابا ً وہی علم و تحقیق کے دیوتا ان نہتے طلبہ پر تشدد کے لیے پولیس کو بلا لیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ان کا یہ رد عمل حیران کن نہیں ہے۔ پورے عالمِ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔یہ اسلحہ اور اس جیسے دیگر موضوعات پر تحقیق کو فروغ دیتے ہیں، جو نہ صرف جنگی جنون کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو بہتربنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیلی اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کے قیام کے ذریعے، اسرائیلی جارحیت کے حق میں کام کرنے والے اداروں کو دنیا بھر سے توثیق دلوانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ متحدہ ریاست ہائے امریکا اور فرانس میں لگائے گئے طلبہ کے احتجاجی کیمپس سے اُبھرنے والے رد عمل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے حکمرانوں کے فیصلوں کے علاوہ ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت اپنے اداروں میں فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ اسرائیل کی اپنی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی ہی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ترقی پسندی کے نام پر اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا بے نقاب ہوچکاہے۔ اس امر میں جس چیز کا کلیدی کردار ہے، وہ نظریے کی آڑ میں ڈالا جانے والا دبائو ہے۔ علاوہ ازیں اختیارات کا نا جائز استعمال اور دبائو کی سیاست بھی اسے بڑھاوا دینے والے عناصر میں شامل ہیں۔
اگرچہ مغرب ہی میں چند ایک تعلیمی اداروں میں اسرائیلی جارحیت پر مزاحمت کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جیسے کہ ابرڈین، ٹورونٹو جیسی دیگر کئی یونی ورسٹیوں کی جانب سے کی گئی ’سامیت مخالفت‘ (Anti-Semitism )کی تعریف تسلیم کرنے سے انکار ،اسرائیل سے تعلقات جزوی طور پر منقطع کرنا ، جو کہ حال ہی میں یونی ورسٹی آف ٹورن، ناروے کی چار یونی ورسٹیوں ، اور امریکا میں پِٹزر کالج نے نافذ کیا ہے۔ یا پھر کولمبیا اور دیگر امریکی یونی ورسٹیوں کے منتظمین کے فیصلوں کے برعکس، آسٹریلیا کی یونی ورسٹیوں کا غزہ یک جہتی کیمپوں کو بند کرنے سے اب تک انکار۔ تاہم، ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے ’فلسطین یک جہتی کیمپس‘ پر ہونے والے شدید جبر اور مغربی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلروں، ریکٹروں اور صدور کی طرف سے اسرائیلی نسل پرستی کو مسلسل پیش کی جانے والے نظریاتی توثیق کے باوجود طالب علموں میں یہ مخالفت کم نہیں ہوئی۔
اگر یونی ورسٹیوں کے ان اعلیٰ عہدے داروں میں سے چند (یا بہت سے) یقینا صہیونی ہیں، یا صہیونیت نواز ہیں تو باقی اکثریت بھی واضح طور پر فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز دبانے کو محض ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جو ادارے کے سرپرست ہونے کی بدولت وہ خود پر خودبخود عائد سمجھتے ہیں۔فلسطینی موقف کے حامی مظاہرین کی خاموشی کو تنظیمی استحکام، صہیونی مخیر حضرات کوناراض نہ کرنے کی خواہش، یا تہذیب کے تصورات جیسے الفاظ کا ملمع پہنا کر اسے قابلِ قبول حقیقت کی شکل دے دی گئی ہے۔ ایسے جواز جو سینئر تعلیمی منتظمین کے ضمیر کو کسی بھی قسم کی اخلاقی ذمہ داری کو نظرانداز کرنے کا جواز دیتے ہیں، جسے بصورت دیگر اگر وہ محسوس کرتے تو یقینا خود کو تاریخ کے اوراق میں باطل کی فہرست میں موجود پاتے۔ اور تو اور، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے عملے کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
تحفظ کی آڑ میں نسل کشی
یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے داروں میں اپنے اداروں کے تحفظ کی بحث اب تحریک یک جہتی فلسطین کے خلاف کسی بھی حد تک تشدد کی پیمائش کے لیے گھڑا گیا جواز بن چکی ہے۔ یہ مطالبہ کہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کو صہیونیوں کے ’تحفظ‘ کے لیے دبایا جائے، اسی استدلال کی ایک مثال ہے، جو اسرائیلی ’تحفظ‘ کی ضرورت کے ذریعے غزہ کوملیا میٹ کرنے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اسرائیلی یونی ورسٹیوں میں یہودی طلبہ کی حفاظت کے نام پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب کولمبیا یونی ورسٹی کی مصری نژاد صدر منوشے شفیق نے قانون نافذ کرنے والی فورس کو اپنے طلبہ کے خلاف بلایا، تو اس کا جواز بھی صرف تحفظ تھا۔آسٹریلیا میں، صہیونی تنظیمیں اس بنیاد پر ایک مشترکہ مہم چلا رہی ہیں کہ ’کیمپس یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’دوسرے نکبہ‘ کا جواز بھی پیش کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونیوں اور ان کے ہمدردوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے نکات میں سے ایک مغربی فلسطین کے حامیوں، خاص طور پر ہم جنس پسندوں کو غزہ جانے کی دعوت دینا ہے، جہاں ان کے خیال میں، حماس کی طرف سے انھیں تیزی سے نکالا جائے گا۔
ان دعوؤں میں موجود خطرات کے تصور کی جانچ کی جانی چاہیے۔اسرائیلی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے، نیو لبرل یونی ورسٹی میں صہیونی اور ان کے اتحادی ’اسرائیلی یا یہودی تحفظ‘ کا ایک خود ساختہ تصور مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ’تحفظ کا تصور‘ ایک احساس کے طور پر — ایک ایسا جذبہ ہے جسے ایک علم کا پرستار تعلیمی اداروں سے حاصل کرنے کاپابند ہےبشمول ان دیگر مصنوعات کے جو وہ تعلیم کے نام پر خرید رہا ہے ۔ اس تصور کے مطابق تحفظ ، یونی ورسٹی کے برانڈ کے لیے ایک اور سیلنگ پوائنٹ بن جاتا ہے، جو کہ طالب علم صارف اور خریدار کو مطمئن کرنے کے لیے ایک پیداوار کی مانند ہے جو کہ کیمپس میں دن کے دوران ایک شاپر میں مفت آئس کریم اور کافی کے ساتھ دی جاتی ہے۔
کسی فرد کی شناخت صرف اسی صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کہ شناخت دہندہ کسی ایسے معاشرے کا رکن ہو جس میں قوانین کی عمل داری کی شرائط وضع شدہ ہوں ۔ گویا ، تحفظ مکمل طور پر انفرادی احساس کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی طور پر یہ ان شرائط اور قوانین پر مبنی ہونا چاہیے، جن کے ذریعے لوگ اجتماعی طور پر محفوظ رہ سکتے ہوں۔ وہ حالات کہ جن میں ایک معاشرہ زندہ اور خوشحال ہو سکے۔ سیاسی جبر، فرعونیت ، بہتان اور جبری گرفتاری کا ’تحفظ کے نظریے‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس میں نسل کشی کو غلط قرار دینےکی جرأت ایک جرم ہو جس کے لیے اسے نشانہ بنایا جاتا ہو، اور اس کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جاتا ہو ،وہ ترقی کی منازل کبھی طے نہیں کر سکتا۔
غزہ کے باسیوں کی نسل کشی پر خوش ہوتے صہیونی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ درحقیقت ان کی کمیونٹی محفوظ نہیں ہے۔ فلسطین کے حامی کیمپ کی عالمگیریت کے خلاف صہیونی چاہتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اُن کی یک طرفہ یلغار کا جواز اور ان کے تحفظ کا انحصار ہماری خاموشی پر ہے۔
فلسطین کی آزادی کے حامیوں کو ’سامیت دشمن‘ اور دہشت گردوں کے حامی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں شعور بڑھنے کی وجہ سے صہیونیت نواز اب اپنی سرگرمیاں کھلے عام نہیں انجام دے سکتے ۔لہٰذا فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی سیاست پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے، صہیونی عوامی طور پر دلیل اور جواب کے میدان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چونکہ جذبات کی بحث کوئی نہیں جیت سکتا، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین کے حق کے علَم برداروں پر 'غیرمحفوظ ہونے کا الزام لگا دینے سے ان کے لیے اپنے سیاسی موقف کا دفاع کرنا آسان ہو جائے گا۔
ایک ایسی شناخت جس کو نسل کشی کی مخالفت سے خطرہ لاحق ہو، اس کا انصاف کے ساتھ تعلق ہرگز کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ’تحفظ ‘کو اپنے فیصلہ کن کارڈ کے طور پرلہرانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صہیونیت نہ صرف ایک تشدد پر مبنی نسل پرست اور قتلِ عام کرنے والا نظریہ ہے، بلکہ فکری طور پر بھی ایک جاہلانہ تصورہے۔
صہیونیت کے ہاںمضبوط دلائل کی تو کمی ہو سکتی ہے، لیکن جھوٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ البتہ ہمیشہ یہ شور و غل ضرور سنائی دیتا ہے کہ ’’فلسطین کے حامی سام دشمن ہیں، غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے، اور اسرائیل نسل پرستی پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔ لیکن جب اختلاف کیا جاتا ہے، تو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے عہدے داروں کو برطرف کر دیا جاتا ہے اور طلبہ کو اداروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مکوئیر ی (Macquarie) کے دلیر اور ذہین فلسطینی وکیل عبدالفتاح، اور سڈنی یونی ورسٹی کے علومِ سیاسیات کے ممتاز پروفیسر جان کین، اس وقت انھی وجوہ کی بناپر شدید حملے کی زد میں ہیں۔ کیمپس تو امن کے شہر ہیں مگر وہ طالب علموں اور مایہ ناز استادوں کے لیے کتنے محفوظ رہ گئے ہیں ؟ کیا سامیت نوازوں نے کبھی اس پہلو پر سوچا ہے؟
بائیکاٹ بطور تحفظِ جان
ایک طرف تو مغربی یونی ورسٹیوں کے مدبرانہ، آزادانہ، عقلیت، لبرل، ترقی پسندی اور کثیرجہتی بحثوں جیسے تصورات ہیں۔ اور دوسری طرف ہتھیار بنانے والوں، اسرائیلی لابی کے مہروں اور فلسطین دشمن تجزیہ کاروں کے ساتھ تعلقات کی استواری ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے مغرب میں پائی جانے والی حمایت کے حوالے سے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مغربی یونی ورسٹیوں کے یہ تصورات کوئی خاص فیصلہ کن کردار نہیں ادا کر تے۔یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ مغرب کی تاریخ خونریز نوآبادیاتی نظام اوردیگر جنگوں ، نسل کشی، حراستی کیمپ، تشدد، بے لگام ماحول ، انسانی تذلیل اور استحصال سے بھری پڑی ہے۔لوگوں کے درمیان تعلقات کے کسی بھی منصفانہ یا معقول تصور میں بار بار مداخلت ہمیشہ سے مغرب کا خاصہ رہا ہے۔البتہ جزوی طور پر مغرب اور اسرائیل میں یکساں طور پر یونی ورسٹیوں میں ہونے والی نظریاتی سرگرمیوں کی بدولت لبرل معاشرے کے نظریاتی تصورات کی فضا میں مغرب کی نگرانی میں بنایا گیا 'قوانین پر مبنی ضابطہ ' پھر سے اُڑان بھر رہا ہے۔
مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کی مزاحمت کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے اداروں کو ان یونی ورسٹیوں سے دور کیا جائے جوجبری قبضے، نسل پرستی اور نسل کشی کے نظام کی آلہ کار ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فلسطین کمیٹی برائے اکیڈمک اینڈ کلچرل بائیکاٹ آف اسرائیل (PACBI) کے تحت ۲۰۰۴ء سے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کو ادارہ جاتی تعلیمی بائیکاٹ میں شامل کیا جائے ، جیسا کہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔جو دیگر سول سوسائٹی ایسوسی ایشنز اور اکیڈمک ٹریڈ یونینوں کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۱۸ء سے مسلسل شائع ہونے والے اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) کے تازہ شمارے میں بائیکاٹ کے اقدامات پر اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، اور بہت سے مضبوط شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ بائیکاٹ اسرائیل میں اعلیٰ تعلیمی اداروں پر فی الواقع دباؤ ڈال رہے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پھیلنے والی وحشت کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے بائیکاٹ کی اپیل غیر مؤثر معلوم ہوتی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دینا، جب کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اعلیٰ تعلیم کی یہ بحث بے سود لگنے اور اپنی سیاسی نااہلی کا ملبہ اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے سر پر لادا جائے۔ جب ایک خونریز نسل کشی جاری ہو ، تو ایسی صورت میں یقیناً مزید ٹھوس مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادارہ جاتی اکادمی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود، اب بھی مغربی ماہرینِ تعلیم کی اکثریت کے سامنے یہ تعداد ایک اقلیت ہی سمجھی جارہی ہے۔ ماہرین تعلیم کے بائیکاٹ سے انکار کو کسی حد تک متوسط طبقے کی پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھنے کی روش کے شاندار فتنوں کے صرف ایک نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں حد سے زیادہ احتیاط، سیاسی خاموشی و موافقت شامل ہیں۔ تاہم، بعض اوقات یہ ماہرین تعلیم کے پیشہ وری کی وجہ سے پیداہو جانے والی بدگمانی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے، جو پرولتاری مقبولیت اور ادارہ جاتی احترام و خودمختاری میں کمی کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔ معاصر یونی ورسٹیوں میں ماہرین تعلیم کو بطور غیر ضروری استعمال کے تدریسی یا تحقیقی پرزے گرداننے کا سلوک، اس بات پر کم ہی حیران کرتا ہے کہ وہ ماہرین اپنے اداروں پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی صلاحیت کو کم تر سمجھتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ تباہی اس المناک نتیجے کو نمایاں کرتی ہے۔ مغربی یونی ورسٹیوں کے عملے میں فلسطین کے لیے حمایت میں معمولی اضافہ ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے مقابلے میں کوئی بہت باوزن چیز نہیں ہے، تاہم قابلِ قدر ضرور ہے۔
اکادمی بائیکاٹ نہ صرف اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور اسرائیلی معاشرے پر دباؤ ڈالنے کا ایک ضروری قدم ہے، بلکہ یہ خود مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کے خلاف مزاحمت اور اس خوش فہمی کو چیلنج کرنے کا بھی ایک موقع ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہمیشہ اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ لیکن جب بھوک، بیماری، بے سر و سامانی اور گرتے ہوئے بموں کی دہشت غزہ کے باشندوں کو اپنے مرنے والوں کا سوگ منانے تک سے بھی روک رہی ہو، تو ایسے میں علمی تجزیے کو ترجیح دینا بہت معیوب ہے ۔ یہ کام اور بھی زیادہ معیوب ہے کہ جب زیر بحث تعلیمی سرگرمی اسرائیلی یونی ورسٹیوں کی سرپرستی میں یا ان کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جا رہی ہو۔
اگر اور کچھ نہیں تو، اکادمی بائیکاٹ کی قانونی شرائط کے مطابق، اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلقات کی معطلی اس دکھاوے کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ دنیا کی غلطیاں سرکاری طور پر منظور شدہ کسی لبرل منصوبے کے تحت ٹھیک کی جا سکتی ہیں ۔اس میں مغرب اور اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے دار، ادارے کے رکن ہونے کے ناتے یکساں پابند ہیں۔ مغرب میں یہ امر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی سے زیادہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے خود کو بچانے کے لیے بھی ایک نا گزیر عمل ہے، جو یونی ورسٹیوں کو ریاستی جبر سے آزاد، حقیقی سیاسی تنقید کے مراکز سمجھتا ہو۔
(ماخذ: Overland Magazine، آسٹریلیا)
۱۹ مئی ۲۰۲۴ء کی دوپہر ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں پر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں صدر سمیت ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور دیگر اعلیٰ عہدے داران بھی سوار تھے۔ رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لینے کے بعد واپس آرہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ ’خدافرین ڈیم‘ سے تقریباً ۱۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس حادثے میں صدر رئیسی سمیت تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔ حادثے کے بعد بعض لوگ آذربائیجان کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، کیونکہ اس خطے میں یہ اسرائیل کا اتحادی ملک ہے اورماضی میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے اس کی بھر پور مدد کی تھی، جب کہ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہونے کے ناتے یہودیوں کا مخالف اور موجودہ صورت حال میں ایران کا اتحادی ہے۔
حال ہی میں خلیجی ریاست اومان میں ایران اور امریکا کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دور شروع ہوچکے تھے۔ لیکن اس ناگہانی موت کے بعد یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکا کو ان مذاکرات کی ضرورت ۱۸ ؍اپریل ۲۰۲۴ء کے بعد محسوس ہوئی، جب ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے کئی ایرانی افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی۔ دوسری چیز جو متاثر ہوئی وہ یہ کہ حالیہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کا معاملہ ہے۔ جس طرح ابراہیم رئیسی کو صدر بنایا گیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس منصب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
اومان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کی سربراہی امریکی صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے نائب وزیرخارجہ علی باقری کر رہے تھے۔ لیکن ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ کی ہلاکت کے بعد اب وہ قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔ مذاکرات تین موضوعات پر مرکوز تھے: اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی مشترکہ خواہش، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ، اور تنازعے کو خطے میں اور زیادہ پھیلنے سے روکنا___ ایک اندازہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بھی بات چیت ہورہی تھی۔
صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، ایران میں ۵۰دنوں کے اندر صدارتی انتخابات کرانا دستوری اعتبار سے لازم ہیں۔ غیر یقینی کے اس دور میں خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلے کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔
صدر رئیسی کی وفات کے بعد سب اہم مسئلہ ایران کے ۸۵ سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کا ہے۔ ایران میں یہ ایک اہم اور طاقت ور عہدہ ہے، جو ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ماہرین کی ۸۸ رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی ’گارڈین کونسل‘ کے ذریعے پہلے جانچا اور پرکھا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقت ور ۱۲ رکنی ادارہ ہے۔ یہ دستوری ادارہ انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔ ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ممکنہ امیدواروں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مگر ذرائع کے مطابق تین افراد یعنی موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر ابراہیم رئیسی کو جناب خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔ رئیسی کی موت کے تین روز بعد ہی اس اسمبلی نے ۲۱ مئی کو ایک بورڈ کا انتخاب کیا۔ جواگلے سپریم لیڈر کے لیے نام دوبارہ شارٹ لسٹ کرے گا۔
ماہرین کی اسمبلی نے جن افراد کو اس بورڈ کےلیے منتخب کیا ہے وہ ہیں، آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی، جو اس بورڈ کے مسندنشین ہوں گے۔ ان کی عمر ۹۳ سال ہے۔ آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری اس بورڈ کے نائب مسندنشین ہوں گے۔ دیگر ممبران میں آیت اللہ علی رضا عرفی، آیت اللہ محسن اراکی اورآیت اللہ عباس کعبی شامل ہیں۔ فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔
ابراہیم رئیسی سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ ۲۰۲۱ء میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا۔ بطور ایک جج، رئیسی کو ۱۹۸۸ء کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے فیصلوں اور پھر ۲۰۰۲ء میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا پُرتشدد مظاہروں اور ہنگاموں کو طاقت سے دبانے کے سبب کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مظاہرے ۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جن کے دوران مغربی میڈیا نے ہلاکتوں کے حوالے سے بہت مبالغہ آمیز اعداد و شمار دُنیا بھر میں پھیلا ئے تھے۔
صدر رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۲۳ء میں عوامی جمہوریہ چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب سے ایران کے تعلقات کو بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی عشروں سے مسلم دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی ہے کہ جس کی بازگشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اگرچہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفتگو چل رہی ہے، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔ تاہم، ابراہیم رئیسی کے تدبّر نے عرب ممالک کو قائل کردیا۔ اس مفاہمت نے یمن اور شام میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ اُمور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں بھی کھول دیں۔
یہ سب اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر ۲۰۲۳ء میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران، شام کے صدر بشار الاسد اور صدر رئیسی دونوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، اور اسرائیل کے خلاف مزید اقدامات کی وکالت کی گئی۔ رئیسی کی قیادت میں، ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ طور پر انڈیا کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں ممالک نے اس اسٹرے ٹیجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے ۱۰ سالہ معاہدے پر دستخط بھی کردیئے۔ جس کے تحت انڈیا شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے ۱۲۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان جنوری میں اس وقت سرحدی کشیدگی بڑھ گئی تھی، جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے تھے، جس میں پاکستان کے دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق حملہ میں مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغ دیئے اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی صدر ابراہیم رئیسی کی خواہش پر ایرانی وزیرخارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے، مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا۔ صدر رئیسی کے دورۂ پاکستان سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹڑی پر آگئے۔
اسی طرح اگست ۲۰۲۳ء میں انھوں نے ایران اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو حماس کی مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’’اس بات کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں‘‘۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کا نام استعمال کرکے مغربی ممالک اور امریکا کو بھی اس جنگ میں شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے، اور دُنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ جائے۔ مگر ابراہیم رئیسی کی دانش مندی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے دمشق میں ایران کے موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانش مندی سے دیا گیا۔ اس سے ایک طرف اسرائیل کو وارننگ دی، مگر جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی جانب سے مسلسل حمایت اور سفارتی و ابلاغی یک جہتی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں ایران کی قدرومنزلت اور اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر اور دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ترکیہ کے ڈرون کا کردار
ترکی کے ڈرون طیارے نے صدر رئیسی کے لاپتا ہیلی کاپٹر کو تلاش کرکے پوری دنیا کی نگاہیں ترکیہ کے تیار کردہ ملٹری ڈرون پر مرکوز کر دی ہیں۔ ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’’ایسا لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یا تو ٹرانسپانڈر نہیں تھا، یا وہ کام نہیں کر رہا تھا‘‘۔ ٹرانسپانڈر کی وجہ سے جہاز اگر حادثہ کا بھی شکار ہو جائے یا سمندر کی گہرائیوں میں بھی پہنچ جائے، تو سگنل دیتا رہتا ہے۔ جب رات کو دیر تک ریسکیو ٹیم کو کوئی سگنل نہیں مل رہا تھا، تو ترکیہ کے ڈرون کو کسی گرم چیز کے سگنل ملے۔ اکنجی ڈرون، جو کہ ۴۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو مؤثر طریقے سے سکین (جانچنے) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس نے مقامی وقت کے مطابق تقریباً ۱۲بج کر۴۵ منٹ پر ترکیہ کے شہر وان سے ایرانی فضائی حدود کو عبور کیا۔صبح ۲ بج کر۲۲ منٹ پر گرمی کے ایک منبع کا پتہ چلایا۔ جو ایک اہم اشارہ تھا، جسے ترکیہ کے حکام نے فوری طور پر ایرانی حکام تک پہنچا دیا۔ اس دریافت نے ملبے کے مقام کی توثیق کی، لیکن جب امدادی کارکن صبح ۵بج کر ۴۶منٹ پر جائے حادثہ پر پہنچے، تو وہاں کوئی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔
گذشتہ برسوں میں ترکیہ کے ڈورنز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا ہے۔جدید ترین ترک اکنجی ڈرون ۲۶ گھنٹوں تک محو پرواز رہ سکتا ہے اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے پیمانے پر ایک وسیع علاقے کے اوپر خاصی دیر تک سرچ اور ریسکیو کر سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ترین الیکٹرانک سسٹمز کی وجہ سے اکنجی کو موسم کے منفی حالات اور جنگی حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا فنی اور ٹکنالوجی کی سطح پر مقابلہ امریکی ریپر ڈرون کے ساتھ ہے۔ جو ستائیس گھنٹوں تک پرواز کرسکتا ہے اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر امریکی ڈرون زیادہ بھاری پے لوڈ نہیں لے جاسکتا ہے۔
ترکیہ کے دیگر ڈرونز نے حالیہ عرصے کی جنگوں میں شان دار کارکردگی کے مظاہرے کیے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینا کی جنگ میں اس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح لیبیا، ایتھوپیا اور یوکرین، روس کی جنگ میں بھی اس نے حریفوں کو مات دی۔ ترکیہ کی اس ڈرون ٹکنالوجی کے بانی سلجوک بائراکتر ہیں، جنھوں نے امریکا کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) اور یونی ورسٹی آف پنسلوانیہ سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے والد نے ۱۹۴۸ء میں ہوائی جہازوں کی مرمت وغیرہ کی ایک فیکٹری قائم کی تھی۔ امریکا سے واپسی پر سلجوک نے اپنے فیملی بزنس کو سنبھال کر ڈرون ٹکنالوجی کو متعارف کروایا۔
سلجوک کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے داماد ہیں۔ انھوں نے اردگان کی بیٹی سومیہ سے ۲۰۱۲ء میں شادی کی۔ اکثر مواقع پر یہ افواہیں گشت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اردگان کے سیاسی جانشین ہو سکتے ہیں، مگر سلجوک نے کئی بار اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایروسپیس انڈسٹری میں ترکیہ کو دنیا میں ایک اہم پاور بنانا چاہتے ہیں، حکومت میں شامل ہونا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ یہ ڈورن اور ان کی فروخت اب ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ تقریباً ۳۰ ممالک کو ان ڈرونز کے مختلف ماڈل مہیا کیے جارہے ہیں۔ایران میں ہونے والے المناک واقعے نے بحرانی حالات میں ڈرون ٹکنالوجی کی جنگی اور تزویراتی اہمیت کو اُجاگر کیا اور دکھایا ہے کہ کس طرح یہ بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز مشکل وقت میں ایک بڑے خلا کو پُر کر سکتے ہیں۔
عالمی مالیاتی نظام ڈگمگا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ ٹھوس اثاثوں کے بجائے بڑی تعداد میں صرف کاغذی اثاثہ جات کا پھیلائو ہے۔ نتیجتاً سرمایہ کاری کی یہ مارکیٹیں کسی بھی وقت پھٹ جانے والے ٹائم بم کی طرح ہیں، جسے توقعات اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں تبدیلی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جب یہ جذبات سرد پڑتے ہیں، تو یہ مصنوعی بلبلہ پھٹ جاتا ہے، جس میں جھٹکے کو جذب کرنے اور سرمایہ کاری میں گراوٹ کو برداشت کرنے کی کمی ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی یہ کمزوری متبادل مالیاتی ماڈلز کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ ایسے میں اسلامی مالیاتی نظام ایک ممکنہ حل کے طور پر اُبھرتا ہے۔
روایتی بنکاری نظام میں، سرمایہ کاری میں خطرہ بنیادی طور پر قرض لینے والے کے ذمے ہوتا ہے، جب کہ اس کی ادائیگی کی صلاحیت پر اثر انداز ہونے والے بیرونی عوامل پر بہت کم غور کیا جاتا ہے۔ ادائیگی کے نظام میں قرض لینے والے کی صلاحیت پر یہ عدم توجہ ۲۰۰۸ء کے امریکی ہاؤسنگ بلبلے کے دوران تباہ کن ثابت ہوئی۔
بینکوں نے، لالچ کی وجہ سے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور گھروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے حوصلہ پاتے ہوئے، ناکافی ضمانت والے افراد کے لیے قرضے بڑھا دیے۔ گمان یہ تھا کہ مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بالآخر ضمانت کی قیمت کو بڑھا دیں گی، جس سے قرض لینے والوں کی ناکافی ضمانت قابلِ اعتبار ہو جائے گی۔ تاہم، جب مکانات کی قیمتیں کم ہوئیں، قرض دہندگان نے ڈیفالٹ کیا، جس سے فوری بندش کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور عالمی معاشی بدحالی کا آغاز ہوا۔ نئی مالیاتی مصنوعات کے تعارف نے ریگولیٹری نگرانی کو آگے بڑھایا، جس سے نگران ادارے اُبھرتے ہوئے خطرات کی نگرانی اور ان سے نمٹنے کے لیے مستعد ہو گئے۔ اس کے بعد کے نتائج نے عالمی مالیاتی نظام کی کمزوری میں روایتی رسک مینجمنٹ فریم ورک کے ناکافی ہونے پر زور دیا۔
اسلامی مالیاتی نظام ایک زبردست متبادل پیش کرتا ہے، جو ایکویٹی، رسک شیئرنگ، اور حقیقی اثاثوں کی مدد سے چلنے والی خدمات کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ روایتی مالیاتی نظام کے برعکس، جو سود پر مبنی لین دین اور قیاس آرائیوں کے گرد گھومتا ہے، اسلامی مالیات اخلاقی طرزِ عمل اور رسک اور منافع کی منصفانہ تقسیم کو ترجیح دیتا ہے۔ قرض دہندگان اور قرض خواہوں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینے اور مالیاتی لین دین کو ٹھوس اثاثوں سے جوڑ کر، اسلامی مالیاتی نظام معاشی استحکام کے لیے زیادہ لچک دار فریم ورک پیش کرتا ہے۔
مساوات اور رسک شیئرنگ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، اسلامی مالیاتی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دونوں فریق مالیاتی لین دین کے نتائج کو برداشت کریں۔ یہ اصول ڈیفالٹ کی صورت میں اس کے اثرات بڑے پیمانے پر پھیل جانے کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔ شفافیت پر زور مارکیٹ کے نظام کی ناکامیوں اور مالیاتی بحرانوں کے امکانات کو کم کرتا ہے۔
مزید برآں، اسلامک فنانس مالیاتی شمولیت اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا واضح امکان رکھتا ہے، خاص طور پر پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو ٹھوس بنیادوں پر مالیات کی فراہمی اور صکوک بانڈ جیسے مالیاتی ذرائع کے ذریعے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی حمایت کرتے ہوئے، اسلامی مالیاتی نظام جامع ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے اور پائیدار ترقی کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔
تاہم، اس کے ممکنہ فوائد کے باوجود، اسلامی مالیاتی نظام کی تکمیل میں ریگولیٹری خلا اور عدم مطابقت کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام عالمی مالیاتی منظر نامے میں ایک زبردست تبدیلی کے امکانات رکھتا ہے، جس میں استحکام کو بڑھانے، شمولیت کو فروغ دینے اور اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔ جیسے جیسے ڈیجیٹائزیشن میں تیزی آتی جارہی ہے اور مارکیٹ کی حرکیات تیزی سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں، حقیقی اثاثوں پر مبنی سرمایہ کاری کو اپنانا ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ مساوات، شفافیت اور رسک شیئرنگ کے اصولوں کو اپناتے ہوئے، اسلامک فنانس پاکستان اور دُنیابھر میں ، زیادہ لچک دار اور پائیدار مالیاتی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
سوال: کیا حج کے موقع پر پردہ ضروری نہیں ہے؟
جواب: دراصل احرام کی حالت میں چہرے کو اس طرح نہیں ڈھانپنا چاہیے کہ کپڑا جِلد کو چھوتا رہے۔ بہت سی خواتین نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ چہرے کے آگے پنکھا رکھ لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جاتا ہے۔ بعض گھونگھٹ اس طرح نکال لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جائے اور کپڑا منہ سے نہ لگے۔ خود اَزواجِ مطہراتؓ جب حج کو جاتی تھیں، تو جہاں مرد نہیں ہوتے تھے وہ چہرہ کھول دیتی تھیں، جہاں مرد ہوتے وہاں چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ مزیدبرآں بعض موقعے ایسے بھی ہوتے ہیں جب یہ اہتمام نہیں کیا جاتا، مثلاً طواف کے دوران اگر منہ کھلا رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہاں مہلت نہیں ملتی کہ لوگ عورتوں کو دیکھتے رہیں۔
سوال: کیا شرعاً اس دلیل میں وزن ہے کہ دونوں جنسوں(Genders) کے مل کر پڑھنے سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور معیارِ تعلیم بلند ہوتا ہے؟
جواب: مخلوط تعلیم سے دونوں جنسوں میں تعلیمی مسابقت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ غیرتعلیمی اور غیراخلاقی موانست و ملامست کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جوعلم و اخلاق کے لیے سمِ قاتل ہے۔
سوال: چونکہ مسلم خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے، تو کیا اس سے مخلوط جدوجہد کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے؟ اس لیے کیا تعلیم بالخصوص فنی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم دی جاسکتی ہے؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ مسلمان خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ کچھ عورتیں بعض اوقات ساتھ ہوجاتی تھیں اور اپنے محرم مردوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتی تھیں۔ ان میں سے بعض نے ناگزیر حالات میں حرب و ضرب میں بھی حصہ لیا ہے، مگر یہ سب استثنائی صورتیں ہیں اور حالاتِ جنگ پر، عام شہری زندگی کے دوران میں تعلیمی مشاغل کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔(تصریحات)