اس مادی دور میں ہماری اسلامی اقدار انحطاط کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا مسجد کے ساتھ تنزل پذیر تعلق ہے۔ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں تو آپؐ کی مسجد سے وابستگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، مثلاً روزانہ پانچ وقت فرض نماز کی ادائیگی کے علاوہ جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپؐ مسجد کا رُخ فرماتے اور نفل ادا کرنے کے بعد دُعا فرماتے۔ سورج گرہن ہوتا یا چاند گرہن آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے اور نوافل ادا فرماتے۔ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد تشریف لے جاتے، نوافل ادا فرماتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے، علیٰ ہذا القیاس۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے (سورئہ احزاب، آیت۲۱)۔ جس کی پیروی کرتے ہوئے ہمارا مسجدوں سے گہرا تعلق قائم رکھنا لازم ہے۔
مسجد کی طرف باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جانے والے نمازی کے عزّو شرف کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ جس وقت بھی صبح کو یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے جنّت کی مہمانی کا سامان تیار کراتا ہے، وہ جتنی دفعہ بھی صبح یا شام کو جائے (متفق علیہ)۔اس حدیث شریف کی رُو سے مسجد میں نماز ادا کرنے والا نمازی اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والوں کا میزبان ہے، (سبحان اللہ)۔
بات سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں۔ اگر کبھی ہمیں کوئی صاحبِ اقتدار یا جس ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اس کے سربراہ (جو خوش یا ناراض ہوکر ہمیں کوئی دُنیاوی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی حیثیت میں ہو) ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے تو ہمارے احساسات کیا ہوںگے؟ پہلے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے اور اپنے دوست و احباب میں فخر سے ذکر کریں گے۔ پھر غور کریں کہ ہمارا رویہ کیا ہوگا؟ اچھے سے اچھے لباس کا انتخاب کریں گے۔ وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور میزبان کے گھر پہنچ کر پوری طرح اہتمام کریں گے کہ محفل کے آداب کے خلاف کوئی حرکت نہ سرزد ہوجائے جس سے ہمارے میزبان کو ناگواری کا احساس ہو، اور ہرطرح سے اپنے میزبان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں گے۔
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا مسجد میں بھی ہمارا ایسا ہی رویہ ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہرنمازی اپنے ضمیر سے لے، یقین جانیئے ضمیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
کبھی ہم نے غور کیا کہ جب ہم مسجد میں ہوتے ہیں تو کس ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں؟ کون ہمارا میزبان ہوتا ہے؟ کون سی باتیں یا حرکات اللہ تعالیٰ (ہمارے میزبان) کو ناپسند ہیں جن کی نشان دہی نبی کریمؐ نے وضاحت سے فرمائی ہے؟ کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ایک دُنیاوی میزبان سے بھی کم تر عزیز ہے ؟ کیونکہ مساجد میں ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم اپنے دُنیاوی میزبان کے گھر نہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں(انا للہ وانا الیہ رٰجعون)۔
ہماری آج کی بات چیت کا موضوع مساجد کے آداب ہی ہیں۔ اس ضمن میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکامات کا احاطہ تو اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف چند احکامات کا تذکرہ کریں گے جو عہد ِ حاضر میں نہایت توجہ طلب ہیں۔
جب بھی مسجد کا ذکر ہو تو اذان کا خیال آنا بالکل فطری عمل ہے۔ لہٰذا بات چیت کا آغاز اذان سے کرتے ہیں۔
روزانہ پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ہرکارہ (مؤذن) مسلمانوں کو مسجد میں نماز کی ادائیگی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو مؤذن کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ ان خوش نصیب بھائیوں سے گزارش صرف اتنی ہے کہ مسجد میں آکر سارا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کریں اور خدارا ایسے کام جانے یا انجانے میں ہرگز نہ کریں جن سے مسجد کا تقدس مجروح ہو، اللہ و رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہو۔ مسجد میں آنے کی غرض و غایت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اپنی بخشش کا سامان کروانا ہے، نہ کہ ممنوع کام (مسجد میں دُنیاوی باتیں کرنا، شوروغل کرنا، نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالنا وغیرہ) کرکے گناہوں کے بوجھ میںا ضافہ کرنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس نے پورے یقین کے ساتھ اذان کا جواب دیا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ (النسائی، باب مواقیت الصلٰوۃ، حدیث: ۱۶۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: حضرت عمرؓ سے اذان کا جواب دینے کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ ہرکلمہ کا جواب وہی کلمہ ہے (یعنی جو کلمہ مؤذن کہے وہی کلمہ اذان سننے والا کہے) سوائے حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کے۔ان کے جواب میں لاحول ولا قوۃ اِلَّا باللہ کہنا چاہیے۔ ( مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب القول مثل قول المؤذن، حدیث: ۸۷۶)
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اذان سن کر یہ کلمات کہے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَ انِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ ’’اے اللہ!اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے عطا فرما محمدؐ کو وسیلہ اور فضیلت اور فائز فرما آپؐ کو مقامِ محمود پر جس کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے ان سے‘‘، تو قیامت کے دن اس کی سفارش کرنا میرا ذمہ ہوگا۔(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الدعاء، عندالنداء، حدیث: ۵۷۹)
سبحان اللہ! کتنا قلیل عمل اور اتنا بڑا اجر! کیا ہم ایسے شخص کی طرح ہونا پسند کریں گے کہ اذان ہورہی ہو اور وہ خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو کہ اتنے بڑے اجر سے محروم ہوجائے؟ یقینا نہیں، لہٰذا اذان خاموشی سے سنیں اور جواب دیں۔ پھر مسنون دُعا مانگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار بن جائیں، (بفضلہٖ تعالٰی)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے اولادِ آدمؑ! تم مسجد میں حاضری کے وقت اپنے آپ کو (صاف ستھرے لباس سے) مزین کرلیا کرو اور خوب کھائو اور پیو اور حدسے نہ نکلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(الاعراف۷:۳۱)
مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون ضرور بند کردیں
مسجد میں ہر وہ کام کرنا منع ہے جو نماز میں خلل ڈالے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہرمسجد میں موبائل فون بند کرنے کا نوٹس لگا ہوتا ہے۔ خطیب حضرات بھی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ پھر بھی کسی نہ کسی کا فون بجتا ہے اور تمام نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتا ہے۔ لہٰذا سب نمازی بھائیوں سے گزارش ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اپنا موبائل فون ضرور بند کردیں اور مسجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ مسجد میں موبائل فون جیمر(Jammer) لگادیں تاکہ نمازیوں کے خشوع و خضوع میں موبائل فون سے پیدا ہونے والے خلل کا سدباب ہوسکے۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھیں پھر یہ دُعا مانگیں: اللّٰھُمَّ افْتَحَ لِیْٓ اَبْوَابَ رَحَمَتِکَ ، ’’اے اللہ! میرے لیےاپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۶۸۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ ہیں:
ان دونوں احادیثِ کریمہ سے تحیۃ المسجد کی اہمیت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے لیکن اگر فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو تو یہ حکم ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی، (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب تحیۃ المسجد، حدیث:۱۶۷۸)۔
مسلمان بھائیو! یہ سنت کریمہ ہماری غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے متروک ہوتی جارہی ہے۔ اس سنت کو ادا کرکے نماز کے ثواب کے ساتھ احیائے سنت کا ثواب بھی حاصل کریں۔
مساجد کا احترام کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سیّدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مغضوب (ناپسندیدہ) ان کے بازار اور منڈیاں ہیں، (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاۃ، حدیث: ۱۵۶۰)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا محلوں میں مسجدیں بنانے کا اور یہ بھی حکم دیا کہ ان کی صفائی کا اور خوشبو کے استعمال کا اہتمام کیا جائے۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد، ذکر الامر بتـنظیف المساجد وتطبیقھا، حدیث: ۱۶۳۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’جو شخص مسجد کی گندگی نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنّت میں گھر بنائے گا‘‘،(ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہر المساجد، حدیث:۷۵۷)۔
سیّدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پیاز یا لہسن کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے کیونکہ جس چیز سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد، باب نھی من اکل ثوما او بصلًا، حدیث:۵۶۴)
اس حدیث مبارکہ کی رُو سے ہربدبُودار چیز کھانے یا استعمال کرنے کے بعد جب تک منہ کی صفائی نہ کرلی جائے، حتیٰ کہ بدبُو ختم نہ ہوجائے مسجد میں آنا منع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۱۹ۧ (لقمان۳۱:۱۹) ’’اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور تم اپنی آواز کو کسی قدر پست رکھو۔ بلاشبہہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے‘‘۔
غور فرمائیں اگر عام دُنیاوی زندگی میں آواز پست رکھنے کا حکم ہے تو قابلِ احترام مساجد میں اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے؟ (العیاذ باللہ تعالٰی)
حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں سویا ہوا تھا۔ کنکری مار کر کسی نے جگادیا۔ دیکھا تو حضرت عمر فاروقؓ تھے۔ آپؓ نے دو شخصوں کی طرف اشارہ کیا جو مسجد میں شوروغل کر رہے تھے کہ ان کو پکڑ کر لائوں۔ میں نے حسب الحکم دونوں کو حاضرِ خدمت کردیا۔ آپؓ نے پوچھا:کہاں رہتے ہو؟ ان لوگوں نے طائف کا نام لیا۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تم کو سزا دیتا۔ تم مسجدِ رسولؐ اللہ میں شوروغل کرتے ہو۔ جائو آج صرف اس لیے معاف کرتا ہوں کہ تم باہر کے رہنے والے ہو‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الصوت فی المسجد، حدیث:۴۷۰)
حضرت واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی مسجدوں سے دُور اور الگ رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور دیوانوں اور شرارتی لوگوں کو (ان کو مسجد میں نہ آنے دو) اور (اسی طرح مسجدوں سے الگ اور دُور رکھو) اپنی خریدوفروخت کو، اپنے باہمی جھگڑوں کو، اپنے شوروشغب کو ،حدوں کو قائم کرنے کو اور تلواروں کو میانوں سے نکالنے کو۔ (یعنی ان میں سے کوئی بات بھی مسجدوں کی حدوں میں نہ ہو، یہ سب باتیں مسجد کے تقدس اور احترام کے خلاف ہیں)۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب ما یکرہ فی المساجد، حدیث:۷۵۰)
مسجد یں امن و سلامتی کا گہوارہ ہیں۔ ان میں اسلحہ کی نمائش اور تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔
مسجد سے باہر نکلتے وقت بایاں پائوں باہر رکھتے ہوئے یہ دُعا پڑھیے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا طالب ہوں‘‘۔(رواہ مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ما یقول اذا دخل المسجد، حدیث: ۱۱۶۵)
حاصل تحریر:مسجد میں ہم احکم الحاکمین کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا لازم ہے کہ نہایت باادب رہیں۔ ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہیں۔ کوئی ممنوع کام نہ کریں یعنی دُنیاوی معاملات، خریدوفروخت، ہنسی مذاق، شوروغل وغیرہ نہ کریں۔ بلندآواز سے دُنیاوی بات چیت تو کسی طرح بھی مسجد کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے نہ صرف اللہ و رسولؐ کی حکم عدولی ہوتی ہے بلکہ حاضرین مسجد کی عبادت میں خلل پڑتا ہے اور مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ رویہ اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات سے لاپرواہی کے مترادف ہے۔
آیئے آج سے ہم عہد کریں کہ ہم مساجد کا کماحقہٗ احترام کریں گے اور تمام ممنوع کاموں سے، خصوصاً اُونچی آواز میں دُنیاوی بات چیت سے سختی سے اجتناب کریں گے۔