انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے بڑا تحفہ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جو پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک اپنی بنیادی خصوصیات کے ایک بڑے حصے پر اعتماد اور فخر کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ پھر الحاد اور تشکیک کے موجودہ دور میں باحیا، صالح نوجوانوں ، محصنات اور ایک محفوظ خاندان کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔ انسانیت کے تہذیبی سفر میں یہ انقلابی تبدیلی ایک ایسے معاشرتی ماحول میں وجود میں آئی، جہاں فحاشی اور عریانی نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور برائی کو برائی سمجھنے کا احساس بھی دلوں سے جاتا رہا تھا۔قرآن کریم کی آفاقی تعلیمات اور رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی پاکیزہ سیرت نے اس زہریلے ماحول کو ایک صحت مند ،پُرامن، پُرسکون اور مودت و رحمت سے بھرپور معاشرے اور خاندان میں تبدیل کر دیا۔ یہ بنیادی تبدیلی کسی طویل عرصے میں ارتقائی مراحل سے گزر کرعمل میں نہیں آئی بلکہ دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی صرف دو عشروں میں اپنے نقطۂ کمال تک پہنچ گئی۔ لیکن پھر اپنوں کی نااہلی اور عدم توجہ اور مسلم معاشرے میں بیرونی اور اندرونی در اندازیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے کا توازن متاثر ہوا۔ اخلاقی بے راہ روی نے اسے بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی گذشتہ دو صدیوں میں مغرب کی سیاسی، فکری اور معاشی غلامی اور لادینی اور مادیت پرست تہذیب کی مسلم معاشرے پر یلغار کے زیراثر مسلمان اہل ثروت نے اپنی کوتاہ نظری کے سبب ان خرابیوں کو اپنانا شروع کردیا، جو مادہ پرست تہذیب خصوصاً مغربی استعماری دنیا میں رچ بس چکی تھیں ۔
ان خرابیوں میں سرِ فہرست خاندان کے تقدس کا پامال کرنا تھا۔ خودمغربی معاشرہ گذشتہ ایک صدی میں جس تیزی کے ساتھ اباحیت اور وحشت کی حدوں کو چھوتی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ طلاق کی کثرت، ناجائز تعلقات ،فیشن اور خود نمائی کے نام پر فحاشی اور عریانیت مغرب میں اپنے عروج پر پہنچی اور معاشی اور سیاسی عالمگیریت کے ساتھ یہ متعدی وبا مسلم معاشروں میں پھیل گئی ۔ پاکستان کے حالیہ معاشرتی حالات پر اس تناظر میں نظر ڈالی جائے، تو ایک پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے تو ۲۲-۲۰۲۱ء میں وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو اسلام آباد کے مطابق ۱۱لاکھ ۱۹ہزار ۸سو ۱۷ جرائم کا اندراج کیا گیا۔ جن میں قتل کے ۱۰ ہزار ۷۸،اغوا کے ۲۸ہزار ۱۷،ڈاکا اور چوری کے ۴۲ہزار ۴سو ۳۰ اور دیگر جرائم کے ۲ لاکھ ۵۳ہزار۷ سو ۴۲ مقدمات کو زیرِ تفتیش لایا گیا۔ صوبائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ۲۰۲۲ء میں پنجاب میں ۷ لاکھ ۵۹ہزار ۸سو ۱۶ ، سندھ میں ایک لاکھ ۱۹ہزار ۴ سو ۹۹، خیبر کے ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۳سو ۶۶ ، بلوچستان میں ۱۹ہزار ۴ سو ۴۳، اسلام آباد میں ۲۱ہزار ۴ سو ۹۰ جرائم کا ارتکاب ہوا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق صرف پنجاب میں ۲۰۲۳ء میں سول نوعیت کے ایک لاکھ ۴۶ہزار ۴ سو ۲۱ مقدمات عدالتوں میں درج کیے گئے۔ جن میں طلاق، خلع، بچوں کی حوالگی جیسے مقدمات شامل ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں ہر گھنٹے میں تین طلاقیں دی گئیں (روزنامہ دنیا ، ۹ دسمبر ۲۰۲۳ء)۔ اسی طرح کی ایک خبر میں روز نامہ جنگ (۲۶دسمبر ۲۰۲۳ء) کے مطابق لاہور کے فیملی کورٹس ، گارڈین کورٹس ، دیگر عدالتوں سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق پسند کی شادی میں سالانہ ۴۲۶ فی صد اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔گویا رواں سال میں ہر گھنٹہ میں عدالتوں میں ۵۰مقدمات دائر ہوئے ۔ ایک لاکھ ۴۳ہزار ۸سو ۹ مقدمات کے فیصلے ہوئے ، جب کہ ایک لاکھ ۶۵ہزار مقدمات زیر التوا رہے۔
پاکستان میں ’طلاق‘ اور ’خلع‘ کے واقعات میں اضافہ کے حوالے سے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے عوامی رائے کے جائزے کو دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافہ کے اسباب میں سب سے زیادہ یعنی ۴۸ فی صد کے نزدیک صبر کا فقدان ہے۔ ۳۳ فی صد کی رائے میں اس کا سبب دین سے دُوری ہے۔ ٪ ۲۷ فی صد کے خیال میں مغربی تہذیب کا نفوذہے، جب کہ ۱۲ ٪ فی صد کے مطابق اس کا سبب خواتین کا برسر روزگار ہونے کی بنا پر خود انحصاری پر مبنی آزادی کا تصور ہے۔ مزید ۹ فی صد کا خیال خود مردوں میں شادی میں دلچسپی میں کمی کا پایا جاناہے۔
ان اسباب میں ایک داخلی ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان مسائل کا بڑا سبب لوگوں کی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنا پر عجلت پسند اور بے صبرا ہونا ہے۔ گویا ۸۱ فی صد افراد کے رویہ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔مغرب سے درآمد کردہ تحریک آزادیٔ نسواں کے بنیادی تصورات میں یہ بنیادی بات شامل رہی ہے کہ چونکہ یورپی معاشرہ بنیادی طور پر مردوں کی فوقیت کا پدرانہ معاشرہ رہا ہے ،جس میں معاشی عوامل کی بنا پر مردوں کی حاکمانہ نفسیات خواتین کے بارے میں یہ تصور رکھتی رہی ہے کہ وہ ذہانت،مشقت، تاجرانہ صلاحیت اور سیاسی فراست میں مرد کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے مرد کے مساوی نہیں سمجھی جا سکتیں ۔اس تصور کا رد عمل یورپ اور امریکا میں تحریک آزادیٔ نسواں کی شکل میں ۱۹ویں صدی میں رُونما ہوا اور جن مسلم ممالک پر یورپی سامراج کا تسلط تھا، وہاں پر اس کی پذیرائی نے مسلم معاشرے میں بھی ایک صنفی دوڑ کی کیفیت پیدا کر دی اور خواتین کی جانب سے نہ صرف مساوات بلکہ اپنی خود مختاری کے حصول کو ایک مطالبہ کی شکل دے دی گئی ۔خواتین کے معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا فطری نتیجہ خاندان کے نظام کا معطل اور تباہ ہونا تھا۔
مغرب سے درآمد کیا ہوا ملکی ترقی کا ایک پیمانہ یہ قرار پایا کہ کسی ملک کی کتنے فی صد خواتین سرکاری دفاتر میں،عدالتوں میں، کاروبار میں اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر سرگرم عمل ہیں۔ ظاہر ہے جو شعبے روایتی طور پر اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے لحاظ سے مردوں کے زیر اثر تھے، وہاں پر خواتین کا عمل دخل کم تھا، مثلاً فوج ، یا سڑکوں اور عمارتوں میں تعمیراتی کام لیکن ’مساوات مرد و زن‘ کے نعرے کو اتنی تکرار کے ساتھ دُہرایا اور باربار استعمال کیا گیا کہ مسلم ممالک میں سے ایک آمرمطلق صدر معمر قذافی نے اپنے محافظ عسکری دستہ میں بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کرنا اپنی ترقی کی علامت سمجھا۔لیکن اس تمام تحقیر آمیز غلامانہ ذہنیت کے باوجود ایسے افراد اورممالک کو ترقی یافتہ ممالک نے اپنی برادری کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ مشہور مثال ہے کہ ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘۔
مغرب کی اندھی پیروی اور ’مساوات مرد و زن‘ پر ایمان لے آنے کے نتیجے میں انفرادیت پسندی اور صنفِ نازک کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ زور پکڑ گیا ہے کہ وہ مرد سے زیادہ قوی ہے۔ ویسے بھی یہ عام انسانی نفسیات ہے کہ جب بھی جنگ اناؤں (egos)کی ہوگی تو اس میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست ممکن نہیں ہوا کرتی۔ خاندان کی بنیادی اینٹ خلوص اور ایثار و قربانی سے مرکب ہے۔ جب مقابلہ نفسا نفسی کا ہو تو زندگی کا سفر جس کے لیے کم از کم دو پہیے درکار ہوتے ہیں کیسے پُرسکون طور پر چل سکتا تھا ؟ اگر دونوں پہیے الگ الگ سمت میں گھومنا چاہیں تو گاڑی میں ٹوٹ پھوٹ کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
جن اسباب کا تذکرہ جائزوں میں نظر آتا ہے ان کے حوالے سے مجلہ Clinical Social Work and Health Intervention کی جلد نو شمارہ نمبر۲ میں ۲۰۱۸ء میں مطبوعہ مقالہ میں جس کا عنوان High Ratio of Divorce and its Rationale in Pakistan ہے، اور جس کے مصنّفین کا تعلق بلوچستان یونی ورسٹی سے ہے،ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق پر مبنی اس جائزے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کے معاشی سرگرمی میں مصروف ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے لیےمناسب وقت کا میسرنہ ہونا، معاشی سرگرمی میں مصروفیت کے ساتھ مزاج میں صبر و استقامت میں کمی کا واقع ہونا ، شریک حیات کے انتخاب میں مناسب غور و فکر کے بعد فیصلہ نہ کرنا ،ایک دوسرے کی اچھائی کو وزن دینے کی جگہ کمزوری کو زیادہ محسوس کرنا طلاق کی کثرت کا سبب ہے۔ ایک اور تحقیق کی رُو سے گذشتہ دو عشروں میں کثرت سے ٹی وی چینل وجود میں آئے اور ان میں جو ڈرامے، ٹاک شو پیش کیے گئے اور پیش کیے جا رہے ہیں وہ اسلامی تصورِ معاشرت کے برعکس اخلاقی بے راہ روی، خود خاندان کے اندر محترم رشتوں کی پامالی ،گفتگو اور طرز عمل میں بے احتیاطی ، فحاشی اور اباحیت کو پیش کرتے ہیں ۔ایک شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے بھائی یا شوہر کا اپنے بیوی کی بہن کے ساتھ قریبی تعلق اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے، جیسے وہ ایک روز مرہ کا قابلِ قبول اخلاقی رویہ ہو !
تجزیاتی مضامین میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور خاندانی تصور کو یا تو بالکل لاعلمی کی بنا پر اور یا پھر جان بوجھ کر ’مذہب‘ کا مذاق اڑانے کے لیے ابلاغِ عامہ میں ایسے انداز سے زیر بحث لایا جاتا رہا ہے جو غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں برداشت کے بہانے برائی کے برائی ہونے کے احساس کو ختم کردے اور حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔ یہ ابلاغی نفسیات عالم گیر پیمانہ پر مغرب ہو یا مشرق، ہر جگہ مصروفِ عمل رہی ہے۔
عدم برداشت کی اس روش کو جانچنے کے لیے مثال کے طور پر ۱۰؍ اپریل کو بہاولنگر میں پولیس اور فوج کے درمیان مبینہ تنازع ملک میں قانون اور دستور کے عدم احترام کی صورت حال کی ایک افسوس ناک مثال ہے ۔ اگرچہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے آپس میں دست و گریبان ہونے کے واقعات کی تعداد کم ہے ۔لیکن کسی ایسے واقعے کا ہونا خود امن و امان ، امن عامہ، اور سرکاری اداروں میں عدم برداشت اور حدود سے تجاوز کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ پھر اسی طرح ۵مئی کو کھاریاں میں خواجہ سراؤں کے درمیان مبینہ تنازعے میں پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں پر جسمانی تشدد اور جواب میں خواجہ سراؤں کا علاقہ صدر کے پولیس تھانہ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنا، قانون کو ہاتھ میں لینا اور قانون کے محافظ افراد کا مبینہ طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے ۔ اور اخلاق او ر قانون کا احترام جو کسی معاشرے کی بقا کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا وقار سخت مجروح ہو چکا ہے ۔
اس صورتِ حال میں ا صلاحِ احوال میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاشرے کے باشعور افراد کا فرض ہے کہ وہ منکر کے مٹانے اور معروف کے قیام کے لیے قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ کے تحت دینی حکمت کے ساتھ اس رجحان کو تبدیل کرنے میں اپنی فکری اور تجزیاتی ذہانت کا بھرپور استعمال کریں ۔
اس ضمن میں پہلا کام خود اپنے گھر کا جائزہ لینا اور اپنے خاندانی معاملات میں معروضی طور پر اصلاح کی غرض سے انفرادی و اجتماعی طرزِ عمل کا احتساب کرنا ہے کہ ، گھر کا ماحول، بچوں کا لباس، ان کی مصروفیات خصوصیت سے تفریحات کی نوعیت کیا ہے؟ تعلیمی درس گاہ کا انتخاب کس بنا پر کیا گیا ہے؟گھر میں بچوں اور بیوی کے ساتھ کتنا وقت گزارا جا رہا ہے ؟ کیا گھر میں نمازِ باجماعت یا کم از کم صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کا اہتمام ہے ؟ان مصروفیات کے تجزیے کے ساتھ ایک عملی نقشہ بھی بنانے کی ضرورت ہےکہ اگر ایک صاحب خانہ اور ان کی اہلیہ دونوں ملازمت یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں، تو اس کاروبار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فائدہ ( financial gain) میں اور خاندانی اور معاشرتی خسارے میں کیا تناسب ہے ؟اگر ان دونوں کی محنت و مشقت ان کے بچوں کے لیے ہے، تو کیا ان کی اس آمدنی سے بچوں کی سیرت و کردار ایسی تعمیر ہو رہی ہے کہ وہ بڑے ہوکر معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی کردار کا نمونہ پیش کر سکیں، یا وہ ہوا کے رخ پر مادیت، لذتیت اور انفرادیت کو اختیار کر رہے ہیں اور ان میں اخلاص، ایثار و قربانی ،وفا ، حیا اور خاندان کے تقدس کے تصورات کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا؟
اس تجزیاتی عمل یا احتساب کے لیے کسی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا شرط نہیں ہے، نہ اسے نفسیات میں اعلیٰ ترین ڈگری درکار ہے۔ ایک معمولی عقل کا انسان بھی اس ذاتی تجزیہ کے بعد یہ معلوم کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کی اہلیہ دن میں کم از کم آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد جب شام کو تھک ہار کر گھرمیں داخل ہوتے ہیں، تو کیا ان کے مزاج میں بے صبری، چرچڑاہٹ، غصہ پایا جاتا ہے، یا وہ خوش مزاجی اور حسِ مزاح کے ساتھ آپس میں بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں؟ کیا گھر کے افراد بشمول شوہر،بیوی اور بچوں کے کھانے کے دوران یا گھر کے باہر کسی ہوٹل میں گھنٹہ سوا گھنٹہ کھانے کے دوران آپس میں بات کرتے ہیں، تو کیا ان کی نظر یں موبائل پر آنے والے پیغامات اور ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شو پر جمی ہوتی ہیں، یا وہ آپس میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کر رہے ہوتےہیں؟کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے معاملات پر توجہ کے ساتھ بات کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بچے اور وہ خود ، ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا اپنا موبائل ہوتا ہےاور وہ اس پرچیٹ کر رہا ہوتا ہے ؟ کیا ہم ایسے خاندان کو ایک مربوط خاندان کہہ سکتے ہیں ؟ یا ہر فرد کا اپنی دنیا میں گم ہونا اور صرف مروتاً کھانے کی میز پراور ٹی وی کے کمرے میں صوفے پر کچھ دیر غائب دماغی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کمرے میں واپس چلے جانے کو رحمت، مودّت ، ایثار و قربانی سے متصف خاندانی ماحول کہا جا سکتا ہے ؟
یہ ذاتی جائزہ اگر ایمانداری سے لیا جائے تو ایک صاحب ِخانہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کا نام نسلوں کا فاصلہ (Generation gap) ہے، وہ کسی بیرونی سامراج نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ خود اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ مسلمان اور بظاہر تحریکی گھرانے کے افراد نے اپنے ہاتھوں اپنے گھر میں رائج کیا ہے۔اس آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھ لی جائے تو پھر صورتِ حال کی سنگینی اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں آسانی ہو سکتی ہے اور اصلاحِ احوال کا تعلق زمینی حقائق سے وابستہ ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ معلومات،عددی ابلاغ اور مصنوعی ذہانت کے دور میں بعض معلوماتی اور ابلاغی آلات سے فرار ممکن نہیں، لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ کھانے کی میز پر بیٹھنے والے خاندان کے افراد اپنے اپنے موبائل یا آئی پیڈ کو چھوڑ کر ۲۴ گھنٹے میں سے صرف ۴۵ منٹ وہ ایک دوسرے سے بات کر سکیں، یا کسی موضوع پر سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ معلومات میں اضافہ کر سکیں؟
دوسرا بنیادی کام گھر سے باہر تعلیمی اداروں کا ہے کہ چھٹی جماعت سے ، دسویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں ایک بااخلاق، معتدل ،بامروت و محبت آمیز خاندان کے خدوخال شامل کیے جا ئیں۔ خاص طور پر خاندانی زندگی کی اہمیت، تقدس اور ایک پرسکون خاندان کے نتیجے میں معاشرے میں توازن و برداشت، صبر و استقامت اور تشدد کے عدم استعمال کو تعلیمی نظام کے ذریعے شخصیت کا حصہ بنایا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ چھٹی جماعت کی عمر میں ایک بچے میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ اگر اس مرحلے میں اسے خاندان کی اہمیت و عظمت پر یکسو کر دیا جائے، تو پھر ایک پُرامن معاشرے کا وجود میں آنے کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔
تیسرا اہم کام ملک کے ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لے کر ان تصورات کو علمی و تحقیقی اور دستاویزی شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے، جو آنے والی نسلوں کو مغربی سامراجی تسلط، ذہنی غلامی، ثقافتی نقالی اور اخلاقی بیماریوں سے بچا سکیں اور مثبت، تعمیری رجحانات پیدا کریں ۔فحاشی و عریانی کی جگہ حیا اور عصمت و عفت پر مبنی ڈرامے، نغمے، مباحثے، مکالمات وغیرہ پیش کیے جائیں اور ابلاغ عامہ کے اس مثبت کردار کو درجہ بندی (ranking) کا بنیادی پیمانہ بنایا جائے۔ مقامِ عبرت ہے کہ اس وقت برقی ا بلاغ عامہ(Digital Media) سب سے زیادہ بے حیائی، مغربیت اور غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اُردو میں کسی تبصرہ کے لیے بھی رومن کو استعمال کیا جاتا ہے اور گفتگو میں کثرت سے انگریزی الفاظ اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ تین چوتھائی گفتگو انگریزی میں اور ایک تہائی کی حد تک اردو کا استعمال مشاہدہ میں آتا ہے۔
چوتھا بنیادی کرنے کا کام ان افراد کا ہے جو اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی فکر سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کیا ان کے گھر ،ان کے پڑوس اور محلے میں وہی ماحول ہے جو بغیر کسی تردد کے مغرب کی اباحیت پسند تہذیب سے مستعار لیا گیا ہے، یا ان کے رویے،طرز فکر ، رہن سہن ، طور طریقے دین کی تعلیمات پر مبنی ہیں؟ بات وہی اثر کرتی ہے جو انسان کے اپنے عمل سے ظاہر ہوتی ہو۔ الفاظ کتنے بھاری بھرکم کیوں نہ ہوں جب تک کردار اور الفاظ میں مطابقت نہ ہو ابلاغ نامکمل رہتا ہے۔
تحریک سے وابستہ افراد کا گھرانہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی بھی دیکھنے والے کے لیےصیحح اسلامی طرز عمل کا نمونہ ہو اور دین اور اس کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہو ۔اس غرض کے لیے تحریک اسلامی کو اپنے ہر گھر میں ایک مثالی خاندان کے نقشہ کو رائج کرنا ہوگا، تاکہ گھر کا ہر فرد اخلاقی، معاشرتی انقلاب کا نمایندہ سپاہی بن سکے اور اس کی گفتگو، سوچ اور عمل یکسوئی کے ساتھ قرآن و سنت کی عملی تشریح پیش کر رہا ہو ۔اگر خدانخواستہ تحریکی گھرانوں میں فکری انتشار، بول چال اور رہن سہن میں مغرب کی اندھی نقالی ،تحریکی تصورات میں عدم پختگی پائی جائے گی، تو ایسے گھروں کے سربراہ چاہے علمی مقالات تحریر کر لیں یا خطیب ِعصر بن جائیں، ان کی کسی بات کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ یہ قرآنی ضابطہ ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں!
اسی طرح ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے تحفظ و ترقی کے پیش نظر جہاں کہیں وہ اپنی بات پیش کر سکتا ہے، چاہے وہ کاروباری مرکز ہو یا پارلیمنٹ اور عدلیہ یا جامعہ، وہ اپنی تمام ذہنی قوت کو ایسے حالات پیدا کرنے میں صرف کرے جو خاندان کے ہر فرد میں احساس ذمہ داری ،احساس جوابدہی ،اخلاقی رویہ اور معاملات میں سچائی، امانت اور خیر خواہی کی ہمت افزائی کرتا ہو ۔دعوت اور اقامتِ دین کا قیام جب تک گھر اور محلہ سے نہیں ہوگا، اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔ یہ خاندان اور محلہ ہی ہے جو پورے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
تحریک اسلامی جس سیرت و کردار کے انقلاب اور معاشرتی ، اخلاقی ، معاشی ، اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حالیہ صورت حال کا تنقیدی جائزہ لے کر اضمحلال اور اخلاقی زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، اور پھر قائد تحریک اسلامی کے پیش کیے ہوئے سوچے سمجھے چار نکات پر مبنی منصوبۂ عمل کو توازن کے ساتھ عمل میں لایا جائے ۔خاندان اور محلہ میں اقامت دین کے بغیر معاشرہ اور دستور ساز ادارے مسلمان نہیں بن سکتے۔اگر گھر کے اندر ہی یک رنگی، فکری اتحاد اور عملی یکسوئی نہیں ہوگی، تو زبان سے نکلے ہوئے کلمات اور قلم سے وجود میں آنے والے فکری نگینے مصنوعی چمک دمک سے مزین ہوں گے۔وہ اس نور سے محروم رہیں گے جو قرآن و سنت کی شکل میں بطور ایک رحمت انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔۳۵ سے ۴۰ سال میں دل و دماغ جس غیر سنجیدہ عوامی ماحول کے عادی ہو گئے ہوں، ان کو دوبارہ صحیح رُخ پر لائے بغیر اصلاح احوال کا کام نہیں ہو سکتا۔یہ ایک دلیرانہ ، پر عزم ، صبر آزما لیکن مثبت نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔ اس مقصد سے زمین میں ڈالا گیا ہر بیج شجر طیبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔زمین نم ہے، بیج موجود ہے، ارادہ اور قوت میں کوئی کمی نہیں ہے!پھر انتظار کس کا؟کیا حالیہ گمراہی ، معاشرتی زوال، اخلاقی دیوالیہ پن ، عرب جاہلیت سے بد تر ہے کہ اسے بدلا نہ جا سکے ؟
قرآن و سنت کے وہ عملی حل جو جاہلی ماحول اور انسان کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے آج بھی اپنی تازگی کے ساتھ موجود ہیں۔ضرورت صرف توازن کے ساتھ تطہیر فکر و نظر، تزکیۂ اخلاق و عمل، تعمیر کردار و سیرت،مثالی خاندان اور مثالی معاشرہ کے لیے افراد سازی اور تنظیم کی ہے۔ وہ تنظیم جس میں بےغرضی ہو، للہیت ہو ، خلوص ہو اور جاہ طلبی نہ ہو۔ جس میں ہر کارکن قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایسے افرادِ کار کی تیاری کے بغیر قوت کا مظاہرہ، جلسے جلوس کی کثرت ،منکر اور طاغوت کی جگہ معروف اور حق کے قیام میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔صبر و استقامت کی راہ ،واضح ومتعین منزل اور افرادی زادِ راہ ہی وہ مسنون طریقہ ہے جو کسی بھی تحریک اسلامی کو فرد،معاشرہ اور نظام کی صالح تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے۔