جون ۲۰۲۴

فہرست مضامین

مصر میں ’اخوان‘ کی ایک سال کی حکومت

اشہد رفیق | جون ۲۰۲۴ | اسلامی سیاسیات

Responsive image Responsive image

مرشدعام حسن البنا ؒکی قیادت میں الاخوان المسلمون نے جو ہمہ پہلو جدوجہد کی، اس نے عالمِ عرب میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کو برگ و بار عطا کیے، مگر جلد ہی برطانوی سامراج کے زیراثر مصری حاکموں نے اخوان کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے اور پھر ۱۲فروری ۱۹۴۹ء میں حسن البنا کو گولی مار کر شہید کردیا۔ ازاں بعد یہ سلسلۂ داروگیر مسلسل چلتا رہا۔ ۲۰۱۱ء میں ایک بھرپور عوامی لہر نے مصر پر مسلط جون ۱۹۵۳ء سے فوجی حکمرانی کو گرا دیا۔ تاہم، ریاستی اداروں میں بیٹھی قوتوں کی تمام حیلہ سازیوں کے باوجود، اخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی، ۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدر جمہوریہ مصر منتخب ہوگئے۔ انھوں نے ایک سال اور ایک ماہ کے دوران جو بے پناہ کاوشیں کیں، ان میں چند ایک کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے، کیونکہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو مصرکی فوجی جنتا نے امریکا، اسرائیل اور عرب راجوں کی پشت پناہی سے صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جمالیا اور بڑے پیمانے پر ہم وطن اخوان المسلمون کے حامیوں کے خون کی ہولی کھیلی۔ صدر محمد مرسی قید کردیئے گئے جہاں ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ادارہ

ماضی قریب میں تہذیب و سیاست کے میدان میں اسلام کا مؤثر کردار آزمانے کے لیے اخوان المسلمون نے اپنے ایک سالہ دورِ حکومت میں بھرپور کوشش کی۔ یہاں اخوان کے دورِ حکومت کا واقعاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے:

پس منظر و پیش منظر: رواں صدی کا دوسرا عشرہ عالمِ عرب میں انقلاب کی بہار لے کر نمودار ہوا۔ دیگر عرب افریقی ممالک کے ساتھ محض آٹھ روز کی پُرامن مزاحمت کے نتیجے میں مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا ۳۰سالہ دورِ حکومت زمین بوس ہو گیا تو فروری ۲۰۱۱ء کو حسنی مبارک نے اقتدار کی کلید عبوری حکومت کے سپرد کردی۔ اسی دن سے متبادل نظام کی تگ و دو شروع ہوگئی۔ متعدد مہرے آزماتے ہوئے پوری کوشش کی گئی کہ اقتدار کسی طرح حسنی مبارک کی باقیات ہی کے ہاتھ میں رہ جائے۔ اس کے لیے عارضی نظام اور عالمی طاقتوں نے تمام ہتھکنڈے آزما لیے، مگر اس عوامی انقلاب کے بعد عوام کی مرضی کے بغیر کسی نظام کو چلانا ممکن نہ رہا تھا۔ اور جب مجبوراً بار بار عوام سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے بڑی تعداد میں اخوان المسلمون کے قائدین کو اختیار دینے کی تائید کی، اور چاروناچار، انتخابی عمل سے گزر کر اس عارضی حکومت نے نئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار سونپا۔

۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو ڈاکٹر محمد مرسی نے باقاعدہ زمامِ حکومت سنبھال لی۔ اس وقت ان کی آنکھوں کے سامنے گذشتہ ۶۵ برسوں کے دوران اخوانی ساتھیوں کی حالت ِ زار، موجودہ تحریک میں شہدا کے لاشے، انقلابیوں کے جذبات اور اخوان کے اللہ اور قوم سے کیے گئے وعدے چیلنج  بن کر کھڑے تھے۔ اللہ کی مرضی اور اس کا قانون اس کی زمین پر نافذ کرنے کے مطالبے کے سامنے مصری قوم کے ۳۰ فی صد وہ افراد بھی ایک چیلنج تھے جو اللہ کی سرزمین پر طاغوتی نظام کا ہی بول بالا دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اپنی قوت لگائے ہوئے تھے۔ ایسے افراد کی دُنیا کی بڑی طاغوتی طاقتیں خفیہ و علانیہ مدد کر رہی تھیں۔ محمد مرسی کو سابقہ نظام کی تباہ کن پالیسیاں ، معاہدات، تفرقہ پسندی اور معاشی بدحالی جیسی مشکلات بھی ورثہ میں ملی تھیں۔ ایسے سخت حالات میں ڈاکٹر محمدمرسی نے اللہ پر بھروسا کرکے مضبوط عزائم، دُور رس پالیسی اور ہرطرح کی قربانی کے لیے تیار ہوکر صدارتی محل میں قدم رکھا اور ایک ایک لمحہ ان خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں صرف کردیا۔

صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد پہلی بار محمد مرسی ۲۸جون کو ’میدانِ تحریر‘ میں اپنے ہم نوائوں سے رُوبرو ہوئے۔ پھر ۳۰جون کو قاہرہ یونی ورسٹی میں قوم سے خطاب کیا۔ دونوں مواقع پر اپنی پالیسی اور عزائم کو سب پر واضح کردیا کہ مصر کی سرزمین پر اللہ کے قانون کی بالادستی ہوگی، سیاسی نظام سے جبروتشدد اور مطلق العنانی کا خاتمہ ہوگا اور ایسا سیاسی نظام برپا کیا جائے گا، جو عدل و اخوت پر مبنی، عوامی جذبات کا ترجمان اور وحی الٰہی کے تابع ہو۔ یہ کہ ہم پورے مصر کے، مصر کے ہرشعبے اور ہرادارے کا احترام کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ ان کی عظمت و وقار کو برقرار رکھنے کے لیے وہ بھرپور کوشش کریں گے۔

محمد مرسی نے نئے مصر کی تصویر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’نیا مصر شہیدوں کے خون اور انقلابیوں کے جذبات کا بھرپور عکاس ہوگا۔ جدید مصر ان شاء اللہ اپنے عظیم الشان ماضی کو واپس لائے گا کہ جب اسے علمی، فنی اور سفارتی میدانوں میں عالمِ عرب، افریقی خطے اور اسلامی ممالک میں قائدانہ کردار حاصل تھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جدید مصر، سفارتی اور اقتصادی محاذ پر تمام عرب اور اسلامی ممالک کوساتھ لے کر ایک نیا اقتصادی زون بنائے گا، جو یورپ و امریکا کی اقتصادی پالیسیوں سے بے نیاز کردے گا۔ پھر یہ کہ مصری قوم کا ہرفرد چاہے وہ مسلمان ہو یا مسیحی اور یہودی، ملک کی تعمیروترقی میں سب کا برابر حصہ ہوگا۔ سب کو ترقی کے یکساں مو اقع حاصل ہوں گے۔ سب کے حقوق اور اقدار کو تحفظ حاصل ہوگا اور کسی سماجی و ریاستی معاملے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی‘‘۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے خطاب کے آخر میں اللہ کی قسم کھا کر ’’ان وعدوں اور پالیسیوں کو سچّے دل سے رُوبہ عمل لانے اور ان کی تکمیل میں اپنی توانائیوں کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیں گے اور کبھی قوم سے خیانت نہیں کریں گے‘‘۔

اس پالیسی خطاب کے بعد وہ میدانِ عمل میں اُترے اور پورے ایک سال ملک کی تعمیروترقی میں لگے رہے۔ ان کے ساتھ ان کی سرپرست تحریک اخوان المسلمون شانہ بشانہ کھڑی رہی اور اس وقفہ کو خوابوں کی تکمیل کا موسم کا عنوان دیا اور اس مہلت عمل کے ایک ایک لمحے کو ملکی سیاست اور تہذیب کی تعمیروترقی میں لگادیا۔ اس ایک برس کے عرصے میں ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی جماعت نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، ان پر متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ایجازات دکتور محمد مرسی رئیس الجمہوریہ کے مصنّف طالب حازم سعید نے دس عناوین کے تحت ۱۰۰کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ ahramonline نے عثمان النشارنوی کا ایک تجزیہ Egypt's President Morsi in Power: A Time Line تحریر کیا ہے ، جس میں تاریخ وار ۷۰بڑے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ان جائزوں کی روشنی میں مرسی کے ایک سالہ دورِ حکومت کے اہم فیصلوں اور اقدامات کو مختصراً درج ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:

داخلی محاذ

  • فوجی راج کا خاتمہ اور اجتماعی نظامِ عدل کا قیام : ۶۰ برس تک اقتدار پر قابض رہنے والی سیاہ و سفید کی مالک مصری فوج کو حکمت کے ساتھ بیرک میں بھیج کر عدل و انصاف پر مبنی نئے نظامِ حکمرانی کو متعارف کرایا اور ملک کو خودمختاری ، تعمیروترقی ، خوش حالی اور کامیابی کی طرف لے جانے والا نیا دستور عطا کیا۔ جس میں قانون سازی کا بنیادی سرچشمہ قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔
  • صدارتی کونسل کی تشکیل :صدر کے اقدامات اور فیصلوں کی نگرانی و احتساب  کے لیے صدارتی کونسل تشکیل دی، جس میں مختلف میدانوں کے ماہرین کو داخلی، خارجی اور سیاسی اُمور کی ذمہ داریاں دی گئیں۔
  • عوامی نمایندہ حکومت کا قیام :ڈاکٹر ہشام قندیل کی سربراہی میں ایسی حکومت قائم کی، جس میں جماعتی و سیاسی وابستگی سے اُوپر اُٹھ کر فنی مہارت اور قومی نمایندگی کو ترجیح دی گئی۔۳۵؍افراد کی کابینہ میں اخوان المسلمون پارٹی کے صرف پانچ ممبران شامل کیے گئے، جب کہ باقی افراد حریف جماعتوں کے نمایندے یا فنی ماہرین (ٹیکنوکریٹس)تھے۔
  • اداروں کی تشکیلِ جدید :انتظامی اداروں سے بدعنوان افسران کو برطرف کرکے لائق اور ایمان دار افسران کا تقرر کیا اور جدید حالات کے تناظر میں نئی منصوبہ بندی کی، تاکہ ارتقا کے عمل میں تیزی لائی جاسکے۔
  • سینا کا نسر آپریشن :وادیٔ سینا میں شہریوں اور حفاظتی عملہ کی ہلاکت کے واقعات نے ڈاکٹر مرسی کو ہلا کر رکھ دیا۔ انھوں نے مصری فوج کے کنٹرول کو مضبوط کرنے اور علاقہ کی ترقی و اعتماد کی بحالی کے لیے سخت اقدامات کیے اور متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔
  • ذرائع ابلاغ کی آزادی  :سابقہ دورِ حکومت میں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی دلائیں گے۔ پہلی فرصت میں انھوں نے یہ وعدہ و فا کیا، حالانکہ انھیں خوب اندازہ تھا کہ یہ آزادی حاصل کرکے سب سے زیادہ انھی کی مخالفت کی جائے گی۔
  • سیاسی قیدیوں کی رہائی :حسنی مبارک کے ظالمانہ نظام میں ہزاروں افراد جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کے جرم میں جیلوں میں بند تھے۔ ڈاکٹر مرسی نے ایسے ہزاروں معصوموں کو قانونی طریقے سے رہائی دلوائی۔
  • بجلی اور ایندھن کا بحران :بجلی اور ایندھن کی کمی مصر کا ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔ توانائی کے شعبے پر کنٹرول فوج اور حسنی مبارک کی باقیات کے ہاتھ میں ہی رہا۔ مرسی حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور طویل المیعاد اقدامات کیے۔ بدعنوان افسران پر قدغن لگائی، فعال اور ایمان دار افسران ان کی جگہ پر تعینات کیے،مستقل اور دیرپا حل کے لیے نئے پلانٹ کی بنیاد رکھی گئی، تاکہ عوام روز مرہ کی دشواریوں سے نجات پاسکیں۔

خارجی محاذ

حسنی مبارک کے دور میں مصر کی خارجہ پالیسی، عرب اور مسلم دُنیا دونوں کے مفادات کے خلاف تھی۔ فلسطینی مجاہدین سے دشمنی اور اسرائیل کی تابع داری اس پالیسی کا امتیاز تھا۔ ڈاکٹر مرسی نے خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں کیں اور مصر کے قائدانہ کردار کی بحالی کے لیے سنجیدہ جدوجہد کی۔ اِس محاذ پر ان کے چند اہم کارنامے درج ذیل ہیں:

  • مسئلہ فلسطین  :ڈاکٹر محمد مرسی نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ حماس کو خاطرخواہ اہمیت دی، ان کے لیے سہولیات بہم پہنچائیں، رفح کے دروازے کھول دیئے، جس سے ۱۶لاکھ فلسطینیوں کو راحت ملی۔ حماس قائدین کا والہانہ استقبال کیا۔ اپنے وزیراعظم کو فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرنے کے لیے عین جنگ کے دوران فلسطین بھیجا اور اسرائیل کو دوٹوک الفاظ میں معاہدات کی پاسداری اور اوقات میں رہنے کی تلقین کے ساتھ مصر و اسرائیل کے درمیان معاہدات کی منسوخی کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی شروع کردی۔
  • سعودی عرب سے تعلقات کی ہمواری :مصر و سعودی عرب کے درمیان تعلقات ناہموار رہے ہیں۔ جب ڈاکٹر مرسی نے اقتدار سنبھالا، اس وقت سعودی عرب سے تعلقات زیادہ خوش گوار  نہ تھے۔ ڈاکٹر مرسی نے بیرونِ ملک دورہ کے لیے سب سے پہلے حرمین شریفین کا انتخاب کیا، ملتزم سے چمٹ کر اللہ سے مدد بھی مانگی۔ مصری اور مسلم سیاست میں اسے ایک انقلابی قدم تصور کیا گیا۔
  • مسئلہ شام  :شام میں خونِ مسلم کی ارزانی روکنے کے لیے پائے دار حل تلاش کرتے ہوئے کئی جرأت مندانہ اقدامات کیے۔ چینی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بشارالاسد کی سیاسی و مادی امداد پر روک لگائے اور مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ ایران جو شام کا سب سے بڑا حلیف سمجھا جاتا ہے اس کے سامنے بشارالاسد کی جارحیت کی کھل کر مذمت کی۔ عرب لیگ اور دوسرے متحدہ پلیٹ فارموں پر شام کے مسئلے کے حل کے لیے آواز اُٹھائی۔
  • افریقی یونین :افریقی یونین سے دشمنی وراثت میں ملی تھی، جب کہ ماضی میں مصر قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ڈاکٹرمرسی نے ایتھوپیا میں منعقد افریقی یونین کے اجلاس میں شرکت کی اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر پوری قوت کے ساتھ اس یونین میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا اور جس کے نتیجے میں مصر کو قائدانہ کردار ادا کرنے کا دوبارہ موقع ملا۔
  • ایران سے تعلقات :مصر و ایران کے تعلقات عرصہ سے خراب چل رہے ہیں۔ حسنی مبارک کی اسرائیل نوازی، ایران کو کسی طرح گوارا نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی نے ناوابستہ ممالک کے اجلاس کے موقع کو میزبان ملک کے ساتھ تعلقات کی استواری کے لیے استعمال کیا۔ اندرونی مخالفتوں کے باوجود وہاں گئے اور پوری قوت کے ساتھ فلسطین اور شام کے عوام کی کھل کر تائید کی اور ایران سے مثبت کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ اس کے نتیجے میں ایران سے قربت کافی بڑھی اور بڑے مسلم ممالک ایک ساتھ جمع ہوتے نظر آئے۔
  • چین سے روابط :صدر مرسی نے ترقی یافتہ ممالک میں امریکا اور یورپ کو چھوڑ کر سب سے پہلے چین کا تجارتی وفد کے ساتھ دورہ کیا اور اعلان کیا کہ ’’اب کوئی ملک ہم پر راج نہیں کرسکے گا۔ مصر کے خارجہ تعلقات منافع کے باہم تبادلہ کی بنیاد پر ہوں گے۔ کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے داخلی اُمور سے کوئی سروکار نہ ہوگا‘‘۔ یہ امریکی معیشت کی غلامی سے آزادی کا اعلان تھا۔

معاشی محاذ

  • پائے دار معاشی استحکام کے لیے ’النہضہ پروجیکٹ‘ کا تفصیلی خاکہ پیش کیا، جو ۲۰سالہ طویل المیعاد منصوبہ تھا اور جس کے ذریعے توقع تھی کہ سماجی اور معاشی استحکام کی طرف ملک زبردست پیش رفت کرے گا۔
  • چین کے تعاون سے مختلف علاقوں میں سات لاکھ افراد کی آسامیاں پیدا کرنے کے لیے بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ شروع کیے۔
  • توانائی، زراعت اور تعمیرِنو کے کئی منصوبوں کے لیے ترکی، قطر، چین اور سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرائی۔
  • نہر سوئز اور اس سے ملحق علاقوں کے لیے ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کروایا کہ اگر وہ مکمل کرا دیا جائے تو ملک کو سالانہ ۱۰۰؍ارب ڈالر دینے کے علاوہ پورےعلاقے کا تجارتی اور مواصلاتی مرکز بن جائے۔
  • روس کے تعاون سے دو بلین ڈالر کے قرضے پر بجلی کی تیاری کے لیے نیوکلیائی کارخانہ کا پروجیکٹ منظور کرایا گیا۔
  • ہندستان کے ساتھ سات کلیدی اُمور پر معاہدے کیے گئے۔
  • اسلامی صکوک (Bond) جاری کیے، تاکہ عوام کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز کی فراہمی ہوسکے۔
  • زراعت:ڈاکٹر مرسی نے زراعت کے محاذ پر خصوصی توجہ دی،۴۴ہزار کسانوں کو مالی امداد دی۔ بیج اور کھاد کی سبسڈی بڑھائی ، آب پاشی کی سہولیات کو کسان دوست بنایا۔ اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لیے بیج اور کھاد پر تحقیق کے لیے کئی ریسرچ پروجیکٹ شروع کیے اور ۲۰۲۰ء تک مصر کو اجناس کے تعلق سے خود کفیل بنانے کا ہدف رکھا، اور پہلے ہی برس گیہوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔

سوڈان کے ساتھ مل کر ایک ایسے زرعی منصوبے کی بنیاد رکھ دی کہ مکمل ہوجائے تو ۲۰لاکھ ایکڑ بے آباد سوڈانی زمین مصر کے لیے غلہ اُگانے لگے۔ ۶لاکھ۶۰ ہزار ایکڑ کا ایک اور ۳لاکھ ۶۶ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا، جس کے تحت زمین کاشت کاروں کو ۵ سے ۱۱۰ ؍ایکڑ زمین مل جاتی اور وہ خود کفیل ہوجاتے۔

  • تعلیم:تعلیم ڈاکٹر مرسی کی دلچسپی کا خاص محاذ تھا۔ قاہرہ یونی ورسٹی میں اپنے پہلے خطاب میں انھوں نے طلبہ و اساتذہ کو مخاطب کرکے تعلیمی محاذ پر جنگی پیمانے پر کام کا وعدہ کیا۔ پرائمری اور ثانوی درجات کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ، اس کے نصابِ تعلیم کو اخلاقیات سے آراستہ کرنے کے لیے انقلابی تبدیلیاں کیں۔ ملکی یونی ورسٹیوں کی اسناد کو بیرونِ ممالک کی یونی ورسٹیوں سے تسلیم کرایا۔ سائنس و ٹکنالوجی کے اعلیٰ سطحی اداروں کے قیام کے لیے کئی نئے پروجیکٹ شروع کرائے، اور فوری طور پر اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کیا۔
  • اُمت مسلمہ کی وحدت:اُمت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی گئی۔ سعودی عرب، قطر، ایران، ترکی اور پاکستان سے رابطے بڑھانا، فلسطینیوں کی کھل کر مدد کرنا، شام میں خو نریزی کو روکنے کے لیے کوشش کرنا، سب اسی گوہرِ مقصود کو حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اسلامی نظریات کی حامل کوئی تحریک ہی یہ کارنامہ انجام دے سکتی تھی ورنہ کہنے کو مسلمان حکمران اور جماعتیں تو پہلے سے کافی تعداد میں موجود ہیں۔
  • بدعنوانی پر قدغن:انتظامی اداروں میں سود، رشوت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کی، تاکہ معاشرے کو استحصالی لعنتوں سے چھٹکارا ملے۔ ان لعنتوں کے خلاف مہم جوئی کا دعویٰ ہرحکومت کرتی ہے مگر جرأت مندانہ اقدامات کم ہی کرپاتی ہیں۔
  • اسلامی تہذیب کا فروغ:اسلامی تہذیب و اقدار کے فروغ کے لیے ایک طرف ازہر یونی ورسٹی کے وقار کو بڑھانے کی سعی کی، تو دوسری طرف دینی و دعوتی اداروں اور مساجد کے نظام کو کھل کر کام کرنے کے مواقع بہم پہنچائے، تاکہ عوام تک قرآن و سنت کا شیریں پیغام تیزی سے پہنچ سکے اور معاشرہ اسلامی تہذیب و اقدار کا جیتا جاگتا نمونہ بن جائے۔ نظامِ تعلیم میں اخلاقی اقدار کا نفوذ مرسی دور کی قابلِ ذکر کوشش ہے۔ ایک ہی سال میں دن رات محنت کرکے ابتدائی و ثانوی درجات کے نصاب کو اَزسرنو مرتب کرایا۔
  • ذرائع ابلاغ کی اصلاح:معاشرے میں فساد اور تہذیبی قدروں کی پامالی میں سب سے بڑا کردار ذرائع ابلاغ کا ہوتا ہے۔ محمد مرسی نے ایک طرف ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی بخشی تو دوسری طرف اپنی وزارتِ اطلاعات کے ذریعے بارہا اخلاقی حدود کی پاسداری کی باربار تلقین کی۔
  • ظلم سے نجات:مرسی نے زمامِ اقتدار سنبھالی تو اس وقت ہزاروں افراد بلاکسی جرم کے جیلوں میں بند تھے۔ نظامِ عدل کا تقاضا یہ تھا کہ انھیں ظلم سے نجات دلائی جائے۔ اوّلین فرصت میں ایسے ہزاروں افراد کو رہائی دلائی اور ان کی دُعائیں حاصل کیں۔
  • خدمتِ خلق:مرسی حکومت کا امتیاز یہ رہا کہ یہ حاکم کے بجائے ہرجگہ خادم نظر آتی۔ عوام کی خدمت ہی ہمیشہ مطمح نظر رہی۔ تعلیم، صحت اور زراعت میں ان کی خدمات عوام کی زبان پر تھیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہرضرورت کی تکمیل، ہرمشکل کا حل، ہردرد کا مداوا ان کے ذمہ تھا۔  قائد، کارکن، صدر اور وزیر اسی جذبے سے سرشار نظر آتا کہ وہ اپنے بھائی کی کوئی خدمت انجام دے، اللہ کے یہاں سرخرو ہوجائے۔

تجزیہ

داخلی، خارجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں اخوان کے یک سالہ دورِ حکومت میں جو اُمور انجام پائے ان کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔ کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کا احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔ ان مثالوں میں یہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک اسلامی نظریہ کی حامل انقلابی تحریک کو بے مہار تہذیب، اور سیاست کو اسلامی عقیدہ و اخلاق سے آراستہ کرنے اور دُنیا کے سامنے ایک مثالی تہذیب اور سیاست کا نمونہ پیش کرنے کا موقع ملا تو اس تحریک نے اس کا کس حد تک حق ادا کیا۔

ایک سال کی قلیل مدت میں اتنے محاذوں پر کام کا آغاز بجائے خود بہت بڑی کامیابی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی جو ہدف لے کر آگے بڑھے، وہ طاغوتی طاقتوں کو کسی طرح بھی راس آنے والا نہ تھا۔ شیطانی قوتوں کو سب سے زیادہ یہ خوف ستاتا رہا کہ اگر اسلامی اخلاقیات اور اقدار کی لذت سے دُنیا ایک بار پھر آشنا ہوگئی، تو ان کے لیے یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے صدر ڈاکٹر محمدمرسی کے قدم اُکھاڑنے کے لیے کسی لمحہ کوئی کسر نہ چھوڑی اور ایک سال کے بعد اس حکومت پر شب خون مارا۔ اگر ان کے فیصلوں اور اقدامات کو زمین پر برگ و بار لانے کا موقع ملا ہوتا تو لازماً دُنیا ایک رفاہی اسٹیٹ کا مشاہدہ کرتی، اور اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوتے مگر ظالموں نے ان غنچوں کو بغیر کھلے ہی مَسل کر رکھ دیا۔ تاہم، یہ ابتدائی نقوش بھی بہت مبارک ہیں اور نظریاتی تحریکات کے لیے اس میں بھی بڑا پیغام ہے۔اسلام کے حوالے سے تہذیب و سیاست کی تعمیر کے لیے جو لوگ بھی اُٹھیں گے نمرود کی آگ ان کے دامن کو ضرور چھو ئے گی۔ ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی جماعت نے جس عزیمت کا مظاہرہ کیا ہے ، یہ تحسین کے مستحق ہیں۔