کسی بڑے مقصد اور انقلابی نصب العین کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ قرار دینے والوں سے اس کے بہت سے مطالبات ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین مطالبے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:
نصب العین جتنا بلندہوگا، اس کی نسبت سے ان تینوں اجزاء کی اہمیت اور ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی۔ اگر نصب العین بلند بھی ہو اور ساتھ ہی اپنی نوعیت میں منفرد بھی، تو اس کے تعلق سے ان تینوں امور کی اہمیت اور ضرورت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ ایسی انتہا کو، جس کے آگے کوئی اور حد شاید باقی بچی نہ ہوگی۔
ایک اسلامی تحریک، یعنی اللہ کے دین کی شہادت، نصرت اور اقامت کی تحریک ایسا ہی ایک بلند اور منفرد و ممتاز نوعیت کا نصب العین رکھنے والی تحریک ہوتی ہے۔ نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف وہی ایک ایسی تحریک ہوتی ہے، جسے واقعی بلند انقلابی اور شان دار انفرادیت رکھنے والی تحریک کہاجاسکتا ہے۔
ہم اور آپ ایسی ہی ایک دعوت اور تحریک سے وابستہ ہیں۔ پھر یہ کسی اور کے کہنے سے نہیں ، بلکہ اپنی آزاد مرضی سے ’خودگرفتارآمدی‘ کی قدیم رسم دُہرائی ہے اور جرأت کے ساتھ پُرعزم لہجے میں اس کا اعلان بھی کیے ہوئے ہیں، اور یہ جانتے ہوئے کیے ہوئے ہیں کہ اگر یہ دنیا جہان کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا شرف ہے، تو ساتھ ہی ایسا عہدِ وفا بھی ہے جس کا سچا احساس، دلوں کا سکون درہم برہم کیے اور دنیا کی لذتوں کو ڈھاکر رکھ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ جس کے حق کی ادائیگی اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اس کے لیے یکسو نہ ہوجائے اور ان تمام سرگرمیوں، مشغولیتوں اور دلچسپیوں سے دست کش نہ ہورہے، جو اس کے حقیقی تقاضوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہ رکھتی ہوں۔
ہمارے اس اعلان اور عہدِوفا کا یہ کھلا تقاضا ہے کہ اپنے نصب العین کے ان تینوں اوّلین اور بنیادی مطالبات کی طرف سے اپنے اوپر کبھی غفلت نہ طاری ہونے دیں، جن کی ابھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس وقت میری معروضات کا دائرہ صرف ایک مسئلہ یعنی دعوت کے صحیح فکرو فہم، دوسرے لفظوں میں دعوت کی فکری سلامتی تک محدود رہے گا۔
اس ضمن میں یہ حقیقت پہلے ہی سے واضح رہنی چاہیے کہ صحیح دعوتی فکرو فہم کے مفہوم میں دعوت و تحریک کی مزاج شناسی بھی لازماً شامل ہے۔ کیونکہ کسی دعوت کا فطری علم و فہم اس وقت تک اس کا صحیح اور واقعی علم و فہم کہلانے کا مستحق ہوہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مزاج شناسی کی کیفیت نہ پیدا ہوگئی ہو۔
دعوت کی مزاج شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فرد کے دل و دماغ میں دعوت کی روح اس طرح رَچ بس گئی ہو اور اس کے حقیقی تقاضوں کا اندازہ کرلینے کی ایسی استعداد بہم پہنچ گئی ہو، کہ جب اس کے سامنے کسی تحریکی قدم کے اٹھانے یا نہ اٹھانے کا، یا قریبی نوعیت کے دو رُخوں میں سے ایک کو موزوں اور مناسب قرار دینے کا سوال آکھڑا ہو، تو اس کا دعوتی وجدان کسی بحث و تمحیص کے بغیر آپ سے آپ بتادے اور کم و بیش نوّے فی صد بالکل صحیح بتادے، کہ اس سوال کا جواب یہ ہے۔ یہیں پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ گوہرِ گراں مایہ کیسے ہاتھ آتا ہے؟ دعوت و تحریک کا مزاج شناس کس طرح بنا جاسکتا ہے؟ بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ دعوت کی مزاج شناسی اس کے نصب العین کے تقاضوں پر گہرے غوروفکر سے اور اس دعوت کے اعلیٰ ترین معیاری و مثالی علَم برداروں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں اور ان کی دعوتی سرگزشتوں کے گہرے اور وسیع مطالعے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیے، دعوت کاصحیح علم وفہم اور اس کی مزاج شناسی وہ لنگر ہے، جس کے بغیر ہم حالات کے دھارے میں اپنی کشتی کو نہ محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور نہ صحیح سمت میں آگے بڑھاسکتے ہیں۔ سطح پر دکھائی دینے والی ہماری تحریکی سرگرمیاں اس دعوت کے صحیح فہم و شعور اور اس کے حقیقی مزاج سے جتنی زیادہ ہم آہنگ ہوںگی، ان کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوںگے۔ اسی طرح یہ ہم آہنگی جتنی کم ہوگی، منزل مقصود کی طرف پیش قدمی اتنی ہی کم بلکہ ناقابل اعتبار ہوگی۔ دعوت کے حقیقی مزاج اور مصالح کو نظرانداز کرکے جو بھی تگ و دو کی جائے گی، وہ بہت سے گوشوں سے داد و تحسین تو شاید حاصل کرلے گی، لیکن اُس میں ربِ کائنات کی تائید شامل نہ ہوگی، جس کے بغیر کوئی تحسین، تحسین نہیں رہ جاتی۔ اس لیے اس حقیقت کو ہر آن تازہ رکھنا چاہیے کہ دعوت کا صحیح علم و فہم اور اس کا حقیقی مزاج جب بھی نظرانداز ہوجائے گا تو وہ صرف کھونے کا وقت ہوگا، اس میں کچھ بھی پایا نہ جاسکے گا۔ اور یہ بات بھی اس دعوت کی انفرادیت کی شان کا ایک امتیازی مظہر ہے۔
دوسری تحریکیں خصوصاً یکسر غیراسلامی تحریکیں، اپنا مزاج پسِ پشت ڈال دیے جانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور اور باہم مخالف ہونے کے باوجود سب کی سب ’غیراسلامی‘ ہوتی ہیں اور ’غیراسلام‘ پورے کا پورا’ملت واحدہ‘ ہوتاہے۔ ’ملت واحدہ‘ کے مختلف اجزا میں بہت کچھ یا کم از کم کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہونا چاہیے، اور یقینا و لازماً ہوتا بھی ہے۔ اس لیے کفر یاغیراسلام کی کوئی بھی تحریک اپنے محور سے چاہے جتنی بھی ہٹا دی جائے اور اس کے اصل مقصد اور مزاج میں خواہ جیسی بھی آمیزش کردی جائے، اسے اپنے تئیں یہ سمجھے رہنے کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی، کہ وہ اپنے اعلان کردہ مقصد اور نصب العین سے بدستور وابستہ ہے۔ مگر کسی اسلامی تحریک کے بارے میں ایسی کسی گنجائش کا خیال یا امکان بالکل ہی ناقابلِ تصور ہے کہ وہ اسلامی مقصد اور مزاج اور اخلاقیات میں غیر اسلامی فکروعمل کو ملانے کے بعد بھی اپنے آپ کو اسلامی تحریک کہہ یا سمجھ سکے۔
میں اس وقت اسلامی تحریکوں کے صحیح مزاج اور ان کے مخصوص اندازِ فکر و عمل کے دو ایک نمایاں اور اہم پہلوئوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالے دے رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس سے بات کو سمجھ لینے میں کافی آسانی ہوجائے گی:
پہلی بات تو یہ کہ اسلامی تحریک کا مزاج نہایت احتیاط اور پوری مضبوطی کے ساتھ قدم جماکر چلنے اور آگے بڑھنے کا ہوتاہے۔ غیرمحتاط دوڑ لگانے کا نہیں ہوتا، بالخصوص اپنے ابتدائی مراحل میں تو وہ ایسی جلدبازی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔کیونکہ اسے نظامِ دین حق کی جو عمارت بنانی ہے اور جس کا ماڈل اس کے سامنے صرف چودہ صدیوں قبل کا مدنی ماڈل ہے۔ یہ عمارت کچی پکی اینٹیں اُوپر تلے رکھتے چلے جانے اور اوپر سے سفیدی پھیردینے سے نہیں بن سکتی۔ ایسی بودی تعمیر تو حوادث کا ایک معمولی جھکڑ بھی برداشت نہیں کرسکتی، اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوکر رہ جانے والی ہوگی۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلے اس کا ایک سبق آموز مشاہدہ کراچی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ جہاں تحریک اسلامی ملک کے سب سے بڑے شہر پر بظاہر پوری طرح چھاگئی تھی، مگر یکایک ایک لسانی قوت کے طوفان نے اُٹھ کر اس طرح پانی پھیر دیاکہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ حیرت انگیز المیہ ہر گز ظہور میں نہیں آسکتاتھا، اگر وہاں تحریک نے اپنی دعوت کا سپاہی اور علَم بردار صحیح ، سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے بنایا ہوتا، اور پوری توجہ اور مسلسل کوششوں سے کام لے کر ان کے دلوں میں حق کی سچی محبت اتاری ہوتی۔ ایسی محبت کہ جسے کوئی بھی نسلی، لسانی، طبقاتی یا علاقہ جاتی رشتہ زیرکرلینے کا بل بوتہ نہ رکھتا۔
دوسری بات یہ کہ اسلامی تحریک کے رفقائے کار کی طرح اس کی سوچ بھی حددرجہ صابرانہ، مدبرانہ اور منضبط ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنی ہی بات کا خیال اور اہتمام نہیں رکھتی کہ اپنے صحیح مزاج ومفاد کے مخالف کوئی فکری یا عملی روش نہ اختیار کربیٹھے۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے کہ ان کاموں سے بھی بہت دنوں تک اپنے کو روکے رکھے، جو اس کے مزاج و مفاد کے برعکس اور مخالف نہ ہوں بلکہ خود اسے مطلوب ہی ہوں۔ حق کے عین مطابق اور فرض کی حد تک مطلوب ہوں، مگر ان کی انجام دہی کا ابھی ٹھیک وقت اور موقع نہ آیا ہو۔
مثال کے طورپر ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘ کی بات کو لے لیجیے۔ ان دونوں اعمالِ خیر کے بلند پایہ ہونے سے ہم سب واقف ہیں۔ تمام اعمال میں یہ افضل ترین اعمال ہیں۔ یہ ایمان اور غیرایمان میں فرق وامتیاز کی کسوٹی ہیں۔ لیکن اللہ رب العالمین کے ایک پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے مسلسل انکار سے تنگ آکر جب ہجرت کربیٹھے، تو یہ ہجرت ان کے لیے اجرو ثواب کا موجب بننے کے بجائے الٹے اللہ کے سخت عتاب کا موجب بن گئی۔ اور ایسا صرف اس وجہ سے ہواکہ وہ یہ اقدام وقت سے کچھ پہلے کربیٹھے تھے۔
اسی طرح جب قریش کے مسلسل مظالم کے باعث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کے صبر کا پیمانہ چھلکنے پر آگیا اور یہ دیکھ کر انھیں ضبط کا یارا نہ رہ گیا۔ پھر مدینہ ہجرت کرکے آجانے کے بعد بھی ان ظالموں کی خشمگیں نگاہیں ان بے بس اور مظلوم صحابہؓ کے تعاقب سے باز نہیں آرہی تھیں، دوسری طرف جو کمزور اور بے بس اہل ایمان مکہ سے نکل آنے کی کوئی سبیل نہیں پاسکے تھے،ان پر ان کی مشق ستم بدستور جاری رہی بلکہ اس میں کچھ اور شدت ہی آچکی۔ اِدھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آکر انھیں ایک آزاد ماحول و مقام بھی میسر آچکاتھا اور اس بے چارگی سے نجات مل چکی تھی، جس میں وہ پہلے مکہ کے دارالعذاب میں گرفتار تھے۔ اس لیے ان کے دلوں میں اب اس ظلم کے پنجہ کو مروڑ کر رکھ دینے کے جذبات ابھر آئے، جو ایک فطری بات تھی۔ ان جذبات کا زبانوں سے اظہار بھی ہونے لگا۔ صورت حال کو اس موڑ پر پہنچتے دیکھ کر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ہدایت آئی:
كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ ۰ۚ (النساء۴:۷۷)(نہیں، ابھی) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ہاتھوں کو روکے رکھنے‘‘ کا یہ حکم واضح اور صریح طورپر صرف اس لیے تھا کہ اس کے نزدیک ابھی اس اقدام کا ٹھیک وقت اور صحیح موقع نہیں آیاتھا۔ کیوں اور کن وجوہ سے نہیں آیاتھا؟
اس سوال پر اگر گہرائی اور تفصیل سے غور کیاجائے، تو ذہن کئی اور باتوں کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ مگر اس طرح کی کسی کاوش سے کام لینے کی اس وقت کوئی خاص ضرورت نہیں۔ وہی ایک وجہ اس ہدایتِ خداوندی کی ضرورت اور حکمت سمجھادینے کے لیے کافی ہے، جس کی طر ف كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کے بعد کے لفظوں وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ نے خود رہنمائی کردی ہے، یعنی یہ کہ جنگی اقدام کرنے سے قبل تم اہل ایمان کو بحیثیت مجموعی اپنی معنوی قوت کو مزید سدھار اور نکھار لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے دین وخداپرستی کی دونوں عملی بنیادوں، یعنی اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ کی طرف پوری طرح متوجہ رہ کر، حتی الوسع اس ضرورت کا حق ادا کرلو۔ تب وہ وقت آئے گا، جب دین کے دشمنوں کے خلاف تمھارے اٹھنے والے ہاتھ کامیاب و بامراد ہوں گے۔ اس سے پہلے تمھارا میدان میں کُود پڑنا، بے وقت، نامناسب اور حکمت و احتیاط کے خلاف ہوگا اور ناکامی اور زیاں کاری کے اندیشوں کی مسلسل زد میں رہے گا۔
اِن دو تین واقعاتی مثالوں میں ہمارے لیے روشنی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔
اس روشنی میں ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صحیح معنوں کی اسلامی تحریک، جہاں اپنے افراد کی ایمانی، اخلاقی، عملی اور دعوتی تربیت کا مسلسل اہتمام رکھتی ہے اور انھیں اپنے نصب العین کا سچا اور یکسو وحنیف داعی اور مخلص و جانباز سپاہی بنائے رکھنے کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہتی، وہیں اپنے جماعتی طریق کار اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی حددرجہ محتاط اور عاقبت اندیش ہوتی ہے۔ وہ کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کرتی، جو اس کےصحیح مزاج و مفاد سے میل نہ کھاتی ہو، عجلت پسندی سے کام نہیں لیتی، سطحیت اور ظاہر بینی کے قریب نہیں جاتی، قدموں کو مضبوطی سے جمائے بغیر آگے بڑھ جانے کی بے بصیرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی، حتیٰ کہ اچھے اور شرعاً مطلوب و محمود سرگرمیوں اور کاموں کو بھی اس وقت تک اپنی عملی جدوجہد کا ہدف بنالینے سے صبر وضبط کے ساتھ رکی رہتی ہے، جب تک کہ اس کا صحیح موقع نہ آجائے۔
یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر ہمیں چلنا اور چلتے رہنا ہے۔ مگر معلوم رہنا چاہیےکہ راستہ ہموار اورکھلاہوا نہیں ہے۔ طرح طرح کے مخالف عوامل سے اَٹا ہواہے۔ ان میں سے تین عوامل اپنی بے پناہ قوتِ مخالفت کے باعث خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتاہے کہ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرلی جائے:
۱- پہلا مخالف عامل تو وہی جذبۂ عجلت پسندی ہے، جو اور سبھی افراد انسانی کی طرح ہماری سرشت میں بھی رچا بسا ہے اور جو کبھی نچلا نہیں بیٹھاکرتا۔ ابھی آپ واقعات کی زبان سے سن چکے ہیں کہ کتنی عظیم شخصیتوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ باز نہیں رہا۔ لہٰذا، انتہائی ضروری ہے کہ پوری پامردی سے اس کا مقابلہ کیاجاتا رہاہے، اور اس کے جال میں پھنسنے سے پوری ہوشیاری سے اپنے کو بچائے رکھاجائے، اورپوری طرح سنبھل کر چلاجائے۔ اس کی پروا بالکل نہ کی جائے کہ قدم تھوڑے ہی آگے بڑھ پارہے ہیں۔ پروا اس کی رکھی جائے کہ جو قدم بھی اٹھیں اور آگے بڑھیں وہ پوری مضبوطی اور جمائو کے ساتھ اُٹھیں اور درست سمت میں آگے بڑھیں۔
۲- دوسرا عامل موجودہ ’جاہلیت‘ کی طوفانی یلغار کا ہے۔ یہ جاہلیت ہمیشہ ہی اللہ کے دین اور اس کی دعوتوں کی راہ روکتی ہے، لیکن پرانے زمانے کی جاہلیتوں کا دائرہ اثر محدود ہوا کرتا تھا۔ وہ فکری اعتبارسے کچھ زیادہ جان دار بھی نہیں ہواکرتی تھیں۔ ان کا تانا بانا بھی سادہ بلکہ پھُسپھُسا ہواکرتا تھا، جب کہ آج کی جاہلیت، معاذاللہ اس کا غلبہ و تسلط اتنا آفاق گیر ہے کہ بحرو بر کا کوئی گوشہ اس سے بچا ہوا نہیں رہ گیا ہے۔ یہ نظری، علمی اور فلسفیانہ دلائل سے بھی پوری طرح سے مسلح ہے، اور معاشی، صنعتی ، سائنسی، سیاسی، حربی قوتوں سے پوری طرح لیس ہے۔ ساری دنیا اس کے ہاتھوں میں مجبور اور قیدی بنی ہوئی ہے۔ زندگی کے کسی میدان میں بھی فکر وعمل کی جوراہیں وہ متعین کردیتی ہے، مجبوراً سبھی کو اسی پر چلنا ہوتا ہے۔ اس سے بالکل ہٹ کر کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیاجاسکتا اور اگر تجویز ہو بھی گیا تو اس پر چلنے والوں کو آنکھیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک یا قوم اپنی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خاص لائحۂ عمل اپنانا یا اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی نئی تحریک چلانا چاہتی ہے، تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس غالب تہذیب اور جابرانہ نظام کے فکرو فلسفہ سے اس کی سندِ توثیق حاصل کرے۔ یہ سندِ توثیق اسے حاصل اسی وقت ہوسکے گی، جب اس کے بنیادی مقاصد اور اصولِ کار اس کے لیے اگر پسندیدہ نہیں تو کم از کم قابل گوارا تو ضرورہی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیاگیا ، کسی تحریک یا جماعت نے وقت کے اس جاہلیت پر مبنی حکمرانی نظام کی پسند اور ناپسند کی پروا نہ کی، اور اپنی مرضی کی آپ مالک بنے رہنے کے عزم کا اعلان کرتی رہی تو کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ اپنے اس عزم اور اعلان کابھرم کب تک قائم رکھ سکے گی۔
کسی اور طرح کے نظامِ نو کی حد تک تو یہ ممکن بھی ہے کہ یہ نظامِ جاہلیت اس کے سلسلہ میں کچھ نرمی اور چشم پوشی سے کام لے لے۔ لیکن اس نظام کے بارے میں ، جسے اسلامی نظام کہتے ہیں، اور اس تحریک کے معاملے میں جو اسلامی یا اقامتِ دین کی تحریک ہوتی ہے، اس جاہلیت کے نظام کے یہاں کسی نرمی، کسی چشم پوشی اور کسی رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاہلیت اس کی راہ روکنے، اس کی تصویر مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتےر ہنے کے ساتھ، اس پر الزامات اور تہمتوں کی مسلسل باڑ مارتے رہنے کی ایسی مہم چلادیتی ہے۔ علانیہ بھی اور خفیہ بھی، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی، حتیٰ کہ خود نام نہاد مسلم حکمرانوں اور دانش وروں کے ذریعے بھی، کہ خود اسلامی تحریک کے کارکنوں اور لیڈروں کے اعصاب بسااوقات جواب دینے لگتے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے اور پُرشور ماحول میں ہمیں کتنی مضبوطی ، کتنی ثابت قدمی، کتنی حکمت، کتنے تدبر اور کتنی عزیمت سے کام لینے کی ضرورت ہے؟اس کا اندازہ ہم میں سے ہر شخص بآسانی خود لگا سکتا ہے۔
۳- تیسرا مخالف عامل امت مسلمہ کی بالعموم، اور ملت اسلامیہ کی بالخصوص ، وہ زبوں حالی ہے جس سے وہ ان دنوں دوچار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا، پریشانیوں اور محرومیوں کا، بے چارگیوں اور پست حالیوں کا ایک طوفان ہے جو اسے بری طرح گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اس ملت میں جو تھوڑے بہت حساس اور دھڑکنے والے دل ہیں، وہ بھی بری طرح پریشان ہیں کہ آخر اس حالتِ زار کا کیا علاج کیاجائے اور کیسے کیاجائے؟ زخم، گہرے گہرے زخم، دوچار نہیں، ہزاروں ہیں۔ پورا جسد ِملی چھلنی بناہوا ہے۔ مرہم کہاں کہاں رکھاجائے!
یہ صورت حال اسلامی تحریکوں کے اپنے بنیادی اور حقیقی موقف کے لیے بڑی سخت آزمائش بن رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملّت کی اس زبوں حالی کا صحیح اور کارگر علاج ان کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے اپنے بھولے ہوئے اور پس پشت ڈالے ہوئے مقصدِ وجود کو پھر سے اپنالینااور اسی کا بن کر رہ جانا چاہیے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی اسلامی تحریکیں اس خوداعتمادی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہیں اور خود اپنی جگہ چھوڑتی جارہی ہیں۔
انھوںنے حالات کے غیرمعمولی دبائو اور ملت کے حالِ زار سے غلط انداز میں متاثر ہوکر اس کے علاج کے لیے اُن ہی تدبیروں کی طرف لپکنا شروع کردیا جو خدااور دین، کتاب اور سنت کی رہنمائیوں اور پابندیوں سے آزاد افراد اور جماعتیں اختیارکیاکرتی ہیں۔ بعض بڑی اور اہم تحریکیں تو اس جھونک میں اتنی تیزی سے آگے بڑھتی اور اپنا رنگ بدلتی جارہی ہیں کہ ان پر دینی اور اسلامی تحریک ہونے کا گمان کم،اور علاقائی یا قومی تحریک ہونے کا گمان زیادہ ہونے لگتاہے۔
مشکل یہ ہے کہ قومیت بالعموم ہمیشہ ہی سکہ رائج الوقت رہی ہے اور اب تو اس کی مقبولیت ایمان وعقیدت کامقام حاصل کرچکی ہے۔ ایک طرف تو یہ جذبۂ قومیت افراد کی فطرت کا ایک قوی ترین جذبہ ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ منہ زور بھی۔ یہ جب بھڑکنے پر آجاتاہے تو حق و صداقت کی بڑی سے بڑی چٹانوںکو بھی بہالے جاتا ہے۔ دوسری طرف عالمی پیمانہ پر وہی ہر ملک اور ہر قوم کی حیاتِ اجتماعی کا مرکز بناہوا ہے۔ یعنی افراد نے بھی اپنے انفرادی دائروں میں اسے تقدس کی حد تک عقیدت کا مستحق تسلیم کررکھا ہے اور قوموں نے بھی اپنے اجتماعی دائروں میں سب سے اونچا مقام دے رکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس کے اشاروں میں بلاکی کشش ہوتی ہے۔ اس کی پذیرائی دادوتحسین کے نذرانے پیش کرایا کرتی ہے،اس کی علَم برداری لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنادیاکرتی ہے۔
دوسری طرف دین کی طرف اور دین کی اقامت کے لیے بلانے والوں کا، اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا استقبال کسی اور ہی انداز میں ہوتا ہے۔ ہوتارہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ ایک مدت تک صحرا میں صدا لگاتے رہنے کے بعد اگر کروڑوں پر مشتمل ملت اسلامیہ میں سے چند ہزار ساتھی بھی نہ مل سکیں اور اس بنا پر تحریک کے علَم برداروں اور کارکنوں کے دل و دِماغ بھی تکان اور بے کیفی و بددلی محسوس کرنے لگ جائیں، ان کی سوچ میں غیرمحسوس طورپر تغیر راہ پالے۔ قوم کی محبت حقیقی نہیں، معروف معنوں کی محبت، انھیں اپنے خیمے کی طرف کھینچنے لگے اور وہ بھی کھنچتے نظر آنے لگیں، تو یہ بات چاہے کتنی ہی قابلِ افسوس ہو، مگر اسے خلاف توقع اور اَنہونی نہیں کہا جاسکتا۔
حق کی راہ میں حائل ان خاص موانع کی طرف خصوصی توجہ درکارہے جو انتہائی صبرو ہمت آزما ہی نہیں، ایمان و یقین آزما بھی ہیں۔