صدر الدین اصلاحیؒ


کسی بڑے مقصد اور انقلابی نصب العین کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ قرار دینے والوں سے اس کے بہت سے مطالبات ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین مطالبے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:

  • ایک تو اس نصب العین کے صحیح فکرو فہم کامطالبہ،
  • دوسرا اس کے صحیح طریقۂ کار پر مضبوطی سے جمے رہنے کامطالبہ،
  • تیسرا اس کے لیے صحیح جذبۂ عمل کو پیہم بیدار رکھنے کامطالبہ۔

نصب العین جتنا بلندہوگا، اس کی نسبت سے ان تینوں اجزاء کی اہمیت اور ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی۔ اگر نصب العین بلند بھی ہو اور ساتھ ہی اپنی نوعیت میں منفرد بھی، تو اس کے تعلق سے ان تینوں امور کی اہمیت اور ضرورت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ ایسی انتہا کو، جس کے آگے کوئی اور حد شاید باقی بچی نہ ہوگی۔

ایک اسلامی تحریک، یعنی اللہ کے دین کی شہادت، نصرت اور اقامت کی تحریک ایسا ہی ایک بلند اور منفرد و ممتاز نوعیت کا نصب العین رکھنے والی تحریک ہوتی ہے۔ نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف وہی ایک ایسی تحریک ہوتی ہے، جسے واقعی بلند انقلابی اور شان دار انفرادیت رکھنے والی تحریک کہاجاسکتا ہے۔

ہم اور آپ ایسی ہی ایک دعوت اور تحریک سے وابستہ ہیں۔ پھر یہ کسی اور کے کہنے سے نہیں ، بلکہ اپنی آزاد مرضی سے ’خودگرفتارآمدی‘ کی قدیم رسم دُہرائی ہے اور جرأت کے ساتھ پُرعزم لہجے میں اس کا اعلان بھی کیے ہوئے ہیں، اور یہ جانتے ہوئے کیے ہوئے ہیں کہ اگر یہ دنیا جہان کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا شرف ہے، تو ساتھ ہی ایسا عہدِ وفا بھی ہے جس کا سچا احساس، دلوں کا سکون درہم برہم کیے اور دنیا کی لذتوں کو ڈھاکر رکھ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ جس کے حق کی ادائیگی اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اس کے لیے یکسو نہ ہوجائے اور ان تمام سرگرمیوں، مشغولیتوں اور دلچسپیوں سے دست کش نہ ہورہے، جو اس کے حقیقی تقاضوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہ رکھتی ہوں۔

ہمارے اس اعلان اور عہدِوفا کا یہ کھلا تقاضا ہے کہ اپنے نصب العین کے ان تینوں اوّلین اور بنیادی مطالبات کی طرف سے اپنے اوپر کبھی غفلت نہ طاری ہونے دیں، جن کی ابھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس وقت میری معروضات کا دائرہ صرف ایک مسئلہ یعنی دعوت کے صحیح فکرو فہم، دوسرے لفظوں میں دعوت کی فکری سلامتی تک محدود رہے گا۔

اس ضمن میں یہ حقیقت پہلے ہی سے واضح رہنی چاہیے کہ صحیح دعوتی فکرو فہم کے مفہوم میں دعوت و تحریک کی مزاج شناسی بھی لازماً شامل ہے۔ کیونکہ کسی دعوت کا فطری علم و فہم اس وقت تک اس کا صحیح اور واقعی علم و فہم کہلانے کا مستحق ہوہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مزاج شناسی کی کیفیت نہ پیدا ہوگئی ہو۔

دعوت و تحریک کی مزاج شناسی

دعوت کی مزاج شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فرد کے دل و دماغ میں دعوت کی روح اس طرح رَچ بس گئی ہو اور اس کے حقیقی تقاضوں کا اندازہ کرلینے کی ایسی استعداد بہم پہنچ گئی ہو، کہ جب اس کے سامنے کسی تحریکی قدم کے اٹھانے یا نہ اٹھانے کا، یا قریبی نوعیت کے دو رُخوں میں سے ایک کو موزوں اور مناسب قرار دینے کا سوال آکھڑا ہو، تو اس کا دعوتی وجدان کسی بحث و تمحیص کے بغیر آپ سے آپ بتادے اور کم و بیش نوّے فی صد بالکل صحیح بتادے، کہ اس سوال کا جواب یہ ہے۔ یہیں پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ گوہرِ گراں مایہ کیسے ہاتھ آتا ہے؟ دعوت و تحریک کا مزاج شناس کس طرح بنا جاسکتا ہے؟ بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ دعوت کی مزاج شناسی اس کے نصب العین کے تقاضوں پر گہرے غوروفکر سے اور اس دعوت کے اعلیٰ ترین معیاری و مثالی علَم برداروں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں اور ان کی دعوتی سرگزشتوں کے گہرے اور وسیع مطالعے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیے، دعوت کاصحیح علم وفہم اور اس کی مزاج شناسی وہ لنگر ہے، جس کے بغیر ہم حالات کے دھارے میں اپنی کشتی کو نہ محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور نہ صحیح سمت میں آگے بڑھاسکتے ہیں۔ سطح پر دکھائی دینے والی ہماری تحریکی سرگرمیاں اس دعوت کے صحیح فہم و شعور اور اس کے حقیقی مزاج سے جتنی زیادہ ہم آہنگ ہوںگی، ان کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوںگے۔ اسی طرح یہ ہم آہنگی جتنی کم ہوگی، منزل مقصود کی طرف پیش قدمی اتنی ہی کم بلکہ ناقابل اعتبار ہوگی۔ دعوت کے حقیقی مزاج اور مصالح کو نظرانداز کرکے جو بھی تگ و دو کی جائے گی، وہ بہت سے گوشوں سے داد و تحسین تو شاید حاصل کرلے گی، لیکن اُس میں ربِ کائنات کی تائید شامل نہ ہوگی، جس کے بغیر کوئی تحسین، تحسین نہیں رہ جاتی۔ اس لیے اس حقیقت کو ہر آن تازہ رکھنا چاہیے کہ دعوت کا صحیح علم و فہم اور اس کا حقیقی مزاج جب بھی نظرانداز ہوجائے گا تو وہ صرف کھونے کا وقت ہوگا، اس میں کچھ بھی پایا نہ جاسکے گا۔ اور یہ بات بھی اس دعوت کی انفرادیت کی شان کا ایک امتیازی مظہر ہے۔

دوسری تحریکیں خصوصاً یکسر غیراسلامی تحریکیں، اپنا مزاج پسِ پشت ڈال دیے جانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور اور باہم مخالف ہونے کے باوجود سب کی سب ’غیراسلامی‘ ہوتی ہیں اور ’غیراسلام‘ پورے کا پورا’ملت واحدہ‘ ہوتاہے۔ ’ملت واحدہ‘ کے مختلف اجزا میں بہت کچھ یا کم از کم کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہونا چاہیے، اور یقینا و لازماً ہوتا بھی ہے۔ اس لیے کفر یاغیراسلام کی کوئی بھی تحریک اپنے محور سے چاہے جتنی بھی ہٹا دی جائے اور اس کے اصل مقصد اور مزاج میں خواہ جیسی بھی آمیزش کردی جائے، اسے اپنے تئیں یہ سمجھے رہنے کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی، کہ وہ اپنے اعلان کردہ مقصد اور نصب العین سے بدستور وابستہ ہے۔ مگر کسی اسلامی تحریک کے بارے میں ایسی کسی گنجائش کا خیال یا امکان بالکل ہی ناقابلِ تصور ہے کہ وہ اسلامی مقصد اور مزاج اور اخلاقیات میں غیر اسلامی فکروعمل کو ملانے کے بعد بھی اپنے آپ کو اسلامی تحریک کہہ یا سمجھ سکے۔

میں اس وقت اسلامی تحریکوں کے صحیح مزاج اور ان کے مخصوص اندازِ فکر و عمل کے دو ایک نمایاں اور اہم پہلوئوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالے دے رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس سے بات کو سمجھ لینے میں کافی آسانی ہوجائے گی:

پہلی بات تو یہ کہ اسلامی تحریک کا مزاج نہایت احتیاط اور پوری مضبوطی کے ساتھ قدم جماکر چلنے اور آگے بڑھنے کا ہوتاہے۔ غیرمحتاط دوڑ لگانے کا نہیں ہوتا، بالخصوص اپنے ابتدائی مراحل میں تو وہ ایسی جلدبازی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔کیونکہ اسے نظامِ دین حق کی جو عمارت بنانی ہے اور جس کا ماڈل اس کے سامنے صرف چودہ صدیوں قبل کا مدنی ماڈل ہے۔ یہ عمارت کچی پکی اینٹیں اُوپر تلے رکھتے چلے جانے اور اوپر سے سفیدی پھیردینے سے نہیں بن سکتی۔ ایسی بودی تعمیر تو حوادث کا ایک معمولی جھکڑ بھی برداشت نہیں کرسکتی، اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوکر رہ جانے والی ہوگی۔

ابھی کچھ ہی عرصے پہلے اس کا ایک سبق آموز مشاہدہ کراچی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ جہاں تحریک اسلامی ملک کے سب سے بڑے شہر پر بظاہر پوری طرح چھاگئی تھی، مگر یکایک ایک لسانی قوت کے طوفان نے اُٹھ کر اس طرح پانی پھیر دیاکہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ حیرت انگیز المیہ ہر گز ظہور میں نہیں آسکتاتھا، اگر وہاں تحریک نے اپنی دعوت کا سپاہی اور علَم بردار صحیح ، سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے بنایا ہوتا، اور پوری توجہ اور مسلسل کوششوں سے کام لے کر ان کے دلوں میں حق کی سچی محبت اتاری ہوتی۔ ایسی محبت کہ جسے کوئی بھی نسلی، لسانی، طبقاتی یا علاقہ جاتی رشتہ زیرکرلینے کا بل بوتہ نہ رکھتا۔

عجلت پسندی سے اجتناب اور دُور اندیشی

دوسری بات یہ کہ اسلامی تحریک کے رفقائے کار کی طرح اس کی سوچ بھی حددرجہ صابرانہ، مدبرانہ اور منضبط ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنی ہی بات کا خیال اور اہتمام نہیں رکھتی کہ اپنے صحیح مزاج ومفاد کے مخالف کوئی فکری یا عملی روش نہ اختیار کربیٹھے۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے کہ ان کاموں سے بھی بہت دنوں تک اپنے کو روکے رکھے، جو اس کے مزاج و مفاد کے برعکس اور مخالف نہ ہوں بلکہ خود اسے مطلوب ہی ہوں۔ حق کے عین مطابق اور فرض کی حد تک مطلوب ہوں، مگر ان کی انجام دہی کا ابھی ٹھیک وقت اور موقع نہ آیا ہو۔

مثال کے طورپر ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘ کی بات کو لے لیجیے۔ ان دونوں اعمالِ خیر کے بلند پایہ ہونے سے ہم سب واقف ہیں۔ تمام اعمال میں یہ افضل ترین اعمال ہیں۔ یہ ایمان اور غیرایمان میں فرق وامتیاز کی کسوٹی ہیں۔ لیکن اللہ رب العالمین کے ایک پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے مسلسل انکار سے تنگ آکر جب ہجرت کربیٹھے، تو یہ ہجرت ان کے لیے اجرو ثواب کا موجب بننے کے بجائے الٹے اللہ کے سخت عتاب کا موجب بن گئی۔ اور ایسا صرف اس وجہ سے ہواکہ وہ یہ اقدام وقت سے کچھ پہلے کربیٹھے تھے۔

اسی طرح جب قریش کے مسلسل مظالم کے باعث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کے صبر کا پیمانہ چھلکنے پر آگیا اور یہ دیکھ کر انھیں ضبط کا یارا نہ رہ گیا۔ پھر مدینہ ہجرت کرکے آجانے کے بعد بھی ان ظالموں کی خشمگیں نگاہیں ان بے بس اور مظلوم صحابہؓ کے تعاقب سے باز نہیں آرہی تھیں، دوسری طرف جو کمزور اور بے بس اہل ایمان مکہ سے نکل آنے کی کوئی سبیل نہیں پاسکے تھے،ان پر ان کی مشق ستم بدستور جاری رہی بلکہ اس میں کچھ اور شدت ہی آچکی۔ اِدھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آکر انھیں ایک آزاد ماحول و مقام بھی میسر آچکاتھا اور اس بے چارگی سے نجات مل چکی تھی، جس میں وہ پہلے مکہ کے دارالعذاب میں گرفتار تھے۔ اس لیے ان کے دلوں میں اب اس ظلم کے پنجہ کو مروڑ کر رکھ دینے کے جذبات ابھر آئے، جو ایک فطری بات تھی۔ ان جذبات کا زبانوں سے اظہار بھی ہونے لگا۔ صورت حال کو اس موڑ پر پہنچتے دیکھ کر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ہدایت آئی:

كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ ۝۰ۚ (النساء۴:۷۷)(نہیں، ابھی) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ہاتھوں کو روکے رکھنے‘‘ کا یہ حکم واضح اور صریح طورپر صرف اس لیے تھا کہ اس کے نزدیک ابھی اس اقدام کا ٹھیک وقت اور صحیح موقع نہیں آیاتھا۔ کیوں اور کن وجوہ سے نہیں آیاتھا؟

اس سوال پر اگر گہرائی اور تفصیل سے غور کیاجائے، تو ذہن کئی اور باتوں کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ مگر اس طرح کی کسی کاوش سے کام لینے کی اس وقت کوئی خاص ضرورت نہیں۔ وہی ایک وجہ اس ہدایتِ خداوندی کی ضرورت اور حکمت سمجھادینے کے لیے کافی ہے، جس کی طر ف كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کے بعد کے لفظوں وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ نے خود رہنمائی کردی ہے، یعنی یہ کہ جنگی اقدام کرنے سے قبل تم اہل ایمان کو بحیثیت مجموعی اپنی معنوی قوت کو مزید سدھار اور  نکھار لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے دین وخداپرستی کی دونوں عملی بنیادوں، یعنی اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ کی طرف پوری طرح متوجہ رہ کر، حتی الوسع اس ضرورت کا حق ادا کرلو۔ تب وہ وقت آئے گا، جب دین کے دشمنوں کے خلاف تمھارے اٹھنے والے ہاتھ کامیاب و بامراد ہوں گے۔ اس سے پہلے تمھارا میدان میں کُود پڑنا، بے وقت، نامناسب اور حکمت و احتیاط کے خلاف ہوگا اور ناکامی اور زیاں کاری کے اندیشوں کی مسلسل زد میں رہے گا۔

اِن دو تین واقعاتی مثالوں میں ہمارے لیے روشنی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔

اس روشنی میں ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صحیح معنوں کی اسلامی تحریک، جہاں اپنے افراد کی ایمانی، اخلاقی، عملی اور دعوتی تربیت کا مسلسل اہتمام رکھتی ہے اور انھیں اپنے نصب العین کا سچا اور یکسو وحنیف داعی اور مخلص و جانباز سپاہی بنائے رکھنے کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہتی، وہیں اپنے جماعتی طریق کار اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی حددرجہ محتاط اور عاقبت اندیش ہوتی ہے۔ وہ کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کرتی، جو اس کےصحیح مزاج و مفاد سے میل نہ کھاتی ہو، عجلت پسندی سے کام نہیں لیتی، سطحیت اور ظاہر بینی کے قریب نہیں جاتی، قدموں کو مضبوطی سے جمائے بغیر آگے بڑھ جانے کی بے بصیرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی، حتیٰ کہ اچھے اور شرعاً مطلوب و محمود سرگرمیوں اور کاموں کو بھی اس وقت تک اپنی عملی جدوجہد کا ہدف بنالینے سے صبر وضبط کے ساتھ رکی رہتی ہے، جب تک کہ اس کا صحیح موقع نہ آجائے۔

تین بنیادی عوامل پر توجہ

یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر ہمیں چلنا اور چلتے رہنا ہے۔ مگر معلوم رہنا چاہیےکہ راستہ ہموار اورکھلاہوا نہیں ہے۔ طرح طرح کے مخالف عوامل سے اَٹا ہواہے۔ ان میں سے تین عوامل اپنی بے پناہ قوتِ مخالفت کے باعث خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتاہے کہ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرلی جائے:

۱-  پہلا مخالف عامل تو وہی جذبۂ عجلت پسندی ہے، جو اور سبھی افراد انسانی کی طرح ہماری سرشت میں بھی رچا بسا ہے اور جو کبھی نچلا نہیں بیٹھاکرتا۔ ابھی آپ واقعات کی زبان سے سن چکے ہیں کہ  کتنی عظیم شخصیتوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ باز نہیں رہا۔ لہٰذا، انتہائی ضروری ہے کہ پوری پامردی سے اس کا مقابلہ کیاجاتا رہاہے، اور اس کے جال میں پھنسنے سے پوری ہوشیاری سے اپنے کو بچائے رکھاجائے، اورپوری طرح سنبھل کر چلاجائے۔ اس کی پروا بالکل نہ کی جائے کہ قدم تھوڑے ہی آگے بڑھ پارہے ہیں۔ پروا اس کی رکھی جائے کہ جو قدم بھی اٹھیں اور آگے بڑھیں وہ پوری مضبوطی اور جمائو کے ساتھ اُٹھیں اور درست سمت میں آگے بڑھیں۔

۲- دوسرا عامل موجودہ ’جاہلیت‘ کی طوفانی یلغار کا ہے۔ یہ جاہلیت ہمیشہ ہی اللہ کے دین اور اس کی دعوتوں کی راہ روکتی ہے، لیکن پرانے زمانے کی جاہلیتوں کا دائرہ اثر محدود ہوا کرتا تھا۔ وہ فکری اعتبارسے کچھ زیادہ جان دار بھی نہیں ہواکرتی تھیں۔ ان کا تانا بانا بھی سادہ بلکہ پھُسپھُسا ہواکرتا تھا، جب کہ آج کی جاہلیت، معاذاللہ اس کا غلبہ و تسلط اتنا آفاق گیر ہے کہ بحرو بر کا کوئی گوشہ اس سے بچا ہوا نہیں رہ گیا ہے۔ یہ نظری، علمی اور فلسفیانہ دلائل سے بھی پوری طرح سے مسلح ہے، اور معاشی، صنعتی ، سائنسی، سیاسی، حربی قوتوں سے پوری طرح لیس ہے۔ ساری دنیا اس کے ہاتھوں میں مجبور اور قیدی بنی ہوئی ہے۔ زندگی کے کسی میدان میں بھی فکر وعمل کی جوراہیں وہ متعین کردیتی ہے، مجبوراً سبھی کو اسی پر چلنا ہوتا ہے۔ اس سے بالکل ہٹ کر کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیاجاسکتا اور اگر تجویز ہو بھی گیا تو اس پر چلنے والوں کو آنکھیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک یا قوم اپنی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خاص لائحۂ عمل اپنانا یا اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی نئی تحریک چلانا چاہتی ہے، تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس غالب تہذیب اور جابرانہ نظام کے فکرو فلسفہ سے اس کی سندِ توثیق حاصل کرے۔ یہ سندِ توثیق اسے حاصل اسی وقت ہوسکے گی، جب اس کے بنیادی مقاصد اور اصولِ کار اس کے لیے اگر پسندیدہ نہیں تو کم از کم قابل گوارا تو ضرورہی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیاگیا ، کسی تحریک یا جماعت نے وقت کے اس جاہلیت پر مبنی حکمرانی نظام کی پسند اور ناپسند کی پروا نہ کی، اور اپنی مرضی کی آپ مالک بنے رہنے کے عزم کا اعلان کرتی رہی تو کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ اپنے اس عزم اور اعلان کابھرم کب تک قائم رکھ سکے گی۔

 کسی اور طرح کے نظامِ نو کی حد تک تو یہ ممکن بھی ہے کہ یہ نظامِ جاہلیت اس کے سلسلہ میں کچھ نرمی اور چشم پوشی سے کام لے لے۔ لیکن اس نظام کے بارے میں ، جسے اسلامی نظام کہتے ہیں، اور اس تحریک کے معاملے میں جو اسلامی یا اقامتِ دین کی تحریک ہوتی ہے، اس جاہلیت کے نظام کے یہاں کسی نرمی، کسی چشم پوشی اور کسی رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاہلیت اس کی راہ روکنے، اس کی تصویر مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتےر ہنے کے ساتھ، اس پر الزامات اور تہمتوں کی مسلسل باڑ مارتے رہنے کی ایسی مہم چلادیتی ہے۔ علانیہ بھی اور خفیہ بھی، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی، حتیٰ کہ خود نام نہاد مسلم حکمرانوں اور دانش وروں کے ذریعے بھی، کہ خود اسلامی تحریک کے کارکنوں اور لیڈروں کے اعصاب بسااوقات جواب دینے لگتے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے اور پُرشور ماحول میں ہمیں کتنی مضبوطی ، کتنی ثابت قدمی، کتنی حکمت، کتنے تدبر اور کتنی عزیمت سے کام لینے کی ضرورت ہے؟اس کا اندازہ ہم میں سے ہر شخص بآسانی خود لگا سکتا ہے۔

۳- تیسرا مخالف عامل امت مسلمہ کی بالعموم، اور ملت اسلامیہ کی بالخصوص ، وہ زبوں حالی ہے جس سے وہ ان دنوں دوچار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا، پریشانیوں اور محرومیوں کا، بے چارگیوں اور پست حالیوں کا ایک طوفان ہے جو اسے بری طرح گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اس ملت میں جو تھوڑے بہت حساس اور دھڑکنے والے دل ہیں، وہ بھی بری طرح پریشان ہیں کہ آخر اس حالتِ زار کا کیا علاج کیاجائے اور کیسے کیاجائے؟ زخم، گہرے گہرے زخم، دوچار نہیں، ہزاروں ہیں۔ پورا  جسد ِملی چھلنی بناہوا ہے۔ مرہم کہاں کہاں رکھاجائے!

یہ صورت حال اسلامی تحریکوں کے اپنے بنیادی اور حقیقی موقف کے لیے بڑی سخت آزمائش بن رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملّت کی اس زبوں حالی کا صحیح اور کارگر علاج ان کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے اپنے بھولے ہوئے اور پس پشت ڈالے ہوئے مقصدِ وجود کو پھر سے اپنالینااور اسی کا بن کر رہ جانا چاہیے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی اسلامی تحریکیں اس خوداعتمادی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہیں اور خود اپنی جگہ چھوڑتی جارہی ہیں۔

انھوںنے حالات کے غیرمعمولی دبائو اور ملت کے حالِ زار سے غلط انداز میں متاثر ہوکر اس کے علاج کے لیے اُن ہی تدبیروں کی طرف لپکنا شروع کردیا جو خدااور دین، کتاب اور سنت کی رہنمائیوں اور پابندیوں سے آزاد افراد اور جماعتیں اختیارکیاکرتی ہیں۔ بعض بڑی اور اہم تحریکیں تو اس جھونک میں اتنی تیزی سے آگے بڑھتی اور اپنا رنگ بدلتی جارہی ہیں کہ ان پر دینی اور اسلامی تحریک ہونے کا گمان کم،اور علاقائی یا قومی تحریک ہونے کا گمان زیادہ ہونے لگتاہے۔

مشکل یہ ہے کہ قومیت بالعموم ہمیشہ ہی سکہ رائج الوقت رہی ہے اور اب تو اس کی مقبولیت ایمان وعقیدت کامقام حاصل کرچکی ہے۔ ایک طرف تو یہ جذبۂ قومیت افراد کی فطرت کا ایک قوی ترین جذبہ ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ منہ زور بھی۔ یہ جب بھڑکنے پر آجاتاہے تو حق و صداقت کی بڑی سے بڑی چٹانوںکو بھی بہالے جاتا ہے۔ دوسری طرف عالمی پیمانہ پر وہی ہر ملک اور ہر قوم کی حیاتِ اجتماعی کا مرکز بناہوا ہے۔ یعنی افراد نے بھی اپنے انفرادی دائروں میں اسے تقدس کی حد تک عقیدت کا مستحق تسلیم کررکھا ہے اور قوموں نے بھی اپنے اجتماعی دائروں میں سب سے اونچا مقام دے رکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس کے اشاروں میں بلاکی کشش ہوتی ہے۔ اس کی پذیرائی دادوتحسین کے نذرانے پیش کرایا کرتی ہے،اس کی علَم برداری لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنادیاکرتی ہے۔

دوسری طرف دین کی طرف اور دین کی اقامت کے لیے بلانے والوں کا، اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا استقبال کسی اور ہی انداز میں ہوتا ہے۔ ہوتارہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ ایک مدت تک صحرا میں صدا لگاتے رہنے کے بعد اگر کروڑوں پر مشتمل ملت اسلامیہ میں سے چند ہزار ساتھی بھی نہ مل سکیں اور اس بنا پر تحریک کے علَم برداروں اور کارکنوں کے دل و دِماغ بھی تکان اور بے کیفی و بددلی محسوس کرنے لگ جائیں، ان کی سوچ میں غیرمحسوس طورپر تغیر راہ پالے۔ قوم کی محبت حقیقی نہیں، معروف معنوں کی محبت، انھیں اپنے خیمے کی طرف کھینچنے لگے اور وہ بھی کھنچتے نظر آنے لگیں، تو یہ بات چاہے کتنی ہی قابلِ افسوس ہو، مگر اسے خلاف توقع اور اَنہونی نہیں کہا جاسکتا۔

حق کی راہ میں حائل ان خاص موانع کی طرف خصوصی توجہ درکارہے جو انتہائی صبرو ہمت آزما ہی نہیں، ایمان و یقین آزما بھی ہیں۔

یہ بات تو سبھی لوگ جانتے ہوں گے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریک کا آغاز دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے کیا تھا، اور اس بات سے بھی لوگ بالعموم واقف ہی ہوں گے کہ مولانا حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام ، ڈاکٹر اقبالؒ کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت پر آئے تھے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا [مودودی] اپنی تحریک کی عملی بنیاد ڈالتے ہی، چند [ماہ] کے اندر اندر دارالاسلام کو چھوڑ کر لاہور کیوں منتقل ہوگئے تھے؟ [اس مناسبت سے] کچھ لوگوں کے ایسے مضامین دیکھنے میں آئے، جن میں اس انتقالِ مکان کی عجیب اور بے سروپا قسم کی وجہیں بتائی گئی ہیں، اور ان میں سے ایک بزرگ نے تو اس سلسلے میں ’قیاس زور‘ سے بھی کام لینے میں قباحت محسوس نہیں کی ہے۔

چوں کہ اس وقت کم از کم میں تنہا وہ شخص ہوں، جو اس معاملے سے براہِ راست متعلق رہا ہے، اس لیے یہ میری ذمے داری قرار پاتی ہے کہ اس حقیقت ِواقعی کو روشنی میں لادوں، جو اس نقلِ مکانی کی پہلی اور آخری وجہ تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس بارے میں مذکورہ بالا غلط بیانیوں کی تصحیح ہوجائے گی، اور لوگ اصل صورتِ واقعہ سے واقف ہوجائیں گے، بلکہ ساتھ ہی مولانائے مرحوم و مغفور کی سیرت کا ایک خاص اور اہم پہلو بھی سامنے آجائے گا۔

پہلے اس واقعے کا پس منظر جان لیجیے:

مولانا ۱۴ مارچ ۱۹۳۸ء کو حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام، جمال پور (نزد پٹھان کوٹ) منتقل ہوئے تھے۔ یہ منتقلی ڈاکٹر اقبال مرحوم کے مشورے اور چودھری نیاز علی صاحب مرحوم، ساکن جمال پور، نزد پٹھان کوٹ کی دعوت پر ہوئی تھی، اور اس لیے ہوئی تھی کہ یہاں مرکز بناکر احیائے اسلام کی دعوت کا کام منظم طور سے شروع کیا جائے۔

یہاں آکر مولانا نے ان فکر انگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا، جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا، جس کے مطابق اُن کے نزدیک برصغیر میں احیائے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔

اسے پڑھ کر ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا [مودودی]کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کا نام لے کر ان خطوط پر کام شروع کردیا جانا چاہیے۔ اس تجویز یا اس مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا، جس میں پیشِ نظر تحریک کے مقصد، طریق کار اور اصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ اس مسودۂ دستور کی انھوں نے اس طرح کتابت کرائی کہ ایک طرف کے صفحات سادے رکھے گئے تھے اور مقابل کے صفحات پر مسودے کی عبارت درج تھی۔ طباعت کے بعد انھوں نے اس مسودئہ دستور کی کاپیاں اُن تمام حضرات کو بھجوادیں، جو اس کام سے دل چسپی ظاہر کرچکے تھے، اور ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ علم وفکر کے پاس روانہ کرائیں، اور ان سب لوگوں سے گزارش کی کہ ’’اس مسودۂ دستور کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کے اندر جہاں جہاں بھی وہ کوئی حذف یا اضافہ یا ترمیم تجویز کریں اس کو خالی صفحات پر درج کرتے جائیں، تاکہ جب اس مسودے کو آخری شکل دینے کے لیے مشاورتی اجتماع ہو، تو یہ ترمیمات اور حذف و اضافے بھی غوروبحث کے وقت سامنے رہیں‘‘۔

پھر ایک مناسب مدت کے بعد موصوف نے ان تمام حضرات کو دارالاسلام میں ایک متعینہ تاریخ پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ کچھ لوگوں کا تو کوئی جواب موصول نہ ہوسکا، کچھ لوگوں نے کسی بنا پر شریکِ اجتماع ہونے سے معذوری ظاہر کی، اور لکھا کہ ہم اپنی ترمیمات اور مشورے مسودۂ دستور میں درج کرکے بھجوا رہے ہیں۔ باقی لوگ تشریف لائے۔

۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ حاضرین میں اکثریت مغربی ہند کے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا منظور نعمانی صاحب بھی شامل تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔ اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی، جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔

بہرحال، اجتماع ختم ہوگیا تو اسی دن یا اگلے دن بعد نمازِ عصر [عبدالعزیز] شرقی صاحب کی رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے، جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی، یہ کُل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا نے تجدیدِ شہادت کی، اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی، جس کے بعد چودھری صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کردیا۔

وہ [چودھری نیاز علی خاں صاحب] اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں، مگر اصرار کے ساتھ مولانا سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں ’اسلامی حکومت‘ کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’الفاظ اور اصطلاحات میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو کام ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں، مگر دستور میں اسلامی حکومت کی اصطلاح کے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ چودھری صاحب کی اس رائے یا خواہش کے پیچھے کیا مصلحت کام کررہی تھی؟ میں اس کرید میں پڑنا نہیں چاہتا، خصوصاً اس لیے کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔

مولانا [مودودی]نے ان کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا، تو ہم اب کہیں اور جاکر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا کے اس فیصلے سے چودھری [نیازعلی خاں] صاحب سخت پریشان ہوگئے۔ انھوں نے مولانا کو منانے کی بڑی کوشش کی۔

جب اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو قصبہ دینانگر کے شیخ محمدنصیب صاحب کو بلایا، جو دارالاسلام ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ شیخ صاحب تشریف لائے اور انھوں نے بھی اپنی سی پوری کوشش کی کہ مولانا دارالاسلام سے نہ جائیں، مگر بات جہاں تھی وہیں رہی۔ مولانا اپنے فیصلے پر اٹل رہے، اور شیخ صاحب مایوس اور دل گرفتہ واپس چلے گئے۔ انھی دنوں مولانا کا فرمایا ہوا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے کہ ’’عجیب مشکل ہے، جن لوگوں کے پاس روپیہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ عقل بھی انھی کے پاس ہے‘‘۔ غرض منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا۔

کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں۔ صبح کو ٹرک پر سامان لادا گیا، اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے۔ یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پاؤں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔  سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا، اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہوئی، جو کئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔

یہ تھی دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے لاہور منتقل ہوجانے کی اصل وجہ، اور یہ تھا اس نقل مکانی کا اصل واقعہ۔

اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی تین سال بعد مولانا [مودودی] پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے ہوں گے؟ میں اُن دنوں لاہور میں موجود نہیں تھا، اس لیے براہِ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کرسکتا۔ مگر دارالاسلام لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی، اس سے حقیقت ِ واقعہ پوری طرح سمجھ لی جاسکتی ہے۔

یکم فروری۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا کہ:

کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب اور شیخ محمد نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں اب یہ تصفیہ ہوا ہے کہ وہ عمارات مع چار چھ ایکڑ زمین کے ۹۰ سال کے پٹے پر میں اُن سے لے لوں گا، اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہوگی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا اُن کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت کا ان کو حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے، جس طرح یہاں لاہور میں کرایہ دے کر رہتے ہیں۔

قرآن حکیم کو غور سے پڑھیے تو وہ اصول و نکات بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتے ہیں جن کے مطابق اقامت ِ دین کی جدوجہد کی جانی چاہیے‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان اصولوں کی تفصیل سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو توقع کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ جب اس کے مباحث کا اصل مرکز یہی اقامت دین ہے تو قدرتی طور پر اس کی ساری تفصیلات بلاواسطہ یا بالواسطہ اسی کے اصول و ذرائع کی شرح و تفصیل ہی ہوں گی۔ لیکن چونکہ قرآن اپنے مدعا کو انسانی ذہن میں پوری طرح بٹھا دینے اور اچھی طرح محفوظ کر دینے کے لیے کوئی ضروری تدابیر اٹھا نہیں رکھتا اور جہاں تک اقامت دین کے مسئلے کا تعلق ہے وہ تو اس کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ تھا۔ اس لیے اس کے اصول و طریق کار کو اس نے جہاں سیکڑوں صفحات میں پھیلا کر بیان کیا ہے اور مختلف جگہوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے وہاں بعض مقامات پر اس نے انھیں اکٹھے سمیٹ کر بھی بیان کیا ہے تاکہ چند جملوں کے مختصر سے آئینے میں ان کی پوری تصویر بیک نظر بھی دیکھی جاسکے۔ اس طرح کے ’’جوامع الکلم‘‘ میں سب سے زیادہ جامع اور ساتھ ہی سب سے زیادہ واضح آیا ت یہ ہیں:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج… وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲-۱۰۵)

اے ایمان والو! اللہ کا ٹھیک ٹھیک تقویٰ اختیار کرو اور دنیا سے نہ رخصت ہو مگر اس حال میں کہ تم ’’مسلم‘‘ ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑلو اور ٹولی ٹولی نہ ہوجائو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو تم پر ہوا ہے جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دل باہم جوڑدیے۔ اور اس کے فضل و کرم سے بھائی بھائی ہوگئے… اور چاہیے کہ تم وہ گروہ بنو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکتا رہے‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘ اور (دیکھو) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو واضح ہدایتیں پانے کے باوجود ٹولیوں میں بٹ گئے اور اختلاف میں مبتلا ہوگئے۔

یہ آیتیں مدینہ کی ابتدائی زندگی‘ یعنی ۲ھ میں نازل ہوئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اُمت مسلمہ کی اجتماعی اور سیاسی زندگی تاسیس و تعمیر کے ابتدائی مرحلوں سے گزر رہی تھی۔ عین اس زمانے میں یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقامت دین اور نظامِ مومنین کا ایک مختصر مگر جامع ربانی پروگرام لے کر آئیں۔ جس میں اقامت دین کے طریق کار کے نہ صرف عملی اصول ہی بتا دیے گئے ہیں بلکہ یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ ان اصولوں میں باہم ترتیب کار کیا ہونی چاہیے‘ نیز یہ بات بھی کہ اس نصب العین کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کن تدریجی مرحلوں سے گزرتی ہوئی اپنی غایت مقصود تک پہنچا کرتی ہے۔ اس ربانی پروگرام پر غور کیجیے تو وہ تین اجزا یا اصولی نکات پر مشتمل دکھائی دے گا:

۱-  تقویٰ کا التزام ۲- مضبوط و منظم اجتماعیت ۳- امربالمعروف ونہی عن المنکر۔

یہی تین نکات ہیں جو اقامت دین کے بنیادی اصول کار ہیں۔

تقویٰ کا التزام

اقامت دین کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے اور جس کو اس راہ کی ’’شرط اول قدم‘‘ کہنا چاہیے وہ  اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ--- کے فرمانِ خداوندی میں مذکور ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے کو ’’ایمان والا‘‘ سمجھتا ہو‘ اور جو اس ایمان کی عائد کی ہوئی ذمے داری سے عہدہ برآہونا چاہتا ہو‘ اس کے لیے لازم ہے کہ اللہ کا ’’تقویٰ‘‘ اختیار کرے اور اپنے آخری سانس تک ہر آن اور ہر لمحے ایک ’’مسلم‘‘ بن کر زندگی بسر کرے۔ تقویٰ کا پورا عملی مفہوم جو قرآن کی زبان سے بیان ہوا ہے اس سے شمہ برابر بھی کم نہیں کہ اللہ کے تمام حکموں کا ٹھیک ٹھیک اتباع کیا جائے۔ اس کے کسی امر کو چھوڑ دینے سے بھی ڈرا جائے اور اس کی کسی نہی کے کرگزرنے سے بھی خوف کھایا جائے۔ اسی طرح ’’مسلم‘‘ کے معنی بھی قرآنی بیانات کی روشنی میں سچے فرماں بردار اور مخلص اطاعت شعار کے ہیں‘ یعنی مسلم وہ شخص ہے جس نے احکامِ خداوندی کے سامنے اپنی گردن رضاکارانہ جھکا دی ہو۔

اس لیے ان دونوں اصطلاحوں کے مفہوموں کے پیشِ نظر اقامت دین کے پروگرام کا پہلا جز‘ یا اصول یہ ہوا کہ ہر مسلمان سب سے پہلے خود اپنے اُوپر اللہ کے دین کو قائم کرے۔ خوف و رجا کی ساری نیازمندیاں بس اسی ایک ذات کے لیے مخصوص کر دے۔ تعظیم و تذلل اور سرفگندی کے تمام جذبات اسی کی رضاجوئی کے لیے وقف کر دے۔ تمام اطاعتوں سے منہ موڑ کر بس اسی ایک آقا کی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں ڈال لے۔ اپنے نفس کو ان تمام امور سے پاک کرے جو اس کی ناخوشی کا سبب بنتے ہیں‘ اور ان تمام صفات سے اسے آراستہ کرے جو اس کی رضا کے باعث ہوتے ہیں۔ اپنے کو اللہ تعالیٰ کا ہمہ وقتی غلام سمجھتا رہے اور اس کے کسی حکم کی بجاآوری میں نہ تو لیت و لعل کرے اور نہ دل تنگ ہو۔ اپنی نگاہ کو حق تعالیٰ کی رضاطلبی اور حکم برداری پر پوری طرح جمائے رہے‘ خواہ کتنی ہی مخالفتیں‘ مصیبتیں‘ ناسازگاریاں اور دل شکنیاں اس کی راہ میں کیوں نہ حائل ہوں۔ کیونکہ یہ چیزیں اگرچہ بظاہر مشکلات و مصائب ہی ہیں مگر فی الواقع یہ اتباع حق اور التزام تقویٰ کی ضروری آزمایشی منزلیں ہیں جن سے گزرے بغیر کسی مدعی ایمان کا ایمان اور تقویٰ خدا کے ہاں سنداعتبار اور شرفِ قبول نہیں حاصل کرتا۔ جیسا کہ قرآن کا فرمانا ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵)

ہم تم کو (یعنی تمھارے ادعاے ایمان کو) خطروں اور فاقوں اور تمھارے مال اور جان اور پیداوار کے نقصانوں کے ذریعے ضرور آزمائیں گے۔ اور اے نبیؐ ان لوگوں کو (کامرانی کا) مژدہ سنا دو جو (ان خطرات و نقصانات کو) صبروضبط کے ساتھ برداشت کرلیں۔ الخ

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ

فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعُلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ

الْکَاذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۱)

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہہ دینے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انھیں پرکھا نہ جائے گا۔ حالانکہ (یہ پرکھنا) ہماری ہمیشہ کی سنت ہے اور ہم نے ان سے پہلے بھی لوگوں کو پرکھا ہے لہٰذا (تمھیں بھی) اللہ تعالیٰ یہ ضرور دیکھے گا کہ تم میں سے کون سچے (مومن) ہیں اور کون جھوٹے۔

اس لیے ان چیزوں سے گھبرانے اور کترانے کے بجاے ان کا صبر اور اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے ورنہ یہ دل ایمان کا لذت شناس نہیں ہو سکتا۔ جو ان رکاوٹوں کے آگے سپرڈال دے اور نہ وہ سینہ تقویٰ کے نور سے بہرہ یاب ہو سکتا ہے جو اس آزمایش کی ہمت نہ رکھتا ہو‘ اپنے ایمان و اسلام کے متعلق بڑے دھوکے میں ہوگا وہ شخص جو حدود اللہ کی پاسداری اور احکام قرآنی کی پیروی میں اپنے نام نہاد جانی اور مالی‘ گروہی اور طبقاتی‘ قومی اور وطنی مفادات کا بچائو پہلے کرلینے کی فکر کرے‘ اور اتباع حق کو جان و مال کی کامل محفوظیت کے ساتھ مشروط رکھتا ہو۔ ایسے شخص کی زبان پر اسلام‘ اور اس کی شکل و صورت میں تقویٰ تو ہوسکتا ہے مگر اس کا باطن ان طائرانِ قدس کا آشیانہ نہیں ہوسکتا۔ غرض اہلِ ایمان کی آزمایش اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت ہے۔ اور اسی سنت کو پورا کرنے کے لیے اس نے اسلام اور ارتقا کا راستہ مشکلات اورمصائب کی چٹانوں سے بھر رکھا ہے اس لیے جو شخص اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ --- کے فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرنا چاہتا ہو اس کو ان چٹانوں سے ٹکرانا اور ان کی ٹھوکریں برداشت کرنا ناگزیر ہے۔

منظم اجتماعیت

اس پروگرام کی دوسری دفعہ یا دوسرا نکتہ وَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اِن لفظوں میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ دو باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ تمام اہلِ ایمان‘ جو احکام الٰہی و حدودِ خداوندی کی پابندی میں سرگرم عمل اور اپنی انفرادی اصلاح و تزکیہ میں کوشاں ہوں‘ مل کر ایک مضبوط اور منظم جماعت بن جائیں۔ اور یہ پوری جماعت ایک ہی جسم کے اعضا کی طرح باہم جڑی ہوئی ہو۔ دوسری یہ کہ اسے اس طرح باہم جوڑ کر رکھنے والی چیز نہ تو کوئی نسلی رشتہ ہو نہ کوئی وطنی تعلق‘ نہ کوئی معاشی یا سیاسی مفاد ہو‘ نہ کوئی دنیوی اور مادی مقصد بلکہ صرف ’’اللہ کی رسی‘‘ یعنی اس کی بندگی کا وہ عہد ہو جو ہر مسلما ن نے کر رکھا ہے۔ وہ قرآن ہو جس کی پیروی ہی کسی شخص کو مومن بناتی ہے۔ وہ دین ہو جس کی اطاعت و اقامت ہی کے لیے اُمت مسلمہ وجود میں لائی گئی ہے۔ غرض جس طرح ملّت کا منظم اور متحد رہنا ایک ضروری چیز ہے‘ اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ اس نظم و اتحاد کا شیرازہ صرف یہ ’’حبل اللہ‘‘ ہی ہو‘ بلکہ اگر ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو بات اس سے بھی کہیں زیادہ اہم نظر آئے گی۔ اتنی زیادہ اہم کہ مجبوری کی بعض ایسی حالتیں تو ہوسکتی ہیں جن میں اتحاد وتنظیم ملت سے محروم ہو کر بھی مومن خدا کے حضور معذوری اور بری قرار دیا جائے گا۔ مگر جو چیز اس اتحاد و تنظیم کا شیرازہ ہے اسے کسی حالت میں بھی اگر چھوڑ دیا گیا تو اس کی بازپرس سے چھٹکارا ہرگز نہ ہوسکے گا۔ اس لیے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اسلام کے نزدیک نفس اتحاد ہی کوئی مطلوب و محبوب چیز ہے خواہ وہ کسی غرض کے لیے اور کسی مقصد پر مبنی کیوں نہ ہو۔ اس کے بخلاف حقیقت یہ ہے کہ اگر اتحاد کی بنیاد کسی فاسد مقصد پر رکھی گئی ہو تو نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کا مطلوب نہیں‘ بلکہ اس کی نظروں میں حددرجہ مردود اور مبغوض ہے اور اس اتحاد سے بال برابر بھی مختلف نہیں جو چوروں اور ڈاکوئوں کے مابین ہوا کرتا ہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف اس اتحاد کا ہے جس کا شیرازہ اتباعِ حق اور اقامتِ حق ہو۔

اقامتِ دین کا نکتہ‘ یعنی جماعتی اتحاد‘ اگر ذرا غور کیجیے تو پہلے نکتہ سے کوئی بالکل الگ اور بے تعلق شے نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک فطری تقاضا ہے۔ ایک طالب علم کو اس کی اپنی طبیعت ہی مجبور کرتی ہے کہ اپنے ساتھی طلبہ سے بے تکلفی‘ دل بستگی اور الفت و محبت رکھے۔ ایک تعلیم یافتہ اور علم دوست کے مذاق اور مزاج ہی کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ارباب علم و دانش کی ہم نشینی اختیار کرے۔ ایک رنگین طبع اپنے جیسے رنگین مزاجوں کی طرف خودبخود کھنچ اٹھنے سے رک نہیں سکتا--- اور اگر کسی طالب علم کو اپنے ساتھیوں سے ‘ کسی صاحبِ علم کو اہل علم و فضل سے‘ کسی رنگین مزاج کو اہلِ نشاط سے گہری وابستگی نہ ہو تو یقین کرنا چاہیے کہ وہ صحیح معنوں میں طالب اور صاحبِ علم اور رنگین طبع نہیں۔ ہم مشربی کی یہی وہ کشش ہے جس کو عام اصطلاح میں جاذبۂ جنسیت کہا جاتا ہے۔ اصولاً اس جاذبۂ جنسیت کو اہل تقویٰ کے درمیان بھی اپنا کام کرنا چاہیے‘ اور وہ کرتا بھی ہے۔ ایک وہ انسان جو خدا پرستی کے جذبات سے سرشار ہو‘ ان لوگوں کی طرف لازماً کھنچتا ہے جو اسی کی طرح اتباعِ حق اور تقویٰ کے لذت شناس ہوں۔ یہ ممکن نہیں کہ دو دلوں میں خدا کا حقیقی تقویٰ موجود ہو اور اس کے باوجود وہ آپس میں کٹے ہوئے یا ایک دوسرے سے بے تعلق ہوں۔ اس کے بخلاف ان میں جذب و انجذاب لازمی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھنا چاہیے کہ تقویٰ کی صورت میں اندر کوئی دوسری ہی روح پرورش پارہی ہے کیونکہ ایک ہی منزل اور ایک ہی راہ کے دو مسافر ایک دوسرے کے غیر بن کر نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے جو آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعریف اگر کہیں اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ اور بَعْضُھُمْ اَوْلیَائُ بَعْضٍ کے الفاظ سے کی گئی ہے تو کہیں رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ اور اَذِلَّۃِ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ ان کا نشانِ امتیاز ٹھیرایا گیا ہے۔ گویا اسلام کے پیروئوں کا باہم جڑ کر رہنا ان کے ایمان اور اتقا کی کسوٹی ہے۔

قرآن کی نگاہ میں اہلِ ایمان کے لیے اس وصف کا وجود کتنی اہمیت رکھتا ہے‘ اس چیز کا اندازہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بعض ہدایات پر بھی نظرڈالی جائے جو اس معاملے کے منفی پہلو سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک ہدایت یہ ہے:

یٰٓاَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ انِ

اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ

ھُمُ الظَّالِمُوْنَ o (توبہ ۹:۲۳)

اے ایمان لانے والو! اگر تمھارے باپ اور بھائی ایمان کے مقابلے میںکفر کو ترجیح دیں تو ان کو اپنا ولی (قلبی رفیق) نہ بنائو۔ اور جو لوگ ان کو اپنا ولی بنائیں گے تو وہی ظالم ہوںگے۔

معلوم ہوا کہ جس طرح ایک سچا مومن اور متقی دوسرے مومنوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتا خواہ نسلی اور قومی لحاظ سے وہ اس کے بیگانے ہی کیوں نہ ہو اسی طرح وہ فساق و فجار سے قلبی رابطہ بھی نہیں رکھ سکتا‘ خواہ وہ اس کے قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن اس کے امکان کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جیسا کہ اسی ضمن کی ایک اور آیت صراحت کرتی ہے:

لَاتَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَٓادُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ

عَشِیْرَتَھُمْ (مجادلہ ۵۸:۲۲)

تم کسی ایسے گروہ کو ‘ جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ ان لوگوں سے الفت و مودت کا رشتہ رکھتا ہوا نہ پائو گے جو اللہ اور اس کے رسول کی عداوت اور مخالفت پر کمربستہ ہوں‘ خواہ وہ اس کے اپنے ہی باپ یا بیٹے یا بھائی یا اہلِ خاندان کیوں نہ ہوں۔

ان ارشادات سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہوجاتی ہے کہ ایمان کے رشتے کو انسانی تعلقات میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک طرف تو مختلف نسلوں اور قوموں کے افراد کو باہم بھائی بھائی بناکر جوڑ دیتا ہے۔ دوسری طرف اس کی زبردست قوت تمام مادی رشتوں کو  بے جان اور غیر مؤثر بنا کر رکھ دیتی ہے۔ گویا یہ ایک سورج ہے جس کے آگے تمام ستارے   بے نور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پھر ایمان کا یہ منفی اثروعمل اس کے مثبت اثروعمل کو مزید طاقت بھی دے دیتا ہے اور اہلِ ایمان کے مابین قائم ہونے والے اتحاد کو اور زیادہ مستحکم بنا دیتا ہے۔

غرض ایک نصب العین کی علَم بردار اور ایک اصول کی پیرو دوسری جماعتیں جس حد تک اپنے ارکان کو ڈسپلن کی مضبوط بندشوں میں باندھ کر رکھتی ہیں‘ اللہ کا دین اپنے پیروئوں کو اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے جڑ جانے کی زبردست ہدایت کرتا ہے۔ انتشار و اختلاف کو وہ انتہائی مذموم ٹھیراتا ہے اور دین حق کے مزاج کے اسے یکسر خلاف قرار دیتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک پیغمبر (حضرت ہارون علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اکثریت کو علانیہ بُت پرستی میں مبتلا ہوجاتے دیکھا مگر انھیں صرف سمجھانے بجھانے ہی پر اکتفا کیا اور ان کے خلاف کوئی فوری قدم اٹھانے سے محض اس لیے احتراز کر گئے کہ کہیں قوم کی جمعیت پراگندا نہ ہو جائے۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سینا کی پہاڑی سے واپس آکر ان سے اس سلسلے میں سختی سے بازپرس کی تو انھوں نے     عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ: خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ’’میں اس بات سے ڈرا کہ آپ کہیں گے تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی‘‘۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر

اقامت دین کے پروگرام کی تیسری بنیاد وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْن عَنِ الْمُنْکَرِ کے ارشاد میں واضح کی گئی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے اپنی اپنی ذات کے اُوپر دین حق کا قائم کرلینا اور پھر ایسے تمام افراد کا باہم جڑ کر ایک جماعت بن جانا ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ان دونوں باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس ’’خیراور معروف‘‘ کی طرف دوسروں کو بھی بلایا جائے جس کو خود قبول کیا گیا ہے اور اس ’’منکر‘‘ کو اپنے مقدور بھر مٹا ڈالنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی جائے جس کو خود ترک کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی زمین کے کسی گوشے میں اس کے دین کے سوا کسی اور دین کا اقتدار باقی نہ رہ جائے۔

جس طرح اقامت دین کے عملی پروگرام کی دوسری دفعہ (افراد اُمت کا منظم اتحاد پہلی دفعہ انفرادی صلاح و تقویٰ) کا لازمی تقاضا ہے‘ اسی طرح یہ تیسری دفعہ (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) بھی اس کا فطری مقتضا ہے نہ کہ کوئی ایسا مستقل بالذات حکم جو اس سے کسی طرح کی مزاجی مناسبت رکھتا ہی نہ ہو۔ یہ بات کہ امربالمعروف کس طرح ایمان اور تقویٰ کی فطری طلب ہے ایمان اور تقویٰ کی حقیقتوں پر غور کرنے سے بآسانی واضح ہوجاتی ہے۔ ایمان اور تقویٰ کی حقیقی روح کیا ہے؟ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت بھری تعظیم‘ کوئی محبت بھری تعظیم محبوب کی مرضیات کے بارے میں کیا چاہے گی؟ صرف یہ کہ گردوپیش انھی کی کارفرمائی ہو۔ ورنہ اس دل کو سوز محبت سے آشنا کون کہہ سکتا ہے جو محبوب کی مرضی کوپامال ہوتا ہوا دیکھ کر تڑپ نہ اٹھے؟ اس لیے خدا کی محبت اور حق کی جاذبیت ایک خدا پرست کو چین سے ہرگز بیٹھنے نہیں دے سکتی۔ جب تک کہ صفحۂ ارض پر اس کی نگاہوں میں چبھنے کے لیے ایک باطل اور کھٹکنے کے لیے ایک منکر بھی موجودہو۔ یہ بات اس کے اسلام اور ایمان کے یکسر منافی ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا ملک کو وہ دین اللہ کے حلقۂ انقیاد سے آزاد اور طاغوت کا فرماں بردار دیکھے اور ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرلے۔ لہٰذا اقامتِ دین کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا‘ اگرپیروان اسلام کی جمعیت امربالمعروف سے غافل ہو۔ اور اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کا حکم تشنۂ تعمیل ہی رہ جائے گا۔ اگر اہلِ ایمان بس اپنی ذات ہی تک احکامِ الٰہی کی پیروی کو کافی سمجھ لیں اور ان کو اس سے کوئی غرض نہ ہو کہ باقی دنیا کدھر جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ امربالمعروف مومن اور مسلم اور متقی ہونے کے فطری تقاضوں میں ایک اور پہلو سے بھی داخل ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے بندوں سے اخوت‘ محبت اور خیرخواہی کا پہلو۔ جو شخص اسلام کو جانتا ہے وہ یہ بات بھی جانتا ہوگا کہ خدا سے محبت کرنے کا حق اس وقت تک ہرگز ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی مخلوق سے بھی محبت نہ رکھی جائے۔ اس مخلوق سے جسے اس کے رسول نے اس کی ’’عیال‘‘کہا ہے (الْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ) اور جس کی بہی خواہی کو ایمان کی نشانی ٹھیرایا ہے (لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبُّ لِاَخِیَہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ- مسلم) نوع انسانی کے ساتھ بہی خواہی کی شکلیں بہت سی ہیں مگر اس سے بڑی اس کی اور کوئی بہی خواہی نہیں کہ اسے ان راستوں سے بچایا جائے جو گمراہی اور ابدی ہلاکت کے راستے ہیں اورجن پر چل کر انسان کی دنیا بھی عذاب بن جاتی ہے ‘ اور آخرت بھی۔

اس لیے ایک مومن اگر اپنے دوسرے ابناے جنس کو ’’منکرات‘‘ سے روکنے اور خیرومعروف کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دراصل کسی خارجی سبب کے تحت نہیں کرتا بلکہ اپنے اس جذبۂ خیرخواہی کے تحت کرتا ہے جو اس کے ایمان کا پیدا کیا ہوا ہوتا ہے۔ جس طرح اس کا ایمان اسے اس بات پر ابھارتا رہتا ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے‘ ننگوں کو کپڑے پہنائے ‘ اور کمزوروں اور بیکسوں کی مدد کرے‘ اسی طرح‘ مگر اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ وہ اس بات کے لیے بھی بے چین رکھتا ہے کہ حق سے محروم بندگانِ خدا کو اس خزانۂ سعادت کی کنجیاں مہیا کردے جس کے پالینے کے بعد پھر کبھی وہ نہ بھوکے ہوں گے نہ ننگے (اَنْ لاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی) نہ انھیں اپنے مستقبل کا کوئی اندیشہ لاحق ہوگا‘ نہ اپنے ماضی اور حال کا کوئی غم (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ)۔ اس کی ایمانی فکرونظر اسے بتاتی رہتی ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ اگر یہ بنیادی اور مقدم ترین خیرخواہی نہ کی گئی تو باقی ساری ہمدردیاں اورخیرخواہیاں بالکل ہیچ ہیں۔ اور ان سے خدا کے بندوں کے حقوق ہرگز ادا نہ ہوں گے اور خدا کے بندوں کے حقوق کا ادا نہ ہونا خود اس کے حقوق سے عہدہ برآ نہ ہونے کی دلیل ہے۔

ایمان‘ اسلام اور تقویٰ سے امربالمعروف کے یہ دو داخلی اور فطری تعلق تھے۔ ان کے علاوہ ان سے اس کا ایک خارجی اور مصلحتی تعلق بھی ہے جسے ہم دعوت اسلامی کا سیاسی مفاد کہہ سکتے ہیں‘ یعنی امربالمعروف اسلام و ایمان کا فطری مطالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک سیاسی ضرورت بھی ہے‘ اور وہ یہ کہ دعوتِ اسلامی کا علمبردار گروہ امربالمعروف کا فریضہ بجالا کر ہی اپنے ایمانی جوہر کو پوری طرح برقرار رکھ سکتا اور اپنے مقصد کے حصول میں پوری طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔ (انتخاب: فریضۂ اقامتِ دین‘ ص ۱۶۷-۱۸۲)