جنوری ۲۰۲۳

فہرست مضامین

دارالاسلام سے دارالاسلام تک

صدر الدین اصلاحیؒ | جنوری ۲۰۲۳ | تاریخ وسوانح

Responsive image Responsive image

یہ بات تو سبھی لوگ جانتے ہوں گے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریک کا آغاز دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے کیا تھا، اور اس بات سے بھی لوگ بالعموم واقف ہی ہوں گے کہ مولانا حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام ، ڈاکٹر اقبالؒ کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت پر آئے تھے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا [مودودی] اپنی تحریک کی عملی بنیاد ڈالتے ہی، چند [ماہ] کے اندر اندر دارالاسلام کو چھوڑ کر لاہور کیوں منتقل ہوگئے تھے؟ [اس مناسبت سے] کچھ لوگوں کے ایسے مضامین دیکھنے میں آئے، جن میں اس انتقالِ مکان کی عجیب اور بے سروپا قسم کی وجہیں بتائی گئی ہیں، اور ان میں سے ایک بزرگ نے تو اس سلسلے میں ’قیاس زور‘ سے بھی کام لینے میں قباحت محسوس نہیں کی ہے۔

چوں کہ اس وقت کم از کم میں تنہا وہ شخص ہوں، جو اس معاملے سے براہِ راست متعلق رہا ہے، اس لیے یہ میری ذمے داری قرار پاتی ہے کہ اس حقیقت ِواقعی کو روشنی میں لادوں، جو اس نقلِ مکانی کی پہلی اور آخری وجہ تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس بارے میں مذکورہ بالا غلط بیانیوں کی تصحیح ہوجائے گی، اور لوگ اصل صورتِ واقعہ سے واقف ہوجائیں گے، بلکہ ساتھ ہی مولانائے مرحوم و مغفور کی سیرت کا ایک خاص اور اہم پہلو بھی سامنے آجائے گا۔

پہلے اس واقعے کا پس منظر جان لیجیے:

مولانا ۱۴ مارچ ۱۹۳۸ء کو حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام، جمال پور (نزد پٹھان کوٹ) منتقل ہوئے تھے۔ یہ منتقلی ڈاکٹر اقبال مرحوم کے مشورے اور چودھری نیاز علی صاحب مرحوم، ساکن جمال پور، نزد پٹھان کوٹ کی دعوت پر ہوئی تھی، اور اس لیے ہوئی تھی کہ یہاں مرکز بناکر احیائے اسلام کی دعوت کا کام منظم طور سے شروع کیا جائے۔

یہاں آکر مولانا نے ان فکر انگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا، جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا، جس کے مطابق اُن کے نزدیک برصغیر میں احیائے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔

اسے پڑھ کر ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا [مودودی]کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کا نام لے کر ان خطوط پر کام شروع کردیا جانا چاہیے۔ اس تجویز یا اس مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا، جس میں پیشِ نظر تحریک کے مقصد، طریق کار اور اصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ اس مسودۂ دستور کی انھوں نے اس طرح کتابت کرائی کہ ایک طرف کے صفحات سادے رکھے گئے تھے اور مقابل کے صفحات پر مسودے کی عبارت درج تھی۔ طباعت کے بعد انھوں نے اس مسودئہ دستور کی کاپیاں اُن تمام حضرات کو بھجوادیں، جو اس کام سے دل چسپی ظاہر کرچکے تھے، اور ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ علم وفکر کے پاس روانہ کرائیں، اور ان سب لوگوں سے گزارش کی کہ ’’اس مسودۂ دستور کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کے اندر جہاں جہاں بھی وہ کوئی حذف یا اضافہ یا ترمیم تجویز کریں اس کو خالی صفحات پر درج کرتے جائیں، تاکہ جب اس مسودے کو آخری شکل دینے کے لیے مشاورتی اجتماع ہو، تو یہ ترمیمات اور حذف و اضافے بھی غوروبحث کے وقت سامنے رہیں‘‘۔

پھر ایک مناسب مدت کے بعد موصوف نے ان تمام حضرات کو دارالاسلام میں ایک متعینہ تاریخ پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ کچھ لوگوں کا تو کوئی جواب موصول نہ ہوسکا، کچھ لوگوں نے کسی بنا پر شریکِ اجتماع ہونے سے معذوری ظاہر کی، اور لکھا کہ ہم اپنی ترمیمات اور مشورے مسودۂ دستور میں درج کرکے بھجوا رہے ہیں۔ باقی لوگ تشریف لائے۔

۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ حاضرین میں اکثریت مغربی ہند کے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا منظور نعمانی صاحب بھی شامل تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔ اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی، جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔

بہرحال، اجتماع ختم ہوگیا تو اسی دن یا اگلے دن بعد نمازِ عصر [عبدالعزیز] شرقی صاحب کی رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے، جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی، یہ کُل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا نے تجدیدِ شہادت کی، اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی، جس کے بعد چودھری صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کردیا۔

وہ [چودھری نیاز علی خاں صاحب] اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں، مگر اصرار کے ساتھ مولانا سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں ’اسلامی حکومت‘ کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’الفاظ اور اصطلاحات میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو کام ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں، مگر دستور میں اسلامی حکومت کی اصطلاح کے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ چودھری صاحب کی اس رائے یا خواہش کے پیچھے کیا مصلحت کام کررہی تھی؟ میں اس کرید میں پڑنا نہیں چاہتا، خصوصاً اس لیے کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔

مولانا [مودودی]نے ان کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا، تو ہم اب کہیں اور جاکر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا کے اس فیصلے سے چودھری [نیازعلی خاں] صاحب سخت پریشان ہوگئے۔ انھوں نے مولانا کو منانے کی بڑی کوشش کی۔

جب اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو قصبہ دینانگر کے شیخ محمدنصیب صاحب کو بلایا، جو دارالاسلام ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ شیخ صاحب تشریف لائے اور انھوں نے بھی اپنی سی پوری کوشش کی کہ مولانا دارالاسلام سے نہ جائیں، مگر بات جہاں تھی وہیں رہی۔ مولانا اپنے فیصلے پر اٹل رہے، اور شیخ صاحب مایوس اور دل گرفتہ واپس چلے گئے۔ انھی دنوں مولانا کا فرمایا ہوا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے کہ ’’عجیب مشکل ہے، جن لوگوں کے پاس روپیہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ عقل بھی انھی کے پاس ہے‘‘۔ غرض منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا۔

کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں۔ صبح کو ٹرک پر سامان لادا گیا، اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے۔ یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پاؤں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔  سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا، اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہوئی، جو کئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔

یہ تھی دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے لاہور منتقل ہوجانے کی اصل وجہ، اور یہ تھا اس نقل مکانی کا اصل واقعہ۔

اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی تین سال بعد مولانا [مودودی] پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے ہوں گے؟ میں اُن دنوں لاہور میں موجود نہیں تھا، اس لیے براہِ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کرسکتا۔ مگر دارالاسلام لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی، اس سے حقیقت ِ واقعہ پوری طرح سمجھ لی جاسکتی ہے۔

یکم فروری۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا کہ:

کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب اور شیخ محمد نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں اب یہ تصفیہ ہوا ہے کہ وہ عمارات مع چار چھ ایکڑ زمین کے ۹۰ سال کے پٹے پر میں اُن سے لے لوں گا، اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہوگی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا اُن کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت کا ان کو حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے، جس طرح یہاں لاہور میں کرایہ دے کر رہتے ہیں۔