آپ نے آج تک گھروں، دکانوں یا بنکوں میں ڈاکا پڑنے کا حال تو سنا ہوگا، مگر پورے کا پورا ملک ڈاکے میں اڑا لے جانے کی مثال اس سے پہلے کم ہی دیکھی سنی گئی ہوگی۔ لیکن بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے ۱۷کروڑ آبادی پر مشتمل پورا ملک لوٹ کر انفرادیت قائم کی ہے۔ پھر یہ کام صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ دو، دو بار کیا: پہلے ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء میں۔
۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے ڈھاکہ میں لاکھوں لوگوں کے جلسے کے دوران اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی تحریک کا ایک نکاتی ایجنڈا ’فاشسٹ حسینہ واجد کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ‘ ہے، جو ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے اپنے ۱۵سالہ دورِ ظلم میں ملک کی معیشت، سیاست، تعلیم، عدلیہ، فوج اور پولیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔
ملک کے سول اور عسکری اداروں کو حسینہ واجد کی پالیسیوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ قومی اداروں کی کچھ ایسی درگت بنا دی ہے کہ یہ اب صرف اس کے ظالمانہ اور بدعنوان احکامات کی پیروی میں چلنے والے روبوٹ ہیں۔ اخباروں میں شائع ہورہا ہے کہ ملکی خزانے سے ۷ ارب ڈالر غائب ہو چکے ہیں۔ سرکاری و نجی بنکوں سے اربوں ٹکے [روپے] لوٹے جا چکے ہیں۔ ساڑھے سات ہزار کروڑ ٹکہ تو صرف ملک کے سب سے بڑے بنک ’اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ‘ (IBBL) سے لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ سب کارستانی حسینہ واجد کے قریبی ساتھیوں نے جعلی کاغذات، جعلی کمپنیوں اور جعلی پتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔ تاحال سرکار کی طرف سے ان الزامات پر نہ کسی تحقیق کی خبر ہے اور نہ کسی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
حسینہ واجد حکومت کے منصوبے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لوگوں کے ووٹ پر ڈاکازنی کے لیے سب سے پہلے اس نے اپنی ماتحت عدلیہ کے ہاتھوں، انتخابی عمل مکمل کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام ختم کردیا۔ یاد رہے، جنرل حسین محمد ارشاد کے آمرانہ دور کے اختتام پر ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے باہمی اتفاق سے پروفیسر غلام اعظم کے پیش کردہ تصور کے مطابق انتخاب کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام لاگو کیا تھا۔ اُس وقت حسینہ واجد کی جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ بھی اس اتفاق رائے میں شامل تھی، لیکن بعد میں عوامی لیگ نے انتخابات پر شب خون مارنے کے لیے اس معاہدے سے رُوگردانی کا رویہ اختیار کر لیا۔
حزبِ اختلاف کے حلقوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا تھا کہ جب تک یہ ٹولہ اقتدار کی کرسی پر موجود ہے، ریاستی ادارے اس کے اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات میں دخل اندازی کرتے رہیں گے۔ اسی لیے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حسینہ واجد کے کروائے گئے ۲۰۱۴ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور انتخاب کے دن یہ ثابت بھی ہو گیا کہ ان کے خدشات مبنی بر حقیقت تھے۔ آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی جگہ ہی مقرر نہیں کی گئی تھی، چنانچہ تمام نشستوں پر شیخ حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو شان دار ’کامیابی‘ حاصل ہوئی۔ انتخابات تو عوام کو با اختیار بنانے کے لیے منعقد ہوتے ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں یہ سارا عمل اقتدار پر قابض ٹولے کی چوری چھپانے کے لیے دُہرایا گیا ہے۔
یہ بات سخت مایوس کن رہی کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ۲۰۱۴ میں شیخ حسینہ کی انتخابی دھونس و دھاندلی کو برداشت کر لیا۔ جب ملک پر سماج دشمن قوتوں کا قبضہ ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا جرم ہے۔ ۲۰۱۴ میں اس کامیاب ڈاکازنی کےبعد حسینہ حکومت مزید بے باک ہو گئی اور اسے عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھنے کے لیے پارلیمنٹ پر کنٹرول حاصل ہوگیا۔ چنانچہ اس نے غیر عدالتی قتل، جبری گمشدگیوں،حزب اختلاف کے رہنماؤں کی پھانسیوں اور اسلام دوست قوتوں کی نسل کشی کا منصوبہ پوری قوت سے جاری رکھا۔ سیکڑوں علما ہنوز جیلوں میں بند اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ چار سال تک ایک غیر قانونی پارلیمان کا حصہ رہنے کے بعد حال ہی میں بی این پی کے سات ارکان نے اپنی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے۔ ان استعفوں کا اعلان ۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو کیا گیا ہے۔ ان اراکین کو اگر جمہوری اقدار سے محبت یا عوامی ووٹوں کی چوری سے نفرت ہوتی تو یہ اس چوری شدہ الیکشن سے اگلے ہی دن مستعفی ہو جاتے۔ لیکن بی این پی اور دیگر جماعتیں اس سیاسی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔
یہ ایک مایوس کن حقیقت ہے کہ بی این پی کو شیخ حسینہ کے خلاف یک نکاتی مہم کا فیصلہ کرنے میں ۱۵ سال لگ گئے۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایک گھنٹے کے لیے بھی کسی بدعنوان حاکم کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ لیکن بنگلہ دیش میں حالات اس کےبرعکس ہیں اور یہ بنگالی عوام اور ریاست کے لیے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔
اگر بی این پی کے رہنماؤں کو لگتا ہے کہ وہ اکیلے حسینہ واجد سے نپٹ سکتے ہیں تو شاید انھیں ملک میں کارفرما تمام تر غیر جمہوری قوتوں اور ان کی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ شیطانی قوتیں ملک کی جڑوں تک اپنا رسوخ رکھتی ہیں اور متحد ہو کر کام کرتی ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کرلینا غلط ہو گا کہ یہ حواری اتنی آسانی سے قابض حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ سیاست، پولیس، فوج، عدلیہ اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر مکمل رسوخ رکھتے ہیں۔ بی این پی اتنے بڑے اتحاد کے خلاف تن تنہا کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟
بی این پی کے رہنما جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ کو ہٹائے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہوگا۔ اس لیے انھیں اس تحریک کے دوران صف اول میں رہنا ہو گا اور قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ بی این پی کو اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ شیخ حسینہ ،سابق صدر جنرل ارشاد جیسی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اپنے آخری دنوں میں جنرل ارشاد اپنی سب سے بڑی طاقت یعنی فوج کی حمایت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے برعکس حسینہ کو ہنوز فوج کی حمایت حاصل ہے، جس کے پیچھے ایک مخصوص وجہ یہ ہے کہ عوامی خزانے کی لوٹ مار میں سب سے بڑا حصہ فوج کو ملتا ہے۔ بنگلہ دیشی فوجی قیادت کو یہ سہولت توجنرل ارشاد کے زمانے میں بھی حاصل نہیں تھی۔ مزیدبرآں جنرل ارشاد کو بھارت کی اس درجے میں پشت پناہی بھی حاصل نہیں تھی۔ ہندستان کی ’ہندوتوا پرچارک‘ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ بنگلہ دیش میں ان کے مہرے کو شکست ہو۔ اس کے علاوہ عوامی لیگ کی نئی دہلی حکومت سے نظریاتی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ عوامی لیگ کے فسطائی رہنما ’ہندوتوا‘ کے فسطائی رہنماؤں کی جانب نظریاتی جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عوامی لیگ کے فسطائیوں نے بابری مسجد کی شہادت یا ہندستان میں مسلمانوں کے قتل عام کی کبھی مذمت نہیں کی۔
بنگلہ دیش کی دینی قوتوں کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ چونکہ حسینہ واجد نے خود کو ’ہندوتوا‘ کا دوست ثابت کیا ہے، اس لیے اُمت مسلمہ سے بے وفائی کرکے مشرک قوتوں کی ہم نوائی کرنے والی مقتدر انتظامیہ کےخلاف سیاسی میدان میں تحریر، تقریر، اجتماع اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی جدوجہد عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے ان میں سے اگر کوئی انتخابی عمل میں حصہ لیتا ہے یا حصہ نہیں لیتا، مگر اسے کم از کم عوامی جدوجہد میں اپنا مؤثر کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔