مغرب کے سیاسی نظریات کے مطابق مملکت کاوجود تین عناصر مثلاً علاقہ،قوم اور حکومت سے ترتیب پاتاہے۔ تینوں عناصر کا اتحاد ہی مملکت کے وجود کا ضامن ہے۔
یہ تو ہوا مغربی نظریہ___ کیا اسلام بھی ایسا ہی نظریہ رکھتا ہے___؟ کیا وہ ان کی طرح ریاست کے لیے صرف مادی وجود کو ہی کافی سمجھتا ہے___؟ اور کیا مملکت کی تنظیم اور اُس کے ڈھانچے کے لیے اسلام جو الٰہی دین ہے، کوئی مثبت نظریات پیش کرتا ہے___؟
مغربی ریاستی نظریے کی رُو سے: ’’مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے مذہب کو مملکت کے اُمور میں دخل دینے کا حق نہیں، کیونکہ یہ معاملات انسانی اختیار سے باہر نہیں اور وہ حالات کے مطابق جیسا مناسب سمجھتے ہیں، ان کا انتظام کرتے ہیں: خدا کو اپنے کاموں سے غرض رکھنی چاہیے اور بادشاہ کو اپنے کام سے کام ہونا چاہیے۔ ملک بادشاہ کا ہے اور مذہب خدا کا۔ ملکی معاملات کا مختار بادشاہ ہے اور مذہبی معاملات میں خدا حاکم ہے۔ ہاں، البتہ مذہب کے چند اخلاقی قوانین عوام سے مملکت کے قوانین منوانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔
چونکہ اسلام اس دُنیا میں خداکا آخری مذہب ہے، اس لیے اس نے انسانیت کی نشوونما اور ترقی کے لیے چند ایسے بنیادی قوانین پیش کیے ہیں، جو زندگی کے تمام اُمورپر خواہ وہ انفرادی ہیں یا اجتماعی، صرف حاوی ہی نہیں بلکہ کارآمد بھی ہیں، مؤثر بھی ہیں، اور ابدی بھی۔ اسلام نے یہ آزادی عطا کی کہ ہروہ قوم جو اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے، ان بنیادی اصولوں پر اپنی مملکت کا ڈھانچا تیار کرسکتی ہے، اور زمانے اور حالات کے مطابق اس میں ترمیم اور وسعت پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن یہ لازمی ہے کہ اس عمل سے قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں پر ضرب نہ پڑے اور ان کی حدود کو نہ توڑا جائے۔
اسلام نے ہمیشہ حقائق کو فراخ دلی سے تسلیم کیا۔ اس لیے وہ مادی نظریۂ مملکت کے بارے میں مغربی سیاست دانوں سے اختلاف نہیں رکھتا کیونکہ مملکت کے لیے بہرحال مادی عناصر ضروری ہیں، لیکن وہ ان عناصر میں غیرمادی عنصر [مذہبی عنصر]کا بھی اضافہ کرتا ہے، اور ایسے بنیادی اصول پیش کرتا ہے جو اخلاقی، معاشی اور سیاسی میدان میں انسانیت کی اقدارکے حامل ہیں۔ دونوں نظریات میں فرق صرف اتنا ہے کہ مغربی مفکرین صرف مادی وجود کافی سمجھتے ہیں اور اسلام وسعت ِ نظر اور دُور رس نگاہ کی وجہ سے آگے بڑھ کر کئی بنیادی انسانی اقدار کو بھی شامل کر دیتا ہے۔
اب ہم اسلام کے ان بنیادی اصولوں کا جائزہ لیں گے، جو مملکت کا غیرمادی اور دینی ڈھانچا تیار کرتے اور اس کے انتظامی اُمور کی جزئیات تک کو متاثر کرتے ہیں۔ آخر میں تین مادی عناصر میں سے قومیت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کریں گے:
جب تک اخلاقیات کو نہ اپنایا جائے، معاشی اصول ناکارہ ثابت ہوں گے، کیونکہ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ ہوگا کہ رشوت ستانی اور مفاد پرستی زوروں پر ہوگی اور حکومت کی انتظامی قوتیں اس کا شکار ہوجائیں گی۔ اوراگر اسلام کے معاشی اصولوں کو نظرانداز کردیا جائے تو سماجی ڈھانچا کمزور ہوجائے گا اور نہ تو معاشی اصول اپنا مقصد حاصل کرسکیں گے، نہ اخلاقیات کا عمل دخل معاشرے میں باقی رہ جائے گا۔ دونوں کے اتحاد کے بغیر اصل مقاصد کی تکمیل ناممکن ہوجاتی ہے۔
اسلام نے صرف انسان کی نفسیاتی اورنظریاتی رہنمائی تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے پائیدار اور مستقل بنانے اوررائج کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری قرار دیے ہیں۔ روزانہ کی عبادت یعنی نماز کو صرف اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے کہ انسان کو ان اخلاقی اصولوں کو اپنانے کی عملی ترغیب دی جائے اور اس کا شعور اس سے آگاہ رہے کہ کوئی اعلیٰ ہستی ہے جو اس کے ہرعمل پر ہر لحظہ نگاہ رکھتی ہے۔
امانت داری کے عقیدے کی وجہ سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ مثبت کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی رکھتے ہیں، یعنی امرونہی دونوں پہلو لیے ہوئے ہیں۔ وہ احکام جن کی بجاآوری کا حکم دیا گیا ہے درج ذیل ہیں:
۱- زکٰوۃ: یعنی ہر سال اپنے سرمایے کا کچھ مقررہ حصہ ضرورت مندوں کے لیے خرچ کرنا۔
۲- انفاق یا خیرات: اس کا عمل زکوٰۃ سے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ سرمایے کا وہ حصہ ہے جو خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اور سماجی و قومی فلاح و بہبود پر لگایا جاتا ہے۔
۳- سرمایـے کو کارآمد بنانا: یعنی قومی دولت میں اضافے کے لیے اور خود نفع حاصل کرنے کے لیے سرمایے کو کام میں لگانا۔ اسلام سرمایے کو دباکر رکھنے اور حصولِ دولت میں اس سے کام نہ لینے کے سخت خلاف ہے اور قانون کی رُو سے ایسا سرمایہ ضبط کیے جانے کے لائق ہے۔
اور وہ کام جنھیں نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،درج ذیل ہیں:
۱- اجارہ داری: اسلام اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس کا مطلب سرمایے کو قوم اور معاشرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔
۲- استحصالِ زر:اسلام سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے بھی خلاف ہے۔
۳- تعیش اور کنجوسی: عیش پر حد سے زیادہ خرچ کرنا یا کنجوسی سے کام لینا اور سرمایہ جمع کرنا بھی ناجائز ہے۔ اسلام دونوں کی متوازن صورت کو پسند کرتا ہے۔
جہاں تک محنت کا سوال ہے، اسلام ایسی محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو اپنے اور قوم کے لیے حصولِ دولت پر صرف ہوتی ہے۔وہ کاہلی اور مفت خوری کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ہرمسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے اور قوم کی خاطر کسی نہ کسی مفید کام میں مصروفِ عمل رہے۔ ایسا عمل، عبادت میں شامل ہے۔ وہ بُرائی کی طرف مائل نہیں ہوسکے گا کیونکہ وہ ہروقت عالم الغیب کی نگاہوں میں رہے گا اور اسے اس بات کا شعور ہوگا۔اسلام، انسان کے بلند رُتبہ ہونے کا قائل ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کی رُو سے مزدور کو چند ٹکوں سے خریدا نہیں جاسکتا بلکہ برابر کا حصہ دیا جاتا ہے۔
اگر ان معاشی اصولوں کو اپنایا جائے تو ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد پڑے گی، جو موجودہ سوسائٹیوں سے درج ذیل معاملات میں مختلف ہوگی:
یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر ان معاشی نظریات کو قانونی شکل دے کر رائج کیا جائے، تو متضاد انسانی مفادات کے باوجود معاشی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے اور اسلامی مملکت کے اس کے علاوہ دوسرے مقاصد بھی آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، اور انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں۔
منتظمین کی جماعت کے لیے اسلام ایک عالمگیر اصول پیش کرتا ہے اور وہ ہے الشوریٰ، یعنی باہمی مشورہ۔ عوام کی رائے ہر معاملے میں لینا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق حاکم کے انتخاب سے ہو یا حکومت کی تنظیم و مملکت کی تعمیر سے، یا اس کے اغراض و مقاصد سے، لیکن کسی بھی صورت میں حاکم مطلق العنان نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے اس ضابطے کو اگر آج مغربی مفہوم میں سمجھا جائے تو وہ یہ ہے کہ حاکم عوام کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں ہوسکتا، کیونکہ سب کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ قوم کا فردخواہ اس کا تعلق رعیت سے ہو یا حکومت سے، ایک جیسا رُتبہ رکھتا ہے اور دونوں پر ایک جیسی اور برابر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو گروہ یا قوم اپنی رائے سے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حکام کے احکام کو جائز یا ناجائز قرار دیں۔ اور حکومت کے تمام محکمے جب تک انھیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق خیال کرکے وہ صحیح قرار نہ دیں، اس وقت تک ان احکام پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ اس طرح پوری قوم کو احساس ہوجاتا ہے کہ حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان، حکام کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنی قوم کا یا دوسرے معنوں میں خدا کا حکم بجا لاتاہے۔
مجلس مشاورت، اسلام کا اہم و لازمی قانون ہے۔ اس قانون کی اہمیت و رُتبہ اس بات سے واضح ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کو جنھیں کہ وحی آتی تھی، یہ حکم دیا گیا تھا کہ صحابہ سے دُنیاوی اُمور میں مشورہ کیا کریں۔ اسلام میں حکومت کسی انسان کی، خواہ وہ خلیفہ ہو یا صدر و گورنر، تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ اللہ ہی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ چیز مغربی مفکرین کے اس نظریے کو جھٹلاتی ہے کہ اسلامی حکومت سخت گیر اور متعصب حکومت ہے۔
وہ جماعت جس کے ذمے المعروف کا حکم دینا اور المنکر سے روکنا ہے۔ اس کی کیسے تنظیم کی جائے ، وہ اپنے احکام کس طرح منوائیں اور اگر ایسی جماعت کو منظم کرلیا جائے اور وہ اپنے احکام بھی جاری کرنے لگے تو کیا قوم کے تین گروہ نہیں بن جائیں گے:
ایسے سوالوں کا جواب اسلام نے انسانی فہم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ زمانے اور مقام کی مناسبت سے جیسے درست سمجھے کرے، جس طرح حالات اجازت دیں اور جیسا مقامی قوم کا مزاج تقاضا کرے اسی کے مطابق ان چیزوں کی تنظیم کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُسے قرآن و سنت کو نہ بھولنا چاہیے۔ اس کی عقل و فہم قرآن و سنت کی روشنی میں جو مناسب اور صحیح راستہ سمجھتی ہے اس کو اختیار کرے۔
اسلام نے انسانی ذہن کی نشوونما اور ترقی کے لیے بہت کچھ کیا ہے، حتیٰ کہ عقائد تک کو اسی نظر سے پیش کیا ہے۔ اللہ کے وجود اور اُس کی وحدانیت، روزِ قیامت اور روزِ جزا، جب کہ انسان اپنے اعمال کا حساب دے گا، ان تمام کوعقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس کا طریقۂ ترغیب عقلی دلائل ہیں۔
عقل و فہم میں وسعت و گہرائی پیدا کرنے کی خاطر اسلام علم کا حاصل کرنا (خواہ وہ کہیں سے بھی ملے) ضروری بلکہ فرض قرار دیتا ہے، تاکہ فرض کی ادائیگی سے اُسے یہ احساس ہو کہ وہ اللہ کے قریب آگیا ہے اور اس کی نظر میں عزیز ہے۔ چند کتابوں تک علم کو محدود سمجھنے کے بجائے دُنیا کی ہرشے سے علم (خواہ وہ عبرت کی صورت میں ہو) حاصل کرنا چاہیے۔ اسلام دُنیا کے بحربے کنار کی گہرائیوں سے دولت علم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے اور جب انسان دیکھتا ہے کہ اس مالک الاملاک نے دُنیا کی تمام اشیا اس کے لیے بنائی ہیں، تو اس کی اعلیٰ و برتر ہستی پر اس کا اعتقاد اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ قرآنِ پاک اپنے ارشادات میں ہمیشہ جہالت اور جاہلیت پرلعنت بھیجتا رہا ہے اور مسلمانوں کے علم حاصل کرنے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
اس معیار تنقید و تجزیہ نے الٰہی قوانین کو جامد بنانے کے بجائے حرکی قوت عطا کی۔ چونکہ انسان تیزی سے مادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور دُنیا بھی ہرلحظہ متغیر ہے، اس لیے اسلام نے بھی اس دوڑاور تبدیلی کا ساتھ دینے کی خاطر اپنے قوانین کو نئے رنگ میں رنگنے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ وہ اپنے بنیادی مقاصد سے دُور نہ چلے جائیں۔
اس کسوٹی یا معیارِ تنقید کو ہم ’مطابقت‘ یا ’قیاس‘، ’استصلاح‘ یا ’کارآمد و عمدہ استعمال‘ کا نام دیتے ہیں۔ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے اور اسے ضرر رساں عناصر سے پا ک کرنے کے لیے ہم اسی مفہوم کے دوسرے تنقیدی اصول بھی استعمال میں لائیں گے۔
لیکن بدقسمتی سے ان معیارِ تنقید کے اصولوں کو بنیادی نظریات کے لیے مسلسل استعمال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے اسلامی نظریۂ مملکت ارتقائی منازل طے نہ کرسکا۔ نتیجہ یہ کہ مسلم مملکتیں بہت جلد زوال کا شکار ہوگئیں، اور مسلم سوسائٹی بے جان و جامد ہوکر رہ گئی اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس کا الزام، اپنے اور پرائے، غلط راہوں پر چلنے والے مسلمانوں کے بجائے اسلام کے سر تھوپ دیتے ہیں۔
مملکت کے صدر یا خلیفہ کا انتخاب بااثر ووٹوں سے ہوتا تھا۔ اس طریقۂ انتخاب کو جدید اصطلاح میں ’الیکشن‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت الیکشن کا کوئی باقاعدہ لائحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا تھا کیونکہ کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔
خلیفہ مملکت کے انتظامی اُمور میں خودمختار نہ تھا بلکہ الشوریٰ کے ذریعے یا جدید اصطلاح میں پارلیمنٹ کے ذریعے اس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے تھے۔ لیکن آج کل کی طرح مجلس کی پیچیدہ اور طویل کارروائی تک نوبت نہیں آتی تھی۔ الشوریٰ کی سادی و مختصر صورت اور دوسرے اصولوں کی ہیئت و عمل اس وقت کی تمام ضروریات کو پورا کر رہا تھا، اور یہ اُس زمانے میں ایک جدید ترین اور انفرادیت کا حامل نظام تھا۔ اس دور کے مسلمان،اللہ کی عبادت کے مفہو م سے پوری طرح آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ قانون کی لاٹھی سب کے لیے ایک ہی ہے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ، کسی رُتبے کا ہو یا کسی رنگ کا ہو اور انصاف سب کے لیے ہے۔ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ تقریر و تنقید ہر ایک کو مساویانہ طور پر حاصل تھی۔ چونکہ وہ اخلاقی اقدار کے پرستار تھے اور اس کے اُصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے، اس لیے دُنیا کی حرص و ہوس سے دامن بچائے رکھتے تھے اور رشوت ستانی جیسی اخلاقی بُرائیاں جو ہوسِ دُنیا کا نتیجہ ہوتی ہیں اور سوسائٹی کی جڑیں کھوکھلی کردیتی ہیں، ان کے نزدیک نہ پھٹکتی تھیں۔
اس کی حقیقی قدروقیمت کا اندازہ اس سے ہوجائے گا کہ یہ نہ تو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کا کوئی مخصوص طریقۂ کار پیش کرتا ہے اور نہ اسے ایسا مستقل اور اٹل بنادیتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس میں اپنے فہم و علم کے مطابق تبدیلی پیدا نہ کرسکیںاور نئے حالات و مسائل سے نپٹ سکیں۔ اس طرح عام اور بنیادی اصول پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان حالات کے مطابق جو طریق ہائے کار مناسب سمجھیں، اسی کے مطابق ان کو لاگو کریں۔ ان اصولوں کی یہ تبدیل ہونے والی یا حرکی خاصیت ثابت کرتی ہے کہ وہ ایسے الٰہی قوانین ہیں، جو ہر زمانے اور ہردور میں ہرجگہ قابلِ عمل ہیں۔
اخلاقی و معاشی اصولوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ مختلف طبقوں کو مدغم کرنے یا ختم کرنے کا اصول جو بیک وقت اخلاقی و معاشی حیثیت رکھتا تھا، اس کو کبھی عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔ عالم گیر اخوت اور حملہ آور کا مل کر مقابلہ کرنے کے اصول جو سیاسی ہونے کے علاوہ اخلاقی بھی تھے، ہمیشہ نظرانداز کیے جاتے رہے۔ نہ کوئی خاص انجمن یا مجلس ہی بنائی گئی، جو ان بنیادی اصولوں کو صحیح طور پر عمل میں لاسکے اور ان کی وضاحت کر سکے۔ اسلامی تاریخ میں اس قسم کے روح فرسا واقعات کا بیان مل جاتا ہے کہ جس وقت مسلمان عثمانی ترکوں کے تحت مشرقی یورپ کو تاراج کر رہے تھے اور وی آنا کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ بالکل اسی وقت بنواُمیہ کو اندلس میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
اسلامی نظریہ مملکت سے متعلق چند دینی تقاضوں کا مختصر بیان: اسلامی نظریۂ مملکت صحیح معنوں میں اس وقت عمل میں آسکتا ہے، جب کہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
یہ اسلام کے وہ بنیادی و نمایاں اصول ہیں، جو ہم نے مغربی اصولوں کے مقابلے میں بیان کیے ہیں۔ یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ مغربی مفکرینِ سیاست مذہب و معاشیات کی وحدت کے بجائے ان کے الگ الگ انفرادی طریق کار کو پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ سماجی تباہی و بربادی سے مجبور ہوکر فرانس (۱۹۴۶ء)، جرمنی (۱۹۴۷ء) اور اٹلی (۱۹۴۹ء) کے قوانین نے سماجی و معاشی اصولوں کو ملا دیا تھا، لیکن پھر بھی وہ اسلامی قوانین سے مختلف ہیں۔ اسلامی دستور میں احکام کی پابندی کا انحصار حکومت کی طاقت کے بجائے انسانی شعور و ضمیر پر ہے۔ مسلمان کا ضمیر، الٰہی قوانین کا پابند ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ گارنٹی ہے۔
پھر یہ بات بھی بیان کی جاچکی ہے کہ اسلام ان تینوں مادی عناصر کو ان کے اتحاد ثلاثہ کی صورت ہی میں قبول کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام کو مملکت کے ڈھانچے پر اسلامی رنگ چڑھانا تھا، اس لیے اس نے اخلاقی، سیاسی اور معاشی اتحاد ثلاثہ پر بھی زور دیا اور قومیت کے بارے میں اس کا نظریہ دوسروں کے نظریات سے زیادہ وسیع اور ان سے زیادہ انسانی اقدار کو لیے ہوئے ہے۔
ان اصولوں نے انسان پر واضح کر دیا کہ خدا نے اسے تخلیق کیا اور زمین پر اپنا نائب مقرر کیا تو اس نے کسی ایسے امتیاز کو روا نہ رکھا۔ چونکہ انسان خدا کی مخلوق ہیں، اس لیے سب ایک ہی رُتبے کے مالک ہیں۔ اس کی نگاہ میں کوئی برتر یا کمتر نہیں ہے۔
قرآن پاک میں آیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا‘‘۔ ’انسان‘ سے یہاں مراد کوئی مخصوص علاقے کا انسان نہیں بلکہ بغیر تفریقِ قوم و علاقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس اصول کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تمام دُنیا کے انسان بھائی بھائی ہیں اور ان پر اس زمین میں اللہ تعالیٰ کے نائب ہونے کے فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔
قرآن میں اس مساوات کے متعلق کئی آیات ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ ’’دوسرے انسانوں سے نرمی برتو اور رحم سے پیش آئو تاکہ اللہ کی رحمت تم پر ہو‘‘۔ اس میں تمام انسانوں سے ایسے سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی تخصیص نہیں کی گئی۔ پس اسلام کا مقصد اس دُنیا میں یہی ہے کہ عالم گیر اخوت کو رائج کرے اور مختلف قوموں میں یک جہتی اور وحدت پیدا کرے۔ مسلم قومیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ محدود حدود میں گھری ہوئی ہے۔ اس میں تنگ نظری نہیں بلکہ فراخ دلی ہے۔ یہ ہرغیر ملک و قوم کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی ہے، اور تعصب برتنے کے بجائے اللہ کی زمین کے آخری کونے میں رہنے والے انسان سے بھی محبت کرتی اور خوش آمدید کہتی ہے۔
مختصراً اسلام میں عالم گیر قومیت کا مطلب کئی قومیتوں کا اتحاد ہے۔ جزئیات مل کر ایک عالم گیر وحدت کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور اسلام کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھتا ہے، جب کہ مقامی قومیت اس لیے ہے تاکہ وہ آئینی حیثیت سے پابند ہوکر ایک گھر بنا کر رہیں اور اس کی مقامی و جغرافیائی ضروریات کے مطابق باہمی معاملات و مسائل کا تصفیہ کریں۔ اسلام مقامی قومیت کو صرف اسی نقطۂ نظر سے مملکت کی تعمیر میں ایک لازمی عنصر خیال کرتا ہے۔
جب ہم اسلامی نظریۂ قومیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں:
اس کے برخلاف مغربی اقوام نے نسل و رنگ کے امتیاز کو اپنایا اور اس برتری کی آڑ میں دُنیاوی حرص و ہوس کی تسکین کی اور کئی ملکوں کو غلام بنا کر لوٹا۔ پچھلی جنگوں کی بنیاد صرف یہی دُنیاوی لالچ تھا جس نے کہ نوآبادیاتی اور شہنشاہی نظام کو جنم دیا۔ اس قسم کی قومیت کو پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی مشہور تاریخ دان نے بہت بُرا خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم صرف اسی وقت بچ سکتے ہیں اور سلامتی کی اُمید رکھ سکتے ہیں، جب کہ دُنیا میں ایک عالم گیر قومیت کا شعور بیدار ہوجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ تنگ نظر قومیت پرستی اس دُنیا کو تباہی و بربادی کے گہرے گڑھوں میں پھینک کر دم لے گی‘‘۔