خلیفۂ راشد حضرت علیؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے قرآن کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، جس میں تمھارے عہد سے پہلے کی بھی خبریں ہیں اور بعد کی بھی، اور تمھارے معاملات کا حل بھی اس میں موجود ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو زبردست اورزور آور سمجھتے ہوئے اس سے پہلو بچائے تواللہ تعالیٰ اُسے بُرے انجام سے دوچار کرے گا، اورجو شخص اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت کا متلاشی ہوگا، اُسے اللہ گمراہ کردے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے،اس کا روشن نُور ہے۔ حکمت سے بھرپور ذکر ہے اور سیدھا راستہ ہے۔ ا س کو اختیار کرنے کی صورت میں انسان نفسانی خواہشوں کا غلام نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں نہ زبانوں میں التباس رہتاہے، نہ آراء میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کو اہلِ علم جتنا بھی پڑھیں، کبھی پیاس بجھا نہ سکیں گے اور اہلِ تقویٰ کبھی اُکتاہٹ نہیں محسوس کریں گے۔ ذکر و تلاوت کی کثرت سے وہ پرانا نہیں ہوتا اور اس کے عجائب فنا نہیں ہوتے۔ جنوں نے جب اُس کو سنا تو پکار اُٹھے: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَـجَــبًا۱ۙ (الجن۷۲:۱) [ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے]۔ جس نے اس کا علم حاصل کیا وہ آگے بڑھ گیا۔ جس نے اس کی روشنی میں کوئی بات کہی اس نے سچ کہا۔ جس نے اس سے فیصلہ کیا اُس نے انصاف کیا۔جس نے اس پر عمل کیا وہ اجر کا مستحق ہوا، اور جس نے اس کی طرف دعوت دی، اُس نے درحقیقت سیدھے راستے کی طرف دعو ت دی۔(ترمذی، ج۲،ص ۱۴۹)
یہ قرآنِ کریم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، تاکہ اہلِ ایمان اس کی تلاوت کریں، اس کے ذریعے اپنے سینوں کو کشادہ کریں، اپنے دلوں کو اس کے نُور سے منور کریں اور اس کے ذریعے قیامت کے دن انعاماتِ الٰہی کے مستحق ہوں، اور اس کی روشنی میں اپنا دستورِ زندگی بناکرمعاشرے میں ایک صالح نظام قائم کریں، تاکہ دُنیا میں خوش حالی اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوں:
مَنْ عَمِلَ صَالـِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۷ (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۱۲۴ (طٰـہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو شخص میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے۔
قرآن کریم سے مقصود محض اس کی تلاوت اور برکت کا حصول نہیں ہے۔ اگرچہ قرآن کی تلاوت بھی باعث ِ برکت ہے بلکہ اس کی حقیقی برکت تو اس میں تدبر و تفکر اور اس کے معانی و مقاصد کے فہم، پھر دینی و دُنیوی اُمور میں اس پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جو شخص ایسا نہیں کرسکے گا یا بے سمجھے محض تلاوت پر اکتفا کرے گا، اس کے بارے میں اس وعید کے صادق آجانے کا اندیشہ ہے، جسے امام بخاریؒ نے حضرت حذیفہؓ سے روایت کی ہے: ’’اے قرآن پڑھنے والو! سیدھے رہو تو بہت آگے نکل جائو گے، لیکن اگر تم نے دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی تو بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوجائو گے‘‘۔
اسی لیے قرآن کی ایک ایسی عام فہم تفسیر کی ضرورت ہوئی جس سے اس کے معانی و مقاصد انسانی صلاحیتوں اورعقل کے بقدر سمجھ میں آجائیں۔قرآن کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بہت ہی آسان بنایا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر۵۴:۱۷) ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّـرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹:۹۷) اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۵۸ (الدخان ۴۴:۵۸) اے نبیؐ، ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
لیکن زبانوں میں فساد پیدا ہوجانے، لہجے بگڑ جانے، عامی زبان کے رواج پانے اور فصیح زبان سے دُور ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ان الفاظ اور ترکیبوں کی تشریح کی جائے، جن کے معانی بسااوقات ان کے ذہنوں سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قرآن کریم دین اور دُنیا دونوں کا دستور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمام علوم و معارف کو جمع کردیا ہے، جن کے ادراک میں لوگوں کی عقلیں یکساں نہیں ہیں اور جن کے جواہرپارے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکارا ہوتے رہیں گے:
سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۵۳ (حٰم السجدہ ۴۱:۵۳) عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے کسی نے دریافت کیا : ’’کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بیت کو مخصوص طور پر کچھ چیزیں بتائی ہیں، جوکسی اور کو نہ بتائی ہوں؟‘‘
فرمایا: ’’نہیں، سوائے کتاب اللہ کے فہم اور اس صحیفہ کے‘‘۔ یہ کہہ کر اس کے سامنے وہ صحیفہ پیش کر دیا جس میں کچھ احکام درج تھے۔
اس طرح بہت ہی ابتدائی شکل میں علم تفسیر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد لوگ برابر اس میں اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم تک اس تفسیر کا ایک بڑا ذخیرہ پہنچا ہے۔ ان میں سے کچھ نُوروہدایت کا مخزن ہیں اور کچھ صرف علمی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں، جن میں ہرموضوع پر بحث ملتی ہے، سوائے تفسیر کے۔
سلف تعلیماتِ قرآن سے واقفیت حاصل کرنے کا اہتمام کرتے تھے اور جس شخص کو بھی قرآن کے کسی حصے کی تفسیر معلوم ہوتی تھی، وہ اس کی فضیلت کااعتراف کرتا تھا۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے حضرت جابرؓ بن عبداللہ کا ذکر کیا تو ان کے علم و فضل کی تحسین کی۔ ایک شخص نے عرض کیا: ’’میں آپؓ پر فداہوں۔ آپؓ جابرؓ کے علم کی تحسین فرماتے ہیں، حالانکہ آپؓ کا مقام ان سے کہیں بڑھ کرہے‘‘۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’انھیں آیت: اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۰ۭ (القصص ۲۸:۸۵) کی تفسیر معلوم تھی‘‘۔
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے محبوب وہ شخص ہے، جو قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو‘‘۔حضرت حسنؒ فرماتے ہیں: ’’خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ جو آیت بھی نازل کرتا ہے، اس کے بارے میں چاہتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کب نازل ہوئی؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟‘‘
حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں: ’’ایک آیت کی تفسیر معلوم کرنے کے لیے حضرت مسروقؒ نے بصرہ کا سفر کیا، تو وہاں انھیں پتا چلا کہ جو شخص اس آیت کی تفسیر جانتا ہےوہ شام چلا گیا ہے۔ انھوں نے رخت ِ سفر باندھا اور شام روانہ ہوئے، اور وہاں پہنچ کر اس شخص سے اس آیت کی تفسیر معلوم کی‘‘۔
حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں: ’’ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ (النساء۴:۱۰۰)کس شخص کے بارے میں نازل ہوا تھا؟ اس کی مَیں چودہ برس تک تحقیق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ معلوم کرلیا‘‘۔ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:’’اس سے مراد حضرت ضمرہ بن حبیبؓ ہیں‘‘۔
ایاس ؒ بن معاویہ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں، لیکن اس کی تفسیر سے واقف نہیں ہوتے، ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے، جن کے پاس رات میں ان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط آئے اور اس وقت ان کے پاس چراغ نہ ہو کہ وہ خط پڑھ سکیں۔ چنانچہ وہ دہشت زدہ ہوجائیں کہ معلوم نہیں کہ خط میں کیا لکھا ہو اور جو لوگ تفسیر جانتے ہیں، ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے، جن کے پاس بادشاہ کا خط رات میں آئے اور اُن کےپاس چراغ ہو، جس کی روشنی میں وہ خط کا مضمون پڑھ لیں‘‘(مقدمہ تفسیرالقرطبی )۔
ایک طرف سلف کے نزدیک تفسیر کی اتنی اہمیت اور اسبابِ نزول اور تفسیر سے واقفیت رکھنے والوں کی اتنی عظمت تھی، تو دوسری طرف وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ آیات کا جو مفہوم وہ سمجھتے ہیں، وہ خاص اغراض یا ذاتی خواہشوں یا ہنگامی حالات سے متاثر نہ ہو۔ ان کے تمام اعمال و تصرفات پر قرآن کی حکمرانی ہوتی تھی۔ ان کی خواہشیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے تابع تھیں (اوریہی ایمان کا تقاضا ہے)۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ تفسیر بیان کرنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے اور اس میں اپنی رائے سے کچھ کہنے سے بہت ڈرتے تھے۔
ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:’’سلف صالح کی اکثریت مثلاً سعید بن المسیّب، عامر شعبی اور دوسرے لوگ تفسیر قرآن کو بہت عظیم سمجھتے تھے، اور باوجود اپنی عالی مقامی اور بالغ نظری کے احتیاط کی بناپر تفسیر نہیں بیان کرتے تھے‘‘۔ ابوبکر الانباری فرماتے ہیں: ’’ائمہ سلف قرآن کی مشکلات کی تفسیر کرنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔ بعض حضرات یہ سوچتے تھے کہ جو تفسیر وہ بیان کریں گے، ممکن ہے وہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہ ہو، اور بعض لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں وہ تفسیر میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس پر کسی مسلک کی بنیاد قائم ہوجائے اور اس کی پیروی کی جانے لگے۔ پھر بعد میں آنے والا کوئی شخص اپنی رائے سے کوئی غلط تفسیر بیان کرے اور کہے کہ قرآن کی تفسیر بالرائے میں سلف میں سے فلاں شخص میرا امام ہے‘‘۔
ابن ملیکہؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ سے قرآن کے ایک حرف کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا: ’’اگر میں قرآن کے کسی حرف کی تفسیر ایسی کردوں، جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے برخلاف ہو، تو کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا؟ کون سی زمین مجھے پناہ دے گی؟ میں کہاں جائوں گا اور کیا کروں گا؟‘‘
ترمذی اور ابوداؤد نے حضرت جندبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اور وہ صحیح ہو تب بھی اس نے غلطی کی‘‘(مقدمہ تفسیرالقرطبی (الجامع للاحکام القرآن) سنن الترمذی، ۲/۱۵۷)۔
تفسیر بالرائے سے مراد یہاں یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی بات بغیر علم کے محض ناواقفیت میں یا غلطی میں پھنس کر، یا اپنے آپ کو جاہل کہلانے سے بچنے کے لیے کہے، یا مخصوص اغراض کے تحت راہِ صواب اور راہِ حق سے منحرف ہوجائے۔ اس نیت کے ساتھ کوئی قرآن کی تفسیر کرے، تو اگر وہ صحیح بات بھی کہے تو بھی غلطی پر ہے اور وہ گنہگار ہوگا۔ البتہ جو لوگ اپنی خواہشوں سے بالاتر رہ کر راہِ حق معلو م کرنے کے لیے غوروفکر کرتے ہیں، وہ اگر غلطی کریں تب بھی اجر کے مستحق ہوں گے اور اگرصحیح بات کہیں تو ان کے لیے دو اجر ہیں۔ اس طرح سلف کے تفسیر کی طرف راغب ہونے اور مفسرین کی قدرومنزلت کرنے اور تفسیر بالرائے سے ڈرنے اور دوسروں کو منع کرنے کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے۔
تفسیر کا اسلوب مختلف زمانوں میں معاشرتی ، تہذیبی اور ثقافتی ارتقا سے متاثر رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا طریقہ بہت آسان اور سادہ تھا۔ صرف چند آیات اور الفاظ اور کچھ واقعات کی تفسیر کی جاتی تھی۔ اس لیے کہ لوگ اپنے عربی ذوق اور لغوی سلیقہ کی وجہ سے تفسیر سے بے نیاز تھے اور عملی سنت پر (جس کا انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ وتابعینؒ کے ساتھ رہ کر مشاہدہ کیا تھا) اکتفا کرتے تھے۔
پھر تفسیر اور قصص کا زمانہ آیا، تو اس میں تفسیر کے نام پر منقول روایات اور قصے لکھے گئے۔ ان میں کچھ تو صحیح اور اسبابِ نزو ل اور احکام کے واقعات پر مبنی ہوتے تھے اور کچھ اہلِ کتاب سے منقول قصے ہوتے تھے، جن میں رطب و یابس ، جو کچھ مفسرین کے علم میں آتا تھا، سب جمع کر دیتے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور مفید تفسیر امام محمد بن جریر طبری (م: ۳۱۰ھ) کی تفسیر جامع البیان فی تفسیرالقرآن ہے۔
پھر ترجمہ اور فلسفہ کا دور آیا۔ ایران اور یونان کے علوم سے روابط قائم ہوئے۔ مسلم فلاسفہ اور علما کے درمیان عقیدے کے بہت سے مباحث اور فقہی معاملات میں اختلاف ہوا۔ چنانچہ تفسیر کی کتابوں میں بھی یہ اسلوب اپنایا گیا۔ ان میں بہت سے فلسفیانہ نظریات بیان کیے گئے۔ آیات کے ذریعے مختلف عقائدی آراء اور مسالک پر استدلال کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے مفسرین آیت سے ایسی باتوں کا استنباط کرنے کی کوشش کرنے لگے، جن سے فروع میں ان کے مسلک کی تائید ہوتی ہو۔ یہ محض پہلے کی کتابوں کا جواب فراہم کرنا تھا۔ یہ چیز فخرالدین الرازی کی تفسیر مفاتیح الغیب اور زمخشری کی تفسیر الکشاف اور اس مرتبے کی دوسری کتب ِ تفسیر میں بہت واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض محققین اس اسلوب پر تفسیر بالمعقول کا اطلاق کرتے تھے۔
بعض ماہرین لغت نے بھی قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تفسیریں کی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی توجہ بلاغت کے نکتوں، لغوی توجیہات اور نحوی استعمالات پر مرکوز رکھی ہے۔ اس کی مثال میں زجاج، واحدی اور ابوحیان اندلسی کی تفسیریں پیش کی جاسکتی ہیں۔ راغب اصفہانی (جو چھٹی صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں) کی کتاب المفردات آج تک متداول ہے۔
عصرحاضر کے بہت سے مفسرین کا رجحان سائنسی ترقی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے اور قرآن نے علومِ کائنات کے جن اصول و قوانین اور مظاہر کی طرف اشارہ کیا ہے، انھیں بیان کرنے کی طرف ہے۔ جیساکہ شیخ طنطاوی جوہری نے اپنی تفسیر الجواھر میں کیا ہے۔ اسی طرح کچھ دوسرے مفسرین کی توجہ معاشرتی قوانین، ہدایت کےنفسیاتی اسالیب اور تاریخی تبدیلیوں کے اسباب بیان کرنے اور ان کا قرآن کریم کے ذریعے استنباط کرنے کی طرف رہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو قرآن کے ذریعے اپنی عظمت ورفعت کو واپس لانے کی تحریک مل سکے، اور ان کی معاشرتی زندگی قرآن کی تعلیمات اور قوانین سے مربوط ہوسکے، جیساکہ استاد امام شیخ محمد عبدہٗ اور ان کے وارث اور شاگرد سیّد محمدرشیدرضا، اللہ دونوں پر رحم کرے ، نے اپنی تفسیر المنار میں بیان کیا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تفسیر کا اسلوب ہر مفسر اور ہر زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور ایساہونا قدرتی امر تھا۔ مفسرین تفسیر کے ذریعے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں، جو وہ کتابِ الٰہی سے سمجھتے ہیں۔ ان کا آلۂ فہم ان کی عقلیں ہیں اور مادۂ علم ان کا ماحول اور ان کے زمانے کےعلوم ہوتے ہیں، اس لیے لازمی بات ہے کہ اس کا اظہار نمایاں طور پر ان کے رشحاتِ قلم اور آراء میں ہو۔
مختلف ثقافتوں اور اَدوار سے متاثر ہونے کے نتیجے میں قرآن کے موضوعات پر لکھتے وقت بعض لوگوں سے لغزشیں سرزد ہوجایا کرتی ہیں اور وہ فہم اور تعبیر میں راہِ صواب سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب شرعی ، لغوی، دینی اورادبی مطالعات میں (جو کہ صحت ِ فہم، ادراکِ مقصد اور وضوحِ عبارت میں معاون ہوتی ہیں) انھیں مہارت حاصل نہ ہو۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مستشرقین جب بھی قرآن کے کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو لغت میں کمزوری اور صحیح اسلامی مطالعات پر عدم قدرت کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں فاش غلطیاں کرتے ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے، جو ان میں سے آزاد بحث و تحقیق میں مخلص ہوتے ہیں۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ مخصوص اغراض کے تحت تحقیق کرتے ہیں اور جنھیں ان مطالعات پر بخوبی عبور حاصل نہیں ہوتا، ان کا کیا حال ہوگا؟
بیش تر اوقات ایسے لوگوں سے یہ فاش غلطیاں عبارت آرائی اور اس کے معانی، مطلوب سے عدم مطابقت کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اس طرح کہ اگر اس معنی کو مزید محکم عبارت میں بیان کیا جاتا تو اس سے خالق قرآن کی غرض و غایت زیادہ واضح ہوتی۔ مقصد کی تکمیل زیاد ہ بہتر طریقے پر ہوتی اور اس قسم کی تحقیقات کے بیان کرنے میں جو ادب ملحوظ رہنا چاہیے، اس کی رعایت رہتی۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے موضوعات پر لکھنے والوں سے سرزد ہونے والی بعض لغزشوں کا___ جو قرآن کے مقاصد سے پھیرنے والی ہیں مختصراً بیان کر دیا جائے، تاکہ ان سے ہوشیار رہا جائے۔
قرآن کریم انبیاءؑ کے قصے اور ان کے بعض معجزات بیان کرتا ہے تو اس کا مقصد محض واقعات کا دُہرانا، زمانے کی تعیین ، حالات اور ماحول کا بیان، حادثات اور اشخاص کا تذکرہ اور اصطلاحی و فنی معنی میں تاریخی تحقیق و تفتیش مقصود نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت اس کا مقصد اور ان کے ذریعے سامعین و قارئین کے اندر عبرت، نصیحت اور ہدایت کی بنیادوں کو راسخ کرنا ہوتا ہے۔ قرآن کریم بہت صراحت سے اپنے اس مقصد کو واضح کرتا ہے:
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۰ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۱۱۱ۧ (یوسف ۱۲:۱۱۱) اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انھی کی تصدیق ہے اور ہرچیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ہرمسلمان کے نزدیک یہ بات بالکل قطعی ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ برحق ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجایش نہیں ۔ علم تاریخ سے کوئی ایسی حقیقت سامنے نہیں آسکتی، جو ان قرآنی قصوں میں سے کسی قصّے کی تفصیلات سے مختلف ہو۔ ہاں، یہ تو ممکن ہے کہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے، ان میں سے کچھ چیزوں تک علم تاریخ اپنے مجرد فنی وسائل کے ذریعے رسائی حاصل نہ کرسکے۔ اس صورت میں قرآن کریم کا بیان مجرد علم تاریخ کے بیان سے زائد ہوگا اور علم تاریخ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات پر اپنے خاص اسلوب میں کوئی دلیل نہ پائے گا۔ لیکن یہاں اس چیز کو ملحوظ رکھناضروری ہے کہ اگر علمِ تاریخ کسی چیز کے بارے میں واقفیت رکھنے یااستدلال کرنے سے عاجز ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا بیان غلط ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کاعدم علم اس کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا۔
اس مقام پر بعض لوگوں سے چوک ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ مؤرخین کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے، جو قرآن کریم پر ایمان نہیں رکھتے اور وحی الٰہی کو دین نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی حیثیت تاریخی کتاب کی نہیں ہے کہ مجرد فنی تحقیقات میں اس پر اعتماد کیا جائے۔ ان لوگوں سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی اُمید بھی نہیں کی جاسکتی۔
مؤرخین کی دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے، جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے پاس اس کے برحق ہونے کی بھی دلیل ہے۔ اس صورت میں ان لوگوں پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ ان کے نزدیک تاریخی دلائل میں سب سے زیادہ صحیح اور محقق اسے ہونا چاہیے، جواس قرآن میں گذشتہ قوموں اور زمانوں کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ پہلی قسم کے مؤرخین جب قرآن کے بیان کردہ کسی واقعے کو جھٹلانے کی کوشش کریں، تو یہ لوگ ان کا جواب دیں اور تاریخی اور فنی اسلوب میں ان کی غلطی پر دلیل قائم کریں۔ اگر وہ ایسا کریں، تو اس میں انھیں ضرور کامیابی ملے گی۔
لیکن اس قسم کے بعض محققین خود کو پہلی قسم کے مؤرخین کی صورت میں پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ایمانی شخصیت کا لبادہ اُتار کے دوسری شخصیت کا رُوپ دھار لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ’وہ صرف اور صرف مؤرخ ہیں اور ان کے نزدیک سوائے تاریخ کے دوسری کسی چیز کا اعتبار نہیں‘۔ اس طرح وہ اپنی پہلی شخصیت کو یکسر فراموش کرکے اور دوسری نئی شخصیت کا لبادہ چڑھا کر بحث و تمحیص کرتے ہیں اور قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اگر بحث و تحقیق کے دوران وہ مجرد تحقیق کے بعد قرآن کی تاریخی صداقت پر ایمان کا اظہار کرتے اور پھر علمی اسلوب میں اس کا بہ دلائل اثبات کرتے، تو واقعی ان کی بات میں وزن ہوتا اوروہ تحسین و سپاس کے مستحق ہوتے۔
اس قسم کی لغزش ڈاکٹر طٰہٰ حسین سے بھی سرزد ہوئی ہے، جب انھوں نے ایک مستشرق کے خیالات کو قبول کرتے ہوئے یوں قیاس آرائی کی:
تورات اور انجیل، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے بارے میں جو چاہے بیان کرتا رہے، لیکن یہ بات ان کے تاریخی وجود کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
یہ سن کر لوگ مشتعل ہوگئے اورانھیں ہونا بھی چاہیے تھا۔ اگر ڈاکٹر موصوف اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ:
لیکن میں قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے کی حیثیت سے ان دونوں کا تاریخی وجود ثابت کرتا ہوں۔ اگر مجرد تاریخی تحقیق اپنے خاص فنی دلائل کے ساتھ اس مقام تک نہیں پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے بارے میں کچھ بھی ثابت کرسکے تو یہ خود اس کی کوتاہی ہے۔ مستقبل میں تاریخی طور پر ان کے حالات منظرعام پر آجائیں گے اور ہمیں وہ کچھ معلوم ہوجائے گا جس سے ہم آج ناواقف ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ گذشتہ کل کے خیالات آج کے حقائق ہیں اور آج کے خیالات کل کے حقائق ہوں گے۔ کتب ِ سماوی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں کو رسّی کے ایک سرے پر رکھ دیں۔ آگے تحقیق کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ مستشرقین میں سے جو بھی اس کا انکار کرتا ہے وہ علم پر زیادتی کرتا ہے۔ عقل کا کسی مسئلہ پر حکم نہ لگا سکنا اس چیز کے محال ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
اگر وہ ایسا کہتے تو ان کی بات پایۂ تحقیق کو پہنچتی۔ اس صورت میں ان کی تحقیق میں عصرِجدید کے دانش ور کے تجزیے کے ساتھ قوی مومن کا اعتقاد بھی شامل ہوتا تو ان کی باتوں کو لے کر لوگ ان کے خلاف محاذ آرائی نہ کرتے۔
اسی طرح ایک دوسرے مؤلف محمداحمد خلف اللہ جنھوں نے الفن القصص فی القرآن تصنیف کی ہے، انھوں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ انھوں نے تاریخ سے مربوط ادبی میدان میں موشگافیاں کرتے ہوئے فرمایا:’’خالص ادیب کے نزدیک فنی پہلو کی رعایت، قصے کی سچائی اور واقعے کی صحت کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہے‘‘۔ یہاں تک تو ان کی یہ بات صحیح تھی۔ یہی نہیں بلکہ ادیب کا فن بیش تر اوقات سچے اور حقیقی واقعات کو بیان کرنے سے زیادہ ذہن کے اختراع کردہ واقعات اور خیالی قصوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو دوسرے تمام اعتبارات سے الگ کرکے خالصاً ادیب کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآن کو دوسرےتمام اعتبارات سے منزہ کرکے ادب کی کتاب قراردیتے ہوئے فرمایا: ’’اس میں بیان کردہ قصوں کی سچائی اور ان کے حقائق اور تاریخ سے مطابق یا مخالف ہونے سے صَرفِ نظر کرکے صرف اس کے اسلوب میں غور کرنا چاہیے‘‘۔ اگر وہ کہتے کہ: اس طرزِتحقیق کے ذریعے وہ کتاب اللہ کے فنی پہلو کی بلندی اور گہرائی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ، ورنہ قرآن کریم پر ایمان لانے والے کی حیثیت سے اُنھیں یقین ہے کہ قرآن میں بیان ہونے والے تمام واقعات حتمی طور پر تاریخی حقائق ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
صُنْعَ اللہِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ (النمل ۲۷:۸۸) یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہرچیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔
اگروہ ایسا کہتے تو خود بھی آرام میں رہتے اور دوسروں کو بھی پریشان نہ کرتے او راپنے آپ سے اور اپنے قارئین کی جانب سے ان تمام پہلوئوں میں ضلالت و گمراہی کے الزام کو دفع کر دیتے۔
یہ تو قرآن کے قصوں اور اس میں بیان شدہ تاریخی واقعات کے سلسلے میں تاریخ اور ادب کے پہلو سے ہے۔ رہے معجزات اور وہ واقعات جو معروف اورعام طریقے پر اور فطری قوانین کے مطابق مذکور نہیں ہوئے ہیں، مثلاً اصحابِ کہف کا قصہ یا اس شخص کا قصہ جو ایک دفعہ ایسی بستی سے گزر رہا تھا جو تباہ و برباد تھی تو یہ ایک مستقل بحث ہے جس پر کبھی آیندہ بحث کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کا نزول ہیئت، طب، فلکیات، زراعت یا صنعت کی کسی کتاب کی حیثیت سے نہیں ہوا ہے بلکہ وہ کتابِ ہدایت ہے جو بنیادی معاشرتی طریقوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اگر لوگ ان پر عمل کریں تو دُنیا میں بھی کامیاب رہیں گے اور آخرت میں بھی فلاح سے ہمکنار ہوں گے۔
قرآن کریم کائناتی علوم اور وجود کے مادی اور طبیعیاتی مظاہر کو صرف اسی قدر پیش کرتا ہے، جو خالق کی عظمت پرایمان میں مددگار ہو اور اس کی عجیب و غریب تخلیق اور کاریگری اور کائنات میں نوعِ انسانی کے لیے پوشیدہ منافع اور فوائد کو آشکارا کرے، تاکہ ان کے ذریعے وہ لوگ زمین، آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں سے استفادہ کرنے کے طریقے جان سکیں ۔ اس کے بعد عقلِ انسانی کو آزاد چھوڑ دیا کہ وہ اس وجود کے قوانین کو آشکاراکر نے اور اس میں پوشیدہ طاقتوں اور منافع سے استفادہ کرنے کی کوشش اور محنت کرے۔ قرآن نے اس پر اُبھارنے کے ساتھ ساتھ اسے سب سے افضل عبادت اور اعلیٰ قسم کا ذکر قراردیا ہے:
قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (یونس ۱۰:۱۰۱) ان سے کہو ’’زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہرحال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) ’’پروردگار! یہ سب کچھ تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایاہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے ربّ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔(اٰ ل عمرٰن ۳:۱۹۰-۱۹۱)
قدیم اور موجودہ دور کے بہت سے مؤلفین اور مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن میں علومِ کائنات کے تمام اصول ومبادی بیان کر دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ان علوم کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہیں ان کے مطابق خلق و تکوین کی آیات کی تطبیق کے ذریعے قرآن سے وہ اصول مستنبط کریں۔ اس قسم کے لوگوں میں سے زمانۂ قدیم میں امام غزالیؒ ہیں، جنھوں نے جواھرالقرآن تصنیف کی ہے اورعصرحاضر میں شیخ طنطاوی جوہری مؤلف الجواھر فی تفسیر القرآن اور ڈاکٹرعبدالعزیز اسماعیل مؤلف القرآن والطب وغیرہ ہیں۔ یقینا یہ ایک قابلِ ستائش کوشش ہے، لیکن اپنے آپ کو ایسی چیز کا مکلف کرنا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے مکلف نہیں بنایا ہے۔ اس طرح بیشتر اوقات تکلف سے کام لینا پڑتا ہے اور کتاب اللہ کے معانی میں اختلاف ِ آراء،علمی اور سائنسی اصولوں میں تضاد اور علما کے اقوال میں تعارض رُونما ہوتا ہے۔اسی لیے بعض علما نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ مثال کے طور پر علّامہ شاطبی نے اپنی کتاب الموافقات (جلد دوم) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
قرآن میں ان علوم میں سے کسی کو بھی بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں ایسے علوم ہیں جو علومِ عرب کی جنس سے ہیں اورایسی معلومات پر مبنی علوم بھی ہیں جن پر اہلِ عقل تعجب کرتے ہیں___صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن نے بہت سے کائناتی مظاہر کو بیان کیاہے۔ چنانچہ اس نے انسان کی پیدائش ، زمین وآسمان کی تخلیق ، سورج اور چاند کی گردش، ستاروں اورافلاک کی تسخیر، بادلوں کا تہہ در تہہ ہونا اور بارش، بجلی کی کڑک اور چمک، نباتات کا نمو اور ان کی مختلف قسمیں، سمندروں کے عجائب ، راستوں کے نشانات، زمین میں جمےہوئے پہاڑ، مائوں کے پیٹوں میں تخلیق جنین کے مراحل اور دیگر اُن مظاہر کا تذکرہ کیا ہے، جنھیں علمائے کائنات نے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے، اپنی توجہات مرکوز کی ہیں اور تجربات کیے ہیں۔
اکثر اس قسم کی آیات کے اختتام پر قرآن عقل سے کام لینے، غوروفکر کرنے اور تدبر و تفکر کرنے پر اُبھارتا ہے۔ اس سے اس بات کا اشارہ ملتاہے کہ قرآن کریم ان مظاہر کو پیش کر کے محض ان علوم کے اصول و مبادی تعین کرنا یا ان کے فروع بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا مقصود ہدایت اور خالق کی عظمت اور مخلوق کے فائدے پر دلالت کرنے والی چیزوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنا ہے۔
لیکن جو چیز محلِّ نزاع نہیں ہوسکتی، وہ یہ کہ قرآن جب ان کائناتی نوامیس اور مادّی مظاہر کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کا بیان دقیق تعبیر اور سچی تصویر کشی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس طور پر کہ ممکن نہیں کہ اس کے ٹکرائو مختلف مراحل میں عقلِ انسانی کی انکشاف کردہ چیزوں یعنی ان علوم کے حقائق اور طے شدہ چیزوں سے ہو۔ خاص طور پر جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان سائنسی نظریات کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس پر بیّن دلائل اور بکثرت حجتیں ہیں یہاں تک کہ وہ قریب قریب بدیہات میں سے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو ابھی علمی و سائنسی بحث و تحقیق کے مرحلے میں ہیں۔ علومِ کائنات سےدلچسپی رکھنے والے سائنس دانوں کے پیش نظر جو کچھ ہے وہ محض مفروضات ہیں جن کی تائید بعض ایسےقرائن سے ہوتی ہے، جوابھی قطعی دلائل اور اطمینان بخش اور ثابت شدہ حجتوں کے درجے تک نہیں پہنچی ہیں۔
جہاں تک ان میں سے پہلی قسم کا تعلق ہےوہ قرآنی بیان کے مکمل موافق اور عین مطابق ہیں۔ ایسی چیزوں کے بارے میں یقینا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس کتابِ الٰہی کا اعجاز ہے جو ایک ایسے اُمّی پر نازل ہوئی جس نے نہ تو کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی، نہ کسی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس قسم کی مثالوں میں سے جنین کےمراحل، ہوائوں کے بادلوں کو لے جانے، بادلوں کے بننے اور ہوائوں سے اس کے تعلق وغیرہ کے سلسلے میں قرآن کے اشارات ہیں۔
جہاں تک دوسری قسم کا تعلق ہے تو یہ زیادتی اورانکار حقیقت کےمترادف ہوگا کہ اس کے اور قرآن کریم کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا چاہیے یہاں تک کہ علمِ کائنات کو کسی بات پر استقرار حاصل ہوجائے اور عقلِ انسانی کسی نتیجۂ بحث پر ایمان لے آئے۔ اس وقت ہم ایمان کی روشنی میںقرآنی نص کو دیکھیں گے اور اس وقت یہ پائیں گے کہ دونوں حقیقت کے اصولوں کو ثابت کرنے میں باہم معاون ہوں گے:
عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟(حٰم السجدہ ۴۱:۵۳)
اس قبیل سے انسانی نشوونما، حقیقت ِ زندگی، ابتدائے آفرینش ، زمین کا آسمان سے تعلق وغیرہ ہیں۔
اس کے باوجود قرآن اس قسم کےمقامات پر عبارت کی لچک اوردِّقت و باریکی کے ساتھ معجزانہ طریقے پر ایسی تعبیر استعمال کرتا ہے کہ ہرزمان ومکان میں انسانی عقل کے ارتقا کا ساتھ دیتا ہے۔ چنانچہ ان موضوعات پر لکھنے اور غور کرنے والے بہت سے لوگ ان موضوعات پر لکھتے اور غور کرتے وقت ان علمی اور سائنسی مفروضات کی صحت پر ایمانِ محکم لے آتے ہیں اور لغزش کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ان کو بدیہی اور طے شدہ حقائق سمجھ لیتے ہیں۔اس غلطی کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کے نصوص، اس کی عبارتوں کی لطیف ترکیبوں اور الفاظ کی وضع کے اسرار میں غوروفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس لیے وہ کبھی حیرت میں پڑجاتے ہیں اور کبھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک چونکہ ’ڈارون‘ نے یہ کہہ دیا تھا کہ انسان یقینی طور پر دوسرے حیوان سے بنا ہے۔ اس لیے قرآن کا یہ بیان صحیح نہیں کہ وہ ’مٹی‘ یا ’کھنکتی ہوئی مٹی جیسے گارے‘ سے بنا ہے۔ یہاں وہ کھینچ تان کر کوششیں کرتے ہیں کہ اس کا بیان سائنسی انکشافات و تحقیقات سے نہ ٹکرائے۔ اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں نہ ڈارون کے نظریے کا علم ہے اور نہ ڈارون کے نظریے کا ابطال اور تردید کرنے والوں کی تحریریں ان کی نظر سے گزری ہیں۔ اسی طرح وہ قرآن کی درج ذیل تصریحات کو بھی فراموش کردیتے ہیں:
الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ۷ۚ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍ۸ۚ ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَۃَ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۹ (السجدہ ۳۲:۷-۹) جو چیز بھی اُس نے بنائی خوب ہی بنائی۔اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارےسے کی، پھر اس کی نسل ایک ایسے سَت سےچلائی جو حقیرپانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔ تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔
مَا لَكُمْ لَا تَـرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا۱۳ۚ وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا۱۴ (نوح ۷۱:۱۳-۱۴) تمھیں کیا ہوگیا ہےکہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایاہے۔
حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ وہ ان آیاتِ کریمہ کے مکمل و برحق ہونے کو تسلیم کرلیں۔ پھر اس وقت کا انتظار کریں جب لوگوں کا علم قرآنی بیان کی تردید کرے گا۔ اس وقت وہ پائیں گے: ’’انسان کو علم کی انتہائی قلیل مقدار ہی عطا کی گئی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵) ’’اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہی غالب رہتا ہے‘‘۔ (یوسف۱۲: ۲۲)
اسی سے ملتے جلتے قرآنِ مجید کے وہ بیانات بھی ہیں، جنھیں اصطلاح میں ’سمعیات‘ (سماعی چیزیں) کہا جاتا ہے، مثلاً جِنّ، ملائکہ، حالاتِ موت وقبر، بعث بعد الموت، جنّت و جہنم اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات وغیرہ۔ قرآن کریم نےان موضوعات پر بہت تفصیل اوروضاحت سے بحث کی ہے، جیسے جِنّ کا تذکرہ اس نے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ انھیں فقہ، فہم اورایمان سے متصف کیا ہے اور بتلایا ہے کہ وہ اتنی قوت و طاقت کے مالک ہوتے ہیں، جتنی انسانوں کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس نے ملائکہ کا تذکرہ کیا ہے اور بہت سی آیات میں ان کے متعدد اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس طرح موت اوراس کے احوال اور اس کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے، میدانِ حشر میں جمع ہونے، حساب و کتاب ہونے اور سزا و جزا ملنے کا تذکرہ ہے، مثلاً فرمایا:
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَـرًّا يَّرَہٗ۸ۧ (الزلزال ۹۹:۷-۸) پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اسی طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی ہیں اور اسے تمام کمالات سے متصف اور نقص کے تمام اوصاف سے منزہ کیا ہے اور مخلوقات سے اس کی مشابہت و مماثلت کی نفی کی ہے۔
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (الشوریٰ ۴۸:۱۱)
اس کا کوئی ہمسر نہیں۔(الاخلاص ۱۱۲:۴)
اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے، اور اس کا ہاتھ، چہرہ، آنکھ اور دوسرے حواس ہونے کا بیان ہے۔
یقینا قرآن نے اس غیرمادّی دُنیا کے جو احوال اور ذاتِ باری کی جو صفات بیان کی ہیں وہ تمام کی تمام مادّہ کے حدود اور مادّی دُنیا کے قواعد میں داخل نہیں ہیں۔ انسانی عقل خود مادے کے اطراف میں پوشیدہ تمام قوتوں اور اسرار کے ادراک سے آج تک عاجز ہے تو اس سے ماورا حقیقتوں کا ادراک کیونکر کرسکتی ہے؟
عام طور پر یہاں پر بھی لغزش ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے ان معانی میں غوروفکر کرنے والے بہت سے لوگوں پرشاق گزرتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کوتسلیم کرلیں، جس کی حقیقت تک ان کی عقل کی رسائی نہ ہوسکی ہو۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں: یہ جِنّ کون ہیں؟ جن کی حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے؟ یہ ملائکہ کون ہیں جن کی کنہ تک ہم نہیں پہنچ سکتے؟ مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جب کہ ہمارے مادّی عناصر کھل کر اپنے اوّلین عناصرمیں تبدیل ہوجاتے ہیں؟ یہ روحیں کیا ہوتی ہیں؟ جن کے ہمارے جسموں میں موجود ہونے کادعویٰ کیا جاتا ہے، جب کہ ہمیں اپنے جسموں میں صرف مادّی عوامل کے تصرفات کا احساس ہوتا ہے؟ ٹھنڈک سے ہمیں اذیت پہنچتی ہے۔ گرمی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ زہر ہمیں ہلاک کردیتا ہے۔ کھانا کھانے سے ہمیں تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ہوا سے ہمیں نشاط و سُرور ملتا ہے اور یہ تمام چیزیں مادی دُنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تنگ نقطۂ نظر کے سامنے وہ ٹھوکریں کھاجاتے ہیں۔
چنانچہ ان میں سے بعض ان تمام عناصرکا انکار کردیتے ہیں۔ بعض تکلف کے ساتھ دُور دراز تاویل کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں اور گمراہ ہیں۔ اگر یہ لوگ انصاف سے کام لیتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ عالمِ انسانی کے خصائص میں سے یہ ہے کہ جس حقیقت تک اس کا علم نہ پہنچا ہو، اس کے سلسلے میں اپنی عاجزی اور کوتاہی کا اعتراف کرلے۔ عقلِ انسانی نے آج تک اس کائنات کے اسرار میں سے جتنی چیزیں دریافت کی ہیں، وہ اُن چیزوں کی بہ نسبت جن کا انکشاف ابھی نہیں ہوسکا ہے، انتہائی معمولی اور حقیر ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی حیثیت اتھاہ سمندر میں چھوٹے سے جزیرے کی بھی نہیں ہے۔ علومِ کائنات کے ماہرین نے اس کا بلکہ اس سے بھی زیادہ اعتراف کیا ہے۔ اس قسم کے بہت سے اعترافات عنقریب ہماری نگاہوں سے گزریں گے، مثلاً ان میں سے بعض کہتے ہیں:
عہد ِ حاضر کے سائنس دان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متواضع اور جری ہو۔ متواضع اس لیے کہ وہ اس کائنات کے اسرار میں سے اب تک کسی قابلِ ذکر چیز کا انکشاف نہیں کرسکا ہے اور جری اس لیے کہ اس کے سامنے پردئہ اَخفا میں جو بے شمار چیزیں ہیں، ان میں سے بعض کا انکشاف کرنے کے لیے جرأت کی ضرورت ہے۔
اس لیے اس قسم کی چیزوں کی تکذیب محض اس بنا پر کہ وہ دائرۂ امکان میں ہونے کے باوجود انسانی حواس سے ماورا ہیں ، ظلم عظیم اور کھلی گمراہی ہے اور ان کی بے جا تاویل صریح تکلف ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ حقیقت کی تصویر کشی میں تکلّف کے بغیر ان اُمور پر ایمان لانا ہی صراطِ مستقیم ہے۔ البتہ ان کے سلسلے میں بعض کتابوں یا ذہنوں میں جو خرافاتی تصویریں، خیالی قصے یا افسانوی اوصاف بیان کیے گئے ہیں، جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں، نہ صحیح سند سے ثابت ہیں، ان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ہرمومن پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کی چیزوں کو کچھ اہمیت نہ دے اور ان کی طرف بالکل توجہ نہ کرے۔
بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان معانی کو دوسرے ایسے متشکک ذہنوں میں پہنچا دیں جن کے دل نُورِ ایمان سے خالی ہیں۔ چنانچہ وہ الفاظ میں تصرف اور غلط تصویرکشی سے کام لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ اگر ایسا کریں تو ان متشکک افراد کے سامنے صراحت کے ساتھ وہ چیزیں بھی بیان کردیں، جس سے اس کائنات کے بارے میں قرآن کریم کے بیان کی مکمل تصدیق کا اظہار ہو، اور اعتدال کے راستے میں پیچھے رہ جانے یا چھوڑ دینے کے بجائے وہ افہام وتفہیم کی جانب پہلا قدم اُٹھائیں۔
اسلامی تحقیقات میں یہ تصویر کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب سے فلسفہ کو اسلامی علوم میں شامل کیا گیا، اس وقت سے آج تک اس کی بارہا تکرار ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے جس کے سینے کو ایمان کے لیے کھول دے وہی اپنے ربّ کے نُور میں رہتا ہے۔
ایک بھائی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال کیا: ’’قرآن کریم کی سب سے افضل تفسیر اور اس کو سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے؟‘‘ میرا جواب تھا: ’’تمھارا دل‘‘۔ یقینا مومن کا دل کتاب اللہ کی سب سے افضل تفسیر ہے۔ قرآن کو سمجھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ قاری تدبر اور خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کے وقت منتشر افکار کو جمع رکھے۔ ساتھ ہی سیرتِ نبویؐ سے بھی واقف ہو یعنی اسبابِ نزول اور سیرتِ نبویؐ کے مختلف مقامات سے اس کے ربط سے آگاہ ہو۔ اس سے اسے قرآن کے صحیح فہم میں بڑی مدد ملے گی۔ اس کے بعد جب وہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے تو اس کا مقصد صرف کسی مشکل لفظ کا معنی یا کسی مخفی ترکیب سے واقفیت حاصل کرنا یا اپنی معلومات میں اضافہ کرنا ہو، جس سے وہ کتاب اللہ کا صحیح فہم حاصل کرسکے۔ یہ چیزیں محض فہم قرآن میں معاون ہوتی ہیں۔ فہم تو حقیقت میں نُور ہے جو دل کی گہرائی میں روشن ہوتا ہے۔
استاذ امام شیخ محمد عبدہٗ نے اپنے بعض شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرو، اس کے اوامر و نواہی کو سمجھو اور اس کے مواعظ اورعبرتوں سے سبق حاصل کرو۔جس طرح کہ نزولِ وحی کے زمانے میں اہلِ ایمان اس کے ساتھ برتائو کرتے تھے۔ مختلف تفاسیر کا اگر مطالعہ کرو، تو صرف کسی ایسے لفظ کو سمجھنے کے لیے.... پھر قرآن جو راہ تمھیں دکھانا چاہتا ہے اس پر چل پڑو اور جو چیزیں تمھارے اُوپر عائد کرتا ہے انھیں اپنے اُوپر عائد کرلو۔
بے شک جو شخص اس طریقے پر عمل کرے گا، وہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس کا اثر اپنے اندرون محسوس کرے گا اور اس میں ایسا ملکہ پیدا ہوجائے گا کہ فہم قرآن اس کی فطرتِ ثانیہ بن جائے گا اور اس کے لیے ایسا نُور ہوگا، جس سے وہ دُنیا اور آخرت دونوں میں روشنی حاصل کرے گا ، ان شاء اللہ!