بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْـرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰)
اے نبیؐ ، کہو کہ ’’میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
یہ سورئہ جِنّ کا دوسرا رکوع ہے۔ ا س سے پہلے کے سلسلۂ کلام کو نگاہ میں رکھیے۔ یہ سورہ غالباً ۱۰نبویؐ میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف واپس آتے ہوئے ایک مقام پر ٹھیرے۔ اس جگہ جِنّوں نے رسولؐ اللہ کو نماز میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور اس کے بعد واپس جاکر اپنی قوم کو یہ بات سنائی کہ ہم ایسا ایسا کلام سن کر آئے ہیں اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضوؐر نے ان جِنّوں کو دیکھا نہیں تھا۔ آپؐ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جِنّ قرآن سن رہے ہیں۔ بعدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ اس طرح سے جِنّوں نے آپؐ سے قرآنِ مجید سنا ہے اور پھر جاکر اپنی قوم کو یہ کچھ کہا ہے۔
اس میں چند باتیں بڑی اہم ہیں جن کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
پہلی چیز یہ ہے کہ اس سورت سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ انسانوں سے الگ ایک خاص مخلوق ہیں، یعنی انسانوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسری جنس کی مخلوق ہے جس کا انسان سے کسی نوعیت یا جنسیت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری چیز جو اس سورت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت انسانوں کے لیے ہے اسی طرح سے یہ جِنّوں کے لیے بھی ہے۔ یعنی جِنّوں میں سے انبیاؑ نہیں آتے ہیں بلکہ صرف انسانوں میں سے انبیاؑ آتے ہیں۔ ان کی دعوت کے مخاطب جِنّ بھی ہوتے ہیں اور جِنّوں کا کام بھی ان کی دعوت پر ایمان لانا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جِنّوں میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔ جِنّوں میں کچھ ایسے ہیں جو انبیاؑ کی دعوت ماننے والے نہیں ہیں بلکہ اسی ضد پر قائم ہیں جس پر ابلیس قائم تھا کہ ہم نے انسانی خلافت کو تسلیم نہیں کرنا۔ لیکن اِن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف انسانی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ انسانوں میں سے جو نبی آتے ہیں ان کی دعوت پر ایمان بھی لاتے ہیں۔
اس کے ساتھ جو چوتھی بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جِنّوں کے متعلق انسانوں کے ذہن میں جو تخیل تھا کہ یہ کوئی بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق ہے، خدائی مخلوق ہے بلکہ بعض مشرکین انھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد بھی قرار دیتے تھے اور ان کا نسب اللہ تعالیٰ سے ملاتے تھے، اور ان کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس وجہ سے بھی جِنّ اور زیادہ گمراہ ہوگئے۔ ایک تو وہ گمراہی تھی جو ابلیس کے وقت شروع ہوئی تھی، اور دوسری یہ گمراہی تھی جو بعد میں انسانوں کے اپنے فعل کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوئی۔ انسانوں نے انھیں خدائی میں شریک قرار دیا اور بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق سمجھ کر ان کی پرستش کی، اور ان سے پناہ مانگنی شروع کی۔ جس نے انھیں مزید گمراہی میں ڈال دیا اور وہ خود اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھنے لگے۔
اس کے ساتھ کفار ِ عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ جِنّ غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کی خبریں دینے والے ہیں۔ کاہنوں کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ جِنّوں سے ان کا تعلق ہے اور ان کے ذریعے وہ غیب کی خبریں حاصل کرتے ہیں۔
یہ چند چیزیں ہیں جو اس سورت کو پڑھتے ہوئے خود بخود آدمی کے سامنے آتی ہیں۔
اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جِنّوں میں جس وجہ سے کھلبلی مچی اور ان کو یہ تلاش ہوئی کہ زمین پر کیا واقعہ ایسا پیش آیا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر کڑے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ پہلے جب وہ آسمان کی طرف جاتے تھے اور کچھ جگہوں پر چھپ کر غیب کی خبریں معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن اب یہ ہے کہ ان میں سے جب کوئی جاتا ہے تو اس پر شہابوں کی بارش ہوتی ہے اور اس کو دُور سے بھگا دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ زمین پر کوئی خاص واقعہ پیش آنے والا ہے یا آچکا ہے جس کی وجہ سے یہ زبردست پہرے کا انتظام ہے۔ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا زمین کی مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی بڑے عذاب کی تیاری کر رہا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بڑی رحمت آنے والی ہے جس کی وجہ سے یہ انتظام ہے۔ اس وجہ سے وہ تلاش کرنے کے لیے نکلے کہ وہ سبب معلوم کریں اور ان میں سے ایک گروہ کو گزرتے ہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز کان میں پڑی تب وہ آئے اور انھوں نے کان لگا کر سنا کہ وہ کیا کلام ہے۔
اس کے بعد جب انھوں نے حضوؐر سے یہ کلامِ پاک سنا تو پھر وہ واپس اپنی قوم میںگئے اور انھوں نے جِنّوں کے سامنے بیان کیا کہ ہم ایسا اور ایسا کلام سن کر آئے ہیں ، اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ کا بندہ جب یہ قرآن سنانے کے لیے کھڑا ہوا تو انسان اس کے دشمن ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ یہ ساری رپورٹ انھوں نے اپنی قوم کو جاکر سنائی۔
اس قصے کے درمیان میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰) اے نبیؐ ، لوگوں سے کہو، کہ ’’میں تو صرف رب کو پکارتا ہوں اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
یہاں پکارنے سے مراد اپنے رب سے دعا مانگتا ہوں، اب رب ہی کو بحیثیت معبود کے پکارتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔
قُلْ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۱) اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میں تمھیں نہ نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ راہِ راست دکھا سکتا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ کسی کو راہِ راست دکھا دوں اور کوئی گمراہ رہنا چاہے اور میں اس کو راہِ راست پر لے آئوں، اور نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ اگر کوئی میری دعوت کو نہیں مانتا تو میں اسے خود اپنے اختیار سے سزا دے سکوں۔ میرے یہ اختیارات نہیں ہیں۔
قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ۰ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا o اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۲-۲۳) کہو، ’’مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچاسکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے پھر یہ بات ذہن میں لے آیئے کہ اہلِ عرب جِنّوں سے متعلق یہ تصور رکھتے تھے کہ یہ کوئی بڑی زبردست طاقت ور مخلوق ہے۔ یہ بڑے اختیارات رکھنے والی مخلوق ہے۔ اس کے پاس غیب کا علم ہے۔ یہاں تک کہ یہ ان سے پناہ بھی مانگتے تھے۔ سفر کرتے ہوئے جب کسی وادی میں وہ ٹھیرتے تھے تو کہتے تھے: اعوذ بربک ھذا الوادی، یعنی اس وادی کے مالک جِنّ کی میں پناہ مانگتا ہوں، اور پھر وہاں رات کو گزارتے تھے۔
اس طرح کی مخلوق کے متعلق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کفّار کو یہ بتایا گیا کہ جِنّ آئے اور انھوں نے آکر یہ کلام سنا اور پھر اس کے اُوپر ایمان لے آئے تو ان کے ہاں جِنّوں کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کی بناپر ایک آدمی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا تھا کہ ہمارے ہاں کے عاملین اور کاہن کسی ایک جِنّ کو قابو میں لاکر یہ کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے کسی نے بات کی تو میں اس کا تخت اُلٹ دوں گا، اور میرے یہ اختیارات ہیں اور وہ غیب کی خبریں دینے لگتا ہے۔ یہ باتیں وہ صرف ایک جِنّ کو قابو کرنے کے بعد کرتا ہے اور یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ قابو میں کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ان کے عاملین جو باتیں کہا کرتے تھے اور جو آج کل کے عاملین باتیں کہا کرتے ہیں، وہ یہی ہیں کہ اگر صرف ایک جِنّ قابو میں آگیا ہے تو اس کو بڑی زبردست طاقتیں حاصل ہوگئی ہیں۔
اب کجا کہ ایک جِنّ کے بجاے جِنّوں کا ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور جب لوگ یہ سنیں گے کہ جِنّوں کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہے تو ان کےدلوں میں یہ خیال آئے گاکہ جِنّوں کا پورے کا پورا ایک گروہ ان کے قابو میں آگیا ہے۔ لہٰذا اب یہ دعوے کریں گے کہ میں جس کا چاہوں گا تختہ اُلٹ دوں گا، جس کو چاہوں گا اُلٹا لٹکا دوں گا، جس کو چاہوں گا جِنّوں سے مروا دوں گا۔
اس تناظر میں یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو نہیں پکارتا۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میں تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ تمھیں سیدھے راستے پر لاسکتا ہوں۔ یعنی جِنّوں کے قابو میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس طرح کے اختیارات کا کوئی دعویٰ رکھتا ہوں یا کسی کو کوئی نقصان پہنچائوں گا بلکہ میں خود بھی خدا کے مقابلے میں کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑے تو میں کہیں بچ کر نہیں جاسکتا۔ میرا بھی ملجا و ماویٰ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ،کہ میرا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے میرے پاس جو پیغامات آتے ہیں وہ تمھیں پہنچا دوں۔ اس قسم کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ جس کو چاہوں مار ڈالوں گا، جس کے گھر پر چاہوں گا پتھر برسوا دوں گا، اور جس کا چاہوں گا گھر جلوا دوں گا۔ اس طرح کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ میں تو صرف پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں تو اللہ کی پکڑ سے مجھے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۳) اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
گویا اب جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے، یہ نہیں کہ جو محمدؐ بن عبداللہ کی نافرمانی کرے، یعنی اگر کوئی میری ذاتی حیثیت سے نافرمانی کرے تو میں اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ لیکن جو کوئی اللہ کی اور اس کی طرف سے پیغام لانے والے کی نافرمانی کرے گا اور اس بات کو نہ مانے جو وہ پیش کر رہا ہے تو اس کے لیے نارِ جہنم ہے جس کے اندر وہ ہمیشہ رہے گا۔
حَتّٰیٓ اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۴) (یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مٹھی بھر لوگ تھے، کوئی طاقت ان کے پاس نہ تھی، کوئی ذرائع نہ تھے، کوئی بڑا جتھا نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور انسان ہیں، ان کے پاس کمزور آدمی ہیں، ایک چھوٹا سا قلیل سا جتھا ہے۔ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ چیز دیکھ لو گے جس کی تمھیں خبر دی جارہی ہے، یعنی نارِجہنم، اس وقت ان کو پتا چل جائے گا کہ حقیقت میں کمزور کون ہے؟ کس کا جتھا تعداد میں کم ہے اور کمزور ہے؟ اس وقت انھیں خود معلوم ہوجائے گا۔
قُلْ اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۵) اے نبیؐ ! ان سے کہو ’’میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے‘‘۔
یعنی اُوپر جو بیان کیا گیا کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے نارِ جہنم ہے، تو لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی شامت کب آئے گی جو ماننے سے انکار کررہے ہیں؟ قرآنِ مجید میں یہ بار بار آتا ہے کہ کفارِ مکہ پوچھتے تھے کہ جناب آپ جو خبر ہمیں سنا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دے گا تو وہ کب آئے گا؟ اور وہ کون سا وقت ہے جو آنے والا ہے؟ اس پر فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو بتا دو کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت کب آنے والا ہے؟ وہ کوئی لمبی مدت ہے یا قریب آلگا ہے، مجھے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ کب وہ وقت لے آئے گا۔
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۶) وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
کسی کے پاس کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے کہ اللہ نے جس بات کو چھپا کر رکھا ہو، اسے کوئی دوسرا جان سکے۔ یہاں پھر دیکھیے کہ کفّارِ مکہ کا جِنّوں کے متعلق جو تخیل تھا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور جس کا اُن سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے اور ان کو بھی ان کے ذریعے غیب کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں عاملین اور کاہنین غیب دانی کے دعوے کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس جاجا کر پوچھتے تھے کہ ہماری فلاں چیز جو کھو گئی ہے وہ کہاں ہے؟ اور ہمارا جو مسافر گیا ہوا ہے وہ کب آئے گا؟ جو بیمار ہے وہ اچھا ہوگا یا نہیں ہوگا اور کب اچھا ہوگا؟ اس طرح کی معلومات ان سے حاصل کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے اور وہ جِنّوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
یہاں ایک طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ جِنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور دوسری طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ غیب کا علم رسولؐ کو حاصل نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ جس کو جتنا چاہتا ہے دیتاہے لیکن جس چیز کو وہ چھپا کررکھے دنیا میں کسی کے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے کہ وہ اسے جان سکے۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۲۷ۙ لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۲۸ۧ
(الجِنّ۷۲ :۲۷-۲۸) سوائے اُس رسولؐ کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے) پسند کرلیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے غیب کا مالک ہے اور وہ کسی کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کرتا مگر اس رسول کو جسے وہ چُن لیتا ہے۔ وہ جس کو منتخب کرلیتا ہے اسے وہ غیب کا علم دیتا ہے ۔ اس غرض کے لیے کہ وہ پیغامات جو اللہ تعالیٰ اسے دے رہا ہے وہ ان کو پہنچا سکے۔ بالفاظِ دیگر رسول کو غیب کا وہ علم دیا جاتا ہے جو رسالت کے لیے درکار ہے۔ خدائی کے لیے جو غیب کا علم درکار ہے وہ رسول کی طرف منتقل نہیں کیا جاتا۔ رسول کا کام یہ نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟ اور کس کس کا رزق کس طرح پہنچانا ہے؟ رسول ان کا رازق نہیں ہے، رسول ان کا ربّ نہیں ہے۔ اسے یہ جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں، یا ہوا میں کتنے پرندے ہیں اور کون کون کس کس مقام پر ہے اور کس کو کتنے رزق کی ضرورت ہے اور کس کو کتنا پہنچ رہا ہے اور کس کو نہیں پہنچ رہا؟ اس کا کام خدائی کرنا نہیں ہے۔ یہ علم خدائی کرنے کے لیے درکار ہے۔ اسے جو علمِ غیب دیا جاتا ہے وہ رسالت سے متعلق ہوتا ہے۔
رسالت کی حقیقتیں جو عام انسانوں سے پوشیدہ ہیں، وہ اس رسول کو بتائی جاتی ہیں۔ جب رسول کویہ علم دیا جاتا ہے اور رسالت پر مامور کیا جاتا ہے تو اس کو پوری طرح سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ اسے وہ علم دے کر آزاد نہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پوری طرح سے اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے چاروں طرف پہرے لگا دیے جاتے ہیںتاکہ اس بات کی پوری طرح ضمانت حاصل رہے کہ رسول کو جو علم دیا گیا ہے اور رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے گئے ہیں ان کے اندر کوئی ادنیٰ رد و بدل نہ ہونے پائے۔ رسول اس میں سے کسی چیز کو چھپا کر نہ رکھے، کسی چیز کو روک کر نہ رکھے۔ اس کے اندر کوئی تغیر و تبدل نہ کرے۔ جیسا پیغام اس کو پہنچایا گیا ٹھیک اسے ویسے ہی پہنچائے۔ اس بات کی ضمانت کے لیے اس کے چاروں طرف سخت پہرہ لگایا جاتا ہے۔ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ ،’’اور اللہ تعالیٰ خود اس کے اُوپر محیط رہتاہے‘‘۔ ایک طرف فرشتے اس کی نگرانی کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف خود اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا رہتا ہے کہ وہ کیا کام کررہا ہے؟ اتنی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا،ایک ایک چیز کو اللہ تعالیٰ گنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو قرآنِ مجید بھیجا گیا ہے اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ گنا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا رہتا ہے کہ اس کی گنتی کے مطابق اس نے اسے پہنچایا ہے یا نہیں۔
دوسرے الفاظ میں غیب کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ انسانوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی ذریعہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو وہ اپنے رسولوں کو دیتا ہے۔ رسولوں کو بھی رسالت کے فرائض انجام دینے کے لیے دیتا ہے اور اس کی بھی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو یہ علم دے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد برابر یہ دیکھا جاتا رہتا ہے کہ وہ اس پیغام کو ٹھیک ٹھیک پہنچا دے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ رسولوں کے ماسوا دوسرے لوگوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمارے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، یا دوسرے انسانوں کے متعلق لوگوں کا یہ تصور کہ ان کے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، بالکل غلط ہے۔ قرآن و حدیث واضح طور پر اس بات کو بتاتے ہیں کہ وہ حقائق جو انسان کی معلومات سے مخفی ہیں، اس کے حواس سے مخفی ہیں جن کو آدمی نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے۔ وہ حقائق سوائے اللہ تعالیٰ کے رسولوں ؑ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ہمیں کشف کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مُردے پر کیا گزرتی ہے؟ بالکل غلط کہتا ہے۔ یہ علم اگر حاصل ہوسکتا ہے تو صرف اللہ کے رسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔یہ علم رسولوں کو رسالت کے فرائض ادا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ تماشے دکھانے یا کرامتیں دکھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔ یہ اس لیے نہیں دیاجاتاکہ اس کے ذریعے پیری کی دکان چلائی جائے۔ یہ محض رسالت کے فرائض اداکرنے کے لیے دیا جاتا ہے، اور جسے دیا جاتا ہے، اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری طرح سے اس بات کا انتظام کرتا ہے کہ یہ علم محفوظ رہے اور صحیح طریقے سے اسے پہنچایا جائے۔اور کون سا انسان ایسا ہے جس کے پاس غیب کا علم ہو اور اس کی حفاظت کے لیے اس طرح سے فرشتے لگائے جائیں۔
جیساکہ قرآن مجید بیان کرتا ہے اور اسی سورہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو رسول مامور کرتا ہے اور اس کی طرف وحی آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو عالمِ بالا میں اس کے لیے حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ علم جو وہاں سے بھیجا جارہا ہے اس کے اندر کوئی خلل اندازی نہ ہونے پائے۔ وہاں سے جب یہ علم رسول کی طرف منتقل ہوتا ہے اور اس کے بعد رسول کے گرد بھی چوکی پہرہ لگا دیا جاتا ہے کہ اس کے اندر ذرہ برابر بھی خلل اندازی نہ ہو۔ رسول بہرحال انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر خواہشات ہوتی ہیں۔ اس کے اندر جذبات ہوتے ہیں۔ اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور کسی پر اسے غصہ آتا ہے۔ مختلف صورتیں ہوتی ہیں جو بہرحال انسان کے ساتھ پیش آسکتی ہیں۔ لیکن جب رسول کو رسالت پر مامور کیا جاتا ہے اور وحی اس کی طرف بھیجی جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر رسول کو کسی پر غصہ آیا ہوا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی ہے تو اپنے غصے کے ساتھ وہ اس کے اندر ایک کلمہ بڑھا دے، یا اس میں اطاعت یا ناراضگی کا کوئی پہلو بڑھا دے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ حضرت عائشہؓ جو رسولؐ اللہ کی محبوب بیوی تھیں۔ ان پر جب تہمت لگائی گئی تو جس قدر شدید غصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فطری طور پر آنا چاہیے تھا وہ انھیں آیا۔ اس کے بعد سورئہ نور کو دیکھیے جس میں تہمت کے اس واقعے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو آپ پڑھیں تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ اس میں کہیں بھی اس غصے کے آثار نہیں ہیں جو ایک شوہر کے ہونے چاہییں۔
یہ کیا چیز ہے سخت نگرانی؟ وحی جب نازل ہوگئی اور وحی کے الفاظ آگئے تو اب رسولؐ کے اختیار میں نہیں ہے کہ اپنی محبت یا اپنے غصے یا کسی خواہش کی بناپر کسی لفظ میں رد و بدل کر دے۔ یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہاں تو لفظ لفظ گنا ہوا ہے۔ اَحْصٰی کُلَّ شَیْ ئٍ یوں ہی نہیں فرمایا گیا کہ ایک ایک لفظ گنا ہوا ہے اور اس کی نگرانی کی جارہی ہے کہ جو کچھ تمھیں پہنچایا گیا ہے کہیں اس میں کوئی رد و بدل تو نہیں کر رہے۔ اب خدا کے رسولؐ کے بعد اور کون سی ایسی ہستی ہے کہ جس کے اُوپر اگر الہامات نازل ہوں، جسے کشف ہوا ہو کہ اس کی اتنی نگرانی کی جائے کہ جب عالمِ بالا سے پیغا م دیا جا رہا ہو تو پوری حفاظت کے ساتھ پہرے لگا کر اسے پہنچایا جا رہا ہے اور پھر پہنچانے کے بعد اس کی سخت نگرانی کی جارہی ہے کہ جو علم دیا گیا آیا وہ جوں کا توں پہنچا دیا گیا ہے یا نہیں، اور لفظ لفظ گنا ہوا ہو اور جس طرح سے دیا گیا ہو اسی طرح سے اسے پہنچایا گیا ہو۔ لہٰذا علمِ غیب کے جتنے بھی دعوے ہیں سب فضول اور لغو ہیں۔ انبیا علیہم السلام کے سوا یہ علم نہ تو کسی کو حاصل ہوسکتا ہے اور نہ دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے:
فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا o اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجِنّ۷۲ : ۲۶-۲۷) وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ علم دیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے دعوے غلط ہیں۔ صرف رسول کو اس کام کے لیے چُنا جاتا ہے، کسی اور کو اس کام کے لیے چُنا نہیں جاتا کہ وہ حقائق جو اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھے ہیں ان کے متعلق انھیں علم ہو۔
یہ وہ چیز ہے جو انسانوں کے علم سے مخفی رکھی گئی ہے۔ اس چیز کا علم صرف اللہ کے رسول کو دیا جاتا ہے۔ اس غرض کے لیے کہ انسانوں کو آخرت پر ایمان لانے کے لیے دعوت دی جاسکے۔ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے لیے جب رسول کو یہ علم دیا جاتا ہے تو رسول کو آنکھوں سے وہ جنّت بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں انسانوں کو ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے کے نتیجے میں داخل کیا جائے گا، اور اسی طرح وہ دوزخ بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں ان کو جانا ہوگا اگر وہ انکار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ جو لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں انھیں عذاب قبر ہو رہا ہے۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو مومن صالح ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کس آرام اور عیش میں رکھتا ہے۔ یہ سب علم انھیں دیا جاتا ہے اور یہ سارے مشاہدے انھیں کروائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے آخرت کے عقیدے کو محض اس طرح پیش نہ کریں کہ یہ ان کا فلسفہ ہے یا ان کا قیاس ہے کہ ایسا ہونا ہے بلکہ وہ اسے اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔
اس لیے کہ اگر سارے انسان آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے تو پھر کون کافر رہ جائے گا۔ پھر تو آزمایش کا قصہ ختم ہوجائے گا۔ پھر تو امتحان کا سوال باقی نہیں رہتا۔ اگر ہرشخص اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لے کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے، یوں فرشتے آتے ہیں، اس طرح سے روح قبض کرکے لے گئے۔ قبر میں یوں گزر رہی ہے اور عالمِ آخرت میں یہ کچھ پیش آنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ نبیؐ کے ماسوا بھی دوسرے انسانوں کو دکھا دیا جائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ امتحان ان کا ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کسی امتحان کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ جس کا امتحان لیا جارہا ہو، اگر اس کے سامنے وہ سوالات ہی آجائیں، وہ پرچہ ہی آجائے اور اسے وہ حل کرکے ہی دے دیا جائے تو پھر اس امتحان کا کیا فائدہ؟پھر یہ علم کچھ انسانوں کو دے دینا اور کچھ کو نہ دینا، یہ تو بالکل ایسا ہے کہ کچھ آدمیوں کو پرچہ دکھا دیا جائے اور کچھ سے پرچہ چھپا کر ان کا امتحان لیا جائے۔ اس بے انصافی کی اللہ تعالیٰ سے کسی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ رسول کو یہ علم اس لیے دیتا ہے کہ رسول کا کام شہادت دینا ہے۔ رسول کا کام آنکھوں دیکھی بات کو بیان کرنا ہے۔ اسے فلسفے کی حیثیت سے پیش نہیں کرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس رسول کو منتخب کرتے ہیں۔ اسے یہ علم براہِ راست دیتے ہیں اور پھر خود اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیبی حقائق عام انسانوں کے حواس سے مخفی رکھے ہیں، وہ رسول کے علاوہ عام انسانوں کو معلوم ہوسکیں۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد الرحمٰن ، امجد عباسی)