ہندستان کے مسلمان جس دور سے گزر رہے ہیں اور جن چیلنجوں کا انھیں سامنا ہے، اس پس منظر میں تحریک اسلامی کے لیے یہ بڑا اہم اور فیصلہ کُن دور ہے، یہ مواقع اور امکانات کا دور ہے۔ امرواقعہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اسلام اتنے بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث بنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دُنیا تو ایک طرف خود ہمارے ملک میں بھی اسلام کی ایک ایک بات، اس کا ایک ایک حکم، اس کی ایک ایک تعلیم بڑے پیمانے پر پبلک سکروٹنی اور عوامی تحقیق، تجزیے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اسی بناپر یہ تحریک اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہم صدیوں تک بھی کوشش کرتے رہتے تو اس بڑے پیمانے پر عام عوام کے اندر اسلام کے حوالے سے دلچسپی پیدا نہیں کرپاتے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موجودہ زمانے میں پیدا فرمادی ہے۔
اپنی تمام تر حشر سامانیوں، نفرتوں اور سازشوں کے باوجود ہندستان میں ’ہندوتوا‘ کی موجودہ لہر، ایک عارضی لہر ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ فتنہ و فساد، خون خرابا، شرانگیزی کی عمر کبھی طویل نہیں ہوتی۔ ایسے ظلم کا طویل ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ پوری انسانی تاریخ کی شہادت کے خلاف ہے کہ ایسی چیزوں میں کوئی دوام یا permanency پائی جائے۔ یہ بہرحال ایک عارضی چیز ہے۔ یہ سب اُس آندھی کی مانند ہے، جو تیزی سے چلتی ہے اور بڑی تباہی بھی لاتی ہے، لیکن اس کی عمر بہرحال بہت مختصر ہوتی ہے۔ آندھی چھٹتی ہے، غبار بیٹھتا ہے تو پھر منظر صاف ہوجاتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ لہر بھی ایک آندھی کی مانند ہے اور یہ آندھی ان شاء اللہ ضرور چھٹے گی، اس کا زور کم ہوگا اور اس کے بعد ہند میں بڑی اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی۔
گویا کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے اور نوشتۂ دیوار ہے کہ دُنیا میں جب بھی اس طرح کی انسانیت سوز صورتِ حال پیدا ہوئی،تو اس نے ہمیشہ بڑی اصلاحات کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم اور دوسری جنگ ِ عظیم میں پوری دُنیا میں تباہی مچی، لیکن اس کے بعد دُنیا میں پہلی بار بین الاقوامی افہام و تفہیم کا دورشروع ہوا۔ عالمی ادارے بنے، انٹرنیشنل قوانین بنے، دُنیا میں امن و امان کے لیے ادارے تشکیل پائے اور فنانشنل ریگولیشن کے لیے ادارے بنے۔
چند عشرے قبل، مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں ظلم و ستم کی انتہا کی گئی، اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں پر انتہائی بہیمانہ مظالم توڑے گئے۔ لیکن جب ۹۰ کے عشرے کا آغاز ہوا تو اس پورے خطے میں بڑی غیرمعمولی تبدیلیاں آئیں۔ آج کثیرثقافتی سیاسیات اور ملٹی کلچرل ازم کا معتدل نمونہ مشرقی یورپی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فتنہ و فساد سے سبق سیکھا، اپنے ریاستی دساتیر بدلے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات سامنے آئیں۔اسی طرح ’ہندوتوا‘ کی یہ آندھی جب تھمے گی تو یہاں کا اجتماعی ضمیر بڑی اصلاحات کا مطالبہ کرے گا اور اس جانب متوجہ ہوگا۔ یہ بھی تحریک ِ اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہوگا۔
دوسری طرف خود اُمت مسلمہ کے اندر نئی توانائیاں بیدار ہورہی ہیں، روایتی طور طریقے بدل رہے ہیں، پرانے بت زمین بوس ہورہے ہیں، نئی راہوں کی تلاش کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ تحریک ِ اسلامی کی سوچ اور فکر کو وسیع سطح پر قبولِ عام حاصل ہو رہاہے۔ روایتی دینی مدارس کے اساتذہ اور نوجوانوں کا اسلامی تحریک کی طرف رجوع بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ سب ہمارے لیے غیرمعمولی مواقع ہیں۔ عام طور پر صرف مشکلات اور چیلنجوں کا ہی تذکرہ کیا جاتاہے، لیکن ان چیلنجوں کی تہہ میں جو مواقع اور امکانات پوشیدہ ہیں انھیں بھی دیکھنا چاہیے۔ تحریک ِ اسلامی سے وابستہ ہونے کے ناتے ہمارا اصل مطمح نظر وہ مواقع ہونے چاہییں، جو اللہ تبارک و تعالیٰ مسلسل پیدا کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ مشکلات اور چیلنجوں ہی کے دوران نئے راستے پیدا کرتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس اُمت نے ہمیشہ مشکلات سے زندگی حاصل کی ہے۔ چیلنجوں ہی سے اس کو توانائی، تابندگی اور حرارت ملی ہے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُمت کے بڑے احیاء کا سامان پیدا فرما رہا ہے۔ اب یہ تحریک کے ایک ایک کارکن کی ذمہ داری ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ بہت قیمتی لمحات ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ایک ایک لمحے کو ہم پکڑ لیں، اس کو مفید بنائیں اور اس کا بھرپور استعمال کریں۔ یہ ہماری کوشش اور جستجو ہونی چاہیے۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں:
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اُمت کے اندر ہمت، حوصلہ اور جرأت پیدا کرنا ہے۔ حالات کو دیکھنے کا مثبت زاویہ پیدا کرنا ہے۔ ہم خود بھی مواقع دیکھیں اوراُمت کو بھی ان مواقع سے روشناس کرائیں۔ ہم خود بھی یاد رکھیں اور اُمت کو بھی یاد دلائیں کہ قرآنِ مجید نے ہمارے اندر یہ یقین پیدا کیا ہے کہ اُمت مسلمہ کا طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وٹس ایپ پر پیغامات آتے ہیں، اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہیں کہ نسل کشی (Genoside) ہونے والی ہے، اس کے آٹھ مراحل طے ہوچکے ہیں، ہمارے بچّے اور ہمارا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ باتیں ہمارے ایمان کے خلاف ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں صاف صاف یہ بات فرمائی ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اہلِ ایمان کا کچھ نہیںبگاڑ سکتا۔ اہلِ ایمان پر اگر مشکلات یا مصیبتیں آتی ہیں، تو یہ صرف اور صرف ان کی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
بے شک اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں ہم کو بظاہر کامیاب نظر آتی ہیں لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی مرحلہ ہے۔ وہ اپنی چال چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے:
وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۳۰(الانفال ۸:۳۰) وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
جس طرح لَا الٰہ کے ساتھ اِلَّا اللہ کہنا ضروری ہے۔ اگر صرف لَا الٰہ کہا جائے گا تو یہ کلمۂ کفر ہوگا، یعنی یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کلمہ مکمل ہوتا ہے اِلَّا اللہ کے ساتھ۔ لَاالٰہ کے ساتھ جب ہم اِلَّا اللہ کہیں گے تو تب ہی ہماری بات مکمل ہوگی۔ اسی طرح يَمْكُـرُوْنَ کے ساتھ يَمْكُرُ اللہُ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمارا مکمل کلمہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ہے کہ وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے۔
ہمارے اخبارات، صحافتی کالم، تقریریں اورخطبات اور گفتگوئیں، اُمت میں یہ کہہ کہہ کر مایوسی پھیلا رہے ہیں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ ، یعنی وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک اَدھوری بات ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو مکمل طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ’’یعنی وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے‘‘۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اُمت کے اندر ایک متبادل طرزِفکر اور طرزِبیان اور Narrative لے کر آئیں۔ ایک ایسا طرزِ بیان جو حوصلہ، ہمت اور عمل پر مبنی ہو۔
قرآنِ مجید جب نازل ہورہا تھا تو وہ ایک ایسے دور میں نازل ہورہا تھا، جب اللہ کے رسولؐ اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت آزمایشوں سے گزر رہے تھے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مکی زندگی آزمایشوں کی زندگی تھی اور مدنی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست قائم کرلی تھی، اس لیے وہاں اتنی سخت آزمایشیں نہیں تھیں۔ تاہم، جن لوگوں کی سیرتِ رسولؐ پر نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ مدنی زندگی بھی کچھ کم آزمایشی زندگی نہیں تھی۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کے درمیان تھے۔ اُس وقت کی عالمی طاقتیں آپؐ کی دشمن تھیں۔ مدینہ کی چھوٹی سی اسلامی ریاست کو کرئہ ارض سے ختم کرنے کے لیے ایک طرف قریش تھے تو دوسری طرف مدینہ میں یہودی تھے، آس پاس کے مشرکین تھے اور روم اور فارس کی طاقتیں تھیں۔ لہٰذا مکّی زندگی ہو یا مدنی زندگی، نبی اکرمؐ کی پوری ۲۳سالہ زندگی شدید مشکلات اور شدید آزمایشوں اور چیلنجوں سے بھری زندگی تھی، اور اسی دوران قرآنِ مجید نازل ہورہا تھا۔ چنانچہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے طرزِفکر، طرزِ بیان اور طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کے لیے قرآنِ مجید سے بہتر رہنمائی اور کہاں سے مل سکتی ہے؟
قرآنِ مجید کو پڑھا جائے تو اس میں دو خصوصیات نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں:
پہلی بات قرآنِ مجید یہ کہتا ہے کہ ’اسلام‘ کے جو دشمن ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ قرآن نے سب سے پہلے اُن کا رعب اور بھرم توڑا کہ ان کے اندر کوئی طاقت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ قریش جو مکہ کا سب سے طاقت ور قبیلہ ہے، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ یہودی جن کی مکاریاں ، چال بازیاں اور سازشیں مشہور ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ روم اور فارس کی عالمی طاقتیں بھی انتہائی کمزور لوگوں پر مشتمل ہیں:
فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ۰ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا۷۶ۧ (النساء۴:۷۶) پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۷۵ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۷۵) اب تمھیں معلوم ہوگیا ہے کہ وہ دراصل شیطان تھا، جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا، لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو۔
قرآنِ مجید نے اسلام دشمن قوتوں کے بارے میں فرمایا ہے : ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی متحد نہیں ہوسکتے اور اُن کے مقابلے میں جو کچھ مشکلات ہیں وہ ہماری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔اس کا ذمہ دار کوئی بیرونی عنصر نہیں ہے، کسی بیرونی طاقت کی سازش ہمیں نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ہماری اپنی کمزوریاں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر ہم اپنی کمزوریاں دُور کرلیں، اپنے آپ کو سدھار لیں تو ہم بڑی سے بڑی طاقت پر غالب آسکتے ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے طرزِ بیان کی پہلی خصوصیت ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے کبھی مظالم، مشکلات اور مصیبتوں کا ذکر نہیں کیا۔ آپ پورا قرآن پڑھ ڈالیں، آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ حضرت بلال حبشیؓ پر آگ کی سلیں ٹھنڈی کی گئیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ کے جسم کی چربی سے آگ بجھائی گئی۔ حضرت سمیہؓ کو برچھی مار کر سرِبازار شہید کیا گیا۔ یہ سب ظلم وستم سیرت کی کتابوں اور احادیث سے ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید نے کبھی حالات کی خرابی کا ماتم نہیں کرایا، کبھی باریکی سے تفصیلات بیان نہیں کی ہیں کہ ایسا ظلم ہورہا ہے، ایسی مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں، اور آنےوالے زمانے میں یہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب آپ کو قرآنِ مجید میں نہیں ملے گا۔ قرآنِ مجید کی زبان پوری طرح سے عملی زبان ہے۔ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ایسے حالات میں کرنا کیا ہے؟ ہم حالات کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟ یہ ماتم کناں ہونے کی نہیں معرکہ زن ہونے کی زبان ہے۔ قرآن کی زبان یہ ہے کہ آپ کیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لیے آپ کو کیا راستہ اور کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی؟
اُمت مسلمہ کو اگر ہم ان حالات میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور حالات کے پیدا کردہ مواقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ایک بڑی تبدیلی درکار ہے۔ اس کے لیے اُمت کے اندر ایک نفسیاتی تبدیلی لانی ہوگی اور طرزِبیان کو بدلنا ضروری ہے۔ تحریک اسلامی کو اس حوالے سے قیادت کرنی چاہیے۔ آج اخبارات اور مضامین میں صرف حالات کا رونا رویا اور حالات کا ماتم کیا جاتا ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر یہ بتانا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی سے ہم ان حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ حالات کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ اور یہ اعتماد بھی پیدا کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس کا راستہ بھی دکھاناہے۔
حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ اس پر اُمت کو قائل کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے صرف فوری اور محض وقتی تدابیر کافی نہیں ہیں۔ وقتی تدابیر کی مثال تو ایسے ہے کہ اگر بارش میں ہمارے گھر کی چھت ٹپکنے لگے تو فوری طور پر ہم پولی تھین لاکر اسے ڈھانپ دیتے ہیں تاکہ برساتی پانی کے فوری ٹپکے سے بچ جائیں اور رات سکون سے گزر جائے۔ اگر اسی برساتی کو ہم مسئلے کا حل سمجھ لیں، اپنا ذہنی ارتکاز اسی پر رکھیں، تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص دُنیا کا احمق ترین آدمی شمار ہوگا۔
موجودہ حالات میں مزاحمت، احتجاج، جلوس، دھرنے اور قانونی کارروائیاں وغیرہ یہ سب وقتی تدابیر ہیں۔ یہ بھی ضروری ہیں اور ان کی افادیت اپنی جگہ ہے، لیکن ان سے مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسی پر ہمارا ارتکاز رہے، اسی کے بارے میں ہم سوچتے رہیں اور اسے اپنے حواس پر طاری کرلیں، تو قیامت تک ہم ان حالات سے باہر نہیں آسکتے۔ ان حالات سے باہر آنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور سنجیدگی اور صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کرنی ہوگی۔ تحریک ِ اسلامی انھی کاموں کی طرف متوجہ کررہی ہے۔ ان اُمور پر ہمیں ارتکاز کرنا ہوگا:
سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اس ملک کی سوچ بدلے، اس ملک کی اکثریت کا ذہن بدلے اور یہ مہم بڑے پیمانے پر ہم کو چلانی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صرف جماعت اسلامی ہند ہی نہیں بلکہ پورے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان اس مہم سے جڑجائیں۔ اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تحریک چلانی ہے۔
لوگ سوال اُٹھاتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہند نے ۷۵برسوں میں کیا کیا ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ ان برسوں میں جماعت اسلامی نے مسلمانوں کی سوچ میں ٹھوس تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس جدوجہد میں صرف جماعت اسلامی ہی شامل نہیں ہے بلکہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان پہلے سے زیادہ اسلام سے وابستہ ہیں اور دین سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں بدعات اور رواجی خرافات پہلے سے کم ہوگئی ہیں۔ دین کا شعور عام ہورہا ہے۔ آج پڑھے لکھے لوگ بھی دین کی بات کررہے ہیں اور ان کی سوچ بدلی ہے اور ان کی فکر میں تبدیلی آئی ہے۔
دوسری طرف غیرمسلموں کی طرف دیکھیں تو منفی تبدیلی آئی ہے۔ آج پہلے سے زیادہ ان کے ذہن مسموم ہیں۔ ان میں پہلے سے زیادہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفرت پائی جاتی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ گذشتہ برسوں میں جو کام ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، آیندہ ۱۰،۲۰برسوں میں وہی کام بڑے پیمانے پر ہمیں برادرانِ وطن میں کرنا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کی سوچ بدلنے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں، علمائے کرام اور چھوٹے بڑے گروپوں نے مل کرکام کیا۔ اب آیندہ ۱۰، ۲۰ برسوں میں اسی طرح برادرانِ وطن کی سوچ اور فکر بدلنے کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی اور اس کے علاوہ تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ فرقہ پرست اور نسل پرست فسطائی قوتوں نے ذہن سازی کرکے طاقت حاصل کی ہے۔ اگر ان کو سیاسی میدان میں شکست بھی دے دی جائے، ۲۰۲۴ء میں حکومت بدل بھی جائے، تو یقین مانیے کہ اس سے حالات میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ مسئلہ سیاسی جوڑ توڑ کا نہیں، معاملہ ذہنی و فکری تبدیلی کا ہے۔اس لیے کہ اگر لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے تو آیندہ جو حکومت بھی آئے گی، وہ عوام کی سوچ کے مطابق چلنے پر مجبور ہوگی۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور حکومت سب اس پر مجبور ہوں گے۔ لہٰذا مسئلے کا حل صرف سیاسی نہیں ہے، نہ سماجی ہے اور نہ صرف قانونی ہی ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف سوچ میں تبدیلی اور رائے عامہ کی تشکیل میں ہے۔ بڑے پیمانے پر پوری اُمت کے دعوت کے کام میں لگنے ہی سے یہ ہدف حاصل ہوسکے گا۔ یہ ہیں وہ ناگزیر اقدامات جن کے نتیجے میں ملک کے حالات سدھر سکیں گے۔
درحقیقت، مسلمان دوسری قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہیں، بلکہ وہ اعلیٰ نصب العین کی حامل ایک اُمت ہیں۔ اس حیثیت سے مسلمانوں کے مقام و مرتبے سے یہ کم تر بات ہے کہ ان کی سوچ محض اپنے مسائل و مفادات تک محدود رہے۔ جب استحصال پسند طبقے اور تخریب کار قوتیں اپنے مفادات کی خاطر، ملک اور معاشرے میں ناانصافی، عدمِ مساوات اور نابرابری کو فروغ دے رہی ہوں، تو اس فساد بھرے ماحول میں مسلمانوں کو ایسا سیاسی پروگرام اور سماجی لائحہ عمل اور انسانیت نواز نظریہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جو ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا سامان رکھتا ہو۔ جس میں سب کے لیے عدل کی ضمانت ہو اور ہر ایک کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو۔مسلمان، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سارے انسانوں کے مفادات کے علَم بردار بن کر اُبھریں کہ جس میں تمام منفی پروگراموں اور منصوبوں کے برعکس بجا طور پر ایک بہترین پیغام پیش کیا جائے۔
دوسرا ضروری کام اُمت مسلمہ کی بہتری اور تعمیر کے لیے جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُمت کی دینی حالت بہترہو، وہ دین پر عمل کا نمونہ بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ تعلیم میں آگے بڑھے، معیشت اور تجارت میں ترقی کرے، ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرے۔ معیشت، تعلیم غرض ہرمحاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی بھی بڑے پیمانے پر لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
یہ دونوں کام ہمیں صبراور حکمت کے ساتھ کرنے ہوں گے۔ تحریک اسلامی کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِن دونوں اُمور کے لیے اُمت میں بیداری لائیں اور پوری اُمت کو ان کاموں کے لیے کھڑا کریں۔ ہمیں ملک کے کچھ شہروں کو ماڈل بناکر اس کام کو کرنا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ سارے مسلمان، علمائے کرام ، دانش ور، ڈاکٹر، وکلا، اساتذہ کرام، صحافی، نوجوان، طلبہ، خواتین اور ملّی جماعتیں اور ملّی ادارے، سب اس کام کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کے لیے طریقے ڈھونڈیئے۔ منصوبے اور آئیڈیئے سوچیے اور کوشش کیجیے کہ یہ دونوں اہداف حاصل ہوسکیں۔ اگر یہ ایک ملک گیر تحریک بن جائے، تو اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ حالات نے جو مواقع اور امکانات پیدا کیے ہیں، وہ بھرپور طریقے سے استعمال ہوسکیں گے۔
اگر ہم ان دو محاذوں پر ثابت قدم رہے، اُمت کی نفسیات اور جذبات کو صحیح رُخ دیا اور اُمت کو صحیح رُخ پر متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ حالات جو بظاہر مشکل حالات محسوس ہوتے ہیں، ان شاء اللہ بڑی مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ انھی مشکل حالات سے تابناک اور روشن مستقبل کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بہتر اور مؤثر ترین راستوں کی طرف رہنمائی فرمائے۔ ان راستوں پر آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، صلاحیت اور مواقع عطا فرمائے، رکاوٹوں اور مشکلات کو دُور فرمائے اورہرقدم پر اپنی مدد اور نصرت ہمارے شاملِ حال فرمائے، آمین!