سوال : جب کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو مجھےخواہ مخواہ غصہ آجاتا ہے، حالانکہ میرا اس کام سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں ہوتا، مگر یہ سخت ذہنی اذیت کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً کوئی نماز نہ پڑھے تو مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی ہے، اس کا کوئی علاج بتائیں؟
جواب : یہ کوئی بیماری نہیں ہے، جس کا علاج کیا جائے،یہ تو تندرستی کی علامت ہے۔ اگر کسی شخص کے نماز نہ پڑھنے پر آپ کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو خطرہ یہ ہے کہ ایک روز آپ خود بھی نماز چھوڑ بیٹھیں گے۔ اس کی تکلیف تو کم از کم آپ کو محسوس ہونی ہی چاہیے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو اسے تلقین کرنی چاہیے اور اسے اس کا فرض یاد دلانا چاہیے۔ البتہ، غصے اور کوفت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ اس کو صبر سے سمجھائیں اور تلقین کریں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ آگے بڑھ کر اس سے اُلجھ پڑیں، تو یہ ایک غیرحکیمانہ فعل اور غلط قسم کا غصّہ ہوگا۔ تاہم، یہ بات واضح رہے کہ میں ہرغصے کو حلال بھی نہیں کہہ رہا ہوں۔ البتہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کا غصہ آپ کو نہ آئے تو یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔(مولانا مودودی، ۳۰؍اپریل ۱۹۷۵ء)
سوال : ہماری بستی کی مسجد میں ایک معروف واعظ صاحب نے اپنے وعظ کے دوران فرمایا: معراج کی رات حضوؐر کو خدائے قدوس کی طرف سے تین علم عطا ہوئے: (۱)علمِ شریعت (۲) علمِ طریقت (۳) علمِ حقیقت۔ حضوؐر کو ربّ کی طرف سے ہدایت ملی کہ علمِ شریعت امت کے ہر خاص و عام تک پہنچایا جائے۔ (۲) علمِ طریقت صرف چند خواص کو پہنچایا جائے۔ (۳) علمِ حقیقت صرف اپنے لیے مخصوص رکھا جائے۔ استدعا ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلے کا جواب عطا فرمائیں ؟
جواب : آدمی کو جب یہ پرواہ نہ رہے کہ اسے اپنے قول و فعل کا کہیں حساب بھی دینا ہے، تو پھر جو اس کے منہ میں آئے کہے اور جو دل میں آئے کرے، کون اس کی زبان پکڑ سکتا ہے؟ غیر ذمہ دار اور اللہ سے نہ ڈرنے والے واعظوں کے منہ میں لگام دینے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ جو باتیں وہ اللہ اور رسولؐ اور دین سے منسوب کرکے ارشاد فرمائیں، ان سے ان کا حوالہ دریافت کیا جائے، حوالہ نہ دے سکیں تو سامعین ان سے صاف کہہ دیں کہ ہم اپنے دین و مذہب کے متعلق کوئی ایسی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے لیے قرآن یا حدیث یا معتبر اور معروف علما و ائمہ کی سند موجود نہ ہو۔
معراج کی تفصیلات احادیث میں درج ہیں، اور حضورؐ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں انھیں نقل کیا گیا ہے۔ ان میں کہیں درج نہیں کہ شب ِ معراج میں آپؐ کو تین طرح کے علوم عطا ہوئے ہوں، اور پھر وہ ہدایات بھی اللہ کی طرف سے دی گئی ہوں جن کا ذکر واعظ صاحب نے کیا ہے۔
ویسے یہ تو معلوم ہی ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہر فرد بشر سے زیادہ تھا۔ بہتیرے ایسے حقائق و معارف ہوں گے جو حضوؐر تک ہی محدود رہے اور ان کے انکشاف و اظہار کی ضرورت انھوں نے نہیں سمجھی۔ لیکن یہ ایسے ہی معارف ہو سکتے ہیں جن کا چھپانا کھولنے سے بہتر ہو، اور جن کا تعلق دینی تعلیمات سے نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز حضورؐ نے امت سے چھپا کر نہیں رکھی جو ان کی روحانی ترقی کے لیے مفید اور تکمیلِ ایمان کے لیے مؤثر ہو۔
بعض خوش فہم کہتے ہیں کہ ’’آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت علیؓ کو بعض ایسے معارف و اَسرار سے آگاہ کیا تھا جنھیں کسی اور پر منکشف نہیں فرمایا‘‘۔ یہ بھی محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، اور خود حضرت علیؓ کی زبانی اس کی تردید ملتی ہے۔ ان واعظ صاحب سے ضرور پوچھیے کہ شبِ معراج کی جو تفصیل آپ پیش فرما رہے ہیں وہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی؟ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)