ارشادِ ربَّانی ہے: اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۲ۭ ( التکاثر۱۰۲:۱-۲) ’’تمھیں مال و اسباب کی طلب میں مقابلہ آرائی نے [ اللہ کی یاد سے] غافل کردیا یہاں تک کہ تم لوگ قبروں تک پہنچ گئے‘‘۔
آیت میں ’تکاثر ‘( مال و دولت میں زیادتی کی خواہش اور اس کے لیے مقابلہ آرائی) کی سب سے بڑی خرابی واضح کرتے ہوئے اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ انجام کے اعتبار سے یہ موجبِ تباہی ہے۔ ’تکاثر ‘ کے لفظی معنی مختلف طور پر بیان کیے گئے ہیں: زیادتی کی خواہش یا طلب رکھنا ، طلبِ مال میں مسابقت، مال و اولاد یا دوسری چیزوں پر آپس میں فخر جتانا یا شیخی بگھارنا، زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مال یا کوئی دُنیوی سامان حاصل کرنے کی دُھن میں لگا رہنا۔ ان تشریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے مفہوم میں چار باتیں لازمی طور پر شامل ہوتی ہیں: کسی چیز کی محبت، اس کی حرص اور اس کے حصول میں دوسرے سے مقابلہ آرائی اور حاصل ہوجانے پر فخر جتانا (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۴۲)۔
اس میں شبہہ نہیں کہ دنیا میں ز یب و زینت اور من پسند کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی چاہت و طلب میں ضرورت سے زیادہ یا حد درجہ مصروف ہوکر انسا ن روز مرہ زندگی میں، اللہ ربّ العزت کی یاد اور اس کی ہدایات سے غافل ہوجا تا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبوب چیزوں (یا د نیوی لذّات) میں ذکرِ الٰہی،عبادتِ الٰہی اور اتباعِ حکمِ الٰہی سے سب سے زیادہ غافل کرنے والی چیز مال کی محبت اور اس کے جمع کرنے( یا سمیٹنے ) اور اس میں اضافے کی حرص ہے ۔ حرص وطمع اور دوسروں سے مقابلہ آرائی میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی چاہت مختلف چیزوں (مال و دولت، زمین و جائیداد ، سماجی و سیاسی اثر و رسوخ یا اقتدار اور عہدہ و منصب،دنیوی لذّات وغیرہ) میں ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ یہ طلب یا چاہت سب سے زیادہ مال و دولت کے ضمن میں نظر آتی ہے۔ مال کی لالچ اور ہوس رکھنے والے کو چین نہیں نصیب ہوتا، اس لیے کہ اس کے نفس میں ھل من مزید کی باز گشت آتی رہتی ہے ۔
اس آیت کی تشریح میں صاحب ِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ در اصل دنیا کی امتحان گاہ میں یہ (مال و اولاد) تمھارے لیے سامانِ آزمایش ہیں۔جسے تم بیٹا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی در حقیقت ایک دوسرا پرچۂ امتحان ہے۔یہ چیزیں تمھارے حوالے اسی لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے سے تمھیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا و ر حدود کا لحاظ کر تے ہو،کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہِ ر است پر چلتے ہو، اور کہاں تک اپنے نفس کو،جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے،اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندۂ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۴۰،حاشیہ نمبر۲۳)۔
اسی ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ فرمائیں : اِنَّ لِکُلِّ اُمَۃٍ فِتْنَۃٌ وَ فِتْنَۃُ اُمَّتِی اَلْمَالُ ( جا مع ترمذی، ابواب الزہد،باب ما جاء اِنَّ فتنۃ ھٰذہ الامّۃ فی المال ) ’’ہرامت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری امت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔
مال سب سے بڑی آزمایش اس وجہ سے ہے کہ اس کی محبت انسان کی سرشت میں داخل ہے ۔ارشادِربانی ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۸ۭ ( العٰدیٰت۱۰۰:۸)[ اور وہ بے شک مال کی محبت میں بہت سخت ہے]۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان مال سے صرف محبت نہیں،بلکہ شدید محبت رکھتا ہے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کو محبوب ہوتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے خوب دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اسے کثیر مقدار میں اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ ایک اور آیت (اٰل عمرٰن۳:۱۴) میں واضح طور پر انسان کو خبر دار کردیا گیا کہ مال کے علاوہ اور کون سی پسندیدہ چیزیں ہیں جن کی محبت ان کے دلوں میں بطور آزمایش رچا بسا دی گئی ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِمِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۱۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴) لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس___عورتیں،اولاد، سونے چاندی کے کھنکھناتے ڈھیر،عمدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں [اور ان کی پیداوار] بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دنیا کے چند روزہ سامان ہیں، اور[سچ یہ ہے کہ] بہترین ٹھکانا اللہ کے یہاں ہے۔
لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلأً مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَالِثًا ، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللهُ عَلٰى مَنْ تَابَ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتّقٰی من فتنۃ المال وقول اللہ تعالٰی اِنَّـمَا امْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ ) اگر کسی شخص کو ایک وادی بھر سونا دے دیا جائے تو وہ دوسری وادی بھر سونا کی خواہش کرے گا۔اگر اسے سونا بھری دوسری وادی مل جائے تو تیسری کی آرزو میں گرفتار ہوجائے گا۔(حقیقت یہ کہ) انسان کے پیٹ کو (قبر کی) مٹّی کے سوا اور کوئی چیز بند(بھر) نہیں کر سکتی، اور اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو (گناہ کے ارتکاب کے بعد) اس سے توبہ کر لیتا ہے۔
بلاشبہہ دل میں مال کی محبت بیٹھ جانا ، بہت زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا، رات دن اسی میں سرگرداں رہنا اور پھر اپنے ذخیرۂ مال پر فخر وناز کرنا ناپسندیدہ روش ہے، جو دُنیوی و اُخروی دونوں زندگی میں تباہی کا موجب بنتی ہے۔ یہ نکتہ ان آیات پر غور و فکر سے بہت واضح طور پر سامنے آ تا ہے جن میں مال و اولاد کو فتنہ (یعنی آزمایش کا سامان ) کہا گیا ہے اور اس کے فوراً بعد اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے(الانفال۸:۲۹؛ التغابن ۶۴:۱۶)، یعنی اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ مال و دولت حاصل کرنے ، اسے خرچ کرنے اور آل واولاد کی پرورش و پرداخت کرتے ہوئے اللہ کے رُوبرو حاضری اور جواب دہی سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ان کاموں کو کرتے ہوئے شریعت کے احکام کو توڑ کر ربَّ کریم کی ناراضی مول لے لو۔رہا یہ مسئلہ کہ مال و اوالاد سے متعلق معاملات میں ضرورت سے زیادہ یا خلاف ِ شریعت مصروفیات میں دین کے اعتبار سے سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟، قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں اسے اس طور پر بیان کیا جا سکتا ہے : اللہ کی یاد سے غافل ہوجا نا،فرائض کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنا اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی کرنا، عاقبت کو خراب کردینا۔ ارشادِربّانی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۹ ( المنٰفقون ۶۳:۹) ، اے ایمان والو! تمھارے مال و تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو کوئی ایسا کریں گے وہ[یقیناً بڑے]گھاٹے میں ہوں گے۔
یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو ، مال کی طلب میں اس درجہ منہمک نہ ہو جائو کہ اللہ کو یاد کرنا بھول جائو، اور اپنی اولاد کی محبت میں ایسا کام نہ کر ڈالو کہ اللہ ناراض ہوجائے ۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجانے کا مطلب محض زبان سے ذکر ،تسبیح واوراد کے کلمات کی ادائی بھول جا نا نہیں ہے،بلکہ اس میں اس کے احکام کو بھول جانا یا ان کی خلاف ورزی کرنا سب کچھ شامل ہے ۔
مال ا ور دنیوی ساز وسامان کی حرص، دینی اُمور کے لیے کس قدر خطرناک ہے اسے ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوںکو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے ( جامع ترمذی)
واقعہ یہ ہے کہ تکاثر (ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا اور مقابلہ آرائی کرنا اور اس پر فخر و غرور کا مظاہرہ کرنا) بجائے خود ایک کھلی بر ا ئی ہے اور بہت سی دیگر برائیوں کو جنم دینے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ان میں خاص طور سے بخل و ذخیرہ اندوزی، حسد و جلن، بددیانتی و دھوکادہی ، ریا ونمود اور فخر وناز کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابی بحرین سے جزیہ کی صورت میں کچھ مال لے کر مدینہ واپس ہوئے اور دوسرے صحابہ کو بھی اس کی خبر ہوگئی۔ نمازِفجر کے بعد آپؐ نے تبسم فرماتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ بحرین سے مال آیا ہے؟انھوں نے جواب میں کہا:ہاں، اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا: واقعی مال آیا ہے،خوش ہوجائو اور ہمیشہ مسرت بخش چیزوں کی اُمید رکھو [لیکن یہ بھی سن لو] قسم اللہ کی کہ مجھے تمھارے بارے میں فقر سے اندیشہ نہیں [کہ وہ تم میں فساد پیدا کرے گا]، بلکہ یہ اندیشہ [ضرور] ہے کہ تمھارے لیے دنیا[کے مال و دولت]کی فراخی کر دی جائے گی،جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی،پھر تم اس میں اسی طرح رغبت و مقابلہ آرائی کروگے جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔ [ آخر کار ] یہ روش تمھارے لیے تباہ کن ثابت ہوگی جس طرح اس نے انھیں ہلاک کردیا تھا (صحیح بخاری،کتاب الجزیہ والموادعۃ ،باب الجزیہ والموادعۃ مع اہل الذمۃ و الحرب)۔
اس روایت کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں: ’’ یعنی فقر و افلاس کی وجہ سے آدمی فتنہ و آزمایش میں پڑ سکتا ہے،لیکن اس سے بڑھ کر اس کے بارے میں اندیشہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے مال و متاع کی راہیں کھل جائیں اور وہ دولت کی چاہت میں اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے۔ اسے اگر دُ ھن ہو تو صرف اس بات کی کہ کتنی جلد وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹ لے۔وہ حرص کا ایسا بندہ بن کر رہ جائے کہ نہ اسے فقراء و مساکین پر رحم آئے اور نہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں صرف کرسکے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کسی شخص کے پاس دولت جمع ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ دنیا میں اس طرح نہ منہمک ہوجائے کہ نہ اسے خدا یاد آئے اور نہ اسے آخرت کی کوئی فکر دامن گیر ہو‘‘ (کلامِ نبوت، نئی دہلی، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۴۵۵-۴۵۶)۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کا میسر آنا یا کثیر مقدار میں اس کا حصول اسلام میں ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے حصول کے بعد جائز و ناجائز بھول کر زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہوجانا معیوب اور نقصان دہ ہے۔ اس حدیث کے آخری حصہ فتنافسوہا کما تنافسوہا سے اسی نکتہ کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ لفظ’ تنافس ‘ کا ترجمہ بالعموم رغبت و شدید خواہش کیا جاتا ہے۔
اگر اہلِ کتاب کے اطوار و احوال کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی خرابیوں یا برائیوں میں یہ مذموم حرکت بھی شامل تھی،جیسا کہ بعض آیات (المائدۃ۵:۶۲) سے صاف واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ کا اصل میدان یہی تھا۔مال و دولت کی محبت و حرص نہ صرف یہ کہ ان کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی اور اپنے خزانے میں اضافے کی خاطر جائز وناجائز کا لحاظ کیے بغیر مختلف ذر ائع اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑتے تھے اور دوسروں سے بازی مار لے جانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
یہ آیت ایک بندئہ مومن کے اسی وصف ِ خاص کی ترجما ن ہے: وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ (البقرۃ۲:۱۷۷) [اور وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اہلِ قرابت، یتیموں اورغریبوں پر خرچ کرتا ہے] ۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ملتی ہے جس میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اجر کے اعتبار سے وہ صدقہ سب سے بڑا ہے کہ جسے کوئی اس حال میں کسی کو دے کہ وہ صحیح و تندرست ہو اور صدقہ میںدینے والے مال کی حرص میں ڈوبا ہوا ہو اور بخل میں بھی اس بُری طرح مبتلا ہو کہ فقر کے ڈر سے مال نہ خرچ کرتا ہو اور زیادہ مال کا امیدوار یا خواہش مند ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک صحابیؓ کے اس سوال پر کہ اَ یُّ الصَّدَقَۃِ اَعْظمَ اَجْرًا ؟ [کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟] کے جواب میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَنْ تَصَدَّقَ وَاَنْتَ صحیحٌ شَحِیح ،تَخْشٰی الْفَقْرَ وَتَأ مَلُ الْغِنٰی (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب بیان افضل الصدقۃِ صدقۃُ الصحیحِ الشحیحِ) [ تم صدقہ کرو اس حال میںکہ تم صحت مند ہو،(مال کے) حریص ہو،فقر سے خوف کھاتے ہو اور مال داری کے اُمیدوار یا خواہش مند ہو]۔
حقیقت یہ کہ حرص ایسی بُر ی بلا ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتی۔ کچھ مال جمع ہوجانے اور اس کی لذت ملنے پر مزید کی طلب بھڑکتی رہتی ہے،پھر کچھ اور پونجی ہاتھ آگئی تو بھی اسے سکون نہیں ملتا اور نفس کی خواہشات کا تابع ہو کر وہ مزید کی طلب کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و اسباب کی حرص اور انھیں بڑھانے کی شدید خواہش میں گرفتار شخص سوچتا رہتا ہے کہ فلاں کے پاس مال و دولت کا اتنا ڈھیر ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں تو ہم کیوں نہ بھاگ دوڑ کریں؟ جناب حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اسی صورتِ حال کی بہترین ترجمانی کررہا ہے:
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اُونچی مری دیوار بنے
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۱۲۸ۙ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۱۲۹ۚ (الشعراء ۲۶:۱۲۸-۱۲۹) کیا تم لوگ ہر اونچے مقام پر ایک لا حاصل یا بلا ضرورت عمارت [اپنی]نشانی کے طور پر بنا تے ہو اور[اسی طرح بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو گویا تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے]۔
یعنی محض اپنی شان و شوکت کے مظاہرے یا دوسروں کی دیکھا دیکھی اور ان سے مقابلہ آرائی میں بلا ضرورت اونچی اونچی اور مضبوط عمارتیں تعمیر کرتے ہو۔ تمھارے اس طرزِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمھیں موت نہیں آنی ہے اور ہمیشہ ہمیش اِسی دنیا میں رہنا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ تحریر فرماتے ہیں:’’ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اورتعمیرات کرنا شرعاً بُرا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ النَّفَقَۃُ کُلُّہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ اِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَیْرَ فِیْہِ ،یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری و بھلائی نہیں۔ اس معنی کی تصدیق حضرت انسؓ کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے: اَمَا اِنَّ کُلُّ بِنَائٍ وَبَالٌ عَلٰی صَاحِــبِہٖ اِلَّا مَا لَا اِلَّا مَا لَا یَعْنِیْ مَا لَا بُدِّ مِنْہُ (ابو داؤد) ، یعنی ہرتعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے (معارف القرآن، ج۶،ص ۵۳۷-۵۳۸)۔
واقعہ یہ ہے کہ مال و جائیداد کے حریص اور تکاثر کی راہ اختیار کرنے والوں کی پوری عمر ان چیزوں کو بڑھاتے رہنے کی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے ،یہاں تک کہ قبر میں ان کے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں ا سی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک شخص کو اگر ایک وادی بھر سونا ہاتھ آجاتا ہے، تو وہ سونے بھری دوسری وادی کی طلب میں سر گرداں رہتا ہے،پھر تیسری و چوتھی کی فکر اسے دامن گیر ہوجاتی ہے، یعنی وہ مال و دولت کی محبت و لالچ کے اسی ختم نہ ہونے والے چکّر میں پڑ ا رہتا ہے ،یہاں تک زیرخاک ہوکر مٹّی میں مل جاتا ہے۔
اس صورت حال کے پس منظر میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان بڑی معنویت ر کھتا ہے: لَا تَتَّخِذُوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الْدُّنْیَا (جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب لَا تَـتَّخذوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الدُّنْیَا) [زیادہ ] زمین و جائیداد نہ بنا ئو ورنہ دنیا یا دنیا کے مال ومتاع کی لالچ تمھیں اپنے گھیرے میں لے لے گی [جس سے پھر تم نکل نہیں پائو گے] ۔ اس حدیث کی تشریح میں ہے: ’’الضیعۃ سے مراد زمین،صنعت وزراعت اور کاروبار ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنا زیادہ انہماک اور دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ انسان کا مقصدِزندگی رضائے الٰہی کے بجائے یہی چیزیں بن جائیں اور اس کے شب وروز اسی تگ و دو میں صرف ہوں،ورنہ حسبِ ضرورت و کفایت تو زمین، کاروبار اور جائیداد وغیرہ بنانا اور رکھنا سب جائز ہے، ممنوع نہیں۔
اس مقصد سے قرآن کریم میں غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ا نسان کی ذہنی و فکری اصلاح یا ا س کی اندرونی حالت سدھار نے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ قرآن کریم دنیا کے تعلق سے اس پہلو سے انسان کی ذہن سازی کرتا ہے کہ اس عارضی جائے قیام کا مال و متاع فانی ہے، کتنا بھی مال و اسباب جمع ہوجائے وہ کم ہوکے یا ختم ہو کے رہتا ہے۔ یہاں سے رخصتی کے وقت یہ سب چیزیں انسان کا ساتھ چھوڑ دینے والی ہیں، تو پھر ایسی چیزوں سے لو لگانے، دن رات ان کی خاطر دوڑ بھاگ کرنے، مال و دولت کا خزانہ جمع کرنے اور اس میں اضافے کی خاطر ساری توانائیاں صرف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر دُنیوی مال ومتاع کے لیے حرص و ہوس کی عکاسی بڑے مؤثر اسلوب میں کی گئی ہے: وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۶۴ (العنکبوت ۲۹:۶۴)’’یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے، مگر ایک کھیل اوردل کا بہلاوا،اصل زندگی تو دارِ آخرت ہے، کاش لوگ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘۔
ایک دوسری آیت میں دنیا کی زیب و زینت کو مزید واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے:
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل و دل لگی اور ظاہری ٹیپ و ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے،جیسے بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے،پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی،پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے برخلاف آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہےاور اللہ کی مغفرت اور خوش نودی ہے۔[ یہ یقین کر لو] دنیا کی زندگی ایک دھوکا کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں ہے۔(الحدید ۵۷ :۲۰ )
یہ آیت بہت ہی واضح انداز میں انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ دُنیوی زندگی اور اس کا ساز وسامان محض زیب و زینت ہے۔ مال واولاد کی کثرت پر انسان چاہے کتنا مگن ہوجائے ، جس قدر چاہے فخر جتا ئے، اسے بقا وپائے داری نہیں،بس ایک فریب ہے جو کچھ ہی دنوں بعد ہوا ہوجا ئے گا۔
اس آیت کی تشریح میں سیّد قطب شہید رقم طراز ہیں:’’مطلب یہ کہ اس کھیتی کا ایک وقت مقرر ہے جو بہت جلد پورا ہوجاتا ہے،اس کے بعدیہ کھیتی اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ اس متحرک تصویر کے ساتھ جو انسانوں کے روز مرہ مشاہدات سے ماخوذ ہے پوری زندگی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور حیاتِ دنیا کا یہ اختتام کھیتی کے چورا چورا ہونے کے منظر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔رہی آخرت تو اس کی حیثیت اس سے بالکل مختلف ہے اور اس کی حیثیت اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ،اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کے لیے تیاری کی جائے۔ یہ ( آخرت) دنیا کی طرح پلک جھپکتے گزر جانے والی نہیں ہے اور نہ اس کا انجام اس کھیتی کے چورا جیسا ہے جس کی عمر پوری ہوچکی ہو،یہاںتو اعمال کا حساب و کتاب ہونا ہے اور اس پر جزا و سزا ملنی ہے اور آخرت کی دائمی زندگی ہے،اس لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس(دنیا کی) متاع کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا وجود تو بس ایک فریب اور دھوکے سے عبارت ہے، یہ غفلت و خود فراموشی میں مبتلا کرتی ہے جس کا نتیجہ دھوکا اور فریب کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا‘‘ ( سید قطب شہید، ترجمہ: سیدحامدعلی،تفسیر فی ظلال القرآن ،ج ۱۶،ص ۵۵-۵۶)
اسی طرح سورۂ یونس کی آیت۲۴ میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو سر سبز و شاداب اور پیداوار سے بھرے کھیت کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں،اسے محض اپنی محنت یا دوڑ دھوپ کا ثمرہ اور اپنی اہلیت و صلاحیت کی کارستانی سمجھتے ہیں اور منعمِ حقیقی کو بھول جاتے ہیں، اس کا شکر بھی نہیں ادا کرتے:
دنیا کی یہ زندگی،اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے انسان و جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی،پھر عین اس وقت، جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک اس گمان میں تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کوہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (یونس۱۰:۲۴)
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت آسمان اور زمین کے مثل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کریم دنیوی زندگی میں نہ تگ و دو اور جدّ وجہد کا مخالف ہے اور نہ دوسروں سے مقابلہ آرائی کو ناپسند کر تا ہے، بلکہ یہ کتابِ ہدایت مقابلہ کے رخ کو صحیح کرنے اور اسے ایک عظیم مقصد ( حقیقی کامیابی کے حصول ) سے مربوط کر نے کی دعوت دیتی ہے ، جیسا کہ سورۃ الحدید کی آیت۲۱ سے صاف طور پر واوضح ہوتا ہے :سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ ’’اپنے رب سے مغفرت طلبی اور جنت کے حصول کے لیے ایک د وسرے سے آگے بڑھو‘‘،یعنی مغفرت و رضائے الٰہی کی طلب ہی در اصل مومن کے لیے مسابقت کا اصل میدان ہے۔
قرآن کی یہ دعوت دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۱۳۳ ( اٰل عمرٰن ۳: ۳۳ا) ’’ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے آگے بڑھو جس کی وسعت آسمانوں و زمین کی طرح ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔پھر ایک اور مقام پر بہت ہی واضح انداز میں مومنین کو خیر کی طلب میں مسابقت یا آگے بڑھنے کی دعوت دی گئی ہے: وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۰ۭ۬ (البقرۃ۲:۱۴۸)’’ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے۔ وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے، تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو‘‘(نیز دیکھئے: المائدۃ: ۵؍ ۴۸ ؛ المومنون:۲۳؍۶۸)۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ باقی رہنے والا ہے اس سے مراد کسی کارِ خیر یا محتاج بندوں کی ضروریات کی تکمیل میں صرف کیے گئے مال کا اجر و ثواب ہے، جو اللہ کے پاس محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ ہدایت میں اصحاب ِ مال کوبار بار یہ تاکید کی ہے کہ وہ (اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے بعد) کارِخیر میں اپنا مال خرچ کرتے رہیں، اس سے پہلے پہلے کہ ان کی موت کا وقت آجائے اور خاص طور سے سورۃ المنافقون کی آخری آیات بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی ہیں۔ اسی ضمن میں عبد اللہ ابن شِخِّیر سے مروی ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ بھی بر محل معلوم ہوتا ہے :
قَالَ اَتَیْتُ النَبِیَّ وَھُوَ یَقْرَ ئُ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فَقَالَ یَقُوْلُ اِبْنُ آدَمَ مَالِیْ، مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا اِبْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ اِلَّا مَااَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَابْلَیْتَ اَوْ تَصدَّقْتَ فَاَمْضَیْت ( صحیح مسلم، کتاب الزہد،باب الدنیا سجن للمؤمن وجنّـۃ للکافر) حضرت عبد اللہ ابن شخّیر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ تلاوت فرمارہے تھے ، پھر آپؐ نے فرمایا: انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالاں کہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھادیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مال جو مال صدقہ یا کسی کارِ خیر میں خرچ کرے یا کرتا ہے، وہی اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بننے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’تکاثر‘ کی راہ پر چلنے والے مال و دولت کے نہ صرف حریص ہوتے ہیں، بلکہ اسے بڑھانے کی فکر میں دن رات دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس لیے کہ وہ یہ گمان ر کھتے ہیں کہ اس سے مال کم ہوجائے گا۔اس طرح متضاد برائیاں ( حرص و بخل) ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتی ہیں۔
قرآن اس پہلو سے بھی اصحابِ مال کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی کم وبیش جو کچھ مال ملتا ہے وہ اللہ کی نوازش ہوتی ہے۔ سارے خزانوں کا مالک وہی ہے،وہ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا فرماتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۷۳-۷۴؛ العنکبوت ۲۹:۶۲)۔ اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ،تو پھر کسی کے پاس زیادہ مال و دولت دیکھ کر اس سے حسد کے کیا معنی؟ مال و دولت کی ہوس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کسی کے مال ودولت پر لالچ کی نظر ڈالنے کے بجائے جو کچھ ملا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر اداکیا جائے اور قناعت کی راہ اختیار کی جا ئے، بلا شبہہ قناعت خود بہت بڑی دولت ہے۔ مال یا زیادہ مال کی طلب میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ذرائع اختیا ر کیے جا ئیں اور اللہ کا فضل و کرم طلب کر نے کے لیے اس سے خوب دعائیں مانگی جائیں (النساء۴:۳۲)۔
اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ کم یا زیادہ مال نصیب ہونے یا اس سے بالکل محروم رہنے وا لوں ،سب کو مالک الملک آزما تا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ کیا مال نصیب ہونے پر صاحبِ مال منعمِ حقیقی کو یاد کرتا ہے،اس کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمت میں محتاجوں و غریبوں کو شریک کرتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے، اس کی ہدایات سے غافل ہوجاتا ہے ، مال نصیب ہونے کے بعد وہ دوسروں پر ٖفخر جتاتا ہے اور تکبر کا رویہ اپناتا ہے؟ اسی طرح صاحبِ مال کو اس طور بھی آزمایا جاتا ہے کہ اسے جو کچھ مال و اسباب ملا ہوا ہے اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل یا کسی نیک کام میں خرچ کر تا رہتا ہے یا دن رات اسے اور بڑھانے کے چکّر میں پڑا رہتا ہے: یہ آیت اسی حقیقت کی یاددہانی کرارہی ہے:
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۸ۭ (الکہف۱۸: ۷-۸) ہم نے جو کچھ [ساز وسامان] زمین پر ہے اسے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ،آخر کار ان سب کو [ ختم کرکے ایک دن] چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کرکے دنیا کی ان دل فریبیوں میں گم ہوجا تا ہے اور کون ا پنے اصل مقام (بندگی ٔرب) کو یاد رکھ کر صحیح رویہ پر قائم رہتا ہے۔جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۳،ص۱۰-۱۱)۔
دنیا کی چیزوں کی حقیقت سے متعلق قرآن کی اس وضاحت کے علاوہ بعض مقام پر خاص طور سے مال و دولت اور اولاد کی نسبت سے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کی حیثیت محض چند روزہ زیب وزینت کی ہے اور یہ سامانِ آزمایش ہیں، اصل میں نیکیاں ہی باقی رہنے والی اور موجبِ خیر بننے والی ہیں۔ ( الکہف ۱۸: ۴۶ ؛ اٰٰل عمرٰن۳:۱۸۶؛الانعام۶ :۱۶۵)۔
ایک حدیث میں مال و دولت یا دُنیوی اسباب کی نسبت سے ان لوگوں پر نظر ڈالنے کی ہدایت دی گئی ہے جنھیں ا ن سے کم میسر ہے، اور انھیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے جو ان سے زیادہ مال و دولت والے ہیں، تاکہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو حقیر نہ سمجھا جائے یا اس کی ناقدری کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو:
اُنْظُرُوا اِلٰی مَنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْااِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَکُمْ فَھُوَ اَجْدَرُ اَنْ لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃاللہ ِ عَلَیْکُمْ (صحیح مسلم،کتاب الزہد، حدیث:۵۳۷۶)
اس ضمن میں اہم بات یہ کہ اگر کسی سے مذکورہ بالا ہدایت کی خلاف ورزی ہوجائے تو ایک دوسری حدیث میںاس کی تلافی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اوروہ یہ ہے:
قَالَ رَسُوْل اللہ اذ ا نَــظَرَ اَحَدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیہِ مِنَ الْمَالِ والْخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلَ مِنْہُ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب لِینظُرَ الی من ھو اسفلَ منہ ولا ینظرْ الٰی من ھو فوقہٗ ) جب تم سے کوئی مال اور اولاد کے باب میں اپنے سے افضل کسی شخص کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ ان چیزوں کی نسبت سے اپنے سے کم تر پرنظر ڈال لے۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اور ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا اور اس کے مال ومتاع سے متعلق قرآن کے بیان کردہ حقائق ہمیشہ ذہن میں تازہ ر کھے جائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی پر ایمان اور اس میں پیش آنے والے احوال کو ذہن میں تازہ رکھنا ایک جانب نیک اعمال کے لیے زبردست محرک بنتا ہے تو دوسری جانب بُرائیوں ا ور گناہ کی باتوں و کاموں سے باز رکھنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔اللہ کرے ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور روز مرہ زندگی میں ان سے کام لینے کی توفیق نصیب ہو، آمین!