سابق ڈائرکٹر ادارہ علوم اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی وفات (۱۲نومبر۲۰۲۲ء ) پر اخبارات و رسائل میں شائع شدہ رپورٹوں و مضامین سے مرحوم کی حیات و خدمات کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ا ن کی تعلیمی زندگی کا یہ پہلو بلا شبہہ بڑا قیمتی اور سبق آموز ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر محض اپنے شوق و طلب سے عربی زبان و ادب اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے لیے انھوں نے درس گاہ اسلامی، رام پور کا جدید تعلیم گاہوں کے طلبہ کے لیے خصوصی تشکیل کردہ قلیل المدتی چار سالہ کورس مکمل کیا، اور پھر قرآن کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح میں ماہر قرآنیات مولانا حمیدالدین فراہیؒ (م:۱۹۳۰ء) کے تلمیذِ رشید مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ(م: ۹؍اکتوبر ۱۹۵۸ء) سے تقریباً چھے ماہ استفادہ کیا ۔
واقعہ یہ کہ دینی علوم کے اکتساب کے لیے پروفیسر نجات اللہ صدیقی اور ان کے رفقاء (بالخصوص ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری رحمہما اللہ تعالیٰ)کی طلبِ صادق اور ارادے کی یہ پختگی تھی، جس نے ان کے لیے راہیں ہموار کیں اور رام پور میں جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے ’ثانوی درس گاہ‘ کی صورت میں ان کی دینی تعلیم کا باقاعدہ نظم قائم کردیا۔ جماعت اسلامی ہند کے اولین مرکز ملیح آباد میں جب دینی تعلیم کے نظم کے لیے انھوں نے جماعت کے ذمہ داروں کے سامنے اپنی طلب پیش کی تو انھوں نے وہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے اس نظم سے معذوری ظاہر کی۔ ۴۹ ۱۹ء میں جب مرکزِ جماعت اسلامی رام پور منتقل ہو ا اور جماعت کی افرادی قوت میں اضافے کے ساتھ یہا ں وسائل بھی بڑھ گئے تو ان حضرات نے پھر جماعت کے ذمہ دار وں سے اپنی طلب (جدید تعلیم یافتگان کے لیے دینی تعلیم کا خصوصی نظم) ظاہر کی اور اس کے لیے کوشش جاری رکھی۔
اس سلسلے میں اپنی کوششوں کے نتیجہ خیز مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ فرماتے ہیں:’’ اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آ پ لوگ یہیں ( رام پورمیں) قیام کریں،آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے اور حمید اللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری ۱۹۵۰ء سے وہیں قیام کیا اور چند ماہ بعد جب باقاعدہ ثانوی درس گاہ کا آغاز جولائی ۱۹۵۰ء میں ہوا تو [عبدالحاق] انصاری صاحب بھی ندوہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کر کے رام پور آگئے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درس گاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اورمستقل اصرار کے بعد کیا تھا‘‘(انٹرویو، رفیقِ منزل[نئی دہلی]،۲۵ ؍۱۱،نومبر ۲۰۱۲ء،ص ۲۷)۔ دینی تعلیم کے اس مخصوص سلسلے کی تکمیل کے بعد پھر پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے جدید تعلیم کے اعلیٰ مراحل(بی-اے سے پی ایچ ڈی تک) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طے کیے۔ فروری ۱۹۷۷ء میں پروفیسر و ڈائرکٹر ا دارہ علوم اسلامیہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل انھوں نے شعبہ معاشیات میں تقریباً ۱۶ برس لیکچرر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دی تھیں ۔
یہاں ذکر بے موقع نہ ہوگا کہ مؤقر رسالہ ماہنامہ ترجمان القرآن ( دسمبر ۲۰۲۲ء) میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم پر مدیرِ گرامی پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مضمون میں یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طالب علمی کے دوران جدید نظامِ تعلیم سے متعلق نامورمفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دو تحریروں کے مطالعے نے’’ نو عمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریکِ ا سلامی سے وابستہ کردیا‘‘۔راقمِ عاجز کے خیال میں علی گڑھ کے فیوض و برکات کی طویل فہرست میں اسے بھی بلاشبہہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ اضافہ بے موقع نہ ہوگا کہ ابھی چند ماہ قبل محبِّ گرامی محترم مولانا عتیق الرحمن سنبھلی پر الفرقان (لکھنؤ) کے خصوصی شمارے کے لیے مضمون لکھتے ہوئے اس مضمون نگار نے علی گڑھ سے اپنی فیض یابیوں کے ضمن میں یہ تاثربھی ظاہر کیا تھا:’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جدید تعلیم کے ایک عظیم مرکز کی حیثیت سے مشہور ہے، لیکن اس علمی و تر بیتی مرکز کی ایک ا نفر ا د یت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بہت سے فیض یافتگان میں دینی علوم میں دلچسپی بڑھانے ، بالخصوص قرآن و علمِ قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کا بھی وسیلہ بنتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس پہلو سے ادارۂ سرسید کا فیض پانے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل ہے‘‘۔ (الفرقان[اشاعتِ خاص]،ذکر عتیق بیاد گارِ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ،ستمبر تا دسمبر ۲۰۲۲ء، ص ۵۹۔۶۰)۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم بلا شبہہ اسلامی معاشیات کے ایک ممتاز اسکالر تھے اور اس میدان میں ایک محقق و مصنف کے طور پر ہندستان اور بیرونی ممالک میں بھی انھیں ایک امتیازی مقام حاصل تھا ۔ اسلامی معاشیات کے موضوع پر اُردو و انگریزی میں متعدد کتب ان کی علمی یادگاروں میں شامل ہیں۔ ان میں اردو کی کچھ مشہو ر تصانیف یہ ہیں : اسلام کا نظریۂ ملکیت، اسلام کا نظامِ محاصل[امام ابو یوسف کی معروف تصنیف کتاب الخراج کا اردو ترجمہ مع مبسوط حواشی ]، شرکت و مضاربت کے شرعی اصول، غیر سودی بنکاری، انشورنس اسلامی معیشت میں ، فقہ اسلامی کے مسائل کی جدید تعبیر۔ اسرارِ شریعت کی وضاحت میں ان کی وقیع تصنیف مقاصدِ شریعت بھی بہت معروف ہے۔ ان سب کے علاوہ قرآن سے متعلق ان کی تحریریں (بالخصوص ان کے قرآنی مضامین کا مجموعہ ’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘) بڑی وقعت و اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر نجات ا للہ مرحوم کی ایک اور قرآنی خدمت ’’قرآن اور سائنس، افاداتِ سید قطب نامی کتاب ہے ۔ یہ در اصل قرآن اور سائنس سے متعلق سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن کے اقتباسات کا اُردو ترجمہ ہے، جسے انھوں نے مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے اشتراک سے انجام دیا تھا ۔
زیر بحث موضوع کے اعتبار سے پروفیسر نجات اللہ صدیقی ؒکی کتاب ’’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘‘ خصوصی ذکر کی مستحق ہے۔ القلم پبلی کیشنز (بارہ مولہ، کشمیر ) سے ۲۰۱۵ء میں شائع شدہ اس مجموعۂ مضامین کی ہر تحریر رجوع الی القرآن کی دعوت دے رہی ہے اور قرآن حکیم میں تدبر و تفکر کے بڑے قیمتی نتائج پیش کر رہی ہے ۔ اس کتاب کے مشتملات میں جو قرآنی نکات زیرِ بحث آ ئے ہیں، ان میں خاص اہمیت کے حامل یہ ہیں : (۱) رجوع الی القرآن کی ضرورت واہمیت اور اس کے تقاضے ، ( ۲) عصر حاضر میں قرآن کا پیغام ِ رحمت عام کرنے اور قرآنی علوم کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ،(۳) فہمِ قرآن میں ہدایات ِ ربّانی کے مقاصد کو سمجھنے کی افادیت ،( ۴) آیات کی تشریح و ترجمانی میں شانِ نزول کی اہمیت و معنویت، ( ۵) نائن الیون کے بعد مغرب میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی بڑھتی ہوئی طلب اور مغربی زبانوں میں مزید مستند تراجمِ قرآن کی تیاری و اشاعت کے تقاضے ،( ۶) جدید تعلیم یا فتگان اور عرب دنیا میں نامور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے علمی کارناموں کے تعارف کی ضرورت و افادیت۔
بلاشبہہ قرآن کریم سے رجوع کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور معاشر ے کی موجودہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں اصلاحِ ا حوال کی خاطر عظیم ترین کتابِ ہدایت سے رجوع اور حصولِ رہنمائی کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس پس منظر میں مذکورہ بالا کتاب میں شامل پروفیسر محمدنجات اللہ صدیقیؒ کی تحریر ’رجوع الی القرآن: اہمیت اور تقاضے‘ بڑی قدرو قیمت کی حامل ہے۔ اس میں انھوں نے اس نکتہ پرخاص زور دیا ہے کہ رجوع الی القرآن کی دعوت اب عام ہوچکی ہے، قرآن سمجھ کر پڑھنے کی طلب میں مزید اضافہ ہوا ہے، لیکن اس دعوت کے کچھ تقاضے ہیں،انھیں پور ا کرنے پر خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ بہتر ہوگا کہ قرآن کے پیغامِ رحمت کی ترسیل اور اس کی ہدایات کی تشریح و ترجمانی کے لیے ایسی زبان، ایسا لہجہ اور ایسا اسلوب اختیار کیا جا ئے جو جدید دور کے لوگوں میں فہم قرآن کے فروغ اور روز مرہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِ ہدایت کے مطالبات کو سمجھنے سمجھانے میں مفید اور زیادہ مؤثر ثابت ہو ۔
پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی مرحوم کی رائے میں ’’لوگوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے اُن رکاوٹوں پرتوجہ دینے اور انھیں ہمدر د ی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، جو عام لوگوں کو اس دعوت کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں در پیش ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلی رکاوٹ زبان کی ہے۔ہر شخص عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مادری زبان کو بھی کان سے سن کر سمجھ سکتی ہے،آنکھ سے دیکھ کر نہیں سمجھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں‘‘ (رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۵)۔
وہ پُر زور انداز میں اپنی اس رائے کو پیش کرتے تھے کہ عام لوگ بھی قرآن کا ترجمہ پڑھ کر یا سن کر قرآن کی ہدایات و تعلیمات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ وہ اس فکر کے داعی تھے کہ شروع ہی سے بچوں کو ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھانے یا قرآن کے معنی و مطالب سے باخبر کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ اس کام کی قدر و قیمت ذہن نشین کرنے کے لیے انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مقدمہ فارسی ترجمۂ قرآن کے ایک اقتباس کی اردو ترجمانی ان الفاظ میں پیش کی ہے: ’’ یہ کتاب بچپن ہی میں پڑھا دینی چاہیے تاکہ سب سے پہلے ان کے ذہن میں جو چیز آئے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے مطالب ہوں‘‘( رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۶) ۔
مزید یہ کہ پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی صاحب اس نکتہ کی طرف خاص طور سے توجہ دلا تے تھے کہ قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے دین کی تعلیمات یا نصیحت و بھلائی کی باتیں قرآن کو سمجھ کر اس سے بر اہِ راست معلوم کی جائیں یا لوگوں کو بتائی جائیں تو وہ زیادہ اثر انداز ہو تی ہیں اور دل و دماغ میں اتر جاتی ہیں۔ اس نکتہ سے متعلق ان کا بہت ہی وا ضح مو قف یہ تھا:’’کوئی بات جب خدا کے حکم کے طور پر سامنے آتی ہے تو اس کا اثر کسی انسان کے وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے‘‘(رجوع الی القرآن،ص۷ )۔
اس ضمن میں انھوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ترجمہ قرآن کے مقدمہ کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس نقل کیا ہے : ’’سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے ، لیکن جیسا حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلاسکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدائے تعالیٰ کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے۔ اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں‘‘(ترجمۃ القرآن المجید، محمود حسن، مع تفسیر شبیراحمد عثمانی، مجمع الملک فہد، المدینۃ المنورۃ، ۱۴۰۹ھ،ص۷)۔
رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔وہ اس فکر کے داعی و مبلّغ تھے کہ قرآن کے ترجمے کے ذریعے عام پڑھے لکھے لوگ اسلام کے بنیادی عقائد،روز مرہ زندگی سے متعلق اہم ہدایات اور اخلاقی تعلیمات معلوم کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں،اس لیے ( عربی زبان جانے بغیر بھی) قرآن کے تراجم سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ قرآن کا پیغام سمجھنا ہرمسلمان سے مطلوب ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ’’ قرآن کے جن مطالب کو شاہ صاحب بچوں کے ذہن نشیں کرانا چاہتے ہیں اور انھیں ان کے لیے قابلِ فہم سمجھتے ہیں وہ مکارمِ اخلاق،آدابِ زندگی، عقائد توحید وآخرت ورسالت جیسے اصول ہیں نہ کہ نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین یاجرم و سزا کے مباحث۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ آج بھی عام لوگوں کو ترجمہ کے ذریعہ قرآن پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے، ان کی نظر اول الذکر کی جگہ قرآن کے مشکل مباحث[ یعنی فقہی مسائل اور ان کی تفصیلات] پر ہوگی‘‘ (رجوع الی القرآن، ص۴۵)۔
واقعہ یہ کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے آج سے تقریباً ۳۰۰برس پہلے جو آواز بلند کی تھی اسے ایک انقلابی آواز کہا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی بعض لوگ عام لوگوں کو ترجمۂ قرآن کے ذریعے قرآن پڑھنے کی دعوت کے خلاف ہیں (حوالۂ مذکور، ص۴۵) ۔ مزید برآں وہ اس پہلو سے بھی ا س مسئلے پرغور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ’’ آخر اللہ تعالیٰ نے اَن پڑھ اُونٹ چرانے والوں سے قرآن کو سمجھنے کا مطالبہ کیا تھا تو اس سے زیادہ ترقی یافتہ لوگوں سے اس کا مطالعہ کرنے کو کہنا کیوں کر باعثِ تردد ہوسکتا ہے؟ رہا زبان کا فرق تو ہر سمجھ دار انسان کی طرح شاہ صاحب بھی جانتے تھے کہ ترجمہ کے ذریعے اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے ‘‘ (حوالۂ مذکور، ص ۴۴- ۴۵)۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوتِ رجوع الی القرآن کا ماحصل واضح کرتے ہوئے مصنفِ محترم رقم طراز ہیں:’’ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ[شاہ ولی اللہ] عام مسلمانوں اور ہدایتِ الٰہی کے درمیان صدیوں سے حائل تہ در تہ حجابات کو ہٹانے کا سب سے مؤثر طریقہ انسان کو قرآن تک پہنچادینے کو سمجھتے تھے۔وہ یقین رکھتے تھے کہ جب انسانوں کے خالق کا فیصلہ ہے کہ وہ اس کا کلام سمجھ سکتے ہیں تو کسی دوسرے کو اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ترجمہ قرآن اور اسے بچوں کو پڑھانے کی تلقین کے پیچھے ان کا حکیمانہ شعور ہے، جس سے اکثر لوگ محروم رہے ہیں ‘‘ ( حوالۂ مذکور، ص۴۵)۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ کی پیشِ نظر تحریر وں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ا ن میں رجوع الی القرآن کے حوالے سے عام لوگوں کے علاوہ خواص کی توجہ بھی مبذول کرائی گئی ہے کہ ہرمعاملے میں کتابِ ہدایت سے رجوع کرنے کی دعوت کے مخاطب عام و خاص سبھی لوگ ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے موجودہ صورتِ حال پر اظہارِ افسوس کرتے ہو ئے اپنا یہ تاثر بیان کیا ہے: علما و دانش ور وں نے عام طور پر در پیش مسائل میں اپنا رہنما فقہ ا سلامی کو بنا رکھا ہے ، خواہ اِن مسائل کا تعلق معاشرت سے ہو یا معیشت و سیاست سے ۔ یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے علما و دانش ور نئے مسائل کے حل کے لیے رجوع الی القرآن سے جھجکتے ہیں ؟ یہ لمحۂ فکریہ ہے،اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جدید مسائل کے حل کے لیے بھی قرآن سے رجوع کیا جاتا۔ اس کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ نئے حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقیات کے سماج پر اثرات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔ زمانے کے انقلابات سے لوگوں کے مزاج،نفسیات اور طور وطریق میں جو تبدیلی آئی ہے اس پر بھی نظر رکھی جائے۔انسانی مسائل کے حل کی خاطر قرآن کریم سے حصولِ رہنمائی اور رجوع الی القرآن کی دعوت کے لیے تیاری ان سب باتوں کو مدِّ نظر رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ مزید برآں اسی ضمن میں یہ مطالعہ بھی مفید رہے گا کہ پہلے کے لوگوں نے بدلتے ہوئے حالات میں احکامِ الٰہی کی تعمیل کس طرح کی؟ ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی رجوع الی القرآن کی دعوت اور اس پر عمل مؤثر و مفید ثابت ہوگا ( حوالۂ مذکور ، ص ۹ -۱۱)۔
محترم نجات اللہ صدیقی نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ بڑے پیمانے پر قرآنی علوم کی توسیع وترقی مطلوب ہے۔ پھر ان علوم کی نسبت سے اس پہلو سے غورو فکر کی بھی ضرورت ہے کہ ان کو کس طرح نئی وسعتوں سے روشناس کرایا جائے اور دوسروں بالخصوص مغربی اسکالرز و مستشرقین سے تبادلۂ خیالات کر تے ہوئے ا پنی باتوں میں قرآنی روح پھونکی جائے؟ موجودہ حالات میں، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ،یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر خاص طور سے کن زبانوں میںقرآن کے ترجمے کی زیادہ ضرورت ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لیے علو مِ قرآنی پر عبور کے ساتھ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے والے اسکالرز در کار ہو ں گے ۔
ارشادِ ربَّانی ہے: اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۲ۭ ( التکاثر۱۰۲:۱-۲) ’’تمھیں مال و اسباب کی طلب میں مقابلہ آرائی نے [ اللہ کی یاد سے] غافل کردیا یہاں تک کہ تم لوگ قبروں تک پہنچ گئے‘‘۔
آیت میں ’تکاثر ‘( مال و دولت میں زیادتی کی خواہش اور اس کے لیے مقابلہ آرائی) کی سب سے بڑی خرابی واضح کرتے ہوئے اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ انجام کے اعتبار سے یہ موجبِ تباہی ہے۔ ’تکاثر ‘ کے لفظی معنی مختلف طور پر بیان کیے گئے ہیں: زیادتی کی خواہش یا طلب رکھنا ، طلبِ مال میں مسابقت، مال و اولاد یا دوسری چیزوں پر آپس میں فخر جتانا یا شیخی بگھارنا، زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مال یا کوئی دُنیوی سامان حاصل کرنے کی دُھن میں لگا رہنا۔ ان تشریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے مفہوم میں چار باتیں لازمی طور پر شامل ہوتی ہیں: کسی چیز کی محبت، اس کی حرص اور اس کے حصول میں دوسرے سے مقابلہ آرائی اور حاصل ہوجانے پر فخر جتانا (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۴۲)۔
اس میں شبہہ نہیں کہ دنیا میں ز یب و زینت اور من پسند کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی چاہت و طلب میں ضرورت سے زیادہ یا حد درجہ مصروف ہوکر انسا ن روز مرہ زندگی میں، اللہ ربّ العزت کی یاد اور اس کی ہدایات سے غافل ہوجا تا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبوب چیزوں (یا د نیوی لذّات) میں ذکرِ الٰہی،عبادتِ الٰہی اور اتباعِ حکمِ الٰہی سے سب سے زیادہ غافل کرنے والی چیز مال کی محبت اور اس کے جمع کرنے( یا سمیٹنے ) اور اس میں اضافے کی حرص ہے ۔ حرص وطمع اور دوسروں سے مقابلہ آرائی میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی چاہت مختلف چیزوں (مال و دولت، زمین و جائیداد ، سماجی و سیاسی اثر و رسوخ یا اقتدار اور عہدہ و منصب،دنیوی لذّات وغیرہ) میں ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ یہ طلب یا چاہت سب سے زیادہ مال و دولت کے ضمن میں نظر آتی ہے۔ مال کی لالچ اور ہوس رکھنے والے کو چین نہیں نصیب ہوتا، اس لیے کہ اس کے نفس میں ھل من مزید کی باز گشت آتی رہتی ہے ۔
اس آیت کی تشریح میں صاحب ِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ در اصل دنیا کی امتحان گاہ میں یہ (مال و اولاد) تمھارے لیے سامانِ آزمایش ہیں۔جسے تم بیٹا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی در حقیقت ایک دوسرا پرچۂ امتحان ہے۔یہ چیزیں تمھارے حوالے اسی لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے سے تمھیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا و ر حدود کا لحاظ کر تے ہو،کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہِ ر است پر چلتے ہو، اور کہاں تک اپنے نفس کو،جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے،اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندۂ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۴۰،حاشیہ نمبر۲۳)۔
اسی ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ فرمائیں : اِنَّ لِکُلِّ اُمَۃٍ فِتْنَۃٌ وَ فِتْنَۃُ اُمَّتِی اَلْمَالُ ( جا مع ترمذی، ابواب الزہد،باب ما جاء اِنَّ فتنۃ ھٰذہ الامّۃ فی المال ) ’’ہرامت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری امت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔
مال سب سے بڑی آزمایش اس وجہ سے ہے کہ اس کی محبت انسان کی سرشت میں داخل ہے ۔ارشادِربانی ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۸ۭ ( العٰدیٰت۱۰۰:۸)[ اور وہ بے شک مال کی محبت میں بہت سخت ہے]۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان مال سے صرف محبت نہیں،بلکہ شدید محبت رکھتا ہے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کو محبوب ہوتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے خوب دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اسے کثیر مقدار میں اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ ایک اور آیت (اٰل عمرٰن۳:۱۴) میں واضح طور پر انسان کو خبر دار کردیا گیا کہ مال کے علاوہ اور کون سی پسندیدہ چیزیں ہیں جن کی محبت ان کے دلوں میں بطور آزمایش رچا بسا دی گئی ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِمِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۱۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴) لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس___عورتیں،اولاد، سونے چاندی کے کھنکھناتے ڈھیر،عمدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں [اور ان کی پیداوار] بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دنیا کے چند روزہ سامان ہیں، اور[سچ یہ ہے کہ] بہترین ٹھکانا اللہ کے یہاں ہے۔
لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلأً مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَالِثًا ، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللهُ عَلٰى مَنْ تَابَ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتّقٰی من فتنۃ المال وقول اللہ تعالٰی اِنَّـمَا امْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ ) اگر کسی شخص کو ایک وادی بھر سونا دے دیا جائے تو وہ دوسری وادی بھر سونا کی خواہش کرے گا۔اگر اسے سونا بھری دوسری وادی مل جائے تو تیسری کی آرزو میں گرفتار ہوجائے گا۔(حقیقت یہ کہ) انسان کے پیٹ کو (قبر کی) مٹّی کے سوا اور کوئی چیز بند(بھر) نہیں کر سکتی، اور اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو (گناہ کے ارتکاب کے بعد) اس سے توبہ کر لیتا ہے۔
بلاشبہہ دل میں مال کی محبت بیٹھ جانا ، بہت زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا، رات دن اسی میں سرگرداں رہنا اور پھر اپنے ذخیرۂ مال پر فخر وناز کرنا ناپسندیدہ روش ہے، جو دُنیوی و اُخروی دونوں زندگی میں تباہی کا موجب بنتی ہے۔ یہ نکتہ ان آیات پر غور و فکر سے بہت واضح طور پر سامنے آ تا ہے جن میں مال و اولاد کو فتنہ (یعنی آزمایش کا سامان ) کہا گیا ہے اور اس کے فوراً بعد اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے(الانفال۸:۲۹؛ التغابن ۶۴:۱۶)، یعنی اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ مال و دولت حاصل کرنے ، اسے خرچ کرنے اور آل واولاد کی پرورش و پرداخت کرتے ہوئے اللہ کے رُوبرو حاضری اور جواب دہی سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ان کاموں کو کرتے ہوئے شریعت کے احکام کو توڑ کر ربَّ کریم کی ناراضی مول لے لو۔رہا یہ مسئلہ کہ مال و اوالاد سے متعلق معاملات میں ضرورت سے زیادہ یا خلاف ِ شریعت مصروفیات میں دین کے اعتبار سے سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟، قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں اسے اس طور پر بیان کیا جا سکتا ہے : اللہ کی یاد سے غافل ہوجا نا،فرائض کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنا اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی کرنا، عاقبت کو خراب کردینا۔ ارشادِربّانی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۹ ( المنٰفقون ۶۳:۹) ، اے ایمان والو! تمھارے مال و تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو کوئی ایسا کریں گے وہ[یقیناً بڑے]گھاٹے میں ہوں گے۔
یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو ، مال کی طلب میں اس درجہ منہمک نہ ہو جائو کہ اللہ کو یاد کرنا بھول جائو، اور اپنی اولاد کی محبت میں ایسا کام نہ کر ڈالو کہ اللہ ناراض ہوجائے ۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجانے کا مطلب محض زبان سے ذکر ،تسبیح واوراد کے کلمات کی ادائی بھول جا نا نہیں ہے،بلکہ اس میں اس کے احکام کو بھول جانا یا ان کی خلاف ورزی کرنا سب کچھ شامل ہے ۔
مال ا ور دنیوی ساز وسامان کی حرص، دینی اُمور کے لیے کس قدر خطرناک ہے اسے ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوںکو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے ( جامع ترمذی)
واقعہ یہ ہے کہ تکاثر (ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا اور مقابلہ آرائی کرنا اور اس پر فخر و غرور کا مظاہرہ کرنا) بجائے خود ایک کھلی بر ا ئی ہے اور بہت سی دیگر برائیوں کو جنم دینے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ان میں خاص طور سے بخل و ذخیرہ اندوزی، حسد و جلن، بددیانتی و دھوکادہی ، ریا ونمود اور فخر وناز کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابی بحرین سے جزیہ کی صورت میں کچھ مال لے کر مدینہ واپس ہوئے اور دوسرے صحابہ کو بھی اس کی خبر ہوگئی۔ نمازِفجر کے بعد آپؐ نے تبسم فرماتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ بحرین سے مال آیا ہے؟انھوں نے جواب میں کہا:ہاں، اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا: واقعی مال آیا ہے،خوش ہوجائو اور ہمیشہ مسرت بخش چیزوں کی اُمید رکھو [لیکن یہ بھی سن لو] قسم اللہ کی کہ مجھے تمھارے بارے میں فقر سے اندیشہ نہیں [کہ وہ تم میں فساد پیدا کرے گا]، بلکہ یہ اندیشہ [ضرور] ہے کہ تمھارے لیے دنیا[کے مال و دولت]کی فراخی کر دی جائے گی،جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی،پھر تم اس میں اسی طرح رغبت و مقابلہ آرائی کروگے جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔ [ آخر کار ] یہ روش تمھارے لیے تباہ کن ثابت ہوگی جس طرح اس نے انھیں ہلاک کردیا تھا (صحیح بخاری،کتاب الجزیہ والموادعۃ ،باب الجزیہ والموادعۃ مع اہل الذمۃ و الحرب)۔
اس روایت کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں: ’’ یعنی فقر و افلاس کی وجہ سے آدمی فتنہ و آزمایش میں پڑ سکتا ہے،لیکن اس سے بڑھ کر اس کے بارے میں اندیشہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے مال و متاع کی راہیں کھل جائیں اور وہ دولت کی چاہت میں اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے۔ اسے اگر دُ ھن ہو تو صرف اس بات کی کہ کتنی جلد وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹ لے۔وہ حرص کا ایسا بندہ بن کر رہ جائے کہ نہ اسے فقراء و مساکین پر رحم آئے اور نہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں صرف کرسکے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کسی شخص کے پاس دولت جمع ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ دنیا میں اس طرح نہ منہمک ہوجائے کہ نہ اسے خدا یاد آئے اور نہ اسے آخرت کی کوئی فکر دامن گیر ہو‘‘ (کلامِ نبوت، نئی دہلی، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۴۵۵-۴۵۶)۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کا میسر آنا یا کثیر مقدار میں اس کا حصول اسلام میں ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے حصول کے بعد جائز و ناجائز بھول کر زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہوجانا معیوب اور نقصان دہ ہے۔ اس حدیث کے آخری حصہ فتنافسوہا کما تنافسوہا سے اسی نکتہ کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ لفظ’ تنافس ‘ کا ترجمہ بالعموم رغبت و شدید خواہش کیا جاتا ہے۔
اگر اہلِ کتاب کے اطوار و احوال کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی خرابیوں یا برائیوں میں یہ مذموم حرکت بھی شامل تھی،جیسا کہ بعض آیات (المائدۃ۵:۶۲) سے صاف واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ کا اصل میدان یہی تھا۔مال و دولت کی محبت و حرص نہ صرف یہ کہ ان کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی اور اپنے خزانے میں اضافے کی خاطر جائز وناجائز کا لحاظ کیے بغیر مختلف ذر ائع اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑتے تھے اور دوسروں سے بازی مار لے جانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
یہ آیت ایک بندئہ مومن کے اسی وصف ِ خاص کی ترجما ن ہے: وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ (البقرۃ۲:۱۷۷) [اور وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اہلِ قرابت، یتیموں اورغریبوں پر خرچ کرتا ہے] ۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ملتی ہے جس میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اجر کے اعتبار سے وہ صدقہ سب سے بڑا ہے کہ جسے کوئی اس حال میں کسی کو دے کہ وہ صحیح و تندرست ہو اور صدقہ میںدینے والے مال کی حرص میں ڈوبا ہوا ہو اور بخل میں بھی اس بُری طرح مبتلا ہو کہ فقر کے ڈر سے مال نہ خرچ کرتا ہو اور زیادہ مال کا امیدوار یا خواہش مند ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک صحابیؓ کے اس سوال پر کہ اَ یُّ الصَّدَقَۃِ اَعْظمَ اَجْرًا ؟ [کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟] کے جواب میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَنْ تَصَدَّقَ وَاَنْتَ صحیحٌ شَحِیح ،تَخْشٰی الْفَقْرَ وَتَأ مَلُ الْغِنٰی (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب بیان افضل الصدقۃِ صدقۃُ الصحیحِ الشحیحِ) [ تم صدقہ کرو اس حال میںکہ تم صحت مند ہو،(مال کے) حریص ہو،فقر سے خوف کھاتے ہو اور مال داری کے اُمیدوار یا خواہش مند ہو]۔
حقیقت یہ کہ حرص ایسی بُر ی بلا ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتی۔ کچھ مال جمع ہوجانے اور اس کی لذت ملنے پر مزید کی طلب بھڑکتی رہتی ہے،پھر کچھ اور پونجی ہاتھ آگئی تو بھی اسے سکون نہیں ملتا اور نفس کی خواہشات کا تابع ہو کر وہ مزید کی طلب کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و اسباب کی حرص اور انھیں بڑھانے کی شدید خواہش میں گرفتار شخص سوچتا رہتا ہے کہ فلاں کے پاس مال و دولت کا اتنا ڈھیر ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں تو ہم کیوں نہ بھاگ دوڑ کریں؟ جناب حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اسی صورتِ حال کی بہترین ترجمانی کررہا ہے:
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اُونچی مری دیوار بنے
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۱۲۸ۙ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۱۲۹ۚ (الشعراء ۲۶:۱۲۸-۱۲۹) کیا تم لوگ ہر اونچے مقام پر ایک لا حاصل یا بلا ضرورت عمارت [اپنی]نشانی کے طور پر بنا تے ہو اور[اسی طرح بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو گویا تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے]۔
یعنی محض اپنی شان و شوکت کے مظاہرے یا دوسروں کی دیکھا دیکھی اور ان سے مقابلہ آرائی میں بلا ضرورت اونچی اونچی اور مضبوط عمارتیں تعمیر کرتے ہو۔ تمھارے اس طرزِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمھیں موت نہیں آنی ہے اور ہمیشہ ہمیش اِسی دنیا میں رہنا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ تحریر فرماتے ہیں:’’ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اورتعمیرات کرنا شرعاً بُرا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ النَّفَقَۃُ کُلُّہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ اِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَیْرَ فِیْہِ ،یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری و بھلائی نہیں۔ اس معنی کی تصدیق حضرت انسؓ کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے: اَمَا اِنَّ کُلُّ بِنَائٍ وَبَالٌ عَلٰی صَاحِــبِہٖ اِلَّا مَا لَا اِلَّا مَا لَا یَعْنِیْ مَا لَا بُدِّ مِنْہُ (ابو داؤد) ، یعنی ہرتعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے (معارف القرآن، ج۶،ص ۵۳۷-۵۳۸)۔
واقعہ یہ ہے کہ مال و جائیداد کے حریص اور تکاثر کی راہ اختیار کرنے والوں کی پوری عمر ان چیزوں کو بڑھاتے رہنے کی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے ،یہاں تک کہ قبر میں ان کے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں ا سی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک شخص کو اگر ایک وادی بھر سونا ہاتھ آجاتا ہے، تو وہ سونے بھری دوسری وادی کی طلب میں سر گرداں رہتا ہے،پھر تیسری و چوتھی کی فکر اسے دامن گیر ہوجاتی ہے، یعنی وہ مال و دولت کی محبت و لالچ کے اسی ختم نہ ہونے والے چکّر میں پڑ ا رہتا ہے ،یہاں تک زیرخاک ہوکر مٹّی میں مل جاتا ہے۔
اس صورت حال کے پس منظر میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان بڑی معنویت ر کھتا ہے: لَا تَتَّخِذُوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الْدُّنْیَا (جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب لَا تَـتَّخذوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الدُّنْیَا) [زیادہ ] زمین و جائیداد نہ بنا ئو ورنہ دنیا یا دنیا کے مال ومتاع کی لالچ تمھیں اپنے گھیرے میں لے لے گی [جس سے پھر تم نکل نہیں پائو گے] ۔ اس حدیث کی تشریح میں ہے: ’’الضیعۃ سے مراد زمین،صنعت وزراعت اور کاروبار ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنا زیادہ انہماک اور دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ انسان کا مقصدِزندگی رضائے الٰہی کے بجائے یہی چیزیں بن جائیں اور اس کے شب وروز اسی تگ و دو میں صرف ہوں،ورنہ حسبِ ضرورت و کفایت تو زمین، کاروبار اور جائیداد وغیرہ بنانا اور رکھنا سب جائز ہے، ممنوع نہیں۔
اس مقصد سے قرآن کریم میں غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ا نسان کی ذہنی و فکری اصلاح یا ا س کی اندرونی حالت سدھار نے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ قرآن کریم دنیا کے تعلق سے اس پہلو سے انسان کی ذہن سازی کرتا ہے کہ اس عارضی جائے قیام کا مال و متاع فانی ہے، کتنا بھی مال و اسباب جمع ہوجائے وہ کم ہوکے یا ختم ہو کے رہتا ہے۔ یہاں سے رخصتی کے وقت یہ سب چیزیں انسان کا ساتھ چھوڑ دینے والی ہیں، تو پھر ایسی چیزوں سے لو لگانے، دن رات ان کی خاطر دوڑ بھاگ کرنے، مال و دولت کا خزانہ جمع کرنے اور اس میں اضافے کی خاطر ساری توانائیاں صرف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر دُنیوی مال ومتاع کے لیے حرص و ہوس کی عکاسی بڑے مؤثر اسلوب میں کی گئی ہے: وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۶۴ (العنکبوت ۲۹:۶۴)’’یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے، مگر ایک کھیل اوردل کا بہلاوا،اصل زندگی تو دارِ آخرت ہے، کاش لوگ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘۔
ایک دوسری آیت میں دنیا کی زیب و زینت کو مزید واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے:
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل و دل لگی اور ظاہری ٹیپ و ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے،جیسے بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے،پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی،پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے برخلاف آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہےاور اللہ کی مغفرت اور خوش نودی ہے۔[ یہ یقین کر لو] دنیا کی زندگی ایک دھوکا کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں ہے۔(الحدید ۵۷ :۲۰ )
یہ آیت بہت ہی واضح انداز میں انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ دُنیوی زندگی اور اس کا ساز وسامان محض زیب و زینت ہے۔ مال واولاد کی کثرت پر انسان چاہے کتنا مگن ہوجائے ، جس قدر چاہے فخر جتا ئے، اسے بقا وپائے داری نہیں،بس ایک فریب ہے جو کچھ ہی دنوں بعد ہوا ہوجا ئے گا۔
اس آیت کی تشریح میں سیّد قطب شہید رقم طراز ہیں:’’مطلب یہ کہ اس کھیتی کا ایک وقت مقرر ہے جو بہت جلد پورا ہوجاتا ہے،اس کے بعدیہ کھیتی اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ اس متحرک تصویر کے ساتھ جو انسانوں کے روز مرہ مشاہدات سے ماخوذ ہے پوری زندگی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور حیاتِ دنیا کا یہ اختتام کھیتی کے چورا چورا ہونے کے منظر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔رہی آخرت تو اس کی حیثیت اس سے بالکل مختلف ہے اور اس کی حیثیت اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ،اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کے لیے تیاری کی جائے۔ یہ ( آخرت) دنیا کی طرح پلک جھپکتے گزر جانے والی نہیں ہے اور نہ اس کا انجام اس کھیتی کے چورا جیسا ہے جس کی عمر پوری ہوچکی ہو،یہاںتو اعمال کا حساب و کتاب ہونا ہے اور اس پر جزا و سزا ملنی ہے اور آخرت کی دائمی زندگی ہے،اس لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس(دنیا کی) متاع کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا وجود تو بس ایک فریب اور دھوکے سے عبارت ہے، یہ غفلت و خود فراموشی میں مبتلا کرتی ہے جس کا نتیجہ دھوکا اور فریب کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا‘‘ ( سید قطب شہید، ترجمہ: سیدحامدعلی،تفسیر فی ظلال القرآن ،ج ۱۶،ص ۵۵-۵۶)
اسی طرح سورۂ یونس کی آیت۲۴ میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو سر سبز و شاداب اور پیداوار سے بھرے کھیت کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں،اسے محض اپنی محنت یا دوڑ دھوپ کا ثمرہ اور اپنی اہلیت و صلاحیت کی کارستانی سمجھتے ہیں اور منعمِ حقیقی کو بھول جاتے ہیں، اس کا شکر بھی نہیں ادا کرتے:
دنیا کی یہ زندگی،اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے انسان و جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی،پھر عین اس وقت، جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک اس گمان میں تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کوہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (یونس۱۰:۲۴)
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت آسمان اور زمین کے مثل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کریم دنیوی زندگی میں نہ تگ و دو اور جدّ وجہد کا مخالف ہے اور نہ دوسروں سے مقابلہ آرائی کو ناپسند کر تا ہے، بلکہ یہ کتابِ ہدایت مقابلہ کے رخ کو صحیح کرنے اور اسے ایک عظیم مقصد ( حقیقی کامیابی کے حصول ) سے مربوط کر نے کی دعوت دیتی ہے ، جیسا کہ سورۃ الحدید کی آیت۲۱ سے صاف طور پر واوضح ہوتا ہے :سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ ’’اپنے رب سے مغفرت طلبی اور جنت کے حصول کے لیے ایک د وسرے سے آگے بڑھو‘‘،یعنی مغفرت و رضائے الٰہی کی طلب ہی در اصل مومن کے لیے مسابقت کا اصل میدان ہے۔
قرآن کی یہ دعوت دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۱۳۳ ( اٰل عمرٰن ۳: ۳۳ا) ’’ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے آگے بڑھو جس کی وسعت آسمانوں و زمین کی طرح ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔پھر ایک اور مقام پر بہت ہی واضح انداز میں مومنین کو خیر کی طلب میں مسابقت یا آگے بڑھنے کی دعوت دی گئی ہے: وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۰ۭ۬ (البقرۃ۲:۱۴۸)’’ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے۔ وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے، تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو‘‘(نیز دیکھئے: المائدۃ: ۵؍ ۴۸ ؛ المومنون:۲۳؍۶۸)۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ باقی رہنے والا ہے اس سے مراد کسی کارِ خیر یا محتاج بندوں کی ضروریات کی تکمیل میں صرف کیے گئے مال کا اجر و ثواب ہے، جو اللہ کے پاس محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ ہدایت میں اصحاب ِ مال کوبار بار یہ تاکید کی ہے کہ وہ (اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے بعد) کارِخیر میں اپنا مال خرچ کرتے رہیں، اس سے پہلے پہلے کہ ان کی موت کا وقت آجائے اور خاص طور سے سورۃ المنافقون کی آخری آیات بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی ہیں۔ اسی ضمن میں عبد اللہ ابن شِخِّیر سے مروی ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ بھی بر محل معلوم ہوتا ہے :
قَالَ اَتَیْتُ النَبِیَّ وَھُوَ یَقْرَ ئُ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فَقَالَ یَقُوْلُ اِبْنُ آدَمَ مَالِیْ، مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا اِبْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ اِلَّا مَااَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَابْلَیْتَ اَوْ تَصدَّقْتَ فَاَمْضَیْت ( صحیح مسلم، کتاب الزہد،باب الدنیا سجن للمؤمن وجنّـۃ للکافر) حضرت عبد اللہ ابن شخّیر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ تلاوت فرمارہے تھے ، پھر آپؐ نے فرمایا: انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالاں کہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھادیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مال جو مال صدقہ یا کسی کارِ خیر میں خرچ کرے یا کرتا ہے، وہی اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بننے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’تکاثر‘ کی راہ پر چلنے والے مال و دولت کے نہ صرف حریص ہوتے ہیں، بلکہ اسے بڑھانے کی فکر میں دن رات دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس لیے کہ وہ یہ گمان ر کھتے ہیں کہ اس سے مال کم ہوجائے گا۔اس طرح متضاد برائیاں ( حرص و بخل) ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتی ہیں۔
قرآن اس پہلو سے بھی اصحابِ مال کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی کم وبیش جو کچھ مال ملتا ہے وہ اللہ کی نوازش ہوتی ہے۔ سارے خزانوں کا مالک وہی ہے،وہ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا فرماتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۷۳-۷۴؛ العنکبوت ۲۹:۶۲)۔ اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ،تو پھر کسی کے پاس زیادہ مال و دولت دیکھ کر اس سے حسد کے کیا معنی؟ مال و دولت کی ہوس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کسی کے مال ودولت پر لالچ کی نظر ڈالنے کے بجائے جو کچھ ملا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر اداکیا جائے اور قناعت کی راہ اختیار کی جا ئے، بلا شبہہ قناعت خود بہت بڑی دولت ہے۔ مال یا زیادہ مال کی طلب میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ذرائع اختیا ر کیے جا ئیں اور اللہ کا فضل و کرم طلب کر نے کے لیے اس سے خوب دعائیں مانگی جائیں (النساء۴:۳۲)۔
اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ کم یا زیادہ مال نصیب ہونے یا اس سے بالکل محروم رہنے وا لوں ،سب کو مالک الملک آزما تا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ کیا مال نصیب ہونے پر صاحبِ مال منعمِ حقیقی کو یاد کرتا ہے،اس کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمت میں محتاجوں و غریبوں کو شریک کرتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے، اس کی ہدایات سے غافل ہوجاتا ہے ، مال نصیب ہونے کے بعد وہ دوسروں پر ٖفخر جتاتا ہے اور تکبر کا رویہ اپناتا ہے؟ اسی طرح صاحبِ مال کو اس طور بھی آزمایا جاتا ہے کہ اسے جو کچھ مال و اسباب ملا ہوا ہے اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل یا کسی نیک کام میں خرچ کر تا رہتا ہے یا دن رات اسے اور بڑھانے کے چکّر میں پڑا رہتا ہے: یہ آیت اسی حقیقت کی یاددہانی کرارہی ہے:
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۸ۭ (الکہف۱۸: ۷-۸) ہم نے جو کچھ [ساز وسامان] زمین پر ہے اسے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ،آخر کار ان سب کو [ ختم کرکے ایک دن] چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کرکے دنیا کی ان دل فریبیوں میں گم ہوجا تا ہے اور کون ا پنے اصل مقام (بندگی ٔرب) کو یاد رکھ کر صحیح رویہ پر قائم رہتا ہے۔جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۳،ص۱۰-۱۱)۔
دنیا کی چیزوں کی حقیقت سے متعلق قرآن کی اس وضاحت کے علاوہ بعض مقام پر خاص طور سے مال و دولت اور اولاد کی نسبت سے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کی حیثیت محض چند روزہ زیب وزینت کی ہے اور یہ سامانِ آزمایش ہیں، اصل میں نیکیاں ہی باقی رہنے والی اور موجبِ خیر بننے والی ہیں۔ ( الکہف ۱۸: ۴۶ ؛ اٰٰل عمرٰن۳:۱۸۶؛الانعام۶ :۱۶۵)۔
ایک حدیث میں مال و دولت یا دُنیوی اسباب کی نسبت سے ان لوگوں پر نظر ڈالنے کی ہدایت دی گئی ہے جنھیں ا ن سے کم میسر ہے، اور انھیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے جو ان سے زیادہ مال و دولت والے ہیں، تاکہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو حقیر نہ سمجھا جائے یا اس کی ناقدری کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو:
اُنْظُرُوا اِلٰی مَنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْااِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَکُمْ فَھُوَ اَجْدَرُ اَنْ لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃاللہ ِ عَلَیْکُمْ (صحیح مسلم،کتاب الزہد، حدیث:۵۳۷۶)
اس ضمن میں اہم بات یہ کہ اگر کسی سے مذکورہ بالا ہدایت کی خلاف ورزی ہوجائے تو ایک دوسری حدیث میںاس کی تلافی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اوروہ یہ ہے:
قَالَ رَسُوْل اللہ اذ ا نَــظَرَ اَحَدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیہِ مِنَ الْمَالِ والْخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلَ مِنْہُ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب لِینظُرَ الی من ھو اسفلَ منہ ولا ینظرْ الٰی من ھو فوقہٗ ) جب تم سے کوئی مال اور اولاد کے باب میں اپنے سے افضل کسی شخص کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ ان چیزوں کی نسبت سے اپنے سے کم تر پرنظر ڈال لے۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اور ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا اور اس کے مال ومتاع سے متعلق قرآن کے بیان کردہ حقائق ہمیشہ ذہن میں تازہ ر کھے جائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی پر ایمان اور اس میں پیش آنے والے احوال کو ذہن میں تازہ رکھنا ایک جانب نیک اعمال کے لیے زبردست محرک بنتا ہے تو دوسری جانب بُرائیوں ا ور گناہ کی باتوں و کاموں سے باز رکھنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔اللہ کرے ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور روز مرہ زندگی میں ان سے کام لینے کی توفیق نصیب ہو، آمین!
بلاشبہہ اللہ کی تلقین کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،یعنی یہی راہِ حق ہے ،یہی راہِ مستقیم ہے جسے قرآن نے ’ صراطِ مستقیم ‘سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ نکتہ بہت اہم و لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں تین مقام (البقرۃ۲ :۱۲۰، آل عمران۳: ۷۳،الانفال۸:۷۱) پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے یہ ا علان فر مایا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے: قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۰)، ’’اے رسولؐ [صاف صاف ] کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت بس اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘،یعنی سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے، جسے اس نے اپنی کتاب کے ذریعے روشن کر دیا ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہے: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل۱۷ : ۹) ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘‘۔اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ اِسی راہ کو دکھانے میں بسر ہوئی۔ در اصل انسان کے لیے حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ یہی ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ا للہ ربُّ العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کے نام پنے اولین پیغام ہی میں ا س نکتہ کو واضح کردیا تھا اور ان کے توسط سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے باخبر کردیا تھا۔ اس بنیادی پیغام کے پہلے حصہ میں اس حقیقت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا کہ زمین میں اس کی سکونت اور وہاں کے مال و متاع سے انتفاع بس ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہی ہے، یعنی دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے اور یہاں کا ساز و سامان بھی دائمی نہیں ہے ،ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والا ہے، لہٰذا اے انسانو! بہت سنبھل کر زندگی بسر کرنا اور گزر بسر کے لیے جو چیزیں تمھیں عطا کی جائیں ان کا مالک اپنے کو نہ سمجھنا اور نہ انھیں پاکر کسی فریب اور تکبر میں مبتلا ہونا ۔ دنیا کی زندگی اور یہاں کے مال و اسباب، یہ سب عطائے الٰہی ہیں۔ لہٰذا، ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کر تے رہنا اور اسی کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کرنا ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ (البقرۃ ۲: ۳۶ ) اور تم سب کے لیے زمین میں جائے قیام اور ساز وسامان [سے انتفاع ]ایک [محدود]مدت تک کے لیے ہے۔
سورۃ الاعراف کی آیت۲۴ میں بھی یہی پیغام مذکور ہے اور اس کے بعد کی آیت۲۵ میں انسان کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی ہے: قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ ’’اللہ نے فرمایا: اسی زمین میں تم لوگ زندگی بسر کرو گے،اسی میں تمھیں موت آئے گی اور پھر اسی سے تم سب [ زندہ کر کے] نکالے جائو گے‘‘۔ اس آیت کے ذریعے انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے اور اس عارضی و فانی مستقر سے رخصتی کے بعد پھر تمھیں زندہ کرکے زمین سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد کیا واقعات ( تمھیں کہاں جانا ہے، کس کے سامنے حاضر ہونا ہے، حساب و کتاب سے کس طرح گزرنا ہے، اعمال نامہ کیسے حوالہ کیا جائے گاا اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ سننا ہے، پھر ایک نئے مستقر یا ٹھکانے میں رہنا ہے، وہاں کتنے عرصہ رہنا ہے؟) رونما ہوں گے ، ان سے متعلق ساری تفصیلات دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ گویا صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا گیا کہ ارضی دنیا میں جو کچھ مختصر یا طویل زندگی میسر ہوگی، اسے یہیں گزارنی ہے، یہیں موت بھی آنی ہے۔ اسی پر بس نہیں، ایک دن اسے اسی زمین سے نکالا جائے گا،یعنی زندہ کرکے اٹھایا جا ئے گا اور مالک الملک کے حضور پیش کیا جائے گا،لہٰذا اس سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کواچھی طرح تیار کرلو۔ یہاں سے رخصتی کے بعد تم چاہو گے بھی اور رو کر، گڑگڑا کر التجا کرو گے تو بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔
سورۃ البقرہ کی آیت۳۶ میں یہ پیغام دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے اس کے بعد کی آیت میں ایک اور انتہائی اہم پیغام حضرت آدم علیہ السلام کے توسط سے سارے انسانوں کو دیا ہے جسے اولین پیغام کی تکمیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و عارضی زندگی کس طر یقہ سے بسر کرے کہ اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کی زندگی پُرسکون، فرحت بخش اور ہر طرح کے رنج و غم سے پاک بن جائے۔ اس آیت میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ جو کوئی دنیوی زندگی کے شب وروز اللہ ربّ العزت کی ہدایت کے مطابق گزارے گا تو اسے سکون و آرام نصیب ہو گا اور دائمی زندگی میں اسے نہ کوئی غم لاحق ہو گا اور نہ کوئی خوف و خطر دامن گیر ہوگا ، یعنی وہ بامراد ہوگا اور آخرت میں سرخ روئی و کامیابی سے شاد کام ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ (البقرۃ۲:۳۸) پس میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ بھی میری ہدایت کی پیروی کریں گے، انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی رنج۔
یہ امر بدیہی ہے کہ اس پیغام ِ الٰہی ( جسے ہبوط آدم و حوّا علیہما السلام کے وقت،یعنی زمین پر بھیجتے ہوئے نے ان کے گوش گزار کیا گیا تھا) کے مخاطب اولین انسان و اولین پیغمبر حضرت آدمؑ کے توسط سے پوری نسلِ انسانی یا رہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں ۔ بلاشبہ یہ پیغام اپنے مضمون اور مخاطب دونوں لحاظ سے انتہائی اہم اور معنویت سے بھر پور ہے۔ ان دونوں آیات کے پیغام کا ماحصل آسان اسلوب میں یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا ساز وساما ن عارضی و فانی ہے، انسان کا اصل سرمایہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی ہے۔ دوسری آیت اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنی ہدایت کی پیروی کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسی پر اسے فوز وفلاح اور سکون و اطمینان نصیب ہونے کی بشارت دی ہے۔گویا کہ ارضی دنیا میں انھیں بھیجتے ہوئے ان سے دو ٹوک انداز میں یہ خطاب ِ الٰہی ہوا : اے انسان!ربِّ کائنات کی مرضی کے مطابق تمھیں دنیا میں بھیجا جا رہا ہے ،لیکن یہ جان لو اور یقین کرلو کہ تم سب کی کامیابی اس ا وّلین پیغام کو قبول کرنے اور دنیوی زندگی کے ہر معاملہ میں اس پر عمل کرنے میں ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کی ہدایت اس کے بندوں تک کیسے پہنچے گی؟ اسے دوسری آیات میں واضح کردیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں قصۂ حضرت آدم علیہ السلام کے بیان میں انسان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہدایتِ الٰہی اور اس کی تفصیلات ا للہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں، یعنی رسولوں کے ذریعے پہنچے گی،پس جو کوئی تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا اور ہدایاتِ ربّانی کی روشنی میں اپنے حالات سدھارے گا، وہ ابدی زندگی میں سکون و طمانیت سے شاد کام ہوگا ۔ارشادِ ربَّانی ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَاہُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۵ (الاعراف۷:۳۵) اے بنی آدم! یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے (میرے) رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی اور گناہوں سے پرہیز کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو اسے نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی رنج ہی سے دوچار ہو گا ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ قرآن کی مختلف سورتوں میں حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے اور ہر مقام پر کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بنیادی پیغام ان کے توسط سے سارے انسانوں کے گوش گزار کیا گیا ہے، جیساکہ صاحبِ تفہیم القرآن نے سورۃ الاعراف کی آیت۳۵ کی تشریح کرتے ہوئے حاشیہ میں اس قیمتی نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’ بنی نوع انسان کی زندگی کا جب آ غاز ہورہاتھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۵ ،حاشیہ ۲۸ )۔
سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت ۳۸ کی نسبت سے یہ و ضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض مفسرین کی تشریح کے مطابق اللہ کی ہدایت کی پیروی یا اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرنے پر دنیا و آخرت دونوں جہاں میں سکون و اطمینان میسر ہوگا،یعنی اس آیت میں خوف و غم سے نجات کا تعلق دنیوی و اُخروی دونوں زندگی سے ہے (صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام، ریاض، ص۹،حاشیہ ۲ )۔
مفسرِقرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے سورۃ النحل کی آیت۹۷ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۷ [ اہلِ ایمان میں جو کوئی نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،ہم اسے پاکیزہ و خوش گوار زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور عطا کر یں گے ] کی تفسیر میں یہ واضح کیا ہے کہ اس بشارت کا تعلق دنیوی و اخرو ی دونوں زندگی سے ہے اور بیان القرآن کے مؤلف گرامی مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’ مفسر تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس بشارت سے یہ مراد نہیں کہ مومن صالح کو کبھی فقر و فاقہ یا مرض طاری نہ ہوگا، بلکہ مطلب یہ کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسا نور پیدا ہوگا،جس سے وہ ہر حال میں شاکر و صابر اور تسلیم ورضا سے رہے گا اور سکون و جمعیتِ خاطر کی اصل یہی رضا ہے‘‘(تفسیر ماجدی، ج ۲، ص۲۲۹- ۲۳۰،حاشیہ ۱۵۶)
مزید یہ کہ جدید دور کے بعض مفسرین نے اس آیت کے پہلے حصے سے دنیوی زندگی کی خوش گواری ہی مراد لی ہے، اس لیے کہ اس کے آخری حصے میں خاص طور سے اُخروی زندگی سے متعلق خوش خبری سنائی گئی ہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح میں احسن البیان کے مؤلف گرامی تحریر فرماتے ہیں : ’’حیاتِ طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے،اس لیے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے [ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ] میںہے‘‘ ( تفسیر احسن البیان، محولہ بالا ، ص۳۶۳،حاشیہ ۱)۔
اس آیت کے حوالے سے مولانا سید عبد الکبیر عمریؒ نے بجا فرمایا ہے: ’’جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑی ہی پُر سکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات میں بھی انھیں ایک طرح کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘ (نورِ ہدایت، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، عمر آباد،۱۹۱۴ء،ص ۲۷)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اولین پیغام کے دوسرے حصے ( ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں انسان کے لیے فوز وفلاح ہے) کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو متنبہ کردیا ہے جن کی زندگی ہدایتِ الٰہی کے خلاف گزر تی ہے یا گزرے گی کہ انھیں ا خرو ی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا، یعنی ہدایتِ الٰہی کے خلاف زندگی گزارنے والوں کو ان کے بدترین انجام کی خبربھی سنا دی گئی ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۹ (البقرہ ۲: ۳۹) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنم والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
اسی سے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت ۳۶ ملاحظہ ہو: وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۶ ’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان (رسولوں) کے تئیں تکبر و سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے ،وہ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘،یعنی ہد ایتِ الٰہی قبول کر نے اور راہِ راست اختیار کرنے والوں کے برخلاف جو لوگ ہدایتِ الٰہی کا انکار کرنے والے،اس سے منہ موڑنے والے اور راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینے والوں سے مخالفت و عداوت کا معاملہ کرنے والے ہیں ان کا بدترین انجام یہ ہوگا کہ وہ ابدی زندگی میں جہنم کی آگ میں جھلسا ئے جا ئیں گے،اس سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ قرآن میں دو سرے مقام پر شیطان کے پیروکاروں کو صاف طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ابلیس یا شیطان کی پیر و ی میں پوری زندگی گز ار دے گا اور کفروانکار اور سرکشی،یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی و نافرمانی کی راہ پر چلتا رہے گا جہنم کو اس سے بھر دیا جائے گا۔ اللہ ربُّ العزت کا فرمان ہے :
لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۱۸ (الاعراف۷:۱۸) ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تم سب سے[ ان کے سمیت] جہنم کو بھر دوں گا۔
مزید برآں شیطان اور اس کے متبعین کو مخا طب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا:
قَالَ فَالْحَقُّ۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۸۵ (صٓ۳۸: ۸۴-۸۵) اللہ نے فرمایا :حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو ان[میرے بندوں] میں سے تمھاری پیروی کریں گے۔
رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انھیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لیے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ،تاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰)۔
قرآن نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے۔ آیتِ ذیل میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے :
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶:۳) بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔
اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لیے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشر یح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :
اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۵۱ (اٰل عمرٰن۳:۵۱) بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لیا وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کے لیے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس سوال کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں:
وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۱۰۱(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱) اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔
اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انھی لوگوں کے لیے صلاح و فلاح کی بشارت ہے ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)۔
اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لیے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۴۳ (الزخرف ۴۳:۴۳) پس اس چیز [کتاب] کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔
بلاشبہہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے،یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔
اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟،اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے:
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ۲:۳-۵) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں،اورجو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔
تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ تا۵) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:
اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ ۲:۵) ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انھیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انھیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انھیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔
مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں،دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انھیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمتِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے (البقرہ۲ :۱۵۶-۱۵۷)۔ واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عملِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:
يٰٓاَ يَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئنّہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔
رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں ( ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)۔
اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے : حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمھیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ( صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)۔
اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انھیں جنت میں سب سے بڑ ی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفراز کیے جا ئیں گے ۔
اللہ ربُّ العزت نے ایمان و عملِ صالح سے مزین ہوکر رضا ئے الٰہی سے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لیے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ پر نظر ڈالیں جس میں انھیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کیے گئے ہیں ۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انھیں اسی سورہ میں نہ صرف’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس درد ناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کے لیے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۰ۭ (الزمر۳۹:۱۵) کہہ دیجیے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔
مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو ’اصحٰب المیمنۃ‘( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں ’اصحٰب الیمین‘( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین ’اصحٰب المشئمۃ‘ (بدنصیب/ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘( نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار)(الواقعۃ۵۶:۴۱) قرار دیے گئے ہیں ۔ اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے۔
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انھی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا ،اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو اپنے ہی کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:
مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵) جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔
قُلْ يٰٓاَ يُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا ج وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۱۰۸ۭ (یونس ۱۰:۱۰۸) اے رسولؑ! بتا دیجیے اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمھیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔
مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لیے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لیے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى۰ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۷۶(مریم۱۹:۷۶) اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۱۷ (محمد۴۷:۱۷) وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔
اس میں شبہہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انھیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں، اپنے اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں اور ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اوراستقامت کی توفیق کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، تو اللہ رحمٰن و رحیم انھیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے: وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۸۲ ( طٰہ۲۰:۸۲) ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایما ن لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں‘‘۔
ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۱۶ (الحج ۲۲:۱۶) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے‘‘۔ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ (الزمر۳۹:۲۳) ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے‘‘۔ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَ يَہْدِي السَّبِيْلَ۴ (الاحزاب ۳۳:۴) ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے‘‘ ۔ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت کسے عنایت کرتا ہے؟، اسے بھی ربِّ کریم نے اپنی کتاب میں واضح فر ما دیا ہے۔ ارشادِالٰہی ہے:
اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳(الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے منتخب کرلیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے ۔
یہی حقیقت سورۃ الرعد کی آیت۲۷ میں بیان ہوئی ہے: وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۲۷ ، ’’وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے‘‘‘۔
اوپر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے،ہدایت سے نوازتا ہے ،اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ صحیح معنوں میں کون ہدایت یافتہ ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔ واقعہ یہ کہ راہِ ہدایت پر چلتے ہوئے ،اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ خوش گمانی یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی کیفیت میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے،بس اس راہ میں کوشش اور اس میں کامیابی کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۷ ملا حظہ ہو:
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ ۰ۚ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۱۱۷ (الانعام ۶:۱۱۷) بے شک تیرا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔
تقریباً یہی حقیقت چھ دیگر آیات میں بھی واضح کی گئی ہے(النحل:۱۶؍۱۲۵،بنی اسرائیل ۷ا:۸۴،القصص۲۸:۵۶-۸۵، النجم۵۳:۳۰، القلم۶۸:۷)۔
واقعہ یہ کہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)،تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوش نودی کے لیے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے:
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۳۲ۧ (النجم۵۳: ۳۲) پس اپنے آپ کو بہت پاک نہ سمجھو،وہی[اللہ ہی] بہتر جانتا ہے کہ واقعی کون متقی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النساء۴:۴۹) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۰ۭ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۵) تمھارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمھارے دلوں میں ہے۔
اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۱۰ ( العنکبوت۲۹:۱۰) کیا اللہ کو دنیا کے لوگوں کے دلوں کا حال بخوبی معلوم نہیں؟
ان سب کے ساتھ یہ بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ انسانی دلوں کا اُلٹ پھیر ( تصریفِ قلوب) کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کی کیفیت میں جو کچھ تبدیلی ہوتی ہے،اسی کی مشیت سے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصریف اللہ تعالٰی القلوب کیف یشاء)۔
ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ، بہت بڑا متقی سمجھنا چاہیے، بس اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کے لیے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میںیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ راہِ ہدایت طلب کرنا ہو، اسے اختیار کرنا ہو،اس پر مستقل چلتے رہنا ہو، یعنی راہِ ہدایت پر استقامت یا اس کی ترقی کی منازل طے کرنے کا معاملہ ہو ، خطائیں سرزد ہونے پر مغفرت ِ الٰہی کے لیے التجاء کرنی ہو، ان سب نعمتوں کے نصیب ہونے کے لیے رجوع الی اللہ اور ربِّ کریم سے دعا مانگنا نہ صرف مطلوب،بلکہ بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میںاہم بات یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے دعائیں بھی تلقین کی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔سورۃ الفاتحہ، جیساکہ بخوبی معروف ہے، پوری کی پوری دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس میں خا ص دعا اللہ سے ہدایت طلبی (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ہے۔راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرٰن۳:۸) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے ‘‘۔
اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لیے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘ ۔ ان سب کے ساتھ اس دعا کا اہتمام بھی ضروری ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہُ ( ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم ، محولہ بالا ،۲؍ ۳۲۸ ( تفسیر سورۃ البقرۃ،آیت۱۳ ۲) [اے اللہ ہمیں حق کو حق کی حیثیت سے دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما]۔ اس لیےمومن کو ہر حال میں ان دعاؤں کو مستقل مشغلہ یا شیوہ بنا لینا چاہیے ۔ اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو، آمین!
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض وبرکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :
اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں[ دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے: وَ مَا تَوْفِیْقی اِلَّا بِاللہ۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ آمین ثمَّ آمین!
قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی سادہ اور عام فہم لفظوں میں ہرفرد کے لیے بالکل عام ہے۔ وہ سب کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے اور اپنے خالق ومالک کی طرف پلٹ کر آنے کی بار بار دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس کتابِ عظیم کے لیے ’ذکر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشادہے:
ایک جگہ اس کتاب کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے: وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۱ۭ (ص۳۸:۱)۔ ’ذکر ‘و ’ذکریٰ‘ کا مفہوم تقریباً وہی ہے ، جو موعظت یا نصیحت کا ہے۔ اس کے مفہوم میں: ’’نصیحت یا اچھی بات بتانا ، یاد دلانا یا یاد دہانی کراتے رہنا، سب کچھ شامل ہے‘‘۔
بلاشبہہ قرآن کریم سراپا یاد دہانی ہے، ہدایات ربانی کی اور احکام الٰہی کی۔ اس لحاظ سے قرآن کتابِ ذکر بھی ہے:
ان آیات سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی بالکل عام فہم اور دل میں اُتر جانے والی ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس کے مخاطب معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگ ہیں: خواہ وہ مومن ہوں یا غیر مومن ، قرآن کو ماننے والے ہوں یا اس کے منکر ، عوام ہوں یا خواص۔ اس کی نصیحت میں سب کے لیے بھلائی ہے اور اس کی یاد دہانی میں ہر ایک کے لیے خیر کا پہلو ہے۔ اس لیے سب کو اس کی طرف بلایا جا رہا ہے اور ہر ایک سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس سے فیض حاصل کرے۔ اس نعمت کی ناقدری پر بازپُرس بھی ہو گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے سب کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے:
وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۴۴ (الزخرف۴۳:۴۴) اوریہ تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یاد دہانی ہے اور عنقریب تم سب سے پُرسش ہوگی۔
قرآن کریم ایک اور اعتبار سے ’کتابِ ذکر‘ ہے، اگرچہ اس پہلو پر کم توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ اس میں ہر شخص کا ذکر موجود ہے۔ اس میں ہر ایک کے حالات کا بیان ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۱۰ۧ (الانبیاء ۲۱:۱۰) لوگو! ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں تمھارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
اس آیت میں لوگوں کو مخاطب کر کے واضح کیا گیا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے، جس میں ہر شخص اپنا تذکرہ پڑھ سکتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے احوال واوصاف معلوم کر سکتا ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا پتا لگا سکتا ہے۔ اس کے آئینے میں وہ اپنے عمل وکردار کی تصویر کا مشاہدہ کرسکتا ہے کہ عقائد وعبادات سے متعلق وہ قرآنی ہدایات پر کہاں تک دھیان دے رہا ہے؟ وہ جان سکتا ہے کہ اخلاق کے اعتبار سے وہ کس مقام پر ہے؟ اسے وہ قرآن سے دریافت کر سکتا ہے کہ معاملات میں صفائی ودیانت داری کے لحاظ سے وہ کس درجے میں ہے؟ وہ بخوبی پتا لگاسکتا ہے کہ حقوقِ انسانی کی ادایگی میں اس کی کیا تصویر بنتی ہے؟ وہ دیکھ سکتا ہے کہ معاشرے میں اس کا اپنا کیا مقام ہے ، اللہ کے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے؟ یہ سب درجات اور کیفیات وہ اس کتابِ ہدایت کے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔
غرض یہ کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور ایسا صاف وشفاف آئینہ ہے کہ اس میں افراد بھی اپنے خدوخال دیکھ سکتے ہیں اور قومیں بھی اپنی تصویر ملاحظہ کر سکتی ہیں۔ اس لیے کہ قرآن میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ عبادات کی بجا آوری کا صحیح طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں سے تعلق قائم رکھنے کے اصول وضوابط واضح کیے گئے ہیں۔ حُسن اخلاق کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مالی معاملات میں صفائی ودیانت داری کی ہدایات دی گئی ہیں۔ سیاست و حکومت کے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ وناپسندیدہ اعمال کی نشان دہی کی گئی ہے۔ صاحبِ ایمان ، فرماں بردار، صالح ، متقی اور باکردار لوگوں کو ملنے والے اجروثواب اور انعام واکرام کی خوش خبری دی گئی ہے۔ نافرمان، سرکش وبدکردار قوموں کے انجام ِ بد سے خبر دار کیا گیا ہے۔
جب بھی یہ احکامِ الٰہی کسی کے سامنے آئیں گے، تو اسے اپنے بارے میں بڑی آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ مالی معاملات میں اس کا ریکارڈکتنا صاف ہے اور یہ کہ ان میں سے کس کس حکم پر عمل کا حق وہ ادا کر رہا ہے؟
قرآن نے مختلف مقامات پر مومنین اور صادقین یا عاملین بالقرآن کے کردار اور اخلاق کی تصویر کشی کی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ وہ ایمان ویقین پر جمے رہتے ہیں، اللہ کی عبادت میں مخلص وسنجیدہ ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کی پاسبانی اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔
سورۂ فرقان کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے ان محبوب بندوں کے خصائص بیان کیے گئے ہیں:
رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے۔اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلاّ یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو....(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے، تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔(الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۴، ۷۲-۷۴)
جب بھی کوئی شخص ان آیات کو سمجھ کر پڑھے گا تو اسے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان آیات میں کہاں کہاں اس کا ذکر ہے، یعنی ان میں بیان کیے گئے کن کن اوصاف پر وہ پورا اتر رہا ہے اور کن آیات میں اس کا ذکر نہیں ملتا؟ گویا اللہ کے محبوب بندوں کے کن اوصاف سے اس کی ذات عاری ہے؟ قرآن میں اپنا ذکر تلاش کرنا یا اس طرح کا جائزہ لینا ہر شخص کو اپنے بارے میں احتساب کا موقع عنایت کرتا ہے، جو لازمی طور پر اس کے کردار واخلاق کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت ۱۰ کے حوالے سے قرآن کریم کے کتابِ ذکر ہونے کی حیثیت سے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا ہے:
ہمارے اسلاف اپنے اخلاق واوصاف اور اپنے اندرون کو بخوبی جانتے تھے۔ ہر چیز ان کے سامنے روشن وعیاں ہوتی تھی۔ وہ اسی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اسی کتاب میں اپنے چہرے ڈھونڈتے اور اپنے اخلاق واطوار کی سچی اور صحیح تصویر تلاش کرتے تھے اور بہت آسانی سے خود کو پہچان لیتے تھے۔ اگر ذکر ِ خیر ہوتا تو خدا کا شکر ادا کرتے اور کچھ اور ہوتا تو استغفار کرتے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے تھے۔ (سید ابوالحسن علی ندوی، قرآنی افادات [ترتیب :ر۔حقانی ندوی] ، رائے بریلی ، ص ۵۶۲)
مختصر یہ کہ قرآن مجید انسان کو بار بار اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق یاد دلاتا ہے ۔ یہ ایک صاف وشفاف آئینہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے کردار واعمال کی تصویر دیکھ سکتا ہے ۔ یہ کتاب سب کے لیے بالخصوص اس کے پیغام کو قبول کرنے والوں کے لیے موجبِ رحمت ہے ۔ اس کے علم کی اشاعت وجہِ سعادت ہے اور اس کی ہدایات وتعلیمات پر عمل کرنا ذریعۂ نجات وفلاح ہے۔
ان خصوصیات کی وجہ سے قرآن کریم بلاشبہہ اللہ ربّ العزت کی سب سے بڑی نعمت ہے جو رحمتہ للعالمین وختم المرسلین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے انسان کو مرحمت ہوئی۔ اس کی قدردانی کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں اس کو رہنما بنایا جائے، ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی میں در پیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ قرآن کریم سے خود تذکیر حاصل کرنا اور دوسروں کو اس کی نصیحت ، ہدایات وتعلیمات یاد دلانا ہر حال میں نفع بخش ہے، جیسا کہ خود قرآن میں اس کی تاکید ملتی ہے:
وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵ (الذاریات۵۱ :۵۵) اور یاد دہانی کرتے رہو بے شک یاد دہانی کرنا مومنین کو نفع بخشتا ہے ۔
اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو اور ہم سب اس کتابِ عزیز کے سچے عاشق اور مخلص خادم بن جائیں۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس دارِفانی میں انسان کی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن موت سے دوچار ہونا، یعنی اس دنیا سے رخصت ہوناہے ۔ اللہ رب العزت نے اولین انسان حضرت آدمؑ و حضرت حوا ؑ کو زمین پر اتارتے ہی یہ اٹل حقیقت ان کے سامنے واضح کردی تھی اور گویا ان کے واسطے سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے با خبر کر دیا تھا ۔ارشادِ الٰہی ہے :
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ ( البقرۃ۲:۳۶) اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ( یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ہے ایک خاص مدت تک کے لیے۔
صاحبِ معارف القرآن نے اس آیت کی تشریح میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ یعنی آدم و حوّا علیہما السلام کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھیرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے،یعنی زمین پر جاکر دوام نہ ملے گا ، کچھ مدت کے بعد یہ گھر چھوڑنا ہوگا‘‘۔۱
اس مسلّمہ حقیقت پر روزمرہ کی واقعاتی شہادتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے ’ الیقین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ۹۹ۧ (الحجر۱۵:۹۹) ’’اور امر یقینی( یعنی موت ) کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو‘‘۔
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کو روزانہ نیند کی صورت میں موت یاد دلائی جاتی ہے۔ رات میں سونے کو اس پہلو سے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ رب العزت کے حکم سے انسان کے ہوش و حواس،فہم و ادراک عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں اور ظاہری طور پر اس پر موت طاری کردی جاتی ہے ۔ غالباً اسی وجہ سے بعض علما نے نیند کے لیے ’ وفاتِ صغریٰ‘ اور موت کے لیے ’ وفاتِ کبریٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اس باب میں سب سے اہم رہنمائی قرآن کریم سے ملتی ہے جس میں نیند اور موت کے تعلق کو اور روز انہ موت کی یادہانی کو اس طور پر بیان کیا گیا ہے :
اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا۰ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۴۲(الزمر۳۹: ۴۲) اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں، تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہو تا ہے ا ن کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت ِ مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیےجو غور کرتے ہیں۔
صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کے قیمتی نکات کی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت او رزیست کس طرح اس کےدستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح کو لازماً زندہ ہی اٹھے گا۔کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا ہوتا ہے یاموت کا۔ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں،گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کے اندر کوئی اندرونی خرابی یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کرسکتی ہے جو اس کے لیے پیامِ موت ثابت ہو۔ ( تفہیم القرآن،ج۴، ص۳۷۵ )
مزید برآں مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی جو مختصر تشریح فرمائی ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے:
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جان داروں کی اَرواح ہر حال، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیرِتصرف ہیں۔وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرفِ خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جان دار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے،پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے، اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ بالکل قبض ہوجائے گی،پھر واپس نہ ملے گی۔ (معارف القرآن،ج ۷،ص۵۶۲)
حقیقت یہ کہ موت کسی کی بھی ہو وہ باعث عبرت و سبق آموز ہوتی ہے ۔ اسے یاد کرکے سب سے پہلا سبق جو ملتا ہے اور سب سے پہلی یاد دہانی جو ہوتی ہے وہ یہ ہے :
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
یہ آیات ملاحظہ ہو ں ۔ ارشاد ِالٰہی ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳ :۱۸۵) ہرشخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یقین [کرلو کہ] تم سب یومِ قیامت پورا پورا اجر پائو گے، پس جوشخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ در اصل کامیاب ہوا ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۳۵ (الانبیاء ۲۱:۳۵) ہر شخص کو موت سے دوچار ہونا ہے اور ہم تم کو برے و اچھے حالات سے آزماتے ہیں،آخر کار ہمارے ہی پاس تم سب کو لوٹ کر آنا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۵۷ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۵۸ۤۖ (العنکبوت ۲۹:۵۷-۵۸) ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارت میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔کیا ہی عمدہ اجر ہے [نیک] عمل کرنے والوں کے لیے ۔
اسی ضمن میں یہ آیت بھی پیشِ نظر رہے:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۸ۧ (الجمعۃ۶۲:۸) ان سے کہہ دو! جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمھارے پاس آکر رہے گی،پھر تم اس (اللہ) کی طرف پلٹائے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر سب کچھ جاننے والا ہے، پس وہ تمھیں بتائے گا [اس چیز کے بارے میں] جو کچھ [دنیا میں] کرتے رہے ہو۔
یہ اور اس نوع کی دوسری آیات ( بالخصوص آخری پارہ کی سورتوں میں مذکور آیات) پر غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کو بار بار صرف موت نہیں یاد دلائی گئی ہے، بلکہ یہ نکات بھی ذہن نشیں کرائے گئے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ ہر لمحہ امتحان سے گزر رہا ہے، اسے ہرحال میں موت سے دوچار ہونا ہے، اور پھر اسے دوبارہ زندہ کر کے اللہ رب العزت کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور اسی کے مطابق اس کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ پہلی صورت میں اسے سکون و آرام بھرا گھر( جنت) نصیب ہوگا اور دوسری صورت میں اس کا ٹھکانا ( جہنّم) نہایت تکلیف دہ اور بُرا ہوگا۔ اسی ضمن میں یہ ذکر بھی اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مضامین کے اعتبار سے قرآن کے اساسی علوم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ایک کو ’علم تذکیر بالموت و ما بعد الموت‘ کے نام سے موسوم کیاہے ۔ شاہ ولی اللہ کی یہ وضاحت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد در اصل یہی علومِ پنجگانہ ہے۔ اب یہ واعظین و مذکّرین کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی تفصیلات کو محفوظ رکھیں اور متعلقہ احادیث و آثار کے حوالے سے ان سے لوگوں کے لیے استفادہ کو آسان بنائیں۔۲
موت ا ور متعلقہ امور کے بارے میں وارد قرآ نی آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مو ت اور بعد کے احوال ( اللہ رب العزت کے سامنے حاضر ی ،حساب و کتاب سے گزرنا اور عقیدہ واعمال کے مطابق جزا یا سزا کے قانونِ الٰہی کا جاری ہونا) کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ یقینی طور پر پیش آنے والے ان واقعات کو یاد کر تے ہوئے لوگوں کے قلوب خشیت و انابت الی اللہ کی کیفیت سے معمور ہوجائیں، انھیں اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوجائے، وہ اللہ ربّ العزّت کی عبادت ا و ر نیک اعمال میں اپنے کو سرگرم رکھیں ، گناہوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم رک جائیں اور وہ نیکیوں کی طرف تیز قدم بڑھانے والے بن جا ئیں ، یعنی خوش گوار، پُر سکون اور نعمتوں سے معمور مستقر و مسکن کی طلب میں وہ سرگرداں رہیں ۔
یہاں اس جانب توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موت اور بعد کے مراحل کو بار بار (اور بعض مقامات پر نہایت تفصیل سے) ذکر کرکے قرآن در اصل انسانوں کے ذہن میں یہ قیمتی نکتہ ( جس کی طرف عام طور پر انسان کا ذہن بہت کم جاتا ہے ) نقش کرنا چاہتا ہے کہ ’ موت ‘ زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے یعنی جسے فنا نہیں ہے ۔ ممتاز اسلامی مفکر و نامور شاعر علامہ اقبال (جن کی شاعری میں جا بجا قرآنی افکار و تعلیمات کی ترجمانی ملتی ہے) کے اس شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی نہایت موثر انداز میں ملتی ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوام زندگی
موت کی یاد کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محض یاد کرنے کی نہیں،بلکہ کثرت سے یاد کرنے کی ہدایت دی ہے اور اسے دنیا کی لذّات کو ختم کرنے والی، یعنی ان کے غلط اثرات سے انسان کو محفوظ رکھنے والی شے سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ نبویؐ ہے:
اَکْثِرُوْا ذِکْرَھَا ذِمِ اللذَّاتِ یَعْنِی الْمَوْتِ ۳ لذتوں کو ختم کرنے والی، یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔
بلا شبہہ ہر انسان کو موت کا اتنا ہی یقین ہے، جتنا اپنی زندگی کا یقین ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض مرتبہ( بلکہ اکثر وبیش تر) حرص و ہوس، نفسانی خواہشات، دنیا کی رنگ رلیوں، معاشی و سیاسی زندگی کی مصروفیات میں رہتے ہوئے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے یا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور وہ ذکر الٰہی، عبادتِ الٰہی اور دوسرے نیک اعمال سے بے پروا ، یعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہوجاتا ہے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جیسے اسے موت آنی ہی نہیں ہے۔
اس صورتِ حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشادِ گرامی ( موت کو کثرت سے یاد کرو) کس قدر معنویت و افادیت سے بھر پور ہے۔ اسی ضمن میں اس حدیث کا نقل کرنا بہت برمحل معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک انصار ی صحابی حاضرِ خدمت ہوئے اور سلام کرنے کے بعد انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَفْضَلُ قَالَ اَحْسَنُہُمْ خُلُقاً ،قَالَ اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَکْیَسُ قَالَ اکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْراً وَ اَحَسنُہُمْ لِمَا بَعْدَہٗ اِسْتِعْدَادًا ،اُولٰئِکَ الْاَکْیَاسُ ۴ مومنین میں کون افضل ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ جو اخلاق میں سے سب سے اچھا ہے۔ پھر انھوں نے معلوم کیا کہ اہلِ ایمان میں سب سے عقل مند کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرنے والا ہو۔ یہی لوگ دراصل عقل مند ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے مشہوربزرگ و صوفی حاتم اصمّ بلخی ؒ (م: ۲۳۷ھ؍ ۸۵۱ء) کے بقول موت واعظ ہونے کے لیے کافی ہے۔۵ بلا شبہہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا اور یاد دلانا ایک نہایت مجرّب و نفع بخش نسخہ ہے ۔موت کی یاد میں اس لحاظ سے بھی انسان کے لیے بڑی قیمتی و کارگر نصیحت ہے کہ یہ اس کے اندرون میں اپنے حالات کو سدھارنے کی فکر پیدا کرتی ہے اور آخرت میں نفع دینے والے اعمال کی انجام دہی، یعنی شب و روز گزارتے ہوئے نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے پر ابھارتی ہے ۔
کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَـارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّہَا تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّـرُ الآخِرَۃَ ۹ میں نے تمھیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا،پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہاہے۔اس موقعے پر خاص طور آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ ، اَنْتُمْ سَلَفَنَا وَنَحْنُ بِالْاثَرِ ۱۰ اے اہلِ قبور آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ [ ہم سے ]پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں ۔
مزید یہ کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعائیں بھی سکھاتے تھے۔ ان میں یہ دُعا بہت معروف ہے:
اَلسَّلَامُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّـا اِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ ، نَسْئَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ۱۱ اے مومنوں و مسلمانوں کی بستی والو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنی اور تم سب کی عافیت طلب کرتے ہیں۔
سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے ، قبر ستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصودہوتی ہے۔
حقیقت یہ کہ قبرستان میں حاضری ، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے ۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعثِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ا نسان اپنی اِس منزل کی جانب رواں دواں ہے یہاں تک کہ وہ ایک روز اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ارشادِ الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْہِ۶ۚ (الانشقاق ۸۴:۶) اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے( ایک مقررہ وقت پر) ملنے والاہے۔
آخرت کے سفر میں اس پہلی منزل ( قبر) کی اہمیت اُس حدیث سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضرت عثمانؓ کو قبر کے پاس کھڑے ہوکر زار و قطار روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرے پر اس قدر نہیں روتے جس قدر کی قبر کی زیارت پر۔ انھوں نے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ :
اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ فَاِنْ نَجَا مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَیْسَرُ مِنْہُ وَ اِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَشَدُّ مِنْہُ ۱۲قبر آخرت کے منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے [ کامیابی کے ساتھ] نجات پا گیا تو بعد کی منازل طے کرنا اس کے لیے نہایت آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد [ کے مراحل میں]جو کچھ ہے وہ اس سے بہت سخت ہے۔
اُس حدیث سے مرحلۂ قبر کی عبرتیں و نصیحتیں مزید واضح ہو تی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر یہ آواز نہ دیتی ہو: اَنَا بَیْتُ الْغُرْبَۃِ ۔اَنَـا بَیْتُ الْوَحْدَۃِ ،اَنَـا بَیْتُ التُّرَابِ ،اَنَا بَیْتُ الدُّوْدِ ۱۳ میں اجنبیت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹّی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑے کا گھر ہوں۔
حضرت عبد اللہ ابن عبیدؓ کے بیان کے مطابق جب میت کے ساتھ آنے والے واپس چلے جا تے ہیں تو سب سے پہلے قبر ان سے مخاطب ہو کر پوچھتی ہے:’’ اے ابن آدم! کیا تو نے میرے حالات نہ سنے تھے؟ کیا تو میری تنگی، بدبو،ہول ناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تو نے کیا تیاری کی؟۱۴
ان روایات کے پس منظر میں اُس حدیث کی اہمیت و معنویت مزید بڑھ جا تی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ قبرستان میں کھڑے ہوکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھائیو! اس( قبر) کی تیاری کرو ‘‘۔ ۱۵
اس گھر کی تیاری سے مقصود اس کی پختہ تعمیر اورتزئین نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی تعمیر و اصلاح یا اعمالِ صالحہ سے اس کی آراستگی ہے جو اس گھر میں سکونت کو آرام د ہ و خوش گوار بنائے گی۔ یہ نکتہ اس حدیث کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قبر میں داخل ہونے والا ایمان و عمل صالح سے مزین ہے تو اس کے لیے قبر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ بہترین آرام گاہ بن جاتی ہے۔۱۶
اس میں شبہہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت اور قبروں کی زیارت اسی پہلی منزل کے لیے تیاری کی یاد دلاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی موت یاد آتی ہے،بلکہ موت کے بعد نصیب ہونے والے مسکن (قبر) کا منظر بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور یہ احساس قوی ہو جا تا ہے کہ چاہے انسان کتنے عالی شان مکان یا کوٹھی،بنگلہ یا محل کا مکین ہو،آخر کار اسے اسی ٹوٹے پھوٹے، تاریک، کیڑے مکوڑوں والے مٹی کے گھر میں رہنا ہے۔ایک دو سال نہیں ،بلکہ برسہا برس، جب تک قیامت نہ برپا ہوجائے جس کے وقت ِمقررہ کا علم صرف عالم الغیب و الشہادۃ کو ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں افسوس صد افسوس کہ اس عبرت و نصیحت کے مقام( قبرستان) میں بھی بہت سے لوگ گپ شپ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور سیاست و حکومت کے مسائل پر اظہار ِ خیال میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کاش! قبرستان میں ہوتے ہوئے ہم ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت میں غرق ہوجائیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب پورے آداب و احترام،حضورِ قلب، انتہائی سنجید گی اور رضاے الٰہی کی طلب کے ساتھ اس مقام پر جایا جائے یا قبروں پر حاضری دی جائے اور اس موقعے کی مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حقیقت یہ کہ ان مقامات پر اگر کوئی سچی طلب اور سنجیدگی کے ساتھ حاضری دے تو اسے غفلت سے بیداری نصیب ہوگی اور اس پر خشیتِ الٰہی و رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ قبروں کی زیارت سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ، آخرت کی تیاری کی فکر بڑھ جاتی ہے، اور اکتسابِ خیر کی طلب پیدا ہوتی ہے۔
lیکہ و تنہا سفر:واقعہ یہ کہ اس منظر کو یاد کرنے میں بھی بڑی عبرت ہے کہ دنیا میں انسان کے آل واولاد اور مال و اسباب ہوتے ہیں،مکانات ، کھیت و باغات ہوتے ہیں اور اصحابِ ثروت کے یہاں تجوریاں یا بنک لاکر سیم و زر اور زیورات سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن اس عارضی مستقر سے رخصت ہوتے ہوئے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر یکا و تنہا راہیِ ملکِ عدم ہوتا ہے ، قبر میں خالی ہاتھ پہنچتا ہے اور اللہ رب العزت کے حضور یکّا و تنہا حاضر ہوگا ۔ قرآن نے اس حقیقت سے بھی صاف طور پر انسان کو باخبر کردیا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًا۹۵ (مریم۱۹: ۹۵) اور سب کے سب روزِ قیامت یکّا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ( الانعام۶: ۹۴) لو! اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( اکیلا) پیدا کیا تھا۔
گھر سے قبر ستان تک کے سفر میں کون سی چیزیں میّت کے ساتھ جائیں گی، اور کون واپس آجائیں گی، اور کون اس کے ساتھ قبر میں باقی رہ جائیں گی؟ اس کی بہترین منظر کشی ایک مختصر، لیکن نہایت سبق آموز حدیث میں ملتی ہے ۔اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقَی مَعَہُ وَاحِدٌ یَتْبَعُہُ أَھْلُہُ وَمَا لُہُ وَعَمَلُہُ فَیَرْجِعُ أَھْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ ۱۷تین چیزیں میّت کے پیچھے جاتی ہیں، اس کے گھروالے،اس کا مال [ملکیت کی چیزیں؍ نوکر چاکر، اور اس کا عمل۔ پس دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک [اس کے ساتھ ] باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اور اس کے مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔
حضرت عطاء ابن یسارؒ سے روایت ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا عمل اسے حرکت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں۔ میت پوچھتی ہے کہ میرے اہل و عیال کہاں ہیں؟ اور میری نعمتیں کہاں ہیں؟ عمل جواب دیتا ہے کہ یہ سب تیرے پیچھے رہ گئے اور میرے سوا اور تیری قبر میں کوئی نہ آیا۔۱۸
l اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس:بلا شبہہ قبر کی یا بعد کی منازل میں متوفی کے لیے آ خرت میں نفع دینے والے محض اس کے نیک اعمال ، حسنات یا نیکیوںکے خزانے ہو ں گے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں الباقیات الصالحات کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اہلِ ایمان کو انھی باقیاتِ صالحات، یعنی باقی ر ہ کر اُخروی زندگی میں کام آنے والی نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے، اسے بڑھانے اور اس راہ میں اللہ کی عطا کردہ جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (البقرۃ۲: ۲۵،۸۲،۲۷۷؛ النساء۴: ۱۲۴، الانعام۶:۱۶۰، ھود۱۱:۱۱۴، طٰہٰ۲۰: ۷۵، النمل۲۷: ۸۹، القصص۲۸:۷۴، البیّنۃ ۹۸:۷)
قرآن کریم میں انسان کو موت کی یاد دہانی کے ساتھ اس کے بعد قبر میں جانے اور ایک مقررہ مدت کے بعد اس سے اٹھائے جانے کو بھی یاد دلایا گیا ہے(الحج۲۲:۷، یٰس۳۶:۵۱، الانفطار۸۲:۴،العادیات۱۰۰:۹، التکاثر۱۰۲:۲)، تاکہ وہ مزید عبرت و نصیحت حاصل کرے، اپنے احوال کو درست کرلے اور نیکیاں کمانے میں مسابقت کرے ۔ ان آیات میں سے ایک نہایت سبق آموز اور انسان کو غفلت سے بیدار کرنے والی آیت سورۃ الانفطار کی آیت۴-۵ہے:
وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ۴ۙ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۵ۭ اور یاد کرو اس وقت کو]جب قبریں کھول دی جائیں گی، [ اور]ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد ، دوبارہ زندہ کیے جانے کا تصور ،اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لیے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لیے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں ،گناہوں اور بد دیانتی،بد عنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے ۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انھیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ بات بخوبی معروف ہے کہ فرض عبادات میں نماز سب سے اہم و افضل ہے۔ پورے اصول وآداب اور وقت کی پابندی کے ساتھ روزانہ پانچ بار اس کی بجا آوری ایک امرِ مشکل ہے،لیکن یہ عمل ان لوگوں کے لیے ذرا بھی مشکل و گراں نہیں جو موت کے بعد دوبار زندہ کیے جانے اور اللہ رب العزت کے حضور حاضری میں یقین رکھتے ہیں، جیسا کہ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۴۶ ( البقرہ ۲:۴۵-۴۶)صبر اور نماز سے مدد لو،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے،لیکن ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ [ایک نہ ایک دن] اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں۔
اسی طرح ناپ تول میں کمی یا لین دین میں بددیانتی کرنے والوں کو اس قبیح عمل یا گناہ کے کام کے بڑ ے تباہ کن انجام سے متنبہ کرتے ہوئے انھیں اس طور پر خبر دار کیا گیا ہے:
اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۶ۭ (المطفّفین۸۳:۴-۶) کیا انھیں یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے دن (یعنی یوم ِقیامت) انھیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب لوگ رب العالمین کے رُوبرو دست بستہ کھڑے ہوں گے۔
یعنی اگر ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انھیں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے عمل کا حساب دینا ہے تو وہ بد دیانتی اور گناہ کے دوسرے کاموں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کو غلط کاموں پر ابھارتی ہیں جو انجام کے اعتبار سے اس کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ یومِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف ر کھتے ہیں وہ ان خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے،بلکہ ان کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کے کامو ں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت اس آیت سے سامنے آتی ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۴۱ (النازعات ۷۹:۴۰-۴۱ ) اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تو بلاشبہہ جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔
در اصل قرآن و سنت کی نظر میں مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں موت،قبر ،قیامت ، حضورِرب حاضری اور حساب و کتاب کا تصور تازہ رکھے اور بازپُرس کے احساس سے دل کو معمور رکھے ، تاکہ اس کے اثر سے فرائض و حقوق کو ادا کرتا رہے، نیکیاں کماتا رہے اورگناہوں سے بچتا رہے۔ مزید یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا طلب گار اور اس کے بے پایاں رحم و کرم کا امید وار رہے اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دے۔یہ آیات اہلِ ایمان کو یہی پیغام دے رہی ہیں:
اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۹۸ (المائدہ ۵:۹۸) جان لو کہ بے شک اللہ عذاب دینے میں بڑا سخت ہے اور بے شک ا للہ بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم فرما نے والا ہے۔
نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۴۹ۙ وَاَنَّ عَذَابِيْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِيْمُ۵۰ (الحجر۱۵: ۴۹-۵۰) (اے نبیؐ ) میرے بندوں کو خبر دار کر دیجیے کہ میں بے شک بہت معاف کرنے والا ہوں اور یہ ( بھی بتا دیجیے) کہ میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔
مزید یہ کہ قرآن نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی حمد و تسبیح اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور خوف و رجا کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں (السجدۃ۳۲:۱۶)۔ حقیقت یہ کہ مومن کی زندگی اِن دونوں کیفیات ( خوف و رجا) کے درمیان گزرتی ہے ۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہوئے شب وروز بسر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ربّ کریم کے یہاں سے بلاوا آجاتا ہے اور وہ اس عارضی مستقر سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی دنیوی زندگی میں موت،قیامت و آخرت کو یاد کرکے اللہ رب العزت کا خوف دل و دماغ میں سما لے گا تو نامعلوم کتنے خوف سے نجات پائے گا اور ابدی زندگی میں اسے ایسی اطمینان بھری کیفیت نصیب ہوگی کہ جس میں نہ غم ہوگا،نہ رنج ، نہ کوئی تشویش ہوگی،نہ گھبراہٹ کا گزر ہوگا۔ متعدد آیات میںیہ خوش خبری ایمان و عملِ صالح سے مزین زندگی گزارنے والوں کو سنائی گئی ہے۔(البقرہ ۲: ۳۸،۶۲، ۲۶۲،۲۷۴، المائدہ۵:۶۹،الانعام۶:۴۸، الاعراف ۷: ۴۹، الاحقاف ۴۶ :۱۳)
واقعہ یہ کہ اس عارضی زندگی میں اگر کوئی موت کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے اوپر طاری کرلے اور صراط مستقیم اختیار کرکے دائمی زندگی میں ہر طرح کے خوف و غم سے نجات پاجائے تو یہ گھاٹے کا نہیں، بلکہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو بھلا کر تکذیب وانکار اوراللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی پامالی کی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں،آخر کا ر اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے اور عذابِ جہنم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ یہ اعتراف کریں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی،ورنہ انھیں آج یہ برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حقیقت یہ کہ یہ بے وقت کا اعتراف اور پچھلی زندگی کی غفلتوں کی یادیں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ آیتِ کریمہ آخرت کی مناظر کشی کرتے ہوئے اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
فِيْ جَنّٰتٍ۰ۣۭۛ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۴۰ۙ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۴۱ۙ مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۴۷ۭ ( المدّثّر ۷۴:۴۰-۴۷) جو جنت میں ہوں گے وہ مجرموں سے پوچھیں گے،تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق بات کے خلاف باتیں بنانے والوں کے خلاف ہم بھی باتیں بنانے لگے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے،یہاں تک کہ یقینی چیز(موت) ہمارے پاس آدھمکی ۔
مختصر یہ کہ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو یاد کرنے میں ہم سب کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں موت اور اس کے بعد کے مراحل کو باربار یاددلانا محض براے یاد دہانی نہیں، بلکہ براے عبرت ہے۔ متعلقہ آیات و ا حاد یث کے مطابق ان سے عبرت پذیری ہمارے لیے انتہائی نفع بخش ہے، لہٰذا اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ان سب سے مقصود موت وحیات کے خالق و مالک کی یاد کی طرف متوجہ کرنا،اس کے حقوق یاد دلانااور اپنی اصلاح کی فکر کرنا ،اس لیے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب،کس مقام پر اور کس طریقے سے اس کی زندگی کا سلسلہ تمام ہوجائے ، اور روزِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے لیے تیاری نہ ہونے کی صورت میں کفِ افسوس ملنا پڑے یا وقت موعود کو مؤخر کرنے کی تمنا کرنی پڑے، جب کہ قرآن کا صاف اعلان ہے کہ انسان کی یہ تمنا پوری ہونے والی نہیں۔(الاعراف۷: ۵۳؛ المومنون ۲۳:۹۹-۱۰۰،۱۰۷-۱۰۸،المنافقون ۶۳:۱۰۔۱۱)
در اصل انسان کو موت اور بعد کے احوال کی یاد دلا کر یہ سبق دینا ہے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلے اور اپنی اصلاح کر لے کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر وہ نصیحت پکڑے گا اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہے گا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے:
يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى۲۳ۭ (الفجر ۸۹:۲۳ ) اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔
حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے ( الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت) ۔۱۹ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ،انھیں دل ودماغ میں نقش کرنے اوران کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی۔
حواشی و مراجع
برصغیر پاک و ہند میں مسلم عہد ِ حکومت (جسے عام طور پر عہد ِ وسطیٰ کے ہندستان (Medieval India ) کے نام سے جانا جاتا ہے) مذہبی و ثقافتی اور سماجی و سیاسی مختلف حیثیتوں سے کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی تاریخ میں بڑی دل چسپی پائی جاتی ہے۔ ایک جانب اس زمانے کے اندازِ سیاست، نظمِ حکومت ، مذہبی و تمدنی اور سماجی و معاشی حالات کو جاننے اور سمجھنے کی سنجیدہ و علمی کوششیں کی جاتی ہیں، تو دوسری جانب ایک طبقے کی مسلسل منصوبہ بند مہم یہ ہے کہ اس عہد کی تاریخ کو مسخ کرکے اس کی ایسی گھنائونی تصویر پیش کی جائے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ مسلم حکمرانوں سےبے زاری پیدا ہو بلکہ موجودہ دور میں ان کے ہم سخنوں کے خلاف جذبات بھی برانگیختہ ہوں۔ اس صورتِ حال میں اس بات کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے کہ ہند میں مسلم عہدِحکومت کی تاریخ کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے ،اور اس زمانے کے سیاسی و اقعات، انتظامی اقدامات اور سما جی و معاشی کوائف کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے، تاکہ صحیح صورتِ حال سامنے آئے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوششیں ناکام ہوجائیں۔
ہند کے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ ساتویں صدی عیسوی کے آخرسے شروع ہوا۔ مغربی ساحل پر تھانہ اور بھروچ کے علاقے میں مسلمانوں کی اوّلین مہم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت سے منسوب کی جاتی ہے۔۱ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں میں مسلم (عرب) تاجروں کی آمد آٹھویں صدی عیسوی سے شروع ہوئی، جو اس علاقے میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بنی۔ بعدمیں یہاں مسلم معاشرت کے قیام اور مختلف مقامات پر ان کے مذہبی و ثقافتی مراکز کے وجود میں آنے سے اسلام کی اشاعت کی راہیں مزید ہموار ہوئیں۔۲ ہندستان میں مسلمانوں کی اوّلین حکومت ۷۱۲ء میں نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم [۶۹۵ء-۷۱۵ء] کی قیادت میں سندھ میں قائم ہوئی، اور اس سرزمین میں اسلام کی اشاعت اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا۔
اگرچہ محمد بن قاسم کو پورے دو سال بھی سندھ میں حکومت کرنے کا موقع نہ مل سکا، اور ان کے جانشینوں کے عہد میں عربوں کی حکومت یہاں کچھ ہی علاقوں (منصورہ و ملتان) تک محدود ہوکر رہ گئی، لیکن ان کی حکومت کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح ۹۸۵ء تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ قرامطہ فرقے کے لوگ اس پر قابض ہوگئے۔۳ یہاں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ میں عربوں کی یہ حکومت ہندستان میں اسلام کی اشاعت اور اسلامی ثقافت کے فروغ کے اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس سے ہندستان کے دوسرے حصوں میں مسلم فتوحات کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔ اسی لیے سندھ کی فتح ’باب الاسلام فی الہند‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔
مزید یہ کہ سندھ میں محمد بن قاسم کی حکومت اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ یہاں پہلی بار ہندستان میں مسلمانوں کو حکمران کی حیثیت سے ہندوئوں سے تعلقات و معاملات قائم کرنے اور ان کے ساتھ اپنے طرزِعمل کے مظاہرے کا موقع ملا، اور ان سب سے اہم یہ کہ سندھ کے فاتح و اوّلین حکمران محمد بن قاسم نے اپنی حکومت کے تحت ہندوئوں کی جو قانونی حیثیت (ذمّی) متعین کی اور ان کے تئیں جو روادارانہ رویہ اختیار کیا، وہ اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق تھا، اور وہی بعد کے دور میں شمالی ہندستان میں ترک سلاطین و مغل بادشاہوں کے لیے نظیر بن گیا۔
تاریخی واقعات اسی حقیقت کے شاہد ہیں کہ پورے مسلم عہد ِ حکومت میں یہاں عام طور پر غیرمسلموں کے ساتھ مسلم حکمرانوں کا برتائو، رواداری و انصاف پر مبنی رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ مطالعہ بڑی اہمیت و معنویت رکھتا ہے کہ سندھ میں حکومت کے دوران محمد بن قاسم نے ہندوئوں کے ساتھ کیسا طرزِعمل اختیار کیا ؟اور ان کے ساتھ سلوک و برتائو کا کیا معیار قائم کیا؟
سندھ میں محمد بن قاسم کی حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے یہ بنیادی سوال زیربحث آیا کہ: ’’ہندوئوں کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ ان کے ساتھ ذمّی کا برتائو کیا جائے یا غیرمسلموں کے کسی اور طبقہ (حربی و امانی وغیرہ) کی حیثیت سے ان کے ساتھ سلوک کیا جائے؟‘‘
تاریخ سندھ کے معروف ماخذ چچ نامہ۴ کے بیان کے مطابق محمد بن قاسم نے سندھ کے مختلف علاقوں کے ان مفتوحین (جن میں برہمن اور بدھ دونوں شامل تھے) کو قانونی طور پر ذمّی کی حیثیت سے تسلیم کیا اور ان پر جزیہ عائد کیا ، جنھوں نے اپنے قدیم مذہب پر قائم رہتے ہوئے مسلم حکومت کے زیرنگیں رہنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس حیثیت سے انھیں مذہبی آزادی ملی اور قدیم مندروں کی مرمت و آبادکاری کی اجازت بھی مرحمت ہوئی۔(علی بن حامد الکوفی، چچ نامہ ، ص۲۰۸، ۲۰۹ ، ۲۱۰، ۲۱۲)
ان ذمّیوں پر تین شرح (مال دار کے لیے ۴۸ درہم، متوسط کے لیے ۲۴ درہم اور ان سے کم آمدنی والوں کے لیے ۱۲ درہم) کے مطابق سالانہ جزیہ عائد کیا گیا۔ اس سے متعلق فاتح سندھ نے باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا اور سندھ کے ہندوئوں (ذمّیوں) کو واضح طور پر یہ یقین دہانی کرائی کہ: ’’انھیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ان کے مال و اسباب سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا‘‘۔(چچ نامہ، ص ۲۰۹)
اگرچہ تاریخی مآخذ میں صراحت نہیں ملتی، لیکن قرینِ قیاس یہی ہے کہ فاتح سندھ نے والیِ عراق سے استفسار کے بعد ہی سندھ کے ہندوئوں کی شرعی حیثیت متعین کی ہوگی۔ بعض جدید مؤرخین نے (بغیر کسی حوالے کے) پوری قطعیت کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے کہ: محمد بن قاسم نے عراق کے گورنر اور علما سے صلاح و مشورے کے بعد ہی سندھ کے غیرمسلمین کے بارے میں اپنا مذکورہ بالا موقف اختیار کیا۔۵
یہاں پر یہ واضح رہے کہ فتح سندھ کی مہم کے دوران اور قیامِ حکومت کے بعد بھی محمد بن قاسم کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اہم اُمور میں فیصلہ لینے سے قبل کوفہ کے اُموی گورنر حجاج بن یوسف [۶۶۱ء-۷۱۶ء]سے مشورہ کرتے تھے اور بعض اوقات ان میں شرعی نقطۂ نظر سے حل طلب مسائل بھی شامل ہوتے تھے۔ اس بات کے واضح شواہد ملتے ہیں کہ گورنر عراق مقامی علما سے مشورے کے بعد ہی اپنی راے سے محمد بن قاسم کو مطلع کرتے تھے، اور اہم بات یہ کہ بعض معاملات میں گورنر نے محمد بن قاسم کو جواب بھیجنے سے قبل خلیفہ کی راے بھی معلوم کی۔۶
رہا یہ سوال کہ: ’’سندھ کے ہندوئوں کو کس بنیاد پر ذمّی کی حیثیت دی گئی، جب کہ وہ ’اہلِ کتاب‘ میں سے نہیں تھے؟‘‘ چچ نامہ اور دوسرے مآخذ کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ’شبہ اہلِ کتاب‘ کے زمرے میں شامل کر کے ذمّیوں کے حقوق دیے گئے(البلاذری، ص۶۱۷؛ چچ نامہ، ص۲۱۴)۔متعدد جدید مؤرخین نے بھی اسی خیال کی تائید کی ہے۔۷ یہاں پر یہ وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں شمالی ہند میں ترکوں کی حکومت (یا دہلی سلطنت) کے قیام کے بعد ہندوئوں کی اس حیثیت کو نہ صرف سلاطین نے سرکاری طور پر تسلیم کیا، بلکہ اسی کے مطابق ان کے ساتھ عملی رویہ اختیار کیا اور بعد میں مغل دورِحکومت میں بھی ان کے ساتھ یہی طرزِعمل جاری رہا۔ مزیدبرآں اس عہد کے تاریخی مآخذ اور فقہی لٹریچر میں ہندوئوں کے لیے ’ذمّی‘ کی اصطلاح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔۸
یہاں یہ ذکر بھی برمحل معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِ مغلیہ کے آخری دور کے مشہور عالم اور نقشبندی صوفی مرزا مظہر جانجاناں (۱۶۹۸ء-۱۷۸۱ء) تو ہندوئوں کو واضح طور پر ’اہلِ کتاب‘ میں شمار کرتے تھے۔۹ مولانا ابوالکلام آزاد [م: ۲۲فروی ۱۹۵۸ء]کی راے یہ تھی کہ اگر مجوسی و صابی ٔ ’شبہ اہلِ کتاب‘ میں شمار کیے جاسکتے ہیں تو ہندو بدرجہ اولیٰ غیرمسلموں کے اس طبقے میں شامل کیے جانے کے مستحق ہیں۔۱۰
چچ نامہ اور دوسرے مآخذ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں کے انتظامی معاملات پر توجہ دی اور اُموی خلافت کی ہدایات کے مطابق وہ یہاں کا نظم و نسق چلاتے رہے۔ حکمراں (گورنر) کی حیثیت سے انھوں نے عوام کے ساتھ اچھے برتائو اور انصاف پسندی کا جو مظاہرہ کیا اور غیرمسلموں کے تئیں جو فراخ دلانہ سلوک روا رکھا، وہ تاریخی حقائق کا حصہ ہے۔
یہ عظیم فاتح بذاتِ خود شریف الطبع ، نیک طینت، نرم خو و انصاف پسند تھا۔ والیِ عراق، حجاج بن یوسف (جو ان کے چچا و خسر بھی تھے) بھی انھیں عوام سے اچھے تعلقات و حُسنِ معاملات کی تلقین برابر کرتے رہے۔ سندھ کی فتح کے دوران حجاج بن یوسف (جنھیں عام طور پر ایک جابر و ظالم حاکم کہا جاتا ہے) نے مختلف مواقع پر محمد بن قاسم کو تحریری ہدایات بھیجی تھیں۔ ان کی اوّلین تحریری ہدایت کے ایک حصے کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
جب علاقے پر حکومت چلانا یقینی ہوجائے اور قلعے مضبوط ہوجائیں تو جو کچھ بچے اس کو رعایا کی بہبودی میں خرچ کرنے میں دریغ نہ کرو۔ تاجروں اور کاشت کاروں کے لیے ہرقسم کی رعایت روا رکھو، اس لیے کہ ان کی خوش حالی سے ملک آسودہ و خوش حال رہتا ہے۔ جو کوئی تم سے اقطاع (زمین کے عطیے) کا طلب گار ہو، اسے نااُمید نہ کرو۔ رعایا کو امان دے کر ان کے دلوں کو مضبوط کرو۔(چچ نامہ، ص ۱۱۶، اور ص ۱۲۷-۱۲۸)
اسی طرح ایک دوسرے موقعے پر والیِ عراق نے انھیں یہ تلقین کی:
اپنا ایک عام دستور یہ بنا لو کہ رعایا کے ساتھ نہایت لطف و کرم سے پیش آئو، تاکہ دشمن بھی اطاعت پر آمادہ ہوجائیں، رعایا کو ہروقت تسلی دیتے رہو۔(سیّد ابوظفر ندوی، تاریخ سندھ، ص ۹۶)
حقیقت یہ ہے کہ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے محمد بن قاسم نے عوام کی بھلائی و خبرگیری میں دل چسپی اور غیرمسلموں کے ساتھ اپنے روادارانہ و منصفانہ برتائو سے یہ ثابت کردکھایا کہ اہلِ اسلام جنگ کے بعد مفتوحوں و محکوموں کے ساتھ امن و آشتی کا معاملہ زیادہ پسند کرتے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
سندھ کے مفتوحین میں جن لوگوں نے مسلم حکومت کی تابع داری اور جزیہ کی ادایگی قبول کی، انھیں محمد بن قاسم نے مذہبی آزادی عطا کی اور یہ اجازت دی کہ وہ اپنے مذہبی رسوم و روایات بلاخوف و خطر بجا لائیں۔ برہمن آباد کے زیراقتدار آنے کے بعد محمد بن قاسم نے وہاں کے غیرمسلموں کے لیے جو مشہور اعلامیہ جاری کیا تھا، اس میں یہ صاف صاف ذکر تھا کہ: جو لوگ مسلم حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اپنے مذہب پر باقی رہنا پسند کریں گے، ان پر جزیہ عائد کیا جائے گا اور انھیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل ہوگی۔ اس سلسلے میں ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے گی۔۱۱
اس مسئلے پر اس سے زیادہ وضاحت برہمن آباد کے مشہور قدیم مندر کے پجاریوں کی محمدبن قاسم کی خدمت میں پیش کردہ عرض داشت اور اس کے جواب میں ملتی ہے۔ اس قصبے پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد وہاں کے عام لوگ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ انھوں نے مندر آنا جانا بند کر دیا۔ اس کی وجہ سے مندر کے پجاری اور دیگر خدام پریشانی میں مبتلا ہوئے، اس لیے کہ ان کا سارا گزر بسر مندر کے نذرانے و بھینٹ پر تھا۔ آخرکار انھوں نے محمد بن قاسم (جن کی رحم دلی و انسانی ہمدردی اس وقت تک معروف ہوچکی تھی) کے سامنے عرض داشت پیش کی، جس میں اپنی پریشانی کا ذکر کرکے یہ درخواست کی کہ: ’’اس مندر کی آبادکاری کے لیے ضروری قدم اُٹھایا جائے اور لوگوں کا خوف اور پریشانی دُور کی جائے، تاکہ ان کی آمدنی بحال ہوجائے‘‘۔ محمد بن قاسم نے اس عرض داشت کی اطلاع حجاج کو بھیج کر ان کی راے معلوم کی۔ گورنر نے اس کا جو جواب دیا وہ مسلم حکومت کے تحت غیرمسلموں کے جانی و مالی تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کے مسئلے پر بہت ہی شافی و وافی ہے۔اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
تمھارا خط ملا اور حالات سے آگاہی ہوئی۔ اگر برہمن آباد کے مُکھیا [سردار] یا سربرآوردہ لوگ اپنا مندر آباد کرنا چاہتے ہیں تو اب، جب کہ انھوں نے ہماری اطاعت قبول کرلی ہے اور دارالخلافہ کو مال (جزیہ وغیرہ) ادا کرنے کا ذمہ لے لیا ہے تو اس محصول کے علاوہ ان پر ہمارا کوئی اور حق نہیں۔ جب وہ ذمّی ہوگئے تو ان کے جان و مال پر کسی طرح کی دست اندازی صحیح نہیں ہے۔ ان کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے معبود کی عبادت کریں۔ کسی کو بھی اپنے مذہب کی پیروی سے روکا نہ جائے تاکہ وہ اپنے گھر میں جس طرح چاہیں زندگی بسر کریں۔(چچ نامہ، ص ۲۱۳، سیّد ابوظفر ندوی، ص ۹۳)
اس جواب کی وصولی کے بعد محمد بن قاسم نے شہر کے معززین و پجاریوں کو اس کے مندرجات سے آگاہ کیا اور ان کے سامنے یہ اعلان کیا کہ:
ہرشخص بلاخوف و خطر مندر میں آجاسکتا ہے اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرسکتا ہے۔ اس باب میں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔(چچ نامہ، ص ۲۱۳-۲۱۴)
دل چسپ بات یہ کہ اس موقعے پر محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے شہریوں کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہ قدیم رسم کے مطابق برہمن پجاریوں کو نذرو نیاز دینا جاری رکھیں اور بالخصوص برہمن فقرا پر خوب داد و دہش کریں۔ مزید برآں انھوں نے یہ ہدایت بھی جاری کی کہ مال گزاری میں سے تین فی صد برہمن پجاریوں کے لیے علیحدہ رکھے جائیں، تاکہ بوقت ِ ضرورت ان پر خرچ کیا جاسکے۔(چچ نامہ، ص ۲۱۴)
پہلی نصیحت کا تعلق بظاہر ہندو عوام سے معلوم ہوتا ہے، دوسری کے مخاطب غالباً اہلِ حکومت تھے، لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ برہمن پجاریوں کے لیے محصولِ اراضی کا تین فی صد مختص کرنا قدیم دستور تھا یا محمد بن قاسم نے یہ قانون وضع کیا۔ بصورتِ دیگر ممکن ہے یہ خصوصی رعایت کسی مصلحت کی بناپر رہی ہو، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے یہ بات محلِ نظرمعلوم ہوتی ہے۔
محمد بن قاسم کی حکومت کے تحت سندھ میں ہندوئوں کو اپنے مندروں میں نہ صرف پوجاپاٹ کی آزادی تھی، بلکہ انھیں اپنی قدیم عبادت گاہوں کی مرمت و تجدید کاری کی اجازت بھی حاصل تھی۔ یہ بات برہمن آباد کے پجاریوں کی عرض داشت کے جواب سے واضح ہوتی ہے۔ دوسرے محمد بن قاسم نے اس موقعے پر یہ صراحت کی کہ ان کے مندروں کی وہی حیثیت ہے جو عراق و شام میں یہود کے کنیسوں، نصاریٰ کے گرجوں اور مجوسیوں کے آتش کدوں کی ہے۔ (البلاذری ، ص ۶۱۷، چچ نامہ، ص ۲۱۴)
یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اُموی و عباسی دورِ خلافت میں ’اہلِ کتاب‘ (یہود و نصاریٰ) اور ’شبہ اہلِ کتاب‘ (مجوسیوں) کی قدیم عبادت گاہوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا تھا، بلکہ ان کے متعلقین کو اپنی عبادت گاہوں کے نظم و نسق اور بوقت ِ ضرورت ان کی مرمت کی آزادی بھی عطا کی گئی تھی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سندھ میں عربوں کی حکومت کے تحت یہ مذہبی آزادی نہ صرف برہمنوں یا ہندو مذہب کے ماننے والوں کو حاصل تھی، بلکہ پیروانِ بدھ مت بھی اس سے مستفیض ہوئے تھے۔
محمد بن قاسم نے سندھ کے غیرمسلموں (ذمّیوں) کو مذہبی آزادی دینے کے ساتھ انھیں سماجی تحفظ فراہم کیا اور ان کے سماجی و معاشرتی حقوق کی پوری پوری رعایت کی۔ انھیں اس بات کی اجازت حاصل تھی کہ وہ اپنی سماجی مصروفیات و تقریبات کو انجام دیتے رہیں اور حسب ِ دستور سابق اپنے مخصوص تہوار مناتے رہیں۔ برہمن آباد کے شہریوں کے سامنے انھوں نے کھلے عام یہ اعلان کیا کہ انھیں اپنی رسوم و روایات کو بجا لانے اور تہواروں کا اہتمام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے (واعیا و مراسم خود را بشرائط آباء و اجداد قیام نمایند)۔(چچ نامہ، ص ۲۱۴)
مزید برآں ارضِ سندھ کے لوگوں میں جو پہلے سے اہلِ مناصب و اصحابِ حیثیت تھے، ان کے عہدہ و منصب کو فاتحِ سندھ نے بحال رکھا اور ان کے ساتھ معاملات میں ان کی سماجی حیثیت کی رعایت کی۔ اسی طرح جو لوگ یہاں کی قدیم رسم و رواج کے مطابق مخصوص لباس، زیور یا سواری استعمال کرتے تھے، انھیں اس کی اجازت باقی رہی۔(چچ نامہ، ص ۲۰۹-۲۱۰، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، ص ۱۴)۔پھر یہ کہ ان میں جو مقامی رئیس یا مُکھیا کی حیثیت رکھتے تھے، انھیں ’رانا‘ کا خطاب عطا کیا گیا۔(چچ نامہ، ص ۲۱۴)
محمد بن قاسم کی حکومت کے تحت سندھ کے ہندوئوں کو جو سماجی مراعات حاصل ہوئیں اور عزت و آرام کے ساتھ انھیں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا، اس کا اندازہ خود ان کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ جب جزیہ و خراج کی ادایگی کی شرط پر حکومت کی جانب سے مہیا کردہ مذہبی، سماجی و معاشی آسانیاں وہاں کے اہم و بااثر لوگوں کے سامنے آئیں۔ انھوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ان کی سماجی حیثیت بحال کی گئی اور سابق حکمران خاندان کے افراد بالخصوص باصلاحیت و تجربہ کار لوگوں کو حکومت کے کاموں سے منسلک کیا گیا۔ انھیں عہدہ و خطاب سے نوازا گیا تو وہ دیہات میں جاجا کر لوگوں کے سامنے مسلم حکومت کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے اور حکومت کی تابع داری پر لوگوں کو آمادہ کرتے رہے۔ ان کے بیانات کا ایک حصہ یہاں قابلِ ذکر ہے:
اے لوگو، تمھیں معلوم ہے کہ راجا داہر مقتول ہوگئے اوریہاں کافروں کی حالت ابتر ہوگئی۔ سندھ کے مختلف حصوں میں اہلِ عرب کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ اس سلطنت کے تحت شہرو قریات میں بڑے چھوٹے یکساں ہوگئے ہیں۔ ہمارے معاملات اب (مسلم) حکمران سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ اگر سلطان کا فرمان نہ ہو تو ہمیں نہ مال ملے اور نہ معاش حاصل ہو۔ ہم پر یہ اہلِ حکومت کا فضل و کرم ہے کہ ہم اچھے عہدوں اور عزت کے مقام پر ہیں۔ نہ تو ہم اپنے وطن سے نکالے گئے اور نہ مال و اسباب سے محروم کیے گئے۔ ہماری جایداد و عیال ہر طرح یہاں محفوظ ہے۔(چچ نامہ، ص۲۱۰-۲۱۱، سیّد ابوظفر ندوی،ص ۹۲)
تاریخی مآخذ میں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ عام لوگوں کے سامنے مذکورہ بیانات کا یہ اثر ہوا کہ دیہی علاقوں سے لوگ کثیر تعداد میں محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی حکومت کے تئیں اطاعت کا اظہار کیا اور اس کے محاصل (خراج وغیرہ) کے بارے میں براہِ راست ان سے استفسار کیا (پس جملہ روساے شہر حاضر آمدند و مال بخود قبول کردند و از محمد بن قاسم مبلغ خراج خود را استخبار کردند)۔(چچ نامہ، ص ۲۱۱، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن ، ص ۱۵)
اس کے علاوہ محمد بن قاسم نے شہر اور گائوں کے تمام لوگوں کو اطمینان دلایا کہ وہ بلاخوف و خطر اپنی اپنی مصروفیات جاری رکھیں، ہر طرح خوشی و اطمینان سے رہیں۔ ان کے حقوق پر کسی کو دست درازی کا حق حاصل نہ ہوگا۔(چچ نامہ، ص ۲۱۲)
اسلامی قانون کی رُو سے مسلم حکومت کے تحت جن غیرمسلموں کو ذمّی کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے، ان کی جان کے تحفظ کے ساتھ ان کے اموال و اسباب کی حفاظت کی ضمانت بھی حکومت لیتی ہے۔ اسلام میں ان کی جان کی طرح ان کے مال و اسباب کو بھی اس قدر محترم سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت کسی کے لیے یہ بھی روا نہیں رکھتی کہ وہ ان کی چیزوں کو تباہ و برباد کرے جن کا قانونی طور پر ذمّی کے لیے مسلم شہرو ں میں لانا یا رکھنا جائز نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے تادیب یا سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔۱۲
اسی کے مطابق محمد بن قاسم نے دیبل، نیروں، برہمن آباد ، ارور اور دوسرے شہروں میں اپنا نظم و نسق قائم کرتے ہوئے مفتوحین کو یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت لیتی ہے اور وہ کسی کو یہ اجازت نہ دے گی کہ وہ ان کی جایداد و املاک کو نقصان پہنچائے۔ اپنے مشہور ’برہمن آباد اعلامیہ‘ (Declaration) میں انھوں نے یہ صاف طور پر واضح کیا کہ:
مفتوحین میں سے جن لوگوں کو ذمّی کا مقام مل گیا ہے ان کے اموال و اسباب ان کی تحویل میں باقی رہیں گے اور ان کی کسی چیز میں کوئی تصرف نہ کیا جائے۔(چچ نامہ، ص ۲۰۹)
مزید برآں محمد بن قاسم کے استفسار پر مفتوحین کی حیثیت واضح کرتے ہوئے حجاج بن یوسف نے صاف لفظوں میں یہ تحریر کیا کہ: ’’جب وہ ذمّی ہوگئے تو ان کے جان و مال میں تصرف کا ہمیں کوئی اختیار حاصل نہیں بلکہ انھیں جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا ہم پر فرض ہوگیا‘‘ (چوں ذمی شدند در خون و مال ایشاں دست تصرف ما مطلق نباشد)۔(چچ نامہ، ص ۲۱۳،سیّد ابوظفر ندوی، ص ۹۳)
اس سے اہم یہ کہ محمد بن قاسم نے صرف برہمن آباد کے علاقے میں ۱۰ ہزار ایسے تاجروں، دست کاروں اور کاشت کاروں کو مالی امداد فراہم کی، جنھیں اس علاقے میں جنگ کے دوران مالی نقصان اُٹھانا پڑا تھا(چچ نامہ، ص ۲۰۹، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن ، ص ۱۴)۔ اس سے بڑھ کر معاشی تحفظ کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے!
محمد بن قاسم کی حکومت کے تحت سندھ کے ہندوئوں کو نہ صرف معروف ذرائع معاش (تجارت، زراعت و دست کاری) اختیار کرنے کی مکمل آزادی تھی بلکہ حکمران کی جانب سے انھیں یہ ترغیب بھی دی گئی کہ وہ بلاخوف و خطر اپنی معاشی سرگرمیاں جاری رکھیں اور مسلمانوں سے اقتصادی معاملات قائم کرنے میں بھی وہ کوئی خطرہ محسوس نہ کریں بلکہ مطمئن رہیں اور اپنی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہیں (وبا مسلماناں خرید و فروخت کنند و ایمن باشند و در صلاح خود کوشند)۔ (چچ نامہ، ص ۲۱۴)
ذمّیوں کے لیے معاشی سرگرمیوں کی آزادی اور ان کے مالی حقوق کے تحفظ کی یہی یقین دہانی، گورنر عراق کے اس خط میں بھی ملتی ہے، جسے قصبہ منھل کے محمد بن قاسم کے زیرنگیں آنے کے بعد ان کو لکھا تھا۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
جو لوگ اطاعت قبول کرلیں انھیں امان دو، ان پر حکومت کے محصول مقرر کرو، اہلِ حرفت و تجارت پر زیادہ بار نہ ڈالو۔ جو لوگ کاشت کاری اور پیداوار بڑھانے میں محنت سے کام لیتے ہیں، ان سے خاص طور سے نرمی و فراخ دلی کا مظاہرہ کرو اور انھیں مالی مدد بھی بہم پہنچائو۔ جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوجائیں، ان سے عشر (زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ) وصول کرو اور جو اپنے مذہب پر قائم رہیں ان کی صنعت و زراعت پر مقامی دستور کے مطابق محصول عائد کرو۔(چچ نامہ، ص ۲۱۹، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن ، ص ۱۸)
خراج کی ادایگی کی شرط پر غیرمسلموں کی اراضی پران کا قبضہ بحال رکھنا ذمّیوں سے متعلق اسلامی قوانین کا ایک حصہ ہے جس پر محمد بن قاسم کی حکومت کے تحت بھی عمل ہوا(چچ نامہ، ص ۲۰۹، ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۱۹-۲۲۰)۔مزید برآں انھوں نے سندھ کے ہندوئوں میں بااثر و تجربہ کار لوگوں بالخصوص سابق حکومت کے متعلقین کو خراج (مال گزاری) کی تشخیص و تحصیل کی ذمہ داری سپرد کی۔ اس طرح مقامی لوگوں کو ہی ’امین‘ و ’عامل‘ کے منصب پر مامور کیا (پس دہقان و رئیساں را بر تحصیل مال نصب فرمود تا از شہر ور وستا اموال در ضبط آرند۔ ایشاں را قوتی و استنطہارے باشد)۔ (چچ نامہ، ص ۲۰۹- ۲۱۱)
یہاں یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خراج کی تحصیل کے لیے افسروں کو مقرر کرنے کے ساتھ محمد بن قاسم نے انھیں یہ ہدایت بھی جاری کی کہ کسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ محصول نہ عائد کیا جائے، اس کی وصولی میں ان کے ساتھ نرمی و رعایت برتی جائے۔ حکمران اور رعایا کے مابین معاملات سچائی و انصاف کی بنیاد پر قائم کیے جائیں (راستی میان خلق و سلطان نگاہ دارید و بقدر احتمال ہرکس را خراج نہید و باہم دیگر ساختہ باشید و متردد نشوید تادلایت خراب نگردد)۔(چچ نامہ، ص ۲۱۱،۲۱۹، سیّد ابوظفر ندوی، ص ۹۱-۹۲)
محمد بن قاسم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ افسرانِ محاصل کو مذکورہ ہدایات جاری کرنے کے بعد عوام کے مختلف طبقوں کو الگ الگ بلا کر انھیں یہ اطمینان دلایا کہ وہ نئی حکومت سے کوئی اندیشہ نہ کریں۔ محاصلِ واجبہ کے علاوہ ان سے اور کچھ نہ وصول کیا جائے گا۔ بس وہ حکومت کے مقررہ محصول کو ادا کرتے رہیں۔ ان کے ساتھ ہر طرح سے نرمی و رعایت کی جائے گی اور جو کچھ بھی عرض داشت وہ پیش کریں گے اس کی بروقت شنوائی ہوگی۔(چچ نامہ، ص ۲۱۲، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن ، ص ۱۵)
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنی حکومت کے دورانِ مذہبی ، سماجی و معاشی تمام معاملات میں غیرمسلموں کے ساتھ روادارانہ و عادلانہ برتائو کا مظاہرہ کیا اور بلاکسی امتیاز جملہ عوام کے تئیں فراخ دلانہ رویہ اپناتے ہوئے انھیں ہرطرح سے مطمئن اور خوش رکھنے کی کوشش کی۔ سندھ کے ایک معروف علاقے نیروں کی فتح کے دوران حجاج بن یوسف نے مفتوحین (رعایا) کی دل داری و دل جوئی کی ترغیب دیتے ہوئے محمد بن قاسم کو لکھا تھا کہ:
قیامِ سلطنت کے چار اہم ستون ہیں: ۱- مداراۃ (خاطرداری)، مواساۃ (ہمدردی)، مسامحت (رواداری)، مصاہرت (رشتہ داری) ۔ ۲- مال و عطیہ دینا ۳- دشمنوں کی مخالفت میں صحیح راے قائم کرنا ۴- رُعب و شہامت ، قوت و شوکت کا اظہار کرنا۔ (چچ نامہ، ص ۲۱۲، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن ، حوالہ بالا، ص ۶)
اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ محمد بن قاسم نے اپنی سلطنت ان ستونوں پر قائم کی اور اپنے چچا کی اس نصیحت کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ رعایا کے ساتھ لطف و کرم اور ان کی فلاح و بہبود کو دستور بنایا جائے۔ اسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ محمد بن قاسم نے غیرمسلموں کے مختلف طبقات کے لوگوں کو سماجی حقوق عطا کرنے میں رواداری کا مظاہرہ کیا، جن میں برہمن و بدھ، اعلیٰ و ادنیٰ، امیروغریب سبھی شامل تھے۔ لیکن تاریخی مآخذ بالخصوص چچ نامہ میں برہمنوں کے سیاق میں اس کا زیادہ ذکر ملتا ہے جیساکہ اُوپر کے مباحث میں بھی بار بار ان کا حوالہ سامنے آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ برہمن اس وقت کے سندھی معاشرے میں پہلے سے معزز و بااثر لوگ شمار ہوتے تھے اور سیاست و حکمت کے دائرے میں بھی انھی کی بالادستی قائم تھی۔ اس لیے ان کی خصوصی دل جوئی اور مدارات مصلحتاً مطلوب تھی۔
یہاں یہ ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ سندھ کی فتح کے دوران بعض اوقات مفتوحین کے ساتھ محمدبن قاسم کی ضرورت سے زیادہ رواداری کی مثالیں حجاج بن یوسف کے سامنے آئیں تو انھوں نے اس پر انھیں متنبہ کیا اور فہم و فراست اور احتیاط و ہوش مندی سے کام لینے اور دوست دشمن میں تمیز کرنے کی تلقین کی۔(چچ نامہ، ص ۱۵۱-۱۵۲،سیّد ابوظفر ندوی، ص ۸۲-۸۲)
دوسرے مؤرخین کے یہاں برہمنوں کے ساتھ محمد بن قاسم کی حکومت کی مراعات کے زیادہ ذکر کی وجہ ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سابق اہلِ حکومت کی حیثیت سے ان سے فاتح سندھ کا زیادہ واسطہ پڑا اور حکومت کی سطح پر انھی سے معاہدات و معاملات طے ہوئے، اس لیے وہی خاص طور سے مؤرخین کی توجہ کا مرکز بنے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم فاتح کی رواداری و فراخ دلی اور اس کا کریمانہ و منصفانہ رویہ، غیرمسلموں کے دوسرے طبقے کے لوگوں اور عام رعایا کے ساتھ محقق و مسلّم ہے جس کا متعدد بار حوالہ اُوپر بھی دیا گیا۔اس کا مزید ثبوت مقامی لوگوں کی کثیر تعداد کے محمد بن قاسم کے تئیں حُسنِ اعتقاد، اظہارِ محبت و حمایت اور اطاعت و تابع داری سے ملتا ہے۔ اس بات کی توثیق اُس شدید رنج و غم سے بھی ہوتی ہے، جسے سندھ کی غیرمسلم رعایا نے اپنے محبوب حکمران محمد بن قاسم کی سندھ سے دمشق واپسی کے وقت ظاہر کیا تھا۔۱۳
مزید برآں مؤرخین اس کی بھی شہادت دیتے ہیں کہ گورنر عراق نے سندھ میں محمد بن قاسم کی حکومت کے دوران اپنے متعدد خطوط میں نظم و نسق کے باب میں ان کی بہترین کارکردگی کو سراہا اور بالخصوص ان کی رعیت نوازی اور عوام کے ساتھ ملاطفت و رواداری کی خوب تعریف کی ہے۔ مثال کے طور پر برہمن آباد اور لوہانہ میں ان کے حُسنِ انتظام کی تفصیلات ملنے پر وہ انھیں لکھتے ہیں:
آنچہ در سپہداری و رعیت نوازی و تربیت احوال رعایا و ترتیب امور کوشی ، محمدت وافر باشد۔ (چچ نامہ، ص ۲۱۶)[تم نے فوجی انتظام، رعایا نوازی، ان کے حالات کی درستی اور انتظامی اُمور کی بہتری کے لیے جو اَن تھک کوشش کی ہے، وہ کافی قابلِ تعریف ہے۔]
قدیم و جدید مسلم مؤرخین میں محمد بن قاسم کے اوصافِ حمیدہ بالخصوص رعیت نوازی، رواداری، انصاف پسندی اور عوام کی بھلائی میں غیرمعمولی دل چسپی کو نمایاں کرنے والوں کی کمی نہیں۔ یہاں بعض غیرمسلم مؤرخین کے تاثرات نقل کرنا زیادہ مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے۔ History of Jahangir(تاریخِ جہانگیر)کے مصنف ڈاکٹر بینی پرشاد اسی کتاب میں ایک جگہ محمدبن قاسم کی حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہندستان میں کسی حکومت کے مقبول ہونے کے لیے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ اس کے باشندوں کو مذہبی فرائض انجام دینے اور عبادت کرنے میں آزادی ہو۔ ہندستان کے مسلم حملہ آوروں نے مذہبی رواداری کی اہمیت کو بہت جلد محسوس کرلیا تھا اور اپنی حکمت عملی اسی کے مطابق بنائی۔ آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنی حکومت کا جو نظم و نسق قائم کیا، وہ اعتدال اور رواداری کی روشن مثال ہے۔۱۴
آخر میں اس جانب بھی اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُوپر کے مباحث میں سندھ کے غیرمسلموں کے ساتھ محمد بن قاسم کے روادارانہ برتائو سے متعلق جو کچھ پیش کیا گیاہے، وہ زیادہ تر ذمّی کی حیثیت سے ان کے حقوق کی وضاحت پر مبنی تھا۔ اس کی وجہ اس اٹل حقیقت کی روشنی میں سمجھی جاسکتی ہے کہ ذمّیوں سے تعلقات کے بارے میں اسلام کی جو تعلیمات اور ان سے برتائو و معاملات سے متعلق جو قوانین ملتے ہیں، وہ مسلم حکومت کے تحت غیرمسلموں کے ساتھ رواداری، فراخ دلانہ سلوک و منصفانہ برتائو اور ان کی فلاح و بہبود کی بہترین ضمانت پیش کرتے ہیں۔
اسلام کے ان اصول و ضوابط پر عمل کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ غیرمسلموں کے جان و مال کے تحفظ کا اہتمام ، ان کے سماجی و معاشی حقوق کا احترام، بلاکسی امتیاز عوام کے ساتھ اچھا سلوک ، رعایا کے ساتھ اچھا برتائو اور محکوموں کی بھلائی اور اصلاحِ احوال میں دل چسپی۔۱۵ مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت درست نشان دہی فرمائی ہے کہ اگر شریعت کی روشنی میں اہلِ ذمّہ کے حقوق و نفاذِ جزیہ کی غرض و غایت غیرمسلموں کے سامنے اچھی طرح واضح کر دی جائے، تو ان کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوجائے گی کہ ’ذمی‘ بنانے کا مطلب ان کی تذلیل و تحقیر نہیں بلکہ ’’یہ وہ بہتر سے بہتر سلوک ہے جو دنیا میں کوئی حاکم قوم محکوموں کے ساتھ کرسکتی ہے‘‘ ۔ ۱۶
۱- تفصیل ملاحظہ ہو: قاضی اطہر مبارک پوری ، خلافت ِ راشدہ اور ہندستان، ندوۃ المصنّفین، دہلی ۱۹۷۲ء، ص ۵۲، ۹۸-۱۰۱
۲- سیّد سلیمان ندوی، عرب و ہند کے تعلقات، مطبع معارف، اعظم گڑھ، ۱۹۷۹ء، (باب دوم، تجارتی تعلقات)، ص ۴۴-۹۶۔ ڈاکٹر تاراچند: Influence of Islam on Indian Culture ، الٰہ آباد، ۱۹۷۶ء، ص ۲۵-۲۹
۳- تفصیلات کے لیے دیکھیں: سیّدابوظفر ندوی، تاریخ سندھ، اعظم گڑھ، ۱۹۷۰ء
۴- یہ کتاب اصلاً عربی میں منہاج المسالک کے نام سے مرتب کی گئی تھی، جو اس وقت دستیاب نہیں ہے۔ اسے محمد علی بن حامد بن ابوبکر کوفی نے سندھ کے آزاد حکمران ناصرالدین قباچہ [م: ۱۲۲۸ء]کے عہد میں ۱۲۱۶ء میں فارسی میں منتقل کیا۔ اب یہ ترجمہ ہی اہلِ علم و مؤرخین میں متداول ہے۔ اس پر مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مقدمہ مصحح و مرتب چچ نامہ، عمر بن محمد داؤد پوتہ، محولہ بالا، نیز دیکھیے: ڈاکٹر این اے بلوچ: Great Books of Islamic Civilization، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء، ص۱۱۱-۱۱۲)
۵- عبدالحفیظ صدیقی، برصغیر پاک و ہند میں اسلامی نظام عدل گستری، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۶۹ء، ص ۷۱
۶- احمد بن یحییٰ البلاذری، فتوح البلدان، بیروت، ۱۹۵۷ء، ص ۶۱۳- ۶۱۴؛ چچ نامہ، ص ۲۱۳- ۲۱۴، ۲۱۸
۷- سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، ہندستان کے سلاطین ، علما اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، اعظم گڑھ، ۱۹۷۰ء، ص ۴۹؛ خلیق احمد نظامی، سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، ص۶۷، عبدالحفیظ صدیقی، محولہ بالا، ص ۷۱۔
۸- فخر مدبر، آداب الحرب والشجاعۃ ،ص ۴۰۳؛ ضیاء الدین برنی ، تاریخ فیروز شاہی، ص ۸۷، ۱۴۱، ۲۹۰، ۲۹۱، ۵۷۳، ۵۷۵؛ شمس سراج عفیف، تاریخ فیروز شاہی، ص۱۸۰، ۳۶۶، ۳۸۲، ۳۸۴؛ فتوحاتِ فیروز شاہی ، ص، ۹، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۰؛سیرتِ فیروز شاہی، ص ۱۲۸
۹- کلماتِ طیبات (مشتمل بر مکتوبات غوث الثقلین)، مرزا مظہر جانِ جاناں، قاضی ثناء اللہ پانی پتی و شاہ ولی اللہ دہلوی) مطبع مطلع العلوم، مرادآباد، ۱۸۹۱ء، ص ۲۷-۲۸۔ راقم کا مقالہ: ’ہندوئوں کے ساتھ سلطان فیروز شاہ تغلق کا برتائو‘، تحقیقاتِ اسلامی ، علی گڑھ،۱۲/۳، جولائی-ستمبر ۱۹۹۳ء، ص ۳۵- ۷۲
۱۰- ابوالکلام آزاد، جامع الشواہد فی دخول غیرالمسلم فی المساجد، ۱۹۶۱ء ، ص ۸۱-۸۴
۱۱- چچ نامہ، ص ۲۰۹؛ سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن: ہندستان کے عہدماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، اعظم گڑھ، ۱۹۷۵ء، ص ۱۴
۱۲- ظفرالاسلام اصلاحی: اسلامی قوانین کی ترویج و تنفیذ، عہد فیروز شاہی کے ہندستان میں ، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۱۹۹۸ء، ص ۷۱-۸۸
۱۳- البلاذری، محولہ بالا، ص ۴۴۰، تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، ص۲۱-۲۲، سیّد ابوظفر ندوی، ص ۱۲۳
۱۴- ڈاکٹر بینی پرشاد: History of Jahangir ، الٰہ آباد، ۱۹۶۲ء، ص ۸۰-۸۱؛ سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن: ہندستان کے عہد ِ ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری، ص ۲۴
۱۵- سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۷۰ء
۱۶- ابوالکلام آزاد، جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد، ص ۸۴