سابق ڈائرکٹر ادارہ علوم اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی وفات (۱۲نومبر۲۰۲۲ء ) پر اخبارات و رسائل میں شائع شدہ رپورٹوں و مضامین سے مرحوم کی حیات و خدمات کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ا ن کی تعلیمی زندگی کا یہ پہلو بلا شبہہ بڑا قیمتی اور سبق آموز ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر محض اپنے شوق و طلب سے عربی زبان و ادب اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے لیے انھوں نے درس گاہ اسلامی، رام پور کا جدید تعلیم گاہوں کے طلبہ کے لیے خصوصی تشکیل کردہ قلیل المدتی چار سالہ کورس مکمل کیا، اور پھر قرآن کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح میں ماہر قرآنیات مولانا حمیدالدین فراہیؒ (م:۱۹۳۰ء) کے تلمیذِ رشید مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ(م: ۹؍اکتوبر ۱۹۵۸ء) سے تقریباً چھے ماہ استفادہ کیا ۔
واقعہ یہ کہ دینی علوم کے اکتساب کے لیے پروفیسر نجات اللہ صدیقی اور ان کے رفقاء (بالخصوص ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری رحمہما اللہ تعالیٰ)کی طلبِ صادق اور ارادے کی یہ پختگی تھی، جس نے ان کے لیے راہیں ہموار کیں اور رام پور میں جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے ’ثانوی درس گاہ‘ کی صورت میں ان کی دینی تعلیم کا باقاعدہ نظم قائم کردیا۔ جماعت اسلامی ہند کے اولین مرکز ملیح آباد میں جب دینی تعلیم کے نظم کے لیے انھوں نے جماعت کے ذمہ داروں کے سامنے اپنی طلب پیش کی تو انھوں نے وہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے اس نظم سے معذوری ظاہر کی۔ ۴۹ ۱۹ء میں جب مرکزِ جماعت اسلامی رام پور منتقل ہو ا اور جماعت کی افرادی قوت میں اضافے کے ساتھ یہا ں وسائل بھی بڑھ گئے تو ان حضرات نے پھر جماعت کے ذمہ دار وں سے اپنی طلب (جدید تعلیم یافتگان کے لیے دینی تعلیم کا خصوصی نظم) ظاہر کی اور اس کے لیے کوشش جاری رکھی۔
اس سلسلے میں اپنی کوششوں کے نتیجہ خیز مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ فرماتے ہیں:’’ اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آ پ لوگ یہیں ( رام پورمیں) قیام کریں،آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے اور حمید اللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری ۱۹۵۰ء سے وہیں قیام کیا اور چند ماہ بعد جب باقاعدہ ثانوی درس گاہ کا آغاز جولائی ۱۹۵۰ء میں ہوا تو [عبدالحاق] انصاری صاحب بھی ندوہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کر کے رام پور آگئے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درس گاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اورمستقل اصرار کے بعد کیا تھا‘‘(انٹرویو، رفیقِ منزل[نئی دہلی]،۲۵ ؍۱۱،نومبر ۲۰۱۲ء،ص ۲۷)۔ دینی تعلیم کے اس مخصوص سلسلے کی تکمیل کے بعد پھر پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے جدید تعلیم کے اعلیٰ مراحل(بی-اے سے پی ایچ ڈی تک) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طے کیے۔ فروری ۱۹۷۷ء میں پروفیسر و ڈائرکٹر ا دارہ علوم اسلامیہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل انھوں نے شعبہ معاشیات میں تقریباً ۱۶ برس لیکچرر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دی تھیں ۔
یہاں ذکر بے موقع نہ ہوگا کہ مؤقر رسالہ ماہنامہ ترجمان القرآن ( دسمبر ۲۰۲۲ء) میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم پر مدیرِ گرامی پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مضمون میں یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طالب علمی کے دوران جدید نظامِ تعلیم سے متعلق نامورمفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دو تحریروں کے مطالعے نے’’ نو عمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریکِ ا سلامی سے وابستہ کردیا‘‘۔راقمِ عاجز کے خیال میں علی گڑھ کے فیوض و برکات کی طویل فہرست میں اسے بھی بلاشبہہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ اضافہ بے موقع نہ ہوگا کہ ابھی چند ماہ قبل محبِّ گرامی محترم مولانا عتیق الرحمن سنبھلی پر الفرقان (لکھنؤ) کے خصوصی شمارے کے لیے مضمون لکھتے ہوئے اس مضمون نگار نے علی گڑھ سے اپنی فیض یابیوں کے ضمن میں یہ تاثربھی ظاہر کیا تھا:’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جدید تعلیم کے ایک عظیم مرکز کی حیثیت سے مشہور ہے، لیکن اس علمی و تر بیتی مرکز کی ایک ا نفر ا د یت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بہت سے فیض یافتگان میں دینی علوم میں دلچسپی بڑھانے ، بالخصوص قرآن و علمِ قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کا بھی وسیلہ بنتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس پہلو سے ادارۂ سرسید کا فیض پانے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل ہے‘‘۔ (الفرقان[اشاعتِ خاص]،ذکر عتیق بیاد گارِ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ،ستمبر تا دسمبر ۲۰۲۲ء، ص ۵۹۔۶۰)۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم بلا شبہہ اسلامی معاشیات کے ایک ممتاز اسکالر تھے اور اس میدان میں ایک محقق و مصنف کے طور پر ہندستان اور بیرونی ممالک میں بھی انھیں ایک امتیازی مقام حاصل تھا ۔ اسلامی معاشیات کے موضوع پر اُردو و انگریزی میں متعدد کتب ان کی علمی یادگاروں میں شامل ہیں۔ ان میں اردو کی کچھ مشہو ر تصانیف یہ ہیں : اسلام کا نظریۂ ملکیت، اسلام کا نظامِ محاصل[امام ابو یوسف کی معروف تصنیف کتاب الخراج کا اردو ترجمہ مع مبسوط حواشی ]، شرکت و مضاربت کے شرعی اصول، غیر سودی بنکاری، انشورنس اسلامی معیشت میں ، فقہ اسلامی کے مسائل کی جدید تعبیر۔ اسرارِ شریعت کی وضاحت میں ان کی وقیع تصنیف مقاصدِ شریعت بھی بہت معروف ہے۔ ان سب کے علاوہ قرآن سے متعلق ان کی تحریریں (بالخصوص ان کے قرآنی مضامین کا مجموعہ ’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘) بڑی وقعت و اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر نجات ا للہ مرحوم کی ایک اور قرآنی خدمت ’’قرآن اور سائنس، افاداتِ سید قطب نامی کتاب ہے ۔ یہ در اصل قرآن اور سائنس سے متعلق سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن کے اقتباسات کا اُردو ترجمہ ہے، جسے انھوں نے مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے اشتراک سے انجام دیا تھا ۔
زیر بحث موضوع کے اعتبار سے پروفیسر نجات اللہ صدیقی ؒکی کتاب ’’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘‘ خصوصی ذکر کی مستحق ہے۔ القلم پبلی کیشنز (بارہ مولہ، کشمیر ) سے ۲۰۱۵ء میں شائع شدہ اس مجموعۂ مضامین کی ہر تحریر رجوع الی القرآن کی دعوت دے رہی ہے اور قرآن حکیم میں تدبر و تفکر کے بڑے قیمتی نتائج پیش کر رہی ہے ۔ اس کتاب کے مشتملات میں جو قرآنی نکات زیرِ بحث آ ئے ہیں، ان میں خاص اہمیت کے حامل یہ ہیں : (۱) رجوع الی القرآن کی ضرورت واہمیت اور اس کے تقاضے ، ( ۲) عصر حاضر میں قرآن کا پیغام ِ رحمت عام کرنے اور قرآنی علوم کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ،(۳) فہمِ قرآن میں ہدایات ِ ربّانی کے مقاصد کو سمجھنے کی افادیت ،( ۴) آیات کی تشریح و ترجمانی میں شانِ نزول کی اہمیت و معنویت، ( ۵) نائن الیون کے بعد مغرب میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی بڑھتی ہوئی طلب اور مغربی زبانوں میں مزید مستند تراجمِ قرآن کی تیاری و اشاعت کے تقاضے ،( ۶) جدید تعلیم یا فتگان اور عرب دنیا میں نامور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے علمی کارناموں کے تعارف کی ضرورت و افادیت۔
بلاشبہہ قرآن کریم سے رجوع کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور معاشر ے کی موجودہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں اصلاحِ ا حوال کی خاطر عظیم ترین کتابِ ہدایت سے رجوع اور حصولِ رہنمائی کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس پس منظر میں مذکورہ بالا کتاب میں شامل پروفیسر محمدنجات اللہ صدیقیؒ کی تحریر ’رجوع الی القرآن: اہمیت اور تقاضے‘ بڑی قدرو قیمت کی حامل ہے۔ اس میں انھوں نے اس نکتہ پرخاص زور دیا ہے کہ رجوع الی القرآن کی دعوت اب عام ہوچکی ہے، قرآن سمجھ کر پڑھنے کی طلب میں مزید اضافہ ہوا ہے، لیکن اس دعوت کے کچھ تقاضے ہیں،انھیں پور ا کرنے پر خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ بہتر ہوگا کہ قرآن کے پیغامِ رحمت کی ترسیل اور اس کی ہدایات کی تشریح و ترجمانی کے لیے ایسی زبان، ایسا لہجہ اور ایسا اسلوب اختیار کیا جا ئے جو جدید دور کے لوگوں میں فہم قرآن کے فروغ اور روز مرہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِ ہدایت کے مطالبات کو سمجھنے سمجھانے میں مفید اور زیادہ مؤثر ثابت ہو ۔
پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی مرحوم کی رائے میں ’’لوگوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے اُن رکاوٹوں پرتوجہ دینے اور انھیں ہمدر د ی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، جو عام لوگوں کو اس دعوت کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں در پیش ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلی رکاوٹ زبان کی ہے۔ہر شخص عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مادری زبان کو بھی کان سے سن کر سمجھ سکتی ہے،آنکھ سے دیکھ کر نہیں سمجھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں‘‘ (رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۵)۔
وہ پُر زور انداز میں اپنی اس رائے کو پیش کرتے تھے کہ عام لوگ بھی قرآن کا ترجمہ پڑھ کر یا سن کر قرآن کی ہدایات و تعلیمات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ وہ اس فکر کے داعی تھے کہ شروع ہی سے بچوں کو ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھانے یا قرآن کے معنی و مطالب سے باخبر کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ اس کام کی قدر و قیمت ذہن نشین کرنے کے لیے انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مقدمہ فارسی ترجمۂ قرآن کے ایک اقتباس کی اردو ترجمانی ان الفاظ میں پیش کی ہے: ’’ یہ کتاب بچپن ہی میں پڑھا دینی چاہیے تاکہ سب سے پہلے ان کے ذہن میں جو چیز آئے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے مطالب ہوں‘‘( رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۶) ۔
مزید یہ کہ پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی صاحب اس نکتہ کی طرف خاص طور سے توجہ دلا تے تھے کہ قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے دین کی تعلیمات یا نصیحت و بھلائی کی باتیں قرآن کو سمجھ کر اس سے بر اہِ راست معلوم کی جائیں یا لوگوں کو بتائی جائیں تو وہ زیادہ اثر انداز ہو تی ہیں اور دل و دماغ میں اتر جاتی ہیں۔ اس نکتہ سے متعلق ان کا بہت ہی وا ضح مو قف یہ تھا:’’کوئی بات جب خدا کے حکم کے طور پر سامنے آتی ہے تو اس کا اثر کسی انسان کے وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے‘‘(رجوع الی القرآن،ص۷ )۔
اس ضمن میں انھوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ترجمہ قرآن کے مقدمہ کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس نقل کیا ہے : ’’سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے ، لیکن جیسا حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلاسکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدائے تعالیٰ کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے۔ اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں‘‘(ترجمۃ القرآن المجید، محمود حسن، مع تفسیر شبیراحمد عثمانی، مجمع الملک فہد، المدینۃ المنورۃ، ۱۴۰۹ھ،ص۷)۔
رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔وہ اس فکر کے داعی و مبلّغ تھے کہ قرآن کے ترجمے کے ذریعے عام پڑھے لکھے لوگ اسلام کے بنیادی عقائد،روز مرہ زندگی سے متعلق اہم ہدایات اور اخلاقی تعلیمات معلوم کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں،اس لیے ( عربی زبان جانے بغیر بھی) قرآن کے تراجم سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ قرآن کا پیغام سمجھنا ہرمسلمان سے مطلوب ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ’’ قرآن کے جن مطالب کو شاہ صاحب بچوں کے ذہن نشیں کرانا چاہتے ہیں اور انھیں ان کے لیے قابلِ فہم سمجھتے ہیں وہ مکارمِ اخلاق،آدابِ زندگی، عقائد توحید وآخرت ورسالت جیسے اصول ہیں نہ کہ نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین یاجرم و سزا کے مباحث۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ آج بھی عام لوگوں کو ترجمہ کے ذریعہ قرآن پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے، ان کی نظر اول الذکر کی جگہ قرآن کے مشکل مباحث[ یعنی فقہی مسائل اور ان کی تفصیلات] پر ہوگی‘‘ (رجوع الی القرآن، ص۴۵)۔
واقعہ یہ کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے آج سے تقریباً ۳۰۰برس پہلے جو آواز بلند کی تھی اسے ایک انقلابی آواز کہا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی بعض لوگ عام لوگوں کو ترجمۂ قرآن کے ذریعے قرآن پڑھنے کی دعوت کے خلاف ہیں (حوالۂ مذکور، ص۴۵) ۔ مزید برآں وہ اس پہلو سے بھی ا س مسئلے پرغور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ’’ آخر اللہ تعالیٰ نے اَن پڑھ اُونٹ چرانے والوں سے قرآن کو سمجھنے کا مطالبہ کیا تھا تو اس سے زیادہ ترقی یافتہ لوگوں سے اس کا مطالعہ کرنے کو کہنا کیوں کر باعثِ تردد ہوسکتا ہے؟ رہا زبان کا فرق تو ہر سمجھ دار انسان کی طرح شاہ صاحب بھی جانتے تھے کہ ترجمہ کے ذریعے اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے ‘‘ (حوالۂ مذکور، ص ۴۴- ۴۵)۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوتِ رجوع الی القرآن کا ماحصل واضح کرتے ہوئے مصنفِ محترم رقم طراز ہیں:’’ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ[شاہ ولی اللہ] عام مسلمانوں اور ہدایتِ الٰہی کے درمیان صدیوں سے حائل تہ در تہ حجابات کو ہٹانے کا سب سے مؤثر طریقہ انسان کو قرآن تک پہنچادینے کو سمجھتے تھے۔وہ یقین رکھتے تھے کہ جب انسانوں کے خالق کا فیصلہ ہے کہ وہ اس کا کلام سمجھ سکتے ہیں تو کسی دوسرے کو اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ترجمہ قرآن اور اسے بچوں کو پڑھانے کی تلقین کے پیچھے ان کا حکیمانہ شعور ہے، جس سے اکثر لوگ محروم رہے ہیں ‘‘ ( حوالۂ مذکور، ص۴۵)۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ کی پیشِ نظر تحریر وں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ا ن میں رجوع الی القرآن کے حوالے سے عام لوگوں کے علاوہ خواص کی توجہ بھی مبذول کرائی گئی ہے کہ ہرمعاملے میں کتابِ ہدایت سے رجوع کرنے کی دعوت کے مخاطب عام و خاص سبھی لوگ ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے موجودہ صورتِ حال پر اظہارِ افسوس کرتے ہو ئے اپنا یہ تاثر بیان کیا ہے: علما و دانش ور وں نے عام طور پر در پیش مسائل میں اپنا رہنما فقہ ا سلامی کو بنا رکھا ہے ، خواہ اِن مسائل کا تعلق معاشرت سے ہو یا معیشت و سیاست سے ۔ یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے علما و دانش ور نئے مسائل کے حل کے لیے رجوع الی القرآن سے جھجکتے ہیں ؟ یہ لمحۂ فکریہ ہے،اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جدید مسائل کے حل کے لیے بھی قرآن سے رجوع کیا جاتا۔ اس کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ نئے حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقیات کے سماج پر اثرات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔ زمانے کے انقلابات سے لوگوں کے مزاج،نفسیات اور طور وطریق میں جو تبدیلی آئی ہے اس پر بھی نظر رکھی جائے۔انسانی مسائل کے حل کی خاطر قرآن کریم سے حصولِ رہنمائی اور رجوع الی القرآن کی دعوت کے لیے تیاری ان سب باتوں کو مدِّ نظر رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ مزید برآں اسی ضمن میں یہ مطالعہ بھی مفید رہے گا کہ پہلے کے لوگوں نے بدلتے ہوئے حالات میں احکامِ الٰہی کی تعمیل کس طرح کی؟ ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی رجوع الی القرآن کی دعوت اور اس پر عمل مؤثر و مفید ثابت ہوگا ( حوالۂ مذکور ، ص ۹ -۱۱)۔
محترم نجات اللہ صدیقی نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ بڑے پیمانے پر قرآنی علوم کی توسیع وترقی مطلوب ہے۔ پھر ان علوم کی نسبت سے اس پہلو سے غورو فکر کی بھی ضرورت ہے کہ ان کو کس طرح نئی وسعتوں سے روشناس کرایا جائے اور دوسروں بالخصوص مغربی اسکالرز و مستشرقین سے تبادلۂ خیالات کر تے ہوئے ا پنی باتوں میں قرآنی روح پھونکی جائے؟ موجودہ حالات میں، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ،یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر خاص طور سے کن زبانوں میںقرآن کے ترجمے کی زیادہ ضرورت ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لیے علو مِ قرآنی پر عبور کے ساتھ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے والے اسکالرز در کار ہو ں گے ۔