؍اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت نے کشمیر کی نیم خودمختاری کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ساڑھے تین سال بعد وہاں رہنے والے کہتے ہیں کہ احتجاج تو دُور کی بات ہے، لوگ آپس میں کھل کر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
کچھ عرصے سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیر سے خبریں تو آرہی ہیں، لیکن ذرا مختلف نوعیت کی۔ سڑکوں پر احتجاج یا کوئی سیاسی سرگرمی بھی نہیں ہے۔ کیا کشمیر میں واقعی سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے؟
ہم نے ایک نوجوان کشمیری خاتون سے بات کی جن کا کہنا کچھ یہ تھا:
’’گھر پربھی اگرہم لوگ ڈنر کر رہے ہوں گے تو لوگ بولتے ہیں کہ بات نہ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ فون ٹیپ ہورہا ہو۔ایسا اتنا سائیکالوجیکلی ہوگیا ہے کہ اگر کوئی راستے میں بھی ہو تو لوگ دھیمی دھیمی آواز میں بات کر تے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہیں۔ بھارتی حکومت بہت مختلف طریقے سے لوگوں کی آواز کو دبا رہی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوگا تو ہارڈ اپروچ تھی۔ یعنی گنز ہوں گی، پیلٹ گنز ہوں گی، تشدد ہوگا اور راستوں پر تصادم ہوگا مگر اب بہت کچھ تبدیل گیا ہے۔ بہت سی ویب سائٹس جو کشمیر کے بارے میں بات کرتی ہیں وہ کشمیر میں نہیں چلتی ہیں۔ سوشل میڈیا اکائونٹس معطل ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کرنا ’نرم جبر‘ (Soft Violence) کا طریقہ ہے، جہاں پر ہم لوگوں کو مار تو نہیں رہے، لیکن چھوٹے چھوٹے طریقوں سے لوگوں کو ہراس زدہ کر رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر کچھ لکھیں گے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی الزام کے تحت انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح [احتجاج کرنے والے] لوگوں کو اُٹھا کر لے جائیں گے اور ان کی تفتیش کریں گے۔ یعنی دھیرے دھیرے وہ ماحول بن رہا ہے جہاں لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اگر اپنی زندگی بچانی ہے تو پھر بات کم کرنی ہے‘‘۔
گویا کشمیر میں خوف کے ماحول کا تاثر ملتا ہے۔ اس بارے میں جب ہم نے عام کشمیریوں سے بات کرنی چاہی تو لوگوں نے کیمرے پر آکر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ نے لکھ کر ہمیں اپنے تاثرات بھیجے۔ایک نوجوان کشمیری خاتون نے لکھا: ’’کشمیریوں کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ انھیں بات کرنے کی، خطے میں خلاف ورزی کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ لوگوں کو [عبرت کی] مثال بناکر سب کو خاموش کر دیا گیا ہے‘‘۔ایک اور نے بتایا:’’لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تووہ گرفتار ہوجاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر ہی نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اُس تک میں خوف گھلا ہوا ہے‘‘۔
ایک نوجوان کشمیری نے بتایا: ’’صرف کشمیر ہی نہیں، مجھے لگتاہے کہ انڈیا بھی اس خاموشی سے سراسیمہ (کنفیوژ) ہے۔ پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری ہے یا پھر وسیع نااُمیدی‘‘۔
اگر ہم سول سوسائٹی ، ہیومن رائٹس کے فعال علَم برداروں اور صحافیوں کے خلاف ریاستی کارروائیوں، نظربندیوں اور گرفتاریوں کی تعداد دیکھیں تو شاید اس خوف اور خاموشی کی وجوہ واضح ہوجائیں گی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک کشمیر میں کم از کم ۲۷صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون کے ۶۰ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اگست ۲۰۲۲ء تک ان تین برسوں میں غیرقانونی نظربندی کے خلاف پٹیشنوں میں ۳۲فی صد اضافہ ہوا ہے اور ان مقدمات میں یو اے پی اے اور پی ایس اے جیسے متنازع قوانین کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔
اس بڑی تعداد میں آصف سلطان اور فہد شاہ جیسے صحافی اور خرم پرویز [اور محمداحسن انتو] جیسے انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں جو طویل عرصے سے نظربند ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کی خبریں بھی ہیں جیساکہ پلئرز پرائز جیتنے والی فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو ہیں، جنھیں ویزا اور ٹکٹ رکھنے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات نے ایک خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر اور تجزیہ کار انورادھا بھسین کا کہنا ہے: حکومت کی سرویلنس (خفیہ نگرانی) کی اَپروچ ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ ڈر اور خوف کا ایک ایسا ماحول ہے کہ ہم پر نظر رکھی جارہی ہے۔ کئی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو کئی بار ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ انھیں کئی طریقوں سے خوف زدہ کیا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، گرفتار بھی ہوئے ہیں، کریمنل مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں اور ان کے علاوہ کبھی فون کال کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے، کبھی طلب کیا جاتا اور باقاعدہ ایک انٹروگیشن ہوتی ہے۔ وہاں پر ایک ڈر اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے اور لوگ کچھ نہیں بول پارہے ہیں‘‘۔
کشمیر میں اس وقت غیر یقینی کیفیت اور پریشانی کی ایک وجہ شاید بدلتے ہوئے قوانین بھی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی طور پر غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔
تین اہم قوانین جن کے بارے میں خدشات ہیں کہ وہ وادی کا پورا لینڈاسکیپ (منظرنامہ) بدل دیں گے:l جائیداد کی خریدوفروخت: آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہایشی جائیداد کی خریدوفروخت کرسکتے تھے۔ اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں پر جائیداد خرید سکتا ہے۔l ووٹنگ اور سیاسی اُمیدوار بننے کا حق:آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے صرف مستقل رہایشی جموں و کشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں انتخابات میں اُمیدوار بن سکتے تھے۔ اب یہ پابندی ختم ہوگئی ہے۔l ڈومیسائل کا حق: عشروں سے اس خطے میں ڈومیسائل صرف مقامی لوگوں کو مل سکتا تھا۔ اب کوئی بھی شخص جو یہاں ۱۵سال سے رہ رہا ہو اسے ڈومیسائل مل سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد کم ہوکر ۱۰سال ہوجاتی ہے، جب کہ ہائی اسکول کے طالب علموں کے لیے یہ مدت سات سال ہے۔ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں باہر سے آنے والے لوگوں کو یہ حق حاصل ہوگا اور یہ وادی کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔
بھارتی حکومت کہتی ہے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے دراصل کشمیریوں کو فائدہ ہورہا ہے۔جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے ہیں: ’’میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ جس مقصد سے آرٹیکل ۳۷۰ ہٹایا گیا ہے، ان تین برسوں میں وہ مقصد کافی حد تک پورا ہوگیا ہے۔ اب کئی ملکی قوانین جموں کشمیر پر بھی لاگو ہوں گے۔ یہ ۸۹۰ کے لگ بھگ قوانین ہیں جو جموں کشمیر پر لاگو ہوگئے ہیں‘‘۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ایک کشمیری سیاسی پارٹی ہے، جو اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی تھی۔ موہت بھان ، ترجمان پی ڈی پی کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے لوگ ایک صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لوکل انتظامیہ یا مرکزی حکومت کے جو فیصلے آرہے ہیں، لوگ اس پر رِدعمل کا اظہار ہی نہیں کر رہے۔ لوگوں کے اندر جمہوری نظام پہ عدم اطمینان ہے، اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ وہ اس پر کوئی بات کریں۔ لوگوں کا بھروسا اس قدر ٹوٹ چکا ہے اور اندر اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ا نھیں اگر ہمیں کچلنا ہی ہے تو پھر کچلنے دو‘‘۔
آخر اس سب کچھ سے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟
انورادھا بھسین کہتی ہیں: ’’بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا صرف جغرافیہ کو تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار اور بے بس کرنا ہے۔ اس لیے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں، چاہے وہ ووٹ دینے کا حق ہو، یعنی آپ جن لوگوں کو باہر سے لارہے ہیں، اور ان کو ووٹ کا حق دے رہے ہیں، ان کو وہاں کا ڈومیسائل دے رہے ہیں، یا پھر مقامی علاقائی جماعتوں کو جس طرح سے سائیڈ لائن کیا جارہا ہے اور ان کے لیے مختلف طریقوں سے جگہ کو کم کیاجارہا ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہاں کے لوگ ایسی تبدیلیوں سے خوش نہیں ہیں اور اگر خوش نہیں ہیں تو پھر احتجاج کے لیے باہر کیوں نہیں نکل رہے؟ وہ اس لیے باہر نہیں نکل رہے کہ ڈر اور خوف کا ایک ماحول پیدا کیا ہوا ہے، الگ الگ طریقوں سے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے‘‘۔
مگر بھارتی حکومت کہتی ہے کہ ’’کشمیر میں خاموشی دراصل امن کی وجہ سے ہے‘‘۔ لیکن کشمیر میں ایک واضح تاثر یہ ملتا ہے کہ بھارت اور کشمیریوں کے درمیان اعتماد کا جو فقدان عشروں سے چلا آرہا ہے، وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے اور کشمیری ہونا اگر پہلے مشکل تھا تو اب بھی آسان نہیں۔