قومی کردار کے متعلق بامعنی اور تعمیری بحث کرتے وقت درج ذیل سوالوں پر غور کرنا ہوگا:
قوم افراد کے ایسے مجموعے کا نام ہے جو ایک مشترک نظریۂ حیات پر یقین رکھتے ہوں۔ کسی قوم کا نظریۂ حیات اس قوم کے مخصوص نفسیاتی اور تعلیمی ماحول کے مطابق مطلوبہ اوصاف یا اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک قوم اس لیے قوم ہے کہ وہ قومی انداز میں سوچتی ہے اور اس کی سوچ اس لیے قومی ہوتی ہے کہ اس کے تمام افراد اس نظریہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ قومی نصب العین یا آئیڈیل کے اجزائے ترکیبی میں نسل، زبان، رنگ و ثقافت، تاریخ، عقیدہ و مسلک اور فلسفہ یا مذہب خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی آئیڈیل میں یہ تمام اجزا شامل ہوتے ہیں اور کسی میں بعض۔
کردار کو ذہن نشین کرنے سے پہلے ہمیں نظریۂ حیات کی مزید وضاحت کرنا ہوگی۔ کردار سب سے پہلے فرد کی زندگی میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ہرشخص اپنی جبلت اور فطرت کے مطابق کسی نہ کسی نظریۂ حیات کو اپنانے پر مجبور ہے جو مندرجہ ذیل پانچ شرائط پوری کرتا ہو:
۱- وہ نصب العین دوسرے تمام نظریات سے زیادہ پُرکشش اور محبت کے لائق ہو۔
۲- اس میں اتنی جاذبیت ہو کہ فرد کے جملہ خیالات پر چھا جائے۔ اسے ایک مثالی آورش بنایا جاسکے۔
۳- یہ آئیڈیل بلند ہو یا پست، دل کش ہو یا قابلِ نفرت، صحیح ہو یا غلط، مکمل ہو یا نامکمل، عالم گیر ہو یا علاقائی ، تاہم فرد کے لیے اس میں دل کشی ، پسندیدگی اور سچائی کی وہ جملہ خوبیاں موجود ہوں جو اس کی یا دوسروں کی نظر میں کچھ اہمیت رکھتی ہیں۔
۴- جو فرد کے لیے ایک ایسے پیمانہ، معیار اور کسوٹی کا کام دے سکے، جس پر صحیح اور غلط، اچھے اور بُرے ، خوب صورت اور بدشکل کو پرکھا جاسکے۔ جو یہ بتا سکے کہ کس چیز کو قبول کیا جائے اور کون سی کو مسترد۔ جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کون سی چیز محبت کرنے کے لائق ہے اور کون سی قابلِ نفرت۔ جو یہ بتا سکے کہ کون کون سے کام کرنے کے ہیں اور کن کن کاموں سے پرہیز بہتر ہے۔
۵- وہ نظریہ شخصی زندگی پر اس طرح حاوی ہوجائے کہ اس کی تمام سرگرمیاں اسی کے تابع ہوجائیں۔ عادات و خصائل، عقائد و اعمال، خیالات و جذبات، مرغوبات ومیلانات، آرزو اور خواہش غرض یہ کہ ہرچیز پر اس نصب العین کی گہری چھاپ ہو۔
انھی چیزوں سے شخصی کردار نشوونما پاتا ہے۔ انسانی کردار فطرتاً ترقی پذیر ہوتا ہے۔ جوں جوں اس کے شعورو آگہی کی سطح بلند ہوتی ہے اور اپنے نظریہ کے مطابق عمل کرتا ہے ، اسی حساب سے اس کا کردار ترقی کرتا ہے۔ کردار کی بنیاد چونکہ نظریہ پر ہوتی ہے، اس لیے ایک شخص کا نظریۂ حیات جس قدر بلند یا پست، اچھا یا بُرا، دل کش یا بھونڈا ہوگا،اسی قدر اس کا کردار بلند یا پست اور اچھا یا بُرا ہوگا۔
چونکہ ایک قوم کے تمام افراد کسی ایک مشترک نظریے کے قائل اور پیروکار ہوتے ہیں۔ اس کی بقا اور ارتقا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے اندر مشترک عادات و خصائل، میلانات و مرغوبات، عقائد و خیالات، جذبات و محسوسات، اُمنگ و خواہشات ترقی کرکے کردار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہرقوم اپنا جدگانہ کردار رکھتی ہے جس کی ایک خاص نوعیت ہوتی ہے۔ جب اس نصب العین پر عملی زندگی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو وہ قومی آئیڈیل بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہرقوم کو ایک نظریاتی گروہ کہتے ہیں۔ قومیں یا نظریاتی فرقے نفسیاتی طور پر اسی طرح ترقی کرتے ہیں جس طرح مختلف عناصر حیاتیات کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ جس طرح ہرعنصر اپنا منفرد وجود اور خاص خصوصیات رکھتا ہے بعینہٖ ہرقوم اپنی جداگانہ نظریاتی حیثیت یا کردار رکھتی ہے۔
ہم محض اس لیے ایک الگ قوم نہیں ہیں جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی حالات نے ہمیں ایسا بنادیا ہے،بلکہ اس لیے ایک قوم ہیں کہ بعض قدرتی اسباب اور فطری عوامل ہماری قومیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ مسلمان قوم کی تعمیر کرنے والے یہ عوامل (دوسری قوموں کی طرح) علاقائی زبان، نسل، رنگ، ثقافت یا تاریخ نہیں بلکہ اسلام کے اس زندہ عقیدے پر پختہ یقین ہے جس کا بنیادی پتھر خدائے واحد پر ایمان لانا ہے۔
ہمارا وطن پاکستانی جغرافیائی لحاظ سے کئی خطّوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے ہرخطّہ اپنی جداگانہ ثقافت ، تاریخ اور زبان رکھتا ہے۔ اندریں حالات اگر ہرخطّہ اپنی علاقائی زبان، تہذیب و ثقافت، تاریخ یا نسل کو اپنی توجہ کا مرکز اورقومی آئیڈیل بنالے تو قومی کردار کی تعمیر کیسے ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر تمام خطّے اسلامی نظامِ حیات کو مشترکہ آئیڈیل کے طور پر اپنالیں تو نہ صرف علاقائی زبان، نسل، تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن کے بُت پاش پاش ہوجائیں گے بلکہ ملّی شعور اور قومی کردار بھی فروغ پاسکے گا۔
اس سوال کا جواب ہم ’’کردار کی تعریف‘‘ کے ضمن میں دے چکے ہیں۔ جیساکہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ قومی کردار ان عادات و خصائل، میلانات و مرغوبات، عقائد و خیالات، جذبات و محسوسات اور اُمنگ و خواہشات کے مجموعے کا نام ہے جو کسی قوم کے افراد میں مشترک طور پر پائے جاتے ہوں اور ان کی بنیاد ایک مشترک نصب العین پر ہو۔
اس سے ظاہر ہوا ہے کہ اگر ہم اپنے قومی کردار کی تشکیل اعلیٰ اور بلند ترین پیمانے پر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک اعلیٰ ترین مقصد ِ حیات اور بلندترین آورش کو قومی نصب العین بنانا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا مثالی نظریہ اختیار کرنا ہوگا جو ہرلحاظ سے دل کش، جاذبِ نظر اور درست ہو۔ وہ نظریہ ایک اور صرف ایک ہوسکتا ہے،یعنی اسلام کا نظریۂ توحید۔ ہم اس سے زیادہ بلند، بہتر، مکمل، سچے اور عالم گیر نظریے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
پس، اگر ایک طرف ملک کے جغرافیائی حالات کے تحت اسلامی ضابطۂ حیات کو قومی آئیڈیل کے طور پر اپنانا ہماری سیاسی ضرورت ہے، تو دوسری طرف اعلیٰ درجے کے کردار پیدا کرنے کے لیے ہماری نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری فطرت کے غیرمستحکم اصول بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ بلند مرتبہ قومی کردار صرف اسی صورت میں اُبھر سکتا ہے، جب ہم اعلیٰ ترین اصولوں کو قومی نصب العین بنائیں، اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ نصب العین صرف اسلام ہوسکتا ہے۔
اسلامی نظریۂ حیات کو قومی آئیڈیل بنانے کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ خدا پر ہمارا غیرمتزلزل اور مستحکم یقین ہو۔ یہ اس یقینِ محکم ہی کا کرشمہ تھا کہ ہندستان کے مسلمانوں نے اپنے سے کہیں طاقت ور اور بااثر انگریز اور ہندو قوم سے ٹکرلی اور اپنی جدوجہد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کرکے پاکستان بنالیا۔ اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے نظریے سے جنوں کی حدتک پیار کریں۔ ہماری زندگی کے سیاسی، اخلاقی، عسکری، قانونی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی غرضیکہ تمام شعبوں میں اسے فیصلہ کن طاقت کا مقام حاصل ہو۔ ہم جس قدر جلد یہ قدم اُٹھا سکیں ہمارے حق میں اسی قدر بہتر ہے۔
جب ایک آورش یا آئیڈیل کے ساتھ کسی فرد یا قوم میں سچی محبت پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کے تمام عقائد و نظریات، خیالات و محسوسات، میلانات ومرغوبات، عادات و اَطوار، علم و عرفان، ارادے اور طریق کار، اُمنگ اور خواہشات پر اس آئیڈیل کی گہری چھاپ لگ جاتی ہے۔ گویا ایک نصب العین شخصی یا قومی کردار کی اسی طرح تعمیر کرتا ہے، جس طرح مناسب کاشت اور آبپاشی سے ایک بیج کا دانہ تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مناسب تعلیم و تربیت سے ہم قومی آئیڈیل کو قومی کردار میں ڈھال سکتے ہیں۔ ایک بیج سے وہی پودا اُگتا ہے جس کی قوتِ نمو اس بیج میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہم ایک قومی نصب العین منتخب کرکے اسی نوعیت کا قومی کردار پیدا کرسکتے ہیں، جس کی صلاحیت اس نصب العین میں ہوگی۔ خدا کا تصور اپنی فطرت کے اعتبار سے وہ واحد نظریۂ حیات ہے، جس سے بہترین اور اعلیٰ پایہ کا قومی کردار فروغ پاسکتا ہے۔
بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ہمیں اسلام کے محض مسلّمہ اسلامی اُصولوں، مثلاً مساوات انسانی، آزادی، انصاف، صداقت، اخوت، جرأت، بُردباری اور دیانت داری وغیرہ کو اپنا لینا چاہیے اور نظریۂ توحید پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے، اس سے قومی کردار کی تشکیل میں بڑ ی آسانی ہوجائے گی۔ لیکن ایسا کرنا ہمارے لیے عملاً ناممکن ہے کیونکہ مسلّمہ عالم گیر اخلاقی اصول نظریۂ توحید کی اسی طرح وکالت کرتے ہیں جس طرح کسی درخت کا بیج خاص طرح کے پتوں اور پھولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص تازہ اور مہکتے ہوئے پھولوں کا شوقین ہے تو اسے خود اپنے باغ میں ان پھولوں کا پودا لگانا اور اس کی نگہداشت کرنی ہوگی ورنہ اسے باسی، پژمُردہ اور کاغذی پھولوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ جس طرح پھول درخت سے ٹوٹنے کے بعد مُرجھا جاتے ہیں، اسی طرح سچے اور عالم گیر اخلاقی اصول اپنےاصل سرچشمۂ توحید سے کٹنے کے بعد مُردہ اور بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی شخص سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان اخلاقی اصولوں کی پیروی کرے تو پہلے ہمیں یہ تسلی کرنی ہوگی کہ وہ خدا کو آئیڈیل بنائے اور اس آئیڈیل سے سچا اور بھرپور پیار کرے۔ چونکہ سچے اور عالم گیر اخلاقی ضابطوں کا منبع و سرچشمہ نظریۂ توحید ہے، اس لیے ان پر وہی شخص عمل پیرا ہوسکتا ہے جو اس نظریے کا قائل اور چاہنے والا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرشخص اپنی پسند کے مطابق کسی نہ کسی نظریے سے محبت کرتا ہے۔ اگر اسے نظریۂ توحید پسند نہیں تو لازماً اس سے فروتر کسی دوسرے نظریے کو اعمال کا مرکز بنائے گا اور اسی کو ایسا معیار مان لے گاجس پر بُرے اور بھلے، سچ اور جھوٹ، دل کش اور بدنما کو پرکھا جاسکے۔ اسی نظریے کی روشنی میں وہ یہ طے کرے گا کہ کس چیز کو قبول کیا جائے اور کس کو مسترد، کس سے محبت کی جائے اور کس سے نفرت، کون سا کام کیا جائے اور کون سا نہیں؟ اگر ایسا شخص زبان سے اخلاقی اصولوں کی پیروی کا دم بھرتا ہے، تو سمجھ لو یا تو وہ دانستہ اپنے باطل نظریات کو چھپا رہا ہے یا ان کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ یعنی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے۔ جس طرح ہم ببول کے درخت سے آم حاصل نہیں کرسکتے بالکل اسی طرح غلط نظریۂ حیات کو اپناکر اچھے قومی کردار کی توقع نہیں کرسکتے۔
بظاہر برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکا اور دُنیا کے دوسرے کمیونسٹ ممالک میں خدا پر ایمان ایک مسلّمہ اصول کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم وہاں خدا کوآئیڈیل کا درجہ حاصل نہیں، ان کا آئیڈیل سیکولرنیشنلزم ہے۔ ان کے نزدیک سیکولر نیشنلزم آئیڈیل کی ان پانچوں شرطوں پر پورا اُترتا ہے جو ہم ابتدا میں بیان کرآئے ہیں۔ نظریۂ توحید ان کی نگاہوں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انگریز قوم کی اکثریت اگرچہ خدا کو مانتی ہے لیکن عملاً نیشنلزم ان کے نزدیک تمام نظریات سے بالاتر اور پسندیدہ ہے اور نظریۂ توحید کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ان کے تمام اعمال و افعال، عقائد و نظریات، اقدار و روایات اور جذبات و میلانات کا معیار نیشنلزم (جذبۂ قومیت) ہے نا کہ خدا کا تصور۔ اگر کسی معاملے میں دینی تقاضے قومی تقاضوں سے متصادم ہوں، تو انگریز قوم بے دھڑک دینی تقاضوں پر قومی تقاضوں کو ترجیح دیتی ہے۔ ایک لادین اور نیشنلزم کی پجاری قوم سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں متعدد مذاہب کے پیرو موجود ہیں، مثلاً مسلمان،عیسائی، ہندو اور پارسی۔ اس لیے ہمیں ریاست کے سرکاری فلسفہ میں توحید اور اس سے وضع کیے گئے ان معروف و مسلّمہ اخلاقی اصولوں کو شا مل کرنا چاہیے جن کے بارے میں مختلف مذہبوں کے درمیان کوئی اختلافِ رائے نہیں۔ ایسا کرنا نہ صرف ملکی حالات کا تقاضا ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآن پاک میں ہے: اے اہلِ ایمان! اس اصول کی طرف لوٹ آئو جو ہمارے اور تمھارے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور اپنے ہم جنسوں کو اپنا آقا اور مالک بھی نہیں مانتے۔
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہم سرکاری طور پر ایک ایسے بنیادی اور مشترک اصول کو اپنے نظریۂ حیات کی اساس بنالیں گے جو پاکستان کے تمام مذہبی فرقوں کے فلسفۂ حیات کا سنگ ِ بنیاد ہے۔ اس طرح تمام مذہبی فرقوں کے اہم ترین جذبات___مذہبی جذبات سے فائدہ اُٹھا کر سارے فرقوں کو ایک متجانس (Homo Genous) قوم میں ڈھال سکیں گے۔ پوری قوم کا ایک مشترک آئیڈیل ہوگا جسے اپنانے میں ہم مسرت اور فخر محسوس کریں گے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات پر اس حد تک قابو پالیا جائے گا کہ ہرفرقہ اپنی حد تک انھیں عزیز رکھے۔ اس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی اور تلخی ختم ہوجائے گی۔ اس مشترک فلسفۂ حیات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے فرقوں کو ان کے مذہب کے مطابق عقیدہ و عمل کی مکمل آزادی دی جاسکے گی۔ اس سے ایک طرف ہم غیرمسلم اقلیتوں کے عقائد و عبادات میں مداخلت سے باز رہ سکیں گے، دوسری طرف اس فلسفۂ حیات سے انھیں اضافی مدد مہیا کرسکیں گے۔ اس سے ملک کے تمام فرقوں (مسلمان، عیسائی، ہندو، پارسی) کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی بڑھے گی۔ تمام فرقے خدا کے ایک کنبے کی مانند رہ سکیں گے جس میں مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت یا بدخواہی کی کوئی گنجایش نہیں ہوگی۔ سب فرقے ایک مشترک قومی احساس کے تحت اتحاد اور تعاون کی فضا میں کام کرسکیں گے۔
سچے محب ِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں اس بات پر خاص توجہ دینی ہوگی کہ یہاں کا ہرشہری خدا تعالیٰ پر ایمان کو ایسی زندہ اور فعال قوت بنالے جو اس کی سرکاری اور غیرسرکاری سرگرمیوں پر غالب ہو۔ اس کے لیے ہمیں ایک مخصوص نظام اختیار کرنا ہوگا، جو ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا دے۔
کسی قوم کے اتحاد، سالمیت اور کارکردگی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی واضح مقصد اور نظریۂ حیات ہے یا نہیں؟ اگر کوئی نظریہ ہے تو قوم میں اس کے لیے کتنی تڑپ اور لگن موجود ہے؟ یہ نظریہ ان کے قومی مزاج اور روایات کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو آیا اس آئیڈیل میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جو خود بخود لوگوں کے دلوں میں گھر کرجائیں؟ اگر اس میں یہ خوبیاں موجود نہیں، تو بڑے سے بڑا معلّم بھی اپنے تعلیمی منصوبوں اور انتظامات کے باوجود لوگوں کے جذبات کو اس حد تک بیدار نہیں کرسکتا کہ لوگ اس نظریے پر فریفتہ ہوجائیں۔ اگر کسی نظریے میں داخلی اور باطنی خامیاں موجود ہیں، تو اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ ہم پاکستانی اس لحاظ سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نصب العین موجود ہے جو تمام شرطیں پوری کرتا اور اپنے اندر جملہ خوبیاں رکھتا ہے۔
جو نظریات مصنوعی اور نمایشی طور پر کسی قوم کو عزیز ہوں انھیں خود ہی قوم چیلنج کردیتی ہے، مثلاً بھارت میں وہاں کی اقلیتوں نے انڈین نیشنلزم کے نظریہ کو چیلنج کردیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا نصب العین ایک حقیقی اور قابلِ عمل ہے۔ وہ ہمارے مزاج، روایات اور نفسیات سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اسے دل کی گہرائیوں میں جگہ دیں۔ کمیونسٹوں سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں انسان کی تمام تر ترقی کے باوجود خدا کا تصور آج بھی اتنا ہردلعزیز، نیا، تازہ اور جبلت انسانی کے قریب ہے، جتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنی نوع انسان کو اس نظریے کی آج جتنی ضرورت ہے شاید ماضی میں کبھی نہ تھی۔
موجودہ دور میں انسانی حالات کا جو مفکرانہ مطالعہ کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ قومی نصب العین کے طور پرسیکولر نیشنلزم کی بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں اور اس کی جگہ انسان اور کائنات کے مختلف نظریے لے رہے ہیں۔ دُنیاکی جدید ترین ترقی یافتہ ریاستیں بھی دراصل نظریاتی ریاستیں ہیں، جنھوں نے فرد کی رہنمائی کے لیے بزعمِ خویش صحیح یا غلط، چند اصول بنالیے ہیں۔ ان میں روس اور چین ہی نہیں امریکا بھی شامل ہے۔ کیونکہ امریکی قوم کے نزدیک جمہوریت نہ صرف ایک بہترین نظامِ حکومت ہے بلکہ ایک نظامِ حیات بھی۔ چنانچہ انھوں نے جمہوریت کو قومی آئیڈیل بنالیا ہے۔ بہت سی قومی ریاستیں جو کسی زمانے میں آسمانِ سیاست پر درخشندہ ستاروں کی طرح چمکتی تھیں، آج رُوبہ زوال ہیں۔ بعض نئی قومی ریاستیں بھی جو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہی ہیں اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں اور تیزی سے کمیونزم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آج نیشنلزم کی مٹی اس طرح پلید ہورہی ہے جیسے ماضی میں قبائلی نظام کی ہوئی تھی۔
ارتقا کی تندو تیز لہریں نسلِ انسانی کو ایک ایسی عالمی ریاست کی طرف کشاں کشاں لیے جارہی ہیں جس کی اساس انسان اور کائنات کے فلسفہ پر ہوگی۔ ظاہر ہے یہ فلسفہ کمیونزم نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اس بات کو درست تسلیم کرلیں کہ ارتقائی عمل تیزی سے اس نقطۂ عروج تک پہنچنا چاہتا ہے جہاں پوری دُنیا ایک مکمل معاشرے کی شکل اختیار کرے گی، تو ہمیں یہ بات بھی لازماً ماننا پڑے گی کہ اس معاشرے کی بنیاد ایک مکمل اور جامع نظریے___ خدا کے تصور پر ہوگی۔ انسانی ارتقا جو دراصل نظریاتی ارتقا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر اہلِ پاکستان خدا کے تصور کو اپنا قومی آئیڈیل بنالیں، تو پاکستان آیندہ وجود میں آنے والی عالم گیر ریاست کا نقطۂ اجتماع اور مستقبل کے مکمل ترین معاشرے کا مرکز ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان دوسری اقوام کے ساتھ خیرسگالی اور دوستی کے رشتے بھی قائم کرسکے گا۔ دوسری ریاستوں کے ساتھ ایسے دوستانہ تعلقات اسی صورت میں قائم ہوسکتے ہیں جب عالم گیر ریاست کے شہریوں کو پاکستان پر اعتماد ہو۔ دوسری اقوام کے ساتھ اس کا سلوک منصفانہ اور دیانت دارانہ ہواور عالمی اتحاد قائم کرنے کے لیے خود پاکستان دوسروں کے ساتھ تعاون کرے۔ اگر خدا ترس اور خدا سے محبت کرنے والی قومیں بھی اپنے معاملات میں انصاف پسند، دیانت دار،پُرامن اور قابلِ اعتماد ثابت نہ ہوں، تو دوسری قوموں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ میں اس مقالے کو علّامہ اقبال اور قائداعظمؒ کے ارشادات سے دواقتباسات پر ختم کرتا ہوں۔ جنوری ۱۹۳۸ء میں ’سالِ نو کے پیغام‘ میں علّامہ اقبال نے فرمایا تھا:
دُنیا بھر کے مفکر اور دانش ور حیران و پریشان ہیں کہ کیا جدید تہذیب اور ارتقا کا انجام یہی ہوگاکہ انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں اور روئے زمین پر حیاتِ انسانی کا وجود ناممکن ہوجائے؟ یاد رکھو! انسان دُنیا میں فقط اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے اور ترقی پاسکتا ہے جب وہ انسانیت کا احترام کرنا سیکھ لے۔ جب تک انسان انسانیت کا احترام کرنا نہیں سیکھتا یہ دُنیا خونخوار درندوں کی شکارگاہ بنی رہے گی۔ قوموں کے درمیان صرف وہی اتحاد پائیدار اور قابلِ اعتماد ہوسکتا ہے جس کی بنیاد برابری پر ہو۔ جو نسل، قومیت، رنگ اور زبان کے امتیازات سے پاک اور بالاتر ہو۔ جب تک یہ نام نہاد جمہوریت، یہ منحوس نیشنلزم اور یہ ذلیل ملوکیت فنا نہیں ہوجاتی اور لوگ اپنے اعمال سے اس یقین کا اظہار نہیں کرتے کہ پوری دُنیا خدا کا کنبہ ہے، جب تک دُنیا میں نسل، رنگ اور جغرافیائی قومیتوں کے بُت موجود ہیں، انسان ایک خوش حال اور سکون بخش زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اخوت، مساوات اور آزادی کے دل کش نعرے محض ایک ڈھونگ ہیں۔
اس طرح جون ۱۹۴۵ء میں ایک تقریر کے دوران قائداعظم محمدعلی جناح نے فرمایا:
حصولِ پاکستان سے ہمارا مقصد محض آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس اسلامی نظریۂ حیات کو فروغ دینا ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں قیمتی عطیے اور بیش بہا خزانے کی شکل میں ملا ہے۔ اُمید ہے کہ دوسری قومیں بھی اس سلسلے میں ہم سے تعاون کریں گی۔
اسلامی نظریۂ حیات کے فروغ میںدوسری قومیں اس طرح تعاون کرسکتی ہیں کہ وہ بھی اس نظریے کے اہم ترین جزو، یعنی خدا کے تصور اور اس سے ماخوذ عالم گیر اسلامی اخلاقی اصولوں کو اپنالیں۔ اس لیے صرف یہی نظریہ ہمارے اعلیٰ اور بلندپایہ کردار کی بنیاد بن سکتا ہے۔