پاکستان میں عسکری منظر بدلتے ہی کئی معروف صحافیوں نے تواتر کے ساتھ یہ انکشاف کرنا شروع کیا ہے کہ ’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ ایک ’پیس پروسیس‘ شروع کیا تھا، جس کا منطقی نتیجہ کشمیر کو نظرانداز کرکے پاک بھارت تعلقات کی بحالی تھا‘‘۔ اس انکشاف کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، دوحہ میں بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے بعد اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ نریندر مودی ۹؍ اپریل۲۰۲۱ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں، وہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے، وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے، واپسی پر عمران خان سے ملیں گے، ان کا بازو پکڑ کر ہو ا میں لہرائیں گے اور پاک بھارت دوستی کا اعلان کریں گے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تجارت کھولنے کا اعلان کریں گے اور کشمیر کو بیس سال کے لیے پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد جب وزیراعظم عمران خان سے اس پر عمل درآمد کی رضامندی لی گئی تو انھوں نے صاف انکار کردیا، اور یوں بھارت سے معاملات طے کرنے کا موقع ضائع ہوگیا‘‘۔
اس حقیقی یا افسانوی کہانی کو دیکھا جائے تو یہ ساری پیش رفت ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ہوئی، جب بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کا تشخص ختم کرکے اسے ’بھارتی یونین ٹیریٹری‘ قرار دیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں عمران خان نے بھارت سے سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے ۵؍ اگست کا فیصلہ واپس لینے کی شرط عائد کی۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد عمران خان کا غیرمعمولی ردعمل اس امر کا واضح اظہار تھا، کہ موصوف بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے سخت گیر اور انتہا پسند وزیراعظم نئے مینڈیٹ کے ساتھ آکر کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت اور بڑا فیصلہ کریں گے، مگر انتہاپسند مودی نے اس کے جواب میں پاکستان کو مایوس کن جواب دیا اور یک طرفہ طور پر کشمیر کا اسٹیٹس بدل دیا، جس کو عمران خان نے اپنی طرف سے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو جھٹکنے سے تعبیر کرکے نریندر مودی کی انانیت، نخوت اور تکبر کے بخیے ادھیڑنا شروع کیے۔ انھوں نے مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر بجاطور پر مغرب میں ان کی خوفناک شبیہ پیش کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ مودی اس قدر زچ ہوئے کہ اُنھوں نے اگلے ہی ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے بھی گریز کیا۔ ہماری معلومات کے مطابق جنرل فیض اور اجیت دووال کی عرب ملک میں پکائی گئی کھچڑی جب عمران خان کے سامنے رکھی گئی تو ان کا بے ساختہ سوال تھا کہ ’’اس میں کشمیر کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا کہ ’’کشمیر تو بیس سال کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر عمران خان نے اس ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
ملک کے تین صحافیوں کے بعد اب نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور پاکستانی دفتر خارجہ کے سینئر ترین ڈپلومیٹ عبدالباسط صاحب نے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس عمل کی مشاورت میں شریک تھے اور بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے اپنے وی لاگ کے آخر میں تسلیم کیا کہ ’’عمران خان نے کشمیر کے بغیر اس ڈیل کو ماننے سے انکار کیا‘‘، اور ساتھ انھوں نے اس حرف ِانکار کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک اچھا فیصلہ تھا‘۔
عبدالباسط صاحب کا کہنا تھا کہ اس ڈیل میں مسئلہ کشمیر کو ۲۰ برس فریز کرنے کی بات نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ ڈیل بھی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس فارمولے میں دوطرفہ مفاہمت اور اقدامات کا بیس سال بعد جائزہ لینے کا ذکر تھا اور اسی ماحول کے زیراثر بزنس ٹائیکون میاں منشا اور سابق وزیر تجارت دائود ابراہیم نے بھارت سے تجارت کی مکمل بحالی کی وکالت شروع کی تھی۔ اس ڈیل سے عمران خان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے کشمیر پر کسی پیش رفت کی ہامی نہیں بھری اور عمران خان نے کہا کہ یہ ڈیل ہوجائے اور بھارت آگے نہ بڑھے تو اس طرح ہمارا مؤقف ہی ختم ہوجائے گا۔ وہ اس ڈیل کو ’کشمیر کی مرکزیت‘ میں رکھنا چاہتے تھے، مگر بھارت کشمیر پر کچھ بھی لچک پیدا کرنے کو تیار نہ تھا۔
اس گواہی میں ایک المیہ پوشیدہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت ۵؍ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کو بے رحمی سے ختم کرچکا تھا اور ۸۰ ہزار افراد کو جانوروں کی طرح لاک ڈائون کے ذریعے گھروں میں قیدی بناکر رکھا گیا تھا۔ ان سے جدید ذرائع ابلاغ سمیت ہر سہولت چھین لی گئی تھی اور ان کی مساجد اور درگاہوں پر تالے چڑھا دیے گئے تھے۔ سید علی گیلانی جیسے مقبول قائد کے جنازے کو رات کی تاریکی میں گھر سے اُٹھایا جارہا تھا اور خواتین سے چھین کر کسمپرسی کے عالم میں پیوندِ خاک کیا جارہاتھا۔ اشرف صحرائی جیسے دلیر لیڈروں کو سلو پوائزننگ کے ذریعے جیل میں موت کی جانب دھکیلا جارہا تھا اور ان کے اہلِ خانہ کو اپنے مرحومین کے سرہانے پر آخری لمحوں میں کلمہ پڑھنے کے حق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ یاسین ملک کی بہنیں دہلی اور سری نگر کے درمیان بے بسی اور کرب کے عالم میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھیں، کیونکہ ان کا بھائی پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہا تھا اور اس کی صحت خراب سے خراب تر ہورہی تھی، اس کے باوجود ان بہنوں کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب نوجوانوں کو قتل کرکے آبائی قبرستانوں کے بجائے سیکڑوں کلومیٹر دُور ویرانوں اور جنگلوں میں مٹی میں دبایا جاتا تھا، اور یہ اہلِ خانہ کو مستقل طور پر ایک نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرنے اور ذہنی ٹارچر کی ایک شکل تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت کشمیرکی شناخت اور تشخص بدلنے کے لیے نازی جرمنی طرز کے قوانین متعارف کرا رہا تھا۔ کشمیر کی تقدیر دہلی میں امیت شا اور اجیت دووال کے دفتروں میں لکھی جارہی تھی۔ خطرے کی سطح اس قدر بلند تھی کہ خود بھارت نواز سیاست دان بھی پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے پلیٹ فارم سے بھارت کے اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انھی لمحوں میں سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی کا یہ جملہ مشہور ہوا تھا کہ ’’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی‘‘۔ ایسی ’کشمیر ڈیل‘کے اندر مستقل خرابی یہی ہے کہ اس میں کشمیر کہیں نہیں ہوتا۔
یوں لگ رہا ہے کہ اب کی بار بھارت کا یہ فیصلہ یک طرفہ نہیں تھا۔ اس کھیل کا آغاز عمران خان اور جنرل باجوہ کے بیک وقت امریکا کے دورے سے ہوا تھا۔ عمران خان بڑے جلسوں سے خطاب کرتے اور ٹرمپ کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے، جب کہ عین انھی لمحوں میں جنرل باجوہ ’سینٹ کام‘ میں امریکی فوج کے شاہانہ اور پُرتپاک استقبال اور سلامی کا لطف لیتے رہے۔ وائٹ ہاؤس میں محض گپ شپ جاری رہی،جب کہ ’سینٹ کام‘ میں اصل فیصلے ہوگئے تھے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’نریندر مودی نے مجھ سے کشمیر پر کردار ادا کرنے کو کہا تھا‘‘۔ یہ حقیقت میں امریکا کو ۵؍ اگست کے فیصلے پر اعتماد میں لینے اور پاکستان کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے کی درخواست تھی۔ اس کھیل میں بعض عرب ممالک اور سرمایہ دار شریک تھے، جنھیں بھارت نے یہ جھانسہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے مقامی قوانین اور تشخص کی موجودگی میں بھارت بے بس ہے، وہ نہ تو عرب سرمایہ داروں کی کشمیر میں کوئی مدد کرسکتا ہے نہ اپنے طور پر انھیں وہاں رسائی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے کشمیر کا تشخص ختم کرنا ہوگا، تاکہ قانونی پوزیشن بدل جانے کے بعد بھارت اپنے بل بوتے پر عرب سرمایہ داروں کو کشمیر تک رسائی دے سکے۔ مغربی ملکوں کو بھی یہی جھانسہ دیا گیا، اور یوں خاموش بین الاقوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد بھارت نے یہ فیصلہ لیا تھا۔
۵؍ اگست کے فیصلے کے خلاف آزادکشمیر سے کسی صدائے احتجاج کو بلند ہونے سے روکنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر کو منظر سے غائب کرکے امریکا پہنچا دیا گیا۔ ان بیس سال میں بھارت کو کشمیر کی آبادی کا تناسب اور تشخص تبدیل کرنے کی مہم میں کامیابی حاصل کرنا تھی، مگر پاکستان اس عمل پر زبانی کلامی رسمی احتجاج کے حق سے بھی دست بردار ہورہا تھا۔ یہ پسپائی کی بدترین شکل تھی جس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا بنیادی تصور ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرانے کے لیے پلان بنا رکھا ہے۔کچھ بھارتی حلقوں کا دعویٰ رہا ہے کہ شملہ میں غیر تحریری طور پر ذوالفقارعلی بھٹو یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنایا جائے گا۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں پہلی بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ اس مفاہمت میں کشمیر میں ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کیا جانا مقصود تھا۔ کنٹرول لائن کو نرم کرکے مستقل قرار دینا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اسی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے واجپائی لاہور آئے، مگر پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ نے اس کوشش کو کشمیر فروشی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد کرگل کی جنگ ہوئی اور سارا منظر بدل گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف حکومت کو برطرف کرکے عنان ِ حکومت سنبھالی اور وہ بھارت کے ساتھ پُراعتماد ہوکر مذاکرات کرتے رہے اور کشمیر کے مسئلے کو اولیت دینے کی بات پر کاربند رہے۔ ان کی کشمیر دوستی کا یہ دور آگرہ مذاکرات تک چلتا رہا، جہاں انھوں نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہ کرنے پر اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور واک آؤٹ کے انداز میں آگر ہ سے وطن واپس چلے آئے۔ مگر اگلے ہی برس وہ دوبارہ بھارت گئے، دہلی میں انھوں نے اپنے آبائی گھر نہروالی حویلی کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے آگرہ والے پرویزمشرف کو خداحافظ کہہ کر دہلی والا پرویزمشرف بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ کشمیر کو نظرانداز کرکے یا کنٹرول لائن کو نرم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدے کی راہ پر چل پڑے۔ یہ قریب قریب وہی تصور تھا جس کی آبیاری نوازشریف نے کی تھی، مگر وہ اس کوشش پر جنرل پرویزمشرف کے معتوب ٹھیرے تھے۔ اب جنرل پرویزمشرف یہی کام خود کررہے تھے، مگر وکلا تحریک نے عین اُس وقت جنرل پرویز کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں جب بقول خورشید محمود قصوری ’’ہم کشمیر پر معاہدے سے تین ماہ کی دُوری پر تھے‘‘۔
اب یوں لگتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکمران عمران خان نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دی اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کی یہ کوشش بھی بہت قریب پہنچ کر کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔