قرآن مجید میں ایک بہت ہی بنیادی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ اس علم سے کون سا علم مراد ہے اور اس کے حصول کے طریقے یا ذرائع کیا ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیںکہ دنیا میں علم کی وہ کون کون سی شاخیں ہیں، جوخشیت الٰہی کے اس مقام تک پہنچنے میں معاون ہیں؟ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس آیت قرآنی کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ قرآن کریم کی اُس آیت کا ترجمہ مع ماقبل آیت کے اس طرح ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے کئی طرح کے پھل نکال دیئے، جن کے رنگ جداگانہ ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸)۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں علم سے اللہ تعالیٰ، اس کی قدرت، اس کی تخلیقی عظمت اور اس کی عقل کو حیرت زدہ کرنے والی خلاقی فن کاری کی معرفت مراد ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لیے یا معرفت کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے قرآن کریم نے یہاں چند چیزوںکی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان میں سب سے اوّل بارش کا نظام ہے۔ قرآن نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ بارش کے نظام پر غور کرے اور اس کے پیچھے کارفرما اللہ کی قدرت کو سمجھے۔یہ خالصتاً سائنس بالخصوص جغرافیہ ، ماحولیاتی سائنس اور موسمیات (Meteorology) سے متعلق علم ہے۔ اگر پورے آبی چکر (Water Cycle) کا ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو قدرت کے نظام کی عظمت اور ہیبت مانے بغیر نہیں رہیں گے۔ پانی کس طرح زمین کی سطح، دریاؤں، تالابوں، سمندروں وغیرہ سے عمل تبخیر (Evaporation) کے ذریعے اور درختوں،پیڑ پودوں سے اخراجِ بخارات کے عمل (Transpiration) کے ذریعے بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور عمل تکثیف (Condensation) کے ذریعے بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر ہوا ان بادلوں کو دُور دراز کے پہاڑوں، میدانی علاقوں، دریاؤں اور سمندروں کے اُوپر بکھیردیتی ہے جہاں بارش ہوتی ہے اور دریاؤں و سمندروں کے ساتھ تراوش اور رساؤ (Percolation) کے ذریعے زمین کے اندر پانی کی سطح بنی رہتی ہے اورہم جہاں چاہیں وہاں سے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پاک و صاف پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ صاف پانی بڑی مقدار میں برف کی شکل میںپہاڑوں پر بھی جمع کردیا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے پگھل کر دریاؤں اور سمندروں کو زندہ رکھتا ہے اور زمینی سوتوں (Water Veins) کے ذریعے بھی دور دراز کے میدانی علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنی بڑی مقدار میں سمندر کے پانی کو مکمل طور پر صاف کرکے پہاڑوں پر جمع کرنے یا میدانی علاقوں تک پہنچانے کا یہ انتظام نہیں کرسکتی اور نہ زمین ہی کے اندر پانی کی سطح کو برقرار رکھ سکتی ہے، جو قدرت کی منصوبہ بندی سے خود بخود جاری ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف ان آیات نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ یہ ہے کہ بارش کا یہ پانی جب مختلف ذرائع سے خشک اور مردہ زمینوں تک پہنچ جاتا ہے تو پیڑ پودوں اور پھولوں و پھلوں سے وہ لہلہا اٹھتی ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہونے کے باوجود اس میں مختلف رنگوں اور اقسام کے پھول اور پھل نکلتے ہیں، جن کی خوشبو اور ذائقہ بھی جدا جدا ہوا کرتا ہے۔ انسان کیا سمجھتا ہے کہ یہ سب خود بخود ہورہا ہے؟ نہیں! بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، جو ذرا بھی گہرائی سے سوچنے سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ علم، نباتیات (Botany) اور زراعت (Agriculture) کے شعبے سے متعلق ہے۔
تیسری چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے، وہ پہاڑوں کی ساخت اور ان کی رنگت میں پایا جانے والا اختلاف ہے جو کہ جغرافیہ ، علم الارض (Earth Science) اور علم زمین شناسی (Geology) کا موضوع ہے۔ بعض پہاڑ سفید، بعض سرخ اور بعض بہت گہرے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض پہاڑ بالکل خشک، بنجر اور ویران ہوتے ہیں، جب کہ بعض پیڑ پودوں اور جنگلات سے سرسبزو شاداب۔ پھر اس پر بھی غور کیجیے کہ پہاڑوں سے کتنے اقسام کے نامیاتی (Biotic) اور غیر نامیاتی (Abiotic) قدرتی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔انھیں کس نے پہاڑوں میں جڑ دیا ہے؟ یہ بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کا مظہرہیں۔
چوتھی چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ انسان کی خود اپنی صورت اور جانوروں و مویشیوں کی ساخت اور ان کارنگ و روپ ہے۔ ان میں اتنا تنوع (Diversity) اور پیچیدگی (Complexity) ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو ایک درجے کے بعد انسان کا ذہن یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے۔ بشریات (Anthroplogy) ، حیاتیات (Biology) ، جینیات (Genetics) ، میڈیکل سائنس، بیطاریات (Veterinary Science) وغیرہ جن سے ان کا علم جڑا ہوا ہے، ان میں آئے دن نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ سائنس کی ہر تحقیق دراصل مخلوقات میں پنہاں اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو ہی منظر عام پر لارہی ہے۔
قرآن کی سورۂ روم آیت ۲۱ میں انسانوں میں رنگوں کے اختلاف کے ساتھ بول چال اور زبانوں کے اختلاف کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اتنی ساری زبانیں اور بولیاں (Dialects) انسان کو کس نے سکھائے؟ آج بھی ماہرین لسانیات (Linguists) بہت سی قدیم زبانوں کی تحریروں کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں،جو تاریخی تحقیق کی بنا پر کتبے یا مخطوطے کی شکل میں منظر عام پر آئی ہیں۔ پھر انسانی رویے کو سمجھنے سے متعلق علوم کے شعبے جیسے نفسیات، عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔
اسی طرح قرآن دیگر آیات (جیسے انعام: ۹۶، الاعراف: ۵۴، یونس: ۵، الرعد: ۲، النحل: ۱۲، الانبیاء: ۳۳، الحج: ۱۸، العنکبوت: ۶۱، لقمان: ۲۹، فاطر: ۱۳، یٰسین: ۴۰ وغیرہ) میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی طرف بھی مبذول کراتا ہے اور ان کی ساخت، ان کی حرکات و سکنات، ان کے مدار، مدار میں ان کی رفتار،اور ان کے درمیان قائم توازن پر بھی غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ وہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت و منصوبہ بندی کو سمجھ کر اس کو پہچانے۔ یہ پوری کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ کی آئینہ دار ہے۔ اس کی تمام چیزیں پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن ان کی پکار سننے اور سمجھنے کے لیے کامل علم (Perfect Knowledge) اور صحیح فکر (Judicious Thought) چاہیے۔ آدھے ادھورے علم سے معرفت کا یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا!
قرآن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (حٰمٓ سجدۃ ۳۲: ۵۳)’’عنقریب ہم انھیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ (قرآن) بالکل حق ہے‘‘۔
اس کائنات میں قدرت کی نشانیاں سب سے پہلے اور بہ آسانی کس کو سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے کسی عالم تکوینیات (Cosmologist)یا عالم فلکی طبیعات (Astrophysicist)کو۔ کہکشاؤں (Galaxies) اور بلیک ہولز (Black Holes) کو دیکھ دیکھ کر آج کون حیران و پریشان اور حواس باختہ ہے؟ ظاہر ہے ماہرین فلکیات (Astronomers) ! سائنس در حقیقت اس کائنات میں موجود قدرت کی نشانیوں کی پرتیں ہی کھول رہی ہے۔اسی طرح اپنے وجود کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں کس کو بہتر طور پر سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے علم تشریح الابدان (Anatomy) ، علم افعال الاعضاء (Physiology) یا علم النفس (Psychology) کے کسی ماہر کو ، شرط یہ ہے کہ وہ ایمان داری سے ان پر غور و فکر کرے یا اس کی صحیح ڈھنگ سے رہنمائی کی جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر علم کے تمام شعبوں کے اسلامائزیشن (Islamization) کی ضرورت ہے۔ایسا شخص جو قدرت کے نظام اور اس کی مخلوقات میں صحیح منہج پر غور و فکر کرے گا ، وہ ملحد تو نہیں رہے گا۔
واضح رہے کہ قرآن کریم مختلف علوم و فنون کے درمیان تفریق نہیں کرتا، برخلاف اس کے ہر اس علم کی طرف انسان کی توجہ مبذول کراتا ہے بلکہ ان پر تحقیق کی دعوت دیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف لے جائے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علما سے یہاں روایتی یا اصطلاحی علما ہی مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ بھی مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت رکھتے ہوں، گو ان کا تعلق سائنسی علوم کے کسی شعبے سے ہی ہو۔ جو جتنی اللہ کی معرفت رکھتا ہے، اتنا ہی اس سے ڈرتا ہے۔ عبادات کا حقیقی لطف بھی ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے ، اس کی پیدا کردہ چیزوں کو ہی اس کا شریک ٹھیراتے ہیں، اس کے احکام سے رُوگردانی کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ، وہ درحقیقت اللہ کی صحیح معرفت نہیں رکھتے۔
خیال رہے کہ قوانین شریعت کا علم اور چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شے! شریعت کا علم رکھنے والے بہت سے افراد بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت نہیں رکھتے، نتیجتاً خوف خدا سے عاری اور اس کی حکم عدولیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو معرفت خداوندی میں کامل اور خشیت الٰہی سے لبریز ہوتے ہیں لیکن شریعت کا بہت علم نہیں رکھتے۔
دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق (سائنس داں) چرچ میںعبادت کے لیے جارہا ہے، یہ کیا؟ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں سائنس کے انکشافات اور نوبنو حقائق نے مذہب کو تعلیمی حلقوں سے باہر نکال دیا تھا اور تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے نام سے بیزار ہوچکا تھا۔ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمزلمحہ بھر کے لیے رُک گئے اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: ’’آج شام کو چائے میرے ساتھ پیئو۔‘‘ میں شام کے وقت ان کی رہایش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک چاربجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں ، ’’سر جیمز تمھارے منتظر ہیں‘‘۔اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے ’’تمھارا سوال کیا تھا؟‘‘ اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اجرامِ آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام ، لرزہ فگن پنہائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفاصیل پیش کیں کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کی اس داستان کبریا و جبروت سے دہلنے لگا اور ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے ، آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے: ’’عنایت اللہ خان! جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر ایک سرسری سی نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے تصور و جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ’’تو بہت عظیم ہے، تو بہت بڑا ہے‘‘ تو میری ہستی کا ہر ہر ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے، مجھے بے حد سکون و سرور نصیب ہوتا ہے اور ان سجدوں کے بعد میں کچھ ہلکا سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ عام لوگوں کی صرف زبان نماز پڑھتی ہے اور میری ہستی کا ہر ہر ذرہ محو تسبیح و تمجید ہوجاتا ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت ہزار گنا زیادہ کیف نماز میں ملتا ہے۔ کہو تمھاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے میں کیوں جاتا ہوں؟‘‘
میں نے کہا: ’’جناب والا ، میں آپ کی روح افروز تفاصیل سے بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یاد آگئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟ ‘‘ فرمایا: ’’ضرور ‘‘۔ چنانچہ میں نے آیت پڑھی: وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸) [پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعات ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔]
یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے: ’’کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ حیرت انگیز ! بہت عجیب! یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمدؐ کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمدؐ کو یہ عظیم حقیقت خود بخود کبھی معلوم نہیں ہوسکتی تھی، انھیں یقینا اللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب! ‘‘ اور سر جیمز کئی منٹ تک اس آیت پہ سر دھنتے رہے اور محمد عربی علیہ السلام کی خدمت اقدس میںخراج عقیدت پیش کرتے رہے‘‘۔ (ماہنامہ نقوش، لاہور، شخصیات نمبر۲، اکتوبر ۱۹۵۶ء، صفحات ۱۲۰۸۔۱۲۰۹)۔یہ واقعہ محض ایک مثال ہے۔ پروفیسر جیمزنے اپنے علم، مشاہدے، تجربات اور تفکرات سے اللہ کو پہچان لیا۔
اسی طرح مسلمانوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ سائنس کے ایسے عالموں کو حکمت کے ساتھ انھی کے سائنسی اسلوب میں بھی دین کی دعوت دیتے اور انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی پہچان کراتے، لیکن مسلمانوں نے اس کام پر توجہ نہیں دی بلکہ روایتی علما کے ایک بڑے طبقے نے سائنس پڑھنے والوں کو جاہل سمجھا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس طرح علما نے سائنس سے وابستہ ایک بڑے حلقے کے یہاں اپنے داخلے کا راستہ ہی بند کرالیا اور دعوت کے متوقع مواقع گنوا دیئے۔ چنانچہ دونوں ہی طبقے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ مسلمانوں کی تمام تر توجہ روایتی علوم کی طرف ہی مرکوز رہی الا ماشاء اللہ اور سائنس کے میدان میں ہم کافی پیچھے رہ گئے۔ سائنس کی افادیت سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان بالخصوص روایتی علما سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائیں ، اگرچہ پہلے کے مقابلے میں اس معاملے میںبہت نمایاں فرق واقع بھی ہوا ہے۔ مسلم ماہرین سائنس کو بھی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث سے اپنا تعلق جوڑیں ، دعوتی فکر اختیار کریں اور اپنے اپنے شعبے کے علم کو اسلامائز کرکے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنیں