پچھلے ۳۰برسوں کے دوران جموں و کشمیر کی شورش میں ۲۵۰ کے قریب پنڈتوں کی ہلاکت کےلیے ۲۰۲۲ءمیں بنی ایک فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو پوری دنیا میں معتوب و مغضوب بنانے اور مزاحمتی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بعد آخرکار سچ پھوٹ ہی پڑا۔ پچھلے ہفتے جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا نے ہی بھارتی عوام سے اپیل کی کہ ’’خطے میں اقلیتی افراد کی ہلاکت کو مذہب کی عینک سے دیکھنا بند کردیں ، کیونکہ اس شورش زدہ خطے میں دوسری برادریوں [یعنی مسلمانوں]کے لوگ بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں‘‘۔ میڈیا اور دیگر ذرائع کے مطابق۱۵ ہزار ۶سو ۹۶ ؍ افراد اور سرکاری ذرائع کے مطابق ۴۰ہزار افراد ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک کشمیر میں ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد مقامی مسلمانوں کی ہے ۔
اسی دوران خطے کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور ان کے نائب وجے کمار نے سال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سال ۲۰۲۲ء سیکورٹی کے محاذ پر پچھلے چار برسوں کے مقابلے میں پُرامن سال تھا جس میں ۵۶غیر ملکیوں سمیت ۱۸۶ عسکریت پسندوں کو مارا گیا‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ سال ۲۰۲۳ءمیں پولیس کی توجہ دہشت گردی ختم کرنے پر مرکوز ہوگی، یعنی سیاسی جماعتوں اور سویلین آبادی میں مزاحمتی تحریک کے حمایتی یا سرکردہ افراد کو تختۂ مشق بنایا جائے گا ۔ جس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ سنگھ کے مطابق پچھلے سال پولیس نے ۵۵گاڑیاں اور ۴۹ جائیدادیں ضبط کیں، کیونکہ ان کے مالکان علیحدگی پسندی کو شہ دیتے تھے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سال ۲۰۲۲ء میں ۱۰۰ نوجوانوں نے عسکریت میں شمولیت اختیار کی، جن میں سے ۱۷ کو گرفتار کیا گیا اور باقی مختلف مقابلوں میں مارے گئے ۔ اب صرف ۱۸ باقی ہیں ۔ اب اگر ان سے کوئی پوچھے کہ ان ۱۸عسکریت پسندوں سے نپٹنے کےلیے فوج کی دو کورز، نیم فوجی دستوں کی سیکڑوں بٹالین اور پولیس کی ہزاروں کی تعداد میں نفری کی آخر کیاضرورت ہے؟ لیگل فورم فار کشمیر کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں نیم فوجی دستوں کی مزید۳۰۰کمپنیاں اور پھر مئی میں مزید ۱۵۰۰فوجی کشمیر میں تعینات کیے گئے ۔ اس نئی تعیناتی کی بھی پھر کیوں ضرورت پیش آئی؟
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، کچھ غلط نہیں ہے ۔ مگر یہ قبرستان کی پُراسرار خاموشی جیسی ہے ۔ خود بھار ت کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری یا نااُمیدی؟ آیا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟
’لیگل فورم فار کشمیر‘ کے سال ۲۰۲۲ء کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے دوران خطے میں ۳۱۲ ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں ۱۸۱عسکریت پسند، ۴۵شہری اور ۸۶سیکورٹی کے افراد شامل ہیں ۔ ان ۱۲ماہ کے دوران سیکورٹی دستوں نے ۱۹۹سرچ آپریشن کیے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم کے ۱۱۶واقعات پیش آئے ۔ ان سرچ آپریشنز کے دوران ۲۱۲شہری جائیدادوں کو تختۂ مشق بنایا گیا ۔ اسی طرح سال میں ۱۶۹ بار انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنبیہ کے باوجود جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی میں عسکریت سے نپٹنے کےلیے سویلین ملیشیا ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیا کیا گیا ۔ اس میں ہندو آبادی کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کےلیے اس ملیشیا کے خلاف ۲۱۲ فوجداری مقدمات درج ہیں ۔ حالانکہ ۲۰۱۲ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے سول افراد کو مسلح کرنے اور شورش سے نمٹنے کے لیے انھیں ہراول دفاعی دستوں کے طورپراستعما ل کرنے پر پابندی لگائی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا استدلال تھا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرناحکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے اورسکیورٹی کی نج کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد صادر کیا، جس میں وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک سویلین آرمی ’سلواجدوم‘ کے وجود کوچیلنج کیا گیا تھا ۔ اس آرمی نے شورش سے نمٹنے کے نام پر مقامی آبادی کو ہراساں اور پریشان کر رکھا تھا ۔
لیگل فورم کی رپورٹ کے مطابق ۱۹؍اکتوبر کو سیکورٹی دستوں نے ایک نوجوان عمران بشیر کو شوپیاں علاقہ میں اس کے گاؤں ہرمین سے گرفتار کیا ۔ اس پر عسکریت پسندوں کی معاونت کا الزا م تھا ۔ آج کل سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک ٹرم ’ہائبرڈ ملی ٹنٹ‘ وضع کی ہے، یعنی وہ عسکریت پسند جس کے پاس ہتھیار نہ ہوں ۔ پولیس نے بعد میں بتایا کہ عمران نوگام میں تصادم کے دوران مارا گیا، جو اس کے گھر سے ۱۵کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔ گویا حراست میں لینے کے بعد اس کوہلاک کیا گیا ۔ اسی طرح ۹ جولائی کی صبح کو سرینگر کے ایک رہائشی مسلم منیر لون کو حراست میں لیا گیا ۔ دوپہر کو اس کی لاش اس کی والدہ شفیقہ کے حوالے کی گئی ۔ لیگل فورم کے مطابق اس سال کے دوران سیکورٹی دستوں کا خصوصی نشانہ سویلین جائیدادیں رہیں ۔ بلڈوزروں کا استعمال یا اگر کسی مکان میں کسی عسکریت پسند کی موجودگی کا شک ہو، تو اس کو پوری طرح تباہ کرنا اس نئی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اور جنیوا کنونشن کی کئی دفعات کے تحت سویلین جائیدادوں کو تحفظ حاصل ہے ۔ حریت کانفرنس کے معروف لیڈر شبیر احمد شاہ، جو خود جیل میں ہیں کی رہایش گا ہ کو سیل کردیا گیا ۔ ان کے اہل خانہ کو دس دن کے نوٹس پر مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا ۔ جماعت اسلامی ، جس پر پابندی لگائی گئی ہے، کی جائیدادوں، جن میں اسکول، دفاتر اور اس کے کئی لیڈروں کی رہایش گاہیں شامل ہیں ، کو سیل کر نے کا عمل متواتر جاری ہے ۔
اپریل میں قومی تفتیشی ایجنسی نے ایک اسکالر عبدل اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے اس کے دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر لکھے آرٹیکل کا حوالہ دے کر اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ ایک قابل احترام پروفیسر شیخ شوکت حسین کو یونی ورسٹی سے صرف اس لیے برطرف کیاگیا کیونکہ ۲۰۱۶ء میں انھوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی ۔ جن دیگر اسکالروں کو نوکریوں سے نکالا گیا ان میں ڈاکٹر مبین احمد بٹ اور ڈاکٹر ماجد حسین قادری بھی شامل ہیں۔
عام بھارتیوں کو جموں و کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ڈومیسائل حاصل کرنے کے اختیار سے پیدا شدہ صورت حال سے پریشان سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی چیخ اُٹھی ہیں ۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اوربیگانگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق اب بس صرف ان منتخب شہریوں کو عطا کیے جا رہے ہیں ، جو نئی دہلی حکومت کی صف میں شامل ہیں ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق من مانی طور پر معطل کیے گئے ہیں اور خطے کو الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ سیکڑوں نوجوان جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بند ہیں ۔ ان کی حالت نہایت خراب ہے ۔ فہد شاہ اور سجاد گل جیسے صحافیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قید رکھا گیا ہے ۔
محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی عدلیہ کے رویے کی شکایت کی ہے: ’’میری بیٹی کی طرف سے ۲۰۱۹ء میں دائر کردہ اپنے حبس بے جا کیس میں ، سپریم کورٹ کو میری رہائی کا حکم دینے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا، جب کہ مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا ۔ میری بیٹی التجا کے علاوہ اور میرا پاسپورٹ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک لیا گیا ہے ۔ میں نے یہ مثالیں صرف اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ اگر سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرے اپنے بنیادی حقوق کو اتنی آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے تو آپ کشمیر میں عام لوگوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ‘‘۔
دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ہی ریاست میں جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے تھے ۔ لیکن اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے ۔ اسی طرح سے صرف مستقل رہایشی ہی جموں وکشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار کے بطور انتخابات لڑسکتے تھے ۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اب کوئی بھی شخص جو کشمیر میں پچھلے ۱۵سال سے مقیم ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد ۱۰سال ہے، جب کہ کسی طالب علم کو سات سال بعد ہی ڈومیسائل مل سکتا ہے ۔ یعنی اگر بھار ت کے کسی بھی خطے کا کوئی طالب علم کشمیر کے کالج یا یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے، تو وہ بھی ڈومیسائل کا حق دار ہوگا ۔
اس سب سے بھارتی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایک بڑا سوال ہے ۔ کشمیر میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ضرور ہیں لیکن بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی پہلے سے ہی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے ۔ کسی سیاسی عمل کی غیر موجودگی میں یا اعتماد بحال کیے بغیر اور عوام کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے سے قبرستان کی خاموشی ہی پیدا کی جاسکتی ہے، امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔
بھارت میں کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے نام سے ملک کے انتہائی جنوبی سرے بحر ہند کے ساحل پر کنیا کماری سے جو مارچ ۷ستمبر ۲۰۲۲ء کو شروع کیا تھا، وہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی آخری منزل جموں و کشمیر کا دارالحکومت سرینگر قرار دی گئی ہے۔
۱۹۸۳ءمیں جب پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک عروج پر تھی، تو جنتا پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر نے اسی طرح کنیا کماری سے دہلی تک چھ ماہ تک مارچ کیا۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے اس مارچ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف عوامی ماحول بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی، مگر ان کی ہلاکت نے پانسہ پلٹ دیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی کی قیادت میں ہمدردی کا ووٹ بٹور کر کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔
مگر موجودہ دور میں جس یاترانے بھارتی سیاست پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں بی جے پی کے لیڈر لال کشن ایڈوانی کی ”رتھ یاترا“ہے، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوتوا نظریہ کے احیا کے لیے شروع کی گئی تھی۔ دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ایڈوانی کے لیے ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ رتھ تیار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی مسماری،بی جے پی کا سیاسی عروج اور اس کا اقتدار تک پہنچنا اسی یاترا کا ’پھل‘ ہے۔
ایڈوانی کی اس یاترا کے بعد ان کے جانشین مرلی منوہر جوشی نے ۱۹۹۱ء میں ’ایکتا یاترا‘ کے نام سے کنیا کماری سے کشمیر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس یاترا کے منتظم نریندر مودی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ’رتھ یاترا‘ کی وجہ سے ایڈوانی اور اس کے منتظم پر مودمہاجن کا پروفائل کافی اُونچا ہوگیا تھا، اس لیے پارٹی کی اندرونی چپقلش کے شاخسانہ کے بطور جوشی اور مودی نے بالترتیب ایڈوانی اور مہاجن کے قد کی برابری کرنے کے لیے یہ یاتراترتیب دی تھی۔ اس سفر کے دوران جوشی دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’میرے پاس کشمیر ی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے زیادہ رضا کار ہیں اور میں ان سب کے ساتھ سرینگر کے لال چوک میں بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی ۲۶ جنوری، ۱۹۹۳ءکو قومی پرچم ترنگا لہرائوں گا‘‘۔ مگر جب وہ سرینگر پہنچے، تو ان کے ساتھ صرف ۶۷کارکنان ہی تھے، اور تقریب بھی بس ۱۲منٹ میں ختم کرنی پڑی۔ زمینی سفر کے بجائے جوشی اور ان کے رفقا جموں سے ایر فورس کے اے این ۳۲ طیارہ میں رات کے اندھیرے میں سرینگر پہنچے اور ان کو ایر پورٹ کے پاس ہی بارڈر سیکورٹی فورس کے میس میں ٹھیرایا گیا۔
اس سے دو دن قبل یعنی ۲۴جنوری [۱۹۹۳ء] کو سرینگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں جب اس یاترا کے انتظام کے حوالے سے پولیس سربراہ جے این سکسینہ دیگر حکام کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، تو اسی کمرے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔ سکسینہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ۲۳جنوری کو پنجاب سے گزرتے ہوئے اس قافلہ پر حملہ ہوا، جس سے جموں تک پہنچتے پہنچے اس یاترا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ گورنر گریش چند سکسینہ نے بی جے پی کے لیڈروں کو بتایا کہ اگر وہ بذریعہ سڑک کشمیر جانے پر بضد ہیں، تو و ہ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں اورپوری قومی شاہراہ کو فوج کے حوالے کر سکتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگلے روز ادھم پور سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بی ایل نمیش نے شاہرائوں پر لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ بیان کرکے قافلے کو روک دیا اور اس یاترا کے منتظم مودی نے شامل افراد کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر راجستھان کے ایک ممبر اسمبلی تارا بھنڈاری اس قدر بدکے کہ انھوں نے الزام لگایا کہ ’’ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور آخر اس جگہ تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
شمالی بھارت کے اکثر شہروں میں اس یاترا کی رپرٹنگ کرتے ہوئے مجھے ادراک ہوا کہ شاید ہی کسی کو پتہ تھا کہ اس کا موضوع کشمیر ہے، اکثر افراد اس کو رام مندر تحریک کا ہی ایک جز تصور کر رہے تھے۔انتہائی سیکورٹی کے درمیان جب جوشی کا قافلہ سرینگر کے لال چوک میں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ جو جھنڈا کنیا کماری سے بطور خاص اس جگہ پر نصب کرنے کے لیے ساتھ تھا، وہ جموں میں بھول گئے یا پھر طیارہ میں ہی رہ گیا ہے۔ خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا، مگر وہ اس کو لگا نہیں پارہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھورانہ نے لقمہ دیا کہ ’’عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں‘‘۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انھوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔
راہول گاندھی کی یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہول گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے میں نرم ہندو توا کے علَم بردار بن گئے تھے۔ اس لیے ان کو بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم سے بھی تشبیہہ دی جاتی تھی۔ مگر اس مارچ کے دوران پارٹی کواَز سرِ نو منظم کرنے کے علاوہ راہول نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ’ہندوتوا‘ نظریے کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی ۲۰۲۳ء میں بھارت کی گروپ ۲۰ممالک یعنی جی ۲۰کی صدارت، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اسکو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنے کو اہم انتخابی موضوع بنارہی ہے۔اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر ذمہ داروں نے بھی راہول گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمران اور اس کے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت ان کی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتخابات تک آئے دن ہندوؤں کو یاد دلایا جائے گا کہ ’’اس ملک کو مسلمان حملہ آوروں نے زخم لگائے ہیں‘‘، پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہوں گے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائیں۔