قرآن کریم انسانوں کو سمجھانے کے لیے اکثر روز مرہ کی مثالوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ، وہ اس عظیم ہدایت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی نگاہوں اور عقل و فہم کا استعمال کرکے قرآن کریم کی تعلیمات کو بچشم سر خود دیکھ سکے ۔
قرآن کریم ایک بظاہر بنجر وادی کی مثال بیان فرماتا ہے، جہاں آس پاس کہیں بھی سبزہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہلکی سی بارش اس وادی کو سر سبز و شاداب کر دیتی ہے، اور وہ انسانی عقل جو کل تک اس وادی کے ویرانے کو حقیقت سمجھ رہی تھی، خود دیکھ سکتی ہے کہ وہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے کراچی تحریک اسلامی کی پہچان رہا ہے، اور جماعت اسلامی کے زیرانتظام بلدیاتی انتظامیہ کے اَدوار میں کراچی کے شہریوں نے دیکھا کہ تحریکی افراد کس طرح ایمان داری کے ساتھ عوام کی بہتری کے لیے شہر کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے اسباب سے خصوصاً شہرکراچی ایک دہشت گرد جماعت اور دوسری سیاسی مکر کی ماہر جماعت کے زیر اثر آجانے کے بعد سے جماعت اسلامی کے اثر اور مقبولیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی، اورا بلاغ عامہ نے خصوصاً اس تاثر کو گہرا کر دیا کہ ملکی سطح پر اب جماعت کا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ جماعت جو دوحکمرانی کرنے والے ٹولوں کے بعد تیسری طاقت شمار ہوتی تھی ، اسے صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ نے مکمل طور پر محو کر دیا۔
انھی حالات میں ربِّ کریم نے اپنے ابدی اصولوں کے پیش نظر ایک بار پھر قوم کو یہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا کہ خلوص ، خوفِ الٰہی اور صبر و استقامت کو اختیار کیا جائے، تو جسے کل کمزور سمجھا گیا تھا اسے ربِّ کریم نے قوی کیا اور سرفراز کر دیا:
یاد کرو وہ وقت، جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا ، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا ، شائد کہ تم شکر گزار بنو۔ (الانفال۸:۲۶)
اس آیت مبارکہ کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ابھی ابھی نازل ہوئی ہے ۔
کراچی میں حالیہ کامیابی کے موقعے پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کل تک تحریکی کارکنوں سے گفتگو میں جو مایوسی اور نااُمیدی محسوس کی جا رہی تھی، ربِّ کریم نے انھی کارکنوں کے عزم ، ہمت ، جوش، اللہ پر توکّل او رخلوص کے ساتھ کی گئی کوششوں کو قبول فرمایا اور اپنی نصرت اور انتخابی کامیابی سے سرفراز کیا۔ کراچی میں تحریکی قیادت کو توفیق دی کہ وہ صحیح حکمت عملی وضع کرے اور کارکنوں کو حوصلہ دیا کہ وہ باد مخالف کا مقابلہ ایمانی اور عقابی روح کے ساتھ کریں اور کم تعداد اور محدود وسائل کے باوجود اپنے رب سے نصرت کے طالب رہیں ۔
سورۂ انفال میں ایک دوسرے مقام پر رب کریم فرماتے ہیں:
اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔(الانفال ۸:۶۴)
یہاں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد کو صبر و استقامت کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ ہم عموماً ’صبر‘ کا مفہوم ایک منفی زاویے سے اپنے آپ کو روکے رکھنے یا قابو میں رکھنے کا لیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم اس اصطلاح کو وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے ۔
یہاں پر خصوصاً ’صابرون‘سے مراد وہ مجاہدین ہیں، جو ربِّ کریم پر ایمان و اعتماد کے ساتھ اپنی جان اور مال بلکہ سارے وجود کے ساتھ نامساعد حالات سے ٹکرانے اور انھیں زیر کرنے کے لیے اپنی ساری قوت کو بروئے کار لانے والے ہوں ۔ یہاں ’صبر‘ سے مراد استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنا اور ثابت قدمی سے جم جانا ہے اور ایک عزیمت کی مثال قائم کرنا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے:
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)
یہاں تین بنیادی ہدایات انتہائی قابل غور ہیں:
کراچی کے انتخابات کے نتائج نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ جب بھی اللہ کی رضا کے لیے خلوص اور دعوتی غرض سے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت عملی بنائی جائے گی ، کارکنوں کو مشاورت میں شامل کیا جائے گا، اور ا نھیں متحرک اور پُرامید کیا جائے گا، توربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔غیبی نصرت ہر قدم پر مددگار ہوگی۔ لیکن یہاں پر سب سے بنیادی بات جو قرآن و سنت اور اسوئہ حسنہؐ سے معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب کامیابی سامنے ہو تو فخر و تکبر کی جگہ عاجزی اور شکر کے ساتھ استغفار کرنا لازمی ہے۔ جدوجہد کتنے ہی خلوص سے ہو، ہدایات پر کتنی بھی شدت سے عمل کیا جائے، لیکن اس سب کے باوجود انسانی کاوش میں کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (النصر۱۱۰: ۱-۳)
کامیابی حاصل ہونے پر کامیابی دینے والے کا شکر نہ صرف واجب ہے بلکہ کامیابی کو برقرار رکھنے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا بھی واجب ہے ۔ اس حکمت عملی کا آغازربِّ کریم کے شکر و نفل کے اعتراف ، اس کی حمد و ذکر اور تسبیح میں اضافے کے ساتھ ، اس کے حضور عاجزی اور انکسار سے اپنی بندگی کا اظہار، اور اس کے بندوں کی خدمت میں مزید اضافے کی کوشش بھی فرض ہوجاتی ہے۔
کامیابی کے حصول کے ساتھ ضروری ہے کہ بلا تاخیر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہاں پر تمام کوششوں کے باوجود کیا کمزوری رہ گئی، جس کی وجہ سے مکمل ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ تجزیے اور احتسابِ نفس کی ضرورت ہے، نیز اپنا اور اپنے تمام اقدامات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ جن مسائل اور اُمور کو بنیاد بنا کر مہم چلائی گئی، ان اُمور کے ماہرین کو جمع کر کے حد سے حد ایک ماہ میں ایسا منصوبہ بنایا جائے، جو قابلِ عمل ہو اور کم سے کم وقت میں نافذ کیا جاسکے ۔ جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی تکمیل میں جو رکاوٹیں ہیں، ان سے عوام کو مکمل طور باخبر رکھا جائے اور ان کے مشوروں کو بھی شامل کیا جائے۔
جن حضرات نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے، ان سے فرداً فرداً رابطہ قائم کیا جائے اور انھیں مشاورت میں شامل کیا جائے۔ جن حضرات نے تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،انھیں تحریکی لٹریچر فراہم کیا جائے اور علمی و فکری مجالس کا انتظام کیا جائے۔ہر یونین کونسل میں صاحب الرائے حضرات سے الگ الگ مل کر ان کی تجاویز کو یکجا کیا جائے اور ان تجاویز پر غور کیا جائے ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات میں عہد، عقد اور وعدے کو پورا کرنے پر بہت متوجہ فرماتے ہیں۔ عوامی مہم میں عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں، انھیں بہ تدریج پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کے پورے ہونے کے مدارج سے عوام کو مطلع رکھا جائے۔
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ صوبہ سندھ میں جاگیردارانہ سوچ کی حامل برس ہا برس سے حکمران پارٹی، جوڑ توڑ یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کرے، لیکن ایسے تمام منفی ہتھکنڈوں کا جواب صبر، حکمت اور اعتدال سے دینا ہوگا۔ معمولی سی بھی بے اعتدالی مخالف سیاسی قوت کے شرپسندانہ اقدامات کے لیے دروازے کھول دیا کرتی ہے۔
اس بات کو کون بھول سکتا ہے کہ ۱۹۸۶ء سے لے کر آج تک کراچی میں تحریک ِ اسلامی کے جوانوں اور بزرگوں نے اپنے مستقبل، اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دے کر حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی اور جبروتشدد کے بدترین دور میں بھی ثابت قدمی، خیرخواہی اور اسلامی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ ایک ایک دن میں تین تین کارکنوں کے جنازے اُٹھائے لیکن اشتعال کے بجائے، اللہ کریم ہی سے صبر،مدد اور سہارا مانگا۔ یہ تمام شہدا اور ان کے پسماندگان اس کامیابی کے وارث ہیں اور تحریک اسلامی کے کارکن ان قربانیوں کے امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ اسی کی توفیق سے ایک کمزور بندہ کامیابی تک پہنچتا ہے اور اسی کےکرم اور رزاقی سے ہمیں رزق ملتا ہے، جس سے ہمارا وجود وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔