مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی کا کوئی پہلو بھی حکمران جماعت بی جے پی کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آغاز سے نسل پرست بھارتی حکومت، کشمیر کا آبادیاتی تناسب بدل کر کشمیری مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیری ثقافت، زبان، مذہبی شناخت، غرض زندگی کا ہر پہلو نئی دہلی حکومت کی جانب سے منظم حملوں کی زد میں ہے۔
لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کی زمین چھین کر باہر سے آنے والوں کو دی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ خاموش ہیں اور صحافی قید کاٹ رہے ہیں۔ انھیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں،ماورائے عدالت قتل اور حراستی تشدد عام ہے، کل جماعتی حُریت کانفرنس کی ساری قیادت جیل میں ہے، لیکن ہندستانی سرکار کو دُنیابھر میں کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی میں مزید فوجیں بھیج دی گئی ہیں۔
کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔لیکن پھر بھی اس صورتِ حال کے سامنے وہ تمام ممالک، ایک بے حس دیوار کی مانند خاموش ہیں، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علَم بردار کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف ان مظالم کے خلاف پاکستان کی بین الاقوامی مہم کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ہم اپنے اندرونی مسائل میں ہی اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ کشمیر کے مظلوموں کے لیے وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر سے متعلق اسلام آباد کی ساری کوششیں اب صرف اقوام متحدہ کو خط لکھنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
اگرچہ مقبوضہ وادی کی داستان خونچکاں سات عشروں پر محیط ہے لیکن ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی سرکار کی یک طرفہ کارروائی نے مظالم کا ایک نیا باب شروع کیا ہے، جو کشمیریوں کے خون سے لکھا جا رہا ہے۔ بھارتی سرکار نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کو ہندستان میں ضم کر کے اس کے دو ٹکڑے کیے اور انھیں زبردستی ہندستانی یونین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ساری کارروائی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ قراردادوں کی صریح طور پر خلاف ورزی ہے۔ کشمیر سے متعلق اب تک ۱۱ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں، لیکن خصوصی طور پر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۳۸ قابل ذکر ہے، جس کے پیرا نمبر ۲ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فریق کشمیر کے مادی (material) حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔
اس سب کے باوجود کشمیر میں ایک طویل کرفیو نافذ کر کے مواصلات کا نظام معطل کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت تر ہو گیا، عوامی اجتماعات پر پابندی لگ گئی،میڈیا کو خاموش کروا کر بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں سمیت تمام کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ کشمیری اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر سکیں، جس نے بیک جنبش قلم ان کو تمام تر حقوق سے محروم کر دیا ہے۔
اس دن سے لے کر آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت، کشمیریوں کو کمزور کرنے، انھیں ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے کئی قسم کی انتظامی، آبادیاتی، اور انتخابی تبدیلیاں کر چکی ہے۔یہ کم و بیش وہی اقدامات ہیں جو مقبوضہ فلسطین کو دبانے کے لیے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں۔ مئی ۲۰۲۲ء میں انڈین حدبندی کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا تھا، جن کے ذریعے جموںو کشمیر اسمبلی میں جموں کو زیادہ نمایندگی دے دی گئی تھی کہ پارلیمنٹ میں مسلم نمایندگی کو کم کر کے ہندو اکثریت حاصل کی جا سکے۔ ۲۰۱۱ء کی آخری مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی آبادی میں ۶۸فی صد سے زائد حصہ مسلمانوں کا ہے، جب کہ ہندو ۲۸ فی صد سے بھی کم ہیں۔ ان نئی حدبندیوں کے ذریعے بھارتی حکومت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔
آبادی کے اس تناسب کو اُلٹ دینے کے لیے نئی دہلی نے شہریت کے نئے قانون بھی متعارف کروائے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کی معطلی کے بعد شہریت کے اہل ہونے والے تقریباً ۳۴ لاکھ ہندستانیوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔ جولائی ۲۰۲۲ء میں مقبوضہ وادی کے چیف الیکشن کمشنر نے تمام شہریوں، حتیٰ کہ عارضی طور پر کشمیر میں رہایش پذیر افراد کو بھی ووٹ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مضحکہ خیز قدم بھی کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے اٹھایا گیا ہے اور اس سے تقریباً ۲۵ لاکھ نئے رائے دہندگان انتخابات کا حصہ بن جائیں گے، جن میں سے اکثر غیر مقامی ہیں۔ یوں رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ۳۰ فی صد بڑھ جائے گی۔ نئی حد بندیوں کی طرح اس جارحانہ قدم نے بھی کشمیریوں کے اندر غم و غصے کو ہوا دی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس اور روایتی طور پر بھارت نواز سمجھے جانے والے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاست دانوں نے بھی ان اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کا کہنا تھا کہ ’’غیر مقامیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ کشمیریوں سے ان کی نمائندگی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ ۔
تاہم، یہ مذمتی بیانات مودی حکومت کو شرم دلانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس حکومت کی سرگرمیاں صرف انتخابی عمل تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے ’وقف بورڈ‘ کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں بورڈ کی تمام املاک بھی سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں۔ یہ سب دراصل اس منظم مہم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے کشمیر میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام مذہبی مقامات پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمان علما اور مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اکثر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر ۲۰۱۹ء میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن اب اس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت لاکھوں روپے مالیت کی جائیدادوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان املاک میں اس عظیم حُریت رہنما سید علی گیلانی کا گھر بھی شامل ہے، جس سے ۲۰۲۱ء میں مناسب تدفین کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔
کشمیری ثقافت پر بی جے پی کے حملوں کا خصوصی نشانہ اُردو زبان بھی بن رہی ہے۔ یہ زبان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک کشمیر کی سرکاری زبان رہی ہے لیکن ۲۰۲۰ء میں نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کے اس استحقاق کو ختم کر کےہندی، کشمیری اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان بنا دیا گیا ہے۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے بدل کر ’دیوناگری‘ کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
بی جے پی کے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹے جانے، غداری اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری، اور ۲۰۲۰ء کی نئی میڈیا پالیسی کے تحت خوف کی جو فضا پیدا کی گئی ہے، اس کی مذمت کی ہے۔ فروری ۲۰۲۲ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (Human Rights Watch) نے کشمیر میں صحافت پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں، ان کو ہراساں کیے جانے اور ان کو درپیش خطرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI) نے بھی میڈیا کے خلاف سخت کارروائیوں اور آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ’کشمیر پریس کلب‘ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
بی جے پی کی حکومت حد سے بڑھے ہوئے مظالم، تبدیلیٔ تناسب آبادی، اور نئی حدبندیوں کے ذریعے ہندو اکثریت کی راہ ہموار کرنے کے بعد انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد اپنے ۲۰۱۹ء کے اقدامات کی توثیق کے علاوہ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر آچکےہیں۔ تاہم اس کی کشمیری رہنماؤں یہاں تک کہ بھارت پسند کشمیری رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ نئی حدبندیوں اور نئے انتخابی قوانین کے خلاف کشمیریوں کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات ہو سکیں گے، اور اگر ہوبھی جائیں تو وہ کیسے معتبر ہوں گے؟ کشمیر میں بھارت کی جابرانہ و منافقانہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان پالیسیوں نے کشمیریوں کے جذبۂ حُریت کو مزید مضبوط کیا ہے اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی نفرت مزید بڑھی ہے۔ ایسے منفی بھارتی اقدامات، مستقبل میں بھی کوئی مختلف نتائج پیدا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے نئی دہلی سرکار کو تاریخ سے لڑنے کے بجائے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔