ڈاکٹر ملیحہ لودھی


یہ ایک چشم کشا مضمون ہے۔ چین کی سفارت کاری سے سعودی عرب اور ایران میں بحالی تعلقات کی جو خوش آیند کیفیت پیدا ہوئی ہے، امریکا اور اسرائیل اسے بے اثر بناکر شرق اوسط میں بے اطمینانی کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہے، جس کا مسلم دُنیا کی حکومتی، ریاستی، صحافتی اور دانش ور قوتوں کو بروقت نوٹس لینا چاہیے۔ امریکی سفارتی جارحیت کا راستہ روک کر، چین کی پہل قدمی سے شرق اوسط جس سمت بڑھ سکتا ہے، اس کی تائید کے لیے ہمہ پہلو کوششیں کرنی چاہئیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس پر ضروری مشاورت اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی پر لازم ہے ان موضوعات پر عوامی دبائو کو مؤثر بنائے۔(مدیر)

جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ امریکا کی بائیڈن حکومت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوا ہے، وہیں اس میں موجودہ امریکی حکومت کے لیے کئی مشکلات بھی پوشیدہ ہیں۔ ایران و سعودی عرب کی صلح نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی علاقائی اہداف خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔ مثلاً طویل عرصے سے ایران کو تنہا کرنے اور سعودی عرب واسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ اس معاہدے پر ثالثی کا کردار ادا کر کے چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔ اب اس معاہدے نے مقامی ریاستوں کے تعلقات کو یکسر تبدیل کر کے خطے کی سفارتی ہیئت پر اثر ڈالنا شروع کیا ہے، تو امریکا کے لیے اپنی بے چینی چھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

بائیڈن حکومت اب خطے میں چینی اثر کو کم اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ۲۸ جولائی کو اپنی اگلی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے منعقدہ ایک دعوت سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’صلح کا امکان موجود ہے‘‘، البتہ انھوں نے اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، اس بارے میں ایک دن قبل نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں تھامس فرائیڈمین نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے بائیڈن کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے: ’’بائیڈن حکومت شرق اوسط میں ایک ’بڑی سودے بازی‘ پر کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودیہ کے تعلقات اسرائیل سے قائم کروائے جائیں گے اور بدلے میں دونوں ممالک کو امریکا سے ایک دفاعی معاہدہ حاصل ہو گا۔ سعودیہ، مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر لے گا۔ جس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ترک کر دے گا، وہاں آبادکاری کا عمل روک کر مسئلے کے دوریاستی حل پر راضی ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی انتظامیہ ’سعودی-اسرائیل معاہدے‘ کی توثیق کرے گی‘‘۔

حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات میں ظاہر کیا ہے کہ امریکی خطے میں ایسے معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وایٹ ہائوس کے نمایندے نے یہ کہا کہ ۲۷ جولائی کو سعودی رہنماؤں کی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ صلح پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم، دونوں طرف سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اگرچہ ابھی کوئی ٹھوس پیش قدمی تو نہیں ہوئی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے پیش نظر معاہدے پر کئی قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وایٹ ہائوس کی جانب سے اس قسم کے معاہدوں کے لیے اب کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں؟ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو کیااس پر عمل ہوپائے گا؟

ہم پہلے موقع محل کی بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن بہت عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی استواری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت کئی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد ان کوششوں میں بھی تیزی آ چکی ہے۔ خبروں کے مطابق سعودیہ کی جانب سے بدلے میں کئی اہم مطالبات کیےگئے ہیں، مثلاً امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ، ایک غیر عسکری نیوکلیئر معاہدہ، میزائیل ڈیفنس سسٹم اور دیگر جدید آلات، اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیل سے کئی قسم کی رعایتیں۔ حالیہ ایران سعودی صلح نے یقیناً سعودیہ  کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کیا ہے، مگر دوسری جانب اس سودے بازی میں سعودی عرب کی پوزیشن مزید بہتر بھی ہو گئی ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امریکی کوششوں میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب امریکا خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

اس سال کے اختتام تک امریکی صدارتی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس صورت میں امریکی توجہ اندرونی سیاست کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اس معاملے کا ذکر بھی انتخابات سے متعلق ایک تقریب میں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اندرونی سیاست میں بھی کچھ فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے حق میںاس معاہدے کے علاوہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں صدر بائیڈن کو اپنی فتح کے امکانات بہتر کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد درکار ہے۔ لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی یہ کوششیں ذرا تاخیر کا شکار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ اس قسم کے پیچیدہ اور پہلو دار معاہدے کے لیے طویل مذاکرات درکار ہوں گے۔ مزید برآں اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو بائیڈن کی صدارت خطرے سے دوچار ہے۔

اس معاہدے سے حاصل ہونے والے اہداف بڑے واضح ہیں: خطے میں امریکی بالادستی کی بحالی، چین کی سفارتی و معاشی کامیابیوں کا تدارک، امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں علاقائی سیاست کی تنظیم نو۔ اس سب کے ساتھ اگر مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کچھ چھوٹ مل جائے تو اس میں بھی امریکی فائدہ ہے۔ اس سے عرب اور دیگر مسلم ریاستوں میں واشنگٹن کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے، چاہے حتمی اور نقد فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچے!

ایسی سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ چار فریقین (امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطین) کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے  مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ واشنگٹن یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب فریقین امریکا اور معاہدے میں مذکور شرائط اور رعایتوں پر عمل درآمد کروانے کی اس کی صلاحیت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور یہ دیکھتے ہوئےکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے، جواب کاملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ کرنے سے قبل سعودی و اسرائیلی حکومتیں، امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گی۔ گذشتہ برسوں میں دونوں ریاستوں کے بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین امریکی انتظامیہ کے اس مجوزہ معاہدے کو ایک ’ناقابل عمل‘ منصوبہ اور دورازکار سمجھتے ہیں،جب کہ فرائیڈمین نے اسے ایک دور کی کوڑی قرار دیا ہے۔   ان مذاکرات کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بنیادی قسم کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ کیا امریکا اب بھی ان ریاستوں پر اس قدر رسوخ رکھتا ہے کہ انھیں سمجھوتوں پر مجبور کر سکے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔ اسرائیل میں قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہو گا، جب کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومتی وزرا نے فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کی ہے۔ اس سب کے علاوہ ایک مسئلہ امریکی کانگریس کی منظوری کا ہے جہاں ری پبلکن اراکین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوں گے، جب کہ ڈیموکریٹ اراکین کو کسی ایسے حل کے لیے مطمئن کرنا مشکل ہو گا جو دو ریاستی فارمولے سے متصادم ہو یا فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتا ہو۔

ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدے کے لیے امکانات کافی کم ہیں۔ تاہم، آخر کار سفارت کاری بھی سیاست کی طرح ناممکن کو ممکن کر دکھانے کا نام ہے!

(بشکریہ روزنامہ ڈان، ترجمہ:اطہر رسول حیدر)

مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی کا کوئی پہلو بھی حکمران جماعت بی جے پی کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آغاز سے نسل پرست بھارتی حکومت، کشمیر کا آبادیاتی تناسب بدل کر کشمیری مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیری ثقافت، زبان، مذہبی شناخت، غرض زندگی کا ہر پہلو نئی دہلی حکومت کی جانب سے منظم حملوں کی زد میں ہے۔

لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کی زمین چھین کر باہر سے آنے والوں کو دی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ خاموش ہیں اور صحافی قید کاٹ رہے ہیں۔ انھیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں،ماورائے عدالت قتل اور حراستی تشدد عام ہے، کل جماعتی حُریت کانفرنس کی ساری قیادت جیل میں ہے، لیکن ہندستانی سرکار کو دُنیابھر میں کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی میں مزید فوجیں بھیج دی گئی ہیں۔

کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔لیکن پھر بھی اس صورتِ حال کے سامنے وہ تمام ممالک، ایک بے حس دیوار کی مانند خاموش ہیں، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علَم بردار کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف ان مظالم کے خلاف پاکستان کی بین الاقوامی مہم کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ہم اپنے اندرونی مسائل میں ہی اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ کشمیر کے مظلوموں کے لیے وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر سے متعلق اسلام آباد کی ساری کوششیں اب صرف اقوام متحدہ کو خط لکھنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔

اگرچہ مقبوضہ وادی کی داستان خونچکاں سات عشروں پر محیط ہے لیکن ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی سرکار کی یک طرفہ کارروائی نے مظالم کا ایک نیا باب شروع کیا ہے، جو کشمیریوں کے خون سے لکھا جا رہا ہے۔ بھارتی سرکار نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کو ہندستان میں ضم کر کے اس کے دو ٹکڑے کیے اور انھیں زبردستی ہندستانی یونین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ساری کارروائی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ قراردادوں کی صریح طور پر خلاف ورزی ہے۔ کشمیر سے متعلق اب تک ۱۱ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں، لیکن خصوصی طور پر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۳۸ قابل ذکر ہے، جس کے پیرا نمبر ۲ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فریق کشمیر کے مادی (material) حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔

اس سب کے باوجود کشمیر میں ایک طویل کرفیو نافذ کر کے مواصلات کا نظام معطل کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت تر ہو گیا، عوامی اجتماعات پر پابندی لگ گئی،میڈیا کو خاموش کروا کر بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں سمیت تمام کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ کشمیری اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر سکیں، جس نے بیک جنبش قلم ان کو تمام تر حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

اس دن سے لے کر آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت، کشمیریوں کو کمزور کرنے، انھیں ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے کئی قسم کی انتظامی، آبادیاتی، اور انتخابی تبدیلیاں کر چکی ہے۔یہ کم و بیش وہی اقدامات ہیں جو مقبوضہ فلسطین کو دبانے کے لیے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں۔ مئی ۲۰۲۲ء میں انڈین حدبندی کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا تھا، جن کے ذریعے جموںو کشمیر اسمبلی میں جموں کو زیادہ نمایندگی دے دی گئی تھی کہ پارلیمنٹ میں مسلم نمایندگی کو کم کر کے ہندو اکثریت حاصل کی جا سکے۔ ۲۰۱۱ء کی آخری مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی آبادی میں ۶۸فی صد سے زائد حصہ مسلمانوں کا ہے، جب کہ ہندو ۲۸ فی صد سے بھی کم ہیں۔ ان نئی حدبندیوں کے ذریعے بھارتی حکومت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔

آبادی کے اس تناسب کو اُلٹ دینے کے لیے نئی دہلی نے شہریت کے نئے قانون بھی متعارف کروائے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کی معطلی کے بعد شہریت کے اہل ہونے والے تقریباً ۳۴ لاکھ ہندستانیوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔  جولائی ۲۰۲۲ء میں مقبوضہ وادی کے چیف الیکشن کمشنر نے تمام شہریوں، حتیٰ کہ عارضی طور پر کشمیر میں رہایش پذیر افراد کو بھی ووٹ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مضحکہ خیز قدم بھی کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے اٹھایا گیا ہے اور اس سے تقریباً ۲۵ لاکھ نئے رائے دہندگان انتخابات کا حصہ بن جائیں گے، جن میں سے اکثر غیر مقامی ہیں۔ یوں رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ۳۰ فی صد بڑھ جائے گی۔ نئی حد بندیوں کی طرح اس جارحانہ قدم نے بھی کشمیریوں کے اندر غم و غصے کو ہوا دی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس اور روایتی طور پر بھارت نواز سمجھے جانے والے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاست دانوں نے بھی ان اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کا کہنا تھا کہ ’’غیر مقامیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ کشمیریوں سے ان کی نمائندگی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ ۔

تاہم، یہ مذمتی بیانات مودی حکومت کو شرم دلانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس حکومت کی سرگرمیاں صرف انتخابی عمل تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے ’وقف بورڈ‘ کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں بورڈ کی تمام املاک بھی سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں۔ یہ سب دراصل اس منظم مہم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے کشمیر میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام مذہبی مقامات پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمان علما اور مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اکثر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر ۲۰۱۹ء میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن اب اس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت لاکھوں روپے مالیت کی جائیدادوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان املاک میں اس عظیم حُریت رہنما سید علی گیلانی کا گھر بھی شامل ہے، جس سے ۲۰۲۱ء میں مناسب تدفین کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔

کشمیری ثقافت پر بی جے پی کے حملوں کا خصوصی نشانہ اُردو زبان بھی بن رہی ہے۔ یہ زبان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک کشمیر کی سرکاری زبان رہی ہے لیکن ۲۰۲۰ء میں نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کے اس استحقاق کو ختم کر کےہندی، کشمیری اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان بنا دیا گیا ہے۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے بدل کر ’دیوناگری‘ کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

            بی جے پی کے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹے جانے، غداری اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری، اور ۲۰۲۰ء کی نئی میڈیا پالیسی کے تحت خوف کی جو فضا پیدا کی گئی ہے، اس کی مذمت کی ہے۔ فروری ۲۰۲۲ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (Human Rights Watch) نے کشمیر میں صحافت پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں، ان کو ہراساں کیے جانے اور ان کو درپیش خطرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI) نے بھی میڈیا کے خلاف سخت کارروائیوں اور آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ’کشمیر پریس کلب‘ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بی جے پی کی حکومت حد سے بڑھے ہوئے مظالم، تبدیلیٔ تناسب آبادی، اور نئی حدبندیوں کے ذریعے ہندو اکثریت کی راہ ہموار کرنے کے بعد انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد اپنے ۲۰۱۹ء کے اقدامات کی توثیق کے علاوہ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر آچکےہیں۔ تاہم اس کی کشمیری رہنماؤں یہاں تک کہ بھارت پسند کشمیری رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ نئی حدبندیوں اور نئے انتخابی قوانین کے خلاف کشمیریوں کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات ہو سکیں گے، اور اگر ہوبھی جائیں تو وہ کیسے معتبر ہوں گے؟ کشمیر میں بھارت کی جابرانہ و منافقانہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان پالیسیوں نے کشمیریوں کے جذبۂ حُریت کو مزید مضبوط کیا ہے اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی نفرت مزید بڑھی ہے۔ ایسے منفی بھارتی اقدامات، مستقبل میں بھی کوئی مختلف نتائج پیدا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے نئی دہلی سرکار کو تاریخ سے لڑنے کے بجائے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

ہندستان میں کشمیریوں کی ثقافتی و مذہبی شناخت، حکمران جماعت کی جانب سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی تمام تر منفی صلاحیتیں مقبوضہ وادی پر ’ہندوتوا‘  نظریے کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دنیا کی توجہ اس واقعے کی طرف دلائی تھی کہ ’’کلگام اور دیگر قصباتی اسکولوں میں بچوں کو بھجن گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔ بھجن گاتے ہوئے طلبہ و طالبات کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خاصی مشہور ہوئی اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔

۳۰ کشمیری تنظیموں کی نمایندہ ’متحدہ مجلس علما‘ نے اس سرکاری عمل کی سخت مذمت کی اور کہا: ’’ ہندوتوا نظریات نئی نسل پر ٹھونسنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اوریہ منصوبہ کشمیری شناخت کو مٹانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے‘‘۔ اس جماعت کے قائد میر واعظ عمر فاروق پچھلے تین سال سے بھارتی حراست میں ہیں۔ علما کی اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ’’قابض قوتوں کی طرف سے ڈرا دھمکا کر علما کو دبانے اور انھیں کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جنھیں فوراً بند ہونا چاہیے‘‘۔ اوریہ کہ ’’بھارتی حکومت اپنے مظالم کا دائرہ وسیع تر کرنے میں مصروف ہے‘‘۔

کشمیر میں مسلم تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت صرف ستمبر ہی میں درجنوں قائدین پبلک سیفٹی کے ظالمانہ قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان نے ان اقدامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے بجاطور پر کہا ہے: ’’یہ غیر قانونی گرفتاریاں کشمیریوں سے ان کی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی شناخت چھینے جانے کی ایک اور کوشش ہے‘‘۔

اسی طرح بی جے پی نے ریاست جموں و کشمیر کے وقف بورڈ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سرینگر کی عیدگاہ بھی براہ راست غاصب سرکار کے قبضے میں ہے۔ یہ تاریخی میدان کشمیر میں نماز عید اور دیگر اجتماعی عبادات کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ کُل جماعتی  حریت کانفرنس کے نائب چیئرمین شبیر شاہ نے جیل سے جاری ردعمل میں کہا ہے:’’ بی جے پی حکومت، کشمیریوں کے بنیادی مذہبی حقوق کو پامال کر رہی ہے‘‘۔ دیگر رہنماؤں کے مطابق ’’یہ قدم بھی بی جے پی کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشمیر میں مسلمانوں کی تمام قابلِ احترام املاک پر قبضہ کرنے کی ہوس رکھتی ہے۔‘‘ ان املاک میں بزرگوں کے مزار بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں ایک کشمیری صحافی نے بجا طور پر کہا ہے: ’’ مزارات پر حکومتی قبضے کو معمولی قدم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان مزارات کی سیاسی اہمیت سے خائف ہے اور ان کے ساتھ وابستہ مذہبی تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ مزارات اور درگاہیں ہمیشہ سے کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کا جزو لاینفک رہی ہیں۔ یہ صرف عبادت کے مقام نہیں ہیں بلکہ وہ مقامات ہیں، جہاں عام مسلمان مل جل کر کوئی بات کر سکتے ہیں اور جنھیں چھین لینے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔

کشمیری ثقافت کے خلاف بی جے پی کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ پچھلے سو برسوں سے اُردو کو کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن ۲۰۲۰ء میں بھارتی حکمران جماعت نے نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کا یہ صد سالہ استحقاق ختم کرتے ہوئے ہندی، کشمیری، ڈوگری، اور اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کا رسم الخط بھی نستعلیق سے بدل کر دیوناگری کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری و غیرعلانیہ طور پر یہ قدم اٹھایا جا چکا ہے۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے غیر قانونی انضمام کے بعد کشمیریوں کو بے اختیار کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایسے اقدامات تسلسل سے جاری ہیں۔ ہندستانی آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ ریاست کشمیر کو ہندستان میں ایک خصوصی حیثیت فراہم کرتاتھا۔ لیکن اس آرٹیکل کی معطلی کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہندستانی یونین میں ضم کر دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی، اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی فریق متنازعہ علاقے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا، جو علاقے کے سیاسی و جغرافیائی حالات پر اثر انداز ہو سکے۔ اس غیر قانونی عمل کے بعد نئی دہلی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کردیا، مواصلات کے ذرائع مسدود کر دیے اور بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔

  ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ستمبر ۲۰۲۲ءمیں جاری کردہ رپورٹ: ’قانون، کشمیریوں کا دشمن ہے‘  ہمیں بتاتی ہےکہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک تین برسوں میں ’’بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ وادی میں کھلم کھلا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری ہے۔کشمیر کے شہری اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے۔ان کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ۔ انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔انصاف تک ان کی رسائی ناممکن ہے۔ وادی میں صرف سرکاری ادارے کشمیری عوام کے خلاف کوئی بھی ظلم روا رکھنے اور ہر جواب دہی سے آزاد ہیں‘‘۔

بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت، کشمیر کے انتظامی معاملات اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کشمیریوں کو ہرلحاظ سے بے بس کر دیا جائے۔ اس دوران ڈومیسائل کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے،جس کے تحت اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک باہر سے آنے والے ۳۴لاکھ لوگوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل آرٹیکل ۳۷۰،اور۳۵-اے کے تحت بیرون کشمیر سے آنے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل جاری کرنے پر پابندی تھی۔ یہ وہی مخصوص حربہ ہے، جو قبل ازیں اسرائیل بھی فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برت چکا ہے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ مودی سرکار انتخابی حلقہ بندیوں کو بھی بدل رہی ہے، تا کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ طاقت کے توازن کو ہندوؤں کے حق میں پلٹنے کے لیے مسلم علاقوں کی نمایندگی کم کر کے جموں کی نمایندگی بڑھائی جا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۲ءمیں بھارتی حدبندی کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کا منصوبہ جاری کیا گیا۔اس منصوبے کے مطابق کشمیر کی۹۰ رکنی پارلیمان میں جموں کی ۶ ، جب کہ کشمیر کی صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ایوان میں جموں کی ۴۳، جب کہ کشمیر کی ۴۷نشستیں ہوں گی۔ اس منصوبے میں پوشیدہ بھارت کے مذموم عزائم کواس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ۲۰۱۱ء میں ہونے والی ہندستان کی آخری مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی ۷۰ لاکھ، جب کہ جموں کی آبادی ۵۳ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔

ان نئی حلقہ بندیوں کا مقصد ایک ہی ہے: اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں اور پھر ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ’’حالات معمول پر آ چکے ہیں اور انتخابات نے اگست ۲۰۱۹ء کے حکومتی اقدامات کی توثیق کر دی ہے‘‘۔لیکن بجاطور پر کشمیری ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے ہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس تو آغاز سے ہی انتخابات کو بوگس کارروائی قرار دے کر مسترد کرتی آ رہی ہے، اور اب وہ سیاست دان بھی انتخابات کے خلاف کمربستہ ہیں جو روایتی طور پر بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے اورانتخابات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔تمام سیاسی حلقوں نے اس منصوبے کو ناقابل قبول اور انتخابی اصولوں کی’ایک مضحکہ خیز شکل‘ قرار دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جولائی میں چیف الیکشن آفیسر نے اعلان کیا تھا: ’’ تمام ہندستانی شہریوں کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی آزادی ہو گی چاہے وہ عارضی طور پر ہی کشمیر میں رہایش رکھتے ہوں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی؟کیا کشمیریوں کی شناخت اتنی کمزور ہے کہ یوں زور زبردستی کے ذریعے مٹائی جا سکے؟اس کے برعکس حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان اقدامات نے کشمیریوں میں پائے جانے والے غم و غصے میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ غیر قانونی قبضے کی شکل میں جو ظلم کئی عشروں سے جاری ہے، اس کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اور مضبوط ہوا ہے۔کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بقول ’’کشمیر ایک آتش فشاں کی طرح کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘‘۔