یہ ایک چشم کشا مضمون ہے۔ چین کی سفارت کاری سے سعودی عرب اور ایران میں بحالی تعلقات کی جو خوش آیند کیفیت پیدا ہوئی ہے، امریکا اور اسرائیل اسے بے اثر بناکر شرق اوسط میں بے اطمینانی کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہے، جس کا مسلم دُنیا کی حکومتی، ریاستی، صحافتی اور دانش ور قوتوں کو بروقت نوٹس لینا چاہیے۔ امریکی سفارتی جارحیت کا راستہ روک کر، چین کی پہل قدمی سے شرق اوسط جس سمت بڑھ سکتا ہے، اس کی تائید کے لیے ہمہ پہلو کوششیں کرنی چاہئیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس پر ضروری مشاورت اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی پر لازم ہے ان موضوعات پر عوامی دبائو کو مؤثر بنائے۔(مدیر)
جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ امریکا کی بائیڈن حکومت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوا ہے، وہیں اس میں موجودہ امریکی حکومت کے لیے کئی مشکلات بھی پوشیدہ ہیں۔ ایران و سعودی عرب کی صلح نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی علاقائی اہداف خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔ مثلاً طویل عرصے سے ایران کو تنہا کرنے اور سعودی عرب واسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ اس معاہدے پر ثالثی کا کردار ادا کر کے چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔ اب اس معاہدے نے مقامی ریاستوں کے تعلقات کو یکسر تبدیل کر کے خطے کی سفارتی ہیئت پر اثر ڈالنا شروع کیا ہے، تو امریکا کے لیے اپنی بے چینی چھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بائیڈن حکومت اب خطے میں چینی اثر کو کم اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ۲۸ جولائی کو اپنی اگلی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے منعقدہ ایک دعوت سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’صلح کا امکان موجود ہے‘‘، البتہ انھوں نے اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، اس بارے میں ایک دن قبل نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں تھامس فرائیڈمین نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے بائیڈن کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے: ’’بائیڈن حکومت شرق اوسط میں ایک ’بڑی سودے بازی‘ پر کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودیہ کے تعلقات اسرائیل سے قائم کروائے جائیں گے اور بدلے میں دونوں ممالک کو امریکا سے ایک دفاعی معاہدہ حاصل ہو گا۔ سعودیہ، مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر لے گا۔ جس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ترک کر دے گا، وہاں آبادکاری کا عمل روک کر مسئلے کے دوریاستی حل پر راضی ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی انتظامیہ ’سعودی-اسرائیل معاہدے‘ کی توثیق کرے گی‘‘۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات میں ظاہر کیا ہے کہ امریکی خطے میں ایسے معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وایٹ ہائوس کے نمایندے نے یہ کہا کہ ۲۷ جولائی کو سعودی رہنماؤں کی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ صلح پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم، دونوں طرف سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اگرچہ ابھی کوئی ٹھوس پیش قدمی تو نہیں ہوئی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے پیش نظر معاہدے پر کئی قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وایٹ ہائوس کی جانب سے اس قسم کے معاہدوں کے لیے اب کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں؟ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو کیااس پر عمل ہوپائے گا؟
ہم پہلے موقع محل کی بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن بہت عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی استواری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت کئی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد ان کوششوں میں بھی تیزی آ چکی ہے۔ خبروں کے مطابق سعودیہ کی جانب سے بدلے میں کئی اہم مطالبات کیےگئے ہیں، مثلاً امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ، ایک غیر عسکری نیوکلیئر معاہدہ، میزائیل ڈیفنس سسٹم اور دیگر جدید آلات، اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیل سے کئی قسم کی رعایتیں۔ حالیہ ایران سعودی صلح نے یقیناً سعودیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کیا ہے، مگر دوسری جانب اس سودے بازی میں سعودی عرب کی پوزیشن مزید بہتر بھی ہو گئی ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امریکی کوششوں میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب امریکا خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سال کے اختتام تک امریکی صدارتی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس صورت میں امریکی توجہ اندرونی سیاست کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اس معاملے کا ذکر بھی انتخابات سے متعلق ایک تقریب میں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اندرونی سیاست میں بھی کچھ فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے حق میںاس معاہدے کے علاوہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں صدر بائیڈن کو اپنی فتح کے امکانات بہتر کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد درکار ہے۔ لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی یہ کوششیں ذرا تاخیر کا شکار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ اس قسم کے پیچیدہ اور پہلو دار معاہدے کے لیے طویل مذاکرات درکار ہوں گے۔ مزید برآں اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو بائیڈن کی صدارت خطرے سے دوچار ہے۔
اس معاہدے سے حاصل ہونے والے اہداف بڑے واضح ہیں: خطے میں امریکی بالادستی کی بحالی، چین کی سفارتی و معاشی کامیابیوں کا تدارک، امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں علاقائی سیاست کی تنظیم نو۔ اس سب کے ساتھ اگر مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کچھ چھوٹ مل جائے تو اس میں بھی امریکی فائدہ ہے۔ اس سے عرب اور دیگر مسلم ریاستوں میں واشنگٹن کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے، چاہے حتمی اور نقد فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچے!
ایسی سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ چار فریقین (امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطین) کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ واشنگٹن یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب فریقین امریکا اور معاہدے میں مذکور شرائط اور رعایتوں پر عمل درآمد کروانے کی اس کی صلاحیت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور یہ دیکھتے ہوئےکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے، جواب کاملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ کرنے سے قبل سعودی و اسرائیلی حکومتیں، امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گی۔ گذشتہ برسوں میں دونوں ریاستوں کے بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین امریکی انتظامیہ کے اس مجوزہ معاہدے کو ایک ’ناقابل عمل‘ منصوبہ اور دورازکار سمجھتے ہیں،جب کہ فرائیڈمین نے اسے ایک دور کی کوڑی قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بنیادی قسم کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ کیا امریکا اب بھی ان ریاستوں پر اس قدر رسوخ رکھتا ہے کہ انھیں سمجھوتوں پر مجبور کر سکے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔ اسرائیل میں قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہو گا، جب کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومتی وزرا نے فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کی ہے۔ اس سب کے علاوہ ایک مسئلہ امریکی کانگریس کی منظوری کا ہے جہاں ری پبلکن اراکین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوں گے، جب کہ ڈیموکریٹ اراکین کو کسی ایسے حل کے لیے مطمئن کرنا مشکل ہو گا جو دو ریاستی فارمولے سے متصادم ہو یا فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتا ہو۔
ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدے کے لیے امکانات کافی کم ہیں۔ تاہم، آخر کار سفارت کاری بھی سیاست کی طرح ناممکن کو ممکن کر دکھانے کا نام ہے!
(بشکریہ روزنامہ ڈان، ترجمہ:اطہر رسول حیدر)