امام [ابوحنیفہؒ] کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا [عدالت]کی آزادی کے ساتھ آزادیٔ اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیت تھی، جس کے لیے قرآن و سنت میں ’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
محض ’اظہارِ رائے‘ تو نہایت ناروا بھی ہوسکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہوسکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن بُرائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا، ایک صحیح اظہاررائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِرائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھیراتا ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کرلیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں ایک طرف مُرحِبَہ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ ’حکومت کے مقابلے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر ایک فتنہ ہے‘، اور تیسری طرف بنی اُمیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے، مسلمانوں کی اِس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امراء کے فسق و فجور اور ظلم و جور کے خلاف آواز اُٹھائیں۔
اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔الجصاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ(خراسان کے مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امامؒ نے فرمایا کہ ’امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے‘۔ اور عِکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ ’’افضل الشہداء ایک تو حمزہؓ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اُٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اِس قصور میں مارا جائے‘‘۔ابراہیمؒ پر امامؒ کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م:۱۳۶ھ/ ۷۵۴ء) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خوں ریزی پر برملا ٹوکا اور باربار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کردیا۔ (خلافت کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۶۰، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۳ء، ص ۲۳-۲۴)