یہ ایک ایسا سوال ہے، بدقسمتی سے جس پر پوری طرح غور نہیں کیا جاتا ہے۔ آج کی دُنیا ذہن کی دُنیا ہے۔ جتنی تعمیر و ترقی نظر آرہی ہے وہ انسانی ذہن ہی کی کامیابیوں کا ثمرہ ہے۔ خصوصاً سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے جو بھی ایجادات و اختراعات کی گئی ہیں وہ ذہنی تفتیش و تحقیق کے حیران کن نتائج ہیں، جن سے آج کا انسان فائدے اُٹھا رہا ہے۔
انسانی ذہن سے گذشتہ دو تین صدیوں سے جو کام لیے گئے ہیں، انھوں نے ذہن کی گہری پوشیدہ صلاحیتوں کو زبردست طریقے سے چمکا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اُوپر ناز کرنے لگاہے اور اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ ذہن میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ خداوند تعالیٰ ہی کے القا کیے ہوتے ہیں۔ اگر خالقِ کائنات سائنس دانوں اور انجینیروں کے ذہنوں میں نت نئے خیالات اور آئیڈیاز کا القا نہ کرتا، تو ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ دُنیاکو اس تعمیروترقی سے ہمکنار کرپاتے جو ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتی ہے اور جس نے فاصلوں کو سکیڑ کر دُنیا کو ایک شہر بناکے رکھ دیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو حیران کن تبدیلیوں سے دوچار کرنے والی انسانی عقل کیوں صرف ظاہری تبدیلیوں اور تغیرات تک ہی خود کو محدود رکھ سکی ہے، اور کیوں اب تک عالمی سطح پر ایسی کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے، جو انسان کو قلبی اور ذہنی طور پر سکون و اطمینان اور امن و آشتی عطا کرتی ہو؟ اگر انسان ماضی بعید اور ماضی قریب میں پریشانی سے دوچار تھا، تو آج کا انسان بھی دُکھی اور پریشان حال ہے۔ ظاہری آسایشیں اور سہولتیں اس کے زخموں کا مرہم نہیں بن سکی ہیں۔ یہ پریشان حالی اور اس کے ساتھ مسلسل بڑھتی پریشان فکری بھی انسان کو اس درجے پر لے آئی ہے کہ مایوس ہوکر ہزارہا انسان خودکشی جیسا انتہائی اقدام اُٹھا چکے ہیں۔ نفسیاتی عوارض کا ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جانا، اس میں آئے دن اضافہ ہوتے جانا انسانی ترقی کے منہ پر زناٹے دارطمانچہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان ایجادات و اختراعات کی دُنیا میں رہ کر بھی مطمئن نہیں ہے تو ایسی ایجادات و اختراعات کا کیا فائدہ؟___ جو لوگ خود کو ہلاک کرچکے، انھیں تو ایک لحاظ سے دُنیاوی مصائب سے نجات مل گئی، لیکن جو زندہ ہوکے بھی زندہ درگور ہیں آخر ان کے لیے راہ نجات کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور تو کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی کافی و شافی حل پیش نہیں کیا جاتا، جس سے انسانیت کو دُکھوں سے چھٹکارا مل سکے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک انسان کے بارے میں جو تصورات قائم کیے گئے ہیں ان میں ایک بڑا سُقم اور ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے، اور وہ سقم اور خرابی یہ ہے کہ انسان کے وجود میں دل یا قلب کی جو اہمیت ہے، اسے نظرانداز کرکے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مغرب نے انسانی وجود میں ذہن ہی کو دریافت کیا ہے اور ذہن کی ماہیت پر غوروخوض کر کے اس کی طاقت و صلاحیت کو مرکزی اہمیت کا حامل سمجھا ہے، جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل یا قلب ِانسانی ہی انسانی وجود میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے، اور خود ذہن بھی قلب ہی کے زیراثر رہ کر اپنے وظائف انجام دیتا ہے۔ انسانی قلب یا دل ہی انسان کی خواہشوں اور تمنائوں کا گہوارہ ہے۔ ہرخواہش دل ہی میں پیدا ہوتی ہے اور ذہن اس خواہش کو پورا کرنے میں ایک وسیلے اور واسطے کا درجہ رکھتا ہے۔ خواہشیں، تمنائیں اور ضرورتیں گوناگوں اقسام کی، انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اہم بھی،کم اہم اور غیراہم بھی۔
جب دل میں کوئی خواہش اور کوئی ضرورت پیدا ہوتی ہے، تو یہ خواہش اور ضرورت احساس میں ڈھل جاتی ہے اور پھر یہ وجودی تقاضا بن کرذہن کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ ذہن اپنی تدبیروں کو کام میں لاکر اس تقاضے کو عملی شکل دے دیتا ہے۔ یہی ترتیب ہے ان تمام ایجادات و اختراعات کی، جو انسان نے اب تک کی ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ قلب یا دل محض تمنائوں،خواہشوں اور ضرورتوں کا مرکز نہیں ہے بلکہ وہ انسانی وجود کی تمام فیکلٹیوں، مراکز اور حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ خارجی دُنیا کے تمام اثرات کو سب سے پہلے دل ہی قبول کرتا ہے، اور یہ دل ہی ہے جو ذہن کو ان اثرات کا تجزیہ کرنے، اور ان سے نتائج اخذ کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلب یا دل ہی انسانی وجود پر حکمران ہے اور ذہن و ضمیر سمیت تمام فیکلٹیاں اور مراکز دل کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ جب تک دل کی اس مرکزی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور دل کے تقاضوں کا سامان نہیں کیا جائے گا، انسان کو دُکھوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔
دل سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں جو وجود کے اندر خون کو پمپ کرنے کا کام کرتا ہے، بلکہ دل ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ملاء اعلیٰ سے رابطہ ہے۔ جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمھارے جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے جو تندرست ہو تو تمھارا سارا جسم تندرست رہتا ہے اور وہ بیمار ہو تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے‘‘(بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۵۲)، تو اس فرمان میں مراد محض گوشت کا لوتھڑا ہونا نہیں تھی۔ اگر مراد اسی لوتھڑے سے ہوتی تو جو شخص اپنی صحت کی احتیاط اور ذمہ داری سے نگہداشت کرے تو یہ لوتھڑا صحت مند ہی رہتا ہے۔
ظاہر ہے رسولِؐ خدا کی مراد اس دل سے تھی، جس میں ایک حدیث قدسی کے مطابق: ’’خدا کے مسکن بننے کی وسعت و گنجایش ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا گیا کہ ’’زمین و آسمان میں اتنی وسعت و فراخی نہیں کہ خدااس میں سما سکے مگر قلب ِ انسانی‘‘۔ ہاں، قلبِ انسانی ہی میں یہ وسعت اور فراخی اسی لیے ہے کہ اس کا رابطہ ملاء اعلیٰ سے ہے۔ دل میں کینہ، کدورت، نفرت، بُغض، حسد، بدگمانی اور بدنیتی ہو، تو ایسا دل ناپاک اور غلیظ ہوجاتا ہے، اور ایسا انسان ننگِ انسانیت۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل کے مکان کو ہرقسم کی گندگی اور آلودگی سے پاک صاف رکھو تاکہ تمھارا سارا جسم بشمول ذہن پاکیزہ ہوسکے۔
انسانی وجود میں دل کے اس مقام کو جب تک پوری طرح سمجھا نہیں جائے گا اور اسے پاک صاف رکھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور انسان کو اسی طرف متوجہ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس چیزکا امکان معدوم ہے کہ انسان کو دُکھوں سے نجات مل سکے گی!