یہ ایک ایسا سوال ہے، بدقسمتی سے جس پر پوری طرح غور نہیں کیا جاتا ہے۔ آج کی دُنیا ذہن کی دُنیا ہے۔ جتنی تعمیر و ترقی نظر آرہی ہے وہ انسانی ذہن ہی کی کامیابیوں کا ثمرہ ہے۔ خصوصاً سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے جو بھی ایجادات و اختراعات کی گئی ہیں وہ ذہنی تفتیش و تحقیق کے حیران کن نتائج ہیں، جن سے آج کا انسان فائدے اُٹھا رہا ہے۔
انسانی ذہن سے گذشتہ دو تین صدیوں سے جو کام لیے گئے ہیں، انھوں نے ذہن کی گہری پوشیدہ صلاحیتوں کو زبردست طریقے سے چمکا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اُوپر ناز کرنے لگاہے اور اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ ذہن میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ خداوند تعالیٰ ہی کے القا کیے ہوتے ہیں۔ اگر خالقِ کائنات سائنس دانوں اور انجینیروں کے ذہنوں میں نت نئے خیالات اور آئیڈیاز کا القا نہ کرتا، تو ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ دُنیاکو اس تعمیروترقی سے ہمکنار کرپاتے جو ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتی ہے اور جس نے فاصلوں کو سکیڑ کر دُنیا کو ایک شہر بناکے رکھ دیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو حیران کن تبدیلیوں سے دوچار کرنے والی انسانی عقل کیوں صرف ظاہری تبدیلیوں اور تغیرات تک ہی خود کو محدود رکھ سکی ہے، اور کیوں اب تک عالمی سطح پر ایسی کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے، جو انسان کو قلبی اور ذہنی طور پر سکون و اطمینان اور امن و آشتی عطا کرتی ہو؟ اگر انسان ماضی بعید اور ماضی قریب میں پریشانی سے دوچار تھا، تو آج کا انسان بھی دُکھی اور پریشان حال ہے۔ ظاہری آسایشیں اور سہولتیں اس کے زخموں کا مرہم نہیں بن سکی ہیں۔ یہ پریشان حالی اور اس کے ساتھ مسلسل بڑھتی پریشان فکری بھی انسان کو اس درجے پر لے آئی ہے کہ مایوس ہوکر ہزارہا انسان خودکشی جیسا انتہائی اقدام اُٹھا چکے ہیں۔ نفسیاتی عوارض کا ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جانا، اس میں آئے دن اضافہ ہوتے جانا انسانی ترقی کے منہ پر زناٹے دارطمانچہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان ایجادات و اختراعات کی دُنیا میں رہ کر بھی مطمئن نہیں ہے تو ایسی ایجادات و اختراعات کا کیا فائدہ؟___ جو لوگ خود کو ہلاک کرچکے، انھیں تو ایک لحاظ سے دُنیاوی مصائب سے نجات مل گئی، لیکن جو زندہ ہوکے بھی زندہ درگور ہیں آخر ان کے لیے راہ نجات کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور تو کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی کافی و شافی حل پیش نہیں کیا جاتا، جس سے انسانیت کو دُکھوں سے چھٹکارا مل سکے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک انسان کے بارے میں جو تصورات قائم کیے گئے ہیں ان میں ایک بڑا سُقم اور ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے، اور وہ سقم اور خرابی یہ ہے کہ انسان کے وجود میں دل یا قلب کی جو اہمیت ہے، اسے نظرانداز کرکے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مغرب نے انسانی وجود میں ذہن ہی کو دریافت کیا ہے اور ذہن کی ماہیت پر غوروخوض کر کے اس کی طاقت و صلاحیت کو مرکزی اہمیت کا حامل سمجھا ہے، جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل یا قلب ِانسانی ہی انسانی وجود میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے، اور خود ذہن بھی قلب ہی کے زیراثر رہ کر اپنے وظائف انجام دیتا ہے۔ انسانی قلب یا دل ہی انسان کی خواہشوں اور تمنائوں کا گہوارہ ہے۔ ہرخواہش دل ہی میں پیدا ہوتی ہے اور ذہن اس خواہش کو پورا کرنے میں ایک وسیلے اور واسطے کا درجہ رکھتا ہے۔ خواہشیں، تمنائیں اور ضرورتیں گوناگوں اقسام کی، انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اہم بھی،کم اہم اور غیراہم بھی۔
جب دل میں کوئی خواہش اور کوئی ضرورت پیدا ہوتی ہے، تو یہ خواہش اور ضرورت احساس میں ڈھل جاتی ہے اور پھر یہ وجودی تقاضا بن کرذہن کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ ذہن اپنی تدبیروں کو کام میں لاکر اس تقاضے کو عملی شکل دے دیتا ہے۔ یہی ترتیب ہے ان تمام ایجادات و اختراعات کی، جو انسان نے اب تک کی ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ قلب یا دل محض تمنائوں،خواہشوں اور ضرورتوں کا مرکز نہیں ہے بلکہ وہ انسانی وجود کی تمام فیکلٹیوں، مراکز اور حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ خارجی دُنیا کے تمام اثرات کو سب سے پہلے دل ہی قبول کرتا ہے، اور یہ دل ہی ہے جو ذہن کو ان اثرات کا تجزیہ کرنے، اور ان سے نتائج اخذ کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلب یا دل ہی انسانی وجود پر حکمران ہے اور ذہن و ضمیر سمیت تمام فیکلٹیاں اور مراکز دل کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ جب تک دل کی اس مرکزی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور دل کے تقاضوں کا سامان نہیں کیا جائے گا، انسان کو دُکھوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔
دل سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں جو وجود کے اندر خون کو پمپ کرنے کا کام کرتا ہے، بلکہ دل ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ملاء اعلیٰ سے رابطہ ہے۔ جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمھارے جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے جو تندرست ہو تو تمھارا سارا جسم تندرست رہتا ہے اور وہ بیمار ہو تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے‘‘(بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۵۲)، تو اس فرمان میں مراد محض گوشت کا لوتھڑا ہونا نہیں تھی۔ اگر مراد اسی لوتھڑے سے ہوتی تو جو شخص اپنی صحت کی احتیاط اور ذمہ داری سے نگہداشت کرے تو یہ لوتھڑا صحت مند ہی رہتا ہے۔
ظاہر ہے رسولِؐ خدا کی مراد اس دل سے تھی، جس میں ایک حدیث قدسی کے مطابق: ’’خدا کے مسکن بننے کی وسعت و گنجایش ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا گیا کہ ’’زمین و آسمان میں اتنی وسعت و فراخی نہیں کہ خدااس میں سما سکے مگر قلب ِ انسانی‘‘۔ ہاں، قلبِ انسانی ہی میں یہ وسعت اور فراخی اسی لیے ہے کہ اس کا رابطہ ملاء اعلیٰ سے ہے۔ دل میں کینہ، کدورت، نفرت، بُغض، حسد، بدگمانی اور بدنیتی ہو، تو ایسا دل ناپاک اور غلیظ ہوجاتا ہے، اور ایسا انسان ننگِ انسانیت۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل کے مکان کو ہرقسم کی گندگی اور آلودگی سے پاک صاف رکھو تاکہ تمھارا سارا جسم بشمول ذہن پاکیزہ ہوسکے۔
انسانی وجود میں دل کے اس مقام کو جب تک پوری طرح سمجھا نہیں جائے گا اور اسے پاک صاف رکھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور انسان کو اسی طرف متوجہ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس چیزکا امکان معدوم ہے کہ انسان کو دُکھوں سے نجات مل سکے گی!
گناہ بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی۔ ہم لوگ سمجھتے یہ ہیں کہ گرفت اور پکڑ خداوندتعالیٰ کی جانب سے صرف بڑے بڑ ے گناہوں کی ہوگی اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیا جائے گا۔اسی لیے چھوٹے گناہوں کی طرف سے عام طور پر لاپروائی برتی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی کا معاملہ ہی لیجیے۔
ہم لوگوں کی عادت ہے کہ جس محفل میں بھی بیٹھتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں دوسروں کی عیب جوئی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کسی کی غیرموجودگی میں اسے بُرے لقب اور بُرے لفظوں سے یاد کرنا اتنی بُری بات ہے کہ خداوندتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اُسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے اور روایات میں اس بد عادت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔
غور کیجیے کہ اس بُرائی کا منبع کیا ہے، اور ہم لوگ کیوں دوسروں کو ان کی غیرموجودگی میں بُرے لفظوں میں یاد کرتے ہیں؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کی بُرائی اس کے سامنے کرنے کی ہمت اور اخلاقی جرأت نہیں رکھتے۔ اگر ہم کسی میں کوئی بُری عادت دیکھیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہایت اخلاق اور تہذیب و شائستگی سے اسے اس کی بُری عادت سے آگاہ کردیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ۔اس کے سامنے توہم خاموش رہتے ہیں اور اُس کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور لگائی بجھائی میں مگن ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ہم اپنے اندر ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتے ہیں جیسے ہم نے بدلہ لے لیا ہو، یا دوسرے کو اس کے کیے کی سزا دے دی ہو۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا ہماری شکایت اور لگائی بجھائی سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے جس کی ہم شکایت کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز بھی نہیں۔ اکثر صورتوں میں تو اس شخص کو پتا بھی نہیں چل پاتا کہ اس کی بابت غیرموجودگی میں کیا باتیں کی گئیں۔ قرآن حکیم میں آیا ہے کہ معمولی سے معمولی بُرائی کی بھی پکڑ ہے، اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کابھی اجر ہے۔ ذرا کبھی بیٹھ کر حساب تو لگائیں کہ ہم ایک روز میں اوسطاً کتنی دیر دوسروںکی غیبت کرتے ہیں اور پھر ہفتے میں کتنی دیر اور مہینے اور سال میں کتنی دیر اس عادتِ بد میں گرفتار رہتے ہیں؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہم برسوں اور مہینوں میں اپنی عمر کا بڑاحصہ اسی گناہ کو سمیٹنے میں لگادیتے ہیں اور ہمارے اعمال میں صرف غیبت کی مد میں گناہوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے۔جس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ روزِ حساب گناہوں کا یہ پہاڑ ہماری ساری نیکیوں اور ثواب کو ہڑپ کرلے گا اور ہمارے دامن میں جنّت میں جانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ صرف غیبت اور لگائی بجھائی ہی سے نہیں، ان تمام چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچیں جو ہمیں روزِ آخرت رُسوا کرکے رہیں گے۔
اسی طرح ایک اور بیماری ہمارے اندر دوسروں کی دل آزاری ہے۔
ہم گفتگو کرتے وقت لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مخاطب کو کوئی ایسی بات ضرور کہہ دیتے ہیں ،جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ ہم تو اپنی بات کہہ کر نکل جاتے ہیں، یا بھول جاتے ہیں، لیکن جس سے کہتے ہیں وہ اندرونی تکلیف میں مدتوں مبتلا رہتا ہے۔ دوسروں کا مذاق اُڑانا ، طنز کے تیر چلانا، سخت کلامی سے پیش آنا ___ یہ وہ باتیں ہیں جو براہِ راست دل کو اذیت پہنچاتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے بجا طور پر، یہ بار بار سمجھایا اور ذہن نشین کرانا چاہا ہے کہ ’’شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ جو معاف نہیں ہوگا وہ دل آزاری ہے‘‘ اور یہ بات بڑی حد تک سچی معلوم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دل آزاری کے گناہ کو اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کا دل دُکھایا گیا ہے۔ اس لیے گفتگو کرتے ہوئے یا کسی سے معاملے کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے اور دل دکھانے والی کوئی بات منہ سے نادانستہ نکل ہی جائے، تو اس کی ضرور معذرت کرلینی چاہیے اور معاملہ صاف کرلینا چاہیے۔
اسی طرح ایک اور بیماری بے حسی کی ہے۔
اس کا تعلق لاپروائی سے ہے کہ ہم اپنی ذات اور اس کی تکلیف کے حوالے سے تو بہت حساس ہوتے ہیں، لیکن ہماری ذات سے دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے، اس بارے میں ہم بہت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کرنا، اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک دینا،گھر یا گاڑی میںزور زور سے گانے بجاکر پڑوسیوں اور راہگیروں کو اذیت پہنچانا، پبلک مقامات میں سگریٹ نوشی کے ذریعے دوسروں کو تکلیف دینا، بیچ راستے میں شامیانے لگا کر گھریلو تقریبات منعقد کرکے آنے جانے والوں کو پریشان کرنا، جلسوں اور جلوسوں کے لیے پوری پوری شاہراہیں بند کرکے ہزاروں مسافروں اور مجبوروں کو اذیت پہنچانا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار مواقع پر ہم اپنی بے حسی سے دوسروں کے لیے تکلیف اور ذہنی کوفت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ان باتوں کی پُرسش نہ ہوگی؟ یقینا ہوگی اور بہت سخت ہوگی۔
فقہ کا ایک اصول یہ ہےکہ چھوٹے گناہوں یعنی صغیرہ گناہوں پر اصرار اسے بڑا گناہ یعنی گناہِ کبیرہ بنادیتا ہے۔ اس لیے ہمیں چھوٹے گناہوں سے بہت ڈرنا چاہیے۔ بالکل اس طرح جیساکہ ہم چھوٹے چھوٹے مگر زہریلے کیڑے مکوڑوں سے ڈرتے ہیں۔
اجتماعی ماحول میں خداوند تعالیٰ کی جو نافرمانیاں اور احکاماتِ الٰہی سے دُوریاں اور فاصلے ہیں، درحقیقت وہی ہماری تکلیفوں اور اذیتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جب تک ہم خدا کی طرف نہیں پلٹیں گے، اس کے احکامات کی بجاآوری نہیں کریں گے، ہمارے دُکھ اور اذیتیں ہمارا پیچھا کرتی رہیں گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان عبادات میں اتنی کوتاہی اور کمی نہیں کرتے جتنا معاملات میں ہم بدنیت اور بدمعاملہ واقع ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عبادات کے علاوہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں ذمہ دارانہ رویہ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ مغرب کی اجتماعی زندگی میں نظر آنے والی امن کی فضا کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے ہاں عام طور سے باہم معاملات کے صاف ہیں۔ ایسی بے ایمانی اور بدکرداری جو ہمارے ہاں کئی صورتوں میں پائی جاتی ہے، اس کے آثار وہاں بہت کم ملتے ہیں۔ پس پتا چلا کہ انسان صرف عبادات کے ذریعے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ ہم معاملات میں راست روی نہ اختیار کریں۔
یہاں پر دو اہم موضوعات پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے: اوّل ’نفس‘ اور دوم ’گناہ‘۔ جب تک ان کے بارے میں ہمارا ذہن ہر الجھاوے سے پاک نہ ہو، ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ’نفس‘ کی بابت معرکہ آرا بحثوں کی علمی اور فکری سطح اتنی بلند ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں جان پاتے کہ نفس کیا ہے؟ مغرب نے اس کے لیے ’اَنا‘ یا Ego کی اصطلاح اختیار کی ہے، لیکن اس مقصد کی وضاحت کے لیے یہ لفظ درست نہیں۔ ’اَنا‘ یا ’اِیگو‘ میں وہ ساری خصوصیات نہیں آتیں، جو نفس میں موجود ہیں۔ اَنا یا اِیگو سے مراد انسان کی اپنی ’ذات‘ یا ’مَیں‘ (Self)ہے۔ اس میں وہ خواہشیں شامل نہیں ہیں، جو نفس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں اور جن کی تہذیب کرکے نفس کا ’تزکیہ‘ کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں دوسری چیز گناہ ہے۔ اس کا تعلق بھی نفس ہی سے ہے، مگر گناہ مرحلہ وار طریقے سے انجام پاتا ہے۔
جب بندہ ’نفس امارہ‘ پر بڑی حد تک قابو پالیتا ہے تو وہ ’نفس لوامہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ اس درجے پہ بندے میں بُرے بھلے اور نیکی و بدی کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب وہ مسلسل مشق اور ریاضت کے ذریعے بُرائی اور شر کو ترک کرنے کی ہمت پالیتا ہے، تو وہ ’نفس مطمئنہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ خدا اس سے راضی ہوجاتا ہے اور نفس بھی خدا سے اور خدائی فیصلوں پر راضی ہونا سیکھ لیتا ہے، اور اللہ کی رضا پالیتا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو نفس، ’قلب‘ ہی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ وہ کیفیت جسے خواہش یا ’آرزو‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے ’قلب ‘کی اصطلاح کے بہت وسیع معنی ہیں۔ خدا جب کوئی خیال کسی بندے پر القا کرتا ہے تو وہ قلب ہی پر کرتا ہے۔ لہٰذا، قلب ایک پاکیزہ حقیقت ہے۔ تاہم، اچھی اور بُری خواہشیں جو قلب میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، انھیں نفس کا نام دےدیا گیا ہے، اوراسی مناسبت سے اس کی خرابی اور درستی کے معاملات کا فہم اور شعور دیا گیا ہے۔
نفس میں جو کیفیات جنم لیتی ہیں، ان میں تکبر یا احساسِ برتری اور احساسِ ملکیت، حُب ِ مال، حُب ِ جاہ اور حُب ِ دُنیا، یہ وہ کیفیات ہیں، جنھیں ہم اصطلاحاً ’نفس امارہ‘ کا نام دیتے ہیں۔ گویا ’نفس امارہ‘ کے تزکیے کا دوسرا مطلب قلب کو ہرقسم کی بدی اور گندی خواہشوں سے پاک کرنا ہے۔ ’قلب‘ جب ان گندگیوں سے بلند اور پاکیزہ ہوجاتا ہے تو اس میں سکون و اطمینان اور امن و آشتی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ قلب اب ’قلب ِ مطمئنہ‘ ہوگیا۔
ع ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
خدا کی کتاب بتاتی ہے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ گناہوں کی کشش اسے مسحور کرکے اسے مائل بہ گناہ کردیتی ہے اور وہ ارتکابِ گناہ کرکے خدا کو ناراض کر دیتا ہے۔ توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان حالت ِ مجبوری میں گناہ کربیٹھے تو جلد حالت ِ غفلت سے نکل آئے اور خدا کے حضور توبہ کرے تاکہ وہ اس کے گناہوں کو اپنے لطف و کرم سے معاف کردے۔ آیندہ اس سے بچنے کا عہد کرے، یعنی گناہ کا داعیہ انسان کی فطرت میں رکھنے کے ساتھ اسی لیے توبہ کا دروازہ کھول دیا گیا، تاکہ انسان جلد پلٹ آئے اور غفلت میں پڑ کر گناہوں پہ گناہ کرتا نہ چلا جائے۔ خداوند تعالیٰ کو معاف کر دینا پسند ہے۔ اسے توبہ کے آنسو بہت عزیز ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ انسان کے گناہ پر ناراضی سے زیادہ اس امر پر غضب ناک ہوتا ہے کہ انسان گناہ کرکے اِترائے۔ اس کا یہ گھمنڈ، درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے، جاہلیت ہے اور دانستہ غفلت ہے، اور ناقابلِ معافی گناہ۔
’غفلت‘ کا مطلب ہے خدا کے احکامات اور شریعت کی تعلیمات کی موجودگی میں ان سے رُوگردانی کرکے خود کو گناہ میں مبتلا کرنا اور گناہ پہ گناہ کرتے چلے جانا، اور توبہ کی طرف مائل نہ ہونا، جب کہ گناہ، صرف توبہ اور ’تلافی‘ سے معاف ہوسکتے ہیں۔ اور پھر ’تلافی‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر گناہ مخلوقِ خدا کا حق مار کر کیا گیا ہے تو یہ محض اللہ سے توبہ کرنے سے معاف نہ ہوں گے،تاوقتیکہ اس کی عملاً تلافی نہ کردی جائے، یعنی حق دار کو اس کا حق نہ دے دیا جائے، اور کسی کو تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس سے اپنا گناہ معاف نہ کرا لیا جائے۔
گناہ کے امکان سے حقیقت بننے تک پانچ درجے ہیں اور وہ یہ ہیں: lترغیب ِ گناہ lتحریکِ گناہ lخواہشِ گناہ l امکانِ گناہ اور پھر عملاً گناہ۔
آج کی زندگی میں اگر چاروں طرف گناہ اور گناہ گار نظر آتے ہیں، تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہرطرف ترغیب ِ گناہ کے دروازے کھلے ہیں۔ دولت و امارت کی جا و بے جا نمایش انسان کو جائز و ناجائز طریقے سے حصولِ دولت کی ترغیب دیتی رہتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے جدید ادارے خصوصاً موبائل فون اور ان کی ایپلی کیشنز، مثلاً فیس بُک، وٹس ایپ، مسینجر وغیرہ گناہوں کی طرف انسان کو راغب کرتے رہتے ہیں۔ ان اداروں سے بڑھتی ہوئی دلچسپی اور رغبت عبادات اور تقویٰ کی زندگی سے دُور کرنے اور بالکل غافل کردینے کا باعث بنتے ہیں۔
سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جدید ثقافت میں ترغیب ِ گناہ بہ کثرت ہیں، جن میں گھِر کر انسان میں گناہ کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی تحریک خواہشِ گناہ بن جاتی ہے___ اور یہ خواہش جب تکمیل کی طرف قدم اُٹھاتی ہے تو امکانِ گناہ پیدا ہوجاتا ہے اور پھر گناہوں کا صدور ہوتا ہے۔ گناہ گار کی زندگی ایک دلدل میں پھنس جاتی ہے، جس سے وہ آسانی سے نہیں نکل پاتا، تاوقتیکہ خدا اس کی سچی توبہ کے نتیجے میں اسے گناہوں کی دلدل سے نکلنے کی توفیق نہ دے دے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے ارتقا پذیر ہو کر آج ایک منظم ومنافع بخش صنعت کا روپ دھارچکے ہیں۔ ذرائع ووسائل میں اضافے، جدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اپنے اثرات کی ہمہ گیری کے لحاظ سے قومی زندگی میں ان کا کردار جہاں قابل لحاظ اہمیت رکھتا ہے وہیں سنجیدہ غوروفکر کا طالب بھی ہے۔ یوں تو اطلاعاتی انقلاب (information explosion) اور عالم گیریت نے دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کے کردار واثرات کو بحث ومباحثے کا موضوع بنا دیا ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں جو اپنی راسخ العقیدگی اور مخصوص اقدار وروایات پر ایمان وایقان کے سبب دیگر عام معاشروں سے منفرد واقع ہوا ہے، ذرائع ابلاغ کے اثرات نہایت سنجیدہ اور فکر انگیز سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ان سوالات کا تعلق ذرائع ابلاغ کی آزادی سے بھی ہے اور ان کے تاجرانہ انداز فکر سے بھی‘ ایک بے سمت قوم کو نشان منزل دکھانے سے بھی ہے اور قوم کے منزل پر پہنچ کر گم کردہ منزل ہوجانے سے بھی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہمارا معاشرہ انتشار واضطراب کی لپیٹ میں ہے۔ اقدار کی شکست وریخت، اخلاقی تباہ حالی‘ سیاسی افراتفری اور مادہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہمارے مستقبل کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ اس عمومی معاشرتی صور ت حال کے عکاس بھی ہیں اور بڑی حد تک اس کے ذمہ دار بھی۔ معاشرے کی ابتری کی ذمہ داری ان پر عاید کرنے کے بارے میںیقینا اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی ۵۹ سالہ زندگی میں کم وبیش تیس سال عملًا فوجی حکمرانی کے رہے ہیں جن میں ذرائع ابلاغ سے آزادانہ کردار ادا کرنے کی توقع عبث ہے۔ لیکن پھر یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ نے دیگر ملکوں کے ذرائع ابلاغ یا آزادی سے قبل کے عظیم صحافیوں کی طرح اپنی آزادی کے لیے کوئی جنگ بھی لڑی؟ کوئی قربانی بھی دی؟یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج کے ذرائع ابلاغ کی آزادی بھی غیر جمہوری مزاج کے حامل ایک حکمراں کی کشادہ دلی کا مظہر ہے۔
آئیے! ماضی کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیںکہ اس ملک خداداد میں ریاست کے اس اہم ستون پر کیا گزری ہے‘کیونکہ گذشتہ واقعات کا مطالعہ ہی حال کے نتائج کو قابل فہم بناتا ہے۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی تاریخ پابندیوں سے عبارت رہی ہے۔ مختلف ادوار میں خاکی اور غیر خاکی حکمرانوں نے ذرائع ابلاغ بالخصوص صحافت کو پا بہ زنجیر کرنے کے لیے نہ صرف امتناعی قوانین نافذ کیے بلکہ پریس ایڈوائس اور سنسر شپ سے لے کر ترغیب وتحریص کے تمام ممکنہ حربے آزمائے ہیں تاکہ اظہار رائے کی آزادی اور حقائق کے انکشاف کے ’ضرر‘ سے محفوظ رہا جاسکے۔ یہ حقیقت افسوس ناک ہے کہ قائداعظمؒ کی زندگی ہی میں پریس ایڈوائس کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ پہلی پریس ایڈوائس قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے ایک حصے کے بارے میں جاری کی گئی کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے بیوروکریسی کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ قائداعظمؒ جو صحافت کی آزادی پر پختہ یقین رکھتے تھے، ان کی وفات کے چند ہی روز بعد پبلک سیفٹی آرڈننس نافذ کردیا گیا حالانکہ بہ حیثیت گورنرجنرل اس آرڈننس پر انھوں نے دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ان سیاہ قوانین کے خلاف تو میں ساری زندگی لڑتا رہا ہوں۔
۱۹۴۹ء میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ دستور ساز اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جو بعد کے دساتیر کا حصہ بنا اور جس کے تحت شہری آزادیوں بشمول آزادیِ تحریر و تقریر پر قدغن عاید کردی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت اخبارات اور ان کے ایڈیٹروں کے خلاف کارروائی عمل میں آتی رہی مثلاً: ڈھاکہ کے انگریزی روزنامے پاکستـان آبزرور کے ایڈیٹر عبدالسلام کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین پر تنقید کرنے کے الزام میں فروری ۱۹۵۲ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے زیادہ دل خراش واقعہ ۷مئی ۱۹۴۹ء کو پیش آیا تھاجب لاہور کے قدیم انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی کشمیر کی بابت شائع کردہ ایک خبرپر ۱۶ ایڈیٹروں نے ، جن میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور نواے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی بھی شامل تھے،ایک مشترکہ اداریے کے ذریعے اس اخبار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ خبر دہلی میں اخبار کے نامہ نگار اے این کمار نے ارسال کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ:’’جموں اور کشمیر کے تنازعے پر پاکستان اور بھارت میں مذاکرات جاری ہیں اور عنقریب دونوں ملکوں میں سمجھوتہ ہونے والا ہے جس کے مطابق جموں وکشمیر کو دونوں ملکوں میں تقسیم کردیاجائے گا‘‘۔ اخبار نے اس من گھڑت خبر پہ معذرت کرلی تھی اور خبر بھیجنے والے اپنے نامہ نگار کو برطرف بھی کردیا تھا لیکن اخبار کا جرم معاف نہیں کیا گیا اور چھے ماہ کے لیے اس کی اشاعت روک دی گئی ۔ نتیجے میں اس اخبار کوپھر سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔اس کی تعدادِ اشاعت اور کاروبار دونوں تباہ ہوگئے۔ کیا اس کی ذمہ داری ان ۱۶ ایڈیٹروں پر عاید نہیں ہوتی جنھوں نے ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کی اشاعت معطل کرنے پر حکومت کو اکسایا؟
۱۹۵۳ء میں پنجاب میں قادنیوں کے خلاف چلنے والی مہم کے دوران صحافت کو حکومت کی جانب سے ایک شرمناک طرز عمل سے واسطہ پڑا۔ پنجاب کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے متعدد اخبارات کو حکومت کا ہم نوا بنانے کے لیے تعلیم بالغان کے فنڈ میں سے رشوت دی۔ اخبارات کو کرپٹ کرنے کے لیے نقد رقم دینے کے علاوہ انھیں اشتہارات کی فراہمی اور روزانہ ایک خاص تعداد میں شمارے خریدنے کے وعدے بھی کیے گئے۔ اس اولین نام نہاد جمہوری دور میں سویرا ،نقوش اور ادب لطیف جیسے معیاری ادبی رسائل ‘چٹان اور ایشیا جیسے جرأت مند ہفت روزہ رسائل اور نوائے وقت جیسے بے باک اخبار پر پابند یاں لگائی گئیں۔ غرض ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک صرف پنجاب میں ۳۱ اخبارات کی اشاعت ممنوع قرار دی گئی۔
۱۹۵۸ء کاجنرل ایوب کا مارشل لا پاکستانی صحافت کے لیے تاریک ترین رات ثابت ہوا جس میں اخبارات ورسائل کو سیاہ قوانین کی بھاری بیڑیاں پہناکر ان کی مکمل زباں بندی کردی گئی۔ ایوب حکومت کا پہلا قدم میاں افتخارالدین کے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر غاصبانہ قبضہ تھا جس کے تحت پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار چھپتے تھے۔ فکرونظر کے اختلاف کے باوجود یہ غیرمتنازعہ طور پر نہایت معیاری اخبارات تھے۔ پاکستان ٹائمز کا تواجرا قائداعظم کی خواہش پر اوائل ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا۔ پروگریسیو پیپرزلمیٹڈ پر بیرون ملک (اشتراکی روس) سے امداد لینے کا الزام لگایا گیا‘ جسے کبھی کسی عدالت میں ثابت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ نیز میاں افتخارالدین کے اخبارات کی بابت یہ بھی کہا گیا کہ’’ان میں ایسا مواد شائع ہوتا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہوسکتا ہے‘‘ لیکن اس مواد کی نشان دہی کبھی نہیں کی گئی۔
اپریل ۱۹۶۴ء میں ’اخبارات کے معیار کو بلند کرنے کے لیے‘ فیلڈمارشل ایوب خاں کی حکومت کے زیراہتمام نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات کے علاوہ مارننگ نیوز، مشرق، دینک پاکستان (بنگالی)، اخبار خواتین‘ اسپورٹس ٹائمز اور روزنامہ انجام وغیرہ کے تمام ایڈیشنوں کو ضم کردیاگیا۔ ان انگریزی، اردو اور بنگالی اخبارات وجرائد کی تعداد ۱۲ تھی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ نظری طور پر ایک آزاد ادارہ تھا لیکن عملاً یہ ایوب خان اور بعد کے ادوار میں بھی حکومت کا بھونپو بنارہا۔ بقول ضمیرنیازی تین عشروں تک ’نیشنل پریس ٹرسٹ‘ کے اخبارات حکومت پر تنقید کرنے کا جرم کرنے والے افراد اور جماعتوں کی توہین‘ تذلیل اور کردارکشی کرتے رہے۔ این پی ٹی کی تشکیل کا اصل مقصد نجی ملکیت میںشائع ہونے والے اخبارات کی آزادی کو کچلنا اور ایک متوازی سرکاری پریس کا قیام عمل میں لانا تھا۔ اس سے تین سال قبل جون ۱۹۶۱ء میں حکومت ’عوام کے وسیع تر مفاد‘ میں آزاد خبررساںایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو سرکاری تحویل میں لے چکی تھی جو آج تک سرکار ہی کی منکوحہ ہے اور جس سے آج بھی حزب اختلاف کی خبریں مشکل ہی سے جاری ہوتی ہیں۔
این پی ٹی کے قیام سے چار سال قبل ۲۶ اپریل ۱۹۶۰ء کو ایوب حکومت نے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی ننگی تلوار صحافت کے سر پہ لٹکا دی۔ اس آرڈیننس کے تحت حکومت کو اخبارات یا کتابیں شائع کرنے والے چھاپہ خانے کے مالکان سے قابل اعتراض مواد شائع کرنے پر حکومت کو نئی ضمانت طلب کرنے کا اختیار مل گیا۔ قانون کے تحت اس میں ایسی تمام تحریریں شامل تھیں جنھیں ناشائستہ ، فحش، گھٹیا، توہین آمیز یا بلیک میلنگ یا افواہیں پھیلانے یا عوام میں اضطراب ‘ بے چینی یا مایوسی پھیلانے کے ارادے سے شائع کیا گیا ہو۔ اس قانون کے تحت کسی بھی بے ضرر خبر یا ادارتی نوٹ کے خلاف کارروائی ہوسکتی تھی۔ آرڈیننس کے نفاذ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کا مقصد ذمہ دارانہ اور صحت مند صحافت کی نشوونما ہے۔ ۱۹۶۳ء میں ترامیم کے ذریعے قانون کو مزید سخت بنادیا گیا۔ برعظیم میں صحافت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں اتنے سیاہ ترین قوانین نافذ نہیں ہوئے تھے جس کے نتیجے میں آزاد، جرأت مند اور اقداری صحافت کی توسیع وترقی بری طرح متاثر ہوئی‘ بہت سے باضمیر صحافیوں نے بددل ہو کر اس پیشے ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ آرڈی ننس تین عشروں تک اخبارات کو دبانے‘ کچلنے اور نئے اخبارات وجرائد کے اجرا کا راستہ روکنے کے لیے مختلف حکومتوں کا آلۂ کار بنا رہا۔ اس کے تحت صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایک آزاد اور ذمہ دار صحافت پروان نہ چڑھ سکی۔ سیاسی خبروں پر پابندی کے باعث قارئین کی دل چسپی و رغبت کے لیے جنس و جرم اور سنسنی خیزیت اخبارات کا لازمہ بن گئے اور خوشامد پسند تجارتی اخبارات کو مستحکم ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۸ء میں قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے اس آرڈی ننس کو منسوخ کردیا۔ ایوب دور میں محکمہ اطلاعات کے افسرانِ اطلاعات ہی عملاً اخبارات کے مدیربن گئے تھے جنھیں کسی بھی خبر کو رکوانے یا چھپوانے کا اختیار حاصل ہوگیا تھا۔ حکومت سے علاحدگی کے بعد جنرل ایوب نے اعتراف کیا کہ پریس پر پابندی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
۱۹۶۴ء میں ایوب حکومت کا ایک اہم قدم ٹیلی وژن نشریات کا آغاز تھا۔ ٹیلی وژن کی پالیسی کے لیے پانچ نکاتی ضابطہ وضع کیا گیا جس کے مطابق اس کے مقاصد میں تعلیم کا فروغ‘ معلومات عامہ کی فراہمی‘ صحت مند تفریح، قومی سوچ اور باہمی اتحاد کا فروغ اور حقیقت پسندانہ، منصفانہ اور آزاد خبروں کی پیش کش شامل تھی۔ لیکن اپنے قیام کے بعد سے یہ بالعموم تفریحی میڈیم بنارہا۔خبروں میں عملاً جو پالیسی وضع کی گئی‘ اس پر اس سے روشنی پڑتی ہے کہ لوگ آج بھی خبرنامہ کو ’صدرنامہ‘ کہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو‘ جو ایوب حکومت کے آخری ایام میں پریس ٹرسٹ توڑنے اور پریس اینڈ پبلی کیشنزآرڈی ننس منسوخ کرنے کی نوید دیتے رہے تھے اور جنھوں نے اقتدارسنبھالنے کے بعد سیاسی گھٹن کے خاتمے کے لیے آزاد صحافت کو فروغ دینے کا مژدہ سنایا تھا۔ ان کے مقتدر قلم سے جو اولین حکم نامہ جاری ہوا، وہ این پی ٹی کے اخبارات دی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری اور مارننگ نیوز کے ایڈیٹر ایس آر غوری کی فوری برطرفی تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے آزاد خبر رساں ایجنسی پی پی آئی کے سربراہ معظم علی کا بھی ناطقہ بند کردیا۔ بھٹو ان بلند پایہ صحافیوں پر اس لیے غضب ناک تھے کہ انھوں نے ان کے انداز سیاست کو قلم کی نوک پر رکھا تھا۔ بھٹو دور اخبارات ورسائل کی بندش اور صحافیوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر اسیر زنداں کرنے سے عبارت ہے۔ پنجاب پنچ، زندگی ، اُردو ڈائجسٹ ، جسارت کے علاوہ بڑی تعداد میں روزنامے‘ ہفت روزے اور ماہنامے بند کیے گئے اور ان میں سے بہت سوں پر تو دوسرا کوئی اخباریا جریدہ نکالنے پر بھی پابندی عاید کردی گئی۔صحافیوں کی ایک تعداد کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا۔ سرکاری اشتہارات اور نیوز پرنٹ کو بطور چارے کے بھی استعمال کیا گیا۔ ٹیلی وژن پر ایسے پروگرام شروع کیے گئے جن سے قائدعوام کو قائداعظم کا ہم پلّہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس دور حکومت کا اختصاص یہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو قومی اخلاق تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ٹی وی‘ ریڈیو‘ فلم اور رسائل کو عریانی وفحاشی پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ قوم کی توجہ سنجیدہ سیاسی مسائل سے ہٹائی جاسکے۔
جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں سہمی ہوئی زخم خوردہ صحافت کے ساتھ مصلحتاًمشفقانہ برتائو رکھااور جن اخبارات ورسائل کو بھٹو نے مصلوب کردیا تھا، انھیں دوبارہ زندہ ہونے کا حق دیا گیا۔ سنسرشپ سے بھی اخبارات کو آزادی دی۔ لیکن اقتدار پہ گرفت مضبوط ہوتے ہی ان کی عطا کردہ آزادی صحافت کی اصلیت بے نقاب ہوگئی۔ اخبارات پر بدترین سنسرشپ‘ صحافیوں کی گرفتاریاں اور سزائیں اور ڈیکلریشن کی منسوخی کے علاوہ صحافت کی تاریخ کا جو سیاہ ترین واقعہ پیش آیا‘ وہ کھلے عام تین صحافیوںکو کوڑے مارنے کا فیصلہ تھا۔ اس دور میں اخبارات کی کاپیاں سنسر کے لیے محکمہ اطلاعات کے دفاتر لے جائی جاتی تھیں جہاں ہر سطر ہر لفظ سنسر ہوتا تھا۔ افسرانِ اطلاعات جس خبر‘ مضمون اور اداریے کو چاہتے بغیر کوئی وجہ بتائے کاپی سے نکال دیتے۔ بعض اخبارات خبراکھڑنے کے بعد خالی جگہ پر قینچی کی تصویر بنا دیتے تھے۔ نئے حکم نامے میں صفحے پر خالی جگہ چھوڑنے پر بھی پابندی عاید کردی گئی۔ یہ صورت حال ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۹ء سے ۳۱دسمبر ۱۹۸۲ء تک رہی۔
ضیا دور میں ہتک عزت کا ایک عجیب وغریب قانون یہ بھی نافذ ہوا کہ کوئی بھی توہین آمیز مواد خواہ وہ سچائی پر مبنی اور عوامی مفاد ہی میں کیوں نہ ہو، شائع نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون جولائی ۱۹۸۶ء میں جونیجو حکومت نے واپس لیا۔ جنرل ضیا ملکی اور غیرملکی صحافیوں سے ذاتی دوستانہ مراسم استوار کرنے کے ماہر تھے۔ چنانچہ وہ دائیں بازو کے بااثر صحافیوں میںاپنے دوستوں کا وسیع حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان صحافیوں کو انھوں نے نوازنے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ۱۹۸۲ء میں سنسر اٹھانے کے بعد اخبارات کو تنقید واحتساب کی آزادی بڑی حد تک حاصل رہی۔ کوئی شبہہ نہیں کہ جنرل ضیا نے ذرائع ابلاغ کو جنس زدگی سے پاک کرنے اور انھیں مشرقی و اسلامی روایات سے ہم آہنگ کرنے کے اقدام بھی اٹھائے۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں صحافت کے خلاف تشدد کے رجحان کا آغاز ہوا۔یوں تو اخبارات کے خلاف دہشت گردی کا پہلا واقعہ ۲۴ جنوری ۱۹۶۹ء کو پیش آیا، جب ایوب حکومت سے اظہارِ نفرت کے لیے طالب علموں کے ایک مشتعل گرو ہ نے ڈھاکہ میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے دواخبار مارننگ نیوز اور دینک پاکستان کے دفاتر کو نذر آتش کردیا تھا۔ دوسرا واقعہ ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو رونما ہوا جب عوامی لیگ کے ترجمان اخبار دی پیپل ڈھاکہ کی عمارت کو ملٹری آپریشن کے دوران ڈھادیا گیا۔ پھر بھٹو دور حکومت میں دی ٹائمز راولپنڈی اور جسارت کراچی کے دفاتر پر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ حملے کرائے گئے۔
بعد کے عرصے میں بھی ملک کے مختلف حصوں میں اخبارات کے دفاتر پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے لیکن ۱۹۸۰ء کے عشرے میں صحافیوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کا رجحان ابھر کر سامنے آیا جس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جنوری ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۱ء تک اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ۲۵ صحافی بہیمانہ طریقے سے قتل کردیے گئے ‘ جب کہ ۲۰۰۵ء تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد دس ہے لیکن ان میں سے بیشتر صحافی افغانستان اور شمالی علاقہ جات میںمارے گئے۔ اخبارات کے دفاتر کو تباہ کرنا‘ پرنٹنگ پریس کو آگ لگا دینا‘ غنڈہ گردی کے ذریعے اخبارات کی ترسیل کو ناممکن بنا دینا تو اس عرصے میں ایک معمول بنا رہا۔ ان واقعات میں بیشتر لسانی اور بعض انتہا پسند مذہبی جماعتیں ملوث رہیں۔
نوائے وقت کراچی کے دفتر میں تودو مرتبہ بم کے دھماکے کے واقعات بھی پیش آئے، جس کے بعد اس کا دفتر مزار قائد کے نزدیک سے ڈیفنس سوسائٹی کے نسبتاً محفوظ علاقے میں منتقل ہوگیا۔ روزنامہ جنگ کو ایک دن تقسیم نہیں ہونے دیا گیا۔ ہفت روزہ تکبیرکا دفتر نذر آتش کیا گیا۔ یہاں تک ہوا کہ جو لسانی تنظیم ان واقعات کی ذمہ دار تھی ،اس سے مصالحت کے لیے کراچی کے اہم اخبارات کے مدیران اور مالکان جس میں روزنامہ جنگ کے میر خلیل الرحمن اور روزنامہ ڈان کے حمید ہارون شامل تھے‘ اس تنظیم کے قائد کے گھر پر دست بدستہ حاضر ہوئے اور ان کی ناراضی کو دُور کرنے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں ’جنگ ‘اخبار خصوصاً دبائو کا شکار رہا جسے روزانہ یہ ہدایت ملتی تھی کہ مذکورہ لسانی تنظیم کی خبر کس صفحے پر اور کتنے کالم میں شائع ہوگی اور اخبار اس ہدایت کی تعمیل کرنے پر مجبورتھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اخبارات اور صحافیوں کے خلاف دبائواورتشدد کے ان پے درپے واقعات میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی آج تک گرفتار کیا گیا اور نہ سزا دی گئی۔ اخبارات پر ناقابل برداشت دبائو کے نتیجے میں خبروں میں آدھا سچ چھپنے لگا، انھیں توڑا مروڑا اور چھپایا جانے لگا۔ یہاں تک ہوا کہ جس اخبار(روزنامہ ڈان) کے دفتر پر مشتعل کارکنوں کا جتھا چڑھ دوڑا، اُسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، دفتر کو نقصان پہنچایا‘ اگلے دن متاثرہ اخبار اس واقعے کے بارے میں خاموش رہا۔ سب سے زیادہ دبائو کا سامنا کراچی کے اخبارات کو کرنا پڑا۔ خدا کا شکر ہے کہ تشدد کی یہ روایت مستحکم نہ ہوسکی اور اخبارات اور صحافیوں کے خلاف لسانی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اشتعال انگیز جذبات میں اب ٹھیرائو آگیا ہے لیکن برقیاتی ذرائع ابلاغ پر دبائو اب بھی قائم ہے۔ پچھلے ہی دنوں جیو کے ایک پروگرام کے خلاف احتجاجا اس کا دفتر تباہ کیا جاچکا ہے۔ پروگرام کا موضوع جنسی مسائل تھا جن پر کھلی گفتگو اشتعال کا سبب بنی۔
جیسا کہ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ ملک میں صحافت کا ارتقا خاکی اور غیرخاکی حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور خواہشات کے زیراثر مرتّبہ پالیسی کے ماتحت ہوا ہے۔ چنانچہ پابندی کے زمانے میں اِکا دُکا مستثنیات سے قطع نظر‘ ہمارے اخبارات کسی اچھے بچے کی طرح حکمرانوں کے سامنے مودّب رہے ہیں۔ (ایوب حکومت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف بنگالی پریس نے اپنے جذبات کا اظہارمصلحت اندیش اور احتیاط سے کیا ‘ جب کہ مغربی پاکستان میں پریس نے نہ تو آئین کی منسوخی پر صدائے احتجاج بلند کی‘ نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر ہی کوئی ردعمل دکھایا۔ پریس نے تمام پابندیوں کو خاموشی سے قبول کرلیا حتیٰ کہ پریس سنسرشپ پر بھی اعتراض نہیں کیا۔)یہ الگ بات کہ جب پریس کو آزادی ملتی ہے تو وہ شتربے مہار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے (۱۹۷۱ئ-۱۹۶۹ئ)میں اخبارات صوبائی عصبیت ، طبقاتی کش مکش اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں پیش پیش رہے۔
بعد کے ادوار میں بھی ملک کے اساسی اقدارونظریات، قومی سالمیت اور اس کی بقا کے بارے میں ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والا مواد اخباری صفحات کے ذریعے ہی عام ہوا۔ بعض اخبارات نے قومی اغراض و مقاصد کو تجارتی مفادات کے تابع رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ چنانچہ سنسنی خیزیت ، جنس زدگی اور قوم کے سستے جذبات کو انگیخت کر کے معمولی سرمایے سے اخبار کا اجرا کرنے والے اصحاب آج اخباری گروپوں کے مالک بن چکے ہیں ۔اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس مملکت خداداد میں صحافت کی کوئی سمت متعین نہیں ہوسکی۔
برقیاتی ذرائع ابلاغ تو مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں رہے اور آج بھی ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن حکومت ہی کے کنٹرول میں ہیں۔ ان اداروں بالخصوص پی ٹی وی کو حکمرانوں نے اپنی ذات اور اپنی حکومت کے پروپیگنڈے اور تشہیر کے لیے جس بری طرح استعمال کیا ہے‘ اس کی چشم کشا تفصیل پی ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوزبرہان الدین حسن نے اپنی تازہ کتاب پس پردہ میں بیان کی ہے۔ گویا برقیاتی ذرائع ابلاغ کا قبلہ تو حکومت ہی رہی لیکن نام نہاد آزاد صحافت بھی آج تک کسی ضابطہ اخلاق سے محروم ہے۔ اخبارات کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے دوسرے ملکوں کی طرح پریس کونسل کا قیام ہنوز خواب ہے۔ آج بھی ‘ جب کہ ذرائع ابلاغ بڑی حد تک آزاد ہیں‘ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہمارے قومی اہداف ومقاصد غیر متعین ہیں۔ کسی حکمران نے غوروخوض اور بحث وتمحیص کے بعد قومی امنگوں اور آرزئوں کی روشنی میں ایک جامع میڈیا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ ایک مسلم ریاست میں ذرائع ابلاغ کا کردار کیا ہونا چاہیے اور اس کے خدوخال کیسے ہونے چاہییں۔ اس مسئلے پر سوچ بچار کی ضرورت سٹلائٹ نشریات اور کیبل ٹیلی وژن کی آمد کے بعد سے اور بڑھ گئی ہے۔
۱۹۹۰ء میں حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دی کہ وہ اپنے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن قائم کریں۔ جس کے نتیجے میں ایف ایم ریڈیو اور کیبل ٹی وی چینلوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا۔ (اب تک ۱۴۲ ایف ایم ریڈیو اور ۱۶ کیبل ٹی وی چینلوںکو لائسنس جاری کیے جاچکے ہیں ‘ جب کہ متعدد چینلوں کی نشریات بیرون ملک سے جاری ہیں۔) ان کی نگرانی اور قانون سازی کے لیے۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) کا ادارہ قائم کیا گیا۔اس ادارے نے لائسنس کے اجرا کی شرائط وضوابط میں ایک شرط یہ رکھی ہے کہ نشریات یا کیبل ٹیلی وژن چلانے والے شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ’’بے راہ روی پر اکسانے والے اور شرافت کے مسلّمہ اصولوں کے منافی مواد نشر کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا‘‘۔ اسی طرح اس کے ضابطہ اخلاق میں غیرملکی نشریات کے حوالے سے درج ہے کہ’’ پمرا کسی بھی غیرملکی نشریات کا متن ناقابل قبول ہونے پر اسے نشر کرنے پر پابندی کا حکم جاری کرے گی‘‘۔ متن کی نوعیت کی وضاحت میں ذوق سلیم، شرافت اور اخلاق کے منافی نشریات شامل ہیں۔
ان قواعد کی خلاف ورزی پر پمرا کو جواب دہی کی ضروری کارروائی کے بعد لائسنس کی منسوخی کا اختیار حاصل ہے۔لیکن کیا پمرا ان ضوابط وشرائط کی پابندی کیبل ٹیلی وژن چلانے والوں سے کرارہی ہے؟ کیا ’’بے راہ روی پر اکسانے والے اور شرافت کے مسلّمہ اصولوں کے منافی مواد‘‘ کی پیش کش مختلف ملکی اور غیرملکی چینلوں سے جاری نہیں ہیں؟ جنسی اختلاط کے مناظر‘ بوس وکنار‘ بچوں اورنوجوانوں میں غیراخلاقی اور غیر صحت مندتفریح کے رجحان کو پروان چڑھانے والے پروگرام مسلسل ٹیلی وژن اسکرین پر روشن نہیں ہیں؟ آخر پمرا نے ان قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر آج تک کتنے لائسنس منسوخ کیے ہیں؟ اور غیراخلاقی مواد کی بنیاد پرکتنی غیرملکی نشریات پر پابندی لگائی ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ ادارہ تا حال بہت موثر ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ مغربی اور بھارتی چینلوں کے ذریعے ہمارے معاشرے کو ثقافتی یلغار کا سامنا ہے۔ ہماری زبان، ہمارا مذہب، ہماری تہذیبی وثقافتی روایات سب خطرے سے دوچار ہیں۔ کیبل آپریٹر رات گئے عریاں اور فحش فلمیں چلادیتے ہیں۔ کئی چینلوں پر ایسے پروگرام دکھائے جارہے ہیں جو نئی نسل کے کردار و ذہن میںاخلاق باختگی کا بیج بو رہے ہیں۔ (مثلاً ایک چینل پرپروگرام ’مستی مستی‘ اس کی مثال ہے)۔پمرا ان کیبل آپریٹروں اور چینلوں کو کنٹرول کرنے سے عاجز ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان چینلوں پہ حالات حاضرہ کے معیاری اور معلومات افزا تجزیاتی پروگرام بھی پیش کیے جارہے ہیں جن میں اظہار خیال کی بہت آزادی نظر آتی ہے۔لیکن ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اطلاعات اور اطلاعات کے تجزیوں کی بھرمارسے عام آدمی کا ذہن مائوف ہورہا ہے۔ اس کے لیے یہ فیصلہ دشوار ہے کہ کس تجزیے کو صحیح سمجھے اور کسے غلط۔ اطلاعات اور اس کے پس منظری وپیش منظری مواد کی کثرت میں عام آدمی کی قوت تمیز اور قوت فیصلہ کا متاثر ہونا قابل فہم ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کی آزادی نے خود اس آزادی کی اہمیت و معنویت کے بارے میںبڑے سنگین اور توجہ طلب سوالات پیدا کردیے ہیں‘ مثلاً: پہلا سوال تو یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی معاشرے میں کون سے مثبت نتائج پیدا کر رہی ہے۔ کیا یہ آزادی کسی تبدیلی کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے‘ یا اس سے محض جذبات کا کتھارسس ہو رہا ہے۔
یہ مسئلہ اس تناظر میں اور اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے جب یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے ذرائع ابلاغ کی خبروں، تبصروں، تجزیوں اورتنقیدوں کو سنجیدہ توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے ذرائغ ابلاغ کی طرف سے بے گانگی اور بے حسی کا رویہ اپنا لیا ہے۔ ’’آزادیِ رائے کو بھونکنے دو اور اپنی پالیسی جاری رکھو‘‘ یہ ہے وہ اسٹرے ٹیجی جسے حکومت نے اختیار کر رکھا ہے۔ گذشتہ پانچ ساڑھے پانچ برسوں میں ذرائع ابلاغ نے حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی‘ لیکن حکومت نے ان کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ ناین الیون کے بعد اختیار کی جانے والی خارجہ پالیسی اس کی زندہ مثال ہے جسے حکومت نے ذرائع ابلاغ کی بے محابہ گرفت و احتساب کے باوجود آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ سرکاری معلومات تک رسائی کے قانون کی منظوری کے باوجودسرکاری اعدادوشمار، حقائق اور دستاویزات صحافیوں کی دست رس سے آج بھی دور ہیں۔ ایک امریکی‘ برطانوی یا گوری نسل کے صحافی کو سرکاری عُمَّال مارے احساس کمتری کے جو حقائق فراہم کردیتے ہیں، ان ہی معلومات کی فائلوں پر مقامی صحافیوں کے لیے ’سرکاری راز‘ کی چٹ لگا دی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خبروں اور بالخصوص تفتیشی خبروں کا معیار بلند اور اعتبار بحال کیسے ہوسکتا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کو آج گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ آبادی کے تناسب سے اخبارات کی اشاعت تشویش ناک حد تک کم ہے۔ تقریباً ۱۴ کروڑ آبادی کے ملک میں صرف ۲۵لاکھ اخبارات چھپتے ہیں۔ گویا ایک اخبار ۵۷ افراد کے لیے ‘ جب کہ جاپان میں صرف ایک اخباریورمی اوری شمبون کی اشاعت ایک کروڑ دو لاکھ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ برقیاتی ذرائع ابلاغ کی بے پناہ مقبولیت نے مطبوعہ صحافت کی اشاعت کو متاثر کیا ہے۔ یہ عالمی رجحان ہے ۔ امریکا میں ۱۹۹۰ء میں جن روزناموں کی اشاعت ۶کروڑ ۳۰لاکھ تھی، وہ اب گھٹ کر ۵ کروڑ ۵۲لاکھ رہ گئی ہے۔ برقیاتی ذرائع ابلاغ کی infotainment (انفارمیشن +انٹرٹینمنٹ )پالیسی مطبوعہ ذرائع ابلاغ پر قارئین کے انحصار، اعتبار اور دل چسپی کو نقصان پہنچانے کی باعث ہے۔ یوں بھی ہمارے ہاں اخبارات ناروا حد تک مہنگے ہیں‘ شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی سیاسی اور سماجی مسائل سے لاتعلق رہتا ہے۔ کاغذ مہنگا ہونے کی وجہ سے بڑے اخبارات اشاعت بڑھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ اخبارات بالخصوص اردواخبارات کا معیار محل نظر ہے۔ وہ انگریزی اخبارات کے مقابلے میں دانش وری، حقائق و واقعات کے گہرے تجزیے، عالمی واقعات کی بابت تفصیلی معلومات کی فراہمی، پس منظری مواد اور حوالہ جات سے تقریباًمحروم ہوتے ہیں۔ خبریں واقعات سے زیادہ بیانات کا احاطہ کرتی ہیں‘ اور یہ خبریں بھی صفحہ اوّل پر نہایت تشنہ طریقے سے شائع کی جاتی ہیں۔ یہ خبروں سے زیادہ خبروں کا اشاریہ (index) نظرآتی ہیں۔ چنانچہ قارئین میںسرخیاں پڑھ کر اسی پر اکتفا کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اخبارات کے صفحہ اول پر اکثر اوقات بڑے بڑے اشتہاروںنے خبروں کی جگہ گھیر رکھی ہوتی ہے۔ تجارتی منافعے کی ہوس میں قاری کی توقعات کا خون کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھاجاتا۔ اخبارات تفتیشی خبریں غالبا اس لیے شائع نہیں کرتے کہ یہ ذرا مہنگا سودا ہے۔ اخراجات بڑھنے کے علاوہ بدعنوانیوں کے انکشاف میںخطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ بعض اخبارات میں ایک نیا رجحان مسخ شدہ، کٹی پھٹی اور سربریدہ لاشوں کی رنگین تصاویر کی اشاعت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔مہذب ملکوں میں اخبارات ایسی تصویریں شائع نہیں کرتے۔ صحافیوں کے کردار اور ان کی ساکھ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ صحافتی اثرورسوخ کا ناجائز استعمال، لفافہ جرنلزم اور پلاٹ پرمٹ کی صحافت کا غیراخلاقی رویہ بتدریج فروغ پذیر ہے۔
انگریزی اخبارات جو بین الاقوامی امور، تعلیم، صحت، ماحولیات اور ادب وفنون لطیفہ کے بارے میں معلومات افزا مواد پیش کرتے ہیں، مزاجاً لبرل اور سیکولر پالیسی رکھتے ہیں۔ نفاذ شریعت کی مخالفت ، ’ملائوں‘ کا استہزا اور قرارداد مقاصد کی علانیہ خلاف ورزی غالبا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ملک کے طبقہ اشرافیہ کے ترجمان ہیں جو مذہب بیزار ہے۔
بیسویں صدی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں محکوم ملکوں نے حصول آزادی کے بعد‘ قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو اپنے اجتماعی مقاصد ومفادات کی تشہیروپاسبانی کے لیے پروان چڑھایا اور انھیں آزادی کے ساتھ ساتھ مناسب سہولتیں بھی بہم پہنچائیں‘ وہاں پاکستان کی تمام حکومتوں کی یہ شناخت قابل افسوس رہی ہے کہ انھوں نے اپنے محدود مفادات اور دل چسپی کی حد تک صحافت کو مختلف پابندیوں میں جکڑے رکھا۔ پھر اہل صحافت کو چھوٹی موٹی آزادی کے احساس کے طور پر قومی اخلاقیات سے کُھل کھیلنے کی اجازت دے دی جس کے نتائج پرانی نسل کی بے حسی اور بے عملی اور نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاق بیزاری کی صورت میں ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔
۱- حکومت مختلف اداروں کی سطح پہ بحث ومباحثے کے بعد ایک قومی میڈیا پالیسی مرتب کرے‘ تاکہ ذرائع ابلاغ کی ایک سمت اور جہت متعین ہوسکے۔ نیز ان کی ترجیحات سامنے آسکیں۔
۲- ذرائع ابلاغ کے لیے جس ضابطہ ٔ اخلاق کا ڈول ڈالا گیا تھا اور جو باہمی اختلاف و نزاع کا شکار ہو کر سردخانے کی نذر ہوگیا، اس پہ دوبارہ بات چیت شروع کی جائے اور اسے حتمی شکل دے کر نافذ کیا جائے۔
۳- اخبارات کے موادومعاملات کی نگرانی کے لیے پریس کونسل تشکیل دی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں پریس کونسل کے قیام کا تجربہ کامیاب ہوسکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتا۔
۴- مغربی اور بھارتی چینلوں کے ایسے پروگراموں پر پابندی عاید کی جائے جو مذہبی‘ ثقافتی اور قومی اعتبار سے ضرر رساں ہوں۔ بالخصوص غیراخلاقی اور ہیجان انگیز مناظر کو قطعی طور پر سنسر کیا جائے۔
۵- ڈاکٹروں کی طرح صحافیوں سے بھی پیشۂ صحافت میں داخلے سے پہلے دیانت ، امانت اور قومی اقداروروایات اور دو قومی نظریے کی پاس داری کا حلف لیاجائے۔ یہ حلف ملکی جامعات کے شعبہ ہاے ابلاغ عامہ کی تعلیمی زندگی کے اختتام پر مستقبل کے صحافیوں سے لیا جاسکتا ہے۔
۶- اخبارات کو پابند کیا جائے کہ وہ اشتہارات کوصحافتی مواد پر ترجیح دے کر قارئین کے حق کو غصب کرنے سے بازرہیں۔
۷- اخبارات میں ایک آدھ استثنا سے قطع نظر مالکان نے انتظامی کے ساتھ ساتھ ادارتی امور پر بھی تصرف حاصل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے ایڈیٹر کا ادارہ عملاً ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس سے صحافت میں پیشہ ورانہ انداز کار اور رویوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا اخبارات کے مالکان ایڈیٹرکو اس کے اختیارات تفویض کریں۔
۸- سرکاری معلومات تک رسائی کے قانون کو موثر بنانے کے لیے اخبارات کو اس قانون کے تحت حاصل سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے۔
۹- امریکا کے وفاقی تجارتی کمیشن (FTC)کے طرز پہ کمیشن یا محکمہ قائم کیا جائے جو مخربِ اخلاق اور مضر صحت اشیا کے اشتہارات پر کڑی نگرانی رکھے اور ایسے مشتہرین پر جرمانہ عاید کرے اور ان اشتہارات پر پابندی عاید کرے جو قومی اور اخلاقی زندگی کے لیے مضر ہوں۔
۱- ضمیرنیازی پری - ۱۹۴۷ئ‘ مسلم اینڈ پاکستان: آل ازناٹ لاسٹ ، مشمولہ دی سائوتھ ایشین سنچری ۱۹۹۹ئ-۱۹۰۰ئ‘ آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کراچی (۲۰۰۱ئ)
۲- ضمیرنیازی صحافت پابند سلاسل ،پاکستان اسٹڈی سنٹر، یونی ورسٹی آف کراچی (۲۰۰۵ئ)
۳- پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی اور فروغ ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (۲۰۰۳ئ)
۴- طاہرمسعود (مرتب) صحافت اور تشدد، کراچی یونی ورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن (۱۹۹۰ئ)
۵- برہان الدین حسن پس پردہ جنگ پبلشرز، لاہور (۲۰۰۵ئ)
۶- کیبل ٹیلی وژن ، مستقبل کا منظرنامہ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (۲۰۰۳ئ)
۷- ذرائع ابلاغ عامہ‘ ایک جائزہ (مرتّبہ: عصمت آرا) شعبہ ابلاغ عامہ، جناح یونی ورسٹی براے خواتین‘ کراچی (۲۰۰۴ئ)