اجتماعی ماحول میں خداوند تعالیٰ کی جو نافرمانیاں اور احکاماتِ الٰہی سے دُوریاں اور فاصلے ہیں، درحقیقت وہی ہماری تکلیفوں اور اذیتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جب تک ہم خدا کی طرف نہیں پلٹیں گے، اس کے احکامات کی بجاآوری نہیں کریں گے، ہمارے دُکھ اور اذیتیں ہمارا پیچھا کرتی رہیں گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان عبادات میں اتنی کوتاہی اور کمی نہیں کرتے جتنا معاملات میں ہم بدنیت اور بدمعاملہ واقع ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عبادات کے علاوہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں ذمہ دارانہ رویہ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ مغرب کی اجتماعی زندگی میں نظر آنے والی امن کی فضا کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے ہاں عام طور سے باہم معاملات کے صاف ہیں۔ ایسی بے ایمانی اور بدکرداری جو ہمارے ہاں کئی صورتوں میں پائی جاتی ہے، اس کے آثار وہاں بہت کم ملتے ہیں۔ پس پتا چلا کہ انسان صرف عبادات کے ذریعے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ ہم معاملات میں راست روی نہ اختیار کریں۔
یہاں پر دو اہم موضوعات پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے: اوّل ’نفس‘ اور دوم ’گناہ‘۔ جب تک ان کے بارے میں ہمارا ذہن ہر الجھاوے سے پاک نہ ہو، ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ’نفس‘ کی بابت معرکہ آرا بحثوں کی علمی اور فکری سطح اتنی بلند ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں جان پاتے کہ نفس کیا ہے؟ مغرب نے اس کے لیے ’اَنا‘ یا Ego کی اصطلاح اختیار کی ہے، لیکن اس مقصد کی وضاحت کے لیے یہ لفظ درست نہیں۔ ’اَنا‘ یا ’اِیگو‘ میں وہ ساری خصوصیات نہیں آتیں، جو نفس میں موجود ہیں۔ اَنا یا اِیگو سے مراد انسان کی اپنی ’ذات‘ یا ’مَیں‘ (Self)ہے۔ اس میں وہ خواہشیں شامل نہیں ہیں، جو نفس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں اور جن کی تہذیب کرکے نفس کا ’تزکیہ‘ کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں دوسری چیز گناہ ہے۔ اس کا تعلق بھی نفس ہی سے ہے، مگر گناہ مرحلہ وار طریقے سے انجام پاتا ہے۔
جب بندہ ’نفس امارہ‘ پر بڑی حد تک قابو پالیتا ہے تو وہ ’نفس لوامہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ اس درجے پہ بندے میں بُرے بھلے اور نیکی و بدی کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب وہ مسلسل مشق اور ریاضت کے ذریعے بُرائی اور شر کو ترک کرنے کی ہمت پالیتا ہے، تو وہ ’نفس مطمئنہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ خدا اس سے راضی ہوجاتا ہے اور نفس بھی خدا سے اور خدائی فیصلوں پر راضی ہونا سیکھ لیتا ہے، اور اللہ کی رضا پالیتا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو نفس، ’قلب‘ ہی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ وہ کیفیت جسے خواہش یا ’آرزو‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے ’قلب ‘کی اصطلاح کے بہت وسیع معنی ہیں۔ خدا جب کوئی خیال کسی بندے پر القا کرتا ہے تو وہ قلب ہی پر کرتا ہے۔ لہٰذا، قلب ایک پاکیزہ حقیقت ہے۔ تاہم، اچھی اور بُری خواہشیں جو قلب میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، انھیں نفس کا نام دےدیا گیا ہے، اوراسی مناسبت سے اس کی خرابی اور درستی کے معاملات کا فہم اور شعور دیا گیا ہے۔
نفس میں جو کیفیات جنم لیتی ہیں، ان میں تکبر یا احساسِ برتری اور احساسِ ملکیت، حُب ِ مال، حُب ِ جاہ اور حُب ِ دُنیا، یہ وہ کیفیات ہیں، جنھیں ہم اصطلاحاً ’نفس امارہ‘ کا نام دیتے ہیں۔ گویا ’نفس امارہ‘ کے تزکیے کا دوسرا مطلب قلب کو ہرقسم کی بدی اور گندی خواہشوں سے پاک کرنا ہے۔ ’قلب‘ جب ان گندگیوں سے بلند اور پاکیزہ ہوجاتا ہے تو اس میں سکون و اطمینان اور امن و آشتی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ قلب اب ’قلب ِ مطمئنہ‘ ہوگیا۔
ع ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
خدا کی کتاب بتاتی ہے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ گناہوں کی کشش اسے مسحور کرکے اسے مائل بہ گناہ کردیتی ہے اور وہ ارتکابِ گناہ کرکے خدا کو ناراض کر دیتا ہے۔ توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان حالت ِ مجبوری میں گناہ کربیٹھے تو جلد حالت ِ غفلت سے نکل آئے اور خدا کے حضور توبہ کرے تاکہ وہ اس کے گناہوں کو اپنے لطف و کرم سے معاف کردے۔ آیندہ اس سے بچنے کا عہد کرے، یعنی گناہ کا داعیہ انسان کی فطرت میں رکھنے کے ساتھ اسی لیے توبہ کا دروازہ کھول دیا گیا، تاکہ انسان جلد پلٹ آئے اور غفلت میں پڑ کر گناہوں پہ گناہ کرتا نہ چلا جائے۔ خداوند تعالیٰ کو معاف کر دینا پسند ہے۔ اسے توبہ کے آنسو بہت عزیز ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ انسان کے گناہ پر ناراضی سے زیادہ اس امر پر غضب ناک ہوتا ہے کہ انسان گناہ کرکے اِترائے۔ اس کا یہ گھمنڈ، درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے، جاہلیت ہے اور دانستہ غفلت ہے، اور ناقابلِ معافی گناہ۔
’غفلت‘ کا مطلب ہے خدا کے احکامات اور شریعت کی تعلیمات کی موجودگی میں ان سے رُوگردانی کرکے خود کو گناہ میں مبتلا کرنا اور گناہ پہ گناہ کرتے چلے جانا، اور توبہ کی طرف مائل نہ ہونا، جب کہ گناہ، صرف توبہ اور ’تلافی‘ سے معاف ہوسکتے ہیں۔ اور پھر ’تلافی‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر گناہ مخلوقِ خدا کا حق مار کر کیا گیا ہے تو یہ محض اللہ سے توبہ کرنے سے معاف نہ ہوں گے،تاوقتیکہ اس کی عملاً تلافی نہ کردی جائے، یعنی حق دار کو اس کا حق نہ دے دیا جائے، اور کسی کو تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس سے اپنا گناہ معاف نہ کرا لیا جائے۔
گناہ کے امکان سے حقیقت بننے تک پانچ درجے ہیں اور وہ یہ ہیں: lترغیب ِ گناہ lتحریکِ گناہ lخواہشِ گناہ l امکانِ گناہ اور پھر عملاً گناہ۔
آج کی زندگی میں اگر چاروں طرف گناہ اور گناہ گار نظر آتے ہیں، تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہرطرف ترغیب ِ گناہ کے دروازے کھلے ہیں۔ دولت و امارت کی جا و بے جا نمایش انسان کو جائز و ناجائز طریقے سے حصولِ دولت کی ترغیب دیتی رہتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے جدید ادارے خصوصاً موبائل فون اور ان کی ایپلی کیشنز، مثلاً فیس بُک، وٹس ایپ، مسینجر وغیرہ گناہوں کی طرف انسان کو راغب کرتے رہتے ہیں۔ ان اداروں سے بڑھتی ہوئی دلچسپی اور رغبت عبادات اور تقویٰ کی زندگی سے دُور کرنے اور بالکل غافل کردینے کا باعث بنتے ہیں۔
سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جدید ثقافت میں ترغیب ِ گناہ بہ کثرت ہیں، جن میں گھِر کر انسان میں گناہ کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی تحریک خواہشِ گناہ بن جاتی ہے___ اور یہ خواہش جب تکمیل کی طرف قدم اُٹھاتی ہے تو امکانِ گناہ پیدا ہوجاتا ہے اور پھر گناہوں کا صدور ہوتا ہے۔ گناہ گار کی زندگی ایک دلدل میں پھنس جاتی ہے، جس سے وہ آسانی سے نہیں نکل پاتا، تاوقتیکہ خدا اس کی سچی توبہ کے نتیجے میں اسے گناہوں کی دلدل سے نکلنے کی توفیق نہ دے دے۔