مولانا سیّد جلال الدین انصر عمری، اللہ کی عطا کردہ زندگی گزار کر، خالق و مالک کے حکم پر ۲۶؍اگست ۲۰۲۲ء کو، ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ وہ صرف ہندستان کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ تھے۔ان کا انتقال ہم سب کے لیے ایک گہرا زخم اور بڑا سانحہ ہے۔ موت برحق ہے، سب کو جانا ہے۔ یہاں پر کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا۔ لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی دوسروں کے لیے روشنی کا منبع ہوتی ہے۔ ایسے قیمتی افراد کے جانے سے ایک ایسا بڑاخلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بھرنے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ مولانا جلال الدین عمری صاحب کا شمار انھی قیمتی افراد میں سے ہے___ اِنَّـا لِلہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
مجھے ان سے بالمشافہہ ملنے کا موقع تو دوبار ہی ملا، لیکن ان سے بنیادی تعارف ان کی کتابوں اور ان کے مضامین سے تھا، جن سے مَیں بے حد متاثر تھا۔ فکر کی گہرائی، مطالعے کی وسعت، زبان و بیان کا حُسن، دلیل کی قوت، سبھی خصوصیات ان کی تحریر کا حصہ تھیں۔ ہزاروں افراد نے مجھ سمیت ان کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ اس طرح وہ میرے محسنوں میں شامل ہیں۔
مولانا جب انگلستان آئے تو کمالِ عنایت سے اسلامک فائونڈیشن میں بھی تشریف لائے۔ یہاں ان کے ساتھ کئی گھنٹے ملاقات رہی۔ دینی، تحریکی، قومی اور عالمی اُمور پر بہت کھل کر بات چیت ہوئی۔ امرواقعہ ہے کہ ان کے پُراعتماد لہجے نے ہندستان کے مسلمانوں کے بارے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں عزم و اُمید کے چراغ روشن کیے۔ پھر جب پاکستان تشریف لائے تو اسلام آباد میں ہم نے ان کے اعزاز میں محفل منعقد کی، جہاں انھوں نے بڑی ایمان افروز تقریر فرمائی۔
مولانا عمری صاحب سے اپنے ربط و تعلق کے زمانے پر نظر دوڑائوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ماہ نامہ زندگی ، رام پور پھر زندگی نو، نئی دہلی اور اس کے ساتھ تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ میں اُن کے فکرانگیز مضامین ہمیشہ توجہ کھینچ لیتے تھے، اور قلب و نظر کو علم سے منور کرتے تھے۔اُن کی کتب خاص طور پر عورت اسلامی معاشرے میں، معروف و منکر، اسلام میں خدمت خلق کا تصور، مزدوروں کے حقوق ، غیرمسلموں سےتعلقات اور ان کے حقوق بہت عام ہوئیں۔ بلاشبہہ اصولِ دین، عقیدے، قرآنی تجزیات، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام کی جامع تعلیمات، تحریکی اُمور اور عہدحاضر کی زندگی کے پیدا شدہ مسائل پر انھوں نے اجتہادی بصیرت کے ساتھ کلام کیا۔ اگرچہ ان کا میدان علمِ معاشیات نہیں تھا، مگر اسلامی تعلیمات کے اطلاقی معاشی پہلو پر انھوں نے متعدد تحریروں کے ذریعے انسان کے معاشی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے رہنمائی دی، خصوصیت سے مزدوروں کے مسائل۔ سیاسی و تہذیبی موضوعات، دعوتِ دین کے عملی اور اطلاقی حوالے ، کثیر مذہبی معاشرت میں زندگی کے چیلنج، غرض کون سا موضوع ہے جس پر انھوں نے قلم نہیں اُٹھایا، اور جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ کمال یہ کہ وہ جو بات کرتے، دلیل سے کرتے تھے اور بڑے شگفتہ انداز میں۔
مولانا عمری صاحب جہاں قرآن کے مفاہیم سے گہرا ربط رکھتے تھے، وہیںوہ سیرتِ پاکؐ سے اُمڈتی روشنی سے بھرپور فیض پاتے تھے۔ حدیث نبویؐ سے متعلقہ اُمور میں احتیاط غالب تھی، تو دوسری طرف فقہی بصیرت ایمان افروز تھی۔ ایک طرف اسلامی فکری اور تہذیبی روایت سے وابستگی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی تو دوسری جانب اس فکر اور تفکر کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی خداداد صلاحیت اور گہرا ذوق و شوق بھی الحمدللہ فراواں تھا۔ انھوں نے نئے موضوعات پر لکھا اور اپنے رفقا سے لکھوایا بھی۔ وہ جن موضوعات پر لکھ رہے تھے، مگر مباحث ادھورے رہ گئے، انھیں مکمل کرنا نوجوان فاضلین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں قائدانہ ، تبلیغی، دعوتی اور مکالماتی صلاحیتوں سے بھی فیاضی سے نوازا تھا، جنھیں انھوں نے بڑی محنت سے استعمال کیا۔جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری بہ حُسن و خوبی انجام دی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میںرکھے اور ان کے صدقاتِ جاریہ کا فیض مدتوں جاری و ساری رکھے، آمین!